ایک بستی کشمیر کی بستی ہے جس کے ہر ایک فر د کا تعلق حسینی قافلہ سے ہے ، اس قافلہ سے حق کا فیض قیامت تک جاری رہے گا ، آزادی حق کاسورج طلوع ہو کے رہے گا مگرابھی کچھ ذمہ داریوں کا بوجھ باقی ہے ،احساس کی شدت کا بیدار ہونا بھی کہیں راستے ہی میں رہ گیا ہے ،منیر نیازی یاد آئے
اس نگر میں اک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی
افغانوں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے اہل کشمیر نے پنڈت بیر بل کو کسی نجات دہندہ کی تلاش میں والی پنجاب رنجیت سنگھ کے پاس بھیجا ۔ بیربل کے تحریک پر رنجیت سنگھ کشمیر پرحملہ آور ہونے کے لیے آمادہ ہوگیا ، اسے پہلے دوحملوں میں کشمیر پر قبضہ کر نے کا موقع نہ مل سکا مگر 1819ء میں رنجیت سنگھ کشمیر پر قابض ہو نے میں کامیاب ہو گیا ، اس کی وفات کے بعد سکھ سرداروں نے اس کی بیوہ رانی جنداں کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ، رانی نے اپنے سات سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کے سر پر بادشاہت کا تاج سجایااور حکومت کا نظام خو دسنبھال لیا تا ہم خانہ جنگی عروج پر رہی ، سکھ فوج کے وفادار رانی اور وزیرکے خلاف بغاوت کے منصوبے ترتیب دینے میں مصروف ہوگئے جب رانی کو علم ہو ا تو اس نے اپنی فوج کے جرنیلوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اب سکھ فوجیں ستلج کے پار انگریز ی علاقوں پر چڑھائی کر نے میں مصروف تھی کہ 24دسمبر 1845ء جنگ چھڑگئی ۔ اس ناز ک صورت حال میں رانی نے والئی جموں گلاب سنگھ کو مدد کے لیے لاہور بلا لیا، گلاب سنگھ نے جرنیلوں کو فوری طورپر جنگ بندی کا حکم دیا مگر خون ریز معرکہ ہو کے رہا ۔ جس میں سکھ افواج کو شکست ہوئی ۔
16مارچ 1846ء کوایسٹ انڈیا کمپنی ( انگریزوں ) اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین دس دفعات پر مشتمل ایک معاہدہ طے پایا ، جس کی رو سے دریائے روای سے لے کر دریائے سند ھ کے مابین چمبہ اور ہزارہ کا علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا گیا جس کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کو 75لاکھ نانک شاہی سکے تاوان جنگ کے طور پر ادا کرنے تھے ۔ گلاب سنگھ جانتا تھا کہ رانی اور اس کی سکھ برادری تاوان کی یہ رقم ادا کر نے سے قاصر ہے چنانچہ اس نے انگریزوں کو یہ رقم اپنی طر ف سے ادا کر نے کی آفر کی جس کو انگریزوں نے شرف قبولیت بخشا اور کشمیر کی حکمرانی گلاب سنگھ کے سپرد کر دی ، کشمیر اس کے حوالے تھا مگر ضرورت پڑنے پر وہ انگریزوں سے مدد طلب کر سکتا تھا ، یہی لمحات کشمیر کے لیے بد قسمت ٹھہرے جنہیں ’’معاہدہ امرت سر‘‘کے نام سے یاد کیا جا تا ہے ۔
کشمیری آزادی کشمیر کی تاریخ اپنے لہو سے رقم کر رہے ہیں ، برھان وانی کی شہادت کے بعد اب تحریک نوجوان طبقہ کے ہاتھ میں ہے ، آئے روز تحریک آزادی زور پکڑتی جا رہی ہے ۔ پچھلے ایک ہفتہ سے بھارتی فوج کی طرف سے ضلع شوپیاں کے علاقوں درا گد اور کچدورا کو محاصرے میں لیکر گھر گھر جعلی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ، اس موقع پر اہل علاقہ کی طر ف سے شدید قسم کی مزاحمت کا مظاہر ہ کیا گیا ۔ قابض بھارتی افواج نے اندھادھند فائرنگ شروع کر دی جس سے دونوں اضلاع میں ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے اور آزادی کی اس تازہ لہر میں بیس نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا ، مزید ستم یہ کہ بھارتی افواج نے زخمیوں کو ہسپتالوں تک لے جانے والی ایمبولینس گاڑیوں کی نقل وحرکت پر بھی پابندی لگا رکھی ہے اس کے علاوہ شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کو بھی حالات کا درست رخ قلم بند کر نے سے منع کیا جا تا ہے ،ظلم وجبر کی یہ لہر دنیا کے کسی بھی خطہ میں شاذ ہی نظر آئے گی ۔
1948ء میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان (UNCIP)نے مسئلہ کشمیر کے متحارب فریقین سے بات چیت کے بعد کشمیر میں برپاء جنگ بند کر نے کی تجویز پیش کی تھی جس میں طے پایا تھا کہ فی الفور جنگ بند کی جا ئے گی اور جنگ بند ی کی نگرانی کے لیے لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کی طر ف سے فوجی مبصر تعینات کیے جا ئیں گے اس کے بعد کشمیریوں سے ان کی خواہشات کے مطابق مستقبل کے فیصلے کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔سترسال گزرنے کے باوجود بھارتی افواج کا ظلم وستم تھم نہیں سکا ، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ہونے کا انتظار شدت سے کیا جا رہا ہے ،کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کا یہ بیان کہ کشمیر کا حل سیاسی ہے یافوجی، ہم ابھی تک طے نہیں کر سکے ۔ یہ بیان ایک درد ناک حقیقت کی طر ف اشارہ کر تا ہے ، کشمیر کمیٹی اور باقی متعلقہ لوگو ں کے لیے سوچنے سمجھنے کا وقت ہے ، پچھلے دنوں پاکستانی سفارت خانے کے عملہ کو ہراساں کیا جا نا اور مبصرمشن کے اراکین کے سامنے لائن آف کنٹرول کے ارد گرد کے علاقوں میں بھارتی افواج کی بلااشتعال فائرنگ کو جس شدت سے عالمی دنیا اور اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانا چاہیے تھا ایسا نہیں ہوسکا ،مقبوضہ علاقے میں مبصر مشن کو حالات کا جائز ہ لینے کی اجازت نہیں، اس کو بھی عالمی دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے ۔ کچھ نیا کرنا اگر ممکن نہیں تو پرانے طے شدہ معاملات یعنی اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر فی الفور عمل درآمد پر تو زور دیا جاسکتا ہے ،متعلقہ لوگوں کی اب تک کی کارکردگی تو دل لہو لہو کر رہی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں