جمعرات، 15 مارچ، 2018

عظیم انسان دوست شخصیت ڈاکٹر محمد اسلم کو والدہ محترمہ کا صدمہ

عظیم انسان دوست شخصیت ڈاکٹر محمد اسلم کو والدہ محترمہ کا صدمہ الراقم کے گھر سے تین گھر چھوڑ کر پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر و اسلام آباد گروپ آف کمپنیز کے مینجنگ ڈائریکرڈاکٹر محمد اسلم کا آبائی گھر ہے ،ڈاکٹر محمد اسلم شروع سے مختلف طبیعت کے مالک تھے ،انتہائی ذہین ،فطین ،پر خلوص ،بڑوںکا ادب کرنے والے ،ان کا عزم شروع سے ہی کچھ کر گذرنے کا تھا،کھیل کو دیا ایسے گھومنے پھرنے کی بجائے ان کا مشغلہ صرف تعلیم میں محنت کرنا تھا ،جس میں وہ والدین کی دعائوں سے کامیاب ترین اور اس وقت پاکستان کی اہم ترین شخصیت بن چکے ہیں،والدین اور دو بہنوں کے اکلوتے تھے بھائی محمد اسلم مقامی سکول میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کے بعد اوکاڑہ چلے گئے،انہیں ڈاکٹڑ بننے کا جنون تھا ایف ایس سی کے ساتھ انہیں ایم بی بی ایس میں داخلہ نہ ملا تو گھوڑا کالج لاہور میں ڈی وی ایم کرنے لگ گئے،دوسری جانب ان کے والد محترم محمد یوسف بھی کم گو اور ہر ایک کے دکھ سکھ میں میں شریک ہونے والے شخص تھے،ان کی والدہ محترمہ جس کا محلے کے ہر گھر میں آنا جانا تھا بچوں سے پیار کرنا ان خاصہ تھا،مجھے یاد ہے کہ ان کے گھر جامن کا ایک درخت تھا ہم سکول سے واپس آکر اس درخت کی جانب رخ کر لیتے ،محمد یوسف صاحب مرحوم گھر نہ ہوتے تو محمد اسلم کی شفیق والدہ ہمیں خود کہتیں کہ بیٹا اندر آکر جامن اتار لو،پڑوسی ہونے پر وہ مجھ سے بہت محبت کرتیں،کوئی بھی چھوٹاموٹا کام ہوتا مجھے کہتیں بیٹا یہ تو کرنا،محمد اسلم کو ڈی وی ایم کرنے کے بعد خوش قسمتی سے راولپنڈی میں ایم بی بی ایس میں داخلہ مل گیا ڈاکٹر محمد اسلم کا راولپنڈی جانا ہی نہ صرف ان کی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلی بلکہ علاقہ کی بھی خوش قسمتی کہ وہ ان کے لئے مسیحا بن گئے اس وقت ڈاکٹر محمد اسلم کواوکاڑہ کے تاریخی قصبہ صدر گوگیرہ کیا مکمل طور پر مسیحا مانا جاتا ہے،ہم بھی بڑے ہوتے گئے مصروفیت بڑھتی چلی گئی مگر ان کی والدہ محترمہ جہاں بھی ملیں کچھ فرق محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس وقت ایک بین الاقوامی شخصیت کی والدہ بن چکی ہیں،وہ بہت پیار کرنے والی پر خلوص عورت تھیں ،تین سال قبل ڈاکٹر محمد اسلم کے والد طویل علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے اب چند روز قبل وہ ہر ایک کے دکھوں کی سانجھی اور عظیم بیٹے کی عظیم ماں بھی اس دنیا سے کوچ فرما گئیں،ان کا انتقال اسلام آباد میں ہوا ،الراقم اس وقت ایک دوست کے ہمراہ سندھ گیا ہوا تھا جب اس المناک جدائی اور غم کا رعلم ہوا،واپس آنے سے قبل ہی ڈاکٹر محمد اسلم اسلام آباد واپس لوٹ گئے تھے ،بہت تکلیف تھی ،بہت دکھ تھا،اسی وجہ سے ان کے ایصال ثواب کے لئے ختم شریف میں شرکت کے لئے اسلام آباد پہنچ گیا مقامی افراد کی کثیر تعداد نے بھی وہاں شرکت کی جبکہ ختم شریف برائے ایصال ثواب والدہ محترمہ مری روڈ پر ایک نجی ہوٹل میں منعقد کی گئی جس میں قرآن خوانی کے علاوہ پاکستان کے نامور ۔۔نے شرف تلاوت قرآن پاک کا شرف حاصل کیا،نعت خوانی ہوئی بعد میں ختم شریف میں دعا ہونے سے قبل فخر پاکستان اور وطن عزیز کی سالمیت کے ضامن ڈاکٹڑ عبد القدیر ،بحریہ ٹائون کے ملک ریاض،سابق وفاقی وزیر حنیف عباسی،سینئر صحافی محسن بیگ،مجیب الرحمان شامی،حنیف خالد،بابر مغل،زاہد فاروق ملک سمیت ملک بھر کی نامور شخصیات نے شرکت کی، ڈاکٹر محمد اسلم کاروبار اور تعلقات کے حوالے سے انتہائی مصروف شخصیت ہیں مگر آج تک انہوں نے کبھی بھی اپنے آبائی علاقہ سے رخ نہیں موڑا،انہیں اپنی ٹاٹ زدہ تعلیم کا خیال آیا تو انہوں نے قصبہ میں ڈی پی ایس سکول اینڈ کالج ذاتی طور پر بنوا کر عوام کے لئے تعلیمی سہولتوں کے دروازے کھول دئیے جہاں اکثریتی طلبا کی فیس وہ خود ادا کرتے ہیں ایک اندازے کے مطابق اس ادارے پر سالانہ بیس لاکھ روپے سے زائد وہ خرچ کرتے ہیں جبکہ کروڑوں روپے مالیت سے بوائز اور گرلز سیکشن کی تعمیر الگ ہے، ڈاکٹر محمد اسلم نے بڑی کوشش کی کہ ان کی والدہ محترمہ اسلام آباد میں ان کے ساتھ زندگی گذاریں مگر بیٹے کی خواہش پر چند روز کے لئے وہاں جاتیں اور یہ کہہ کر واپس لوٹ آتیں کہ جب میں اپنے پرانے ملنے والے پڑوسیوں اور عزیزوں سے الگ ہوتی ہوں تو مجھے گھٹن ہوتی ہے،ڈاکٹر محمد اسلم اس وقت انتہائی اعلیٰ مقام پر ہیں،اوکاڑہ کے قریب قصبہ میں والدہ کی وفات پر فاتحہ خوانی کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے علاوہ کئی ایم این ایز،سینیٹرز،ایم پی ایز سمیت کئی سیاسی نمائندے پہنچے،ڈاکٹر محمد اسم انتہائی با اخلاق اور ہنس مکھ انسان ہیں خوشیاں بکھیرتے ہیں خلق خدا کے کام آتے ہیں ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سی رہتی ہے مگر والد ہ محترمہ کی وفات پر ان کے چہرے پر پریشانی ،دکھ ،تکلیف اور تنہائی کے کرب کے جو آثار نظر آ رہے ہیں انہیں اس سے قبل کسی نے نہیں دیکھا ہو گا ، ماں ایک رشتہ ہی ایسا ہے جس کے بغیر گویا دنیا ہی رونق ہی ختم ہو جاتی ہے،کوئی بھی والدین اپنی اولاد کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو اللہ اور ان کے درمیان سارے پردے ہٹ جاتے ہیںاور وہ دعا سیدھی فرش سے جا ٹکراتی ہے،ماں تو وہ چیز ہے جو زندگی کا صبر و قرار اور چمن ہے جس میں مسلسل بہار رہتی ہے،ماں وہ درگاہ ہے عقل و شعور کی،ماں ایک کہکشاں ہے محبت و نور کی،ماں محبت کا وہ عظیم پیکر ہے جس کی شان ناقابل بیان ہے،حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک مرتبہ حضرت حلیمہ سعدیہ تشریف لائیں تو آپ حضورﷺ اس رضاعی ماں کے ادب میں نہ صرف اٹھ کھڑے ہوئے بلکہ ان کے بیٹھنے کے لئے کالی کملی اتار کر نیچے بچھا دی،ماں وہ رشتہ ہے جو اپنی اولاد سے سب سے زیادہ محبت کرتی ہے ماں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے درمیان ستون کی مانند ہے جو اپنی اولاد کی پیشانی پر پریشانی کی شکنیںبرداشت نہیں کر سکتی وہ خود تو رو لیتی ہے مگر اولاد کو رونے نہیں دیتی،ماں جنت کی طرف سے چلنے والی ٹھنڈی ہوا ہے در حقیقت وہ چلتی پھرتی جنت ہے،ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ،جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے سنا کہ کوئی شخص قرآن پاک کی تلاوت کر رہے ہیں جب میں نے دریافت کیا کہ قرات کون کر رہا ہے تو فرشتوں نے بتایاکہ آپؐ کے صحابی حارث بن نعمان ؓ ہیں ،حضور پاک ؐ نے فرمایا اے میرے صحابیو ایسا ہوتا ہے اچھے سلوک کرنے والا،حارث بن نعمانؓ سب لوگوں سے زیادہ بہترین سلوک(اپنی ماںکے ساتھ)کیا کرتے تھے۔مشکواۃ،جب کوئی ماں اور باپ کے ساتھ سختی سے بات کرتے ہیں انہیں جھڑکتے ہیں اسی وقت اوپر آسمان پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ان پر لعنت کرنے لگتے ہیں جس سے آسمان اور زمین کانپنے لگتے توبہ استغفار کرتے ہیں،اس وقت تک کسی کی نماز ،روزہ،حج ،زکواۃ کسی کام کی نہیں جب تم سے تمہارے والدین خوش نہ ہوں،حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کیا میں بھی جہاد میں شریک ہو جائوں ،آنحضرت ؐ نے فرمایا تمہارے ماں باپ موجود ہیں اس نے کہا ہاں موجود ہیں تو آپﷺ نے فرمایا پھر انہی میں جہاد کرو کیونکہ ماں باپ کی خدمت جہاد سے کم نہیں،حدیث مبارکہ میں ہے کہ بنی مسلم سے ایک شخص آپ ؐکی خدمت میں حاضر ہوا اورانہوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ؐ کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے حق ہیں جو ان کے بعد مجھے کرنے چاہئیں،آپ ؐ نے فرمایا ہاں ،ان کے لئے خیر و رحمت کی دعا کرتے رہنا ،ان کے واسطے اللہ سے نصرت اور بخشش مانگنا ،ان کا اگر کوئی عہد یا معاہدہ کسی سے ہوا ہو تو اس کو پورا کرنا،ان کے تعلق سے جو رشتے ہیں ان کا لحاظ رکھنا،ان کا حق ادا کرنااور ان کے دوستوں کی تکریم و احترام کرنا،(سنن ابن دائود،سنن ابن ماجہ)،اللہ پاک ڈاکٹر محمد اسلم کی عظیم والدہ اور دالد محترم کی مغفرت عطا فرمائے ،آمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

loading...