ہفتہ، 7 اپریل، 2018

ٹیکس ایمنسٹی سکیم

 ٹیکس ایمنسٹی سکیم کسی بھی ملک ،ریاست کی تعمیر و ترقی یاتنزلی و بربادی کا دارو مدار معیشت پر ہی ہوتا ہے،وسائل کم ہوں یا زیادہ مگر حقیقت یہی ہے کہ نیت درست ہو،لوٹ مار کا عنصر قریب تک نہ ہو،ہر ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دی جانے کی سوچکا دائرہ وسیع ہو تو قومیں اور ریاستیں ترقی کرتی ہیں،کوئی لاکھ دعوے کر لے ،مگر مچھ کی طرح ٹسوے بہا لے مگر حقیقت یہی ہے کہ اس وقت پاکستانی معیشت تاریخ کے بد ترین بحران کا شکا ر ہے،بیرونی اور اندرونی قرضوں نے ملک کھوکھلا کر دیا ہے اگر یہی صورتحال اپنی اسی رفتار سے جاری رہی تودنیا کی کوئی طاقت بد نما لیڈروں کی غلط ،ناقص اور لوٹ مار پالیسی کی بدولت اسے تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا،ہر آنے والے نے ملکی معیشت کو درست سمت لے جانے کے بلند و بانگ دعوے کئے مگر آج تک کوئی بھی رہنماء پاکستان کو اس دلدل سے نہیں نکال پایا الٹا ان کی وجہ سے پاکستان مزید دھنستا چلا گیا،کئی دہائیوں سے قومی معاشی پالیسی جعل سازی کا شکار ہے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں قوم کو الجھا دیا جاتا ہے،ملک تباہی کی جانب اور ایوانوں میں بسیرا کرنے والے ترقی کی جانب گامزن ہیں،کرپشن کے خاتمہ کے لئے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ،پاکستانی عوام کی اکثریت اچھے لوگوں کی ہے لیکن وہ خاموش ہیں یہاں خاموشی توڑنا پڑے گی اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنے پڑے گا،یہاں سچ دھندلا گیا ہے کرپشن کے خلاف بات تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن عمل اس کے خلاف ہوتا ہے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر کوئی سنجیدہ نہیں،اب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستانی تاریخ کی 9ویں انکم ٹیکس کے حوالے سے ایمنسٹی سکیم متعارف کرا دی ان کے مطابق اس وقت صرف 7لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیںاور یہ محدود تعداد معاشی مسائل پیدا کر رہی ہے جو لوگ ٹیکس نہیں ادا کرتے یا ان کے بیرون ملک اثاثے ہیں تو وہ صرف دو فیصد جرمانہ ادا کر کے کالا دھن سفید کرا سکتے ہیں،شاہد خاقان عباسی نے اسی موقع پر آف شور کمپنیوں کو بھی قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا یہ کمپنیاں جرم نہیں ،ماضی میں پہلی بار جنرل ایوب خان(1958) پھر جنرل یحیٰ خان(1969) ،ذوالفقارعلی بھٹو(1976)،جنرل ضیاء الحق (1979)،میاں محمد نواز شریف (1997)،پرویز مشرف (1999)،یوسف رضا گیلانی (2008)اور میاں محمد نواز شریف (2016)میںبھی اس سے ملتی جلتی سکیمیں لائی گئیںمگر فائدہ کچھ نہ ہو سکا اگر ہوتا تو آج کیا پاکستان کی معاشی حالت یہ ہوتی؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو میاں نواز شریف کے تیسری مرتبہ منتخب وزیر اعظم کی طرح تیسری مرتبہ ہی ایمنسٹی سکیم لانے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے، گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سو کمپنیاں ایسی ہیں جو431ارب روپے ٹیکس ادا کرتی ہیں جبکہ ہزاروں کمپنیوں میں سے صرف10ہزار ٹیکس ادا کرتی ہیں،عجب بات تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں ٹیکس چوروں کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جاتی ہے مگر یہاںالٹی گنگا بہتی ہے یہاں اگر کبھی کوئی سکیم لائی گئی تو اس نے صرف امراء اور سیاستدانوں کے مفادات کو ہی تحفظ دیا اسحاق ڈار نے بتایا تھا کہ کم از کم 6کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں جبکہ غربت اس سے کہیں زیادہ ہے ،عالمی اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں غربت کی یہ 44.2فیصد ہے جو کہ حکومتی اعداد و شمار سے29.5فیصد زیادہ ہے ، جون2017تک حکومت کی جانب سے پبلک کی گئی ڈیبٹ مینجمنٹ رسک رپورٹ جو کئی حلقوں کی جانب سے شدید دبائو کے بعد جاری کی گئی تھی کے مطابق مالی سال کے اختتام تک حکومت کی جانب سے قرضوں کا حجم 21.4ٹریلین روپے تک جا پہنچا ہے جو مجموعی قومی آمدنی کا 67.2فیصد بنتا ہے حالانکہ ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں بھی کئی اعداد و شمار چھپائے گئے ،اس دوران قلیل مدتی قرضون کو جنہیں بطور رینٹ انٹرنیشنل ریزرو (NIR) کہا جاتا ہے شامل نہیں کیا گیاNIRمجموعی غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر اور اس سے متعلق حقائق کا فرق واضح کرتا ہے جون2016تک قلیل مدتی غیر ملکی قرضوں کو بطور NIRکی شرح 76.5فیصد تھی مگر اس رپورٹ میں بھی کئی اعدادو شمار شامل نہیں تھے اس وقت سٹیٹ بینک کے پاس سرکاری طور پر مجموعی ذخائر18.2بلین ڈالر تھے تو نیٹ ذخائر کا حجم صرف7.5بلین ڈالر تھا،اس رپورٹ پر شدید تنقید ہوئی کہ اسحاق ڈار نے قومی معیشت اور عوام کو قرضوں کے انتہائی برے جال میں پھینک دیا ہے کیونکہ قومی معیشت کے زیادہ تر اشاریے خطرناک صورتحال کی غمازی تھی،قومی اور بین الاقوامی قرضوں کی صورتحال بھی مزید ابتر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا قرضوں کے حوالے سے پیدا ہونے والی یہ کمزور ترین شرح مسلم لیگ کے ابتدائی تین سال 8ماہ میں سب سے کم تھی،بعد ازاں حکومت نے مزید 10ارب ڈالرز کے قرضے حاصل کئے جو غیر ملکی قرضوں ، سود کی ادائیگی اور زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سنبھالا دینے کے لئے تھے،حکومت نے یہ قرضے مختلف اداروں سے قلیل مدتی مگر زیادہ شرح سود پر حاصل کئے تھے ،کئی سال قبل سٹیٹ بینک کے سابق گورنر و ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں ورلڈ بینک،آئی ایم ایف،ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ کے طویل المعیاد قرضے کم شرح مارک اپ کے ہوتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ لینے چاہئیں تاکہ ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے،ان قرضوں میںحکومت نے 2.3ارب 90کروڑ ڈالرچین سے لئے جن میں قدرے زائد شرح سودکے 1.2ارب 30کروڑ ڈالر کے تجارتی جبکہ باقی باہمی تجارت کے قرضے ہیں،12ارب ڈالر قرضے میں سے4ارب 40کروڑ ڈالر قلیل المدتی تجارتی قرضوں کا ہے جن کی شرح سود عام مالیاتی اداروں کی نسبت بہت زیادہ ہے،یہ مہنگے قرضے سود اور اقساط میں خرچ کئے گئے،اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کا طویل المدتی قرضوں کی بجائے قلیل المدتی تجارتی قرضوں پر بڑھتا ہوا رجحان انتہائی باعث تشویش ہے،یہ قرضے چائنہ ڈویلپمنٹ بینک ،انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنہ کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے نور بینک سے ساڑھے44کروڑ ڈالر،سوئز کنسورشیم ،اے بی ایل ،یو بی ایل سے65کروڑ ڈالر،سٹی بینک سے ساڑھے27کروڑ ڈالراور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سے 70کروڑ ڈالر حاصل کئے گئے،موجودہ حکومت مجموعی طور پر 40ارب ڈالر کا قرضہ لے چکی ہے آخری کئی ماہ سے تواوسطاً ہر ماہ ایک ارب ڈالر کا قرض لیا جا رہا ہے آخر معاشی طور پر ہم کھڑے کہاں ہیں سوائے حکومت کے کسی کو کچھ پتا نہیں ہماری قومی معاشی پالیسی اور خزانے کا ذمہ دار ہے کون؟دنیا بھر میں معاشی پالیسی کو10سال کے لئے بنائی جاتی ہے اور یہاں تجربات کی ہنڈیاں ہر وقت چولہے پر رہتی ہے،حکومت کے آخری چند ماہ ہیں مگر عوام کی حالت کیسے اور کب سدھرے گی یہ روٹی کھاتے ہیں نعرے نہیں،علاج کے بیرون ملک جانے والے نیب زدہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں نے بیڑہ غرق کر دیا مگر وہ بیمار شخص ٹی وی پر آکر اپنی ہی حکومت پر چڑھ دوڑتا ہے معیشت کو ٹھیک کر کے تو دکھائو ؟ عجب بات ہے،وہ یہ بھول گئے ہیں کہ انہی کی پالیسی کے تحت لئے گئے قرضوں پر اربوں ڈالر تو سود کی مد میں قومی خزانے سے چھلانگ لگا جائیں گے،ملکی وسائل کا استعمال تک نہیں کیا گیا فلاحی و ترقیاتی کام کہاں سے ہوں گے حکومت اس کام کے لئے رکھے فنڈز کا بھی اجراء نہیں کر پائی ،1001ارب روپے میں سے 400ارب روپے جو مختلف منصوبوں کے لئے مختص تھے وہ حکومتی اخراجات کی نذر ہو گئے،کیا شاندار معاشی پالیسیاں ہیںکبھی ہم موٹروے ،کبھی ائیر پورٹ،کبھی پورٹ گروی رکھتے ہیں اس کے باوجود عوام کے مفاد سے منسلک کوئی پالیسی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی،برآمدارت ختم ہو چکی ہیں درآمدات آسمان کو چھو رہی ہیں،قوم قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی مگرمحلات ایوان صدر روازنہ25لاکھ اور وزیر اعظم ہائوس روزانہ20لاکھ روپے خرچہ ہے اسی طرح کے درجنوں شاہی محلات غریبوں کا خون نچوڑ رہے ہیں گذشتہ صرف ایک سال میں 14لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت اور ناقص غذائوں جن کی بنیادی وجہ مہنگائی تھی سے ہلاک ہوئے،ملکی سرکلر ڈیڈ 1000ارب کو چھو رہا ہے ہر قومی ادارے میں خسارا ہی خسارا جس کا جن قابو سے باہر ہے،10ماہ میں 10ارب ڈالر کا خسارا ہو چکا جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں 17.5ارب ڈالر کی کمی واقع ہو چکی ہے، لگتا ہے آنے والے وقت میں گشکول نہیں بلکہ بھیک لینے کے لئے کوئی بڑا برتن پکڑنا پڑے گا،لیبیا کے کرنل قذافی مرحوم کے بیٹوں نے انڈیا میں پراپرٹی خریدی جس کا کیس انڈین ہائی کورٹ تک پہنچ گیا18ماہ کیس چلا اور بیرون ملک خریدی گئی جائداد کی نیلامی کر کے اسے فروخت کر دیا گیا،یہاں کی اشرافیہ دوبئی،لندن سمیت کئی ملکوں میں بلیک منی کے ذریعے نہ صرف جائداد خرید چکی ہے بلکہ ان کے بیرون ملک کاروبارکسی جیٹ طیارے کی طرح تیز ترین رفتار سے بلندیوں کو چھو رہی ہے،یہاں ہر آنے والا حکمران معاشی طور نہ صرف ملک کا بیڑا غرق کرتا ہے بلکہ سب سے زیادہ شور بھی وہی مچاتے ہیں کہ آنے والے سب کھا گئے،ملک کو معاشی طور پر ان نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ ملکی سلامتی دائو پر لگ چکی ہے،ہمارے لیڈران کے اربوں ڈالر رہبروں کی مرضی و منشا اور سرپرستی کی بدولت سوئس بینکوں میں پڑے ہیں مگر ہمارا اپاہج نظام جو یرغمال بھی انہی کے ہاتھوں ہے جن کی یہ رقم ہے تو بھلا اس کی واپسی کیسے ممکن ہے انہی سوئس بینکوں سے تیونس نے 61لاکھ ڈالر،مصر نے 65لاکھ،یوکرائن نے70ارب ڈالر واپس لئے ہیں بھارت بھی ایسی جدوجہد کے ثمرات کسی حد تک مل چکے ہیں اور مزید واپسی جلد متوقع ہے،اب پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر نے غریب آدمی کی کمر سرے سے ہی توڑ دیا ہے،سیمنٹ،سریا سمیت دیگر تمام تعمیراتی سامان کی قیمتوں ہوش ربا اضافے سے عام آدمی تو اپنے لئے چھت بھی نہیں بنا سکتا،ماضی میں کالا دھن سفید کرنے والی اسکیموں سے ہمیشہ اشرافیہ کو ہی فائدہ پہنچا ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے آخری دو ماہ میں جاری کی جانے والی اس سکیم سے بھی وہ لوگ زیادہ فائدہ اٹھائیں گے جنہوں نے پاکستانی مہنگے ترین یورو بانڈز خریدے تھے جن کا مجموعی تعلق بر سر اقتدار پارٹی سے ہے،بلاول بھٹو نے اس ایمنسٹی سکیم کو پانامہ ایمنسٹی سکیم قرار دیا،سینیٹر رضا ربانی نے اس سکیم سے محنت کش طبقے کو مزید نقصان ہو گا،پی ٹی آئی کے اسد عمر نے کہا اس سکیم کا سب سے زیادہ فائدہ سیاستدانوں کو ہی ہو گا،2016کی عالمی رینکنگ کے مطابق اکائونٹ بیلنس میں پاکستان کا161/199واں،ایکسپورٹ کم کرنے کی بجائے ہم66ویں نمبر ،درآمدات پر ہمارا اتنا زیادہ انحصار ہے کہ ہم اس سلسلہ میں55ویں نمبر پر ہیں ،جی ڈی پی میں ہم 158ویں پوزیشن پر تھے،شدید معاشی پالیسیوں کی بدولت تازی ترین اعداد و شمار ان سے بھی کہیں بد تر ہیں پھر کہا جتا ہے کہ بہت ترقی ہوئی،بہت ترقی کر رہے ہیں،عوام کی حالت سدھاری ،ادندھیرے ختم کئے ہو اس کے بر عکس رہا عوام کی حالت مزید بگاڑی ،اندھیروں کا جن بے قابو اور جو پچھلے دنوں سے روپے کی قدر میں کمی اس کی بے حرمتی ایسے ہی نہیں ہوئی بلکہ کئی لوگ راتوں رات کروڑوں روپ کما گئے،یہ سلسلہ مزید جاری ہے آج بھی 10پیسے مزید کمی ہوئی بھلا ایسے مہنگائی کم ہو گی یا زیادہ ؟غذائی اشیاء کی قیمتوں کی پرواز بلند تر ہوتی جا رہی ہے،نئی اسکیمیں لانے والوں کو یقیناً یہ خبر نہیں ہو گی کہ ہر عام آدمی سوائے سانس لینے کے ہر چیز پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ کن گناہوں کی بھینٹ چڑھنے کے لئے پیدا ہو کر اس دھرتی پر غلامانہ اور بے بسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں؟موجودہ حکومت جاتے جاتے بجٹ پیش کر کے جائے گی جس کے لئے پیسہ ہونا ضروری ہے اور ساتھ ساتھ چھپایا گیا کالا دھن بھی سفید ہو جائے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

loading...