کالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 11 اپریل، 2018

کتابوں کے بوجھ تلے دبدتی معصومیت!

کتابوں کے بوجھ تلے دبدتی معصومیت! لفظ بوجھ کے آتے ہی ایک اکتاہٹ سی طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے ، یوں تو بوجھ کی بے تحاشہ اقسام ہیں اور ہماری نئی نسل کیلئے توہر کام ہی بوجھ کی مد میں جاتا ہے ۔ اس دور کے جہاں اور بہت سارے دکھ ہیں ان میں سے یہ بھی ایک بہت تکلیف دہ عمل ہے کہ نئی نسل کی زندگی میں بیزاریت کا عنصر بہت واضح دیکھائی دے رہا ہے۔ بوجھ تو احسانوں کا بھی ہوتا ہے جسے ساری زندگی ہی لادے لادے پھرنا پڑتا ہے ، دوسرا ہر وہ وزن جسے آپ اپنی خوشی سے نا اٹھانا چاہتے ہوں وہ بوجھ بن جاتا ہے ۔ آج اس ترقی یافتہ دور میں والدین کی ترجیحات میں اوالین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ انکی اولاد اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کرے اور دنیا میں اپنے ساتھ ساتھ ہمارا نام بھی روشن کرے۔والدین اپنی اس ذمہ داری کو نبہانے کیلئے محنت مشقت کرتے ہیں تاکہ انکی اگلی نسل ان سے اچھی زندگی گزارے جسکے لئے بنیادی ضرورت اعلی تعلیم کی ہے ۔ اب اعلی تعلیم کا میعار بھی سمجھ لیجئے جس میں دو بنیادی چیزیںہیں پہلی زیادہ سے زیادہ فیس اوردوسری بہت ساری کتابیں۔ بچے بھی روتے دھوتے اسکول جانا شروع کر دیتے ہیں ۔
اپریل کی ابتداء ہوئی ہے تو نئی کلاسوں میں جانے والے بچے بہت شوق و ذوق سے اپنی نئی کتابیں اور بستے لئے اسکولوں کی طرف جاتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ بچوں نے اپنے اوپرکسی مسلسل کئے جانے والے ظلم کی طرح ان بستوں کو تو لاد لیا ہے ۔ دراصل انہیں یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اپنی خواہشات منوانے کیلئے یہ سب کرنا پڑے گا اور اس کے بغیر زندگی کی گاڑی آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔ 
پانی قدرت کی ایک ایسی نعمت کا ہے کہ جس کا کوئی نعملبدل نہیں ہے اب یہ جو پانی ہمیں پینے کو دستیاب ہے کیا اس قابل ہے کہ اسے پی کر انسان زندہ رہ سکے اور اگر زندہ رہ بھی گیا ہے تو بغیر کسی معذوری کے رہ سکے ، کون سی ایسی چیز ہے جو خالص ہے اب جب ہمارے بچے ایسی چیزیں کھائینگے اور ایسا پانی پیئنگے تو کیا خاک ان میں توانائی یا طاقت آئے گی اور وہ کیا مستقبل کا بوجھ اٹھائنگے۔ایسے حالات میں ان بچوں پر بھاری بھرکم بستوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے ۔ وہ اس بات پر کسی قسم کا احتجاج کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے کیونکہ ان کی نافرمانیوں پر انہیں پہلے ہی اتنا کچھ سننے کو ملتا ہے اور کبھی کبھی تو بات اس سے آگے بھی نکل جاتی ہے ۔کیا بچوں کو اپنی کتابوں کے وزن نما بوجھ کو کم کرنے کیلئے کسی قسم کا دھرنا دیناپڑیگا یا کوئی احتجاج کرنا پڑے گا، مگر ان کے پاس ہمارے معاشرے میں اتنے اختیارات و وسائل کہاں ہیں۔ 
گو کہ بھاری بھرکم بستوں کا مسلئہ واقعتا بہت دیر سے باقاعدہ طور سے اٹھایا کیا گیا ہے ۔ اب جبکہ میڈیکل سے وابسطہ لوگوں نے اس بات کی بہت اچھی طرح سے وضاحت کردی ہے کہ یہ بھاری بھرکم بستے طبعی طور پر بچوں کی جسمانی ساخت پر اور افزائش پر کس بری طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ تو ہمارے محکمہ تعلیم یا ماہر تعلیم یا تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے تھا جو ابھی تک ممکن نہیں ہوسکتا ہے ۔ صبح اسکول جاتے ہوئے آدھے سوئے آدھے جاگے ہوئے بچے اور واپسی میں کڑی دھوپ میں بری طرح سے تھکے ماندے معصوم بچے ان بھاری بستوں کو اٹھائے کتنے مظلوم سے لگتے ہیں۔ 
بستے کو رکھا تونہیں جا سکتا مگر اس بات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ بستے کا وزن کس طرح سے کم کیا جائے۔ اس مضمون کے توسط سے تعلیم کے ماہرین کی نظرکچھ تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں اس یقین کے ساتھ کہ اس پر کوئی عملی اقدامات کرینگے۔ اس سلسلے میں ہماری کسی بھی قسم کی معاونت درکار ہوگی ہم فراہم کرینگے (انشاء اللہ)
تجویز نمبر ایک ۔ کتابوں کی چھپائی میں استعمال ہونے والے کاغذ اور گتا کم وزن والا ہو، جس سے کتابوں کا وزن کم سے کم کیا جاسکتا ہے ۔
تجویز نمبر دو۔ نصابی کتابیں دو حصوں میں تقسیم کردی جائیں ایک حصہ جو معروضی ہو جو اسکول لانے کیلئے ہو جبکہ دوسرا حصہ تفصیلی یا بیانیہ ہو جسے گھر پر رکھا جائے۔ اس طرح سے کلاس کا دورانیہ اور بستے کا وزن بھی کم کیا جاسکتا ہے ۔
تجویز نمبر ۳۔ ایسے اقدام سے اساتذہ کی اہمیت اور بڑھ جائے گی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ بیانیہ دینا پڑیگا۔ اس عمل سے نقل کے رجحان میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی کیونکہ اس طرح سے ذہنی مشقیں زیادہ سے زیادہ ہونگی۔ 
تجویز نمبر ۴۔ جتنے بھی بڑے اسکلول سسٹمز کام کررہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اپنے نظاموں میں رائج کورس کوسالانہ طور پر مرتب دینے کیلئے ایک تحقیقی بورڈ تشکیل دیں جو ہر سال اس چیز پر کام کرے کہ کس طرح سے بچوں کو کم کتابوں سے زیادہ سے زیادہ علم فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ 
تجویز نمبر پانچ۔ آج ملٹی ٹاسکنگ (ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام جاننا)کا دور ہے اساتذہ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ بطور موٹیویشنل اسپیکر(حوصلہ افزائی کرنے والا)اور کائونسلر (مشارت فراہم کرنیوالا) کی بھی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ جس سے استاد شاگرد کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ کم ہونا شروع ہوجائے گا اور ذہنی ہم آہنگی بھی بڑھے گی۔ 
تجویز نمبر چھ۔ہر اسکول انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ والدین کی تنظیم بنائیں، اس تنظیم کے ساتھ ششماہی یا سہ ماہی ملاقات رکھی جائے جسمیں نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں سمیت نصابی عمل پر بھی مشاہدات کی بنیاد پر گفتگو کی جائے۔ ایک متوازن معاشرے کیلئے یہ عمل بہت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے ۔ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ نئی نسل کی پرورش و نشونما معاشرتی مسلئہ بن چکا ہے ، جس کے لئے سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا پڑیگا۔
تجویز نمبر سات۔ اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں کچھ سبق ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھایا نہیں جاتا یعنی ان اسباق کو کسی بھی وجہ سے نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتااگر یہ معاملہ کتاب کی چھپائی سے پہلے طے کر لیا جائے تو اور انہیں کتابوں سے نکلوا دیا جائے۔
تجویز نمبر آٹھ۔ عددی (ڈیجیٹل ) دور میں کتابیں کتنا کردار ادا کر رہی ہیں اور کیا ہم اس دور کے تکازے پورے کر رہے ہیں۔
تجویز نمبر نو۔تعلیمی اداروں سے وابستہ ایک اور دیرینہ مسلئہ بھی ہے اور وہ ہے بچوں کے ذرائعے آمد و رفت ، ہم سب روزانہ کی بنیاد پر اسکولوں کی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی دیکھتے ہیں ان گاڑیوں کی حالت زار پر ماتھوں پر شکن اور زبان پر شکوے کے علاوہ اور کچھ اپنے بس میں ہوتا ہی نہیں تو یہی کر کر آگے بڑھ جاتے ہیں سونے پر سوہاگا ان اسکول کی گاڑیوں کے ڈرائیور جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول و گھر پہنچانا ہوتا ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ اسکول خود کیوں ان گاڑیوں کی ذمہ داری لیتے ، سوائے چند اسکولوں کے اسکولوں کی اکثریت اس ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے اور آپ کو ٹرانسپوڑٹر کے حوالے کر دیتی ہے۔ آپ کو اگر اس سہولت سے فائدہ اٹھانا ہے تو آپ ان تمام موجود خطرات پر آنکھیں بند کر لیجئے اور اپنے بچے کو انکے حوالے کر دیجئے ۔ سب سے پہلا خطرہ تو یہ کہ شہر کی جتنی خستہ حال گاڑیاں ہیں وہ اسکولوں میں اپنی ذمہ داریا ں نبھا رہی ہیں۔ دوسرے ہمارے ڈرائیور بھائی جو ان گاڑیوں کو اس طرح چلاتے ہیں جیسے مشہور زمانہ پبلک وین چلا رہے ہوںاور رہی سہی کسر ان میں چلنے والے گانے ۔ اسکول انتظامیہ کو اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ اسکول میں چلنے والی گاڑیوں کی حالت قابل استعمال ہو۔ گرمیاں شروع ہو چکی ہیں یہ گاڑیاں اپنی اسی حالت کے ساتھ بچوں کو بری طرح سے ٹھونس ٹھونس کر بھر لیتے ہیں ۔ 
 وقت کا تکازہ ہے کہ معاشرے کی بگڑتی ہوئی چھوٹی چھوٹی باتوں پر شدت سے دھیان دیں ، ہمیں حکومت اور ارباب اختیار کی جانب دیکھنا چھوڑ نا پڑیگا ، ہمیں اپنے آنے والے کل کیلئے خود ذمہ داری اٹھانی پڑے گی اور عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ تعلیم کی ترسیل آج ایک کاربار کی صورت اختیار کرچکا ہے لیکن اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اچھی تعلیم اور اچھا معاشرہ تشکیل دیناہے ،نئی نسل کو نئے تکازوں سے ہم آہنگ رکھنا ہے تو یہ سب برداشت کرنا پڑے گا، لیکن ان باتوں کو یقینی بنانا بھی ان تعلیمی اداروں پر لازم ہے جو اپنی مرضی کی فیس وصول کر رہے ہیں۔ 
ہم نے ان بنیادی جزیات پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے ۔ہمارے سیاستدانوں نے نا تو کبھی خود اس ملک اور اسمیں رہنی والی رعایا کیلئے کچھ کیا ہے اور نا کسی کرنے والے کو کرنے دیا ہے ۔ اس ملک کے ہر ادارے میں سیاست نے گند گھول رکھا ہے ، خدارا تعلیم اور تعلیمی اداروں کو سیاست سے پاک رہنے دیں ہم روتے گاتے ہیں کہ ہماری نسلیں کہاں جا رہی ہیں مگر ہم آنکھیں کھول کر یہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ ہم نے انہیں معاشرتی طور پر دیا کیا ہے انکے لئے کن راستوں کا تعین کیا ہے ۔آج درسگاہوں سے کہیں زیادہ ٹیوشن سینٹر ز اور سماجی میڈیا طالب علموں کی ذہن سازی کر رہے ہیں ، معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ مغرب کے بچھائے ہوئے جال کے چنگل میں پھنستے ہوئے اسکول و کالج کے بچے اور بچیاںجس ڈگر پر چلنا شروع ہوگئے ہیں ہم سب بہت اچھی جانتے ہیں ، اس سارے بگاڑ کے پیچھے اگر کوئی ہاتھ ہے تو دوسرا ہاتھ ہمارا بھی برابر کا شریک ہے ۔ ہمارا دھیان بانٹ دیا گیا ہے ۔سرے عام اسکول یونیفارم میں بچے سگریٹ نوشی کر رہے ہیں اور بچے بچیاں پارکوں میں ٹہلتے نظر آرہے ہیں۔ اسکولوں کی انتظامیہ ، اساتذہ اور والدین اپنی اپنی حدود سے باہر نکل کر ایک جامع حکمت عملی بنائیں اور اس پر عمل پیرا ہوں ۔ تب کہیں جا کر ان معاملات میں سدھار لایا جاسکتا ہے ، ورنہ خاتمہ بل خیر ہوتا سجھائی نہیں دے رہا۔ یہ سب پریشانیاں ختم تو نہیں مگر بہت حد تک کم ہوسکتی ہیں۔ اگر مذکورہ بالا تجاویز کا بغور جائزہ لیتے ہوئے عملی طور پر کام کیا جائے۔ کم از کم معصومیت کو کتابوں کے بوجھ سے تو آزادی مل جائے گی۔

جامعہ نعمانیہ رضویہ میں علامہ خادم حسین خورشیدالازہری کاخطاب

تحریر:محمدصدیق پرہار
 گزشتہ چھ دہائیوں سے لیہ شہرکے گنجان آبادمحلہ شیخانوالہ کی خوش نصیب گلی میں واقع مدرسہ جامع نعمانیہ رضویہ میں قوم کے نونہالوں کوحفظ قرآن پاک اور درس نظامی کی تعلیم سے مزیّن کیاجارہا ہے۔ صوفی باصفا صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ یہاں علم کی شمع کوروشن کیاجومسلسل علم کے متلاشیوںکومسلسل روشنی دے رہی ہے۔صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ کے شجرعلم سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادہزاروں میں ہے۔اس مدرسہ سے فیض یاب حفاظ کرام اورعلماء کرام ملک بھرمیں دین اسلام اورفروغ عشق رسول میں اپنانمایاںکرداراداکررہے ہیں۔ تمام طلباء کی خوراک ورہائش کاانتظام مدرسہ کی طرف سے ہی کیاجاتاہے۔اس مدرسہ کے معلمین ومدرسین بڑی محنت، انتہائی توجہ، مشفقانہ رویہ کے ساتھ طلباء کوقرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔جامعہ نعمانیہ رضویہ کے تمام معلمین میں یوں تو کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔علامہ قاری ممتازاحمدباروی حافظ قرآن بھی ہیں اورقرآن پاک کے بہترین قاری بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوب صورت اخلاق کے ساتھ ساتھ سحرانگیزاورپرسوزآوازسے بھی نوازاہے۔ قاری ممتازاحمدباروی صاحب جب قرآن پاک کی تلاوت کی سعادت حاصل کرتے ہیں توسننے والے چاہتے ہیں کہ قاری صاحب قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہیں اورہم سنتے رہیں۔ قاری ممتازاحمدباروی عالم دین بھی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کوجوہرخطابت بھی خوب عطاء کیاہے۔جب بھی خطاب کرتے ہیں علمی اورمدلل خطاب کرتے ہیں۔نقابت کرنے میں بھی قاری صاحب اپنی مثال آپ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قاری صاحب کوفن شاعری کااسلوب بھی دے رکھا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح بھی لکھ رہے ہیں۔ دیگرمدرسین علامہ شبیرالحسن باروی، علامہ محمداشرف مظہری، مولانامظفرحسین باروی اپنی مثال آپ ہیں۔ اس درس گاہ میں طلباء کی کردارسازی پربھی توجہ دی جاتی ہے۔ ہفتہ میں ایک دن بزم حامدیہ منعقدکی جاتی ہے۔اسی مدرسہ میں ہرسال رجب المرجب کی سترہ تاریخ کوصوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ محمداقبال باروی رحمۃ اللہ علیہ کاایک روزہ عرس مبارک بھی منعقد کیا جاتاہے۔ جس میں حفظ قرآن اوردرس نظامی مکمل کرنے والے طلباء کی دستاربندی بھی کی جاتی ہے۔ عرس مبارک میں جیّد علماء کرام خطاب کرتے ہیں۔ اس سال بھی سترہ رجب المرجب کو جامعہ نعمانیہ رضویہ لیہ میں صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ محمداقبال احمدباروی رحمۃ اللہ علیہ کاسالانہ ایک روزہ عرس مبارک منایا گیا ۔ عرس مبارک کی آخری نشست بعدنمازعشاء منعقدہوئی۔عرس مبارک کی اخری نشست سے چیئرمین وحدت اسلامی انٹرنیشنل علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے خطاب کیا۔علامہ خادم حسین خورشیدنے عرس مبارک کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جودعائیہ کلمات کہے اس سے ان کے اندازخطابت کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے۔ان کے دعائیہ کلمات ہی بتارہے تھے کہ وہ امت مسلمہ کے بارے میںکتنے فکرمندہیں۔ وہ مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول موجزن بھی دیکھناچاہتے ہیں اوران کے کردارکوبھی سنوارناچاہتے ہیں۔علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام پاکیزہ دین ہے۔ کعبہ تعمیر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعامانگی ’’ اے ہمارے رب ان میں سے اپنارسول مبعوث فرما جوتیری آیات کی تلاوت کرے، انہیں علم وحکمت کی تعلیم دے اورانہیں پاک وصاف کرے ‘‘ پاکیزگی جسم کی بھی ہوتی ہے اورروح کی بھی۔ یہ پاکیزگی ایمان ،عقیدے اورعمل کی بھی ہوتی ہے۔ اسلام میں ان تمام پاکیزگیوں کی طرف توجہ دی گئی ہے۔نمازکی شرائط میںجسم، جگہ اورلباس کی پاکیزگی شامل ہیں۔عبادات سے پہلے، طہارت، وضواورغسل اس بات کاثبوت ہیں کہ اسلام میں پاکیزگی پرکتنی توجہ دی گئی ہے۔ ان کاکہناتھا کہ دین اسلام سے وابستگی ہی عزت کاباعث ہے۔ہم عزت ووقاراقتدار، کرسی، جائیداد، مال ومتاع، سرمایہ، جاہ ومنصب میں تلاش کرتے ہیں۔یہ سب چیزیں تواللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت بھی ہیں اورآزمائش بھی۔ حقیقی عزت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں ہے۔ دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہوجائیں تواس دنیامیں بھی حقیقی عزت ملتی ہے اورمحشرکے دن بھی عزت ملے گی۔ اسلام میں نہ صرف زندہ لوگوںکوعزت دی گئی ہے بلکہ اس دارفانی کوچھوڑ کرجانے والوںکوبھی عزت واحترام کے ساتھ سپرخاک کیاجاتاہے۔ جب بھی کوئی مسلمان فوت ہو جاتاہے تواس کوغسل دیا جاتاہے،اس کوپاک وصاف کفن پہنایا جاتاہے، اس کانمازجنازہ اداکیاجاتاہے، اس کے لیے دعائے مغفرت کی جاتی ہے، ا س کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی، قل خوانی، دسواں، بیسواں، تیسواں، چالیسواں اورجمعرات کے نام سے ایصال ثواب کی تقاریب منعقدکی جاتی ہیں۔ اس کو قبرستان میں دفن کرنے کے لیے بارات کی صورت میں لے جایاجاتاہے۔اسے عزت کے ساتھ سپردخاک کیاجاتاہے۔کسی اورمذہب اورطبقہ کے لوگ اپنے مرُدوں کواتنی عزت نہیں دیتے۔علامہ خادم حسین خورشیدکہتے ہیں کہ اسلام کی یہ کوالٹی ہے کہ اس کوجتنادبایاجائے یہ اتناہی بڑھتااورپھیلتاہے۔اسلام دنیامیں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نائن الیون کے بعدجس منصوبہ بندی کے تحت اسلام کوٹارگٹ کیاگیا ہے۔ اسلام کودہشت گردمذہب اورمسلمانوںکودہشت گرد ثابت کرنے کاکوئی حربہ نہیں چھوڑاگیا۔ دنیابھرکی عوام میں اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیاگیا۔ عالمی طاقتوں اورمیڈیاکی اسلام مخالف مہم کاہی یہ اثرہواکہ غیرمسلم عوام کواسلام میں دل چسپی پیداہوئی ، انہوںنے اسلام کامطالعہ کرناشروع کردیا ، اسلام کامطالعہ کرنے کے بعد وہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگے ہیں۔عالم اسلام کی بے حسی پرتبصرہ کرتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ طیب اردوان کے سواکسی بھی اسلامی ملک کے سربراہ کاکردارقابل تعریف نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت زار، اسلامی ممالک کے سربراہوں کی بے حسی کودیکھاجائے توعالم اسلام کی بے بسی پرافسوس ہوتاہے۔مسلمان ممالک مل کرمشترکہ دشمن کامقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے برسرپیکارہیں۔مسلمان ملکوں سے دشمنیاں اوراسلام کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں کی جا رہی ہیں۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ کفرکاسب سے بڑاٹارگٹ مدارس ہیں ۔ مدارس کے خلاف اب تک جوپروپیگنڈہ کیاجارہا ہے وہ سب کواچھی طرح معلوم ہے ۔ مدارس کی کردارکشی کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیاجاتا۔کفرکے اس پروپیگنڈہ کاہمارے اپنوںنے بھی بھرپورساتھ دیا۔کفرکی مدارس کے خلاف مہم کے بعد مدارس میں طلباء کی تعدادمیں اضافہ ہی ہواہے۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ کفراسلام پرڈائریکٹ نہیں ان ڈائریکٹ حملہ کرتاہے۔ کفراسلام پرحملہ کرنے کے لیے مسلمانوں کے غداروںکوخریدکرتاہے، ان کے ذریعے مسلمانوں کے جذبہ عشق رسول اورعقیدے پرحملے کراتاہے۔کبھی وہ ملعون قادیانی کوسامنے لے آتا ہے توکبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کردیتاہے۔ کبھی وہ مدارس کوٹارگٹ کرتاہے توکبھی مسلمان ممالک کی حکومتوں کونشانے پرلے لیتاہے۔صوفی حامد علی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ مولانامحمداقبال احمدباروی کے عرس مبارک کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے کہا کہ مسلمانوں میں رسول اکرم، نورمجسم، شفیع معظم، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ختم کرنے کے لیے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔کفراسلام اورمسلمانوںکوبدنام کرنے پرتلاہواہے۔کفراسلام کوبدنام کرنے کے لیے کیاکیانہیں کررہا عالمی حالات وواقعات سے آگاہی رکھنے والے اس کواچھی طرح جانتے اورسمجھتے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ حکمرانوںکے درکے چکرلگانے والاعالم دین نہیں ہوسکتا۔قصورسمیت ملک کے مختلف شہروںمیں کم سن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پراظہارخیال کرتے ہوئے علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ باکردارعوامی نمائندوںکوہی منتخب کرناچاہیے۔ جب ووٹ بدکردارکودیاجائے گاتوقوم کی بچیوںکی عزت کیسے محفوظ رہے گی۔انہوںنے کہا کہ ہوٹلوں، چوراہوں، بسوں، ٹرینوں میں لکھاہواہے کہ مذہبی گفتگوکرنامنع ہے۔ علامہ صاحب نے سوال کیا کہ کیایہ امریکہ، اسرائیل یاانڈیا ہے جویہاںمذہبی گفتگوکرنامنع ہے۔ملک میں مذہبی گفتگوپرپابندی افسوس کامقام ہے۔مذہبی گفتگوپرپابندی کے ذریعے عوام کواسلام سے دورکرنے کی کوشش ہورہی ہے۔اس کوشش کاآغازمساجدمیں فائرنگ اورخون ریزی کے واقعات سے کیاگیاتھا۔انہوںنے کہا کہ ایم این اے کوتیسراکلمہ نہیں آتا اوروزیرکوسورۃ اخلاص نہیں آتی تواس میں اسلام کاکیاقصورہے۔انہوں نے بلدیاتی امیدواروں کے انٹرویوکااحوال سناتے ہوئے کہا کہ ایک امیدوارسے پوچھاگیا تجھے دعائے قنوت یادہے، امیدوارنے جواب دیا جی یادہے، سے کہا گیاسنائو، امیدوارنے سورۃ اخلاص سنادی،انٹرویولینے والے نے کہا کہ یہ پہلاامیدوارہے جسے دعائے قنوت یادہے۔یہ سب اسلامی تعلیمات کی ترویج واشاعت پرتوجہ نہ دینے کانتیجہ ہے۔یہ مسلمانوںکواسلام سے دور کرنے کارزلٹ ہے۔ ہم اسلام کوکتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اس کااندازہ اس سے لگائیں کہ سکول کی ٹیوشن پڑھانے والے کوتومنہ مانگی فیس ایڈوانس دی جاتی ہے، جب کہ قرآن پاک پڑھانے والوں کوپانچ سوروپے ماہانہ دیتے ہوئے بھی بوجھ محسوس ہوتاہے۔سکولوں میں دنیاوی کتب پڑھانے والے توہزاروں روپے تنخواہ لے رہے ہیں اورسکول کے بچوںکوقرآن پاک پڑھانے والے معلم کوماہانہ پانچ سوروپے بھی حکومت کی طرف سے نہیں دیے جاتے۔انہوںنے کہا کہ ختم نبوت قانون پرڈاکہ ڈالا گیا۔ تمام ممبران اسمبلی اس پرخاموش رہے،ختم نبوت حلف نامہ میں ترمیم کرتے وقت کسی ممبراسمبلی نے احتجاج نہیں کیا۔انہوںنے واضح اعلان کیا ہمیں ایسے ممبران اسمبلی قبول ہیںجوایوانوں میںناموس رسالت کاتحفظ کریں۔علامہ صاحب نے کہا کہ الیکٹرانک اورسوشل میڈیا اسلام کے خلاف استعمال ہورہا ہے، انہوںنے سوشل میڈیاپروائرل ایک ویڈیوکااحوال سناتے ہوئے کہا کہ مسلمان سمیت دیگرمذاہب کے افرادآپس میں گفتگوکرتے ہیں اور مسلمان کولاجواب کردیتے ہیں۔اس کاجواب دیتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ قوم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانی مانگا اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی پانی مانگا۔ فرق یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں چل نہیں گئے، کسی پتھرپرعصا نہیں مارا، ایک پیالے میں دست مبارک ڈالاتوانگلیوں سے پانی کے فوارے جاری ہوگئے سیکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خوب سیرہوکرپیا۔انہوں نے کہا کہ مدارس کے طلباء کوحقارت سے نہ دیکھاکرو۔ چٹائیوں پربیٹھ کرقرآن پاک پڑھنے والوںکی وجہ سے ہی ملک قائم ہے۔علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ حکمرانوں کی بیٹی ملالہ ہے۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی اوربیٹاممتازقادری ہے۔ملالہ نے پاکستان اوراسلام کے بارے میںجوکچھ بھی کہا ہے اس سے یہ اندازلگانامشکل نہیں کہ وہ کس ایجنڈے پرکام کررہی ہے۔ایک گولی کالگ جاناکوئی بہادری نہیں ہے۔اس نے کون ساایساکارنامہ انجام دیا ہے جومغربی میڈیاکی آنکھوںکاتارابن گئی۔مغرب والے کسی کوایسے ہی آنکھوں پرنہیںبٹھاتے۔قوم کی بیٹی توعافیہ صدیقی ہے جوگوانتاموبے جیل میں سزاکاٹ رہی ہے۔قوم کابیٹا توممتازقادری ہے جس نے ناموس رسالت پراپنی جان بھی قربان کردی۔قوم کابیٹاتوطالب علم اسفندیارہے۔ جس نے جان پرکھیل کردہشت گردکوقابوکرتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے سکول ، اساتذہ اورطلباء کودہشت گردی سے بچالیا، قوم کی بیٹیاں توآرمی پبلک سکول کی وہ ٹیچرز ہیں جنہوںنے طلباء وطالبات کودہشت گردوں سے بچاتے ہوئے شہادت پائی۔قوم کی بیٹی تووہ سکول ٹیچرہے جوخود توسلنڈرپھٹنے کی وجہ سے سکول وین کولگنے والی آگ میں خودتوجھلس کرشہیدہوگئی لیکن طلباء کوآگ سے بچالیا۔ان کاکہناتھا کہ افغانستان میںمدرسہ پربمباری سے سوسے زیادہ بچے شہیدہوئے اورشام میں چارسوبچوںنے جام شہادت نوش کیا۔ملالہ کوایک گولی لگنے پر شور مچانے والامیڈیا ان بچوں کے اجتماعی قتل عام پرکیوںخاموش ہے۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ محراب ومنبرسے عوام کارابطہ توڑنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ مساجد سے لائوڈ سپیکروںکااتاراجانا اورصرف ایک سپیکرکی اجازت دینا اسی کاتسلسل ہے۔علامہ خادم حسین خورشیدالازہری کہتے ہیں کہ اسلام میں طے شدہ امورکی من پسندتشریح کرنے والے دانشوراس وقت میڈیاکے ہیروہیں۔ اسلام کے طے شدہ اصول وضوابط میں سے ایسے دانشوربعض اصول وضوابط کواس وقت کی ضرورت قراردے کرموجودہ دورمیں ان امورسے انکاری ہیں۔انہوںنے مغرب میں مدرڈے ، فادرڈے منانے پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی معاشرہ میں لوگ بوڑھے والدین کوبوجھ سمجھ کرانہیںاولڈہومزمیں چھوڑ آتے ہیں۔ سال میں ایک باران کوملنے جاتے ہیں ، انہیں تحفے وغیرہ دیتے ہیں۔ اس دن کوانہوںنے مدر ڈے اورفادرڈے کانام دے رکھا ہے۔ علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ جس معاشرے میں والدین کوسال میں ایک دن ملے ایسے معاشرے پرلعنت ہے۔ یہ مذہب اسلام کاہی امتیازہے کہ مسلمان کاہردن مدرڈے اورفادرڈے ہے۔ مسلمان معاشروںمیں والدین کوبوجھ نہیں سمجھاجاتا بلکہ ان کی خدمت کرنے کو سعادت مندی سمجھاجاتاہے۔ 

انسان ، انسانیت کی تلاش میں ہے!

انسان ، انسانیت کی تلاش میں ہے!قدرت نے دنیا اپنی مخلوق کیلئے بنائی اور اس مخلوق کی اقسام و تعداد کے اندا مگر حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کردیا ، انسانوں کو رہن سہن کے طور طریقے بھی سمجھائے ،جسم کے مردہ ہونے جانے کی صورت میں دفنانے کا طریقہ بھی اپنی کسی اور تخلیق کے توسط سے سمجھایا۔ قدرت نے آہستہ آہستہ اختیار منتقل کرنا شروع کیا ، جیسے جیسے انسان کو دنیا میں رہنے کی سمجھ آتی گئی اس نے خود کو ہی مالک سمجھنا شروع کردیا۔ ہر انسان میں کسی نا کسی درجہ انا یا میں کا عنصر موجود ہوتا ہے (اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا)۔ انااور میں کا تعلق انسان نے حسب نسب اور رتبے سے پختہ کیا اور نسل در نسل معلومات میں اضافے کی بنیاد پر بڑھتا ہی چلا گیا۔ ایسے لوگوں نے اپنے اپنے طور سے علم اور معلومات کو قید کرنا شروع کیا ، قیدسے مراد جاننے کیلئے حسب نسب کا ہونا ضروری قرار پایہ ، یعنی قدرت سے ملنی والی نعمتوں پر بھی پابندیاں اور حدیں تعین کر دی گئیں۔ اس سے بڑھ کراور کیا ظلم ہو سکتا ہے کہ جو اناج اگاتا ہے وہی اناج کے عدم دستیابھی کی وجہ سے بھوکا مرتا ہے۔ دنیا ترقی کرتی جارہی ہے اورانسان اپنی طاقت میں بیش بہا اضافہ کئے جا رہا ہے
یہ انسان کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہی تو ہے کہ کوئی نہتے اور کمزور انسانوں پر بمباری کر کر انسانیت ڈھوننے کی کوشش میں کررہا ہے ، کوئی مجمع پر گولیا ں چلاکر نا حق خون بہاکر انسانیت تلاش کر رہا ہے ، کو ئی معصوم ادکھلے گلابوں کو مسخ کر کے انسانیت کا درس دے رہا ہے ۔ آج انسان ،انسانیت کو تہہ و بالا کر کے انسانیت تلاش کر نے کی کوشش کر رہا ہے ۔ آج ساری دنیا کے انسان اپنی اپنی انسانیت ڈھونڈ رہے ہیں۔ 
ہر طرف افسوس ہے ، ہر طرف خون ہی خون ہے زمین اپنا رنگ بھولتی جا رہی ہے مگر آج انسان کو انسانیت مل کر نہیں دے رہی۔ ہر فرد دوسرے فرد کو یہ کہہ کر ماردینا چاہتا ہے کہ اسے جینے کا کوئی حق نہیں ہے، اس میں انسانیت نہیں ہے ، مگر کوئی اس مارنے والے سے تو پوچھے کہ جو تم کر رہے ہو اسے انسانیت کہہ سکتے ہیں۔ اقتدار و اختیار کی ہوس نے انسانوں کو انسانوں کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے کہیں مذہب کے نام پر شب خون مارا جا رہا ہے تو کہیں مال و دولت کیلئے سر تن سے جدا کئے جا رہے ہیں کہیں عزتیں پامال ہو رہی ہیں تو کہیں معصوم بچے معاشرتی غلاظت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ بات سب کے سب انسانیت کی کر رہے ہیں۔ 
آج کسی فرد کو خدا بننے کیلئے فرعون جیسا اقتدار نہیں چاہئے ، آج تو کرائے کی گاڑی میں بیٹھ کر بھی حضرت انسان پیدل چلنے والے بندہ خدا کو انسان کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ حقیت تلخ تو ہمیشہ سے ہی تھی مگر آج تلخ ترین ہوتی جا رہی ہے یہاں تک کہ ایک انسان دوسرے انسان کو اسکی حقیقت بتانے پر قتل بھی کر سکتا ہے ۔ آج معاشرہ اپنی روح سے عاری ہوچکا ہے قدرت نے دلوں سے تو روحیں پہلے ہی صلب کر لیں تھیں اب معاشرے کی روح بھی آہستہ آہستہ کھینچی جا رہی ہے پھر یہ دنیا مصنوعی ہوکر رہ جائے گی۔ 
اس مضمون کو لے کر بہت سارے اختلافات سامنے آسکتے ہیں مگر جیسا کہ بتا یا گیا ہے کہ حقیقت تلخ ہوتی ہے اوراب تو تلخ ترین ہوچکی ہے ، آپ خود فیصلہ کر لیجئے اپنا احتساب کرلیجئے کیا آپ انصاف کے متمنی ہیں کیا آپ چاہتے ہیں تمام کام سہولت سے ہوں جس کیلئے آپ کو مختلف لائنوں میں لگنا پڑے گا، کیا آپ بغیر رشوت دئیے کام کروانے کیلئے تیار ہیں ۔ آپ یہ بھی کہیںگے کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں لوگ ایک دوسرے کے ہر ممکن کام آرہے ہیں لیکن پھر بھی دنیا کی بدامنی میں کوئی فرق نہیں پڑرہا، دنیا کو چھوڑ دیں آپ اپنے چھوٹے سے علاقے کو لے لیجئے ، آپ اپنے اپنے گھروں کو لے لیجئے۔ مان لیجئے کہ سب کچھ مصنوعی ہے اب یہ دنیا مصنوعی انسانیت پر چل رہی ہے، بلکل ایسے ہی جیسے ہمارے ہسپتال والے کسی مرتے ہوئے مریض کے اہل خانہ کو وقتی تسلی دینے کیلئے مصنوعی تنفس پر منتقل کردیتے ہیں اور ایک طے شدہ وقت کے بعد موت کی تصدیق کردیتے ہیں۔ آج دنیا میں جو کچھ چل رہا ہے لوگ اپنی اپنی جان چھڑا تے محسوس ہوتے ہیں ، جیسے وقت کو گزارنے کیلئے اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہوسکتا ،دنیا اپنے انجام کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے یہ بات کے لاشعور میں اجاگر ہرچکی ہے جبھی تو سب اپنی اپنی عاقبت سدھارنے کیلئے مصنوعی طریقوں پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ بھیک کیوں دی جارہی ہے کیا آپ معاشرے کے اس فرد کو معذور نہیں کر رہے جسکے ہاتھ پائوں سلامت ہونے کے باوجود بھیک مانگ رہے ہیں۔کہیں ہم ثواب کے نام پر اپنے رب کو خوش کرنے کے نام پر اسے ناراض تو نہیں کر رہے اسکے بندوں کو معذور بنا رہے ہیں اسکے بندوں کا ایمان بانٹ رہے ہیں۔ آج تو جو انصاف کی بات کرتا ہے ، عدل کی بات کرتا ہے اسے دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں اس پر اسکے خاندان پر زندگی تنگ کردی جاتی ہے پھر یا تو اسے انصاف ترک کرنا پڑتا ہے یا پھر جینا ترک کرنا پڑتا ہے ۔ 
انسان کتنا ہی دولت مند کیوں نا ہوجائے کتنا ہی صحت مند کیوں نا ہو کر رہے وہ اپنے ساتھ ایک ایسا دائمی سچ لئے گھومتا رہتا ہے جو کسی بھی وقت اس سے وہ تمام حیثیتیں اور تمام طاقت صلب کر لیتا ہے اور دنیا کو یہ باور کرادیتا ہے کہ انسان کی حقیقت یہی ہے ۔انسان مرتے رہتے ہیں مگر انسانیت زندہ رہتی تھی مگر اب تو انسان جیتے جی مردہ ہے اور انسانیت اپنا سب کچھ سمیٹ کر دارِ فانی سے کوچ کرچکی ہے۔ اگر انسان کے دل سے خداخوفی ختم ہوجائے یا پھر آب حیات نامی شے ہاتھ لگ جائے تو پھر انسان اپنا وہ روپ دیکھائے کہ ہلاکو خان جیسے بھی شرما جائیں۔ آج دنیا میں بہت بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں نے انسانیت کی خدمت کیلئے ادارے بنائے ہیں اور یہ ادارے بہت قابل تعریف کام کر رہے ہیں مگر جو لوگ انسانیت کوبرباد کرنے کا کام کر رہے ہیں وہ بہت کم ہیں لیکن جب اچھائی خاموش رہتی ہے تو برائی چاہے کتنی ہی قلیل کیوں نا ہو وہ سب کچھ برا کرکے دیکھاتی چلی جاتی ہے ۔ 
انسان ہی انسانیت کو مٹانے کے درپے ہیں اور انسان ہی انسانیت کے دفاع پر بھی ہیں مگر جو دفاع کرنا چاہتے ہیں انہیں ہی انسانیت کو مٹانے والے انسان تصور کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ وقت ایک لامتناہی فاصلہ طے کر کے واپسی کی جانب بہت تیزی سے سفر کر رہا ہے اور حساب کتاب تو سب نے دینا ہے ، آپ کیوں اس عارضی ٹھکانے کو مستقل ٹحکانہ سمجھ بیٹھے ہو۔ آج دنیا میں ہر شے بہت با آسانی دستیاب ہے مگر سب سے زیادہ انمول اور نایاب انسانیت ہے۔ ہم سب نے مل کر انسانیت کا قتل کیا پھر اسے دفنانا بھول گئے آج انسانیت کی لاش تلاش کرنے میںبے تہکان انسانوں کا خون بہائے جا رہے ہیں۔ زمین پر ناحق خون بہہ رہا ہے کہیں زمین اناج دینا نا بند کردے ، کہیں زمین پانی دینا نا بند کردے کہیں درختوں پر پھل اگنا نا بھول جائیں۔ وقت ہے یا نہیں یہ کسی کو معلوم نہیں ہے قدرت انتقام لے گی تو کوئی مذہب کوئی علم اسے راستے کو روکنے کا اہل نہیں ہوگا۔ 

اتوار، 8 اپریل، 2018

طے شدہ معاملات کو ہدف نگاہ بنایاجائے

طے شدہ معاملات کو ہدف نگاہ بنایاجائے  ایک بستی کشمیر کی بستی ہے جس کے ہر ایک فر د کا تعلق حسینی قافلہ سے ہے ، اس قافلہ سے حق کا فیض قیامت تک جاری رہے گا ، آزادی حق کاسورج طلوع ہو کے رہے گا مگرابھی کچھ ذمہ داریوں کا بوجھ باقی ہے ،احساس کی شدت کا بیدار ہونا بھی کہیں راستے ہی میں رہ گیا ہے ،منیر نیازی یاد آئے 
اس نگر میں اک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی 
افغانوں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے اہل کشمیر نے پنڈت بیر بل کو کسی نجات دہندہ کی تلاش میں والی پنجاب رنجیت سنگھ کے پاس بھیجا ۔ بیربل کے تحریک پر رنجیت سنگھ کشمیر پرحملہ آور ہونے کے لیے آمادہ ہوگیا ، اسے پہلے دوحملوں میں کشمیر پر قبضہ کر نے کا موقع نہ مل سکا مگر 1819؁ء میں رنجیت سنگھ کشمیر پر قابض ہو نے میں کامیاب ہو گیا ، اس کی وفات کے بعد سکھ سرداروں نے اس کی بیوہ رانی جنداں کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ، رانی نے اپنے سات سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کے سر پر بادشاہت کا تاج سجایااور حکومت کا نظام خو دسنبھال لیا تا ہم خانہ جنگی عروج پر رہی ، سکھ فوج کے وفادار رانی اور وزیرکے خلاف بغاوت کے منصوبے ترتیب دینے میں مصروف ہوگئے جب رانی کو علم ہو ا تو اس نے اپنی فوج کے جرنیلوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اب سکھ فوجیں ستلج کے پار انگریز ی علاقوں پر چڑھائی کر نے میں مصروف تھی کہ 24دسمبر 1845؁ء جنگ چھڑگئی ۔ اس ناز ک صورت حال میں رانی نے والئی جموں گلاب سنگھ کو مدد کے لیے لاہور بلا لیا، گلاب سنگھ نے جرنیلوں کو فوری طورپر جنگ بندی کا حکم دیا مگر خون ریز معرکہ ہو کے رہا ۔ جس میں سکھ افواج کو شکست ہوئی ۔
16مارچ 1846؁ء کوایسٹ انڈیا کمپنی ( انگریزوں ) اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین دس دفعات پر مشتمل ایک معاہدہ طے پایا ، جس کی رو سے دریائے روای سے لے کر دریائے سند ھ کے مابین چمبہ اور ہزارہ کا علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا گیا جس کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کو 75لاکھ نانک شاہی سکے تاوان جنگ کے طور پر ادا کرنے تھے ۔ گلاب سنگھ جانتا تھا کہ رانی اور اس کی سکھ برادری تاوان کی یہ رقم ادا کر نے سے قاصر ہے چنانچہ اس نے انگریزوں کو یہ رقم اپنی طر ف سے ادا کر نے کی آفر کی جس کو انگریزوں نے شرف قبولیت بخشا اور کشمیر کی حکمرانی گلاب سنگھ کے سپرد کر دی ، کشمیر اس کے حوالے تھا مگر ضرورت پڑنے پر وہ انگریزوں سے مدد طلب کر سکتا تھا ، یہی لمحات کشمیر کے لیے بد قسمت ٹھہرے جنہیں ’’معاہدہ امرت سر‘‘کے نام سے یاد کیا جا تا ہے ۔ 
کشمیری آزادی کشمیر کی تاریخ اپنے لہو سے رقم کر رہے ہیں ، برھان وانی کی شہادت کے بعد اب تحریک نوجوان طبقہ کے ہاتھ میں ہے ، آئے روز تحریک آزادی زور پکڑتی جا رہی ہے ۔ پچھلے ایک ہفتہ سے بھارتی فوج کی طرف سے ضلع شوپیاں کے علاقوں درا گد اور کچدورا کو محاصرے میں لیکر گھر گھر جعلی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ، اس موقع پر اہل علاقہ کی طر ف سے شدید قسم کی مزاحمت کا مظاہر ہ کیا گیا ۔ قابض بھارتی افواج نے اندھادھند فائرنگ شروع کر دی جس سے دونوں اضلاع میں ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے اور آزادی کی اس تازہ لہر میں بیس نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا ، مزید ستم یہ کہ بھارتی افواج نے زخمیوں کو ہسپتالوں تک لے جانے والی ایمبولینس گاڑیوں کی نقل وحرکت پر بھی پابندی لگا رکھی ہے اس کے علاوہ شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کو بھی حالات کا درست رخ قلم بند کر نے سے منع کیا جا تا ہے ،ظلم وجبر کی یہ لہر دنیا کے کسی بھی خطہ میں شاذ ہی نظر آئے گی ۔
 1948؁ء میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان (UNCIP)نے مسئلہ کشمیر کے متحارب فریقین سے بات چیت کے بعد کشمیر میں برپاء جنگ بند کر نے کی تجویز پیش کی تھی جس میں طے پایا تھا کہ فی الفور جنگ بند کی جا ئے گی اور جنگ بند ی کی نگرانی کے لیے لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کی طر ف سے فوجی مبصر تعینات کیے جا ئیں گے اس کے بعد کشمیریوں سے ان کی خواہشات کے مطابق مستقبل کے فیصلے کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔سترسال گزرنے کے باوجود بھارتی افواج کا ظلم وستم تھم نہیں سکا ، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ہونے کا انتظار شدت سے کیا جا رہا ہے ،کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کا یہ بیان کہ کشمیر کا حل سیاسی ہے یافوجی، ہم ابھی تک طے نہیں کر سکے ۔ یہ بیان ایک درد ناک حقیقت کی طر ف اشارہ کر تا ہے ، کشمیر کمیٹی اور باقی متعلقہ لوگو ں کے لیے سوچنے سمجھنے کا وقت ہے ، پچھلے دنوں پاکستانی سفارت خانے کے عملہ کو ہراساں کیا جا نا اور مبصرمشن کے اراکین کے سامنے لائن آف کنٹرول کے ارد گرد کے علاقوں میں بھارتی افواج کی بلااشتعال فائرنگ کو جس شدت سے عالمی دنیا اور اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانا چاہیے تھا ایسا نہیں ہوسکا ،مقبوضہ علاقے میں مبصر مشن کو حالات کا جائز ہ لینے کی اجازت نہیں، اس کو بھی عالمی دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے ۔ کچھ نیا کرنا اگر ممکن نہیں تو پرانے طے شدہ معاملات یعنی اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر فی الفور عمل درآمد پر تو زور دیا جاسکتا ہے ،متعلقہ لوگوں کی اب تک کی کارکردگی تو دل لہو لہو کر رہی ہے ۔ 

سرکاری تعلیمی ادارے میں خوبصورتی،خوشبو اور علم کی آمیزش

 سرکاری تعلیمی ادارے میں خوبصورتی،خوشبو اور علم کی آمیزشاس وقت ملک بھر میں سرکاری تعلیمی اداروں کی مجموعی طور پر جو حالت ہے ان پر شرم آنے کے ساتھ ساتھ بہت دکھ ،تکلیف اور مایوسی ہوتی ہے ایک جانب ہماری کوئی بھی سرکار شعبہ تعلیم بارے کوئی انمٹ،شاندار،یادگار اور جاندار پالیسی دینے سے قاصر رہی جن سے ہماری نسل میں نکھار اور اندھیرے روشنیوں میں بدل جاتے، ان کا دھیان اس جانب نہیں جو اندھیرے دور کرتے ہیں بلکہ اس جانب ہے جہاں سے دولت کے ساتھ وہ مصنوعی اور نمائشی کاموں کی بھرمار جنہیں روشن کرنے یا رکھنے کے لئے قوی سرمایہ کے ساتھ ساتھ ایسے دماغوں کی ضرورت رہتی ہیں جنہیں ہم کسی بہتر پالیسی کی بدولت خود تخلیق کر سکتے ہیں،اس شعبہ کے لئے قومی خزانے سے انتہائی قلیل بلکہ شرمناک بجٹ اور اس میں بھی Divertionہو تو ترقی کا خواب کسی کلر اور سیم زدہ زمین کی مانند ہو گا،اوپر سے ہماری سرکار نے اس شعبہ کو تجربات کی بھٹی بنا رکھا ہے،ہر سال نصاب کی تبدیلی،کبھی امتحان نظام میں تبدیلی،کبھی چیک اینڈ بیلنس میں تبدیلی غرضیکہ نظام کے چیتھڑے ادھیڑ دئے جاتے ہیں ،اساتذہ کی عزت نفس تک کا کوئی خیال نہیں ،اب اگر دوسرے زاویہ سے دیکھا جائے تو حکومتی نا اہلیوں کی طرح تعلیمی اداروں میں تعینات سربراہان،ساتذہ کی کثیر تعداد بھی ایسے کرداروں پر مشتمل ہے جنہیں سوائے تنخواہ یا دستیاب فنڈز کو ہڑپ کرنے کے کچھ اور کام نہیں ،ان حالات میں معاشرتی و قومی ترقی ناممکن ہے مگر کچھ ایسے کردار ضرور زندہ ہیں جو ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے جن کا جذبہ،سوچ،فکر،پالیسی،درد مندی،ہمدردی ،محبت ،خلوص اور نیک نیتی سے انہی وسائل کے ساتھ جو دیگر اداروں کو بھی دستیاب ہیں کی نسبت ان کے ادارے ہر لحاظ سے کہیں زیادہ بہتر،خوبصورت ،خوشبواور علم کی آمیزش سے یوں لبریز ہوتے ہیں جن سے کئی نسلیں سدھر جاتی ہیں ایسے کرداروں بلکہ لاجواب کرداروں کو سراہنا،ان کی انسان دوست سوچ اور اپنے وطن سے محبت میں سرشاری کو اجاگر کرنا ہم جیسوں کا بنیادی فرض ہے ہم لوگ جہاں معاشرتی برائیوں کو اجاگر کرتے ہیں وہیں ہمیں ایسے عظیم کرداروں کو بھی نمایاں ترین کرنا چاہئے کس کو نہیں پتا کہ ملک بھر میں تعلیمی گراف کس قدر گراوٹ زدہ ہے،ایسے میں کوئی بھی ادارہ عظیم ترین شکل اختیار کر جائے تو وہ اس علاقے کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں،پرنسپل گونمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اوکاڑہ ظفر علی ٹیپو کی دعوت پر الراقم اور برادرم عابد مغل ڈسٹرکٹ یونین آف جرنلسٹس اور سٹی پریس کلب اوکاڑہ کے عہدیداران و ممبران کے ہمراہ کالج پہنچے جہاں جشن بہاراں کے سلسلہ میں تین روزہ پھولوں کی نمائش جس کا ایک روز قبل ہی ڈی سی اوکاڑہ ڈاکٹر ارشاد احمد نے افتتاح کیا تھا جبکہ تیسرے روز میاں محمدمنیر صوبائی پارلیمانی سیکرٹری نے اس نمائش کاوزٹ کیا،صحافیوں کے وفد میںمرکزی سیکرٹری جنرل RUJُ پاکستان عابد مغل ،ََُDUJ اوکاڑ ہ اور سٹی پریس کلب اوکاڑہ کے صدور مظہر رشید چوہدری اور احتشام جمیل شامی(دونوں بھائی ہی کالم نگار اور شاعر ہیں)،رائے امداد حسین کھرل،ڈاکٹر مہر محمد سلیم،خادم حسین کمیانہ،سجاد احمد بھٹی،میاں مزمل حسین جوئیہ،نثار احمد جوئیہ ،شکیل عاصم، عاشق مغل،تسکین کمبوہ،منشاء نوید ،عرفان اعجاز چوہدری شامل تھے ،اس موقع پر ڈائریکٹر کالجز ساہیوال ڈویژن رانا عبدالشکور،ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز اوکاڑہ محمد اقبال ڈھلوں،پروفیسر کاشف مجید (شاعر) پروفیسر حامد خان اور سینئر صحافی شہباز ساجد بھی موجود تھے،پرنسپل ظفر علی ٹیپو نے ہمیں پھولوں کی نمائش جس میں درجنوں اقسام کے خوبصورت ترین پھول تھے ایک پلاٹ جس میں صرف دیسی گلاب اپنی خوشبوئیں بکھیر رہا تھا کے علاوہ مختلف بلاک کا وزٹ کرایا،یقین نہیں آ رہا تھا کہ نظم و ضبط سے بھرپور یہ وہی تعلیمی ادارہ ہے جو کبھی ہماری بھی درس گاہ تھا اس وقت شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب وہاں لڑائی جھگڑا نہ ہوتا ہو،آئے روز پولیس کی نفری کا وہاں موجود ہونا ،پڑھائی اور طلباء کی تعداد برائے نام ،لوگ بچوں کو یہاں کی بجائے گورنمنٹ کالج ساہیوال میں داخل کرانے کو ترجیح دیتے، آج وہ وہی اپنی مثال میں یکتا لگ رہا تھا،اصل میں ظاہری خوبصورتی تو ہر کوئی آرٹیفیشل طریقے سے بنا لیتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ خوبصورتی بدبودار نہ ہو بلکہ اس کا انگ انگ خوشبو بکھیر رہا ہو،کئی خوبصورت چہرے غلاظت سے لتھڑے ہوتے ہیں کئی عالی شان عمارتیں اندر سے دنیا جہان کی کمینگی سمیٹے ہوتی ہیں ،در حقیقت اندر کی خوبصورتی ہی اصل خوبصورتی ہے جس کا عملی مظاہرہ اس کالج میں نظر آ رہا تھا،پرنسپل ظفر علی ٹیپو سے پرانی گپ شپ ہے جب سے انہوں نے اس ادارے کی چیر حاصل کی تب سے یہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کی طرف گامزن ہو گیا،جہاں کبھی بچوں کی تعداد2000تک نہیں پہنچتی تھی اب وہ انرولمنٹ6ہزار کو کراس کر چکی ہے،کالج کے اندر تمام راستے صاف ستھرے اور پختہ،ہر لان میں سبزہ ہی سبزہ،بیٹھنے کے لئے بینچز،پوسٹ گریجویشن طلبا و طالبات کے لئے نئی بلڈنگ کی تعمیر جاری،ہر سال طلبا ء طالبات کی تعداد میں اضافہ،مستحق سٹوڈنٹس کے واجبات ڈونرز کے ذریعے تا کہ کوئی تعلیم جیسی عظیم نعمت سے محروم نہ رہ جائے،کالج میں باقاعہ اسمبلی کا انعقاد،بغیر یونیفارم سٹوڈنٹس کالج نہیں داخل ہونا نا ممکن،کالج کی مسجد عام پبلک کے لئے بھی کھلی جہاں نماز جمعہ اور ماہ رمضان میں تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے،پھولوں کی اس نمائش کو دیکھنے کے لئے شام کے بعد جوق در جوق فیملیاں آتی ہیں،در اصل پھولوں کی یہ خوبصورتی ظاہری نہیں بلکہ ان میں وہ خوشبو ہے جو نہ صرف سانسوں کو بلکہ دلوں کو،ذہنوں کو ،سوچ کوزیور تعلیم سے یوں آراستہ کرتی ہے جو معاشرے کے نکھار تک پہنچتی ہے،ظفر علی ٹیپو کی انتھک کوششوں سے تعلیمی اس ادارہ کا تعلیمی معیار دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کوئی سرکاری ادارہ نہیںبلکہ مہنگا ترین کوئی پرائیویٹ کالج ہے، کالج میں ہر پیریڈ کو باقاعدہ چیک کیا جاتا ہے جبکہ خود پرنسپل روزانہ دو پیریڈ چیک کرتے ہیں کہ تدریسی عمل کیا چل رہا ہے اس کے علاوہ ہر ہفتے ہر کلاس کے ہر سیکشن میں طلبا کا تحریری ٹیسٹ لیا جاتا ہے جس کی مارکنگ کے بعد وہی ٹیسٹ پیپرز پرنسپل آفس پہنچانے ہوتے ہیں جہاں شام کو یا کسی فری وقت ظفر علی ٹیپو متعلقہ پروفیسر یا لیکچرار کا مارکنگ لیول خود چیک کرتے ہیں ،اصل بات نیت کی ہے ان کے حق میں یوں لکھنا در حقیقت ان کی انتھک کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے ،وہ ہیں ہی اس قابل ،ان کی تدریسی ٹیم،معاون ٹیم و دیگر شعبوں میں تعینات چھوٹے ملازمین سب قابل تعریف ہیں جو راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے ان کے شانہ بشانہ چل کر اس ادارے کی نیک نامی میں نہ صرف اضافہ کر رہے ہیں بلکہ ضلع اوکاڑہ کی نئی نسل کو بہتر انداز میں تعلیم و تربیت فراہم کر رہے ہیں جو کہ سرکاری اداروں میں مجموعی طور پر نہ ہونے کے برابر ہے ،ظفر علی ٹیپو نے صرف پھول ہی نہیں سجا رکھے وہ تو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے اندر کی خوشبو سے سب کچھ معطر کر رہے ہیں یہاں وہ ظاہری خوبصورتی نہیں تھی جس کے اندر گند ہوتا ہے،نو خیز نسل کو قوت احساس ،فکری بالیدگی ،اخلاقی پاکیزگی ،آداب زندگی اورآداب معاشرت سے متعلق وسعت آشنائی کی جانب لے جانے والے بہتر ی کی جانب ڈھالنے والے یہ کردار جانتے اور سمجھتے ہیں کہ دین اسلام میں علم اور تعلیم حیات اسلامی کے لئے اسی طرح ناگزیر ہے جس طرح طبعی زندگی کے لئے ہوا اور پانی ہے،معلم کا کردار نہایت بلند اور قابل رشک ہے والد کے بعد اس روحانی باپ سے بڑھ کر کوئی زیادہ اہم اور واجب التعظیم نہیں جو ان کو قلب و روح کی غذا فراہم کرتا اور ان کے فکرو شعور کو جلا بخشتا ہے،کاش تمام سربراہان ادارہ جات ظفر علی ٹیپو اور ان کی ٹیم کی تقلید کریںپھر ہمہ وقت پائیدار خوشبو ان کے انگ انگ سے بھی ٹپکے گی۔

ہفتہ، 7 اپریل، 2018

ٹیکس ایمنسٹی سکیم

 ٹیکس ایمنسٹی سکیم کسی بھی ملک ،ریاست کی تعمیر و ترقی یاتنزلی و بربادی کا دارو مدار معیشت پر ہی ہوتا ہے،وسائل کم ہوں یا زیادہ مگر حقیقت یہی ہے کہ نیت درست ہو،لوٹ مار کا عنصر قریب تک نہ ہو،ہر ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دی جانے کی سوچکا دائرہ وسیع ہو تو قومیں اور ریاستیں ترقی کرتی ہیں،کوئی لاکھ دعوے کر لے ،مگر مچھ کی طرح ٹسوے بہا لے مگر حقیقت یہی ہے کہ اس وقت پاکستانی معیشت تاریخ کے بد ترین بحران کا شکا ر ہے،بیرونی اور اندرونی قرضوں نے ملک کھوکھلا کر دیا ہے اگر یہی صورتحال اپنی اسی رفتار سے جاری رہی تودنیا کی کوئی طاقت بد نما لیڈروں کی غلط ،ناقص اور لوٹ مار پالیسی کی بدولت اسے تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا،ہر آنے والے نے ملکی معیشت کو درست سمت لے جانے کے بلند و بانگ دعوے کئے مگر آج تک کوئی بھی رہنماء پاکستان کو اس دلدل سے نہیں نکال پایا الٹا ان کی وجہ سے پاکستان مزید دھنستا چلا گیا،کئی دہائیوں سے قومی معاشی پالیسی جعل سازی کا شکار ہے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں قوم کو الجھا دیا جاتا ہے،ملک تباہی کی جانب اور ایوانوں میں بسیرا کرنے والے ترقی کی جانب گامزن ہیں،کرپشن کے خاتمہ کے لئے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ،پاکستانی عوام کی اکثریت اچھے لوگوں کی ہے لیکن وہ خاموش ہیں یہاں خاموشی توڑنا پڑے گی اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنے پڑے گا،یہاں سچ دھندلا گیا ہے کرپشن کے خلاف بات تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن عمل اس کے خلاف ہوتا ہے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر کوئی سنجیدہ نہیں،اب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستانی تاریخ کی 9ویں انکم ٹیکس کے حوالے سے ایمنسٹی سکیم متعارف کرا دی ان کے مطابق اس وقت صرف 7لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیںاور یہ محدود تعداد معاشی مسائل پیدا کر رہی ہے جو لوگ ٹیکس نہیں ادا کرتے یا ان کے بیرون ملک اثاثے ہیں تو وہ صرف دو فیصد جرمانہ ادا کر کے کالا دھن سفید کرا سکتے ہیں،شاہد خاقان عباسی نے اسی موقع پر آف شور کمپنیوں کو بھی قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا یہ کمپنیاں جرم نہیں ،ماضی میں پہلی بار جنرل ایوب خان(1958) پھر جنرل یحیٰ خان(1969) ،ذوالفقارعلی بھٹو(1976)،جنرل ضیاء الحق (1979)،میاں محمد نواز شریف (1997)،پرویز مشرف (1999)،یوسف رضا گیلانی (2008)اور میاں محمد نواز شریف (2016)میںبھی اس سے ملتی جلتی سکیمیں لائی گئیںمگر فائدہ کچھ نہ ہو سکا اگر ہوتا تو آج کیا پاکستان کی معاشی حالت یہ ہوتی؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو میاں نواز شریف کے تیسری مرتبہ منتخب وزیر اعظم کی طرح تیسری مرتبہ ہی ایمنسٹی سکیم لانے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے، گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سو کمپنیاں ایسی ہیں جو431ارب روپے ٹیکس ادا کرتی ہیں جبکہ ہزاروں کمپنیوں میں سے صرف10ہزار ٹیکس ادا کرتی ہیں،عجب بات تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں ٹیکس چوروں کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جاتی ہے مگر یہاںالٹی گنگا بہتی ہے یہاں اگر کبھی کوئی سکیم لائی گئی تو اس نے صرف امراء اور سیاستدانوں کے مفادات کو ہی تحفظ دیا اسحاق ڈار نے بتایا تھا کہ کم از کم 6کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں جبکہ غربت اس سے کہیں زیادہ ہے ،عالمی اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں غربت کی یہ 44.2فیصد ہے جو کہ حکومتی اعداد و شمار سے29.5فیصد زیادہ ہے ، جون2017تک حکومت کی جانب سے پبلک کی گئی ڈیبٹ مینجمنٹ رسک رپورٹ جو کئی حلقوں کی جانب سے شدید دبائو کے بعد جاری کی گئی تھی کے مطابق مالی سال کے اختتام تک حکومت کی جانب سے قرضوں کا حجم 21.4ٹریلین روپے تک جا پہنچا ہے جو مجموعی قومی آمدنی کا 67.2فیصد بنتا ہے حالانکہ ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں بھی کئی اعداد و شمار چھپائے گئے ،اس دوران قلیل مدتی قرضون کو جنہیں بطور رینٹ انٹرنیشنل ریزرو (NIR) کہا جاتا ہے شامل نہیں کیا گیاNIRمجموعی غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر اور اس سے متعلق حقائق کا فرق واضح کرتا ہے جون2016تک قلیل مدتی غیر ملکی قرضوں کو بطور NIRکی شرح 76.5فیصد تھی مگر اس رپورٹ میں بھی کئی اعدادو شمار شامل نہیں تھے اس وقت سٹیٹ بینک کے پاس سرکاری طور پر مجموعی ذخائر18.2بلین ڈالر تھے تو نیٹ ذخائر کا حجم صرف7.5بلین ڈالر تھا،اس رپورٹ پر شدید تنقید ہوئی کہ اسحاق ڈار نے قومی معیشت اور عوام کو قرضوں کے انتہائی برے جال میں پھینک دیا ہے کیونکہ قومی معیشت کے زیادہ تر اشاریے خطرناک صورتحال کی غمازی تھی،قومی اور بین الاقوامی قرضوں کی صورتحال بھی مزید ابتر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا قرضوں کے حوالے سے پیدا ہونے والی یہ کمزور ترین شرح مسلم لیگ کے ابتدائی تین سال 8ماہ میں سب سے کم تھی،بعد ازاں حکومت نے مزید 10ارب ڈالرز کے قرضے حاصل کئے جو غیر ملکی قرضوں ، سود کی ادائیگی اور زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سنبھالا دینے کے لئے تھے،حکومت نے یہ قرضے مختلف اداروں سے قلیل مدتی مگر زیادہ شرح سود پر حاصل کئے تھے ،کئی سال قبل سٹیٹ بینک کے سابق گورنر و ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں ورلڈ بینک،آئی ایم ایف،ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ کے طویل المعیاد قرضے کم شرح مارک اپ کے ہوتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ لینے چاہئیں تاکہ ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے،ان قرضوں میںحکومت نے 2.3ارب 90کروڑ ڈالرچین سے لئے جن میں قدرے زائد شرح سودکے 1.2ارب 30کروڑ ڈالر کے تجارتی جبکہ باقی باہمی تجارت کے قرضے ہیں،12ارب ڈالر قرضے میں سے4ارب 40کروڑ ڈالر قلیل المدتی تجارتی قرضوں کا ہے جن کی شرح سود عام مالیاتی اداروں کی نسبت بہت زیادہ ہے،یہ مہنگے قرضے سود اور اقساط میں خرچ کئے گئے،اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کا طویل المدتی قرضوں کی بجائے قلیل المدتی تجارتی قرضوں پر بڑھتا ہوا رجحان انتہائی باعث تشویش ہے،یہ قرضے چائنہ ڈویلپمنٹ بینک ،انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنہ کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے نور بینک سے ساڑھے44کروڑ ڈالر،سوئز کنسورشیم ،اے بی ایل ،یو بی ایل سے65کروڑ ڈالر،سٹی بینک سے ساڑھے27کروڑ ڈالراور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سے 70کروڑ ڈالر حاصل کئے گئے،موجودہ حکومت مجموعی طور پر 40ارب ڈالر کا قرضہ لے چکی ہے آخری کئی ماہ سے تواوسطاً ہر ماہ ایک ارب ڈالر کا قرض لیا جا رہا ہے آخر معاشی طور پر ہم کھڑے کہاں ہیں سوائے حکومت کے کسی کو کچھ پتا نہیں ہماری قومی معاشی پالیسی اور خزانے کا ذمہ دار ہے کون؟دنیا بھر میں معاشی پالیسی کو10سال کے لئے بنائی جاتی ہے اور یہاں تجربات کی ہنڈیاں ہر وقت چولہے پر رہتی ہے،حکومت کے آخری چند ماہ ہیں مگر عوام کی حالت کیسے اور کب سدھرے گی یہ روٹی کھاتے ہیں نعرے نہیں،علاج کے بیرون ملک جانے والے نیب زدہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں نے بیڑہ غرق کر دیا مگر وہ بیمار شخص ٹی وی پر آکر اپنی ہی حکومت پر چڑھ دوڑتا ہے معیشت کو ٹھیک کر کے تو دکھائو ؟ عجب بات ہے،وہ یہ بھول گئے ہیں کہ انہی کی پالیسی کے تحت لئے گئے قرضوں پر اربوں ڈالر تو سود کی مد میں قومی خزانے سے چھلانگ لگا جائیں گے،ملکی وسائل کا استعمال تک نہیں کیا گیا فلاحی و ترقیاتی کام کہاں سے ہوں گے حکومت اس کام کے لئے رکھے فنڈز کا بھی اجراء نہیں کر پائی ،1001ارب روپے میں سے 400ارب روپے جو مختلف منصوبوں کے لئے مختص تھے وہ حکومتی اخراجات کی نذر ہو گئے،کیا شاندار معاشی پالیسیاں ہیںکبھی ہم موٹروے ،کبھی ائیر پورٹ،کبھی پورٹ گروی رکھتے ہیں اس کے باوجود عوام کے مفاد سے منسلک کوئی پالیسی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی،برآمدارت ختم ہو چکی ہیں درآمدات آسمان کو چھو رہی ہیں،قوم قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی مگرمحلات ایوان صدر روازنہ25لاکھ اور وزیر اعظم ہائوس روزانہ20لاکھ روپے خرچہ ہے اسی طرح کے درجنوں شاہی محلات غریبوں کا خون نچوڑ رہے ہیں گذشتہ صرف ایک سال میں 14لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت اور ناقص غذائوں جن کی بنیادی وجہ مہنگائی تھی سے ہلاک ہوئے،ملکی سرکلر ڈیڈ 1000ارب کو چھو رہا ہے ہر قومی ادارے میں خسارا ہی خسارا جس کا جن قابو سے باہر ہے،10ماہ میں 10ارب ڈالر کا خسارا ہو چکا جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں 17.5ارب ڈالر کی کمی واقع ہو چکی ہے، لگتا ہے آنے والے وقت میں گشکول نہیں بلکہ بھیک لینے کے لئے کوئی بڑا برتن پکڑنا پڑے گا،لیبیا کے کرنل قذافی مرحوم کے بیٹوں نے انڈیا میں پراپرٹی خریدی جس کا کیس انڈین ہائی کورٹ تک پہنچ گیا18ماہ کیس چلا اور بیرون ملک خریدی گئی جائداد کی نیلامی کر کے اسے فروخت کر دیا گیا،یہاں کی اشرافیہ دوبئی،لندن سمیت کئی ملکوں میں بلیک منی کے ذریعے نہ صرف جائداد خرید چکی ہے بلکہ ان کے بیرون ملک کاروبارکسی جیٹ طیارے کی طرح تیز ترین رفتار سے بلندیوں کو چھو رہی ہے،یہاں ہر آنے والا حکمران معاشی طور نہ صرف ملک کا بیڑا غرق کرتا ہے بلکہ سب سے زیادہ شور بھی وہی مچاتے ہیں کہ آنے والے سب کھا گئے،ملک کو معاشی طور پر ان نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ ملکی سلامتی دائو پر لگ چکی ہے،ہمارے لیڈران کے اربوں ڈالر رہبروں کی مرضی و منشا اور سرپرستی کی بدولت سوئس بینکوں میں پڑے ہیں مگر ہمارا اپاہج نظام جو یرغمال بھی انہی کے ہاتھوں ہے جن کی یہ رقم ہے تو بھلا اس کی واپسی کیسے ممکن ہے انہی سوئس بینکوں سے تیونس نے 61لاکھ ڈالر،مصر نے 65لاکھ،یوکرائن نے70ارب ڈالر واپس لئے ہیں بھارت بھی ایسی جدوجہد کے ثمرات کسی حد تک مل چکے ہیں اور مزید واپسی جلد متوقع ہے،اب پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر نے غریب آدمی کی کمر سرے سے ہی توڑ دیا ہے،سیمنٹ،سریا سمیت دیگر تمام تعمیراتی سامان کی قیمتوں ہوش ربا اضافے سے عام آدمی تو اپنے لئے چھت بھی نہیں بنا سکتا،ماضی میں کالا دھن سفید کرنے والی اسکیموں سے ہمیشہ اشرافیہ کو ہی فائدہ پہنچا ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے آخری دو ماہ میں جاری کی جانے والی اس سکیم سے بھی وہ لوگ زیادہ فائدہ اٹھائیں گے جنہوں نے پاکستانی مہنگے ترین یورو بانڈز خریدے تھے جن کا مجموعی تعلق بر سر اقتدار پارٹی سے ہے،بلاول بھٹو نے اس ایمنسٹی سکیم کو پانامہ ایمنسٹی سکیم قرار دیا،سینیٹر رضا ربانی نے اس سکیم سے محنت کش طبقے کو مزید نقصان ہو گا،پی ٹی آئی کے اسد عمر نے کہا اس سکیم کا سب سے زیادہ فائدہ سیاستدانوں کو ہی ہو گا،2016کی عالمی رینکنگ کے مطابق اکائونٹ بیلنس میں پاکستان کا161/199واں،ایکسپورٹ کم کرنے کی بجائے ہم66ویں نمبر ،درآمدات پر ہمارا اتنا زیادہ انحصار ہے کہ ہم اس سلسلہ میں55ویں نمبر پر ہیں ،جی ڈی پی میں ہم 158ویں پوزیشن پر تھے،شدید معاشی پالیسیوں کی بدولت تازی ترین اعداد و شمار ان سے بھی کہیں بد تر ہیں پھر کہا جتا ہے کہ بہت ترقی ہوئی،بہت ترقی کر رہے ہیں،عوام کی حالت سدھاری ،ادندھیرے ختم کئے ہو اس کے بر عکس رہا عوام کی حالت مزید بگاڑی ،اندھیروں کا جن بے قابو اور جو پچھلے دنوں سے روپے کی قدر میں کمی اس کی بے حرمتی ایسے ہی نہیں ہوئی بلکہ کئی لوگ راتوں رات کروڑوں روپ کما گئے،یہ سلسلہ مزید جاری ہے آج بھی 10پیسے مزید کمی ہوئی بھلا ایسے مہنگائی کم ہو گی یا زیادہ ؟غذائی اشیاء کی قیمتوں کی پرواز بلند تر ہوتی جا رہی ہے،نئی اسکیمیں لانے والوں کو یقیناً یہ خبر نہیں ہو گی کہ ہر عام آدمی سوائے سانس لینے کے ہر چیز پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ کن گناہوں کی بھینٹ چڑھنے کے لئے پیدا ہو کر اس دھرتی پر غلامانہ اور بے بسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں؟موجودہ حکومت جاتے جاتے بجٹ پیش کر کے جائے گی جس کے لئے پیسہ ہونا ضروری ہے اور ساتھ ساتھ چھپایا گیا کالا دھن بھی سفید ہو جائے گا۔

جمعہ، 6 اپریل، 2018

حق گوئی کی سزا تو ملے گی!

حق گوئی کی سزا تو ملے گی!مغرب میں ہونے والی زیادتیوں پر وہ لوگ بھی تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں جن کیساتھ زیادتی ہوئی ہوتی ہے یا پھر ان کا بیانیہ اس بات کو خاطر میں رکھتے ہوئے دیا جاتا ہے کہ ہمارا ملک ہمارا معاشرہ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتی سے کہیں گنا زیادہ اہم ہے ۔ اس عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو پورے معاشرے کی بدنامی کا باعث بنانے کیلئے تیار نہیں ہوتے ۔یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ ہونے والی زیادتی کا خود کو حقدار سمجھتے ہوں اور اپنی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کی سزا سمجھ کر خاموشی سے قبول کرلیتے ہوں، یا اس سے مماثلت رکھتی ہوئی بات کہیں ان کے لاشعور میں رہتی ہو۔ وہ حق تلفی کرچکے ہوتے ہیں (بطور فرد یا پھر بطور قوم )جسکی وجہ سے وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو اپنی کی ہوئی حق تلفی کا ازالہ سمجھ کر خاموشی سے برداشت کرلیتے ہیں۔ شائد جو لوگ سوچتے اور سمجھتے ہیں ان میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے ۔ اس سے کم از کم یہ تو ہوتا ہے کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کی سعی رائیگاں چلی جاتی ہے ۔ دور حاضر میں علم ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے سے کہیں زیادہ دشمن کی چالوں کو ناکام بنانے کیلئے ضروری ہے ۔ جو لوگ بین الاقوامی میڈیا سے جڑے رہتے ہیں انہیں معلوم ہے آئے دن کہیں نا کہیں کوئی ایسا واقع ضرور ہوتا ہے جس میں انسانی جانیں بھی جاتی ہیں اور دیگر نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے مگر یہ سب کچھ کرنے والا غیر معمولی فرد نکلتا ہے ، غیر معمولی کا مطلب ایبنارمل بھی لے سکتے ہیں۔ ہمارا میڈیا کس کی زبان بولتا ہے اس بارے میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ ترقی یافتہ معاشروں میں جھوٹ دھوکا فریب جیسی چیزیں کم ملتی ہیں، یہ لوگ اپنے آپ سے بھی سچ بولتے ہیں اپنے غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں اور اندر ہی اندر ان پر نادم بھی ہوتے ہیں اور جیسے ہی حالات و واقعات سازگار ہوتے ہیں یہ ان باتوں کا ازالہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ 

تین طرح کے افراد سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے ایک تو وہ جو سچ بولتے ہیں دوسرے وہ ہیں جو بولتے ہی نہیں ہیں اور تیسرے وہ جو سچ اور جھوٹ ملا کر بولتے ہیں۔ لیکن سچ بولنے والوں کی مقدار بہت قلیل ہے ، ایسا نہیں کہ لوگ سچ بولنا نہیں چاہتے مگر لوگ اپنی مختلف ذمہ داریوں کی آڑ لے کر راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں اور معاشرے میں جھوٹ بولنے والوں کو کھلا میدان دے دیتے ہیں۔ ایسا ہی چلا آرہا ہے شائد ماضی میں سچ بولنے والوں نے سچ بولنا شروع کیا ہوگا مگر پھر زندگی اور موت کے درمیان فیصلہ کرنے کی صورت میں خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھائی گئی ہوگی۔لوگوں کی ایک کثیر تعداد سچ اور جھوٹ کو ملاکر معاشرے کے سامنے رکھتے ہیں اور معاشرے سے یہ توقع لگا لیتے ہیں کہ یہ خود فیصلہ کرلیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ۔ ایسے لوگ جو سچ اور جھوٹ ملا کر پیش کرتے جا رہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں استحکام نہیں آنے دیتے ۔ یہ ریل کی کبھی نا ملنے والی پٹری کے دونوں جانب ہوتے ہیں۔ اب آپ اندازہ لگا لیجئے ایک سادہ سی بات کہنے کیلئے ایک لمبی سی تحریر لکھنی پڑھ گئی ہے اور وہ سادہ سی بات یہ ہے کہ حق گوئی کی سزا تو ملے گی۔ 

بے قاعدگیاں کسی زہریلے سانپ کی طرح ڈستی جا رہی ہیں اور یہ تو طے ہے کہ زہر اثر کرتا ہے ۔ دنیا کو چلانے کیلئے قوانین مرتب کئے گئے ہر ملک نے اپنا پنا قانون بنایا اور ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سزائیں بھی متعین کیں ۔ پھر عالمی عدالتیں بنائیں گئیں جہاں ظلم و زیادتی کی داستانیں رقم کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا ہے اور سزائیں بھی سنائی جاتی رہی ہیں۔ مگر انتہائی دکھ اور تکلیف کیساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ آج تک کوئی عدالت اور عالمی عدالت فلسطین میں کئے جانے والے ظلم کا نوٹس لے سکی ہے ، نا ہی کشمیر میں ہونے والے مظالم پر کسی قسم کا رد عمل دے سکی ہے اور نا ہی شام و افغانستان میں معصوم بچوں کے ناحق قتل عام پر کسی قسم کی آواز بلند کر سکی ہے ۔ یہا ں حساب کتاب ہی الٹا چل رہا ہے جو دہشت گردی کررہے ہیں وہی دہشت گردوں کی فہرستیں بھی مرتب کر رہے ہیں۔ اب حق کی اس آواز کو صرف کشمیر تک محدود نہیں رکھ سکتے ،فلسطین ، افغانستان ، شام یہ بھی اسی کڑی کے سلسلے ہیںکہ حق کیلئے آواز بلند کی جائے گی تو اسے دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور اب تو ہر ممکن بھی واضح ترین ہوچکا ہے کہ حق کیلئے آواز اٹھانے والوں کو اپنی اپنی زندگیاں خراج میں دینی پڑینگی۔ 

جب جھوٹ اور دیکھاوا زندگی کا حاصل جمع ہو تو سچ کو کون پہنچان سکتا ہے شائد پل بھر کیلئے آنکھیں ٹہرتی ہیں شائد پل بھر کیلئے دل دہلتا ہے مگر موبائل پر رکھی ایک انگلی آنکھوں سے اس ایک لمحے کو بہت دور لے جاتی ہے اور دل کو کسی بہلانے والی بات میں لگادیتی ہے ۔ پھر ایسا ہی ہوتا ہے کچھ سنبھلتے ہیں مگر فوراً سے بھی پہلے وہ موبائل کی اسکرین پر رکھی ایک انگلی سب کچھ بدل کر رکھ دیتی۔سماجی میڈیا فلسطین ، شام، افغانستان یا پھر کشمیر ہو موت کا رقص اپنے زوروں پر ہے ، ہم اس رقص سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ گوکہ دشمن ہماری سرحدوں پر بھی آئے دن شہریوں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ تازہ واقعات کا جائزہ لیجئے جو اسرائیل کی بیہمانہ کاروائی میں نہتے فلسطیوں پر گولیوں کی بارش کی گئی اور ماں کے لالوں کو جنت کی جانب روانہ کیا ، پھر بلکل ایسا ہی واقع بزدل بھارتی فوجیوں نے کشمیر ونں پر آزمایا اور پھر افغانستان کے شہر میں قندوز میں مدرسے میں دستار بندی کی تقریب پر ایسا شب خون مارا کہ ساری زمین معصوم بچوں کے خون سے لا ل کردیا (اس دلدوز سانحہ پر ہماری بے حسی دیدنی رہی ہمارا میڈیا ہمارے علماء اور وہ سب جنہیں اس بات پر بھرپور مذمت کرنی تھی ایک لفظ تک نہیں کہا گیا)۔ 

دشمن کی ترجیحات اور اسکے عزائم بہت واضح ہوتے جا رہے ہیںاور یہ سب کے سب درپردہ ایک ہوچکے ہیں ۔ یہ ایک ایک کر کے تمام مسلمان ممالک کو غیرمستحکم کرتے جا رہے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ اب یہ آگ ہمارے گھر تک پہنچنے ہی والی ہے ۔ یہ تصویروں میں اپنے جواں سال لاڈلوں کی لاشوں کے قریب بیٹھی ،روتی ،سروں کو پیٹتی ،سینہ کوبی کرتی مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں ہماری بھی ہوسکتی ہیں ۔ دیکھئے ابھی ہمیں فیصلہ کرنے میں اور کتنا وقت لگے گا ۔ حق کی آواز جب بھی بلند ہوگی اسکا خراج دینا پڑے گا۔ ہمارے لئے سوائے امت کے تصور کو اجاگر کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ، بصورت دیگر حق گوئی کی سزا تو ملتی ہے اور ملتی ہی رہیگی جب تک کہ ایک نہیں ہوجاتے ، فیصلہ ہم نے خود ہی کرنا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی صاحبہ نے دکھ کو زبان ان الفاظ میں دی کہ کیا ہماری تاریخ معصوم بچوں کے خون سے لکھی جائے گی۔ 

جمعرات، 5 اپریل، 2018

مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی بربریت اورہفتہ مذمت

 تحریر: محمدصدیق پرہار
 مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجیوںکی وحشیانہ کارروائیوں ،شہداء کے جنازوںپرفائرنگ سے مزیدچارافرادکی شہادت سے حالیہ دہشت گردی میں شوپیاں اور اسلام آبادکے اضلاع میں شہادتیں بیس ہوگئیں ،قابض فوج نے مظاہرین اورجنازوںکے شرکاء پرفائرنگ کے ساتھ ساتھ پیلٹ گن اورآنسوگیس کابے رحمانہ استعمال کیا۔جس سے دوسوسے زائدافرادزخمی ہوگئے۔جن میں سے متعددافرادکی بینائی ضائع ہونے کاخدشہ ہے۔بھارتی فوجیوںنے جنوبی کشمیرمیں شوپیاں اور اسلام آبادکے علاقوں میںمحاصرے اورتلاشی کی کارروائیوں کے دوران جدیدبارودی ہتھیاروںکااستعمال کرکے متعددمکانوںکوتباہ کردیا۔جن میںسے تیرہ نوجوانوںکی لاشیںنکال لی گئیں۔بھارتی فوج کے وحشیانہ مظالم پرنوجوانوںکی شہادت اورسیکڑوں افرادکے زخمی ہونے پرپوری مقبوضہ وادی میں قیامت صغریٰ برپا ہے۔ہربڑے چھوٹے گائوں اورشہرمیں بھارتی دہشت گردی کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں۔بھاتی فوج کے مظالم اوربربریت کے خلاف وادی میںمکمل طورپرہڑتال رہی سکول ،کالج بندہونے کے ساتھ امتحان بھی ملتوی ہوگئے۔اس دوران شہریوںکی نقل وحرکت روکنے کے لیے مقبوضہ کشمیر بھر میں پابندیاں لگادی گئیں جب کہ کلگام میں کرفیولگادیاگیا۔مقبوضہ کشمیرکی مشترکہ حریت پسندقیادت سیّدعلی گیلانی، ڈاکٹرمحمدعمرفاروق، محمداشرف صحرائی کو گھر میں نظر بند کردیاگیا ہے جب کہ یاسین ملک کوگرفتارکرلیاگیا ہے۔درجنوں حریت راہنمائوںکوپابندسلاسل کردیاگیا ہے۔حریت کانفرنس ع کے سربراہ میرواعظ سمیت درجنوںحریت راہنمائوں کونظربندکردیاگیا۔ریل سروس اورانٹرنیٹ سرو س معطل رہی۔احتجاج کے لیے باہرنکلنے والوںپرگولیاں اورپیلٹ گن سے فائرکیے گئے ۔نوجوانوںکی میتیں گھروںکوپہنچنے پرغم وغصے کی لہردوڑ گئی۔جنوبی حصے سے شرو ع ہونے والے احتجاج کاسلسلہ پوری وادی میں پھیل گیا اوراحتجاج میں شریک ہونے کے لیے مسجدوںکے لائوڈسپیکروں سے باقاعدہ اعلنات کیے گئے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیرمیں درندگی کی انتہاء اورانسانی حقوق کی شدیدپامالی کی انتیس سال کی رپورٹ شائع کردی ۔جس میں سال انیس سونواسی تااٹھائیس فروری سال دوہزاراٹھارہ تک بھارتی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی نے مقبوضہ کشمیرمیںانسانیت سوزقتل عام کیا۔جن میں چورانوے ہزارنوسوبائیس افرادکومختلف جعلی مقابلوںمیں قتل کیاجب کہ مختلف علاقوںمیں سات ہزارسے زائدگمنام قبروںکابھی انکشاف ہوا۔حراست کے دوران مختلف عقوبت خانوںمیں اذیت دے کرسات ہزارایک سوافرادکوقتل کیا۔رپورٹ میں سول بے گناہ افرادکوگرفتارکرکے مختلف جیلوںمیں ڈالاگیا ہے جن کی تعدادایک لاکھ ۴۳ہزارتین سو۶۴ ہے جواس وقت مختلف جیلوںمیں سزاکاٹ رہے ہیں ۔ جب کہ بائیس ہزارآٹھ سو۶۶ خواتین بیوہ ہوئیں ،جب کہ ایک لاکھ سات ہزارچھ سوستانوے بچے یتیم ہوئے۔گیارہ ہزار۴۳خواتین کاگینگ ریپ ہوا۔ایک لاکھ چھیاسی ہزار۶۴ مقامات کومکمل طورپرتباہ کرکے اربوں روپے کانقصان کیاگیا۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سانحہ پلوامہ اورشوپیاںمیں بھارتی فوج کی درندگی ،سرچ آپریشن کے دوران بیس سے زائدافرادکی شہادت جب کہ غائبانہ نمازجنازہ اداکرنے والوں پرفائرنگ بیس سے زائدافرادکی شہادت اورچوبیس گھنٹوںمیں دوسوسے زائدافرادکے زخمی ہونے سے بھارت کابھیانک چہرہ دنیاکے سامنے آگیا ہے۔بھارتی فوج نے شوپیاںمیں ایک درجن سے زائدمقامات کوآگ لگاکراپنی دہشت گردی کاثبوت پیش کردیاہے۔اقوام متحدہ بھارتی حکومت پرانسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پرعالمی عدالت میں مقدمہ درج کرے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کوعالمی دہشت قراردے دیا اورانہوںنے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیاہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں یواین مشن کی نمائندوں تنظیموںکوجانے کی اجازت دی جائے تاکہ بھارت کابھیا نک چہرہ دنیاکے سامنے آسکے۔ آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ نے مقبوضہ کشمیر میںبھارتی بربریت کی شدیدمذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کشمیری عوام کے حق خودارادیت کومظالم کے ذریعے دبانہیں سکتا۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفورکی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فورسزکی جانب سے نہتے عوام پرمظالم کی شدیدالفاظ میںمذمت کی ہے۔آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ نے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں مظالم کے ذریعے وہاںکے عوام کے حق خودارادیت کے لیے سیاسی جدوجہدکودبانہیںسکتا،جنرل قمرجاویدباجوہ نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی سیکیورٹی فورسزکی بربریت اورلائن آف کنٹرول اورورکنگ بائونڈری پر سیزفائرکی خلاف ورزیوں اورعام شہریوںکونشانہ بنائے جانے کی شدیدالفاظ میںمذمت کی ہے۔چیئرمین سینیٹ میرصادق سنجرانی نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی شدیدمذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری نہتے کشمیریوں پرتشدداوران کے قتل عام کانوٹس لے۔بھارتی ظلم وبربریت کامقصدمعصوم کشمیریوںکی تحریک کومزیددباناہے۔کشمیریوںکابہیمانہ قتل بھارتی ریاستی دہشت گردی کے غیرانسانی چہرے کاعکاس ہے۔بھارتی بزدلانہ اقدامات سے کشمیریوںکے حوصلے پست نہیںہوں گے۔چیئرمین سینیٹ نے مقبوضہ جموں وکشمیرکے عوام کے ساتھ بھرپوریکجہتی کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادی مسئلہ کشمیرپراقوام متحدہ کی قراردادوںکوکشمیریوںکی خواہشات کے مطابق حل کرانے میں اپناکرداراداکرے۔مقبوضہ کشمیرمیںایک درجن سے زائدکشمیری نوجوانوں کی شہادت پروزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے اپنے مذمتی بیان میںکہاکہ کشمیری عوام کی جدوجہدآزادی کودہشت گردی سے نہیںجوڑاجاسکتا۔ظلم وجبرسے حق خودارادیت کونہیںدبایاجاسکتا۔وزیراعظم نے کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کے فیکٹس فائنڈنگ مشن کومقبوضہ کشمیرجانے کی اجازت دے اوریواین سیکرٹری جنرل کشمیرکے لیے خصوصی نمائندہ مقررکریں۔اسلام آبادمیںمقبوضہ کشمیرکی صورت حال پروفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعدپریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بھارتی گجرات میں مسلمانوںکے قتل عام کی تاریخ اب مقبوضہ کشمیرمیں دہرائی جارہی ہے۔وزیرخارجہ کاکہناتھا کہ وزیراعظم نے ایک نکاتی ایجنڈے پرکابینہ کااجلاس طلب کیاتھااوراجلاس میںمتفقہ طورپرایک قراردادمنظورکی گئی ۔انہوںنے بتایا کہ اجلاس میں پاکستان کامقبوضہ کشمیرکے معاملے پرمختلف ملکوں میں وفودبھیجنے کافیصلہ کیاگیا ہے۔خواجہ آصف کاکہنا ہے کہ ترکی اورایران کے وزرائے خارجہ سے کشمیرکی صورت حال پربات کی ہے ۔ اور برادراسلامی ممالک نے کھل کرپاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے۔خواجہ آصف کاکہناتھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں دہشت گردی کررہا ہے۔ معصوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں انہوںنے کہا مقبوضہ کشمیرمیں گزشتہ دوروزمیں خون کی کھیلی گئی۔بھارتی حکومت بدترین دہشت گردی کی مثال قائم کررہی ہے ۔انہوںنے کہا کہ من حیث القوم پاکستانی قوم پرلازم ہے کہ کنٹرول لائن کے اس پارجتنی پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کااظہارہورہا ہے اس پرحکومت ،ہرطبقہ اورسیاسی جماعتیں اس نقطے پرمتحدہوکرکشمیریوںکے ساتھ یکجہتی کااظہارکریں۔انہوںنے کہا کہ گزشتہ روزآسیہ اندرابی کے پیغام میں یہ تاثرتھا کہ حق خودارادیت کی جنگ میںپاکستان کی جانب سے خاموشی ہے لہذاہمیں اس گمان کوختم کرناہے۔کشمیریوںکی اخلاقی، سیاسی اورسفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔خواجہ آصف کاکہناتھا کہ بھارتی حکمرانوں سے بہتری کی امیدنہیں کیوں کہ ہم نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہترکرنے کی کوشش کی تاہم مایوسی ہوئی۔ انہوںنے مزیدکہا کہ مسلمانوںکاخون کشمیر، فلسطین اورمیانمارمیں ارزاںہوگیا ہے۔اورہم عالمی ضمیرکوبھی جھجھوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔وفاقی کابینہ نے جمعہ چھ اپریل کویوم یکجہتی کشمیرمنانے اعلان بھی کیاہے۔ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹرمحمدفیصل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آج مقبوضہ کشمیرمیں سفاک اورالمناک دن ہے ۔ معصوم کشمیریوں پربھارتی قابض فورسزکے مظالم جاری ہیں۔بھارت نے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیردیں اورکشمیرلہولہوہے۔بھارتی فوج کی فائرنگ سے ایک دن میں بارہ بے گناہ کشمیری شہیدہوگئے۔قابض افواج کی جانب سے معصوم کشمیریوںکاقتل عام جاری ہے۔جس کے نتیجے میںانسانی حقوق کاعالمی چارٹرمذاق بن کررہ گیا ہے۔وزیراعظم آزادکشمیرراجہ محمدفاروق حیدرخان نے پندرہ کشمیری نوجوانوںکی شہادت کی شدیدمذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کشمیریوں کی نسل کشی کی پالیسی پرعمل پیراہے اورمنصوبہ بندی کے تحت ہندوستانی بدزمانہ خفیہ ایجنسی رامعصوم کشمیریوںکاقتل عام کروارہی ہے۔کشمیری نوجوانوںکی شہادت پرخاموش نہیں بیٹھ سکتے۔بھارتی سفیرکوطلب کرکے سخت احتجاج کیاجائے۔وزیراعظم آزادکشمیرنے کہا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیرمیں قابض بھارتی فوجیوںکے ہاتھوں شوپیاں اوراسلام آبادمیں پندرہ نوجوانوںکوبہیمانہ طریقے سے شہیدکرنے کامعاملہ سلامتی کونسل میں اٹھائے۔قابض بھارتی فوج کے معصوم کشمیریوں پر اندوہناک مظالم کے خلاف عالمی عدالت انصاف اپناکرداراداکرے۔وزیراعظم آزادکشمیرنے کہا کہ پندرہ نوجوانوںکی شہادت پرہرکشمیری غمزدہ ہے۔ہمارادل خون کے آنسورورہاے۔حریت کانفرنس کی جانب سے یوم سوگ کی حمایت کرتے ہیں۔پاکستان اورآزادکشمیرکی حکومتیں اورعوام مقبوضہ جموں کشمیرکے عوام اور حریت قیادت کے ساتھ ہیں۔ایک بیان میں عمران خان نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ریاستی دہشت گردی اوربربریت کی شدیدمذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظلوم کشمیریوں پربھارتی فورسزکے مظالم کی شدیدمذمت کرتے ہیں۔چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ بھارتی فورسزنہتے کشمیریوںکوشہیدکررہی ہیں۔پاکستان کے عوام حق خودارادیت کی جدوجہدمیں کشمیری عوام کے ساتھ ہیں ۔عمران خان نے مطالبہ کیا کہ یواین سیکیورٹی کونسل مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی جارحیت کانوٹس لے ۔اوراب سے ضرورحرکت میں آناہوگا۔
 ہندوستان گزشتہ سال ہاسال سے مقبوضہ کشمیرمیں بربریت بدترین داستانیں قائم کررہا ہے۔پاکستان بھارتی حکمرانوں کے ظلم وبربریت کے تمام ترثبوت اقوام متحدہ میں جمع کراچکا ہے۔ اس پراقوام متحدہ نے کوئی نوٹس نہیںلیا۔اب اقوام متحدہ کی اپنی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی بربریت کی انتیس سالہ رپورٹ جاری کرکے اقوام متحدہ سے مقبوضہ کشمیرمیں یواین مشن کی نمائندوںتنظیموںکوجانے کی اجازت دینے کامطالبہ کردیا ہے اوربھارتی حکمرانوں کے خلاف عالمی عدالت انصاف میںمقدمہ درج کرنے کامطالبہ بھی کیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نریندرموذی کوعالمی دہشت بھی قراردیا ہے۔دنیابھرمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والاامریکہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ریاستی دہشت گردی پرآنکھیں بندکیے ہوئے ہے۔اقوام متحدہ کشمیریوں کے حق خودارادیت پر اپنی ہی منظورشدہ قراردادپرعمل کرنے کانام ہی نہیں لے رہی۔امریکہ نے بھارتی فورسزکی مقبوضہ کشمیرمیں بربریت پرتوکوئی نوٹس نہیں لیا۔کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول کے لیے جدوجہدکرنے والی تنظیم تحریک آزادی کشمیرکودہشت گردتنظیموںکی عالمی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔امریکاکے محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیا ہے کہ ملی مسلم لیگ اورتحریک آزادی کشمیرلشکرطیبہ کی شاخیں ہیں اس لیے ان دونوں جماعتوںکوبھی فارن ٹیرارسٹ آرگنائزیشن کے امیگریشن اینڈنیشنلٹی ایکٹ کی سیکشن دوسوانیس اوردہشت گردوںکی عالمی فہرست کے ایگزیکٹوآرڈرتیرہ ہزاردوسوچوبیس کے تحت دہشت گردوںکی عالمی فہرست میں شامل کرلیاگیا ہے۔اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹرپراپنی ٹویٹ میں واضح کیا کہ ملی مسلم لیگ اورتحریک آزادی کشمیر در اصل کالعدم لشکرطیبہ کے ہی مختلف نام ہیں اس لیے ان دونوںکوسیاسی جماعتوں کے طورپررجسٹرنہیںکیاجاسکتا۔اس لیے ان دونوں جماعتوںکوبھی لشکرطیبہ کے ساتھ دہشت گردوںکی عالمی فہرست میں شامل کیاجاتاہے۔امریکہ نے بھارتی بربریت کے خلاف اورکشمیریوںکی حق خودارادیت کی جدوجہدکوہی دہشت گردی قراردے دیا ہے۔اس سے واضح ہوجاتاہے کہ امریکاکی دہشت گردی کے خلاف جنگ دہشت گردوں کے خلاف نہیںمسلمانوں کے خلاف ہے۔وفاقی کابینہ جمعہ چھ اپریل کویوم یکجہتی کشمیرمنانے کااعلان کرچکی ہے۔ امریکاکی طرف سے تحریک آزادی کشمیرکودہشت گردوںکی عالمی فہرست میں شامل کرنے پرچھ اپریل سے بارہ اپریل تک سرکاری سطح پرہفتہ مذمت امریکامنایاجائے۔امریکی سفارت خانوں کے سامنے امریکہ کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کرکے اسے اپنا فیصلہ واپس لینے کامطالبہ کیاجائے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، انسانی حقوق کی تنظیموں اورسلامتی کونسل میں امریکاکے اس اسلام وکشمیردشمن اقدام کے خلاف قراردادیں پاس کرائی جائیں ۔دنیاکوبتایاجائے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والاامریکامقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی حمایت کررہا ہے۔پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس بلاکرامریکہ کے اس اقدام کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل مرتب کیاجائے۔ 

صحافی بھائیوں کے ساتھ ایک شام

 صحافی بھائیوں کے ساتھ ایک شام عصر حاضر میں میڈیا بے پناہ اہمیت اختیار کر چکا ہے میڈیا کی مختلف اقسام اپنی نوعیت کے اعتبار سے نمایاں ترین مقام کی حامل ہیں ،ملکی مسائل کے حل اور تعمیر و ترقی کے لئے آزاداور غیر جانبدار میڈیا کا ہونا ازحد ضروری ہے،فی زمانہ پل بھر میں دنیا کے کسی بھی کونے کی کوئی خبر پوشیدہ نہیں رہ سکتی ان خبروں کو اپنے اداروں پرنٹ ہو یا الیکٹرانک تک پہنچانے کے لئے ان کے سٹاف رپورٹرز کے ساتھ ساتھ ملک کے کونے کونے میں پھیلے علاقائی صحافیوں کا کردار ہر لحاظ سے جاندار ،زبردست اور بہترین ہے پاکستان میں تمام قومی معاصر اخبارات کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں سے شائع ہونے والے لوکل اخبار وں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا جو اس وقت تیز ترین ترقی کی جانب گامزن ہے کے نمائندگان ہر ضلعی مقام سے لے کر قصبوں تک پھیلے ہوئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خبریں ڈھونڈتے ،بناتے اور بھیجتے ہیں بڑے شہروں میں چند اہم صحافیوں کے علاوہ مجموعہ طور پر یہ رواج پڑ چکا ہے کسی نہ کسی نیوز ایجنسی کی لائن لو اور بس کسی رپورٹر کو رکھنے کی ضروت نہیں،اس اہم ترین کردار کے باوجود علاقائی صحافیوں کا یہ طبقہ وہ ہے جو ہمیشہ تنہائی کا شکار رہا، بڑے بڑے ادارے جن سے یہ لوگ عرصہ دراز سے منسلک ہوتے ہیں بیک جنبش قلم انہیں نکال باہر کرتے ہیں انہیں نہ تو کوئی تحفظ ہے نہ ہی مراعات،مقام شکر ہے کہ اس معاشرے کے پڑھے لکھے اور با شعور لوگ (کالی بھیڑوںکے علاوہ)اس مشن میں خود کو وقف کر لیتے ہیں،ماضی کے بر عکس اس وقت ملک میں صحافیوں کی درجنوں تنظیمیں موجود ہیں مگر زیادہ تر دائرہ کار بڑے شہروں تک محدود رہ جاتا ہے،اس بہترین طبقے مگر یکجہتی سے محروم طبقے کو یکجا کرنے کا آئیڈیا اوکاڑہ شہر میں سٹی پریس کلب کی بنیاد رکھنے والے نوجوان صحافی عابد مغل کے ذہن میں آیا جنہوں نے پروقار شخصیت و صدر ساہیوال پریس کلب سید شفقت حسین گیلانی اور تاریخی شہر کمالیہ سے تعلق رکھنے والے رائے سجاد کھرل سے رابطہ کیا ،RUJپنجاب کی بنیا رکھی گئی جو اس وقت آزاد کشمیر سمیت پاکستان بھر میں پھیل چکی ہے ہرشہر ،ہر علاقہ ،ہر تحصیل،ہر ضلع میں اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے عہدیداران اور ممبران موجود ہیں،اس وقت ضلعی سطع پر DUJبھی موجود تھی جو آج بھی اوکاڑہ میں فعال ترین ہے،گذشتہ دنوں برادرم عابد مغل نے طلاع دی کہ سٹی پریس کلب اوکاڑہ ،RUJاوکاڑہ اور DUJاوکاڑہ کے نئے ضلعی و تحصیل عہدیداران کی تقریب حلف وفاداری میں آپ اپنی شرکت لازمی بنائیں جو اوکاڑہ کے ایک مقامی میرج ہال میں تھی ،کوئی دو سال بعد اسی شام آبائی قصبہ میں پہلی بار موسلا دھار بارش ہوئی وقت کی پابندی کا سوچ کر بارش میں ہی کاشف علی خان مغل ،مرزا شمریز خان (بیٹا)دونوں ہی مختلف اخبارات کے نمائندے بھی ہیں ساتھ چھوٹا بیٹا مرزا محمد انعام بھی تیار ہو گیا،وہاں پہنچے تو صحافی بھائیوں کی بہار نظر آئی،تقریب میں ،سیاسی نمائندگان ،وکلاء ،مذہبی ،تاجر ،سیاسی وسماجی شخصیات ،ڈی پی او سمیت متعدد صاحبان شعور کا جم غفیر اپنی مثال آپ تھا ،تقریب میں ضلع بھرکے تمام اہم مقامات سے آنے والے صحافیوں کے علاوہ ریجنل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی صدر سید شفقت گیلانی،مرکزی سینئر نائب صدروزیر احمد مہر آف سندھ ،صدر آزاد کشمیر جاوید احمد چوہان ،مرکزی سیکرٹری جنرل رائے سجاد حسین کھرل(کمالیہ)،نائب صدر پنجاب سید طاہر شاہ (بہاولنگر)،ایڈیشنل جنرل سیکرٹری پنجاب رضوان الحسن قریشی،ضلعی چیرمین رحیم یا خان سید صدر شاہ،ڈویژنل رہنماء فیصل آباد ظفر پیزادہ،سرپرست اعلیٰ قصور حاجی محمد ارشد گولڈن،ڈویژنل صدر ساہیوال میاں وسیم ریاض،جنرل سیکرٹری بہاولپور امجد علی خان،فناس سیکرٹری پنجاب رائو عابد علی ،سیکرٹری اطلاعات پنجاب تنویر اسلم خان(قصور) کے علاوہ ڈی پی او اوکاڑہ حسن اسد علوی،وفاقی پارلیمانی سیکرٹری صحت ایم این اے رائو محمد اجمل خان،صوبائی مشیر میاں محمد منیر،سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ کیپٹن (ر) رائے غلام مجتبیٰ کھرل،ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ریلیشن خورشید جیلانی،پروفیسر ریاض احمد خان،پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ظفر علی ٹیپو،چیر مین ضلع کونسل ملک علی قادر عباس،صدر مسلم لیگ (ن )و چیر مین عشر زکواۃ کمیٹی ضلع اوکاڑہ سید زاہد گیلانی ،صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اوکاڑہ رائو عدیل عباس،جنرل سیکرٹری شکیل چوہدری،سابق صدر ڈسٹرکٹ بار سید زاہد بخاری،پی ٹی آئی رہنماء مرزا ذوالفقار ایڈووکیٹ،صدر مرکزی انجمن تاجران سلیم صادق،ڈسٹرکٹ سوشل ویلفئیر اوکاڑ رائے محمد عارف کھرل،صدر غلہ منڈی حبیب الحق،صدر سبزی منڈی چوہدری محمد اشرف،جاوید شیر لودھی ، ۔،سٹیج کو موٹر وے پولیس سے تعلق رکھنے والی ادبی شخصیت انسپکٹر خیام چوہان اور ممتاز شاعر،کالم نگار اور سٹی پریس کلب اوکاڑہ کے صدر احتشام شامی نے سنبھالے رکھا،۔تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ،نعت رسول عربیﷺ کا اعزاز پروفیسر محمد امین نے حاصل کیا ،سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری رائے غلام مجتبیٰ کھرل نے سٹی پریس کانفرنس کے نو منتخب عہدیداران،آر یو جے پنجاب کے صدرڈاکٹر محمد زکریا،صوبائی پارلیمانی سیکرٹری میاں محمد منیر اور رائے سجاد حسین کھرل نے اوکاڑہ،دیپالپور اور رینالہ خورد سے تعلق رکھنے والیRUJکی تحصیل تنظیموں سے حلف لیا جبکہ نے ریجنل یونین آف جرنلسٹس اور ڈسٹرکٹ یونین آف جرنلسٹس سے آر یو جے کے مرکزی صدر سید شفقت حسین گیلانی اور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری صحت رائو محمد اجمل خان نے حلف لیا، DUJکے نو منتخب صدر مظہر رشید چوہدری نے خطاب کے دوران اس محفل کو چار چاند لگانے والے تمام مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا،عابد مغل نے اپنے خطاب میں کہا ان کی تنظیم اس وقت پاکستان کی ایک منظم ترین تنظیم کی صورت اختیار کر چکی ہے اور یہ پاکستان کی دوسری تنظیم ہے جسے انٹرنیشنل یونین آف جرنلسٹس نے ووٹ کا حق دیا ہے ہمارا یہ قافلہ صحافیوں کی فلاح وبہبود کے لئے ہر وقت کوشاں رہے گا،،ممبر قومی اسمبلی رائو محمد اجمل خان نے کہا صحافی وہ افراد ہیں جو ملک بھر میں ہونے والے ہر عوامی مسئلے کی نشاندہی اور برائی کو بے نقاب کرتے ہیں کالی بھیڑوں کے برعکس ایسے باشعور لوگ محبت کے قابل ہوتے ہیں،میاں محمد منیر نے کہا ،کسی بھی معاشرے کی صحافی کا کردار ناقابل فراموش ہوتاہے وہ دن رات ایک کر کے ہمیں تمام حالات سے آگاہ رکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں،ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اوکاڑہ حسن اسد علوی نے کہا پولیس اور صحافی برادری کے درمیان بہت مضبوط رشتہ ہے ان کے باہمی تعاون سے جرائم کا قلع قمع کرنے سے میں بہت مدد ملتی ہے اوکاڑہ میں جاری باہمی تعاون کا سلسلہ مزید مضبوط ہو گا،چوہدری محمد اشفاق نے بھی شرکاء محفل کا شکریہ ادا کیا،دیپالپور سے تعلق رکھنے والی معروف سیاسی و سماجی شخصیت سید زاہد گیلانی نے صحافی برادری کے درمیان یکجہتی اور معاشرتی برائیوں کے خلاف کامیابی کے لئے دعا کرائی،اسی یاد گار تقریب میں ایک عرصہ بعد بہت ست سے لوگوںسے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ،مایہ ناز اینکر،کمپئیر اور سپیکر پروفیسر ریاض احمد خان اوررائے سجاد حسین کھرل کے ساتھ بہت گپ شپ ہوئی،سجاد کھرل تنظیمی لحاظ سے ایک انتہائی متحرک اور انتہائی ملنسار شخصیت ہیں، ،صحائی بھائی میاں مزمل جوئیہ اور رائے خالد سرور کھرل ایڈووکیٹ کے ساتھ دیرینہ دوست سابق پارلیمانی سیکرٹری رائے غلام مجتبیٰ کھرل کے ساتھ پرانی یادیں تازہ کیں ،اس محفل میں پہلی بار اوکاڑہ شہر سے تعلق رکھنے والے بہترین قلم کار (کالم نویس) سلمان قریشی سے بھی ملاقات ہوئی ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ان کی سوچ ان کی تحریروں کی طرح صاف شفاف ہے۔

ہم ویسے نہیں ہوتے جیسے ہو جاتے ہیں!

ہم ویسے نہیں ہوتے جیسے ہو جاتے ہیں!شیخ ابراہیم ذوق کے شعر کا ایک مصرعہ ہے کہ اپنی خوشی نا آئے نا اپنی خوشی چلے، معلوم نہیں کتنے یہ بات دل میں ہی لیکر چلے گئے ۔ تقریباً انسانیت اپنی پیدائش سے موت تک سفر کسی اور کے بتائے ہوئے راستے پر کرتا ہے ، نا تو وہ کوئی راستہ بنانے کا اہل ٹہرتا ہے اور نا ہی کسی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے انکار کرسکتاہے۔ اگر ہم معاشرتی تقسیم کریں تو جن معاشروں میں ابھی تک توازن برقرار ہے ان میں لوگ فرمانبردار اورمروجہ معاشرتی پابندیوں اور اقدار کے پابند ہیں۔ ہمارے منہ میں جو زبان ہے وہ محتاج ہے اس زبان کی جو ہمارے آس پاس بولی جائے گی، ذہن محتاج ہے ان سوچوں کا جنہیں اسے سوچنے کیلئے دی جائینگی، نظریں محتاج ہیں وہ سب دیکھنے کی جو انہیں دیکھایا جائے گا۔ اس توازن کو بگاڑ نے کیلئے ان معاشروں نے جو کبھی توازن کی حالت میں آہی نہیں سکے ہیں ، بگاڑنے کیلئے سر توڑ کوششیں کیں ہیں اور اب ان کی یہ کوششیں کامیاب ہوتی دیکھائی دے رہی ہیں۔ 
ایک تو یہ کہ ہم اور آپ جہاں پیدا ہوئے ہیں وہاں کیا چلتا ہے کیسے زندگی گزاری جاتی ہے یا کسیے گزاری جاتی رہی ہے ہمیں بھی انہیں سب باتوں کی پابندی کرنے کا عادی بنایا جاتا ہے ۔ 
معاشرے کے ہی لوگ تھے جنہوں نے میڈیا کو ذریعہ بنایا شائد اس کی ابتداء صرف اس سوچ پر مبنی ہو کہ عوام الناس کو سستی اور گھر بیٹھے تفریح فراہم کی جائے مگر جیسے جیسے یہ بات سمجھ آنے لگی کہ لوگ تو میڈیا پر بہت دھیان دیتے ہیں تو پھر انکی ذہن سازی پر کام کرنا شروع کیا گیا اور جیسے جیسے معاشرے میں بدلائو محسوس ہونے لگا ویسے ویسے کام کو تیز کیا جاتا رہا ، پھر دنیا کی ان طاقتوں نے جو انسانوں کی سوچوں اور انکے اعمال پر قبضہ کرنے کے خواب صدیوں سے دیکھ رہے تھے میڈیا انکے لئے ایک آسان اور سہل راستہ بنتا چلا گیا۔ وقت نے ایک بھرپور انگڑائی لی اور سماجی میڈیا کا وجود دنیا میں ہلچل مچانے کیلئے آدھمکا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر معاشرے کا لازمی ترین جز بن گیا۔ 
ہم داخلی اور خارجی مزاج میں بہت کم ہم آہنگی رکھتے ہیں، دنیا کو دیکھانے کیلئے کچھ اور ہوتے ہیں اور اپنے آپ کیلئے کچھ اور ہوتے ہیں۔ اس تضاد کیساتھ ساری زندگی گزار دیتے ہیں، جی ہاں یہ قابل اختلاف تو ہے مگر غور کرنے سے یہ شائداپنے آپ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے مگر یہ بھی اچھا ہے کہ یہ شرمندگی اپنے آپ تک ہی محدود رہے گی۔ 
کسی کو اپنا آپ نہیں پسند کسی کو اپنے ساتھ وابستہ لوگ نہیں پسند ، یہاں تک بھی ہوسکتا ہے کہ آپکی ناپسندیدگی اپنی ساخت سے بھی ہو۔ ہر انسان عمر کے ایک حصے میں کسی نا کسی احساس محرومی کا شکار ہوتا ہے اس محرومی کا تعلق امیری غریبی بھی ہوسکتا ہے ، رنگت اور جسمانی ساخت بھی ہوسکتا ہے، بے جا روک ٹوک بھی ہوسکتا ہے ، تعلقداروں سے بھی ہوسکتا ہے ، تعلیم کے میعار پر بھی ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب مثبت اور منفی سوچیں آپ پر قبضہ کرنے کیلئے برسرپیکار ہوتی ہیں۔ 
یہ جو والدین اپناآپ اپنی اولاد پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات اپنی اولاد سے پورا کروانے کے خواہشمند ہوتے ہیں جبکہ اولاد کی اپنی معاشرتی خواہشات ہوتی ہیں۔ یوں تو ہر فرد اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ وہ دنیا کو اپنی مرضی سے چلنے پر آمادہ کرے مگر اس کوشش کو وہ اپنے اوپر بھی پوری طرح سے لاگو کرنے میں ناکام ہی رہتا ہے ۔ دنیا میں قدرت کی جانب سے بھیجے جانے والے پیغمبروں کو ہٹا کر ایسے بہت کم لوگ گزرے ہیں جنہوں نے معاشرے کی اصلاح کیلئے ، کچھ مختلف کرنے کیلئے یا پھر غلط کو صحیح کرنے کیلئے اپنا کردار بھرپور طریقے سے نبھایا ہو۔ اگر اس بات کو سمجھنے کیلئے تھوڑا سا پھیلایا جائے تو ہمیں دنیا کو آسائشیں دینے والے لوگ قابل ذکر ہونگے، ایسے ہی وہ لو گ جنہوں نے انسانیت کی فلاح کے لئے اپنی خدمات انجام دیں ، جنہوں نے اس بات کی پروا نہیں کی دنیا میرے اس کام کو لے کر کیا کہے گی ، مفکرین ، فلاسفر اور ادب کی ہر صنف سے تعلق رکھنے والے لوگ جنہوں نے کائنات کے مختلف رازوں اور رنگوں پر خوب طبع آزمائی کی جن کی وجہ سے انسانیت کو انسانیت کی سمجھ آئی جنہوں نے مختلف مذاہب کا ایک نقطہ مفاہمت پر اپنی اور دنیا کی توجہ مرکوز کروائی ۔ ایسے بے تحاشہ لوگ آج بھی ہیں ۔ انسانوں کی تعداد ایک سے شروع ہوکر اربوں کی گنتی میں پہنچ چکی ہے لیکن ایسے لوگوں کی تعداد ہمیشہ بہت قلیل رہی ہے لیکن اس بات کی سمجھ تو سب کو ہے کہ آٹے میں اگر نمک نا ہوتو روٹی کا ذائقہ ختم ہوجاتا ہے ۔اب بات یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں۔ معاشرے میں ہر فرد اپنا اپنا حصہ ڈالتا ہے ، اصلاحات راتوں رات نہیں ہوجاتیں اور معاشرے میں بدلائو یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ جو اس کوشش کا آغاز کرے وہ اس بدلائو کو دیکھ بھی سکے ۔ دنیا مادی اعتبار سے تو ترقی آسمان کو چھو رہی ہے مگر اقدار پامال ہوگئے ہیں ایک دوسرے کا خیال نہیں رہا یوں سمجھ لیجئے کہ معاشرہ ایک بدبودار لاش کی مانند ہوکر رہ گیا ہے اور ایک ایسی لاش جسے دفنایا بھی نہیں جاسکتا۔ 
اپنی مرضی کی زندگی کیا ہوسکتی ہے یہ ایک الگ بحث طلب معاملہ ہے ، ہر منظم معاشرہ منظم سوچ کی مرہون منت تشکیل پاتا ہے اور منظم سوچ کے پیچھے ایک ضابطہ حیات ہوتا ہے اور اسکے لئے یہ ضروری نہیں کہ آپ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں معاشرے کو بہترین بنانے کیلئے آپ ان اصلاحات کو نافذ کرنے سے گریز نہیں کرتے جو کسی اور مذہب سے ہو۔کیا اس بات سے انکار کیاجاسکتا ہے کہ انسان کو معاشرتی امور مذاہب کی بدولت ہی میسر آئے ہیں ، کیونکہ تخلیق کی ابتداء بھی تو مذہب کی محتاج رہی ہوگی۔ دنیا کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ قدرت کے بتائے ہوئے ضابطہ حیات پر من و عن مانتے ہوئے اس پر چلنا شروع کردے جیسا کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنی عمر کے آخری عیام میں کرتے ہیں۔ ہم سوچیں تو ہم پر واضح ہوجاتا ہے کہ ساری زندگی سوائے تھکنے کے اور ہم نے کیا حاصل کیا ہے سوائے ان چیزوں کے جو نا تو ہمارے ساتھ جائینگی اور نا ہی دنیا میں رہتے ہوئے ہم سے بچھڑکر ماتم کرینگی، یہ تو کسی اور کی ہوجائینگی۔ ایک دوسرے پر اپنا آپ نا تھوپا جائے تو بہتر ہے ورنہ فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اسی دنیا نے نسلی فاصلہ(جنریشن گیپ) قرار دیا ہے۔ ہم ویسے ہو ہی نہیں سکتے جیسے ہم چاہتے ہیں کیونکہ آخیر میں ہم جیسے ہوتے ہیں ویسے ہی ہونا چاہتے ہیں۔
آسان لفظوں میں اس مضمون کو ختم کرتے ہوئے یہ لکھدیتا ہوں کہ تسلیم خم کیجئے اپنی پیشانی کے رب کو میرے اپنی عبادتوں میں سجدہ سب سے محبوب سجدہ تھا ، ہے اور اس کائنات کے رہنے تک رہیگا۔ 

پیر، 2 اپریل، 2018

خط ہی کیوں لکھے جائیں

خط ہی کیوں لکھے جائیںانتظار ایک شاندار چیز بھی ہے اور جاندار پہلوزندگانی بھی ، یہ انسانی زندگانی کی بہتی ندی کے ساتھ ساتھ تیرتا چلا جا تا ہے بعض اوقات انسان کو اس کیفیت ہی کی جانکاری نہیں ہو پاتی مگرحقیقت میں وہ اسی نایاب کیفیت کا اسیر نظر آتا ہے ، یہ جذبات کے مختلف پہلوئوں کا بنیادی جز ہے جس کی موجودگی جذبا ت کی کہانی کو چار چاند لگا دیتی ہے،جیسے رات روشنی کے انتظار میں تڑپتی رہتی ہے اور ہجر کی گھڑیوں کوہر لمحہ وصل کا انتظار رہتا ہے ، یہی کہانی خطوط کے آپس میں تبادلے کی ہے، بقول عباس تابش 
جب بھی انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں 
گلی کے لوگ ، میر ے دل پہ چلنے لگتے ہیں 
اظہار جذبات کے کئی انداز ہیں کوئی مخالف سمت کے روبرو ہو کر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کر تا ہے تو کوئی ٹیکنالوجی کی مدد سے چلنے والے آلات کا سہارا لے کر دلی کیفیات بیان کر تا ہے ، کوئی تھرڈ پرسن کی مدد لیتا ہے تو کوئی قلم وکاغذ یعنی خطوط لکھ کر معاملات زندگی سے آگاہ کر تا ہے اگر کوئی عزیز منزل مقصود پر خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہو تو طویل تر مسافت کی تھکاوٹ ختم ہوجا تی ہے بالکل ایسے ہی خطوط کی دنیا استوار ہے کہ جذبات کی گرم جوشی میں مز ید اضافہ ہوجا تا ہے اگر کسی عزیز کے خط آنے کا انتظار درپیش ہو ۔ 
دنیا کے مختلف کونوں اور حصوں کو جوڑنے میں خطوط کلچر کا اہم کر دار رہا ہے ، برسوں خطوط کے ذریعہ کو ابلاغ کے دوسرے ذرائع پر فوقیت حاصل رہی ہے ، خطوط لکھنا ، اس کی نہایت خلوص سے پڑتال کرنااور پھر پوری دلجمی سے اس کا جواب روانہ کر نا ہماری روایات و ثقافت کا لازمی پہلو رہا ہے، جذبات کی گٹھڑی کو ایک لفافے میں بند کرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسا دریا کو کوزے میں بند کر نا ، خطوط روانہ کر نا اور پھر ان کے جواب موصول ہونے کا عمل دونوں طرف آگ کے برابر لگنے کی طر ف واضح اشارہ تھا ، گڑیا کا سلام سب سے پہلے لکھا جا تا ، پھرمنے کی شرارتوں پر عمیق نگاہ دوڑائی جا تی پھر چپکے سے بڑوں کی کبھی کبھار پڑنے والی ڈانٹ ڈپٹ کی طرف اشارہ کے ماحول کی رونق کو گرما دیا جا تا ، خط وصول کر نے والاشاعر کی طرح خط کے لوازمات سے اتنا آگاہ نہ ہوتا ’’میں جانتا ہوں کہ وہ کیا لکھیں گے جواب میں ‘‘ ۔
پاکستان پوسٹ کو برصغیر کے ان پرانے محکمہ جا ت میں شمار کیا جا تا ہے جو قیام پاکستا ن سے پہلے ہی اپنے فرائض ’پوسٹ اور ٹیلی گراف ‘کے نام سے سرانجام دے رہا تھا تاہم 1962؁ء میں اس کو ٹیلی گراف اور ٹیلی فون سے علیٰحدہ کر کے الگ محکمہ بنا دیا گیا ، پاکستا ن پوسٹ (محکمہ ڈاک) سے متعلقہ جو ذمہ داریا ں ہیں وہ ملک کے کونے کونے میں سرانجام دینے کے لیے اس کے دفاتر موجود ہیں ، پاکستانی پوسٹ بیس لاکھ گھرانوں اور بزنس سے وا بستہ لوگوں کو آپس میں جوڑنے کا اہم ذریعہ ہے اس کے علاوہ پاکستان پوسٹ وفاقی اور صوبائی سطح کی حکومتوں کے درمیان لائف انشورنس ، ٹیکسوں کو اکٹھا کرنا ،بجلی پانی ٹیلی فون کے بلوں کی وصولی اور ان کے درمیان رابطے و ہم آہنگی کا ذریعہ ہے ، ساتھ ہی پاکستان پوسٹ یونیورسل پوسٹل یونین کا بھی حصہ ہے جو پور ی دنیا میں بروقت رقوم کے تبادلے کا موثر ذریعہ کا گردانہ جا تا ہے ۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں وزارت موصولات اور بیوروکریسی نے پاکستان پوسٹ پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے محکمہ ڈاک کا خسارہ دس ارب روپے سے زیادہ ہوچکا ہے،اب موجودہ حالات میں محکمہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر نے سے قاصر ہے ،وزیرا عظم نے تین سال قبل اصلاحاتی منصوبے کی منظوری دی تھی جس میں پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ڈاکخانہ جا ت کی ری برانڈنگ ، موبائل منی آرڈر پروگرام اور لاجسٹک کمپنی کا قیام شامل ہے مذکورہ تینوں پروگرامز کے لیے نجی شعبہ کو دعوت دی گئی ہے تا ہم ابھی تک کوئی معاہد ہ ہو سکانہ محکمہ کے لیے بہتری کا کوئی سامان ۔ 
محکمہ ڈاک ہماری روایات اور ثقافت کا آئینہ دار رہا ہے ، اس کا شمار ان محکموں میں کیا جا تا ہے جن پر آج بھی عوام کا اعتماد قائم ہے ،دور دراز کے علاقوں تک ڈاک اور ڈاکیے کی سہولت موجود ہوتی ہے ان میںگلگت بلتستان اور کشمیر کے وہ پہاڑی علاقے بھی شامل ہیں جن میں آ ج بھی موبائل سروس کی دستیابی مشکل کا م ہے ، خط کو’’ آدھی ملاقات‘‘ کہا جاتا ہے ملاقات کی اس سہولت کو ہر سطح پر بحال رہنا چاہیے ، پہلے ہی خطوط کلچر ختم ہونے کے قریب ہے اور اب تو محکمہ ڈاک ایک اور حکومتی محکمہ یعنی ریڈیو پاکستان کی طرح آخری سانسیں لینے پر مجبور ہے ۔ بقول جان ایلیا 
تم نے مجھ کو لکھا ہے 
میرے خط جلا دی جیئے 
مجھ کو فکر رہتی ہے 
آپ انہیں گنوادی جیئے
جرم کے تصور میں ، گریہ خط لکھے تم نے 
پھر تو میری رائے میں ، جرم ہی کیے تم نے 
جرم کیوں کیے جا ئیں 
خط ہی کیوں لکھے جائیں ۔ 

فلسطین کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھی بدترین خونی دن

فلسطین کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھی بدترین خونی دنؒاسرائیل نے غزہ کی سرحد پر بربریت کی نئی تاریخ رقم کی تو اس کی اتحادی اور ذہنی تو پر سفاکیت میں ہم آہنگ بھارتی فوج نے بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں نہتے اور معصوم 12نوجوانوں کو سرچ آپریشن کے نام پر گھر گھر داخل ہو کردو مختلف علاقوں میں شہید کر دیاجبکہ 5 کشمیریوں کو دوران جنازہ حملہ کر کے شہید کیا گیا17بے گناہوں کی شہادت جیسا واقعہ حالیہ عرصے میں بہت بڑا واقعہ ہے،کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اسلام آباد اورشوپیاں کے اضلاع میں سرچ آپریشن کے نام پر بدترین بربریت کا مظاہرہ کیا مقبوضہ ریاست کشمیر کے پولیس سربراہ ڈائریکٹر جنرل ایس ایس پی پال وید نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی اضلاع میں سیکیورٹی فورسز نے مقابلے کے بعد دو مختلف مقامات پر12عسکریت پسندوں کو ہلاک جن میں ایک کمانڈر بھی شامل ہے،پولیس کے مطابق 7کشمیری نوجوانوں کی لاشیں ضلع شوپیاں کے گائوں ڈرا گاڈ اور4 افراد کو کیش ڈورا جبکہ ایک کشمیری نوجوان کو اسلام آباد ضلع کے علاقے دیالگام میں ہلاک کیا گیا سرچ آپریش کے دوران بھارتی فورسز کے تین اہلکاروں کے زخمی ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے،علاقے میں انٹرنیٹ اور ٹرین سروس بھی معطل کر دی گئی ہے ،غیر ملکی خبر رساں APکے مطابق فورسز نے ان واقعات کو جھڑپوں کا نام دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ گذشتہ رات جنوبی علاقے میں اس وقت سیکیورٹی فورسز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جب وہ مبینہ طور پر یہاں چھپے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنا چاہتے تھے مبینہ دہشت گردوں نے سیکیورٹی اہلکاروں کے گھیرے کو توڑ کر فرار ہونے کی کوشش کے دوران فائرنگ کی اور ہنڈ گرنیڈ پھینکے تاہم وہ جوابی کاروائی میں ہلاک ہوئے ،ایک عسکریت پسندکی گرفتاری کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے،ان واقعات کے بعد مذکورہ علاقوں میں کشمیری شہریوں کی بہت بڑی تعداد گھروں باہر نکل آئی ان کا مئوقف تھا کہ مارے جانے واے تمام کشمیری عام نوجوان تھے جنہیں بھارتی سیکیورٹی فورسز نے گھروں میں گھس گھس کر باہر نکالا اور دھونس و جبر قائم کر کے لئے انہیں شہید کیاگیا،ان شہادتوں پر بھارت مخالف مظاہروں کا آغاز ہو گیا متعدد مظاہرین نے شوپیاں میں جاری جھڑپ والے علاقے میں جانے کی کوشش کی ان دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان چشدید جھڑپیں ہوئیں ،ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ان جھڑپوں کم از کم 4درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے،کشمیری نوجوانوں کی شہادت پر حریت رہنمائوں نے دو روزہ ہڑتال کا اعلان کیا ،کشمیر یونیورسٹی کے طالب علموں نے احتجاج کرتے ہوئے آزادی کے حق اور بھارت مخالف نعرے لگائے،وائس آف امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ کشمیر میں پولیس اہلکار وں پر اچانک اور جھڑپ ک کے حملوں میں ایک بار اضافہ ہو گیا ہے ان کے مطابق کھنہ پل چوک کے علاقے میں اسپیشل پولیس فورس کے آفیسر ترلوک سنگھ کو شدید زخمی گیا گیا ،ہلوامہ کے معروف چوک میں ڈیوٹی دینے والے پولیس آفیسر اشرف میر کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا اننت ناگ کے ہی بجیہادہ علاقے کے مضافاتی گائوں میں پولیس افسر مشتاق احمد شیخ کو گھر میں گھس کر ہلاک اور اس کی بیوی فریدہ کو زخمی کیا گیا،تاہم کشمیری ایسی کاروائیوں سے لا علمی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان کے جو نوجوان شہید ہوئے وہ سب عسکریت پسند نہیں بلکہ امن پسند شہری تھے ،کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیرمین محمد یاسین ملک کوشوپیاں میں پیرا ملٹری فورسز نے بادشاہ پل پر اس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنی رہائش گاہ سے نکلنے والے احتجاجی مظاہرے کی قیادت کر رہے تھے ان کی گرفتاریپر سید علی گیلانی،مولوی عمر فاروق واعظ اور دیگر رہنمائوں شدید احتجاج کیا ہے،تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سری نگر کے ہسپتال میں ایک اور زخمی اقبال بٹ جس کا تعلق شوپیاں کے علاقے جسیپورسے تھا اس کے پیٹ میں گولیاں لگی تھیں نے دم توڑ دیا جس سے ہلاکتوں کی تعداد17ہو گئی ہے دن کے آغازپر12نوجوانوں کی شہادت بعد میں 4نوجوانوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب شہید افراد کی نماز جنازہ میں شریک تھے یہاں زخمی ہونے والے بیشتر افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے،اے ایف پی کے مطابق واقعات میں تین فوجیوں سمیت20افراد مارے گئے ہیں،آئی این پی کے مطابق پولیس اور فوج نہتے مظاہرین پر ٹوٹ پڑی پیلٹ گنوں اور آنسو گیس کا شدید استعمال کیا ،اے این پی کے مطابق بھارتی آرمی چیف کے دورہ مقبوضہ کشمیر کے بعدبھارتی فورسز نے علاقے میں تباہی مچا دی ہے شوپیاں اور اننت ناگ میں نام نہاد آپریشننز کے نام پر بے گناہوں کو شہید کیا گیا،ان واقعات پر کشمیر میں لوگوں کا سخت احتجاج جاری ہے دکانیں بند،کاروباری مراکز بند،تجارتی ادارے بند،سکول و کالج بند،انٹرنیٹ و موبائل سروس معطل اور ٹرین کا پہیہ جام ہو چکا ہے،فورسز نے شہید ہونے والوں کو عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین سے منسلک قرار دیا ہے جن میں ایک اہم کمانڈر بھی شامل ہے اسرائیلی فوج کے سابق افسرکرنل ایونر میولر نے بھارتی چیف کے ٹویٹ پر جواب میں بھارتی فورسز کو شاباش دی ہے ان لکھا کہ ان اسلامی دہشت گردوں کے خاندانوں کو بھی نہ صرف بے گھر کیا جائے بلکہ ان کے حامیوں کو بھی گولیوں سے بھون دیا جائے ،22مارچ کو بھی بھارتی حکام کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ 5فوجی و پولیس اہلکاروں کے علاوہ 5مشتبہ عشکریت پسند بھی ہلاک ہوئے ،بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیہ نے میڈیا کو بتایا کہ فائرنگ کا یہسلسلہ اس وقت شروع ہوا جب لائن آف کنٹرول کے قریب ہلمٹ پور کے شمالی جنگلات میں فوجی گاڑی پر نامعلوم افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا فائرنگ کا یہ سلسلہ دو روز تک جاری رہا جس میں پولیس و فورسز کے خصوصی دستے کے اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ کپواڑ ہ کے ایس ایس پی شمشیر حسین نے بتایا عسکریت پسندوں نے سری نگر کے شمال میں کپواڑہ کے جنگل میں فورسز پر سرچنگ آپریشن کے دوران حملہ کیا،بھارتی فوج کی بربریت کا عالم یہ ہے کہ اس نے ایک سال کے دوران 217 معصوم شہریوں کواپنے مظالم کی بھینٹ چڑھایا جبکہ عسکریت پسند برہان وانی کی شہادت کے بعد اب تک بھارتی فورسز نے 532خواتین اور نوجوانوں کو شہید کر چکی ہے ،بینائی سے محروم ،اپاہج ہونے والے ،بستر مرگ پر باقی زندگی گذارنے والے ان سے الگ ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے،ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں درندگی کی انتہا اور انسانی حقوق کی پامالی کی29سال کی رپورٹ شائع کر دی ہے جس میں1989سے28فروری2018تکبھارتی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیRAWنے مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز قتل عام کیاجن میں 94922افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا گیاجبکہ مختلف علاقوں میں 2ہزار سے زائد گمنام قبروں کا بھی انکشاف ہوا ہے،حراست کے دوران عقوبت خانوں میں اذیت دے کر 7100افراد کو موت کی وادی میں پہنچایا گیا،143364بے گناہ افراد کو گرفتار کے جیلوں میں ڈالا گیا جن میں سے زیادہ تر تعداد اس وقت بھی مختلف جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں ،22816خواتین بیوہ ہوئیں،17697بچے یتیم ،11043خواتین گینگ ریپ کا نشانہ بنیں،186064مقامات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیاجن سے اربوں روپے کا نقصان ہوا،پاکستانی دفتر کارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے طاقت کے وحشیانہ استعمال اور معصوم کشمیریوں کو قید بو بند پر سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری اس ظلم کا فوری نوٹس لے جو وہاں خون کی ہولی کھیل جا رہی ہے جو بھارتی ریاستی دہشت گردی کا غیر انسانی چہرہ پیش کر رہی ہے بھارت کشمیریوں کے ساتھ ایسا سلوک دہائیوں سے روا کئے ہوئے ہے تاہم قابض فوجیوں کے ایسے بزدلانہ اقدامات سے کشمیری عوام کے عز م کو ختم نہیں کیا جا سکتا جموں کشمیر کے بہادر اور پر عزم عوام نے بار بار ثابت کیا کہ قید و بند کی صعوبتیں اور ماورائے عدالت قتل سمیت کسی بھی قسم کے مظالم ان کو حق خود ارادیت کے حصول کی جو جہد سے نہیں روک سکتے،پاکستان جموں و کشمیر کی عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیتا ہے کہ اس کانوٹس لیاور اپنااثرو رسوخ استعمال کر کے اسے زندگیاں چھیننے کے اس کلچر سے روکے جو اس نے شروع کر رکھا ہے،حافظ محمد سعید کی اپیل پراس ظلم پر ملک گیر احتجاج کیا گیاجس کے تحت چاروں صوبوں اور کشمیر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں،حافظ سعید نے کہا نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر معصوم اور بے گناہ کشمیریوں کی قتل و گارت کا ارتکاب کیا گیا،فرضی جھڑپوںکے نام پر شہادتوں پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی خاموشی افسوسناک ہے،وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے اس ظلم کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کشمیریوں کی نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے دنیا بھر کے کشمیری یوم احتجاج منائیں،آسیہ اندرابی نے کہا کشمیر لہولہان ہے وہاں ہر طرف لاشیں گر رہی ہیں اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،کشمیر کونسل یورپی یونین کے صدر علی رضا عابدی نے کہا عالمی برادری کشمیریوں کی نسل کشی بند کرائے ،وزیر اعظم شہاد خاقان عباسی نے کہابھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کو کسی صورت ختم نہیں کر سکتا، بھارتی حکومت نے اس سال سیاحت کے فروغ کا ڈھونگ رچاتے ہوئے چند روز قبل کشمیر میں انڈیا ٹور ازم کانکلیو منعقد کیا تھا جس میں بھارت کی مختلف ریاستوں کے ٹور آپریٹرز نے شرکت کی اس موقع پر وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے قیام امن کے لئے عام لوگوں سے تعاون کی اپیل کی تھی اس دوران علیحدگی پسند رہنمائوں سید علی گیلانی،میر واعظ عمر فاروق اور یسین ملک پر برسوں سے عائد پابندیوں کے کاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا اب یہ لیڈر کہیں بھی آ جا سکتے ہیں،کئی سال بعد جمعہ کو انہی رہنمائوں نے مختلف مقامات پر جمعہ کے اجتماعات سے خطاب کیا ،حکومت کے اس اقدام سے کئی حلقوں میں امید پیدا ہوئی کہ اب تین سال سے جاری شدت پسندی کے خلاف جاری فوج کا۔آپریشن آل آئوٹ۔بھی ختم کر دیا جائے گا لیکن اس تازہ ریاستی دہشت گردی سے نہتے کشمیریوں کی شہادت کے بعد عوامی رد عمل سے امن کا یہ ڈھونگ پھر اسی راستے پر گامزن ہے، معلوم ہوا ہے کہ شوپیاں کے کا چھ ڈودہ گائوں میں اب بھی پولیس فوج اور عوا کے درمیان تصادم جاری ہے جس سے مزہد ہلاکتوں کا خدشہ ہے تصادم کے دوران فورسز نے کئی گھروں کو بھی آگ لگا دی، مسلمانوں کے خون کو دنیا میں بہانے کا جیسے رواج ہی پڑ چکا ہے نہ کوئی قانون نہ کوئی ضابطہ ،نہ کوئی ڈر نہ کوئی خوف ،عجب تماشا ہے سفاکیت کے لئے پوری دنیا میںصرف مسلمان ہی اس حوالے سے ارزاں اور عام ہیں حالانکہ دنیا کے کئی مسلم ممالک دولت جیسی نعمت سے مالا مال ہیں اگر صرف وہی یکجہتی و اتفاق کا مظاہرہ کریں ،انسانیت کی پاسداری کریں تو دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی مگر یہ تو اپنوں کو کاٹنے،نیچا دکھانے اور ذلیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اتوار، 1 اپریل، 2018

اسرائیلی بربریت اور بد ترین خونی دن

 اسرائیلی بربریت اور بد ترین خونی دن فلسطین کے علاقہ غزہ میں 70سال قبل اسرائیلی کے غیر قانونی اور عالمی پابندیوں اور قوانین کو روند کر وسیع ایریا پر قبضہ کے بعد ہزاروں فلسطینیوں کے بے دخل کر دینے کے خلاف 30ہزار نہتے شہریوں نے چھ ہفتے پر مشتمل احتجاج کا آغاز کیا اور سرحدی باڑ کے ساتھ پانچ مقامات پر کیمپ قائم کئے تو اسرائیلی فورسز جو دنیا کے کسی قانون ،ضابطے اور انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے مبرا ہیں نے نہتے افراد پر براہ راست اپنی گنوں کے دہانے کھول کر انہیں خون میں نہلا دیا جس کے نتیجہ میں اب تک17افراد شہید او ر1400سے زائد زخمی ہو چکے ہیں ان زخمیوں میں 758افراد ایسے ہیں جو براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنے جبکہ باقی ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کی شدید ترین شیلنگ سے زخمی ہوئے صہیونی فورسز نے فلسطینیوں پر ڈرون سے بھی آنسو گیس پھینکی ،بتایا جاتا ہے کہ2014کے بعد پہلی مرتبہ اس قدر معصوم ،نہتے اور گھروں سے بے دخل کئے گئے افراد کے خون کی ہولی کھیلی گئی اسے مہلک ترین دن بھی کہا گیا ہے،اسرائیلی فورسز نے سرحد پر ٹینک اور سینکڑوں ماہر نشانے باز تعینات کر دئیے ہیں،1948میں اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے وسیع علاقے پر غاضبانہ قبضہ کیا تو متاثرین کی سب سے بڑی تعداد اپنی جائداد اور زمینیں چھوڑ کر غزہ پہنچی تھی فلسطینیوں نے حماس کے زیر کنٹرول علاقے غزہ میں اسرائیلی قبضے کے سر سال کی تکمیل اور کئی دہائیوں سے سرحد سیل رکھنے کے خلاف وسیع پیمانے کا احتجاج شروع کیا،فلسطینیوں نے سرحد کے قریب پانچ مقامات پر احتجاجی کیمپ قائم کئے جن میں مظاہرین نے پروگرام کے مطابق چھ ہفتے قیام کرنا ہے ،انہوں نے اس مارچ کو واپسی کے عظیم مارچ(Great March Of Return) کا نام دیا ہے نماز جمعہ کیمپوں میں ادا کرنے کے بعد اسرائیلی سرحد کی جانب مارچ کا آغاز کیا تو اسرائیلی فورسز نے سیدھی فائرنگ کر کے خون کی ندیاں بہا دیں،اس احتجاج میں خواتین کی بھی کثیر تعداد شامل ہے جنہوں نے فلسطینی پرچم اٹھا رکھے ہیں یہ احتجاج مجموعی طور پر42واںسالانہ یوم ارض بھی تھااس بار فلسطین بھر میں مختلف مقامات پر احتجاجی کیمپ لگائے گئے ،عرب میڈیا کے مطابق پہلے بھی سب سے زیادہ کشیدگی اسی علاقہ میں اسرائیلی سرحد کے پاس تھی مگر خون کی ہولی کھیلنے کے بعد اس میں انتہائی شدت آ چکی ہے،ہفتہ کے روز پورے فلسطین میں اس اسرائیلی بربریت پر یوم سوگ منایا گیا،اس واقعہ کے بعد بھی اسرائیلی ٹینکوں اور طیاروں نے حماس کے تین ٹھکانوں پر حملے کئے،یہ کاروائی جمعہ کو غزہ کے جنوبی علاقے جیالیہ کے نواح خان یونس میں کی گئی(یہ وہ علاقہ ہے جہاں پہلے سے ہی کشیدگی کی فضا عروج پر تھی)، علاقے میں سیدھی فائرنگ اور کھیتوں میں کام کرتے ہوئے شہید ہونے والے افراد میں محمود معمار،محمد نجار،احمد،جہاد فرنیج،محمود سعدی احمی،عبدالفتح ،عبدالنبی،ابراہیم ابو شفا،عبدالقادر الاہجویری،ساری ابو ودیع،ہمدان ابو اشیع،جہاد ابو جاموس،بدرالباغ،ناجی ابو ہجائز،کسان وحیدابو حمود شامل ہیں ، فلسطینی صدر محمود عباس نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے فوری اقدامات کرنے میں مدد کرے،نیویارک میں سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں اس خونی تشدد کی پر شور مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل سے یہ مظالم فور بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انیتوینو گو ٹیرس نے اسرائیل اور غزہ کی سرحد پر ہونے والی خونریز جھڑپوں کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطابل کیا ہے،اقوام متحدہ میں کویت کے سفیر منصور العطیبی کے کہا اسرائیل کا اقدام بین الاقوامی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے (سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی کویت کے کہنے پر ہی منعقد ہوا تھا)،اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نے غزہ میں مظاہرین پر فائرنگ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ آئندہ دنوں میں یہاں حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں،اسرائیلی وزیر اعظم نیتن ہایو نے اپنے فوجیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ انہون نے ملکی سرحد کا تحفظ کیا اور دیگر اسرائیلیوں کی چھٹی امن سے گذری ،اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈیبن نے اس خونریزی کا الزام حماس پر عائد کیا ہے امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ غزہ کے دلخراش واقعات ہیں انسانی جانوں کے ضیاع پر بہت صدمہ ہوا،ترک صدر طیب اردژدگان نے اس دلخراش واقعہ پر کہا غزہ میں معصوم انسانی جانوں پر ظلم کیا گیا ہے اپنے گھروں سے بے دخل کئے گئے افراد کو دوبارہ آباد کاری کرنے کی بجائے انہیں شہید کر دیا گیاعالمی برادری بشمول او آئی سی اس معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اسرائیلی فوج کو ظلم و بربریت سے روکے،اسرائیلی فورسز و حکام نے اس حوالے سے مئوقف اپنایا ہے کہ بلوے کو روکنے کے لئے جس میں ٹائروں کو آگ اور فوجیوں پر فائرنگ اور اس کی ترغیب دینے پر ایسا کیا اور ایسا احتجاج ان کی ریاست کے استحکام کے خلاف تھااب اسرائیلی ھکومت نے خبردار کیا ہے کہ وہ غزہ کے اندر کاروائی کر سکتی ہے اسرائیلی فوج کے برگیڈئیر جنرل اونن نیلسن نے کہاجمعہ کو پیش آنے والے واقعات سے مظاہرین کا احتجاج نہیں بلکہ حماس کی جانب سے منظم دہشت گردکاروائی تھی اور اگر یہ سب جاری رہا تو ہم غزہ کے اندر کاروائی کر کے دہشت گردوں کو نشانہ بنائیں گے،جمعہ کو اسرائیل فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور ان کی تدفین کے دوران ۔بدلا لیں گے۔کے نعرے لگتے رہے جبکہ دوسرے روز جھڑپوں میں مزید 16فلسطینی زخمی ہو گئے ،رواں سال فروری میں فلسطینی صدر محمود عباس نے سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے بین الاقوامی کانفرنس کا مطالبہ کیا تا کہ فلسطینیوں کی علیحدہ ریاست کا مکمل درجہ ملے جس کو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے وسیع تر منصوبے کا حصہ بنایا جا سکے ،اس مسئلے کے حل کے لئے ایسا نظام وضع کیا جائے جس کی بنیاد ایک بین الاقوامی کانفرنس کے ذریعے ڈالی جائے،محمود عباس کا یہ خطاب ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مقبوضہ بیت امقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت بنانا چاہتے تھے اس حوالے سے آج بھی دنیا بھر میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے ،فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں اور اقوامتحدہ کی کئی قراردادیں مسئلہ فلسطین کے حل تک اقوام عالم پر اپنے سفارت خانے بیت المقدس منتقل کرنے کی ممانعت کرتی ہیں ،بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں 15میں سے14رکن ملکوں نے اس امریکی فیصلے کو مسترد کر دیا تھا،اقوام متحدہ نے1992میں فلسطین کو غیر رکن مبصر کی حیثیت دی تھی،امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی کے ذریعے فلسطینی مہاجرین کو ملنے والی امداد بھی بند کر دی ہے،اسی المناک واقعہ سے دو روز قبل سعودی ولی عہد شاہ محمد بن سلمان نے نیویارک میں متعدد یہودی مذہبی رہنمائوں سے ملاقات کی جس سے مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیاان ملنے والے یہودی رہنمائوں میں یونین فار جوڈیزم کے سربراہرچرڈ جیکبز،یونائٹیڈ سائنا گوگ کے سربراہ اسٹیوون رونک اور آتھو ڈوکس یونین کے سربراہایلن مینگن بھی شامل تھے ، گذشتہ ماہ سعودی عرب نے پہلی بار بھارتی پروازوں کو اسرائیل جانے کے لئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی ہے،امریکہ ہی میں سعودی ولی عہد نے کہا کہ اگر عالمی برادری نے مداخلت نہ کی تو آئندہ10/15سالوں میں ان کی ایران کے ساتھ جنگ چھڑ سکتی ہے،شام میں عالمی سازش کے تحت مسلمانوں کا وہ قتل عام ہوا اور کیا جا رہا ہے جس کی کوئی اور مثال نہیں ہے،عراق کی غیر مسلموں نے اینٹ سے اینٹ بجا دی ،مسلم ممالک میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے،اسرائیل،امریکہ ،بھارت،برطانیہ دیگر ہمنوا ممالک کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو ہی ذبح کروا رہے ہیں ،اس قدر ظلم و ستم و بر بریت کے وہ پھر بھی انسانی حقوق کے علمبردار ہیں ؟اور اکثریتی مسلم ممالک کے دوست ہیں،حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہمیں ملک شام میں کی گئی وہ بمباری بھی یاد نہیں رہتی جس میں زیادہ تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہوتی ہے،دنیا میں جدھر دیکھو مسلمانوں کے خون کی ہی ندیاں بہہ رہی ہیں ،کیا یہ وہ وقت آن پہنچا ہے جب مسلمانوں کا خون پانی سے بھی سستا ہے ؟مسلمان ممالک کے مدہوش،بے ہوش،اپنی دولت اور عیاشیوں میں مگن مگر اغیار کے غلاموں جاگو تمہاری قوم کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور مارا جا رہا ہے تماہرے بچوں کو مسلا جا رہا ہے ،تمہارا بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے ،حکمران ایسے تو نہیں ہوتے ذرا ماضی میں تو جھانکو تمہاری قوم سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کی ہیبت سے تو ساری دنیا لزرتی تھی آج کیا ہے ہ؟شاید تم میں غیرت ایمانی کا ہی فقدان ہے اور کچھ نہیں،اگر ہمت ہے تو ذرا کسی یہودی ،کسی عیسائی یا کسی ہندو کو تو ایسے مار کے دیکھو جیسے شام میں لاشیں جھلس رہی ہیں، جس طرح ابھی کل ہی اسرائیلی فوج نے تمہارے مسلمان بھائیوں کو خون میں نہلایا ہے پھر اگر یہی تمہارے دوست تمہاراہی گریبان نہ پکڑ لیں تو کہنا کیونکہ اب تمہارا گریبان غیرت سے مردہ ہو چکا ہے،اسلامی ممالک کا اتحاد بھی شاید اسلامی ممالک کے لئے ہی ہے ۔

loading...