حرمت قلم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
حرمت قلم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 18 جنوری، 2018

ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی واپسی

ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی واپسی
جیسا کہ ہم سب کو علم ہے ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999کو جمہوریت پر حملہ کیا ،نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کا کنٹرول سنبھالا اور 18اگست 2008 تک آئین کی خلاف ورزیاں کرتے رہے۔یہاں ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے کچھ سوالات بھی پوچھنا ضروری ہیں جن کے وہ مرضی کے ہی جواب دیں گے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو آئین سے کھلواڑ کی اجازت کس نے دی تھی؟کس قانون کے تحت عوام کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا؟کیا آئین میں لکھا ہے حکومت ڈیلیور نہ کرسکے تو آرمی چیف مارشل لالگا کر منتخب وزیراعظم کو جیل بھیج دے؟ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد امریکی جنگ میں کیوں شامل ہوئے؟ڈاکٹر عافیہ سمیت دیگر پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیوں کیا؟اقتدار کو طول دینے کیلئے خود ساختہ ریفرنڈم کرانے کی اجازت کس نے دی؟بلوچستان میں آپریشن کر کے اکبر بگٹی کو کیوں مارا گیا؟قومی ہیرو ڈاکٹر قدیر کو کیوں نظر بند کیا گیا؟اسرائیل کیساتھ روابط کی کیا حقیقت ہے؟ڈکٹیٹر پرویز مشرف کب آرہے ہیں اور ان کے کیا عزائم ہیںاس پر کالم کے آخر میں لکھوں گا ،پہلے ملکی سیاست کو سمجھنا ہوگا کہ آیا ڈکٹیٹر کی واپسی ہوگی بھی یا نہیں؟ملکی سیاست نہ صرف عجیب و غریب ہے بلکہ دلچسپ بھی ہے ،کب کیا ہو جائے کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ملکی سیاست میں جمہوری حکمران ججوں اور فوجیوں کو دشمن سے کم نہیں سمجھتے جبکہ فوجی اور جج جمہوری حکمرانوں کو نہ صرف چور،ڈاکو،لٹیرے سمجھتے ہیں بلکہ ملزموں،مجرموں جیسا سلوک بھی کرتے ہیں۔سیاستدان،فوج اور ججز اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک بھی ہیں اور غلط بھی،تاریخ میں زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں، ڈکٹیٹر مشرف سمیت دیگر ڈکٹیٹروں کو عدالتوں نے خوش آمدید کہا جبکہ انہی عدالتوں نے جمہوری وزرائے اعظم کو گھر بھیجا تو کبھی پھانسی پر چڑھایا۔سیاستدان بھی آپس میں ایسے ہی لڑتے ہیں جیسے سکول کے بچے ہوں،سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی پر نواز شریف بہت خوش تھے اور ممکن ہے اکیلے میں بھنگڑے بھی ڈالے ہوں مگر جب سے خود نااہل ہوئے ہیں ایک ہی ’’ورد‘‘کر رہے ہیں۔اقتدار میں رہنے والی کوئی بھی جماعت عوام کے اعتماد پر پورا نہیں اتر سکی چاہے وہ ن لیگ ہو،پی ٹی آئی،پی پی،جے یو آئی،ایم کیو ایم،ق لیگ،جماعت اسلامی ۔سب نے اپنے بنک بیلنس میں ہی اضافہ کیا اور عوام کو کچھ نہیں دیا۔فوج کو اقتدار دلانے کا بھی تجربہ کئی بار کیا جا چکا ہےجو بری طرح ناکامی سے دوچار ہوا۔خیر ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی واپسی پر ہی واپس آجانا چاہئے ،احتجاج،جلسے،جلوسوں،دھرنوں کا سیزن شروع ہو چکاہے ۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف تو باہر بیٹھے اپنے اوپر قائم مقدمات ختم کرانے کے بعد ہی واپس آنا چاہتے ہیں مگر ملک میں ایسے حالات پیدا کئے جا ئینگے کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی مارچ،اپریل میں واپسی ممکن ہو سکے اور اس میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا کردار نمایاں ہوگا، پاکستان عوامی تحریک کے جاری دھرنے کے بہت سے مقاصد ہونگے مگر ایک مقصد ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی واپسی بھی ہے،جس کا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو بھی علم ہونا چاہئے،ڈاکٹر طاہر القادری فی الحال صرف اور صرف وزیراعلیٰ اور وزیر قانون کا استعفیٰ چاہتے ہیں اور رانا ثناء اللہ کسی بھی وقت استعفیٰ دے سکتے ہیں وہ بلکل تیار بیٹھے ہیں کہ شہباز شریف انہیں حکم دیں اور وہ وزارت سے مستعفی ہو جائیں کیونکہ رانا ثناء اللہ اس وقت بری طرح پھنس چکے ہیں ۔چاہے ختم نبوت ﷺ کا معاملہ ہو ،ماڈل ٹائون کا یا سیاسی ان کی جان صرف اور صرف مستعفی ہونے کے بعد ہی چھوٹ سکتی ہے اور وہ یہ قربانی دینے کیلئے تیار ہیں ،عین ممکن ہے فروری میں وہ وزیر نہ ہوں جبکہ شہباز شریف مستعفی نہیں ہونگے۔ملک میں انارکی،انتشار پھیلنے کے بعد ہی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی واپسی میں حائل رکاوٹیں دور ہونگی اور واپس آ کر وہ ایم کیو ایم جماعت کی حمایت حاصل کرینگے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے کئی رہنما ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو جوائن کرینگے مگر الیکشن میںانہیں ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑیگاکیونکہ وہ غیر جمہوری و غیر سیاسی ہیں۔فروری کے وسط میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف میڈیا کو انٹرویوز بھی دینا شروع کر دیں گے اور حالات کا جائزہ لیتے رہیں گے تاکہ جلد از جلد واپسی ممکن ہو جائے،ممکن ہے سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بھی ان کے ساتھ آئیں اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی پارٹی میں ہی شمولیت اختیار کرلیں۔ڈاکٹر طاہرالقادری نہ صرف جلسے،جلوس کرینگے بلکہ عام شہریوں کی جان سے کھیلنے کی بھی پرواہ نہیں کریں گے،جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کئے جائیں گے کہ ایک اور سانحہ ماڈل ٹائون ہو جائے کیونکہ مولانا صاحب نے اس بار کچھ نہ حاصل کیا تو پھر وہ کبھی کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے،وقت کم اور مقابلہ سخت ہے،پیپلز پارٹی اتحاد سے علیحدگی بھی اختیار کر سکتی ہے جبکہ پی ٹی آئی بھی الیکشن کو قریب دیکھتے ہوئے راستہ تبدیل کر سکتی ہے ۔کل کیا ہو کس نے جانا مگر ملکی منظر نامہ اس وقت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے ۔ڈاکٹر طاہرالقادری کو رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ مل جائیگا،سینٹ الیکشن کو سبوتاژ نہیں کیا جا سکے گا بروقت ہو جائینگے،صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل نہیں کی جائینگی،غیر جمہوری طاقتیں جوڑ توڑ کرینگی مگر خاطرخواہ نتائج نہیں مل پائینگے اور سب سے بڑی خبر یہی ہوگی کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی مارچ تک واپسی ہوجائیگی۔

ہفتہ، 6 جنوری، 2018

2018 مارشل لا کا سال ؟

2018 ........مارشل لا کا سال ؟
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کو اسمبلیاں مدت پوری کرتی نظر نہیں آرہیں جبکہ بلوچستان میں بھی سیاسی حالات خراب دکھائی دے رہے ہیں ،نواز شریف بھی کئی راز دل میں رکھے ہوئے ہیں۔ن لیگ والے چاہتے ہیں کسی طرح بھی سینٹ الیکشن ہو جائیں تاکہ سینٹ میں ان کی اکثریت ہو جبکہ مخالفین کی خواہش ہے مارچ سے قبل حکومت کا خاتمہ ہو جائےچاہے کوئی غیر جمہوری طریقہ ہی کیوں نہ اختیار کیا جائے۔پیارے پاکستان کی سیاست بھی عجیب و غریب ہے کل کیا ہو جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا،یہاں تو وزیراعظم قتل ہوئے،پھانسی پر چڑھے،جلا وطن ،برطرف کئے گئے،پیراشوٹر حکمران بھی مسلط کئے گئے،بارہ میں سے پانچ صدور فوجی تھے ۔خیر اب آگے بڑھنا ہوگا،گزرے کل کو بھولنا ہوگااور آنے والا کل روشن بنانا ہوگا۔جمہوری و غیر جمہوری طاقتیں سات دہائیوں تک ملک کو نقصان پہنچاتی رہیں اب انہیں ٹھیک کرنے میں سات نہیں تو تین دہائیاں ضرور درکار ہیں،ستر سالہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ زرداری حکومت نے مدت پوری کی اور اب نواز شریف کی حکومت کے بھی پانچ ماہ رہ گئے ہیں مگر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی گئی۔ایسا نہیں کہ آصف زرداری کے دور حکومت میں یہ سب نہیں ہوتا تھا تب بھی سابق چیف جسٹس افتخار چودھری جنہوں نے بے نامی سی سیاسی پارٹی بھی بنائی ہوئی ہے روز سوموٹو ایکشن لیتےتھے جس سے حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوتی تھیں یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم نہ ماننے پر کرسی سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گیاتھا ۔یہ تو پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ عدالتوں اور ایک مخصوص نیوز چینل نے انہیں کام کرنے نہیں دیا جبکہ دوسری طرف حکومت نے بہت سی غلطیاں بھی کیں۔تب ملکی اداروں میں خلاف قانون تقرریاں بھی ہوئیں اور مختلف اداروں میں کرپشن زبان زد عام تھی۔عجب کرپشن کی غضب کہانیاں پاکستانی روز نیوز چینلز پر دیکھتے تھے ۔ سٹیل ملز ،رینٹل پاور کیس، حج کرپشن کیس ،این آئی سی ایل سکینڈل ،ایفی ڈرین سکینڈل اور ریلوے میں کرپشن کے کیسز پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سر فہرست رہے ۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے چار سالہ دور حکومت میںپچاسی سو ارب روپے کی کرپشن ہوئی تھی ۔ ایسے میں اگر عام آدمی کی رائے لی جائے کہ عدالتوں کو ملکی تباہی اور لوٹ مار پر نوٹس لینا چاہئے تھا یا ڈھیل دے دینی چاہئے تھی تو جواب یہی ملے گا کہ نوٹس ہی لینا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے کچھ کیسز منطقی انجام تک نہ پہنچ سکے۔زرداری کے دور حکومت کے مقابلے میں موجودہ حکومت نے عوام کی فلاح کیلئے کچھ کام ضرور کئے ہیں اور کرپشن کے بڑے سکینڈل بھی سامنے نہیں آئے مگراس کے باوجود عوام کے حالات جوں کے توں ہیں۔مہنگائی،بیروزگاری عروج پر ہے،صحت،تعلیم پر بھی توجہ نہیں دی گئی،تھانوں کی بھی حالت نہ بدل سکی،مگر اچھی بات یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کا سفر جاری ہے ۔دس سالوں سے ملک میں جمہوریت چلی آ رہی ہے سیاستدان غلطیاں بھی کر رہے ہیں ،کچھ سیاسی لوگ غیر سیاسی اور غیر جمہوری لوگوں کو ’’دعوت گناہ‘‘دیتے رہتے ہیں جو جمہوریت اور ملک و قوم کیلئے نیک شگون نہیں،جمہوریت چلتی رہی تو ملکی حالات ضرور بہتری کی طرف جائینگے مگر جب سپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کو ہی ’’خفیہ ہاتھ‘‘نظر آنے لگیں گے تو عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیگا کہ سیاستدان ناکام ہوچکے ہیں، سیاستدان ملک چلانے کے قابل ہی نہیں۔ بلوچستان میں بھی جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس کے اثرات ملکی سیاست پر بھی پڑیں گے ۔خدانخواستہ بلوچستان میں سیاسی بحران کی صورت میں وزیراعلیٰ کو گھر جانا پڑ گیا تو دیگر اسمبلیوں میں بھی ایسی صورتحال پیدا کی جا سکتی ہے اور ملک میں پھر سے مارشل لا کیلئے راہ ہموار ہونے لگے گی۔سیاستدانوں کو چاہئے کہ آپس میں کسی بات پر اتفاق کریں نہ کریں مگر جمہوریت کیخلاف جب بھی کوئی اقدام اٹھتا نظر آئے تو متحد ہو جائیں اور غیر جمہوری طاقتوں کو ’’مورچوں‘‘میں جانے پر مجبور کر دیں۔زیادہ نہیں صرف دو سے تین مرتبہ مارشل لا کا راستہ روک لیا گیا تو پھر ملک میں کبھی مارشل لا لگ ہی نہیں سکے گا۔ترکی میں بھی سال دو پہلے غیر جمہوری قوتوں نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی جسے عوام اور سیاستدانوں نے متحد ہو کر ناکام بنادیا اور کڑا احتساب شروع کر دیا گیا اب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کبھی مارشل لا بھی لگ سکتا ہے۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں ہی سب کی بھلائی ہے،پرویزمشرف کے مارشل لا کے بعد ملک میں زرداری کی حکومت آئی ۔پیپلز پارٹی نے اپنی مدت پوری کی ،عوام نے الیکشن میں حساب کتاب پورا کر لیا اور پیپلز پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کر دیا،نواز شریف نے بھی عوام کی بھلائی کیلئے کام نہیںکئے ہونگے تو عوام انہیں گھر بھیج دینگے،ایسے ہی اگر کل کو عمران خان وزیراعظم بنتے ہیں اور وہ بھی عوام کیلئے کچھ کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو عوام کے پاس ووٹ کی طاقت ہوگی جسے استعمال کر کے وہ کسی اور کو منتخب کر سکیں گے ۔جمہوریت کے تسلسل سے ایک بات واضح ہو جائیگی کہ کونسا سیاستدان اور کونسی پارٹی ملک و قوم سے مخلص ہے اور کون نہیں۔حکومتیں بنانے اور گھر بھیجنے کا اختیار صرف اور صرف عوام کے پاس ہی ہونا چاہئےکیونکہ عوام سے بہترین جج کوئی اور نہیں ہو سکتا۔اب عوام کو بھی ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہو جانا چاہئے کہ آپ ووٹ دے کر کس کو منتخب کر رہے ہیں۔افواہیں سرگرم ہیں کہ 2018 مارشل لا کا سال ہے ،اللہ کرے 2018 الیکشن کا سال ہو اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے کام کرنیوالوں کو ہی عوام منتخب کریں،سیاست سے غیر جمہوری لوگوں کا تعلق ہمیشہ کیلئے ختم ہونا چاہئے،اللہ کرے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو،تمام مسائل حل ہوں اور ہم ہنسی خوشی 
زندگی گزاریں(آمین )
یہی کالم روزنامہ جناح میں شائع ہو چکا ہے 

loading...