پیر، 2 اپریل، 2018

خط ہی کیوں لکھے جائیں

خط ہی کیوں لکھے جائیںانتظار ایک شاندار چیز بھی ہے اور جاندار پہلوزندگانی بھی ، یہ انسانی زندگانی کی بہتی ندی کے ساتھ ساتھ تیرتا چلا جا تا ہے بعض اوقات انسان کو اس کیفیت ہی کی جانکاری نہیں ہو پاتی مگرحقیقت میں وہ اسی نایاب کیفیت کا اسیر نظر آتا ہے ، یہ جذبات کے مختلف پہلوئوں کا بنیادی جز ہے جس کی موجودگی جذبا ت کی کہانی کو چار چاند لگا دیتی ہے،جیسے رات روشنی کے انتظار میں تڑپتی رہتی ہے اور ہجر کی گھڑیوں کوہر لمحہ وصل کا انتظار رہتا ہے ، یہی کہانی خطوط کے آپس میں تبادلے کی ہے، بقول عباس تابش 
جب بھی انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں 
گلی کے لوگ ، میر ے دل پہ چلنے لگتے ہیں 
اظہار جذبات کے کئی انداز ہیں کوئی مخالف سمت کے روبرو ہو کر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کر تا ہے تو کوئی ٹیکنالوجی کی مدد سے چلنے والے آلات کا سہارا لے کر دلی کیفیات بیان کر تا ہے ، کوئی تھرڈ پرسن کی مدد لیتا ہے تو کوئی قلم وکاغذ یعنی خطوط لکھ کر معاملات زندگی سے آگاہ کر تا ہے اگر کوئی عزیز منزل مقصود پر خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہو تو طویل تر مسافت کی تھکاوٹ ختم ہوجا تی ہے بالکل ایسے ہی خطوط کی دنیا استوار ہے کہ جذبات کی گرم جوشی میں مز ید اضافہ ہوجا تا ہے اگر کسی عزیز کے خط آنے کا انتظار درپیش ہو ۔ 
دنیا کے مختلف کونوں اور حصوں کو جوڑنے میں خطوط کلچر کا اہم کر دار رہا ہے ، برسوں خطوط کے ذریعہ کو ابلاغ کے دوسرے ذرائع پر فوقیت حاصل رہی ہے ، خطوط لکھنا ، اس کی نہایت خلوص سے پڑتال کرنااور پھر پوری دلجمی سے اس کا جواب روانہ کر نا ہماری روایات و ثقافت کا لازمی پہلو رہا ہے، جذبات کی گٹھڑی کو ایک لفافے میں بند کرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسا دریا کو کوزے میں بند کر نا ، خطوط روانہ کر نا اور پھر ان کے جواب موصول ہونے کا عمل دونوں طرف آگ کے برابر لگنے کی طر ف واضح اشارہ تھا ، گڑیا کا سلام سب سے پہلے لکھا جا تا ، پھرمنے کی شرارتوں پر عمیق نگاہ دوڑائی جا تی پھر چپکے سے بڑوں کی کبھی کبھار پڑنے والی ڈانٹ ڈپٹ کی طرف اشارہ کے ماحول کی رونق کو گرما دیا جا تا ، خط وصول کر نے والاشاعر کی طرح خط کے لوازمات سے اتنا آگاہ نہ ہوتا ’’میں جانتا ہوں کہ وہ کیا لکھیں گے جواب میں ‘‘ ۔
پاکستان پوسٹ کو برصغیر کے ان پرانے محکمہ جا ت میں شمار کیا جا تا ہے جو قیام پاکستا ن سے پہلے ہی اپنے فرائض ’پوسٹ اور ٹیلی گراف ‘کے نام سے سرانجام دے رہا تھا تاہم 1962؁ء میں اس کو ٹیلی گراف اور ٹیلی فون سے علیٰحدہ کر کے الگ محکمہ بنا دیا گیا ، پاکستا ن پوسٹ (محکمہ ڈاک) سے متعلقہ جو ذمہ داریا ں ہیں وہ ملک کے کونے کونے میں سرانجام دینے کے لیے اس کے دفاتر موجود ہیں ، پاکستانی پوسٹ بیس لاکھ گھرانوں اور بزنس سے وا بستہ لوگوں کو آپس میں جوڑنے کا اہم ذریعہ ہے اس کے علاوہ پاکستان پوسٹ وفاقی اور صوبائی سطح کی حکومتوں کے درمیان لائف انشورنس ، ٹیکسوں کو اکٹھا کرنا ،بجلی پانی ٹیلی فون کے بلوں کی وصولی اور ان کے درمیان رابطے و ہم آہنگی کا ذریعہ ہے ، ساتھ ہی پاکستان پوسٹ یونیورسل پوسٹل یونین کا بھی حصہ ہے جو پور ی دنیا میں بروقت رقوم کے تبادلے کا موثر ذریعہ کا گردانہ جا تا ہے ۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں وزارت موصولات اور بیوروکریسی نے پاکستان پوسٹ پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے محکمہ ڈاک کا خسارہ دس ارب روپے سے زیادہ ہوچکا ہے،اب موجودہ حالات میں محکمہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر نے سے قاصر ہے ،وزیرا عظم نے تین سال قبل اصلاحاتی منصوبے کی منظوری دی تھی جس میں پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ڈاکخانہ جا ت کی ری برانڈنگ ، موبائل منی آرڈر پروگرام اور لاجسٹک کمپنی کا قیام شامل ہے مذکورہ تینوں پروگرامز کے لیے نجی شعبہ کو دعوت دی گئی ہے تا ہم ابھی تک کوئی معاہد ہ ہو سکانہ محکمہ کے لیے بہتری کا کوئی سامان ۔ 
محکمہ ڈاک ہماری روایات اور ثقافت کا آئینہ دار رہا ہے ، اس کا شمار ان محکموں میں کیا جا تا ہے جن پر آج بھی عوام کا اعتماد قائم ہے ،دور دراز کے علاقوں تک ڈاک اور ڈاکیے کی سہولت موجود ہوتی ہے ان میںگلگت بلتستان اور کشمیر کے وہ پہاڑی علاقے بھی شامل ہیں جن میں آ ج بھی موبائل سروس کی دستیابی مشکل کا م ہے ، خط کو’’ آدھی ملاقات‘‘ کہا جاتا ہے ملاقات کی اس سہولت کو ہر سطح پر بحال رہنا چاہیے ، پہلے ہی خطوط کلچر ختم ہونے کے قریب ہے اور اب تو محکمہ ڈاک ایک اور حکومتی محکمہ یعنی ریڈیو پاکستان کی طرح آخری سانسیں لینے پر مجبور ہے ۔ بقول جان ایلیا 
تم نے مجھ کو لکھا ہے 
میرے خط جلا دی جیئے 
مجھ کو فکر رہتی ہے 
آپ انہیں گنوادی جیئے
جرم کے تصور میں ، گریہ خط لکھے تم نے 
پھر تو میری رائے میں ، جرم ہی کیے تم نے 
جرم کیوں کیے جا ئیں 
خط ہی کیوں لکھے جائیں ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

loading...