حد سے ذیادہ کوشش وسعی کے بعد بھی وہ لفظ ڈھونڈنے میں کامیابی میرا مقدر نہ ٹھہری جن میں معصوم کلی زینب اور اس کے والدین کا دکھ و کرب اپنی قلم کی نوک پر لانے میں میرا ضمیر مطمئن ہو جاتا مگر پھر بھی کچھ لفظ لکھ رہا ہوں حقیقی دکھ اسے ہی ہوتا ہے جس کا جگر کا ٹکڑا جدا ہوتا ہے جس ماں کی مامتا کو اُجاڑ دیا گیا ہو آج اپنا کلیجہ کاٹ کر خون کو سیاہی میں تبدیل کرکے میں اپنے مادروطن جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہ نام امن وسلامتی،تمام معاشرے کے افراد کو بلاامتیاز یکساں سلوک کی فراہمی اور انصاف کا پیامبر اور تحفظ کا بین الاقوامی دنیاکا معروف نام ہے میں مائوں کی گودیں اجاڑی جا چکی ہیں خود اس کے مکین آج انصاف کے حصول کیلئے سڑکوں پر ماریں اور گولیاں کھا کر اس عظیم نام پر اپنی خون کے چھینٹے ڈال کر ہمیشہ کیلئے امر ہو رہے ہیں ذیادہ لمبی تمہید باندھے بنا آگے بڑھتا ہوں مختلف اخبارات اور نیوز چینلز نے تمام تر تفصیلات سے پوری دنیا کو آگاہ کردیا ہے مگر یہاں پر ایک اہم سوال تشنہ لب ہے کہ ہم نے بحثیت قوم اپنے ملک کو کیا دیا ہے آج جو انتہائی قبیح اور گھنائونے واقعات وقوع پذیر ہورہے ہیں جن کی مذمت لکھنے کیلئے بھی قلم کو لفظ ڈھونڈتے ہوئے شرم آرہی ہے مگر ذمہ داروں کو شاید نہیں آرہی یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ یہ واقعات سامنے آتے رہے ہیں مگر ان کی روک تھام کیلئے کوئی موثر کام سرے سے ہی نہیں کیا گیا زبانی جمع خرچ اس پر بے تحاشا کیا گیا میں یہاں پر پولیس آفیسر کم اور ایک سیاستدان ذیادہ بننے والے پولیس افسر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اس کا نام لکھتے ہوئے لفظوں کو بھی شرم آرہی ہے جس نے ان کیسز میں مطلوبہ افراد کو پکڑنے میں کوئی سرعت نہیں دکھائی بلکہ غیر مطلوبہ افراد کو ٹپکا کر اپنے نمبر بڑھانے میں کامیابی حاصل کی اگر زرا بھر بھی کارکردگی دکھائی ہوتی تو ان وقعات کا تسلسل یقینی طور پر ٹوٹ جاتا افسوس صد افسوس ایسا نہیں ہوا جس کا نتیجہ آج معصوم پری زینب کی لاش کی صورت میں ہمیں ملا ۔
میڈیاء کی جانب سے بھی جس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا وہ بھی شدید تر شرمندگی کا باعث ہے زرا سے دنیاوی مفاد ہمارے ضمیروں کا تالے لگا دیتا ہے اور ہم سیاہ کو سفید لکھنے پر تیار ہو جاتے ہیں آج ان کو بھی شاید حالات کے ساتھ بولنے کا موقع مل گیا ہے یا پھر یہ قوم اپنے حادثاتی لیڈروں سے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا سیکھ چکی ہے کچھ لوگ تھے جنہوں نے آواز بلند کی مگر اکثریت نے ایک کپ چائے اور چند ٹکوں کے عوض اس معاملے کو پس پشت ڈال دیا مجھے دوستوں نے اس واقعے کے بعد مسلسل کالز کرکے اتنے کچوکے لگائے کہ میری ہمت جواب دے گئی کہ میرے ضلع قصور کا نام بجائے روشن ہونے کے سیاہ ہو رہا ہے پہلے ایک انتہائی شرمناک واقع اس کا انجام صفر پھر یہ واقعات ایک تسلسل کیا جواب دیتا میں ان کو کہ میرے ضلع کے ذمہ داران بہت اچھے ہیں لیڈران بہت اچھے ہیں اس لیے یہ گھنائونے واقعات ہو رہے ہیں ۔
خیر معصوم کا جسد خاکی ایک کوڑے کے ڈھیر سے مل گیا کتنی تکلیف ہوئی ہو گی والدین کو اس ماں کو جس کے بارے میں مالک کائنات خود کہتا ہے اے بنی آدم تم اپنی ماں کی ایک رات کو حساب نہیں دے سکتے جب وہ انتہائی تکلیف سے گزر کر تم کو جنم دیتی ہے نو ماہ تک تمہارا وزن اُٹھاتی ہے یہ سب باتیں الہامی کتاب میں موجود ہیں آج مجھے لکھتے ہوئے کچھ شرم نہیں آرہی ہے کیونکہ ایسے قبیح فعل انسا ن سرانجام دے رہے ہیں جن کو مالک کائنات نے اشرف المخلوقات بنایا ہے مگر ان کے کام درندوں سے بھی ذیادہ بدتر ہیں اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے احسن طریقے سے عہدہ برآہ ہونے سے ہماری قصور کی ضلعی انتظامیہ نے کوئی انتظام نہیں کیا مکمل طور پر لاپرواہی و غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا گیا آج اگر منتخب عوامی نمائندوں کی املاک کو مشتعل ہجوم نذر آتش کر رہا ہے تو بقول چھوٹے میاںجی کے کہ اشرافیہ ملکی وسائل پر ڈاکے مار رہی ہے خونی انقلاب آئے گا اگر باز نہ آئی تو حضور یہ اس کی ایک جھلک ہے چاہیے تو یہ تھا کہ لاش ملنے کے فوری بعد منتخب عوامی نمائندے اور ضلعی افسران فوری طور پر ورثاء کے گھر جاتے اور ہر قسم کے تعاون کا یقین دلاتے خاص کر منتخب عوامی نمائندے جو اسی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں ان کی بہت ذیادہ ذمہ داری تھی مگر افسوس ایسا کچھ نہیں کیا گیا افسران کو کیا لگے آج ادھر ہیں کل کو دوسری جگہ پر چلے جائیں گے عوامی نمائندگی کے نام و نہاد دعویداروں کو تو کچھ شرم و حیا ہونی چاہیے تھی مگر وہ شرم حیا آئے گی کہاں سے یہ سوال بھی تشنہ لب ہے واقعات کا تسلسل پھر بھی مجال کہ کسی نے ان انتظامی افسران کو پوچھا ہو جناب آپ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتے ہیں کیا کارکردگی ہے آپ کی لیکن وہ بھی نہیں پوچھ سکتے ہیں خود عوامی پیسے کو اپنے باپ کی کمائی سمھج کر ہضم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں زمینوں پر قبضے کرنے مخالفین کو چت کرنے اور جھوٹے مقدمات درج کروا کر کمائی کرنی جو ہوتی ہے ان انتظامی افسران کو کیسے پوچھنے کی ہمت کرسکتے ہیں ان کا ضمیر کیسے ذندہ ہو سکتا ہے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او دونوں کو چاہیے تھا کہ جب احتجاج کا اعلان معاشرے کے ذمہ داران کی جانب سے کیا گیا تھا فوری طور پر انجمن تاجران ،سول سوسائٹی ،امن کمیٹی علماء ،خفیہ ا یجنسیوں کے ذمہ داران اور عوامی نمائندوں کا مشترکہ یا الگ الگ اجلاس بلا کر مشاورت کی جاتی اور معاملات کو احسن طریقے سے حل کیا جا تا ہے افسوس صد افسوس ایسا کچھ نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ توڑ پھوڑ اور انتہائی غیر ذمہ داری سے کی گئی فائرنگ دو شہریوں کی ہلاکت کی صورت میں نکلا ، تمام ذمہ داران نے اس واقعے سے اس طرح آنکھیں بند کیں جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر بند کرتا ہے یہ غیر ذمہ داری کی انتہا ء تھی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔
آخری الفاظ یہ ہیں کہ ہم نے فحاشی و عریانی کو خود فروغ دیا ہے آج ہمارے بچے گھر سے سج سنور کا باہر نکلتے ہیں کالجز ،سکولز اور محلے کی گلیوں کی ناکہ بندی کرکے کھڑے ہوتے ہیں ہم پوچھنا گوارا نہیں کرتے ہیں جنسی ہوس نے ہمارے معاشرے کو تباہ برباد کرکے رکھ دیا ہے تفریح کے نام پر جو بے غیرتی و بے حیائی خود حکومتی سطح پر پھیلائی گئی ہے یہ اب اس کا نتیجہ ہے ہم سب برابر کے ذمہ دار ہیں اس بگاڑ میں اس کی اصلاح بھی ہمیں خود ہی مل جل کر کرنی ہوگی ان افسوس ناک واقعات پر پرامن احتجا ج ہر کسی کا حق ہے مگر املاک کو جلانا بہت بری بات ہے اس کام سے ہمیں بچنا ہو گا پہلے ہی ملکی صورتحال ہر لحاظ سے نازک ہے اوپر سے یہ مجرمانہ غفلتیں جلتی پر تیل چھڑک رہی ہیں اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ خواب غفلت سے جاگ جائے ورنہ پھر ریاست کے ذمہ داران کے گھر یونہی جلتے رہیں گے جیسے مائوں کی گودیں اجڑتی رہیں گی آج ریاست کے ذمہ داران اس تمام تر صورتحال کے مکمل ذمہ دار ہیں ان کی مفاد پرستی اور اناء پرستی کے باعث والدین بچوں کو ذندہ درگور کرنے پر مجبور ہیں اس ملک کو اپنے نام کی طرح اصل نظام کی طرف واپس لوٹانا پڑے گے تاکہ یہ نام جسے دنیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانتی ہو دوبارہ امن کا گہوارہ ہو جہاں کوئی زینب اور دوسری بچیاں یوں درندگی کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی کسی ماں کی گود یوں اجڑے والدین روٹی نہ ہونے پر بچوں کو نہروں میں نہ پھینکیں اور نہ ہی خود اپنے ہاتھوں سے گلے کاٹنے پر مجبور ہوکر جہنم کا ایندھن بنیں یہ یاد رکھیں حاکم وقت اس بات کا حساب دینا ہو گا بچ نہیں سکیں گے یہ مال و دولت تو سکندر کے بھی کام نہیں آیا تھا ۔
ایڈیٹر روز نامہ جسٹس پاور لاہور
03057728103 فون نمبر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں