بلاگ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بلاگ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 5 مارچ، 2018

پی یو جے دستور کے انتخابات میں پروفیشنل گروپ کی فتح

پی یو جے دستور کے انتخابات میں پروفیشنل گروپ کی فتح
پی یو جے دستور کے انتخابات یکم جنوری بروز جمعرات کو گرینڈ ملینیم ہوٹل میں منعقد ہوئے جس میں دو گروپ پروفیشنل اور پروفیشنل جرنلسٹ مدمقابل تھے۔الیکشن کے روز گہما گہمی کا سماں تھا جس میں صحافی برادی کی کثیر تعداد شریک تھی۔الیکشن میں کانٹےدار مقابلہ دیکھنے کو ملا،ہر امیدوارجیت کیلئے پرامید تھا اور ووٹرز کو قائل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔الیکشن والےدن پولنگ پرسکون ماحول میں ہوئی جسے سینئر صحافیوں نے خوب سراہا۔انتخابی نتائج کے مطابق پروفیشنل گروپ کے رحمٰن بھٹہ نے 277ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ مدمقابل امیدوار افضال ہاشمی 149ووٹ حاصل کر سکے،حافظ نعیم کو 19اور عامر ریاض کو 8ووٹ مل سکے،28ووٹ مسترد بھی ہوئے۔نائب صدرکی نشست کیلئے تین امیدوار آمنے سامنے تھے،نتائج کے مطابق پروفیشنل گروپ کے شہزادہ خالد195ووٹ حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہے جبکہ نبیل کھوکھرنے 176ووٹ حاصل کر کے کامیابی اپنے نام کی،امتیاز احمد156ووٹ حاصل کر کے نائب صدر منتخب ہوئے اور تیسرے نمبر رہے۔شمس الحق 144،شاہد استقلال140،،شبیر احمد عثمانی135ووٹ لے سکے مگر کامیابی نہ حاصل کر سکے،27ووٹ مسترد بھی ہوئے۔جنرل سیکرٹری کی نشست کیلئے احسان اللہ بھٹی نے 254ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔شاہد نذیر 130،بلال غوری25 اور محمد عامر صرف 9ووٹ لے سکے۔جنرل سیکرٹری کی نشست کیلئے 63ووٹ مسترد ہوئے۔جوائنٹ سیکرٹری کی نشست کیلئے بھی تین امیدوار کامیاب قرار پائے جن میں شہباز چودھری 214ووٹ حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہے،علی افضل 195ووٹ لے کر دوسرے اور عقیل انجم 164ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہےاور کامیاب قرار پائے جبکہ ضیاء اللہ قصوری159،ندیم شہزاد 119،صہیب خالد102،ووٹ لے سکے مگر جیت نہ سکے 36ووٹ مستردبھی ہوئے۔خرانچی کی ایک نشست کیلئے عاصم امین 277ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے،مدمقابل امیدوار صلاح الدین 115،ووٹ حاصل کر سکے،58ووٹ مسترد بھی ہوئے۔گورننگ باڈی کے 9نشستوں کیلئے ہونیوالے الیکشن میں طارق جمال 180ووٹ حاصل کر کے پہلے،صابر اعوان178ووٹ لے کر دوسرے،محمد نعیم 175ووٹ لے کر تیسرے،اسد نقوی 172ووٹ لے کر چوتھے،تصور ہاشمی 154ووٹ لے کر پانچویں،عباداللہ بابر 153ووٹ لے کر چھٹے،ولی خان 146ووٹ لے کر ساتویں،امتیازاحمد 137ووٹ لے کر آٹھویں اور عبداللہ کاکڑ130ووٹ لے کر نویں نمبر پر رہے،گورننگ باڈی کے 16ووٹ مسترد ہوئے۔الیکشن سے قبل دونوں گروپوں کی جانب سے انتخابی مہم بھی چلائی گئی،پروفیشنل گروپ نے روزنامہ جنگ،نوائے وقت،ایکسپریس،دنیا،نئی بات،سٹی فارٹی ٹو،سٹار ایشیا،جناح،خبریں سمیت چھوٹے بڑے تمام اداروں کے دورے کئے اور خوب پذیرائی حاصل کی۔ الیکشن سے دو روز قبل گرینڈ ملینیم ہوٹل میں دونوں گروپوں کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا گیا جس میں صحافیوں کی کثیر تعداد شریک تھی۔الیکشن کمیشن سینئر صحافی   خواجہ فرخ سعید تھے جنہوں نے صاف شفاف الیکشن کروائے اور بدمزگی پیدا نہیں ہونے دی ۔
پی یو جے دستور کے انتخابات میں پروفیشنل گروپ کی فتح
پی یو جے دستور کے الیکشن میں
پروفیشنل گروپ کے امیدوار
الیکشن کے پرامن انعقاد پر صدر لاہور پریس کلب اعظم چودھری،سیکرٹری عبدالمجید ساجد سمیت پوری  باڈی نے الیکشن کمیشن  ، ان کی پوری ٹیم کو اور جیتنے والے امیدواروں کو مبارکباد دی۔پروفیشنل گروپ کے اعزاز میں دعوتوں اور عشائیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا۔پروفیشنل گروپ کے کامیاب امیدواروں رحمٰن بھٹہ،شہزادہ خالد،نبیل کھوکھر،امتیاز احمد،احسان اللہ بھٹی،شہباز چودھری،علی افضل،عقیل انجم،عاصم امین سمیت گورننگ باڈی کے ممبران کا کہنا تھا کہ جیت دوستوں کی محبت کا نتیجہ ہے۔ہمارا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے،ہم صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے دن رات کام کرینگے،جن اداروں میں ورکروں کو تنخواہیں نہیں مل رہیں ان کو تنخواہیں دلانے میں کردار ادا کریں  گے اور جو دوست کسی وجہ سے بیروزگار ہیں ان کو بھی اچھے اداروں میں جگہ دینے کی پوری کوشش کرینگے۔کامیاب امیدواروں کامزید کہنا تھا کہ کوئی بھی صحافی کسی بھی وقت ہم سے ملاقات کر کے اپنا مسئلہ بیان کر سکتا ہے جس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائیگی۔آخر میں کامیاب امیدواروں نے الیکشن کمیشن کے ممبران کا شکریہ ادا کیا اور الیکشن کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد دی۔



آصف بٹ تیری جرات کو سلام

پاکستان میں صحافیوں کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران بے شمار مسائل درپیش ہیں ایک جانب انہیں بیرونی حملوں کا سامنا رہتا ہے جبکہ دوسری جانب میڈیا مالکان (سیٹھ ) کی جانب سے ہر وقت یہ خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے کہ'' پتہ نہیں کب سیٹھ نوکری سے نکال دے " ایسے حالات میں صورتحال اس وقت اور زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے جب ہم اپنی مسیحا ٹریڈ یونینز کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی نظر آتی ہیں ایسی مایوس کن صورتحال میں ہماری الیکٹرونک میڈیا کی ایک چھوٹی سی تنظیم کا عہدیدار آصف بٹ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سیٹھ کو للکارتا ہے جس کے لئے کارکن کی وقعت کبھی بھی کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں رہی تھی ۔کچھ سیٹھ اور ان کی مادر پدر ازاد اولادوں نے تو صحافی کارکنوں کا استحصال اور ذہنی و جسمانی  تشدد کو اپنا حق سمجھ لیا تھا مگر کوئی بھی ان کے خلاف بولنے کی جرات نہ کرتا تھا ان حالات میں آصف بٹ کی جانب سے کی جانے والی جرات نے پسے ہوئے ان صحافیوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور اب ہر جانب سے ظالم سیٹھ کے خلاف بلند ہوتی یوئی آوازیں سنائی دے رہی ہیں بلا شبہ اس کریڈٹ کا حقدار صرف اور صرف آصف بٹ ہے ۔آصف بٹ صاحب میں آپ کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں اور یقین دلاتا یوں اس نوبل کاز میں لاہور پریس کلب آپ کے شانہ بشانہ ہے اور اپنی دیگر صحافتی تنظیموں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ ہمارا اصل کام صحافیوں کی خدمت اور ان کے حقوق کا تحفظ ہی ہے لہذا آپس کے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھیں اور سیکرٹری ایمرا آصف بٹ کے شانہ بشانہ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کی تحریک کو لے کر آگے بڑھیں۔
اعظم چودھری:صدر لاہور پریس کلب

اتوار، 4 مارچ، 2018

آزاد سینیٹرز

تحریر:شہباز جندران
*آئینی سقم ن لیگ کے لیے دھچکا بن گیا۔۔۔۔دستور کے تحت آزاد حیثیت سے سینیٹر بننے والے اراکین کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوسکتے۔آزاد حیثیت سے الیکشن جیتنے والے سینیٹر خواہش کے باوجود6برس تک ن لیگ میں شمولیت اختیار نہیں کرسکیں گے۔ن کی بجائے پیپلز پارٹی سینٹ میں سب سے بڑی سیاسی جماعت ہوگی*۔
ملک میں وسطی مدت کے سینٹ انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔اور آزاد قرار دیئے گئے ن لیگ کے 15امیدوار کامیاب ہونے کے بعد پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔لیکن آئین پاکستان اس کی اجازت نہیں دیتا۔دستور پاکستان کے آرٹیکل 59کے تحت سینٹ الیکشنزکا طریقہ کار،سینیٹرز کی ٹرم اور سینٹ میں صوبوں کی نمائندگی کے متعلق تو بیان کیا گیا ہے لیکن آزاد حیثیت سے الیکشن لڑکر کامیاب ہونے والے اراکین کی کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کے متعلق بیان نہیں کیا گیا۔جس کے بعد سینٹ میں آئینی و قانونی طورپر 20نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت ہے۔آئین کے آرٹیکل 51کی کلاز6کی ذیلی کلازEکے تحت قومی اسمبلی کے کامیاب ہونے والے اراکین کے لیے ضروری ہے کہ وہ آفیشل گزٹ میں نام کی اشاعت کے 3روز کے اندر کسی بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔اسی طرح آئین کے آرٹیکل 106کی کلاز 3کی ذیلی کلازCکے تحت کسی بھی رکن صوبائی اسمبلی کے لیے ضروری ہے کہ وہ آفیشل گزٹ میں نام شائع ہونے کے 3دن کے اندر کسی بھی پارٹی میں شمولیت کا اختیار کرسکتا ہے۔تاہم سینٹ اراکین کے حوالے سے آئین خاموش ہے۔آئین میں پایا جانے والا یہ سقم ن لیگ کے لیے دھچکا بن چکا ہے۔اور ن لیگ کی حمایت سے کامیاب ہونے والے سنیٹرز اگلے 6سال کے لیے سینٹ میں ن لیگ کی حمایت تو کرسکتے ہیں لیکن خود کو ن لیگ میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔نہ ہی ن لیگ کی حمایت کے پابند ہیں۔

جدوجہد کے ` استعارے ` خاور نعیم ہاشمی کو سالگرہ مبارک

جدوجہد کے ` استعارے ` خاور نعیم ہاشمی کو سالگرہ مبارک

................................................................. از زوار کامریڈ 
نوے کی دہائی کے آغاز میں بطور ایڈیٹر ` نواۓ بینظیر` میگزین میری زیادہ تر قربت ادارہ کے چیف ایڈیٹر میاں نیر حسن ڈار سے رہتی تھی. موصوف لندن میں دوران جلا وطنی شہید  بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے. اسی دوران `جنگ ` لندن کے خاور نعیم ہاشمی سے ڈار صاحب کی گہری دوستی رہی تھی. ڈار صاحب جب بھی فراغت پاتے میرے ساتھ اپنی لندن کی جدوجہد کی یادیں شئیر کرتے جس میں سب سے زیادہ ذکر خاور نعیم ہاشمی کا ہوتا تھا . ہاشمی صاحب ضیاء  دور میں آزادی صحافت کے ہیرو تھے. میں ذاتی طور پر ان کی جدوجہد کا حد درجہ مداح تھا. لاکھوں جمہوریت پسند شہریوں کی طرح موصوف میرے بھی ہیرو تھے لہٰذا ان سے منسوب ڈار صاحب کی یادیں میرے لیے بہت پر کسشش ہوتی  تھیں.
جدوجہد کے ` استعارے ` خاور نعیم ہاشمی کو سالگرہ مبارک
نوے کی دہائی کے وسط میں` نواۓ بینظیر` کے انٹرویوز کے لیے ڈار صاحب کے ساتھ لاہور میں اکثر آنا پڑتا . ہمارا قیام ڈار صاحب کے بھانجے پی پی پی کے ممتاز رہنما طارق وحید بٹ کے ہاں ہوتا تھا مگر شام کی محفل باری علیگ کے صاحبزادے مسعود باری کی پرانی انار کلی میں واقع بیٹھک میں گزرتی . یہیں میرا اپنے ہیرو خاور نعیم ہاشمی صاحب سے پہلا تعارف ہوا جو بتدریج دوستی میں بدل گیا .اس دوستی کو تئیس سال ہو چکے ہیں اس دوران ہاشمی صاحب سے طویل نشستوں کا اعزاز حاصل ہوتا رہا اور اپنے ہیرو کو قریب سے جاننے کا موقع بھی ملتا رہا. موصوف کی شخصیت کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ان سے ہونے والی ہر ملاقات یادگار و نا قابل فراموش ہوتی ہے . بلا امتیاز طبقاتی وابستگی سب سے برابری کی سطح پر ملنا بھی موصوف کا ایسا امتیاز ہے جو کسی دوسرے ممتاز و نامور صحافی میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے . ہاشمی صاحب کی شخصیت کو مختصر تحریر میں بیان کرنا نا ممکن ہے مگر ان کی فکر ، عملی زندگی ، پیشہ وارانہ سرگرمیوں کو ایک لائن میں بیان کرنا ہو تو زیر نظر جملہ پیش ہے 
`` خاور نعیم ہاشمی جدوجہد کا استعارہ ہیں ``
آج جدوجہد کے اس استعارہ کی سالگرہ ہے جو ایک فرد کا جنم دن نہیں بلکہ تجدید  عہد کا دن ہے کا ہاشمی صاحب کے تمام مداحین نے جینا ہے ان کی طرح جدوجہد کرتے ہوے `` جینا ہے تو لڑنا ہو گا ``  اس انقلابی نعرہ کے ساتھ میں اپنے ہیرو کامریڈ خاور نعیم ہاشمی کو انقلابی جذبوں کے ساتھ سالگرہ کی مبارک باد پیش کرتا ہوں 
ہو تو زیر نظر جملہ پیش ہے 
`` خاور نعیم ہاشمی جدوجہد کا استعارہ ہیں ``
آج جدوجہد کے اس استعارہ کی سالگرہ ہے جو ایک فرد کا جنم دن نہیں بلکہ تجدید  عہد کا دن ہے کا ہاشمی صاحب کے تمام مداحین نے جینا ہے ان کی طرح جدوجہد کرتے ہوے `` جینا ہے تو لڑنا ہو گا ``  اس انقلابی نعرہ کے ساتھ میں اپنے ہیرو کامریڈ خاور نعیم ہاشمی کو انقلابی جذبوں کے ساتھ سالگرہ کی مبارک باد پیش کرتا ہوں

بدھ، 28 فروری، 2018

دوگز زمین

دوگز زمینثناء خان کا کہنا ہے کہ 
رانا زہد حسین کی کتاب دوگز زمین جو 3 ماہ پہلے لی جسےپڑھ کر احساس ہوا ایک مدت کے بعد کوئی اچھا ناول ملا پنجاب کے دیہی علاقے کی اس خوبصورتی سے منظر کشی کی گئی ۔دیکھی بھالی جگہیں کھیت کھلیان وہ چوہدری رب نواز کا روایتی کردار مگر اس میں درمیان میں آکر بڑے پیارے طریقے سے کہانی روایتی انجام سے ہٹ گئی ایک ایسے انجام کو پہنچی جس انجام کو اسے پہنچنے کے بعد قاری کے دل میں کوئی سوال باقی نہیں رہا ۔گزشتہ تین ماہ یہ کتاب میرے حلقہ احباب میں گردش کرتی رہی موسٹ فیوریٹ ناول کی سند پا چکی ایسے میں کتاب پر کچھ بچوں کے ہاتھوں سے آڑھی تیڑھی لائنیں بھی پڑ گئیں کچھ روز قبل ہم نے ایک فیسٹیول بنت ڈیرہ کے زیر اہتمام رکھا تھا وہاں میں نے اپنی لائبریری سے بھی کچھ موسٹ فیورٹ بکس رکھیں تاکہ خواتین بھی پڑھنا شروع کریں ادب کو ہم حیران ہو گئے جب ہر خاتون آتی دوگز زمین کے کچھ ورق پڑھ کر اسکو لینے کیکیلئے اسرار کرتی میں صفائی سے منع کر دیتی کہ یہ میری ہے اس کو دیکھیں کچھ ڈیمج بھی ہے مگر اسرار میں کمی ناں آتی جب پروگرام ختم ہوا میرے بہت پیارے محترم بھائی وسیم سہیل نے اصرار کیا اور اس ڈیمج حالت بھی دوگز زمین مجھ سے فل قیمت پر خرید لی اور اصرار کا آپ ان سے کچھ بکس منگوا دیں بکس میرے پاس آگئی ہیں جن کو بھی اچھی کتاب چاہیے منگوا سکتے ہیں رانازاہد حسین سے اگر بات کر کے منگوائیں یا مجھ سے خریدیں دونوں صورت میں آپ کی لائبریری کی شان بڑھے گی۔


پیر، 26 فروری، 2018

’’خاص لوگ‘‘


سینئر صحافی و کالم نگار انور عباس انور کی کتاب’’خاص لوگ‘‘شائع ہو چکی ۔انور عباس انور نے صحافت کا آغاز 1977سے کیا اور آج تک وہ مختلف اخبارات میں کئی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔انور عباس انور لاہور پریس کلب کے لائف رکن بھی ہیں اور صحافیوں میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔
لاہور پریس کلب کے سیکرٹری عبدالمجید ساجد
کو انور عباس کتاب دے رہے ہیں
’’خاص لوگ‘‘انور عباس انور کے کالموں کا مجموعہ ہے۔
کتاب کا پبلشر خاص لوگ پبلی کیشنز ہے جبکہ کتاب حاجی حنیف پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپوائی گئی۔کل کتابیں 100ہیں جس کی قیمت 400روپے رکھی گئی ہے جسے خریدنے کیلئے 0300-4597873پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔318صفحات پر مشتمل کتاب میںملکی سیاسی صورتحال کے علاوہ عالمی منظر نامے پر بھی لکھا گیا ہے۔ابتدائی طور پر کتاب کو بہت سراہا گیا ہے۔کتاب کی تقریب رونمائی جلد ہوگی 

جس میں
نوجوان کالم نگار غلام رضا کو کتاب دیتے ہوئے 
سیاسی، سماجی، صحافتی شخصیات کے علاوہ کثیر تعداد میں شہری شریک ہونگے۔ملکی و بین الاقوامی حالات و واقعات کو جاننے کیلئے ایک مرتبہ کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے،اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب کو پڑھ کر علم میں اضافہ ہوگا۔کتاب میں چھپنے والے کالم مختلف موضوعات پر لکھے گئے ہیں ۔انور عباس انور نے لاہور پریس کلب کے سیکرٹری عبدالمجید ساجد،شرقپور ڈاٹ کام ویب سائٹ کے بانی ملک عثمان اور روزنامہ 92 نیوز سے وابستہ غلام رضا سمیت دیگر شخصیات کو کتاب تحفہ کے طور دی ہے۔
انور عباس انور ملک عثمان کو کتاب دیتے ہوئے

اتوار، 28 جنوری، 2018

دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے

پشاور کے محلہ خداداد میں 11دسمبر 1922کو پیدا ہونے والے دلیپ کمار کی حالت تشویشناک ہو گئی،کسی بھی وقت موت کی وادی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹروں اور گھریلو ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ لیجنڈری اداکار دلیپ کمار آخری سانسیں لے رہے ہیں مگر کچھ نہیں کہا جا سکتا وہ کب تک زندہ رہیں گے۔دلیپ کمار کا نام اداکاری سے پہلے یوسف خان تھا اور وہ پھلوں کے سواگر تھے وہ اپنے اہلخانہ کیساتھ 1933میں کاروبار کے سلسلے میں ممبئی منتقل ہوئے ۔1966ء میں انہوں نے اداکارہ سائرہ بانو سے شادی کی
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
دلیپ کمار نے 6دہائیوں کے فلمی کریئر میں صرف 63 فلمیں کیں لیکن انہوں نے ہندی سنیما میں اداکاری کے فن کو نئی معنویت نئی تعریف دی۔دلیپ کمار بھارت کے بہترین فٹ بال کھلاڑی بننے کا خواب دیکھتے تھے۔فلم والوں کے بارے میں ان کے والد کی رائے بہت اچھی نہیں تھی اور وہ ان کا نوٹنكي والا کہہ کر مذاق اڑاتے تھے۔اپنی آپ بیتی میں دلیپ کمار نے یہ تسلیم کیا کہ وہ مدھوبالا سے متاثر تھے ایک اداکارہ کے طور پر بھی اور ایک عورت کے طور پر بھی۔دلیپ کہتے ہیں کہ مدھوبالا بہت ہی زندہ دل اور پھرتيلي خاتون تھیں، جن میں مجھ جیسے شرميلے اور سوچ کر بولنے والے شخص سے بات چیت کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔لیکن مدھوبالا کے والد کی وجہ سے یہ محبت کی کہانی بہت دنوں تک نہیں چل پائی۔مدھوبالا کی چھوٹی بہن مدھر بھوشن کہتی ہیں: ’ابا کو یہ لگتا تھا کہ دلیپ ان سے عمر میں بڑے ہیں۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
 اگرچہ وہ میڈ فار ايچ ادر تھے۔ بہت خوبصورت جوڑی تھی۔ لیکن ابا کہتے تھے اسے رہنے ہی دو۔ یہ صحیح راستہ نہیں ہے لیکن وہ ان کی سنتی نہیں تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ وہ ان سے محبت کرتی ہیں لیکن جب بی آر چوپڑا کے ساتھ نیا دور فلم پرکورٹ کیس ہو گیا، تو میرے والد اور دلیپ صاحب کے درمیان تنازع پیدا کرنا ہو گیا۔مدھر بھوشن کہتی ہیں: ’عدالت میں ان کے درمیان معاہدہ بھی ہو گیا۔ دلیپ صاحب نے کہا کہ چلو ہم لوگ شادی کر لیں۔ اس پر مدھوبالا نے کہا کہ شادی میں ضرور کروں گی لیکن پہلے آپ میرے والد کو 'ساری کہیں۔ لیکن دلیپ کمار نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ گھر میں ہی ان کے گلے لگ جائیں لیکن دلیپ کمار اس پر بھی راضی نہ ہوئے۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
مغل اعظم‘ بننے کے درمیان نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ دونوں کے درمیان بات تک بند ہو گئی۔مغل اعظم، کا وہ کلاسک پنکھوں والا رومانٹک منظر تب فلمایا گیا تھا، جب مدھوبالا اور دلیپ کمار نے ایک دوسرے کو عوامی طور پر پہچاننا تک بند کر دیا تھا۔سائرہ بانو سے دلیپ کمار کی شادی کے بعد جب مدھوبالا بہت بیمار تھیں، تو انھوں نے دلیپ کمار کو پیغام بھجوایا کہ وہ ان سے ملنا چاہتی ہیں۔ دلیپ کمار اور مدھو بالا کی محبت فلم ترانہ کے دوران پروان چڑھی تھی
جب وہ ان سے ملنے گئے تب تک وہ بہت کمزور ہو چکی تھیں۔ دلیپ کمار کو یہ
 دیکھ کر دکھ ہوا۔ ہمیشہ ہنسنے والی مدھوبالا کے ہونٹوں پر اس دن بہت کوشش کے بعد ایک پھیکی سی مسکراہٹ آ پائی۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
مدھوبالا نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا: ہمارے شہزادے کو ان کی شہزادی مل گئی، میں بہت خوش ہوں۔23 فروری سنہ 1969 کو صرف 35 سال کی عمر میں مدھوبالا کا انتقال ہو گیا۔
سال فلم کردار ایوارڈ
 1944ء Jwar Bhata زگدیش 1945ء مائما 1947ء میلان رمیش جوگنو سورج 1948ء شہید رام Nadiya کے آرپار میلے موہن گھر کی عزت چندا منفرد پیار اشوک 1949ء شبنم منوج انداز دلیپ 1950ء جوگن وجے باب اشوک آرجو بادل 1951ء ترانا موتیلال Hulchul کشور دیدار Shamu 1952ء Sangdil شنکر داغ شنکر، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ آن جی تلک 1953ء Shikast ڈاکٹر رام سنگھ فٹ پاتھ کی Noshu 1954ء امر امرناتھ 1955ء اڑن ھٹولا Insaniyat دیوداس دیوداس، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ آزاد، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1957ء نیا دور شنکر، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ مسافر 1958ء Yahudi پرنس مارکس بمتی آنند / Deven نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1959ء پیغام رتن لال نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1960ء کوہنور فاتح، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ مغل-E اعظم شہزادہ سلیم 1961ء Gunga جمنا Gunga نامزدگی، فلمفیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1964ء کے رہنما وجے کھننا فاتح، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1966ء دل دیا درد لیا شنکر / Rajasaheb نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1967ء رام اور شیام رام / شیام، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1968ء Sunghursh نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ ہے! اور Shatan آدمی راجیش / راجہ صاحب نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1970ء Sagina مہتو گوپی گوپی نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1972ء داستان انیل / سنیل منفرد میلان 1974ء Sagina نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ پھر کیب Milogi 1976ء Bairaag نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1981ء انقلاب Sanga / انقلاب 1982ء Vidhaata شمشیر سنگھ شکتی Ashvini کمار، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1983ء مزدور دیناناتھ سکسینا 1984ء دنیا موہن کمار Mashaal ونود کمار نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1986ء درم Adhikari کرما وشوناتھ پرتاپ سنگھ عرف رانا 1989ء قانون اپنا اپنا کلیکٹر دنیا پرتاپ سنگھ 1990ء Izzatdaar برہما دت آگ کا Dariya 1991ء سودہر ٹھاکر سنگھ نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ ویر 1998ء قلعہ Jaganath / امرناتھ سنگھ = فلم = اس زمانے کی معروف اداکارہ اور فلمساز دیوکا رانی کی جوہر شناس نگاہوں نے بیس سالہ یوسف خان میں چھپی اداکاری کی صلاحیت کو بھانپ لیا اور فلم ’جوار بھاٹا‘ میں دلیپ کمار کے نام سے ہیرو کے رول میں کاسٹ کیا۔اس کے بعد سے اس شخص نے بھارتی فلمی صعنت پر ایک طویل عرصے تک راج کیا۔اور آن ۔ انداز ۔ دیوداس ۔ کرما ۔ سوداگر جسی 
مشہور فلموں میں کام کیا۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے

ہفتہ، 27 جنوری، 2018

سیاستدانوں اور ڈکٹیٹروں کی نایاب تصاویر،بچپن،جوانی اور وہ سب کچھ جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں

زیر نظر تصویر میں ڈکٹیٹر جنرل ر ضیاء الحق مرحوم ایک میٹنگ کے دوران پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے احترام میں عاجزی سے کھڑے ہیں جبکہ انہوں نے بعد میں نہ صرف ملک میں مارشل لا لگایا بلکہ ذوالفقار بھٹو کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھانسی  دلوائی  تھی 
مسلم ممالک کی پہلی وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کی بچپن کی نایاب تصویر،بینظرنے والد کی پھانسی کے بعد اس وقت کے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا بھرپور مقابلہ کیا اور صعوبتیں بھی برداشت کیں،بینظیر بھٹو پاکستان کی دو دفعہ وزیراعظم رہیں انہیں 2007 میں الیکشن مہم کے دوران منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا تھا
پاکستان کو 19992 میں کرکٹ کا عالمی کپ جتوانے والے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی یاد گار تصویر جس میں وہ سکول میں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد ٹرافیوں کے ہمراہ کھڑے ہیں،یاد رہے عمران خان کو کرکٹرز کے
طور پر تمام پاکستانی پسند کرتے ہیں 

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اپنی والدہ،،والد اور بہنوں کے ساتھ یادگار تصویر
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف جوخود کو خادم اعلیٰ پنجاب کہلوانا پسند کرتے ہیں ان کی جوانی کی یاد گار تصویر۔شہباز شریف نے پلوں،میٹرو بس،اورنج ٹرین اور سڑکیں بنا کر کافی شہرت حاصل کی 
مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے والے پرویز مشرف کی جوانی کی تصویر

حیران اور پریشان کر دینے والی تصویر

یہ تصویر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ایک ہی لڑکا ہو مگر تھوڑا غور کیا جائے تو پتہ چلے گا یہ فوٹو گرافر کا کمال ہے یہ ایک نہیں دو لڑکے ہیں۔

جمعہ، 26 جنوری، 2018

اعلی عدلیہ کے فیصلہ جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی کتاب قانون کی حاکمیت شائع ہوگئی

اُردو زبان میں پاکستان کے مروجہ قوانین کی تحقیق کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ اِس حوالے سے انتہائی تحقیق پر مبنی اعلی عدلیہ کے فیصلہ جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ کتابی صورت میں صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے تحریر کیا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں اِس کے باسیوں کے مابین رہنے سہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے بُرے برتائو کے کچھ اصول و ضوبط ہوا کرتے ہیں۔یہ اصول و ضوابط ہر معاشرے کے لیے علیحیدہ علحیدہ ہوتے ہیں۔ گویا ہر معاشرے یا گروہ ایک دوسرے سے الگ الگ زندگی کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہوتا ہے۔اِسی رہن سہن کے نفاذ کے سبب ہی اِس معاشرے کی پہچان ہو پاتی ہے۔جو لوگ اپنے اپنے معاشرے کی پیروی کرتے ہیں وہی لوگ اِس معاشرے کے پُرامن شہری کہلاتے ہیں۔ پُر امن شہری سے مُراد پُر اُمن ماحول، پُرامن ملک۔ اِس لیے عالمی سطع پر اقوام کے مابین طے پاجانے والے معاہدے عالمی اصول و ضوابظ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔جنہیں اقوام عالم کے مابین تعلقات کو پُرامن بنانے کے لیے زیر مطالعہ لایا جاتا ہے۔
گویا آج کا انسانی ذہن اِس بلند ترین سطع تک رسائی حاصل کر چُکا ہے جہاں سے آسانی سے ہر کوئی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ قوانین سے عدم آگہی و عدم شناسی ناقابل قبول بہانہ ہے۔ یہ بات نہ صرف انسانی نقطہ نظر کی ترقی بلکہ معاشری ترقی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ مگر وہ معاشرے جہاں لوگوں میںناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہو ۔ علم کی کمی ہو۔ سکولوں میںتعلیم ادھورہ چھوڑنے کا رحجان بہت زیادہ ہو۔ بنیادی انسانی حقوق سے محرومی بلکہ ناواقفیت بھی عام ہو۔ وہاں کون قانون طلب و رسد کی بات کرے اگر کوئی کرے بھی تو کس حد تک کرسکتا ہے۔جبکہ تیسری دُنیا کے ممالک نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔اِس لیے اِن ممالک میں ایک بڑا مسئلہ قومی زبان کا بھی ہے۔ ایسے ممالک میں عام طور پر حکمران ممالک کی زبان میں کاروبار ِ حکومت چلایا رہا ہوتا ہے۔جس کے سبب اِن ممالک کے عوام علوم وفنون اور خصوصاً قانونی معاملات اور اپنے بنیادی حقوق سے نابلد رہتے ہیں یا انہیں بزور نابلد رکھا جاتا ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کوگزشتہ تین دہائیوں کی پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے ہاں بھی کچھ ایسا ہی
ماحول نظر آیا ہے۔
ہماری % 70 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔کروڑوں افراد صحت و صفائی اور پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔ ناخواندگی کی سطع خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں سب سے بلند ہے۔ سکول و کالج کی بنیادی تعلیم سے لاکھوں افراد دور رہنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔تو کون کس طرح اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے۔ جبکہ اِسے ا پنے حقوق سے آگہی اور ملکی قوانین کی سوجھ بوجھ ہی نہ ہو۔ تمام قانون کی کتب غیر ملکی زبان میں ہونے کے سبب کوئی پھر کیوں نہ کہے گا کہ مجھے قانونی کُتب تک رسائی نہیں ہوئی یا مجھے ملکی قانونی کا علم نہ تھا۔  
جی ہاں جب تک ریاست اپنے شہریوں کو ترقی کے یکساں ذرائع و مواقع فراہم نہیں کرتی تو کو ئی کس طرح ایسے امتیازی سلوک والے معاشرہ کو پُرامن معاشرہ یا پُرامن ملک کہ سکتا ہے۔کچھ ایسے ہی خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے زیرِ نظر کتاب" قانون کی حاکمیت " خصوصاً قومی زبان اُردو میں تحریر کی گئی ہے۔جس میں خصوصیت کے ساتھ ایسے قانونی موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے جو کہ عوام النا س کی زندگی کے قریب ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے کتاب میں انتہائی ریسرچ کے حامل مضامین لکھے ہیں ۔ یہ کتاب نہ صرف قانون کے طالب علموں، صحافت سے وابستہ افراد اور عام قارئین کے لیے انتہائی سود مند ہے بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ یہ کتاب سول جج، ایڈیشنل سیشن جج، پبلک پراسیکیوٹرز کے امتحانات میں بھی ممدو معاون ثابت ہو گی۔ کتاب کوعرفان لاء بکس پبلشرز ٹرنر روڈ نزد ر ہائی کورٹ لاہور نے شائع کیا ہے اور اِس کو دیدہ زیب صفحات پہ چھاپا گیا ہے۔صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا آبائی شہر لاہورہے۔ اِن کے والد محترم صاحبزادہ میاں عمردراز ؒمرحوم اُستاد تھے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنا بچپن اپنے ماموں جان حضرت حکیم عنائت قادری نوشاہیؒ کے زیر سایہ گزارہ۔گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودہا سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج آف کامرس سرگودہا سے بی کام کیا۔ معاشیات ، بزنس ایڈمنسٹریشن، ایجوکیشن میں ماسٹرزکیے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیااور ایل ایل ایم کریمنالوجی کی ڈگری کے بھی حامل ہیں۔ اسلاملک لاء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی کیا ہے۔ دو دہائیوںسے قانون کی درس و تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔عشق رسول ﷺ کی سرخیل تنظیم انجمن طلبہء اسلام سے تعلق رہا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے عظیم صوفی بزرگ حضرت حافظ میاں محمد اسماعیل ؒ المعروف حضرت میاں وڈا صاحبؒ لاہوری کے خانوادے سے تعلق ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کے دادا حافظ میاں محمد اسماعیلؒ اور پرداد حضرت حافظ میاں محمد ابراہیمؒ متحدہ ہندوستان میں پولیس کے محکمہ میں بطور افسر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ان کا خاندان صدیوں سے لاہور میں رہائش پذیر ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازے کے بائیں جانب مسجد ابراہیمؒ اِن کے پرداد اکے نام سے منسوب ہے جو اُنھوں نے تعمیر کروائی تھی۔
صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ مختلف قومی و بین الا قوامی اخبارات و جرائدمیں سماجی اور قانونی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔کالم نگاروں کی عالمگیر تنظیم ورلڈکالمسٹ کلب کے سنئیر نائب صدر ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے انتہائی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیٹی پنجاب لاہور ہائی کورٹ بار کے چیئرمین ہیں اور تحفظ ناموس رسالتﷺ کمیٹی لاہور بار ایسوسی ایشن کے بانی چیئرمین ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ سلسلہ قادریہ نوشاہیہ میں حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہی ؒ آف زاویہ نوشاہی سرگودہاکے خلیفہ مجاز ہیں۔

loading...