پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 12 اپریل، 2018

عظمت ِ بشر

عظمت ِ بشرمعراج النبی ﷺ کو ہمارے ہاں مذہبی نوعیت کا واقعہ تہوار سمجھا جاتا ہے اور اِسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے ‘اسی وجہ سے مقدس مذہبی تہوار کی مناسبت سے ایک آدھ جلسہ منعقد کر کے شب دیدار کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں ‘نوافل پڑھ لیے ‘شیرینی بانٹ دی ‘ریڈیو ٹی وی چینل پر مقررتقریریں کر کے واہ واہ کا ماحول بنایا اور فارغ ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ اصل میں یہ واقعہ عروج آدم خاکی کا شاندار مظہر ہے ۔ تسخیرِ کائنات کے سفر کا اہم سنگِ میل ہے۔ سفر معراج کے تین مراحل ہیں ۔ پہلا مرحلہ مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک یہ زمینی سفر ۔ دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک ہے ‘یہ کرہ ارض سے کہکشاوں کے اس پار واقع نورانی دنیا کا سفر ہے اور سب سے اہم تیسرا مرحلہ سدرۃ المنتہی سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک ہے ۔یہ لازوال سفر محبت اور عظمت کا سفر ہے یہ سب دیدار محب اور محبوب کی انوکھی خاص ملاقات ہے لہذا اِس ملاقات کو زیادہ تر راز میں رکھا گیا سور النجم میں صرف اتنا فرمایا وہاں اللہ تعالی نے اپنے محبوب سے راز و محبت کی باتیں کرلیں ۔ بے شک اِس مقام پر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کا خوبصورت مکھڑا دیکھا اور اپنے محبوب کی میٹھی میٹھی زبان سے باتیں سنیں ۔ یہی وہ مقام تھا جہاں فقط رسول کریم ﷺ ہی تھے جو اپنے رب تعالیٰ کے حسن بے نقاب کے جلوے میں مشغول تھے اور اللہ تعالی کے ارشادات اور پیار بھری باتیں ۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سفر محبت و عظمت اپنے مقصود کو پانے والا تھا ۔ اِس رات سر تاج الانبیا ﷺ کے ہر روحانی لطیف کو قرب ِ الٰہی نصیب ہو ااور وہ دیدار خدا کی لازوال لذتِ دوام سے ہمکنار ہوا یہاں پر جب تمام مراحل طے پاگئے تو ساقی کو ثر اِس حال میں زمین پر لوٹے کہ ہر ہر لطیفے میں مالک ارض و سما کے قرب اور دیدار کی لذتیں سما چکی تھیں ۔ معراج النبی ﷺ کا وقوع پذیر ہونا انسانی تاریخ کا ایک ایسا زرین اور درخشندہ باب ہے جس کا ایک ایک حرف عظمت و رفعت کی ہزار ہا داستانو ں کا امین اور عروج آدم خاکی کا ان گنت پہلوئوں کا مظہر ہے نقوش ِ کفِ پائے محمد ﷺ سے لوح افلاک پر شوکت انسانی کی جو دستاویز مرتب ہوئی وہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہی نہیں بلکہ ایسا مینارہ نور بھی ہے کہ جو تسخیرِ کائنات کے ہر مرحلے پر آنے والی نسل انسانی کے راستوں کو منور کرتا رہے گا اور آسمانوں کی حدود سے نکل کر اولادِ آدم کو مشاہدہ فطرت کی ترغیب دیتا رہے گا سفر معراج اصل میں سفر ارتقا ء ہے یہ آقائے دو جہاں کا وہ عظیم معجزہ ہے جس پر عقل انسانی آج بھی انگشت بد نداں ہے انتہائی کم وقت میں مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک لمبا سفر طے ہو جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے قسم ہے روشن ستارے (وجود محمدی ﷺ)کی جب وہ(شبِ معراج عرشِ بریں پر عروج فرما کر زمین کی طرف ) اترا تمھارے آقا نہ کبھی گمراہ ہوئے اور نہ بے راہ چلے اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے ۔ ان کافرمانا فقط وحی الٰہی ہی ہوتا ہے جو (انکی طرف)کی جاتی ہے ۔ انہیں سکھایا سخت قوتوں والے بہت زبردست اللہ نے ۔ پھر اس اللہ نے استوی فرمایا ۔ اِس حال میں کہ وہ(محمد ﷺ) سب سے اونچے کنارے پر تھے پھر قریب ہوااللہ محمد ﷺسے پھر زیادہ قریب ہوا ۔ تو محمد ﷺ اپنے رب سے دو کمانوں کی مقدار نزدیک ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ۔ تو وحی فرمائی اپنے عبد مقدس کو جو وحی فرمائی۔ سور انجم ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ وہ ذات ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے محبوب اور مقرب بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے با برکت بنا دیا تاکہ ہم اس بندہ کامل کو اپنی نشانیاں دکھائیں بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے ۔ سور بنی اسرائیل ۔ حدیث مبارکہ میں یوں بیان ہے ۔ یہاں تک کہ آپ سِدرۃ المنتہیٰ پر آگئے رب العزت اپنی شان کے لائق بہت ہی قریب ہوا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اِس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ صحیح بخاری ۔ رب کعبہ نے اپنی شان کے مطابق اپنے محبوب ﷺ کو خوش آمدید کہا اور اتنا قریب ہوا کہ اللہ تعالی اور اس کے محبوب کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا گویا کہ رحمتِ مجسم ﷺ پر پروردگار کے جلوئوں کی برسات خوب ہوئی بارگاہ خدا میں نبیوں کے سردار تاجدار کائنات ﷺسرتاپا صفات ربانی میں اسطرح رنگے گئے کہ آپ ﷺ کی ذات اللہ تعالیٰ کی پیکراتم بن گئی ۔ سرور کائنات ﷺ مقام بشریت کو بیت المقدس میں چھوڑ گئے اور مقامِ نورانیت کو عالم ملکیت میں چھوڑ کر آگے گزر گئے ۔ حقیقت محمدی ﷺ ان دونوں مقامات کی انتہا سے بھی بالا تر ہے آپ ﷺکا اصلی گھر تو لامکاں تھا جہاں پر آپ ﷺ کو مدعو کیا گیا ۔ سفر معراج کی شان دیکھئے رب ذولجلال جب چاہے دنیا کے اندازے اور قاعدے ضابطے قوانین وقت کے پیمانے پلٹ کر رکھ دے ۔ معراج کے حوالے سے عبدالقدوس گنگوہی نے کیاخوب کہا ہے کہ ۔ حضور ﷺ فلک افلاک پر پہنچے مگر واپس آگئے اگر میں وہاں پہنچ جاتا تو کبھی واپس نہ آتا ۔ یہ بات ایک صوفی تو کر سکتا ہے کہ صوفی کا نقطہ کمال یہی ہے اگر وہ اس تک پہنچ گیا تو گویا اِس کی تمام عبادات ریاضتوں کا ثمر حاصل ہو گیا لیکن پیغمبر کا منصب مخلوق خدا کی ہدایت اور راہنمائی ہے کہ وہ عرش پر جا کر بھی اپنے منصب کی تکمیل کے لیے واپس فرش پر لوٹ آتا ہے ۔شبِ معراج کا یہ معجزہ ہے کہ انسان بس ایک مشتِ خاک جسے ہوا کا ایک جھونکا اڑا اور بکھیر سکتا ہے ۔ فرشتوں نے بھی حضرت انسان کی عظمت کو محض تسبیح و تقدس کے حوالے سے دیکھا اور بول اٹھا کہ ہم اِس سے زیادہ خدا کی پاکی اور حمد بیان کر نے والے ہیں لیکن معراج کی رات نبی کریم ﷺ ان انتہائی رفعتوں اور منزلوں سے ہو آئے جس کے پہلے زینے پر جبرائیل امین کے پر جلنے لگے وہ منظر کتنا خوب ہو گا جب محبوب خدا ﷺ خراماں خراماں ان رفعتوں کی طرف بڑھے جہاں فرشتوں کے پر جلتے تھے اس وقت ملائکہ کتنی حسرت سے دیکھتے ہوں گے اور رشک کرتے ہوں گے ۔ مرحوم کوثر نیازی نے کیا خوب کہا ہے۔
ان کی عظمت کی جھلک دیکھ کر معراج کی شب 
کب سے جبرائیل کی خواہش ہے بشر ہو جائے

پیر، 9 اپریل، 2018

چراغ چشت

چراغ چشتکفر اوربت پرستی میں غرق ہزاروں سال پرانی تہذیب کا وجود خطرے میں پڑ چکاتھا ‘ذات پا ت میں منقسم بلند و بالا عما رت زمین بو س ہو نے جا رہی تھی ‘ہر طا قتور اور چمکتی چیز کو خدا کا اوتا ر سمجھنے والوں کو نور ِ ایما نی میں رنگنے والا آن پہنچا تھا ‘تا رہ گڑھ کی پہا ڑیوں ‘اجمیر شہر میںایسا چراغ چشت روشن ہو چکا تھا جس کے اجا لے نے قیامت تک کروڑوں اندھوں کو معرفت الٰہی کی روشنی دینی تھی ‘نسلِ انسانی کے ایسے عظیم بزرگ نے یہاں آکر ڈیرہ جما یا تھا جس نے روز محشر تک انسانوں کے دلوں پرراج کر نا تھا ‘دھرتی کا واحد مزار پر انوار ِ جہاں پر مسلمان تو مسلمان غیرمسلم بھی سکون اور روشنی کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ‘ایسا مزار جہاں مسلمانوں سے زیا دہ غیر مسلموں کی تعداد دن رات دامنِ مراد پھیلا ئے نظر آتی ہے ‘شہنشاہِ چشت خو اجہ معین الدین چشتی ؒ کے یہاں آتے ہی آسمان پر ہلچل مچی ہو ئی تھی ‘علم نجوم کے ما ہرین کسی بڑے انقلاب کی نو ید سنا رہے تھے ‘نسل ِ انسانی کا ایسا عظیم انسان کہ مخفی قوتیں غلاموں کی طر ح اُس کے سامنے نظر جھکا ئے کھڑی تھیں ‘شاہِ چشت ؒ نے آکر ڈیرہ ڈالا تونو ر اسلام تیزی سے پھیلنا شروع ہوا جو بھی آپ ؒ کے پاس آتا آپ کا پر انوار چہرہ مبا رک دیکھ کر پکا ر اُٹھتا کہ یہ جو بھی کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے آپ ؒ کے چہر ے پر پھیلا دلنواز تبسم آنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ‘آپ کی شہرت تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی پھر قدرت نے اہل علا قہ کوآپ ؒ کا مقام دکھا نے کا فیصلہ کیا ‘خوا جہ معین پا ک ؒ نے آکر شہر سے با ہر قیا م کیا جہاں پر آپ ؒ نے قیام کیا وہ با دشاہ پر تھوی راج کے اونٹو ں کی جگہ تھی ‘جہاں پر راجہ کے اونٹ آرام کر تے تھے ‘آپ ؒ کو وہاں دیکھ کر حکو متی اہلکا ر تیزی سے آپ ؒ کے پاس آئے اور غصیلے لہجے میں بو لے آپ ؒ کون ہیں اور یہاں کیوں بیٹھے ہیں ‘آپ ؒ نہیں جانتے یہ راجہ کے اونٹوں کی جگہ ہے اِس جگہ کو کو ئی اور استعما ل نہیں کر سکتا ‘شاہِ چشت ؒ شیریں لہجے میںبولے یہ خدا کی جگہ ہے میں آرام کی غر ض سے بیٹھ گیاہوں ‘میدان بہت بڑا ہے میری وجہ سے کم نہیں ہو جا ئے گا آپ ؒ راجہ کے اونٹوں کو بھی بٹھا لیں لیکن حکو متی کا رندوں کا لہجہ سخت ہو تا جا رہا تھا ‘آخر کا ر خو اجہ چشت ؒ اٹھ کھڑے ہو ئے لیکن جا تے جا تے یہ کہہ گئے کہ میں اُٹھ کر جا رہا ہوں لیکن اب جو بھی یہاں آکر بیٹھے گا وہ پھر نہیں اٹھے گا ‘ساربانوں نے درویش باکمال کی باتوں کا مذاق اڑا یا اور قہقہے لگا تے رہے ۔ خوا جہ پا ک ؒ کے جا نے کے بعد راجہ کے اونٹ وہاں آکر بیٹھنا شروع ہو گئے تا کہ رات گزارسکیں ۔ اگلے دن حسبِ معمول ساربان آئے اور اونٹوں کو اٹھا نا چاہا لیکن اونٹوں نے اٹھنے سے انکار کر دیا ‘اٹھنا تو درکنار اونٹوں میں جنبش تک نہیں ہو رہی تھی ‘او نٹوں کی بے حسی سے لگ رہا تھا جیسے زمین نے اُنہیں جکڑ لیا ہو اب ساربانوں نے اونٹوں پر کو ڑے برسانا شروع کر دئیے ‘اونٹوں نے اٹھنے سے انکا ر کر دیا اب حکومتی کارندوں کو درویش کی با ت یاد آئی تو گھبرا کر راجہ کے پا س جا کر سارا واقعہ سنا دیا ‘با دشاہ گہری سوچ میں پڑ گیا اور کا رندوں سے بو لا جا ئوجا کر اُس سادھو سے معافی ما نگو‘ اِسی دوران اہل علا قہ بھی اس واقعے سے واقف ہو چکے تھے ‘اب ساربان واپس آئے اور خواجہ پاک ؒ کو ڈھونڈنا شروع کیا تو آپ کو انا ساگر تالاب کے کنا رے درخت کے نیچے آرام کر تے دیکھا ‘آکر معا فی ما نگی رحم دل فقیر نے معاف کیا اورکہا جا ئو اب زمین تمہا رے اونٹوں کو چھوڑ دے گی اور پھر اجمیر کے با سیوں نے عجیب منظر دیکھا جو اونٹ اٹھنے کا نام نہیں لے رہے تھے ‘خوا جہ پاک ؒ کی اجازت کے بعد آسانی سے اُٹھ گئے اہل اجمیر حیران تھے کہ جانور بھی درویش کی با ت مانتے ہیں ‘علا قے میں یہ کر امت آگ کی طرح پھیل گئی کہ بہت بڑا جا دوگر آگیا ہے اب لوگ قافلوں کی صورت میں آکر شاہ اجمیر ؒ کو دیکھنے لگے وہ تو کسی جادوگر کو دیکھنے آتے تھے لیکن یہاں تو دلنواز تبسم اور روشن چہرے کے ساتھ اللہ کا بند ہ تھا جس کے لہجے کی مٹھا س سے لو گ گھا ئل ہو رہے تھے ‘ایک مقنا طیسی کشش تھی جس کی کشش میں لو گ دیوانہ وار شاہ چشت ؒ کے قریب آرہے تھے آپ ؒ کے دیوانوں کی تعداد بڑھنے لگی ‘لوگ نفرت کے ساتھ آتے لیکن نگا ہِ درویش پڑتے ہی اپنے سر زمین پر رکھ کر اقرار غلا می کر تے‘ مندروں میں کہرام مچ گیا پنڈت برہمن آگ بگولا ہو رہے تھے براہمنوں پنڈتوں نے مسلمان ہو نے والے راجپوتوں کو اکٹھا کیا اور پو چھا تم نے اُس فقیر میں کیا دیکھا جو صدیوں پرا نے دھرم سے مکر گئے ہو ‘نو مسلموں کا ایک ہی جوا ب تھا وہ روشن چہرے والا جھوٹ نہیں بو لتا ‘ہما رے دل گو اہی دیتے ہیں کہ وہ سچا ہے وہ حقیقی ہمدرد ہے ‘بر ہمنوں نے جب دیکھا کہ یہ باز نہیں آرہے تو پہلے انہیں دولت کی پیشکش کی پھر برادری سے خا رج کرنے کی دھمکی دی لیکن ایمان کے چراغ جہاں جل جا ئیں وہا ں پر کفر کا زنگ کیسے رہ سکتا ہے ‘پھر سزاکے طور پر اِن نو مسلموں کو برادری سے خا رج کر دیا گیا ‘اب یہ نو مسلم شاہ اجمیر کے در پرآ گئے‘ دن بدن مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے راجہ پرتھوی نے سخت حکم جا ری کیا کہ درویش اور اُس کے ساتھیوں پر پا نی بندکر دو تا کہ پیا س کی وجہ سے علا قہ چھو ڑ کر چلے جا ئیں اب جب شہنشاہِ چشت ؒ کے مرید وضو کے لیے انا ساگر تالاب پر پانی لینے گئے تو وہاں پر پہلے سے حکومتی اہلکا روں کو پہرہ دیتے دیکھا ‘انہوں نے خو اجہ جی کے غلا موں کو حکم دیا کہ اب تم اِس تالاب سے پانی نہیں لے سکتے تم لو گ ناپاک ہو تمہا رے چھونے سے پا نی ناپاک ہو جاتا ہے اِس لیے اب تم پانی کسی اور جگہ سے لیا کر و‘ مریدین نے کہا پا نی تو جانوروں پر بھی بند نہیں کرتے تو کا رندے بو لے تم جانوروں سے بھی برے ہو ‘تم کو پا نی نہیں ملے گا مریدوں نے آکر شاہ چشت ؒ کو بتا یا کچھ دیر سو چنے کے بعد آپ ؒ نے اپنے خادم کو کہا جا ئواور اُن سے کہو آج ایک پیا لہ پا نی دے دو آئندہ ہم اپنا انتظام کر لیں گے پھر خا دم کو اپنی اطراف آتا دیکھ کر حکو متی کا رندے تحقیر ٓامیز لہجے میں قہقہے لگا نے لگے وہ مسلمانوں کی بے بسی کا مذاق اڑا رہے تھے وہ نہیں جا نتے تھے کہ بے بسی کا شکا ر تو وہ خو د ہو نے والے تھے ‘خادم نے کہا آج ایک پیالہ پا نی دے دیں تو کارندے حقارت سے بو لے آج ایک پیا لہ لے جائو لیکن آج کے بعد تمہیں ایک قطرہ پا نی کی بھی اجا زت نہیں ملے گی ‘اہل علا قہ بھی یہ منتظر دیکھنے کے لیے جمع تھے ‘پھر خا دم آگے بڑھا اور جا کر تالاب سے ایک پیا لہ پا نی بھر لیا لیکن پھر کا رندوں اور لوگوں نے جو منظر دیکھا اُسے دیکھ کر سب کی سانسیں رک چکی تھیں آنکھیں پتھر ا چکی تھیں حیرتوں کے پہا ڑ ٹو ٹ پڑے تھے ‘خا دم نے پیا لہ کیا بھرا کہ سارے تالاب کا پانی پیا لے میں آگیا تھا ‘تا لاب میں اب ایک قطرہ پانی بھی مو جود نہیں تھا فوجیوں پر دہشت طا ری ہو گئی خو ف کے ما رے وہاں سے بھا گ گئے شاہ اجمیرؒ کے روحا نی تصرف سے پورا تالاب ایک پیالے میں سما گیا تھا ۔ 

جمعرات، 5 اپریل، 2018

انوارِ خواجہ ؒ

انوارِ خواجہ ؒسرتاج الانبیاء ‘سرور دو جہاں ‘محبوب خدا ﷺ کے حکم پر تاریخ تصوف کے سب سے بڑے ‘انوکھے ‘دلوں کے راجہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کرہ ارض پر سب سے بڑے خطہ کفرستان کے بت پرستی کے گڑھ ہندوستان کی طرف چالیس مریدین کے ساتھ روانہ ہو تے ہیں ‘قشقہ وزنا ر کی ایسی سر زمین جس کے چپے چپے پر خو د تراشیدہ بتوں کی پو جا جا ری تھی ‘تو حید کے ٹمٹما تے چراغ صدیوں قبل گل ہو چکے تھے ‘شاہ چشت ؒ کی منزل اجمیر تھی آپ ؒ ملتان اورلا ہور میں قیام کے بعد اجمیر شریف کی طرف بڑھے ‘وہ خطہ جہاں ابھی تک اسلا م نے ہنو ز جڑ نہیں پکڑی تھی فاتحین اسلام یہاں سے گزرے ضرور تھے مگر اِس سر زمین کے کسی پتلے کو نور اسلام سے فیض اٹھا نے کی عزت و فضیلت ابھی تک نہیں ملی تھی ‘اجمیر کے اطراف میں راجپو تا نہ سلطنتیں قائم تھیں جنہوں نے شاید اسلا م کا نام ہی سنا تھا ‘کفر پر ستی میں غرق یہاں کے با دشاہوں کو اسلام کی سب سے زیا دہ ضرورت تھی ‘اجمیر شہر آگرہ کے مغرب میں تا را گر کی پہا ڑیوں میں واقع ہے ‘یہ ہندوستان کا قدیم اور تاریخی شہر ہے ‘تا ریخی حقائق کے مطا بق اِس شہر کی بنیا د راجہ جے پال نے دوسری صدی میں رکھی‘صدیوںکی الٹ پھیر میں جگہ بدلتا ہوا مو جو دہ مقا م پر آگیا ‘تذکرہ نگا روں نے اجمیر کے اور نام بھی ذکر کئے ہیں مثلا جہانگیر ‘جیر ‘آگ ‘جلو پو ر ‘آدمیر ‘صدیوں کی کروٹوں سے حالات بدلتے گئے پھر گیا رھویں صدی کا دور آتا ہے جب بیسل دیوا اجمیر کا راجہ تھا جس کے عہد حکومت میںاجمیر ایک طا قت و ر ریا ست کے نام سے جانا جانے لگا ‘سلطان محمود غزنوی نے بیسل دیو کو شکست دی‘ اسلام کی حقانیت دیکھ کر راجہ حلقہ اسلام میں داخل ہوا ‘ زندگی سے بیزار ہو کر خلو ت گزینی اختیا ر کی ‘سلطان محمود غزنوی نے سالار ساہو کو حاکم اجمیر بنا دیا ‘بیس سال بعد راجپوتوں نے خو د کو سنبھا لا طاقت کے زور پر مسلمان حکمران کو شکست دی ‘اب انا دیو اجمیر کا حکمران بنا اِسی حکمران کے نام پر ایک تالاب بنا یا گیا جو آج بھی موجود ہے اِس تالاب کا نام انا ساگر رکھا گیا ‘انا دیو کے بعد ایک سمجھ دار اور طاقت ور راجپوت مسند اجمیر پر جلو ہ افروز ہو تا ہے جس کا نام پرتھوی راج تھا ‘جسے راجہ پتھو را کے نام سے ہندو آج بھی یاد کر تے ہیں ‘اِس کے دور میں اجمیر نے غیر معمو لی تر قی کی ‘اجمیر کے چاروں طرف پہا ڑوں کی وجہ سے قدرتی پنا ہ گاہ بھی مو جود تھی اِسی لیے اجمیر اپنے مو قع محل اور حالت کے پیش نظر بلا شبہ ہندو ستان کا کعبہ قرار دیا جا سکتا تھا ۔ ہندوستان اُن دنوں نا زک حالات سے گزر رہا تھا لو گ غزنوی حملوں کو بھو ل چکے تھے ‘شہا ب الدین غو ری دہلی اور اجمیر کے راجوں سے شکست کھا کر تلملا رہا تھا ہندوستان میں چاروں طرف ہندو راجائوں کی حکو مت تھی اِن ہندو راجائوں میں اجمیر کا راجہ پر تھوی راج سب سے زیا دہ طا قتور سمجھا جا تا تھا ‘شاہِ چشت ؒ اجمیر کی طرف جا تے ہو ئے چند دن دہلی قیام کر تے ہیں ‘یہاں پر اپنے خلیفہ خا ص حضرت قطب الدین بختیار کا کی کو رشد و ہدا یت پر فائز کر کے اجمیر کی طرف بڑھ جا تے ہیں ‘شہا ب الدین غو ری کو شکست دینے کے بعد اجمیر کا راجہ غرور میں مبتلا ہو چکا تھا ‘مسلمانوں کے خلا ف نفرت پو رے جو بن پرتھی ‘خو اجہ معین الدین ؒ اپنے چالیس خدا مست مریدوں کے سا تھ اجمیر تشریف آ کر شہر کے نواح میںاپنی جھو نپڑی بنا کر رہا ئش اختیار کر تے ہیں ‘شروع میںاہل اجمیر نے یہی سمجھا کہ کو ئی ہندو جو گی تیاگ لینے کے لیے دنیا سے دور جنگل میںآپڑا ہے جو چند دن گزار کر یہاں سے چلا جا ئے گا لیکن جب آپ ؒ کا قیام تھو ڑا طو یل ہوا تو لوگوں میںآ پ کے حوا لے سے تجسس بیدار ہوا کہ آپ ؒ کون ہیں اور یہاں بسیرا کر نے کی وجہ کیا ہے اب اہل شہر نے آپ ؒ کے با رے میں کھو ج لگا نے کی کو شش کی آپ ؒ کی طرف آئے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ کو ئی ہندو جو گی یا سا دھو نہیں ہے اِس کی عبا دت اور لبا س تو اُن سے مختلف تھا پھر ایک دن وہ شاہ چشت ؒ کے حضو ر آئے جب شاہ ِ چشت ؒ نے اہل علا قہ سے اُن کی زبان میں با ت کی تو وہ بہت حیران ہو ئے ‘اہل علا قہ نے شاہ اجمیر ؒ سے پو چھا آپ ؒ کو ن ہیں اور یہاںآنے کا مقصد کیا ہے تو دلوں کے راجہ جناب حضرت معین الدین چشتی ؒ شفیق لہجے میں مسکرا ئے اور بو لے ہم مسلمان ہیں اور آپ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے آئے ہیں ‘اسلام کا نام سن کر راجپو ت غرانے لگے تم اُسی شہاب الدین غو ری کے مذہب پر ہو جن کی طا قت اورغرور کو ہم شکست دے کر دفن کر چکے ہیں ‘اُس نے بھی اسلا م اور اللہ کا پیغام دیا تھا راجپو توں کی آواز سن کر شاہ چشت دلنواز مسکراہٹ سے بولے ‘خدا کا پیغام کبھی دفن نہیں ہوتا‘زمین و آسمان کائنات ریت کے ذروں میں تبدیل ہو جا ئے تو بھی خدا کی شان میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑے گا ‘خدا کا پیغام اب ہندوستان کے چپے چپے تک پہنچے گا ‘اب کفر کا اندھیرادور ہو گا ‘تم اپنی آنکھیں کان اور دروازے بند کر لو لیکن پیغام حق اب تمہا رے دلوں اور روحوں تک ضرورپہنچے گا ‘اہل علا قہ حیرت سے درویش بے نیاز کی با تیں سن رہے تھے کہ یہ نہتا انسان ہتھیاروں کے بنا کس طرح اتنا بڑا دعویٰ کر سکتا ہے ‘راجپو ت غصے سے بولے ہم یہاں پر یہ سب کچھ برداشت نہیں کریں گے ‘خوا جہ پا ک ؒ نے شفیق نظروں سے اُن کی طرف دیکھا اور چٹانوں جیسی سختی کے ساتھ بو لے پیغام حق کو تم سنو گے آپ کے آہنی لہجے کو دیکھ کر راجپو ت بو لے تم کیا پیغام دینا چاہتے ہو کس خدا کا پیغام لا ئے ہو ‘مسیحا ہند تبسم سے بولے خدا ایک ہے اُس کا کو ئی شریک نہیں ہے وہ ہر چیز سے بے نیا زہے نہ اُس کی کو ئی اولاد ہے نہ اُس کا کوئی با پ ہے ‘خوا جہ دلنوا ز نے سنسکرت زبان میں سو رۃ اخلاص کا ترجمہ سنا یا اور کہا تم جن خود ترا شیدہ مورتیوں کی پو جا کر تے ہو وہ تو اپنی مر ضی سے حرکت بھی نہیں کر سکتیں وہ دوسروں کو کیا دے سکتی ہیں رنگ جلال سر چڑھ کر بو ل رہا تھا ‘راجپو ت غصے میں آکر کھڑے ہو ئے اور تلوا ریں نکالنے کی کو شش کر نے لگے وہ بتوں کی نفی کر نے والے کو سزا دینا چاہتے تھے پھر اُسی وقت درویش چشت نے رنگ جلال میں آکر راجپوتوں کی طرف دیکھا ‘نگا ہِ درویش کی تاب نہ لا تے ہو ئے راجپوتوں پر لر زا طا ری ہو گیا وہ تلواریں نکالنا چاہتے تھے لیکن پتھر کے بتوں کی طرح بے حس ہو چکے تھے ‘پھر لر زا بڑھا تلواریں زمین پر گر پڑیں اور دہشت سے راجپوت بھا گ کھڑے ہو ئے ‘آج وہ راجپوت بھا گ رہے تھے جنہوں نے کبھی جنگ میں مو ت کو دیکھ کر بھی بھا گنے کی کو شش نہیں کی تھی ۔ چند دن کے بعد پھروہی گرو پ دوبا رہ درویش با کمال کا کام تمام کر نے آیا تو دیکھا درویش بے نیاز دنیا سے بے خبر نماز پڑھ رہا ہے آپ رکو ع میں گئے پھر سجدے میں تو مو قع غنیمت جا ن کر آپ ؒ کو قتل کر نے کے لیے آگے بڑھے لیکن اُن کی تلواروں اور خنجروں نے اُن کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ‘پتھر کے مجسموں کی طرح بے حس و حر کت کھڑے تھے لا چارگی کی تصویر بنے شاہ چشت ؒ نے نماز کے بعد سلا م پھیرا اور محبت بھرے انداز سے بو لے آپ ؒ کی خدمت کے لیے میرے پاس جنگلی پھل ہیں وہ پیش کر تا ہوں‘شاہ اجمیر ؒ تبسم دلنواز سے انہیں دیکھ رہے تھے درویش کو قتل کر نے آئے ہو‘ آپ ؒ کی قوت مکا شفہ دیکھ کر راجپو ت ششد رہ گئے ‘جادوگر جا دوگر کہتے ہو ئے بھا گ گئے یہ جا دو گر ہے جو دلوں کے حال جانتا ہے پھر یہی گر وپ تیسری بار شاہ اجمیر کے در پر حاضر ہوا کو ئی غیرمر عی قوت تھی جو انہیں کھینچ کر لا ئی تھی آج وہ با ت سننے کے مو ڈ میں تھے پھر درویش حق پر ست کی شیریں آواز اُن کی سما عتوں میںرس گھولنے لگی حق کی با ت قلب و اذہان کو منور کر نے لگی ‘نگاہِ درویش کی نظر کیمیا اثر کر گئی ‘صدیوں سے بت پر ستی میںغر ق یہ لو گ اپنا مذہب چھو ڑ کر نو ر اسلام میں منو ر ہو گئے کفر کے قلعے میں بہت بڑا شگا ف پڑ چکاتھا سر زمین ہند پر کفر کے کلمے بو لنے والے آذان حق کی آواز بلند کر رہے تھے ۔

پیر، 2 اپریل، 2018

مسیحاِ ہند

مسیحاِ ہندکر ہ ارض اور نسلِ انسانی کی تا ریخ کا اگر ہم مطالعہ کر تے ہیں تو ہر جگہ پر ہمیں ایک خا ص قانون قدرت نظر آتا ہے خالق ِ کائنات نے کائنات خلق کر نے کے بعد اِس کو بے یا رو مددگار نہیں چھو ڑا بلکہ جہاں بھی قدرت کے نظام میں خلل نظر آتا ہے قانون قدرت حر کت میں آکر اُس خلل کو دور کر تا ہے اِسی طرح جب سے انسان اِس دنیا ئے سنگ و خشت میں آکر آباد ہوا ہے حضرت انسان کی رشد و ہدا یت کے لیے ہر دور میں انبیاء علیہم اسلام کو خاص صلا حیتوں کے ساتھ حق تعالیٰ انسانوں میں بھیجتا رہا ہے ‘شر پسند بے چین فطرت کے حامل انسان نے جب بھی دھرتی پر بگاڑ پیدا کر نے کی کو شش کی رب ذولجلال نے اُس علا قے معا شرے کے مطا بق اپنا نما ئندہ وہا ں بھیجا ‘سرور دو جہاں ﷺ کے بعد نبو ت کا دروازہ تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے اب چودہ صدیوں سے اولیا ء اللہ اِس عظیم فریضے کو سر انجام دے رہے ہیں ‘خدا کے اس اصول کی خو بصورتی ہمیں ہر دور میں نظر آتی ہے ‘جتنا بڑا انقلاب ‘جتنی بڑی سیچوایشن ‘جہالت کے اندھیروں میں غرق نسل انسانی کے جیسے حالات ویسی ہی قد آور شخصیت اِس جہان رنگ و بو میںپو ری شان و شوکت سے طلو ع ہو تی ہے پھر اُس کے انعام یا فتہ بند ے پر دہ کینوس پر نمو دار ہو تے ہیں ‘اپنے کر دار علم اور روحانی تصرف سے انسانوں پر بہت گہرا اثرا ڈالتے ہیں‘ یہ وہ لو گ ہو تے ہیں جو گر دش لیل و نہا ر ‘وقت ‘تاریخ اور صدیوں کو اپنی آہنی گر فت میں لے کر خو د کو تا ریخ کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر دیتے ہیں ‘ایسا ہی ایک عظیم انسان جہا لت ‘بت پر ستی میں غرق سر زمین ہند پر جلو ہ گر ہو نے والا تھا جس وقت یہ عظیم درویش سر زمین ہند کو نور اسلام میں رنگنے کے لیے سر زمین ہند پر وارد ہوا ا ُس وقت سر زمین ہند کن حالات سے دوچار تھی اِسے اختصار کے ساتھ دیکھنے کی کو شش کر تے ہیں ‘سر زمین پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد ۷۱۲ء میں ہو ئی یہ لو گ عظیم فاتح محمد بن قاسم کے ساتھ سند ھ میں آئے ‘قوم کی بیٹی کی پکا ر پر یہ عظیم فاتح سند ھ پر حملہ آور ہوا راجہ داہر کا غرور خا ک میں ملا کر یہا ں پر اسلامی سلطنت قائم کی لیکن محمد بن قاسم کی یہ چھو ٹی سی سلطنت صرف سند ھ تک ہی محدود تھی مسلمانوں نے اندرون ہندوستان کی طرف جا نے کی کو شش نہ کی اِس طرح تین صدیاں گزر گئیں ‘محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے صوفیا نے اشاعت اسلام کا کام ضرور کیا لیکن اُن کی کو ششیں ہمیں سند ھ اور کشمیر میںنظر آتی ہیں اندرون ہندوستان ابھی تک نو ر اسلام سے محروم تھا پھر تین صدیوں کے بعد تاریخ ہندوستان ایک نئے دور میں داخل ہو تی ہے جب سلطان سبکتگین بت پرستوں پر حملہ آور ہوا ‘بت شکن سلطان محمود غزنوی بت پر ستوں پر خدائی قہر بن کر نا زل ہوا ہر بار فتح کی دیوی نے سلطان محمود غزنوی کے پا ئوں کو چوما ‘سلطان محمود نے ہندوستان پر متعدد کامیاب حملے کئے مگر یہاں پر مسلمانوں کی سلطنت قائم نہ کر سکا ۱۰۳۰ء میں سلطان خاک نشین ہوا ‘سلطان محمود فتوحات تو کر تا رہا لیکن اسلام کی اشاعت میں قابل ذکر کام نہ کر سکا اِسی وجہ سے بت پرستی اور جہالت میں ہندوستان پورے کا پو را ڈوبا ہوا تھا ہندو ستان کے طو ل و عرض میں بت پرستی کی چادر تنی ہو ئی تھی اگر ہزاروں سال پرا نی تو حید پرستی کہیں تھی بھی تو وہ بت پر ستی کے غبا ر میں گم ہو چکی تھی گائوں اورشہروں میں بتوں کی پو جا زور شور سے جا ری تھی بتوں کو خدا کے اوتاروں کا درجہ دیا گیا تھا اِن خو د تراشیدہ بتوں سے افسانوی باتیں منسوب تھیں جن کا حقیقت سے بلکل بھی واسطہ نہ تھا ہر طا قت وراورچمکتی چیز اِن کے لیے خدا تھی اور تو اور درخت جا نور اور عجیب و غریب چیزوں کو قدرت کا نمو نہ خیال کیا جا تا اگر صدیوں پرا نا تو حید پر ستی کا کو ئی مذہب تھا بھی تو وہ صنم پر ستی کے دامن میں غر ق ہو چکا تھا جہا لت کا اندازہ یہ کہ اِن بت پر ستوں کے کر وڑوں خدا تھے جن کی یہ پو جا کر تے تھے اِن کو اپنے خدا ئوں کے نا م تک یاد نہیں تھے کر ہ ارض پر جہا لت اوربت پر ستی سر زمین ہند پر پورے جو بن پر تھی ‘جہا لت میں غر ق انسانیت ہزاروں سال سے اپنے مسیحا کے انتظا رمیں تھی جو آکر اُن کو جہالت بت پر ستی کی زنجیروں سے آزاد کر ائے ‘بت پر ستی کا رنگ اتا ر کر اسلام کے نور سے رنگے سر زمین ہند جو ہزاروں سالوں سے معبودان باطلہ کی پرستش کر رہی تھی اُس بت پر ستی کی فضائوں کو حق تعالیٰ اور سرور دوجہاں ﷺ کے نور سے رنگنے اُس کا مسیحا آنے والا تھا وہ سرزمین جہاں ظلم و استبداد ‘حق تلفی ‘قتل و غارت کو عزت و شان سمجھا جاتا تھا اُس سر زمین کو انوار تو حید و رسالت سے منور کر نے ولا آرہا تھا جس نے آکر با طل پر ستی کا قلع قمع کر کے ذرے ذرے کو معرفت الٰہی سے منور کر نا تھا جس نے یہاں آکر شجر اسلا م کا بیج بو نا تھا اُس مسیحا اعظم نے آکر زندگی سے زندگی کو متعارف کر انا تھا انسان کو انسان سے روشنا س کر انا تھا وہ انسان جو شودروں کی زندگی گزار رہا تھا جن کی زندگی کیڑے مکو ڑوں سے بھی بد تر تھی جو قابل نفرت تھا جو جانور تھا اُ س کو اُس کے حقیقی مقام سے روشنا س کر انا تھا غلامی اورجہالت نسل در نسل جن کی ہڈیوں تک سرایت کر گئی تھی جو خو د کو بھو ل چکا تھا جو خدا کو بھو ل چکا تھا جو تو حید کی بجا ئے بت پر ستی میں غر ق تھا قدرت نے سر زمین ہند کی تقدیر بد لنے اور نور اسلام کو یہاں پھیلا نے کے لیے امام الاولیا ء قدو ۃ الاصفیاء غواض معرفت سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز ؒ حضرت خوا جہ معین الدین ؒ کا انتخاب کیا آپ ؒ کی تربیت حضرت عثمان ہر ونی ؒ جیسے بلند پایہ عارف حق سے کر ائی پھر دنیا جہاں میں پھیلے ہو ئے اولیا ء اللہ کے پا س بھیج کر مزید نو ر حق بخشا خو ب تربیت کی اب قدرت نے آپ ؒ کو سر زمین ہند بھیجنے کا فیصلہ کیا جناب خوا جہ پا ک ؒ اپنے مرشد کریم کے ساتھ مکہ مدینہ کے سفر پر گئے ‘جب مکہ میں تشریف لائے مرشد کے ہمراہ طو اف کعبہ کیا تو مرشد نے خوا جہ چشت ؒ کے حق میں دعا کی کہ اللہ میرے اِس لاڈلے مرید کو قبول کرلے ‘غیب سے آواز آئی ہم نے معین الدین حسن سنجری ؒ کو قبول کیا اِس عظیم سعادت کے بعد حضرت معین الدین ؒ شہر مدینہ تشریف لا ئے روزانہ محبوب خدا ﷺکے روضہ مبارک پر غلاموں کی طرح حا ضر ہو جاتے ایک دن روضہ رسول ﷺ سے ندا آئی کہ معین الدین چشتی ؒ کو بلائو‘ چنا نچہ خو اجہ غریب نواز قدس اللہ ؒ کو روضہ رسول ﷺ پر خدا م لا ئے اُس وقت آپ ؒ کا عجب حال تھا درود و سلام پڑھتے ہوئے نہا یت ادب سے روضہ مقدس پر کھڑے ہو گئے دربار رسالت ﷺ سے آواز آئی اے قطب المشائخ قریب آئیے آپ ؒ بحالت وجد اندر حاضر ہو ئے ‘شہنشاہ کا ئنات ﷺ کی طرف سے ارشاد ہوا معین الدین ؒ آپ ہمارے خاص بندے ہیں آپ ؒ پر لازم ہے کہ ہندوستان کی طرف جائیں اور وہاں ایک شہر اجمیر ہے آپ ؒ کے سبب سے وہاں اسلام کی شمع روشن ہو گی ‘غلام خواجہ نے عرض کی بسر و چشم حاضر ہوں مگر اجمیر ہندوستان سے نا واقف ہوں کس طرف جا ئوں ‘سرور عالم رسول اللہ ﷺ کی طرف سے راہنما ئی ہو ئی شہنشاہِ دو عالم ﷺ کے حکم پر خوا جہ چشت ؒ اقلیم ہند کی طرف چالیس مریدین کے ساتھ روانہ ہوئے ( حیات خوا جہ ) ‘سر زمین ہند جو ہزاروں سالوں سے بت پر ستی میں غر ق تھی وہ اب تاریخ تصوف کے عظیم ترین درویش کے قدموں سے اٹھنے والے غبار سے چمکنے والی تھی ‘مسیحا چشت کا چراغ ہندو ستان کی تا ریک سر زمین پر اجا لا بکھیرنے والا تھا ۔

جمعرات، 29 مارچ، 2018

آتشِ جلال

آتشِ جلالحضرت عثمان ہرونی ؒ کی نگا ہِ خاص اور تزکیہ نفس کے سخت مجا ہدوں سے گزرنے کے بعد حضرت معین الدین چشتی ؒ دنیا کی سیر پر نکل پڑے تا کہ دنیا کے مختلف علا قوں میں اللہ کے خاص بندوں سے مل کر اپنی روحانی پیا س کو مزید بجھا سکیں ‘بغداد شریف میں جناب شیخ عبدالقادر جیلا نی ؒ سے ملا قات کے بعد آگے بڑھے ‘غو ث پاک ؒ نے آپ ؒ کے بارے میں کیا خوب کہاہے کہ عثمان ہرونی ؒ کا یہ چراغ لاکھوں لوگوں کو منزل مراد تک پہنچائے گا ‘ہر بزرگ نے خو اجہ معین الدین ؒ کو نظر بھر کر ہر زاوئیے سے دیکھنے کے بعد آپ ؒ کے اعلی روحانی مقام کا اعتراف کیا ‘بصرہ میں ایک کامل فقیر سے ملا قات ہو ئی جو صاحب کشف تھے آپ ؒ اُن کے ساتھ قبر ستان گئے انہوں نے محسوس کیا کہ صاحب قبر عذاب میں مبتلا ہے تو عذاب قبر کے خو ف سے نعرہ ما ر کر گرے اور جاں جہاں آفرین کے سپر د کر دی ‘شدت خو ف سے جسم پا نی ہو کر نمک کی طرح بہہ گیا ‘بقو ل خوا جہ چشت ؒ کے ایسا خو ف میں نے کبھی کسی پر طا ری ہو تے نہیں دیکھا ‘دوران سیاحت ایک غار میں شیخ محمد الواجدی ؒ سے ملا قات ہو ئی شدید ریاضت کے با عث جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکاتھا روحانی مقام کا یہ عالم تھا کے دو شیر غلا موں کی طرح دائیں با ئیں کھڑے تھے ‘فرمایا ڈرو نہیں یہ تم پر حملہ نہیں کر یں گے جس دل میں اللہ تعالی کا خوف ہو تا ہے اُسے کو ئی خو ف نہیں ہو تا ‘بزرگ کہنے لگے اِس غا رمیں عرصہ تیس سال سے ہوں ‘صرف ایک با ت کی فکر ہے کہ اگر ذرہ برابر بھی نما زکی شرط پو ری نہ ہو ئی تو سب کچھ ضا ئع ہو جا ئے گا پھر حدیث سنا ئی حق تعالیٰ کے نزدیک کو ئی گنا ہ اِس سے بڑھ کر نہیں کہ نما ز کو شرائط کے ساتھ ادا نہ کیا جا ئے ‘بد خشا ں میں حضرت جنید بغدادی ؒ کے پو تے سے ملے جن کی عمر ایک سوچالیس سال تھی اُن کا ایک پا ئوں نہیں تھا جس کی وجہ انہوں نے یہ بتا ئی کہ چالیس سال پہلے اعتکا ف چھو ڑ کر با ہر جانے کا ارادہ کیا تو غیب سے آواز آئی کہ اے غا فل تم اپنا وعدہ بھو ل گئے اُسی وقت اپنا ایک پا ئوں کاٹ ڈالا ‘ابھی تک حالت گر یہ میں ہوں کہ بد عہدی کی وجہ سے اپنا کالا منہ کس طرح خدا کے سامنے لے کر جائوں گا ۔ بخا را میں ایک نابینا درویش سے ملا قات ہو ئی انہوں نے وجہ یہ بتا ئی کہ غیر پر نظر پڑی تو آواز آئی دعویٰ ہما ری محبت کا اور نگا ہ کسی دوسرے کی طرف ‘میں نے تا ئب ہو کر اپنے اند ھے ہونے کی دعا کی جو فوری قبو ل ہو ئی ۔ قدرت کے عظیم پلا ن کے تحت حضرت خوا جہ معین الدین چشتی ؒ کر ہ ارض پر پھیلے عظیم ترین بزرگوں سے ملنے کے بعد اکسیر بن چکے تھے جس طرح مقنا طیس کے پا س رہ کر لو ہے میں بھی اثرات آجا تے ہیں اِسی طرح خوا جہ چشت ؒ پا رس بن چکے تھے ‘جن پر نظر ڈالتے اس کی کثافت دھو ڈالتے دوران سیا حت آپ ؒ شہر بلخ تشریف لا ئے یہاں پر مو لانا حکیم ضیا الدین بلخی ؒ مذہبی دنیا وی علوم میںیکتا تھے اُن کے مدرسے میں سینکڑوں طا لب علم اپنی علمی پیا س بجھا تے تھے ‘مولانا صاحب ظا ہری علوم کے زعم میں مبتلا تھے تصوف کو شجر ممنو عہ کہتے تھے کہ تصوف افیون ہے ایسا بخا ر جو جس کو چڑھ جا ئے وہ دیوانوں کی طرح با تیں کر تا ہے ‘تصوف ذہنی خلل ہے ‘مو لانا صاحب کا خو اجہ چشت ؒ سے ٹا کرا ہو گیا دوران سیا حت خوا جہ صاحب ؒ تیرکما ن ساتھ رکھتے تھے ‘آپ جنگل سے شکا ر کرتے پھر اُسی سے افطا ری بھی کرتے ‘ایک دن آپ ؒ نے پر ند ہ شکا ر کیا خا دم کو کبا ب بنا نے کا حکم دیا ‘خو د نما ز میں مشغو ل ہو گئے جب کھانا تیا ر ہو گیا تو اتفا قاً مو لا نا ضیا الدین صاحب ادھر سے گز رے شاہ چشت ؒ نے انہیں کھا نے کی دعوت دی حکیم صاحب آکر درویش چشت ؒ کے دستر خوان پر بیٹھ گئے ‘شاہ اجمیر ؒ نے پرندے کی بھنی ہو ئی ران مو لا نا صاحب کے سامنے رکھی ‘مو لانا صاحب نے جیسے ہی پرندے کا لذیذ گو شت منہ میںڈالا گو شت جیسے ہی حلق سے اترا مو لانا صاحب کو لگا یہ گو شت نہیں نو ر کا گو لا تھا جو اندر اُتر تے ہی روح کے پردوں کو چیرتا ہوا گہرائیوں تک نو ر کے پھو ارے پھو ٹاتا چلا گیا تیز نو ر کی روشنی با طن کے اندھیروں میں ہلچل مچا تی ہو ئی اندھیروں کو اجا لوں میں بدل رہی تھی نشے سرور کی ایسی کیفیت جس سے مو لانا کبھی واقف نہ تھے سرور کی شدت سے ہو ش و حوا س کھو بیٹھے ‘شاہ چشت ؒ مولانا کی حالت سے واقف تھے آپ ؒ نے اپنا نو الا مولانا صاحب کے منہ میں ڈال دیا اِس سے مولانا صاحب کی حالت سنبھلنا شروع ہو گئی ‘مو لانا صاحب کی دنیا بد ل چکی تھی ‘دلوں کے شہنشاہ شاہ چشت ؒ کو ٹکٹکی با ندھ کر دیکھنے لگے ‘مولانا آپ ؒ کے رخ روشن کو بغور دیکھ رہے تھے ‘شاہ چشت ؒ بو لے مو لا نا کیا دیکھ رہے ہیں تو مو لا نا بو لے آپ ؒ نے ایک لمحے میں میرا سارا علم کا خزانہ لو ٹ لیا اور میں خا لی ہو گیا مجھے ایسا نشہ دیا جس سے میں نا واقف تھا ‘مو لا نا آگے بڑھے خوا جہ معین الدین ؒ کے قدموں پر ہا تھ رکھ کر بیعت اور غلا می کی درخوا ست کی ‘آپ ؒ نے مولانا صاحب کو بیعت کی سعا دت سے سرفراز فرمایا ‘مو لانا نے جا کر اپنا سارا کتب خا نہ دریا میں ڈال دیا اور راہ سلوک کے مسا فر بن گئے ۔ دوران سیا حت آپ سبز وار تشریف لا ئے قدرت کو اہل علا قہ پر تر س آیا تو درویش با کمال کو سبز وار بھیج دیا ‘آپ ؒ کی شہرت سن کر مقامی با شندے آپ ؒ کے پاس آئے اور اپنی داستا ن غم سنا ئی کہ ہما را گو ر نر بہت ظا لم جابر ہے اُس کے ظلم سے تنگ آکر لو گ شہر چھو ڑ گئے قبر ستان میں جا سوئے لیکن اِس ظالم کے ظلم میں کمی نہیں آتی ‘مشہور صوفی شاعر حامد بن فضل ؒ نے اُس کے ظلم کو اِس طرح بیان کیا ہے ظالم گورنر یا د گار محمد معمولی باتوں پر عبرت ناک سزائیں دیتا تھا لوگوں کا جینا حرام کیا ہواتھا اُس نے شہر کے با ہر با غ بنا یا ہوا تھا جسے وہ جنت کہتا تھا جہاںرقص و سرور کی محفلیں برپا ہو تیں خو برو کنیزیں نا چ گانا اور شراب پلا تیں ‘شاہ اجمیر ؒ اُس با غ میں گئے شاہ ِ چشت ؒ اُس کے با غ میںپہنچے وضو کیا اور نماز میںمصروف ہو گئے ‘خادم نے دیکھا تو خو ف سے کانپنے لگا کہ یہ کس طرح باغ میں آگئے ‘اِسی دوران یا د گار کے اور بھی ملا زم آگئے اُن کے چہرے بھی خو ف سے پیلے ہو گئے کہ یا دگا راُن کی گر دنیں کا ٹ دے گا ‘خو اجہ جی نے اُن کو حوصلہ دیا کہ کچھ نہیں ہو گا اِسی دوران ظالم یا د گا ربھی اپنے عیا ش دوستوں کے ہمراہ آگیا ‘درویش با کمال پر نظر پڑی تو آتش فشاں کی طرح پھٹنے لگا کہ یہ کون ہے جو اُس کی جنت میں داخل ہو گیا ہے ‘ملا زمین خو ف سے تھر تھرکا نپ رہے تھے خا دموں کی حالت دیکھ کر شہنشاہِ چشت ؒ آگے بڑھے اور یاد گار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا فقیر اپنی مر ضی سے یہاں آیا ہے جسے کسی کی اجا زت کی ضرورت نہیں ‘یا د گا رکی نظریں جیسے ہی شاہ چشت ؒ سے ٹکرائیں ‘حالت غیر ہو گئی زبان اور جسم پتھر کے ہو گئے آتش جلال کی تاب نہ لا سکا ‘لڑکھڑا یا اور بے جان بت کی طرح زمین پر گر گیا ‘تکبر غرور کا پتھر زمین بو س ہو چکا تھا‘ ظالم فرعون زمین بو س ہو چکا تھا ‘اپنے حکمران کی بے بسی دیکھ کر تمام غلاموں اور عیا ش دوستوں نے بھی درویش چشت ؒ کے سامنے اقرار تابعداری کیا اوراپنے سر احترام میں زمین پر رکھ دئیے ‘وہ آتش جلال کا رنگ دیکھ چکے تھے جس کی تاب نہ لا سکے ‘ظا لم یا دگار کیڑے مکو ڑوں کی طرح بے بسی کی تصویر بنا‘بے جان لا شے کی طرح زمین پر پڑا تھا شاہ چشت نے اشارہ کیا پا نی لا کر اِس کے منہ پہ چھڑکو ‘یا دگا رکے چہرے پر پا نی پڑتے ہی وہ ہو ش میںآگیا ‘کھڑے ہو نے کی کو شش کی لیکن نا کام رہا ‘سرک کر شہنشاہِ چشت ؒ کے قدموں میں سر رکھ دیا درویش با کمال کی آواز بلند ہو ئی کیا تم اپنے غرور اور گنا ہوں سے تو بہ کر تے ہو ‘یا د گا ر کی لرزتی آواز بلند ہو ئی میں اپنی سیا ہ کا ریوں سے تو بہ کر تا ہوں ‘شہنشاہ آپ ؒ نے میرے بے نور اندھے سینے کو روشن کر دیا ‘یادگار نے اٹھنے کی کو شش کی لیکن ناکام رہا خوا جہ چشت ؒ نے جھک کر اُس کی پشت پر ہا تھ رکھا تو یا د گا ر لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہو گیا نظریں جھکا ئے غلاموں کی طرح کھڑا تھا آپ ؒ نے وضو کا حکم دیا ‘یا د گار نے وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کی ‘اب وہ نگا ہِ درویش سے بد ل چکا تھا ‘بیعت کی درخواست کی آپ ؒ نے غلامی میں لے لیا اگلے ہی دن ساری دولت شاہِ چشت ؒ کے قدموں میںڈھیر کر دی ‘آپ ؒ نے حکم دیا اِسے مظلوموں میں بانٹ دو ‘یاد گار نے کھڑے کھڑے ساری دولت غریبوں میں بانٹ دی ‘غلاموں کنیزوں کو آزاد دیا اور راہِ حق کا مسافر بنا آپ ؒ نے رشد و ہدا یت کے لیے وہیں پر مقرر کیا جو کل تک گمراہ تھا آج دعوت حق دے رہا تھا یا دگار کا مزار آج بھی نو ر کی کر نیں بکھیر رہا ہے ۔ 

پیر، 26 مارچ، 2018

تصوف کے شاہسوار

تصوف کے شاہسوارنوجوان معین الدین ؒ کو دنیا میں جنت مل چکی تھی ‘مر شد کریم جنا ب حضرت عثمان ہرونی ؒ نے نگا ہِ خاص سے کثافت کو لطا فت میں بدل ڈالا تھا ‘قلب و روح پر انوارات الٰہی کی اِیسی موسلا دھا ر با رش ہو ئی کہ نفس کا زنگ جل کر خا کستر ہو گیا بر سوں کے رت جگوں اور صحرا نو ر دی کے بعد منزل ملی تھی ‘آنکھوں میں وصل کے چراغ جل اُٹھے تھے مرشد کی نگا ہِ خاص نے با طنی حواس کو بیدار کر دیا تھا ‘گمشدہ جنت پا نے کے بعد معین الدین بہت خو ش تھے با طنی حواس کیا بیدار ہو ئے کہ تما م حجابات اٹھتے چلے گئے ‘زمین کی تہہ میں چھپے خزانے نظر آنے لگے ‘آسمانوں سے اوپر تک کے منا ظر سامنے آتے گئے ‘معین الدین خو شی سے زاروقطا ر رو رہے تھے کہ پو ری کا ئنا ت میرے سامنے ہتھیلی کی طرح پھیلی ہے تو مرشد بولے حق تعالیٰ کا شکر ہے کہ تم سیراب ہو گئے ورنہ کو چہ تصوف کے ریگستان میں لو گ ایک قطر ے کو ترس جا تے ہیں ‘نو جوان معین الدین ؒ کو منزل ملی نہیں تھی بلکہ اب تو کو چہ تصوف کے پراسراررازوں سے واسطہ پڑا تھا ‘اب معین الدین ؒ نے کڑے مجا ہدوں ‘عبا دت ‘ریا ضت اور چلا کشی سے گزرنا شروع کیا ‘آپ ؒ کی ریاضت بہت جا ن لیوا ثابت ہوئی تھی آپ ؒ مسلسل سات دن تک روزہ رکھتے اور پا نچ مثقال کی ٹکیہ سے افطاری فرماتے ‘اوڑھنے کے لیے صرف ایک چادر استعمال کر تے جس پر جگہ جگہ پیوند لگے ہو تے تھے شدید ریا ضت اور کڑے مجا ہدوں کی بھٹی سے گزرنے کے بعد معین الدین نے مرشد کی اجا زت سے دنیا کا سفر شروع کیا ‘ہر مسلمان کی طرح مکہ شریف جاکر کعبہ کی زیا رت کی ‘پھر شہنشاہِ دو جہاں ﷺ کے در پر سر جھکا ئے حاضری دی پھر اپنی روح کی تشنگی بجھا نے کے بعد اب دنیا جہاں میں مو جود اہل حق کی محبت میں جا نے کاسفر شروع کیا ‘بغداد کی طرف جا تے ہو ئے حضرت نجم الدین کبر ی ؒ کے دیدار سے فیض یا ب ہو ئے جو تا تا ریوں سے جہاد کر تے ہو ئے جا م شہا دت سے سر فراز ہو ئے تھے ‘حضرت نجم الدین کبری ؒ سما ع کے بہت شو قین تھے حضرت معین الدین ؒ تقریبا تین ما ہ اِس کا مل درویش کی صحبت میں سما ع سے لطف اندوز ہو تے رہے ۔ اِس کے بعد تا ریخ انسانی اورکر ہ ارض کا عظیم واقعہ رونما ہو تا ہے جسے اہل حق قیامت تک یا د رکھیں گے ‘جب آسمان ‘ہوا ئوں ‘فضا ئوں اور اہل دنیا نے نسل انسا نی کے دو عظیم ترین بزرگوں کو ایک ساتھ دیکھا ‘کتنے خو ش قسمت تھے اہل بغداد جن کی نظروں نے یہ تاب ناک منظر دیکھا جب سلسلہ چشتیہ کے چراغ قادریہ سلسلہ کے چراغ کے سامنے روشن ہو ئے ‘رشک آتا ہے اِن متلا شیان حق پر جنہوں نے تا ریخ تصوف کے اِن دو عظیم ترین لو گوں کو ایک ساتھ دیکھا ‘حضرت معین الدین ؒ بغداد شہر میں شا ہ بغداد حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ کے پا س تشریف لے گئے ‘شاہِ بغداد بہت محبت احترام سے پیش آئے ‘دونوں بزرگوں نے ایک دوسرے کی صحبت سے خوب فائدہ اٹھا یا ‘حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے آپ ؒ کی خو ب مہمان نوا زی کی ‘آپ کے آرام کا ہر طرح سے خیال رکھا لیکن شاندار مہمان نوازی کے با وجود ایک دن شہنشاہِ چشت اداس غمگین اکیلے بیٹھے تھے ‘مریدوں نے معین الدینؒ کی اداسی کی خبر جا کر شاہِ بغداد ؒ کے گو ش گزار کر دی تو شہنشاہِ شاہِ گیلا نی بو لے میں خو ب جانتا ہوں کہ تم لو گ معین الدین ؒ کی خوب خدمت کر رہے ہو ‘یہ مہمان داری تو جسم کی ہے حقیقت میں مہمان کی روح اداس ہے ‘روح کی اداسی دنیا وی لذتوں سے نہیں جا تی ‘روح کی غذا کچھ اور ہے جب تک انہیں روح کی غذا نہیں ملے گی اُس وقت تک اُن کی اداسی نہیں جا ئے گی ‘شاہِ بغداد اچھی طرح جانتے تھے کہ معین الدین سما ع سننا چاہتے ہیں ‘سما ع سن کے اُن کی روح کی اداسی دور ہو گی ‘قا رئین خو ب جانتے ہیں کہ سلسلہ چشتیہ میں بزرگ سما ع سے خو ب شغف رکھتے ہیں جبکہ سلسلہ قادریہ کے بزرگ سما ع سے پرہیز کر تے ہیں لیکن اہل دنیا اچھی طرح واقف ہیں کہ کو چہ تصوف میں بزرگ امن پیا ر محبت بانٹتے ہیں دوسروں کی خو شی کا خیال رکھا جاتا ہے ‘دوسروں کی دل آزاری سے مکمل اجتناب کیا جاتاہے اب شاہِ گیلانی ؒ نے حق مہما ن داری ادا کر تے ہو ئے خواجہ پاک ؒ کے لیے محفل سما ع کا اہتما م کیا جن میں خو ش گلو لو گوں کو بلا یا گیا تا کہ محفل کا رنگ خو ب جم سکے ‘سما ع کے شوقین حضرات کو بھی دعوت دے دی گئی یہ حکم دے کر شاہِ جیلا نی اپنے مریدوں کے ساتھ اپنی درس گا ہ میں چلے گئے ‘شیخ عبدالقادر جیلا نی ؒ نے جا کر وعظ شروع کیا دوسری طرف سازندوں نے روح پرور ساز چھیڑ دئیے ‘شاہ بغداد کی پر جلال آوازسے درودیوار لر ز رہے تھے کہ اچانک جنا ب شیخ عبدا لقادر جیلانی ؒ وعظ روک دیتے ہیں آپ ؒ کی غیرمتو قع خامو شی سے مریدین حیران تھے کہ کیوں آپ ؒ نے وعظ دینا بند کر دیا ہے اِسی دوران شاہِ بغداد نے اپنا عصا پکڑا اورزمین پر رکھ کر دبا نا شروع کر دیا جیسے کسی چیز کو کنٹرول کر نے کی کو شش کر رہے ہیں ‘آپ ؒ کے دیوانے حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے ‘سنا ٹے کی چادر تنی تھی حاضرین سنگی مجسمے بنے حیران نظروں سے اپنے شہنشاہ ِ کو دیکھ رہے تھے آپ ؒ کے دیوانے حیران تھے کہ آخرکیا وجہ ہے جو ان کا مسیحا اِس طرح کر رہا ہے ‘ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تجسس بڑھتا جا رہا تھا شہنشاہِ جیلانی ؒ عصا مبا رک کو مسلسل زمین پر رکھ کر دبا ئے جا رہے تھے اِس کو شش میں آپ ؒ کا چہر ہ مبا رک بھی آتش جلال سے سر خ ہو رہا تھا آپ ؒ کے چہرے کے بد لتے رنگ سے حاضرین متحیر تھے کہ آخر ما جرہ کیا ہے حاضرین پہلی با ر جناب شیخ عبدالقادر جیلا نی ؒ کو اِس رنگ میں دیکھ رہے تھے ‘حاضرین کے ذہنوں میں سوا ل مچل رہے تھے کہ آپ ؒ سرکا ر کی اِس حالت کی یقینا کو ئی نہ کو ئی وجہ ضرور ہے آپ ؒ کا فی دیر تک اِس حالت میں رہے پھر آہستہ آہستہ آپ ؒ کی حالت معمول پر آتی چلی گئی ‘لگ رہا تھا کہ آپ ؒ کسی بڑے واقع یا حادثے کو روک رہے تھے ا ب وہ خطر ہ ٹلا تو آپ ؒ نا رمل ہو گئے شاہِ قادریہ ؒ حا ضرین کے چہروں پر بکھرے سو ال دیکھ رہے تھے آپ ؒ کی پر جلا ل آواز نے فضا ئوں کو ارتعاش بخشا آپ ؒ بو لے جنا ب معین الدین ؒ دوران سما ع حالت جذب و سکر میںآگئے تھے دوران سما ع جب سرور مستی اورجذب حدوں کو کراس کر گیا تو مجھے اندیشہ پیدا ہو ا کہ اگر خوا جہ چشت ؒ کی یہی حالت رہی تو کہیں بغداد میں زلزلہ نہ آجا ئے اِس طرح شاہِ بغداد نے شاہِ چشت کی میزبا نی کا حق ادا کیا ‘جناب معین الدین ؒ نے شاہِ بغداد ؒ کی صحبت سے خو ب فیض حاصل کیا پھر دعا ئوں کے ساتھ آپ ؒ بغداد سے رخصت ہو ئے اور تبریز میںجلو ہ افروز ہو ئے وہا ں پر اُن دنوں خوا جہ ابو سعید تبریزی ؒ کا خوب چرچہ تھا آپ ؒ کے روحا نی تصرف کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں آپ ؒ کے مرید تھے لیکن اِن ہزاروں میں سے ستر ایسے مرید تھے جن میں سے ہر ایک کو ولا یت کا درجہ حاصل تھا مریدوں میں جلال الدین تبریزی ؒ بھی تھے یہاں پر چند دن جناب معین الدین ؒ نے شیخ ابو سعید تبریزی ؒ کی صحبت میںگزار کر اپنے حصے کا روحا نی لنگر لیا اور اصفحان تشریف لے آئے ‘وہا ں پر مشہور بزرگ شیخ محمود اصفہانی ؒ موجود تھے چند دن اِس درویش با کما ل کی صحبت سے فیض یا ب ہو ئے ‘یہاں پرخوا جہ چشت ؒ نے ایک نو عمر لڑکا دیکھا جو اولیا ء کرام سے بہت عقیدت رکھتا تھااُس کا ادب و احترام دیکھ کر خو اجہ اجمیری ؒ بہت خو ش ہو ئے یہاں سے جب حضرت معین الدین ؒ جانے لگے تو نو عمر لڑکا بھی آپ ؒ کے ساتھ چلنے لگا ‘شہنشاہِ چشت ؒ نے شفیق نظروں سے نو عمر لڑکے کو دیکھا اور کہا اے فرزند تم مجھ فقیر سے کیا چاہتے ہو کیوں میرے ساتھ جانا چاہتے ہو تو لڑکا بو لا شیخ آپ سے ایک محبت بھر ی چاہت ہے آپ ؒ کی غلا می آپؒ کی خد مت اگر مل جائے تو زمین پر جنت مل جا ئے گی ‘خوا جہ بو لے میںفقیر تمہیں کیا دے سکتا ہوں نو عمر لڑکا بولا آپ ؒ ہی میرے ما لک شہنشاہ ہیں خو اجہ چشت ؒ لڑکے سے متاثر ہوئے اپنی آغوش میں پنا ہ دی یہی بچہ آگے جا کر لا ڈلہ مرید خلیفہ مجا ز حضرت قطب الدین بختیا ر کاکی ؒ بنا ۔ 

جمعرات، 22 مارچ، 2018

فضائلِ رمضان

نبوت و رسالت کے آفتاب و مہتاب ‘انبیاء و مرسلین کے تاج دار ‘محسنِ انسانیت ‘ فخرِ دو عالم ‘نورِ مجسم ، شافع محشر سرورکونین ‘محسنِ اعظم ،سیدالمرسلین ‘ہادی عالم ‘رحمتہ للعالمین ‘محبوب خدا ‘پیغمبرِ رحمت ﷺ منبرِ رسول ﷺ پر جلوہ آفروز ہونے اور عاشقانِ رسول ﷺ کی پیاس بجھانے کے لیے منبر ِ رسول ﷺ کی طرف بڑھتے ہیں۔ جب آپ ﷺ نے پہلی سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو باآواز فرمایا آمین پھر جب دوسری سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین پھر جب منبرِ رسول ﷺ کی تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین ۔ عاشقانِ مصطفے ﷺ آپ ﷺ کے باآواز آمین کہنے پر تھوڑے حیران تھے کہ آج شہنشاہِ کائنات ﷺ روٹین سے ہٹ کر باآواز آمین کیوں کہہ رہے ہیں تو آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو میرے پاس فرشتوں کے سردار جبرائیل امین ؑ آئے اور کہا اے سیدنا محمد ﷺ جس نے رمضان کو پایا اور اُس کی بخشش نہیں کی گئی اﷲ اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے میں نے کہا آمین پھر جبرائیل ؑ نے کہا جس نے اپنے ماں باپ ان میں سے کسی ایک کو پایا اِس کے با وجود وہ دوزخ میں داخل ہو گیا یعنی ماں باپ کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی اﷲ اُس کو اپنی رحمت سے دور کر دے میں نے کہا آمین پھر جبرائیل ؑ بولے جس کے سامنے محبوب خدا آپ ﷺ کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ ﷺ پر درود شریف نہ پڑھے اﷲ اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے تو میں نے کہا آمین ۔ محترم قارئین اب کہنے والا فرشتوں کا سردار ہو اور آمین کہنے والے نبیوں کے سردار ﷺ اور محبوب خدا ﷺ ہوں جن کی وجہ سے ہی کائنات تخلیق کی گئی ہو تا کیا ایسی دعا قبول نہ ہو گی ۔ روز اول سے قیامت تک شب و روز اِسی طرح چلتے رہیں گے اِن دنوں میں بہت سارے دن افضل ہیں یوں تو تمام زمانے ، سال ، مہینے ، دن رات اچھی ساعتیں اور صدیاں سب اﷲ تعالی کی ہیں ۔ تاہم رمضان المبارک کو اﷲ تعالی نے خاص اعزاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔رمضان میں ایک خاص روحانی اور جسمانی سر شاری اور کیفیت ہے قرآن مجید کے نزول اور روزے کا مہینہ قرار دے کر باقی مہینوں سے اعلی اور ممتاز مقام عطا کر دیا ہے ۔ ماہِ رمضان میں ہو نے والی عبادت کا درجہ کم از کم ستر گنا اور زیادہ کی قید نہیں ہے ۔ سرور کائنات ﷺ نے شعبان کے آخری جمعہ کے موقع پر خطبہ دیا وہ استقبال رمضان کے حوالے سے تھا ۔ رحمتِ دو عالم ﷺ نے فرمایا اے لوگوں تم پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جس کا اول رحمت وسط مغفرت اور آخر جہنم سے آزادی ہے ۔ اِس مہینہ میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اﷲ نے اِ س مہینہ میں روزہ فرض کر دیا ہے اور اِس کی رات میں قیام کو نفل کر دیا ہے جو شخص اِس مہینہ میں کوئی نیکی کر ے تو وہ دوسرے مہینہ میں فرض ادا کرنے کی مثل ہے اور جو شخص اِس مہینہ میں فرض ادا کرے تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے مہینہ میں ستر فرض ادا کیے یہ صبر کا مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں زیادتی کی جاتی ہے اِس مہینہ میں جو کسی روزہ دار کو افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کی مغفرت ہے اور اس کی گردن کے لیے دوزخ سے آزادی ہے اور اس کو بھی روزہ دار کے مثل اجر ملے گا اور روزہ دار کے اجر میں کو ئی کمی نہیں ہو گی صحابہ ؓنے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ ہم میں سے ہر شخص کی یہ استطاعت نہیں ہے کہ وہ روزہ دار کو افطار کر اسکے تو رحمتِ دو عالم ﷺ نے فرمایا اﷲ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرما ئے گا جو روزہ دار کو ایک کجھور یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ سے روزہ افطار کرائے یہ وہ مہینہ ہے جس کا اول رحمت ہے جس کا درمیان مغفرت ہے اور جس کا آخر جہنم سے آزادی ہے ۔ جس شخص نے اِس مہینہ میں اپنے خادم سے کام لینے میں کمی کی اﷲ اس کی مغفرت کر دے گا اور اس کو دوزخ سے آزاد کر دے گا اِس مہینہ میں چار خصلتوں کو جمع کر و دو خصلتوں سے تم اپنے رب کو راضی کرو اور دو خصلتوں کے بغیر تمھارے لیے کوئی چارہ کار نہیں ہے ۔ جن دو خصلتوں سے تم اپنے رب کو راضی کرو گے وہ کلمہ شہادت پڑھنا اور اﷲ تعالی سے استغفار کر نا ہے اور جن دو خصلتوں کے بغیر کو ئی چارہ نہیں ہے وہ یہ ہیں کہ تم اﷲ سے جنت کا سوال کرو اور اس کی دوزخ سے پناہ طلب کرو اور جو شخص روز دار کو پانی پلائے گا اﷲ تعالی اُس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا اسے پھر کبھی پیا س نہیں لگے گی حتی کہ وہ جنت چلا جائے گا ۔ سرور دو عالم محبوب خدا ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جس شخص نے رمضان کے مہینہ میں اپنی حلال کمائی سے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا تو رمضان کی تمام راتوں میں فرشتے اس کے لیے استغفار کر تے ہیں اور لیلۃ القدر میں فرشتوں کے سردار جبرائیل امین ؑ اس سے مصافحہ کر تے ہیں اورجس سے جبرائیل ؑ مصافحہ کر تے ہیں اس کے دل میں رقت پیدا ہو تی ہے اوراس کے آنسو نکلتے ہیں حضرت سلیمان ؓ نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ یہ فرمائیے کہ کسی شخص کے پاس افطار کرا نے کے لیے کچھ نہ ہو تو رحمت ِ دو جہاں ﷺ نے فرمایا ایسا شخص ایک مٹھی کھانا دے دے میں نے کہا یہ فرما ئیے اگر اس کے پاس روٹی کا ایک لقمہ بھی نہ ہو تو شافع محشر ﷺ نے فرمایا وہ ایک گھونٹ دودھ دے دے میں عرض کیا اگر اس کے پاس وہ بھی نہ ہو تو فرمایا وہ ایک گھونٹ پانی دے دے ۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رمضان آیا تو سرور کائنات ﷺ نے فرمایا ۔ تمھارے پاس رمضان آگیا ہے یہ برکت کا مہینہ ہے اﷲ تعالی تم کو اِس میں ڈھانپ لیتا ہے اِس میں رحمت نازل ہو تی ہے اور گناہ جھڑ جاتے ہیں اور اِس میں دعا قبول ہو تی ہے اﷲ تعالی اِس مہینہ میں تمھار ی ر غبت کو دیکھتا ہے سو تم اﷲ کو اس مہینہ میں نیک کام کرتے دکھا ؤ کیونکہ وہ شخص بد بخت ہے جو اس مہینہ میں اﷲ کی رحمت سے محروم رہا ۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ بیان کر تے ہیں فخرِ دو عالم ﷺ نے رمضان کا ذکر کیا اور تمام مہینوں پر اِس کی فضیلت بیان کی پس فرمایا جس نے رمضان کی حالت میں ثواب کی نیت قیام کیا نفلی نمازیں ادا کیں وہ گناہوں سے اِس طرح پاک ہو جائے گا جس طرح آج اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ایک بار پھر سحر خیزی کے لمحے جو بڑے دلآویز اور افطاری کے روح پرور مناظر جو ایمان افروز ہوتے ہیں ملے ہیں ۔ گویا جس طرح بہار کے آنے سے پورا موسم بدل جاتا ہے اِسی طرح رمضان کی آمد سے پورا ماحول بدل جاتا ہے ۔ رمضان خدا کا مہمان مہینہ ہے اور مہمان کا احترام ہر انسانی معاشرے میں احسن طریقے سے کیا جاتا ہے ۔

جنسی درندے

میں نے اپنے سامنے بیٹھی عورت کے سامنے جب یہ اقرار کیا کہ میں پیر صاحب کی لونڈی بننے کو تیار ہوں اور پیر صاحب کو میرے تن من جسم و روح پر پورااختیار حاصل ہو گا تو اُس عورت کا چہرہ کا میابی اور خو شی سے کھل اُٹھا اُس نے فاتحانہ نظروں سے پیر صاحب کی طرف دیکھا اور کامیابی اور رضا مندی کا اشارہ کیا تو پیر صاحب نے بھی غیر معمولی خو شی کا اظہا رکیا اور ستائشی نظروں سے ہم دونوں کی طرف دیکھا میں نے اقرار تو کر دیا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں میری روح دل و دماغ اور باطن کے بعید ترین گوشوں میں کہیں انکار ندامت شرمندگی ، پچھتاوا ، غلطی اور گنا ہ کا احساس مچل رہا تھا لیکن میں نے اُسے سختی سے کچل دیا ۔ اب فیصلہ یہ ہوا کہ میں تین دن کے لیے گھر سے اجازت لے کر آستانے پر رہوں گی ۔ میں نے گھر والوں سے بات کی گھر والے میری پیر صاحب سے عقیدت اور جنون سے بخوبی واقف تھے انہوں نے اِس لیے مجھے تین دن آستانے پر رہنے کی اجا زت دے دی میں نے گھر میں یہ بتا یا کہ میں نے ایسا خاص وظیفہ کر نا ہے جو پیر صاحب کی زیر نگرانی ہی ممکن ہے اِس لیے مجھے تین دن آستانے پر رہنا ہو گا ۔ میرے گھر والے میری ضد اور جنون کی وجہ سے مان گئے اور پھر مقررہ دن آستانے پر پہنچ گئی ۔ اُسی عورت نے مجھے ہا تھوں ہا تھ لیا ( محترم قارئین اِس سے آگے میرا قلم لکھنے سے قاصر ہے کس طرح اُس بے چاری کو تین دن ایک الگ مکان میں رکھا گیا دلہن بنایا گیا اور اُس معصوم نیک با قرہ لڑکی کی عزت تار تار کر دی گئی ) اور پھر میں نے پیر صاحب کی خوشنودی کے لیے اپنی عزت اُن کے قدموں پر نچھاور کر دی ۔ پھر یہ سلسلہ کئی مہینوں تک چلتا رہا میرا ضمیر اکثر میرے من میں انگڑائیاں لیتا گنا ہ کا احساس دلا تا لیکن مرشد کی رضا مجھ پر جنون کی طرح سوار تھی ۔جب سے میں پیر صاحب کے حرم میں داخل ہو ئی تھی تو مُجھ پر بہت سارے انکشافات ہو ئے کہ چند عورتوں کا ایک گروپ تھا جو پیر صاحب کی خاص عورتیں تھیں یہ اپنے دنیاوی کاموں کے لیے اور پیر صاحب کا قرب اوراپنی اہمیت کے لیے اپنا جسم پیر صاحب کے قدموں پر نچھاور کر رہی تھیں ۔اصل میں آستانے پر بہت رش ہو تا تھا عورتوں کو اپنی باری کے لیے گھنٹوں انتظار کر نا پڑتا تھالیکن جو عورتیں پیر صاحب کے حرم میں داخل ہو جا تیں تھیں وہ حلقہ خا ص میں شامل ہو جاتی تھیں وہ جب چاہتیں پیر صاحب سے آسانی سے مل لیتی اب جن عورتوں کو گھنٹوں Waitکرنا پڑتا وہ بھی اِسLuxuryکے لیے خواہش مند ہوتیں تو حلقہ خا ص کی عورتیں انہیں ترغیب دیتیں اِس طرح پیر صاحب کے حرم میں آئے دن کسی نئی عورت کا اضافہ ہو تا رہتا ۔ کیونکہ میں عشق حقیقی کی طالبہ تھی اِس لیے میں عشق مجا زی کو پی کر اب اِس انتظار میں تھی کہ اب تو میں مرشد کریم پر قربان ہو چکی ہوں اب تو میرااگلا امتحان اور سفر بہت آسان ہو جائے گا ۔ پیر صاحب مجھ سے تھے بھی بہت خو ش کہ تم بالکل ٹھیک راستے پر جا رہی ہو ایک دن تمہا را دامن خوشیوں سے بھر جا ئے گا تم جو خا لی دامن لے کر آئی تھی اُس کو ہم لازوال خوشیوں سے بھر دیں گے با ادب با مراد بے ادب بے مراد میں من ہی من میں بہت مسرور اور نازاں کہ میرا مرشد مجھ سے راضی ہے میں معصوم حقیقیت سے بے خبر کہ میں تو گناہوں کی وادی میں غرق ہو چکی ہوں میں اپنی منزل کے بجائے گناہوں کے صحرامیں بھٹک رہی ہوں میں تو عشقِ حقیقی کی شاہراہ کے بجائے گناہوں کی بستی میں محوِ سفر ہوں ۔ میں مہینوں گناہوں کی اِس وادی میں لٹتی رہی اور یہ سمجھتی رہی کہ عشقِ مجاز ی یہی ہے جس کے بعد میں اپنی اگلی منزل کی طرف جا سکوں گی ۔ مجھے یہ پتہ ہی نہ تھا کہ میں تو پیر صاحب کی ہوس کا شکا رہو چکی ہوں جو خود اپنے نفس اور ہوس کا غلام ہو وہ عشقِ حقیقی کا طالب کس طرح ہو سکتا ہے وہ تو جنسی درندہ تھا جو بے دردی سے اپنی خواہشات کو پورا کر رہا تھا پریشانیوں مصیبتوں میں عورتیں اُس کے پاس آتیں وہ اُن کو سہا نے خواب دکھا کر اُن کے جسموں سے کھیلتا تھا ۔ اِس دوران مجھے یہ خوش فہمی ہو گئی کہ پیر صاحب مُجھ سے سچا عشق کر تے ہیں جو بعد میں پتہ چلا کہ وہ سب عورتوں کو یہی یقین دلا تے تھے میں صرف تم سے ہی سچا عشق کر تا ہوں میں دل و جان سے پیر صاحب کے عشق میں غرق ہو چکی تھی پیر صاحب کو دیکھے بنا چین نہ آتا میں دن رات پیر صاحب کی سوچوں اور باتوں میں مست رہتی ایک پل بھی اُن کے بغیر چین نہ آتا دیوانوں کی طرح بار بار اُن کے آستانے کی طرف جا تی آستانے پر جا کر سکون ملتا بنا پلک جھپکے پیر صاحب کو دیکھتی رہتی پیر صاحب میری اِس دیوانگی اور جنون کو دیکھ کر خوب Enjoyکر تے میں اِس مقام پر آگئی تھی کہ پیر صاحب کے آنکھ کے اشارے سے میں ایک پل میں خود کو فنا کر دیتی ۔ میں یہ سوچتی کہ اب میرا رواں رواں پیر صاحب کے عشق میں فنا ہو چکا ہے اب شاید میرا مجازی عشق اپنی تکمیل تک پہنچ گیا تھا اب میں شاید مرشد کے عشق میں فنا ہو چکی تھی ۔ میرے گھر والے میرے جنوں اور دیوانگی سے حیران ہو تے لیکن میں تو دنیا ما فیا سے بے خبر عشقِ مجازی کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی ۔ میں خوشی سر شاری میں ساتویں آسمان پر پرواز کر رہی تھی میری ذہنی کشمکش ختم ہو چکی تھی ۔ میں ہو س کی اِس وادی کو ہی اپنی منزل سمجھ بیٹھی تھی اور پھر میری زندگی کا سب سے تلخ اور بھیانک موڑآیا جس نے مجھے اندر تک ہلا کر رکھ دیا جس نے مجھے زندگی کی بہت بڑی حقیقیت سے روشناس کر ایا ۔ پیر صاحب نے جو کہا تھا کہ وہ میرے خالی دامن کو خو شیوں سے بھر دیں گے اُنہوں نے واقعی میرے دامن کو بھر دیا لیکن خو شی مسرت کامیابی سے نہیں بلکہ غلاظت ، گندگی ، گنا ہ اور بد نامی سے مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب میں جنسی کھیل میں حاملہ ہو گئی یہ خبر میرے لیے اور میری بو ڑھی ما ں کے لیے قیامت سے کم نہ تھی ہما رے حواس عقل و شعور معطل ہو کر رہ گئے ہمیں بالکل بھی سمجھ نہ آئی کہ اب ہم کیا کریں ۔ میر ی ماں کا ذہنی توازن خراب ہو نے کے قریب پہنچ گیا ۔ پھر جیسے ہی میری ماں نا رمل ہو ئی تو میری ماں مجھے لے کر پیر صاحب کے آستانے پر پہنچ گئیں ۔ ہم دونوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بر سات جا ری تھی میری ماں نے پیر صاحب سے الگ ملنے کی درخواست کی جب سب چلے گئے تو ہم پیر صاحب کے سامنے پیش ہو ئے تو میری ماں نے اپنا دوپٹہ پیر صاحب کے قدموں میں گرا دیا اور ہا تھ جو ڑ کر التجا کی پیر صاحب آپ نے جو بھی کیا پلیز ہم پر ترس کھا ئیں اور میری بیٹی کو اپنا لیں تا کہ ہم بد نا می سے بچ جا ئیں جب میری ماں نے گر یہ زاری کر تے ہو ئے ساری بات بتا ئی تو پیر صاحب نے سرے سے انکار ہی کر دیا کہ یہ پتہ نہیں کس کے گنا ہ کا بوجھ اٹھا ئے پھرتی ہے میں اِس کا ذمہ دار بلکل بھی نہیں ہوں یہ بچہ میرا نہیں ہے پتہ نہیں اِس کے کس یار کا ہے میں پیر صاحب کے اِس روئیے کو دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پیر صاحب یہ کیا بکواس کر رہے ہیں لیکن پیر صاحب نے ہماری ایک نہ سنی اور تقریبا دھکے دیتے ہو ئے نکا ل دیا اور کہا کسی اور کا گنا ہ میرے ذمے لگا تی ہو آج کے بعد کبھی میرے پاس آنے کی غلطی نہ کر نا اور اگر کبھی آؤ گی تو میں سب کو بتا دوں گا کہ کسی کا گناہ میرے ذمے لگاتی ہے اور پھر میں اور میری ماں وہاں سے آگئے پھر میری ماں اور میرے ماموں نے مجھے مختلف ڈاکٹروں اور دائیوں کے پاس لے جانا شروع کر دیا ۔ یہ درد کی ایک اور لمبی داستان ہے جس میں میرا جسم ریزہ ریزہ اور زخموں سے چور چور ہو گیا میں مر تے مرتے بچی اور پھراِس گنا ہ سے مجھے چھٹکارا مل گیا میں اور میری ماں درد اور ذلت کے جس با ب سے گزرے یہ ہم ہی جانتے ہیں میں اِس گناہ سے تو چھٹکارا پا گئی لیکن جب میں ٹھیک ہو گئی تو میرا دل ہر وقت پھر پیر صاحب ملنے اور آستانے پر جانے کی ضد کرتا اور آخر مجبورہوکر میں پیر صاحب کے پاس گئی تو اُنہوں نے سختی سے منع کر دیا ۔ اب میں جب بھی اُن کو فون کر تی ہوں تو وہ میرانمبر بلاک کر دیتے ہیں مجھے ملتے نہیں ۔ میں پا گلوں کی طرح دیوانہ وار ان کی طرف جا تی ہوں پتہ نہیں کیوں اب میں پیر صاحب کا منانے کے لیے کئی بابوں کے پاس جا چکی ہوں کہ میں پیر صاحب کے عشق میں فنا ہو چکی ہوں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی لیکن پیر صاحب تو میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتے ۔ اِسی سلسلے میں پرو فیسر صاحب اب میں آپ کے در پر آئی ہوں کہ میں پیر صاحب کے بغیر نہیں رہ سکتی وہ مُجھ سے رابطہ کیوں نہیں کر تے وہ مجھے اپنے پا س کیوں نہیں آنے دیتے میں نے ان کا کیا بگا ڑا تھا میں تو اﷲ کی تلاش میں اُن کے پاس گئی تھی میں تو معصوم تھی میں تو راہِ حق کی طالبہ تھی میرا کیا قصور تھا اور پھر وہ معصوم بلک بلک کر رونے لگی اُس کی داستان سن کر میری آنکھوں سے بھی غم کے فرات بہہ نکلے میں بے بسی اور دکھ کے ہما لیہ پر یہ سوچ رہا تھا کہ وطن عزیز کی کتنی معصوم عورتیں خدا کی تلاش میں اِن وحشی درندوں کے ہاتھوں گنا ہ اور ذلت کے سمندر میں غرق ہو چکی ہیں اور پتہ نہیں یہ سلسلہ کب جا کر رکے گا۔

تلاش ِ حق

میرے سامنے ایک معصوم سادہ لُٹا ہوا شخص بیٹھا تھا جو پچھلے کئی سالوں سے روحانیت قرب الہی اور کامل مرشد کی تلاش میں ایک چوکھٹ سے دوسری چوکھٹ تک اپنی پیشانی رگڑرہا تھا جس نے ایک سے بڑھ کر ایک بڑے بہروپیے اداکار بلکہ میراثی نما پیرکا دامن پکڑاتاکہ وہ اُس کے دامن میں بھی روحانیت کی بھیک ڈال دیں ۔ لیکن افسوس کہ کسی نے بھی اُس کے سچے اور حقیقی جذبے اور جنون کو نہ دیکھا بلکہ ہر ایک نے اُس کو بے دردی سے لوٹا اور استعما ل کیا ۔ اِس بیچارے نے تو دنیا مانگی ہی نہیں یہ تو نہ دنیا کا نہ شہرت کا طلب گا رتھا یہ گھر سے روحانیت اور خدا کے حقیقی قرب کے لیے نکلا تھا لیکن جھوٹے پیروں عاملوں اور سجا دہ نشینوں نے اِس کو خوب خو ب لو ٹا مجھے وطن عزیز کے وہ ہزاروں متلا شیان حق راہ ِ تصوف کے مسافر یا د آئے جو برسوں سے جھوٹے پیروں کے آستانوں پر پڑے ہیں سالوں گزر جا نے کے بعد بھی وہ اپنے پیروں کو قصور وار نہیں کہتے بلکہ اپنا ہی قصور اور غلطی مانتے ہیں کہ ہما رے پیر صاحب تو وقت کے قطب ہیں ولیوں کے سردار ہیں قصور تو ہما را ہے ہم نے ہی عبا دت وریا ضت نہیں کی ہم نے ہی پیروں کے بنا ئے ہو ئے اسباق پر عمل نہیں کیا ۔ اِن معصوم مریدوں کو کو ن بتائے کہ قصور آپ کا نہیں ہے اصل میں آپ جہاں روشنی لینے آئے ہیں وہ خود ہی اِس عظیم روشنی سے محروم ہیں اب جس ٹرانسفارمر میں خو دہی کرنٹ نہیں ہو گا تو وہ دوسروں کو بھلا کیسے دے گا بھئی ٹینکی میں پا نی ہو گا تو ہی نل میں آئے گا نا اگر ٹینکی ہی خا لی ہو تو پیا سے کی پیاس کیسے بجھے گی ۔ میرے سامنے بھی ایک ایسا ہی پیا سا تھا جو در در پر دستک دینے کے بعد لٹا لٹا یا گھوم رہا تھا ۔ پھر میں نے اُس کو جو مجھے تھوڑا بہت آتا تھا بتا یا اور آئندہ بھی راہنما ئی کا وعدہ کیا تو وہ چلا گیا لیکن جا تے جا تے میری فکر و سوچ کے بہت سارے دریچے وا کر گیا ۔ آج کے سجا دہ نشین عام لوگوں کو تو لوٹ ہی رہے ہیں یہ سب سے زیا دہ ظلم یہ کر تے ہیں جب یہ ایسے مقدس معصوم لوگوں کو لوٹتے ہیں جو ان کے پاس دنیا کے لیے نہیں خدا کے لیے اورآخرت کے لیے آتے ہیں اِن ظالم پیروں کا ظلم دیکھیں کہ یہ خدا کی تلاش میں نکلے ہو ئے مقدس لو گوں کو بے دردی سے لوٹتے ہیں کہ اِن میں سے بہت سارے تصوف روحانیت، عشق حقیقی ، اورقرب الہی سے ہی دل برداشتہ ہو کر پھرگناہوں کی زندگی کی طرف چلے جا تے ہیں جھوٹے پیروں نے طرح طرح لوگوں کو لوٹنے اور اپنے شکا ری پھندوں میں پھانسنے کے پروگرام بنا رکھے ہیں اِن کی تمام حرکات انتہائی گھناؤنی اور مکروہ ہیں کہ اِن سے نفرت ہو تی ہے لیکن اب میں نے اِن کے اس ظلم غلا ظت کا ذکر کر رہا ہوں جس کے بعد اِن سے گھن آتی ہے اِن کی اِس حر کت کے بعد یقین ما نئیے یہ گندگی میں رینگتے کیڑے نظر آتے ہیں ۔ اِن کے مکروہ چہروں سے نقاب اِس واقع کے بعد بخوبی سرک جا ئے گا ۔ آپ اِن گنا ہوں کا انسانی ظا لمانہ نمو نہ ملاحظہ فرمائیں گے درج ذیل واقعے سے کچھ عرصہ قبل مجھے بار بار ایک نمبر سے فون آتا ایک نوجوان لڑکی انتہا ئی درد ناک لہجے میں بار بار مجھے کہتی سر مجھے رش میں آپ نے نہیں ملنا برائے مہربانی مجھے الگ ملا قات کا وقت دیں میں ہر بار اُس کو ٹال دیتا کہ یہ شاید کو ئی چال یا ڈرامہ کر کے الگ ملنا چا ہتی ہے وہ بیچاری کبھی تو لمبے لمبے Messageکر تی یا اگر کبھی فون لگ جا تا تو ملنے کی التجا کر تی ۔ میرے بار بار ٹالنے پر ایک دن اُس نے مجھے ایسی با ت کہہ دی کہ میں اُس سے ملنے کے لیے تیا ر ہو گیا اُس نے کہا وہ دنیاوی کسی بھی مسئلے یا الجھن کے لیے آپ سے نہیں ملنا چاہتی بلکہ میں تو صرف خدا روحانیت اور قرب الہی کے سلسلے میں ملنا چاہتی ہوں اور اگر میں کو ئی بھی دنیا وی بات کروں تو آپ مجھے دھکے ما رکر بھگا دیجئیے گا۔ اُس کی آواز میں چھپے درد ، سوز کرب اور بے پنا ہ تکلیف نے مجھے اُس سے ملنے پر مجبور کر دیا ۔ اور پھر مقررہ دن اور وقت پر وہ مجھے ملنے آئی وہ ایک نوجوان اور نہا یت خو بصورت لڑکی تھی ۔ شرم و حیا اور خو بصورتی کا شاندار مجموعہ کہ کو ئی بھی اُسے دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہو سکتا تھا ۔ میں نے متجسس لہجے اور نظروں سے اُسے کہا بیٹی بتاؤ کیا مسئلہ ہے تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتی ہو تو اُس نے کہا کہ سر میں فلاں پیر صاحب سے عشق ِ حقیقی کر تی ہو ں میں اُن کے بغیر مر جا ؤں گی اگر وہ مجھے نہ ملے تو میں خود کشی کر لوں گی آپ خدا کے لیے میری پیر صاحب سے صلح کرا دیں وہ میرا فون نہیں اٹھا تے مجھ سے ملتے نہیں ہیں انہوں نے میرے تمام نمبرز Blockکر دئیے ہیں ۔ میں اُن کی دیوانی ہوں اُن کے بغیر مر جا ؤں گی ۔ اُس کی با تیں اور جنون سن کر میری کنپٹیوں میں آگ دہک اُٹھی مجھے لگا میرے اندر آتش فشاں پھٹنے لگا ہے میں نے اُس کی طرف زہر آلودہ نظروں سے دیکھا اور دہا ڑتے ہو ئے کہا تم نے تو کہا تھا کہ عشق الہی کی با ت کرو گی ۔ لیکن تم تو مجا زی عشق بلکہ نفس کے ہا تھوں مجبور ہو کر مجھے ملنے آئی ہو بھا گ جا ؤ ۔ میں تمہا ری کو ئی با ت نہیں سنوں گا اور نہ ہی پیر صاحب سے ملنے میں کو ئی مدد یا وظیفہ بتا ؤ ں گا ۔ میں نے اُسے کہا دفع ہو جاؤ دوبارہ کبھی مجھے اپنی شکل نہ دکھا نا اِس کے ساتھ ہی میں اٹھ کھڑا ہوا جب اُس نے دیکھا کہ میں جا نے لگا ہوں تو اُس نے میرے پا ؤں پکڑ لیے اور دھا ڑیں ما ر مار کر رونے لگی اور ساتھ ہی کہا کہ آپ پہلے میری بات تو سن لیں میری بات سننے کے بعد آپ کو ئی فیصلہ کریں اور اگر آپ نے میری بات نہ سنی تومیں آپ کے دروازے پر ہی بیٹھی رہوں گی اُس وقت تک نہیں جا ؤں گی جب تک آپ میری بات نہیں سنیں گے اُس کی گر یہ زاری اور بلیک میلنگ کے بعد محلے داروں کی وجہ سے میں نرم پڑ گیا کہ اِس کی بات سن لیتا ہوں تا کہ اِس کو کچھ سکون اور قرار آجا ئے تا کہ پھر یہ چلی جا ئے لہذا میں پھر اُس کے سامنے بیٹھ گیا تا کہ اُس کی بات سن کر اُس سے جان چھڑا ؤں ۔ مسلسل رونے سے اُس کے جسم پر لرزا طاری تھا میرے نرم رویئے اور حوصلہ دینے سے اُس کے مضطرب اعصاب نا رمل ہو نا شروع ہو ئے جب وہ نا رمل ہو گئی تو اُس نے اپنی داستان غم اِسطرح شروع کی کر ب میں ڈوبے ہو ئے گلو گیر لہجے میں اُس نے بتا نا شروع کیا کہ سر میری ہو ش کی آنکھ ایسے آنگن میں کھلی جہا ں ہر طرف روحانیت تصوف قرب الہی عشق الہی حقیقی اولیا اُن کی تعلیمات اور واقعات کی خو شبو چاروں طرف پھیلی ہو ئی تھی ہما را خاندان شروع سے ہی اولیا کرام کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا ہما رے گھر میں اکثر دینی محافل کا انعقاد کیا جا تا لا ہور کے تمام مزارات پر میں اور میرے فیملی ممبرز جا تے ۔روحانیت کے اِس ماحول میں پتہ ہی نہیں چلا کب میں جوان ہوگئی ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ میری یہ محبت پختہ سے پختہ ہو تی چلی گئی جب میں کا لج میں گئی تو لا ئبریری سے اولیا کرام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں اِس طرح میرے من میں دبی چنگا ری آگ کا بھا نبھر بنتی چلی گئی ۔ اب میں نے مو جودہ دور کے اولیا ء کرام کی تلاش شروع کر دی کیونکہ تصوف کی جو بھی کتاب پڑتی اُس میں مرشد کامل کی تلاش کا ذکر ضرور ہو تا ہر صاحب کتاب بار بار اِس بات کی تکرار کرتا کہ روحانیت تصوف اور عشق حقیقی کا سفر کسی مرشد کامل کی زیرِ نگرانی ہی کر نا چاہیے ۔ میری یہ تلاش اب جنون کا روپ دھا رتی جا رہی تھی اِس تلاش اور جنون نے میری جسم روح دل و دماغ کو بُری طرح اپنی گرفت میں جکڑ لیا ۔ میں عشق کی اِس آگ کے دریا میں کو دنے کو تیا ر ہو گئی میں اِس پل صراط سے گزرنے کے لیے تیار ہو گئی ہر گزرتے لمحے اور دن کے ساتھ میرے جنون کا درخت تنا آور ہو تا گیا ۔ دنیا سے بے رغبتی بڑھتی چلی گئی میری ترجیح اول صرف یہی راستہ بنتا چلا گیا کیونکہ میں لڑکی تھی اِس لیے با ہر گھومنے کی آزادی نہ تھی لیکن مجھے جیسے ہی کسی بزرگ یا آستا نے کا پتہ چلتا میں اپنے بھائی یا ماں کے ساتھ ایک بار ضرور وہاں پر گئی بہت سارے مزارات اور آستانوں پر جانے کے باوجود مجھے ابھی تک اپنی منزل نہیں ملی تھی کیونکہ میں پڑھی لکھی تھی اِس لیے جا ہل فراڈی بابوں کو جلدی جان جاتی پھر دوبارہ کبھی وہا ں نہ جا تی کیونکہ زیادہ تر گدیوں مزارات اور آستانوں پر بہروپیوں کا ہی قبضہ نظر آیا کسی میں بھی عشق حقیقی کی اصل روشنی اور نور نظر نہ آیا ۔ اب میں نے اپنے جا ننے والوں سے کہنا شروع کر دیا کہ اگر آپ کو کوئی نیک حقیقی اور اصل ولی اﷲ ملے تو مجھے ضرور بتا نا اِسی بھا گ دوڑ میں میری ایک دوست نے لا ہو ر کے نواحی علا قے میں ایک پیر کا بتا یا تو میں اُس آستا نے پر بھی پہنچ گئی ۔ پیر صاحب کے علم اور گفتگو سے میں جلد ہی متا ثر ہو گئی اور دل میں ٹھا ن لی کہ یہی میری منزل ہے یہی وہ پیر صاحب ہیں جن کی تلاش میں پچھلے کئی سالوں سے کر رہی تھی ۔

پیر کی گدی خطرے میں

میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا کنپٹیاں غصے کی آنچ سے دہکنا شروع ہو گئیں تھیں جسم آتش فشاں کی طرح پھٹنے کو تیار تھا ایک جاہل مداری نما گدی نشین صبح سے اب تک اپنا رعب جما نے اور مجھے زیر کر نے کے لیے بے شمار حما قتیں اور کر تب دکھا چکا تھا اب بھی وہ ہمیں اپنے کمرہ خاص میں مداریوں کی طرح اپنے اسلاف کی زیر استعمال اشیا ء اور صدیوں پرا نے قیمتی نوادرات دکھا کر متاثر کر نے کی ناکام کو شش کر رہا تھا ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس کے آباؤاجداد بہت نیک لو گ ہو نگے اور ان کی زیر استعمال اشیا بھی قابل احترام لیکن یہ خو د کیا تھا جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ نئی سے نئی حما قت کر تا جا رہا تھا ۔ یقینا اپنی اِس چال سے وہ بے شمار لوگوں کواپنے دام میں پھانس بھی چکا ہو گا ۔ وہ ہر نئی چیز دکھا نے کے بعد مغرور فاتحانہ نظروں سے ہما ری طرف دیکھتا اُس کی نظروں اور چہرے پر پھیلے تا ثرات بتا رہے تھے کہ وہ ہم پر بہت بڑا احسان کر رہا تھا اہل حق اپنی تعلیمات، اعلی حقیقی کردار اور روحانی تصرف سے لوگوں کو متاثر کر تے ہیں جبکہ یہ بیوقوف ما دی چیزوں سے ہمیں قائل اور متاثر کر نے کی بھونڈی کوششوں میں لگا ہوا تھا صدیوں پرا نی اشیا ء عطر پھول اور اگر بتیوں کی ملی جلی خوشبو نے ایک خاص سحر قائم کر رکھا تھا ۔ قیمتی پتھروں کی انگوٹھیاں ،سچے موتیوں کی ما لائیں پرانی زری کی قیمتی شکستہ بوسیدگی کا شکار ٹوپیاں فقیرانہ لباس پرانے برتن جھولے چارپائیاں پرانے سکے پرانی کتابیں اور قرآن مجید کے پرانے نسخے لکڑی اور دھات کے چھوٹے بڑے صندوق مر جھائے ہو ئے پھول اور پتیاں چاروں طرف بکھری ہو ئی تھیں لکڑی اور چمڑے کے پرانے جو تے مٹی کے چھوٹے بڑے برتن ۔ درج بالا تمام چیزوں سے منسوب بے شمار کرا متیں وہ بیان کر تا جا رہا تھا اب ہمیں وہ اُس حصے میں لے آیا جہاں پر بہت سارے کپڑے اور چمڑے کی جا ئے نماز پڑے ہو ئے تھے ۔ اب اُس نے ایک ایک جا ئے نماز کی قصیدہ نگاری شروع کر دی کہ یہ جا ئے نماز کس کا ہے اور اِس کی مشہور کرا مت کو نسی ہے اِس پر ایک ہی سجدہ عبادت کی چند گھڑیاں کسی بھی انسان کی کثافت کو لطافت میں بدل دیتی ہے روحانیت کے سالوں پر انے الجھے ہو ئے اسرار لمحوں میں سلجھ جا تے ہیں بصیرت کی گُتھیاں آسان ہو جا تی ہیں وہ بو لے جا رہا تھا اور ہم بیچارے سنتے جا رہے تھے اب وہ برتنوں والے حصے میں آکر برتنوں اورلو ٹوں کی کرا مات بیان کر نا شروع ہو گیا کہ اِس لو ٹے سے ایک ہی وضو زمین آسمان کے دور دراز گوشوں کو ہتھیلی کی طرح سامنے لے آتا ہے جس کا کشف وجدان اور الہام نہ کھلتا ہو وہ صرف ایک وضو اِس لو ٹے سے کر لے با طن کے سارے بند پٹ کھل جا ئیں گے ۔ لوٹوں کے بعد اب وہ برتنوں کی مدح سرائی میں مصروف ہو گیا کہ یہ مٹی کا پیا لہ اگر بھر کر سامنے رکھا جا ئے تو ایک ہی گھونٹ سے انسان زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جا تا ہے ساری دنیااور دنیا کے چھپے ہو ئے راز کھلی کتاب کی طرح سامنے آجاتے ہیں ۔ اب وہ پرانی کر سی نما کسی چیز کے سامنے کھڑا ہو گیا اور شروع ہو گیا کہ ہما رے بزرگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا نے کے لیے ایسی کر سیوں کا استعمال کر تے تھے وہ سیر الارض کے مالک تھے زمین کی لگامیں کھینچ لیتے تھے ہما رے بزرگوں کے اشاروں پر دیوار یں بھی دوڑ لگا دیتی تھیں وہ کسی بھی دیوار پر بیٹھ کر گھوڑے کی طرح اُس دیوار کو حکم دیتے تووہ دیوار مطلوبہ جگہ اُن کو پہنچا دیتی اب پیر صاحب نے بہت سارے واقعات کرا متوں کی صورت میں بتا نے شروع کر دئیے کہ کس طرح اُ ن کے بزرگ اپنے مرشدوں اور مریدوں سے ملنے جا تے تھے ۔ اب انہوں نے چارپائیوں کے قصیدے پڑھنے شروع کر دئیے کہ کو ئی گنا ہ گار اِن چارپائیوں پرسونہیں سکتا اُس کی موت بھی واقعہ ہو سکتی ہے ۔ اب انہوں نے مختلف ٹوپیوں کی قصیدہ نگا ری شروع کر دی ایک ٹو پی کے بار ے میں وہ فرمانے لگے کہ دنیا کی لا علاج سے لا علا ج بیماری کا علاج اِس ٹو پی کو پہن لینے میں ہے آپ کا جسم تمام روحانی جسمانی بیما ریوں سے پاک ہو جا تا ہے اب انہوں نے انگوٹھیوں کی کرا مات بتا ناشروع کردیں کہ اِن میں سے چند انگوٹھیاں ایسے با کمال پتھروں پر مشتمل ہیں کہ وہ جام جہاں نما کا درجہ رکھتی ہیں جس کسی کے پاس یہ انگوٹھی ہو تی ہے وہ اُس انگوٹھی میں ساری دنیا ،اپنے مرید اور مطلوبہ نظارے دیکھ سکتا ہے کو ئی مرید بھی پیر صاحب کی آنکھ سے محفوظ نہیں اب پیر صاحب نے توجہ طلب نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا میں ایک ایسی چیز آپ کو دکھا نے لگا ہوں جو دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے اُس نے ایک پرانی ریشمی کپڑے کی تھیلی ایک صندوق سے نکالی اس میں پانچ سکے بھی نکا لے اور کہا یہ ہمارے بزرگوں کے خاص سکے ہیں اِن کی خو بی یہ ہے کہ ایک سکہ ہما رے پاس رہتا تھا با قی ہم خرچ کر دیتے تھے چاروں خرچے ہو ئے سکے تھو ڑی ہی دیر میں واپس آجا تے تھے میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ آپ کسی سے کو ئی چیز خریدیں اور پیسے نہ دیں یہ تو چوری ہو گی یہ تو بد دیانتی ہو گی یہ تو غلط عمل ہوا میری اس جسا رت اور گستاخی پر پیر صاحب نے قہر آلودہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا اﷲ والوں کے ہر عمل میں کو ئی راز ہو تا ہے جس کو عام لوگ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ میرے صبر کا پیمانہ چھلکنے کے قریب تھا اِس لیے میں تنگ آچکا تھا مجھے اُس سے الجھن ہو رہی تھی میں اِس جا ہل پیر سے جان چھڑاناچاہتا تھا میں نے اِس سے دو سوال کر نے کا فیصلہ کر لیا تھا اِس کی اوقات یا د دلانے کا وقت آگیا تھا میں سارادن اِس کے ساتھ گزار کر اِس کی حقیقت اور مسائل سے با خبر ہو چکا تھا کہ اِس نے مجھے یہاں کیوں بلا یا ہو ا ہے میں نے اُسے تنگ کر نے کے لیے کہا کہ اگر کو ئی پیرشراب پی لے تو اُس کا یہ عمل بھی جا ئز ہو گا تو وہ بولا وہ شراب پی کر کسی دریا میں تھوک دے تو وہ دریا بھی اُس کی تھوک سے پاک ہو جا ئے گایہ سن کر میرے تن بدن میں آگ بھڑک اٹھی میں اُس کے قریب ہو گیا اور سرگوشی میں کہا تم یہ بکواس کر رہے ہو جو چیز اﷲ اور سرور کا ئنات ﷺ نے منع اور حرام قرار دی تم تو کیا کوئی بھی پیر اُس کو جا ئز قرار نہیں دے سکتا میری گستاخی پیر صاحب سے برداشت نہ ہو ئی غصیلی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا جناب آپ کچھ نہیں جانتے تو میں نے پھر آہستہ سے اُس کے کان میں کہا تا کہ کو ئی سن نہ لے پیر صاحب تمہا ری گدی خطرے میں ہے تمہا ری اولاد نہیں ہے اورنہ تم میڈیکلی اولاد پیدا کر نے کی صلاحیت رکھتے ہو روحانیت اور اعمال کی تم الف ب بھی نہیں جانتے جس لڑکی سے تم شادی کر نا چاہتے ہو وہ کبھی نہیں کر ے گی میری با تیں سن کر اُس کا چہرہ زرد پڑ گیا اُس نے تمام لوگوں کو کمرے سے باہر نکالا لوگوں کے باہر جا تے ہی میں نے کہا تمہا ری یہ ساری چیزیں تمہا ری مدد کیوں نہیں کر سکتیں اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس ساری کائنات کا مالک صرف ربِ کائنات ہے پو ری کا ئنات اُس کے قبضے میں ہے اِن چیزوں میں نہیں ۔اگر اِن چیزوں میں اتنی ہی کرامات ہیں تو مانگو اِن سے پیر صاحب کا سارا غرور ختم ہو چکا تھا اب وہ منت سماجت پر اُتر آیا کہ اگر اولاد نہ ہو ئی اور میں نے دوسری شادی نہ کی تو ہما ری گدی شدید خطرے میں پڑ جا ئے گی جب اولاد پیدا کر نے کی صلاحیت تم میں نہیں تو کیوں کسی لڑکی کی زندگی برباد کر نا چاہتے ہو تو وہ بولا اُس کی بہت بڑی جا گیر ہما رے خاندان میں آجا ئے گی ۔ اگر تم اﷲ تعالی کے سامنے خلوص ِ نیت سے جھک جا ؤ تو وہ ہی تمہیں اِس مشکل سے نکال سکتا ہے پیر صاحب مجھے بہت تر غیبات دیتے رہے لیکن میرا دم گھٹ رہا تھا میں نے جان چھڑائی اور گاڑی میں آکر بیٹھ گیا لاہور واپس آتے ہو ئے میں سوچ رہا تھا پتہ نہیں کب تک ان عظیم لوگوں کی گدیوں پر اِن جعلی بے عمل پیروں کا قبضہ رہے گا ۔

عیاش پیر

میرے سامنے بیٹھی عورت کتنی دیر سے مجھے لو نڈی بننے پر قائل کئے جا رہی تھی کہ اسلام میں لونڈی ازم جائز ہے لو نڈی کا فلسفہ کیا ہے اسلام کے ابتدائی دور میں بڑے صحابہ کرام کی بھی لونڈیاں تھیں پھر اُس عورت نے بہت سارے صحابہ کرام کے نام لئے اور اُن نیک عورتوں کے بھی جو لونڈیاں تھیں یعنی وہ عورت اسلام میں لونڈی اِزم کو آج کے دور میں جا ئز قرار دے رہی تھی مجھے وہ یہ ترغیب دے رہی تھی کہ تم اِس دور کی اُن خوش قسمت ترین عورتوں میں شامل ہو جا ؤ گی جو اِس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہو چکی ہیں کیونکہ مجھے اِس بار ے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اِس لیے میں خاموشی سے اُس عورت کی باتیں سنتی جا رہی تھی باتوں باتوں میں اُس نے مجھے یہ دھمکی بھی دے ڈالی تھی کہ اگر تم لو نڈی بننے سے انکار کرو گی تو تم پیر صاحب کی نظروں اور دل سے اُتر جا ؤ گی اور اگر تم نے پیر صاحب کو نا راض کر دیا تو تم پھر کبھی بھی اپنی منزل نہیں پا سکو گی ایک طرح سے وہ مجھے یہ بتا رہی تھی بلکہ دھمکی یا ترغیب دے رہی تھی کہ تمہا رے روحانی سفر کا دارومدار اب اِس فیصلے پر ہے کہ میں پیر صاحب کی لونڈی بنتی ہو ں کہ نہیں اِسی دوران میں نے ڈرتے ڈرتے پو چھا میں تو پہلے ہی پیر صاحب کی کنیز اور خادمہ ہو ں اُن کے ہر حکم کو سر آنکھوں پر سجاتی ہو ں وہ جب کہیں میں ایک پل میں اپنی جان تک اُن پر وار دوں آج تک اُنہوں نے مجھے جو بھی حکم دیا ہے میں نے بغیر سوچے سمجھے اُس پر فوری عمل کیا ہے مجھے ایک بھی ایسی بات یاد نہیں جو مرشد کریم نے فرمائی ہو اور میں نے فوری طور پر اُس پر عمل نہ کیا ہو ۔ پہلے تو وہ عورت اشاروں میں با تیں کر تی رہی اور آخر میں اُس نے واضح طور پر کہا کہ پیر صاحب کو تمہا رے جسم پر اُسی طرح کا حق حاصل ہے جو ایک خا وند کو اپنی بیوی پر ہو تا ہے جب اُس عورت نے واضح طور پرمجھے یہ پیغام دیا کہ پیر صاحب میرے جسم کو بھی بطور بیوی استعمال کر سکتے ہیں وہ بھی شادی نکا ح کے بغیر تو یہ بات مجھے سمجھ نہ آئی میں کنفیوژ ہو گئی کہ یہ کونسا طریقہ ہے یا یہ کونسی پیری مریدی ہے یہ مرشد کی کیسی رضا ہے کہ وہ میرے جسم پر بھی اختیار رکھتا ہے وہ بھی اسطرح۔ میں اُس عورت کی باتیں سن کر کچھ پریشان ہو کر گھر چلی آئی کیونکہ میں نے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کے سامنے پیر صاحب کا تعارف قطب اور موجودہ دور کے زندہ ولی کے طور پر کرا یا ہوا تھا اِس لیے میں ڈر کے ما رے کسی کے ساتھ بھی یہ بات shareنہیں کر سکتی تھی اِس طرح میں اور پیر صاحب دونوں کی عزت لوگوں کی نظر میں کم ہو جاتی میں اذیت ناک کشمکش میں مبتلا ہو چکی تھی ایک سوچ یہ آتی کہ پیر صاحب پر جان اور مال سب قربان ہے دوسری سوچ یہ آتی کہ یہ تو نفسی خواہش اور Lustہے اس کا روحانیت فقیری اور قرب ِ الہی سے کیا تعلق ہے میں گھڑی کے پنڈولم کی طرح ادھر اُدھر جھول رہی تھی بے یار و مددگار بات اتنی حساس تھی کہ کسی سے بھی نہیں کر سکتی تھی دوسری طرف پیر صاحب کی وہ تمام با تیں یا د آتیں کہ اِس سفر پر چلنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو کہیں سفر درمیان میں ادھورا نہ چھوڑدینا اور کبھی میں یہ سوچتی کہ میں پیر صاحب سے دیوانہ وار عشق کر تی ہوں میرے باطن کے عمیق ترین گوشوں میں پیر صاحب کی محبت کی چنگاری بھی سلگ رہی تھی پیر صاحب کا تصور پکا تے پکا تے پتہ نہیں کہیں میں پیر صاحب کی محبت میں تو گرفتار نہیں ہو گئی تھی اتنی بڑی بات کے بعد بھی ابھی تک مجھے پیر صاحب سے نفرت نہیں ہو ئی تھی میں ابھی بھی اُن کے خلاف نہیں ہو ئی تھی وہ اب بھی میرے من کے دیوتا تھے میرے دل کے مندر میں اُنہیں کی مورتی سجی ہو ئی تھی ایک عجیب سی کشش تھی جو مجھے پیر صاحب کی طرف غیر محسوس طریقے سے کھینچ رہی تھی میری شعوری لا شعوری مزاحمت آہستہ آہستہ ختم ہو تی جا رہی تھی الجھن اور اذیت نا ک کشمکش کی سولی پر لٹکی میں پھر آستانے پر پہنچ گئی مجھے دیکھتے ہی وہی عورت جو پیر صاحب کی وکالت کر رہی تھی میرے پاس پھر آکر بیٹھ گئی اور پھر ادھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں پہلے تو وہ عام باتیں کر تی رہی لیکن جلد ہی وہ اصل مو ضوع پر آگئی اور کہا تم لونڈی بننے کے لیے تیا ر ہو گئی ہو نا ؟میں خا موش نظروں سے اُس کی طرف دیکھتی رہی ۔ میری خاموشی سے اُسے الجھن ہو رہی تھی وہ حیرت اور غصے میں تھی کہ میں ابھی تک انکا ر کیوں کر رہی ہوں یہ تو انکا ر کی بجا ئے سعادت اور بڑے مقام کی بات ہے ۔ اب پھر اُس نے مجھے قائل کر نا شروع کر دیا کہ تم پہلی لڑکی ہو جو انکار کر رہی ہو ورنہ آج تک پیر صاحب نے جس کے لیے بھی خواہش کا اظہار کیا کسی نے بھی انکار نہیں کیا بلکہ خو شی خو شی پیر صاحب کے حرم کا حصہ بن گئی کیونکہ میرے دل و دما غ میں ابھی کشمکش کی جنگ جا ری تھی میری آنکھیں اور چہرہ ہر قسم کے تاثر سے عاری تھا میں خا موش سپا ٹ نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی میرے اِس روئیے سے عورت پر یشان ہو گئی کیونکہ اُسے شاید یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ اِس کو منا کر ہی چھوڑنا ہے اِس لیے وہ ہر طرح سے اِس کو شش میں تھی کہ میں ہاں کر دوں جب اُس نے بہت ساری باتیں اور دلیلیں دے دیں اور میں پھر بھی خا موش رہی تو وہ اٹھی اور جا کر دو عورتوں کو لے آئی اور میرے سامنے بٹھا کر بولی تم جانتی ہو یہ دونوں عورتیں بھی پیر صاحب کی لونڈیاں بننے کی سعادت حاصل کر چکی ہیں دونوں نے مجھے قائل کر نا شروع کر دیا کہ یہ تو بہت بڑی خوش قسمتی ہے یہ اعزاز اور کرم تو مقد ر والیوں پر ہو تا ہے تم تو کفرانِ نعمت کر رہی ہو جب تک پیر صاحب نے ہمیں اپنا یا نہیں تھا ہم بھی اندھیروں میں ٹامک ٹویاں ما ررہی تھیں مشکلات کے صحرامیں ٹھوکریں کھا رہی تھیں جیسے ہی پیر صاحب کی خاص نظر ہم پر پڑی سارے اندھیرے دور اور مشکلات ختم ہو گئیں میں نے پو چھا آپ کی مشکلات کیا تھیں تو پتہ چلا ایک ایسی ساس کے ہاتھوں تنگ تھی جبکہ دوسری کی شادی نہیں ہو تی تھی ان دومسئلوں کے لیے دونوں نے اپنی عزت پیر صاحب کے قدموں پر وار دی میں نے اُنہیں بتا یا کہ مجھے تو دنیاوی کو ئی مسئلہ نہیں ہے اِس لیے میرا دل نہیں مانتا تینوں عورتوں نے بہت زور لگا یا لیکن میں واپس آگئی اسی طرح دو تین بار پھر گئی اور انکا رہی کیا اب جب میں چند دن بعد گئی تو وہی عورت مجھے ملی کہ اگر تم ہا ں نہیں کر تی تو آج کے بعد پیر صاحب کے در پر کبھی نہیں آنا تم گستاخ ہو اور پیر صاحب تمہیں اپنی مریدی کی لسٹ سے خارج کر تے ہیں ۔ پیر صاحب کی ناراضگی کا سن کر میرے پا ؤں کے نیچے سے زمین ہی سرک گئی میں شدید پریشانی میں گھر آگئی کیونکہ میں مرشد صاحب کی پو جا کر تی تھی اُ ن کی نا راضگی سے میری روح چھلنی چھلنی ہو گئی میں دن رات کا نٹوں پر لیٹی ایک پل بھی قرار نہ آیا ۔ اب میرے اندر پیر صاحب کی خو شی اور ناراضگی کی اذیت ناک جنگ جا ری تھی میں اذیت کے یہ پل زیادہ دیر برداشت نہ کر سکی پیر صاحب کی نا راضگی نے میرے ہو ش و حواس کو شل کر دیا تھا میرے دن کا چین اور رات کی نیند اُڑ چکی تھی میں اِس دباؤ کو زیادہ دیر برداشت نہ کر سکی اورپھر میں ہا ر گئی اور میں نے فیصلہ کیا کہ پیر صاحب کی خو شی پر میرا تن من ہر طرح سے حاضر ہے اور پھر میں فیصلہ کر کے دوبارہ آستانے کی طرف جا رہی تھی میرے اندر کا فی دنوں سے جا ری کشمکش ختم ہو چکی تھی میرے اعصاب اب نا رمل ہو چکے تھے میں فیصلہ کر چکی تھی کہ پیر صاحب کی رضا اور خو شی کے لیے میں آخری حد سے بھی گزر جا ؤں گی پیر صاحب کو کسی بھی صورت ناراض نہیں کر نا ( لعنت ہو ایسی پیری مریدی پر ) اور پھر آستانے پر جا کر میں نے اُس عورت کے سامنے شکست مان لی اور کہا میں پیر صاحب کی لونڈی بننے کے لیے تیا رہوں۔

بہروپیئے پیر

خو شی کی انتہا سے میری اشکبا رآنکھوں سے موتیوں کی لڑی جھڑ رہی تھی ‘مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میرے پیر صاحب نے مجھے اپنی مریدی میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے میری سالوں کی تلاش اور پیاس ختم ہو نے والی تھی اب وہ خوش قسمتی اور سرشاری کا لمحہ آگیا تھا جس کا انتظا ر میں کئی سالوں سے کر رہی تھی اس گھڑی کے انتظار میں ایک ایک پل میں نے کا نٹوں پر چل کر گزارا تھا ۔میں اپنی خو ش قسمتی پر نازاں تھی کہ آخر مرشد پا ک نے مجھے اپنے قدموں میں جگہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا اس عظیم گھڑی کے لیے میں یہا ں کتنے مہینوں سے آرہی تھی بار بار اپنا خالی دامن مرشد کریم کے سامنے پھیلایا تھا اور آج مجھ داسی جو گن غلام پر پیر صاحب کو ترس آہی گیا تھا ا ب میں نے نشاط انگیز لہجے میں پیر صاحب کو التجا کی کہ میں عشق مجاز کا جا م کیسے پی سکتی ہوں مجھے اِس کے لیے کیا کرنا ہو گا تو پیر صاحب نے میرے سراپے پر گہری اور ٹٹولنے والی نظر ڈالی میری آنکھوں میں اندر تک جھا نکا اور کہا تمہیں عشقِ مجاز کے لیے مجھ سے عشق کر نا ہو گا ۔ میرے عشق میں فنا ہونا ہو گا مرشد کے عشق میں فنا ہو نا ہو گا جب تم مرشد کے عشق میں فنا ہو جاؤ گی تو یہاں سے ہی عشق حقیقی کا دروازہ کھلے گا یہیں سے تمہا رے عظیم سفرکا آغاز ہوگا ‘ یہیں سے ہی تم عشق حقیقی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھو گی ۔ سفر بہت پر خار اور کٹھن ہے تم اچھی طرح سوچ لو اگر سفر درمیان میں ادھورا چھوڑنا ہے تو ابھی سے واپس چلی جاؤ اور دوبارہ کبھی اِس کو چے کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھنا آج تمھارے پاس وقت ہے تم واپس جا سکتی ہو اگر تم سفر شروع کر کے ادھورا چھوڑ کے چلی جا ؤ گی تو نہ یہا ں کی رہو گی نہ اگلے جہان کی رہو گی اِس لیے تم ایک بار پھر اچھی طرح سوچ لو یہ بہت مشکل سفر ہے جس کے لیے بہت زیادہ ہمت اور مستقل مزاجی چاہیے اِس وادی میں مرشد ہی اول و آخر ہے اگر تم مرشد کی ذات کو حرف آخر بنا سکتی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ واپس دنیا میں چلی جا ؤ اور پھر کبھی اِس سفر کا نام بھی نہ لینا مرشد کی با تیں سن کر میں ڈر گئی کہ کہیں مرشد مُجھ سے ناراض نہ ہو جا ئیں میں نے اپنا سر مرشد پا ک کے قدموں میں رکھ دیا کہ خدا کے لیے مُجھ سے منہ نہ مو ڑیں میں ہر حال میں اِس سفر پر چلنا چاہتی ہوں ۔ میں اِس سفر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی آپ خدا کے لیے مجھے اپنی غلامی میں قبول فرمائیں میں دل و جان سے آپ کے ہر حکم کی تعمیل کروں گی میں بڑی دیر تک مرشد کے قدموں سے لپٹی التجا کر تی رہی اور پھرمرشد کو مُجھ پر ترس آگیا ۔ پھر مرشد صاحب نے مجھے با زوؤں سے پکڑ کر اٹھا یا میری آنکھوں سے آنسووؤں کے آبشار مسلسل اُبل رہے تھے جنہیں مرشد کریم نے اپنے ہا تھوں سے صاف کیا ۔ آہستہ آہستہ میری طبیعت سنبھل گئی تو میں ہمہ تن گوش منتظر تھی کہ مرشد کریم اب مجھے کیا ہدایت دیتے ہیں تو پیر صاحب نے پہلا حکم یہ جا ری کیا کہ اب تم دن رات میرے تصور کو پکا ؤ گی ہر وقت دن رات میرے تصور میں گُم رہو گی دن رات تنہا ئی میں بیٹھ کر چلتے پھرتے یہی تصور کر و گی کہ مرشد سامنے ہے ۔ اب تمھارا اوڑھنا بچھونا مرشد ہی ہو گا ۔ مرشد کا حکم ہر حال میں ما ننا ہو گا اب مرشد ہی دنیا میں تمہا را خدا بھی ہے ماں باپ بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سب سے زیادہ عزیزہے اور پیار تم صرف اپنے مرشد سے ہی کرو گی ‘مرشد کی بات مانتے ہو ئے اگر تمہا ری جان بھی چلی جا ئے تو پرواہ نہ کر نا آج سے تمہا رے جسم اور روح پر تمہا رے مرشد کاپورا حق ہے آج سے تم مرشد کی کسی بھی بات سے انکار نہیں کرو گی مرشد کی پیروی کرو گی تو ہی تمہا ری اگلی منزلیں آسان ہونگیں مرشد صاحب بہت دیر تک اِس بات پر ہی زور دیتے رہے کہ آج سے تم مرشد کی زرخرید لونڈی باندی ہو مرشد کی کسی بات سے انکار بہت بڑی گستاخی ہو گی ۔ کیونکہ میں تصوف کی بہت ساری کتابیں پہلے ہی پڑھ چکی تھی ہر کتاب چیخ چیخ کر مر شد کی اطاعت پر زور دے رہی تھی تصور شیخ کا بھی جگہ جگہ ذکر تھا فنا فی شیخ کا تذکرہ بھی بے شمار جگہوں پر پڑھ چکی تھی ۔ بزرگوں کے حالات میں بھی بے شمار ایمان افروز ایسے واقعات پڑھ چکی تھی جن میں مرشد مرید کے عشق اور فرما نبرداری کے دلوں کو چھو لینے والے واقعات بیان تھے لہذا میں کہیں نہ کہیں پہلے سے ہی مرشد کی مکمل اطاعت کے لیے تیار تھی کیونکہ میں جس نور کی تلاش میں تھی وہ نور مجھے مرشد کی ذات میں نظر آتا تھا یا یہ میرا وہم تھا ۔ بہر حال اب میں نے دن رات مرشد کا تصور پکا نا شروع کر دیا میں دن رات کسی بھی وقت جب مجھے مو قع ملتا مرشد کے تصور میں گم اور غرق ہو جا تی اور جب کبھی پیر صاحب کے آستانے پر جا تی تو مرشد صاحب کو ٹکٹکی با ندھ کر دیکھتی ۔ میں اپنی حالت پر بہت زیا دہ خوش تھی کہ آخر کار مجھے وہ راستہ مل گیا جس پر چل کر مجھے منزل ملنے کا یقین تھا ۔ میں دنیا میں ایک روبوٹ یا بے جان بت کی طرح گھوم پھر رہی تھی دنیا داری کے معاملات صرف وقت گزاری کے لیے کر تی تھی جبکہ میرا اصل مقصد اور ٹارگٹ مرشد صاحب سے عشق اور اُن کی تا بعداری تھی ۔ میں دن رات اپنی اسی دھن میں گم تھی لیکن پو ری کو شش کے باوجود مرشد کا تصور مُجھ سے پک نہیں رہا تھا ۔ اپنی اِس کمزوری کا میں بار بار مرشد سے ذکر کر تی تو مرشد پا ک فرماتے تم اِس عظیم مشن پر لگی رہو آخر کامیا بی تمہا ری ہی ہو گی ۔ کیونکہ میں ہر وقت مرشد کی ذات میں ہی گم رہتی تھی اِس لیے اب میرے ہونٹوں پر بھی ہر وقت مرشد پا ک کا ہی ذکر ہو تا تھا مرشد بھی میرے اشتیاق کو اور بڑھا تے باتوں باتوں میں بلھے شاہ ‘امیر خسرو اور جلال الدین رومی کا ذکر کر تے کہ کس طرح اُنہوں نے اپنے مرشدوں کو راضی کیا ‘مرشد راضی تے رب راضی ‘شعوری لا شعوری طور پر میں اب اِس مقام پر آگئی تھی کہ مرشد کا حکم میرے لیے حرف آخر اور رب کا حکم تھا جس کو میں ٹالنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور یہی میرے مرشد چاہتے تھے کہ میں ایک کٹھ پتلی کی طرح اُن کے اشاروں پر نا چوں اور پھر یہاں پر ایک اور کردار سامنے آتا ہے مرشد کے آستانے پر ایک بہت پرانی مریدنی آتی تھی جو مرشد کے بہت قریب بھی تھی اب اُس عورت نے مُجھ سے دوستی کاآغاز کیا اب وہ اکثر مجھے اپنے پاس بٹھا تی اور میری تعریف کر تی کہ تم بہت با صلاحیت مریدنی ہو تم ایک دن اپنی منزل تک ضرور پہنچو گی وہ بار بار مجھے ایک ہی بات سمجھا تی کہ مرشد کا حکم کبھی نہ ٹالنا اگر وہ کبھی تم سے تمھاری جان بھی مانگیں تو کبھی انکا ر نہ کر نا ۔ میں تو پہلے ہی مرشد کے رنگ میں رنگی جا چکی تھی اُس عورت کی باتوں سے اور بھی پکی ہو گئی اور پھر ایک دن اُسی عورت نے تنہا ئی میں مجھے کہا کہ آج میں تمہیں ایک خاص با ت اور راز بتا ؤں گی اگر تم نے اِس راز کو پا لیا مان لیا تو تمہیں مرشد پاک کے دل و دما غ میں وہ خاص جگہ نصیب ہو گی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہے میں شدت سے اِس انتظار میں تھی کہ وہ کو نسی بات اور راز ہے جس میں مرشد کی رضا شامل ہے اور پھر اُس عورت نے میری طرف غور سے دیکھا اور کہا جو بات میں تم سے کر نے جا رہی ہوں اِس کو غور سے سنو اور کسی سے بھی ذکر نہ کر نا بات یہ کہ مرشد جس سے بہت راضی ہو جا تے ہیں اُس کو اپنی لو نڈی کنیز بنا لیتے ہیں اُس لونڈی کے جسم پر بھی مرشد کو اختیار ہو تا ہے اب مرشد پاک نے تمھیں لو نڈی بنا نے کا فیصلہ کیا ہے ۔

جعلی پیر

میرے سامنے حسن و جمال کا پیکر ایک نوجوان پڑھی لکھی لڑکی اپنا تلاشِ حق کا سفر درد ناک اور گلو گیر لہجے میں سنا رہی تھی اور میں ہمہ تن گوش اُس کی الم ناک داستان سن رہا تھا ۔ بقول اُس کے وہ جس مرشد کامل کی تلاش میں تھی اُس کی جھلک اُسے اِس پیر میں نظر آئی تھی پیر صاحب کی عمر تقریبا ً تیس سال تھی اور وہ ایم اے پاس تھا پیر صاحب کا کمرہ زائرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ میں اپنی ماں کے ساتھ اپنی باری کے انتظار میں تھی ۔ لوگ اپنی اپنی باری پر پیر صاحب سے ملتے اور میں اُن کی دنیا وی حاجات کی گفتگو اور حرکات کو دیکھ رہی تھی ۔ پیر صاحب زائرین سے پیسے بھی لے رہے تھے یہ بات مجھے کھٹکی کہ اﷲ کے بندے تو لوگوں سے پیسے نہیں لیتے پھر میں نے خود ہی خو د کو سمجھا یا کہ آستانے کے اخراجات پو رے کر نے کے لیے اگر کو ئی اپنی مر ضی سے دے رہا ہے تو یہ کو ئی غلطی گنا ہ یا برُی بات نہیں ہے ۔ میں جان کے ایک سائیڈ پر اِس انتظار میں بیٹھی تھی کہ جب سب لوگ چلے جا ئیں گے تو آرام سے پیر صاحب سے ملوں گی ۔ پیر صاحب نے دو تین بار میری طرف دیکھا اور اشارے سے کہا کہ اب آپ مل لیں لیکن میں نے پہلے سے لکھی ہو ئی چٹ پیر صاحب کو تھما دی کہ میں علیحدہ آرام سے ملنا چاہتی ہو ں ۔ اب پیر صاحب آنے والے لو گوں کو تیزی سے ملتے جا رہے تھے اور بار بار گہری ٹٹولنے والی نظروں سے میری طرف بھی دیکھ رہے تھے ۔ کیونکہ پیر صاحب اب لوگوں سے جلدی جلدی مل رہے تھے اِس لیے اب کمرہ لوگوں سے خالی ہو نے لگا اور پھر جیسے ہی کمرہ خالی ہواپیر صاحب نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ اب کسی کو اندر نہ آنے دیا جا ئے اور ساتھ ہی ہمیں اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا اب میں خو شی ، عقیدت اور سر شاری میں پیرصاحب کے سامنے جا کر بیٹھ گئی پیر صاحب گہری نظروں سے میرا معا ئنہ کیا اور بو لے اب لوگ چلے گئے ہیں آپ بتا ئیں آپ کا کیا مسئلہ ہے تومیں نے اپنا مدعا بیان کیا کہ میں کسی دنیا وی مسئلے کے لیے آپ کے پاس نہیں آئی میں آپ کے پاس صرف اﷲ کے لیے آئی ہوں عشق حقیقی قرب الہی اور اولیا ء کرا م کے راستے پر چلنے کے لیے راہبر اور مرشد کی تلاش میں دربدر بھٹک کر اب آپ کی چوکھٹ پر آگئی ہو ں میری جھولی میں روحانیت کا لنگر ڈال دیں مجھے اپنی غلامی میں قبول فرمائیں مجھے روحانیت کے اسرار و رموز سے آگاہی تزکیہ نفس اور خدا کی بار گاہ میں جا نے کے لیے آپ کی شاگردی کی سعادت چاہیے پھر میں نے پیر صاحب کو اپنی تلاش اور کو ششوں سے آگا ہ کیا پیر صاحب غور سے میری طرف دیکھتے اور سنتے رہے جب میں نے اپنی تمام گزارشات گو ش گزار کر دیں تو پیر صاحب نے زور کا قہقہ لگا یا اور بو لے بی بی یہ عام لوگوں کے بس کا روگ نہیں ہے یہ خا صوں کی با ت ہے جو عام لوگوں کو نہ ہضم ہو تی ہے نہ وہ اِس مشکل پہا ڑی پر چڑھ سکتے ہیں جا ؤ دنیا داری کے کام کرو راہِ حق بہت گہرا دریا ہے اس سے گزرنے کے لیے بہت کڑے مجا ہدے اور عبادات کر نی پڑتی ہیں بی بی یہاں روحانیت اور قرب الہی کی تلاش میں بہت لوگ آئے جو بڑے بڑے دعوے کر تے تھے لیکن چند دن میں ہی بھا گ گئے یہ تمھارے بس کا روگ نہیں لہذا یہ خو ش فہمی دل سے نکال دو یہ کا م تم نہیں کر سکتی میں نے بہت منت سما جت کی لیکن پیر صاحب نے انکار کر دیا کہ تم وہ مزاج نہیں رکھتی وہ جنوں اور جذبہ نہیں رکھتی جو اِس راستے کے لیے درکار ہے میں پیر صاحب کی باتوں سے مایوس اور پریشان ہو گئی کہ کس طرح پیر صاحب کو یقین دلا ؤں ساتھ ہی ساتھ میں پیر صاحب کی بے نیازی اور بزرگی کی بھی قائل ہو گئی کہ میں آج سے پہلے جس بھی پیر کے پاس گئی تھی اُس نے فوری کہا کہ آؤ میری شاگردی میں میں تم کو سب کچھ سکھا دوں گا لیکن اُن کی گندی نظریں اور لا لچ سے میں کہیں بھی نہ ٹکی ۔ یہ پہلا پیر تھا جس کی نظر میں میری خو بصورتی اور جوانی کو ئی وقعت نہ رکھتی تھی ( لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ بے نیازی بھی اِس پیر کا ایک ہتھیا ر تھا پھا نسنے کے لیے ) بہر حال میں نے یقین دلا نے کی بہت کو شش کی لیکن پیر صاحب نے انکار کر دیا لیکن آخر میں یہ سوال کیا کہ تم اِس راستے کے لیے کیا کر سکتی ہو ں تو میں نے کہا کہ میں اِس کے لیے ایک لمحے میں اپنی جا ن دے سکتی ہو ں ۔ اپنا تن من قربان کر سکتی ہو ں میری اِس با ت پر پیر صاحب مسکرائے اور کہا ٹھیک ہے میں سوچوں گا کہ تم اِس قابل ہو کے نہیں پھر پیر صاحب نے ہمیں جا نے کو کہا تو میں نے پیر صاحب سے درخواست کی کہ مجھے آستانے پر آنے کی اجازت دی جا ئے تو پیر صاحب نے اجا زت دے دی اب میں نے خو شی سے سرشار نشے میں غرق واپس آئی کہ آخر کار میں اُس مرشد تک پہنچ گئی ہوں جس کی مُجھے سالوں سے تلاش تھی میرے جنوں تلاش ، اضطراب ، بے سکونی ، خالی پن اور بے قراری کو امید کی کرن نظر آرہی تھی ۔ اب میں نے پیر صاحب کے آستانے پر جا نا شروع کر دیا میں بار بار مریدی کا تقاضہ کر تی لیکن پیر صاحب میرا اشتیاق اور جنون بڑھانے کے لیے کہتے نہیں ابھی تم اِس قابل نہیں ہو ابھی تمہا را نام ہم نے آگے بھیجا ہوا ہے ابھی وہاں سے منظوری نہیں ہو رہی جب تم اِس قابل ہو گی تو منظوری آئے پھر تم کو شاگردی میں لیا جا ئے گا ۔ کیونکہ میں دیوانہ وار بار بار پیر صاحب کے آستانے پر جا رہی تھی میرے گھر والوں نے میری دیوانگی اور بار بار جا نے پر اعتراض بھی کیا لیکن میں نے کسی پا بندی یا روک ٹوک کو خا طر میں نہ لا ئی اور مسلسل جا تی رہی اِسی دوران پیر صاحب کے والد کا سالانہ عرس مبارک آگیا تو آنے والے مریدوں نے عرس مبارک کی تیا ری اور کا میاب انعقاد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا مریدوں نے عرس کے اخراجات کے لیے زیا دہ سے زیادہ پیسے دینے شروع کر دیے میرے پا س تو کچھ بھی نہیں تھا میں نے دوستوں سے ادھا راپنی ماں سے پیسے اور تھو ڑا بہت زیور تھا وہ بیچ کر پیر صاحب کو رقم پیش کی جب پیر صاحب نے میرے پیسے قبول کئے تو میں خو شی سے پھولے نہ سما رہی تھی کہ میں نے کو ئی ایسا کام کیا ہے جسکی وجہ سے پیر صاحب کی تو جہ حاصل کر پا ؤں گی میری اِس خدمت کے بدلے میں پیر صاحب اپنی مریدی میں لے کر اُس عظیم سفر کا راہی بنا دیں گے اور پھر عرس مبا رک کی روحانی تقریبات کا آغا ز ہو گیا عرس کے موقع پر ہر مرید دوسرے سے سبقت لے جا نے کی کو شش کر رہا تھا میں اپنے ماں اور بھا ئی کے ساتھ عرس کے وقت وہیں پر رہے اور جو ذمہ داریاں ہما رے ذمے لگا ئی گئی تھیں ہم نے جان توڑ محنت سے اُن کو احسن طریقے سے پورا کر نے کی کو شش کی عرس کے دوران پیر صاحب کی شان بہت نرالی تھی مریدوں کا پیر صاحب سے والہانہ عشق اور اندھی عقیدت واضح نظر آتی تھی اور میں دل ہی دل میں بہت خو ش تھی کہ جس تلاش میں تھی اُس تلاش کی منزل یہیں ملے گی ۔ عرس ختم ہو گیا تو میں نے پیر صاحب سے بہت گزارش کی کہ اب میرا سفر شروع کرائیں اب مُجھ سے صبر نہیں ہو تا برائے مہربانی فقیر ی ، درویشی ،عشق حقیقی قرب الہی کا سمندر جو آپ نے پی رکھا ہے پلیز ایک قطرہ مجھے بھی پلا دیں میں نے سن رکھا تھا کہ عشق حقیقی کا ایک قطرہ صدیوں کی پیاس کو بجھا نے کے لیے کا فی ہے اُس ایک قطرے کی تلاش میں میں دربدر بھٹک رہی تھی ہر در پر خا لی کشکول لے کر گئی تھی لیکن مجھے کہیں سے بھی خیر نہ پڑی تھی در در پر دھکے کھا نے کے بعد اِس در پر آئی تھی میرے بار بار اصرار کر نے پر پیر صاحب نے مجھے حکم دیا کہ فلاں دن تم اکیلی آؤ تا کہ تمھیں روحانیت اور عشق حقیقی کی پہلی سیڑھی دکھا ئی جا سکے ۔ میں یہ سن کر خو شی سے پا گل ہو گئی کہ میری تلاش کو اب منزل ملے گی میری جستجو کی تا ریک سیا ہ رات کو اب روشنی ملے گی اور پھر مقررہ دن پر میں پیرصاحب کے آستانے پر پہنچ گئی اور پھر جب سب لو گ چلے گئے تو پیر صاحب نے مجھے سامنے بٹھا یا اور کہا عشق ِ حقیقی سے پہلے تمھیں عشق مجا زی کا جام پینا ہو گا ۔ 

شکاری پیر

میں پچھلی دو دہا ئیوں سے ہزاروں لوگوں سے مل چکا ہوں بعض اوقات ایک دن میں سینکڑوں لوگوں سے ملا قات ہو تی ہے لیکن اِن ہزاروں لوگوں میں آج تک ایک بھی بندہ ایسا میری زندگی میں نہیں آیا جیسا میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا میرے سامنے ایک معصوم، سادہ اور شریف کم پڑھا لکھا دیہاتی شخص بیٹھا تھا وہ اپنا حیرت انگیز سوال کر نے کے بعد خا موش گہری اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا وہ اپنے چہرے اور آنکھوں میں امید کے دیپ جلا ئے میرے پاس اِس امید سے آیا تھا کہ میں شاید اُس کے عجیب و غریب سوال کا جواب دے سکوں ۔ مُجھ سے ملنے والے بہت سارے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو تی ہے کہ میں اﷲ کاایک نیک بندہ ہوں جبکہ حقیقت سے میں اچھی طرح واقف ہوں مجھے اپنی کو تا ہیوں حما قتوں غلطیوں ، بشری کمزوریوں اور گنا ہوں کا شدت سے احساس ہے مُجھ جیسے عاجز مشت غبار، گنا ہوں اور حما قتوں کی پوٹلی کو لوگ نیک سمجھ کر آتے ہیں اور بعض اوقات روحانیت اور تصوف کے مشکل اور دقیق سوال اِس بھروسے کے ساتھ کرتے ہیں کہ میں سیر حاصل جواب دوں گا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میں تو پہلے دن سے آج تک ایک طالب علم اور اولیا ء اﷲ کی جو تیاں اٹھانے والا ہی ہوں اور اُس شاہراہ پر کھڑا ہو نے کی کو شش کر رہا ہوں جو قرب الہی اور عشق حقیقی کی طرف جا تی ہے پتہ نہیں اِس کا ئنات کے اکلوتے مالک و خا لق ربِ بے نیاز اﷲ الصمد کی نظر کب اِس سوالی پر پڑ جا ئے کب اِس کشکول کا دامن اُس کی نظر سے بھر جا ئے کا ش ایسا ہو جا ئے کا ش ایسا ہو جا ئے ۔ میں تو پتہ نہیں کتنے سالوں سے دامن مراد پھیلا ئے کشکول بنا دربدر بھٹک رہا ہوں، پتہ نہیں کب مجھ جیسے کھو ٹے سکے کے بھا گ جا گ جا ئیں پتہ نہیں کب اِس خو شہ چین کا کشکول بھی بھر جا ئے پتہ نہیں کب ۔۔۔باقی بہت سارے لوگوں کی طرح یہ دیہاتی بھی اِسی امید پر میرے پاس آیا تھا اور آکر عجیب و غریب سوال داغ دیا تھا کہ دیکھیں مجھے جنت مل چکی ہے جنت میرے مقدر میں لکھی جا چکی ہے ۔میں حیرت سے اُس کا معصوم بھولا چہرہ دیکھ رہا تھا کہ پتہ نہیں اِس نے کو نسی عظیم نیکی کی ہے کہ جس کی بنا پر یہ شخص اِس خوش فہمی میں مبتلا ہو کر میرے پاس آیا کہ دیکھیں واقعی ہی میں جنتی ہو چکا ہوں اور میں اپنی اوقات دیکھ رہا تھا کہ مجھ گنا ہ گار کے پاس تو ایسی کو ئی نظر یا پیما نہ نہیں تھا جس کی بنا پر میں بتا سکوں کہ واقعی وہ جنتی ہو چکا ہے کہ نہیں ۔ اُس کے سوال اور اعتما د سے میری تجسس کی تما م حِسّیات پو ری طرح بیدار ہو چکی تھیں ۔ میں اُس راز کو جا ننا چاہتا تھا جس کی بنا پر یہ شخص اپنے جنتی ہو نے کا دعوی کر رہا تھا ۔ میں دنیا و مافیا سے بے خبر ہو کرمتجسس نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا میری کھو جی نظریں اُس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں میں حقیقت جا ننے کے لیے مضطرب اور بے چین ہو چکا تھا ۔ جہنم سے آزادی اور جنت کا حصول کر ہ ارض پر بسنے والے تمام مسلمانوں کی اولین اور آخری خوا ہش ہو تی ہے اِس لیے تمام مسلمان ساری عمر تن من کی با زی لگا تے ہیں ساری عمر کی عبا دات کڑے مجاہدے صدقہ خیرات کے بعد بھی کسی مسلمان کو کو ئی گا رنٹی نہیں ہو تی کہ اُس کی عبا دتوں کا ثمر ملے گا یا نہیں ۔ کیونکہ یہ سچ ہے کہ لمبی چوڑی عبا دات مجا ہدوں ، رت جگوں اور صدقہ خیرات کے بعد بھی جنت کا حصول اُس ما لک بے نیاز کے کرم اور فضل سے ہی ممکن ہے ۔ اُس اول و آخر رحمن رحیم کے پیمانہ رحمت کے چھلکنے سے ہی معافی کا پروانہ مل سکتا ہے ۔ ہما ری ساری عمر کی عبادتیں اُس کے ایک کرم کے بدلے میں ختم ہو جائیں گی ۔ چھٹکا رہ اور جنت تو صرف اُس کے کرم سے ہی ممکن ہے جبکہ یہ شخص کتنے وثوق اور اعتماد سے کہہ رہا تھا کہ اُس نے کو ئی ایسا عمل کیا ہے کہ وہ دنیا میں ہی جنتی ہو گیا ہے اب میرے صبر اور تجسس کا پیما نہ چھلکنے لگا تھا ۔ اب مزید انتظار مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ میں نے شفقت بھری نظروں سے اپنے سامنے بیٹھے ہو ئے دیہا تی کو دیکھا اور کہا جناب آپ پہلے یہ بتا ئیں کہ آپ نے ایسا کو نسا اچھا عمل یا مذہبی فریضہ ادا کیا ہے کہ آپ کو دنیا میں ہی جنتی ہو نے کا پروانہ مل گیا ہے تا کہ مجھ جیسے گنا ہ گا ر بھی اُس عبا دت کے ذریعے یہ عظیم نعمت اور سعادت حاصل کر سکیں تو اُس معصوم سادہ دیہا تی نے جو داستان سنا ئی جس میں ایک پیر نے بلکہ ڈاکو پیر نے اِس معصوم دیہا تی کو لوٹا اور بے وقوف بنا یا اُس کی داستان اُسی کی زبانی محترم قارئین کی نظر ہے ۔ سر مجھے بچپن سے ہی روحانیت تصوف اور اولیا ء اﷲ کی لا ئن پر چلنے کا شوق تھا ہما رے گھر کا ماحول بھی اولیا ء اﷲ سے محبت پر مبنی تھا گھر کا ما حول اور فطری رحجان مجھے اس طرف لے گیا راہ حق قرب الٰہی اور عشق الٰہی کے لیے میں پا کستان کے دور دراز کے سچے جھوٹے پیروں کے در پر گیا اِس سلسلے میں میں نے نہ کو ئی آستانہ چھوڑا اور نہ ہی کو ئی مزار جہاں پتہ چلتا وہاں روحا نیت اور قرب الہی کے مو تی سمیٹنے چلا جا تا ۔ لیکن وقت اور پیسہ برباد کر نے کے بعد جلد ہی مجھے احساس ہو جا تا کہ جس نور حق کی تلاش میں میں بچپن سے ما را مارا پھر رہا ہوں وہ یہا ں نہیں ہے ہر جگہ پر جھو ٹ فراڈ اور عزتیں نیلام ہو تیں دیکھتا تو وہ چوکھٹ چھوڑ کر اگلی منزل کی تلاش میں چل پڑتاوقت کی کروٹیں اور گردش لیل و نہا ر میرے ارادے اور جنوں کو کم نہ کر سکیں ہر گزرتے دن نا کامی اور فراڈ کے بعد میرے جنوں اور پیاس میں اور بھی اضا فہ ہو جا تا اور آگے چل پڑتا اِس تلاش میں میں نے جگہ جگہ شکا ری پیروں کو دیکھا جو اپنے اپنے پھندے لگا کر معصوم لوگوں کو پھانس رہے ہیں اِن شکا ری جا لوں میں معصوم مرید سالوں سے پھنسے ہو ئے کسی کرامت کے انتظا ر میں اپنا وقت اور پیسہ برباد کر رہے ہیں میں بھی ایسے شکا ری پیروں کے پھندوں میں پھنسا ہوا ایک سے دوسرے در ٹھوکریں کھا تا ہوا ایک ایسے پیر صاحب کے پاس پہنچا جنہوں نے اپنے اوپر بے نیازی کا لبا دہ اوڑھا ہو اتھا ۔ یہ مجھے بہت سمجھ دار لگے میں روحا نی پیاس اور تصوف کے اسرار و رموز جا ننے کے لیے اِن کے سامنے سوالی بن گیا ۔ اس پیر صاحب نے مجھے ہاتھوں ہا تھ لیا جعلی پیروں کے بارے میں بہت بولا کہ آستانوں اور گدیوں پر جعلی پیروں کا قبضہ ہے اِس پیرصاحب نے باتوں باتوں میں مجھے اپنے شیشے میں اتار لیا یہ ایک سمجھ دا ر اور باتونی پیر تھا اِس کو انسانی نفسیات سے کھیلنے کا پورا آرٹ آتا تھا اِس نے مجھے بتا یا کہ ہما رے خاندان کے پاس اِیسی عظیم مقدس چیز ہے جو نسل در نسل صرف ہما رے پا س ہی آرہی ہے اس کی زیا رت سالوں کی عبادت سے افضل ہے اُس کی زیا رت سے روحانیت اور تصوف کے وہ تمام راز کھل جا تے ہیں جن کی راہ حق کے مسافروں کو تلاش ہو تی ہیں پیر صاحب نے میری آتش شوق کو بھڑکا دیا میں پیر صاحب کی غلامی اور مریدی میں آگیا اب پیر صاحب نے حکم کیا کہ اُن کے والد صاحب کے مزار کوبنا نا ہے اب میں نے پیر صاحب کی خوشنودی کے لیے اپنی زمین جا ئیداد بیچنی شروع کر دی اور سارا روپیہ پیر صاحب کے والد کے مزار پر لگا نا شروع کر دیا ۔ میں جو ش و خروش سے اپنی زندگی کی جمع پو نجی اُس مزار پر لگا رہا تھا اِس امید پر کہ میں اُن خو ش قسمت انسانوں میں شامل ہو جا ؤں گا جن کا دامن قرب الٰہی کی روشنی سے بھرا ہوتا ہے پیر صاحب میرے اشتیاق اور شوق کو اور بڑھاتے کہ یہ عظیم خو شی بختی صرف تمہارے ہی مقدر میں آنے والی ہے تم بہت خوش نصیب ہو جو یہ سعادت اور نور حاصل کر و گے ۔ میں دنیا و ما فیا سے بے خبر اپنی ساری دولت پیر صاحب کے مزار پر لٹا تا رہا اور پھر لاکھوں روپے دن رات کا وقت اور زندگی کے بہت سارے قیمتی لمحات گزارنے کے بعد پیر صاحب کے والد کا مزار مکمل ہو گیا اب میں نے تقاضہ کیا کہ مجھے اُس مقدس چیز کی زیارت کرا ئی جا ئے پہلے تو کافی دن پیر صاحب مجھے ٹر خاتے رہے اور پیسے لوٹتے رہے اور پھر ایک دن مجھے خا ص کمرے میں لے جا کر قیمتی صندوق کھو ل کر ایک سنہری سکہ دکھا یا اور کہا کہ یہ خلفائے راشدین کے دور کا ہے اِس سکے کی یہ کرامت اور خو بی ہے کہ جو بھی اِس کو دیکھ لے اُس کے من کا اندھیرا دور اور جنت اُس پر واجب ہو جا تی ہے یہ با ت میں نے کئی علما ئے دین سے پو چھی لیکن انہوں نے اِس با ت سے انکار کیا تو اب میں تصدیق کے لیے آپ کے پاس آیا ہو ں ۔میں حیرت اور دکھ سے شریف بندے کو دیکھ رہا تھا جس کو شکا ری پیر نے چالا کی سے لوٹ لیا تھا ۔

loading...