جمعرات، 15 مارچ، 2018

دلیل کی موت

دلیل کی موت خاموشی آوازوں کی مرشد بھی ہے اور مستقبل میںوقوع پزیر ہونے والے کچھ طوفانوں کا پیش خیمہ بھی ،حسین نگاہ یعنی نظر کر کو افضل ترین خاموشی کا درجہ حاصل ہے جو قوت گویائی سے زیادہ تاثیر رکھتا ہے، نگاہ وزبان کی تال میل کا سر ایک ہے جو پیغام رسانی سے لے کر معلومات کی جانکاری کا موثر ذریعہ ہے ۔ فطرت کی اس سائنس کو سمجھنا کو ئی آسان کا م نہیں ، بہت سے لوگ فطرت کے اس کھیل میں سرخرو نہیں ہوپاتے جوا س تال میل کی رمزکو پالیتا ہے توگویا وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو درکار (چھپاہوا)سراغ پالیتا ہے یعنی سراغ زندگانی ،بقول شاعر 
کبھی کبھی تو وہ اتنی رسائی دیتا ہے 
وہ سوچتا ہے تو مجھ کو سنائی دیتا ہے 
گزشتہ کچھ عرصہ مختلف قسم کے نا ن اسٹیٹ ایکٹرز کی زد میں رہا جنہوں نے کر اچی کی سرزمین سے لیکرخیبر کی دھرتی تک بارود کا کھیل کھیلنے میں کوئی کسرروا نہ رکھی جان ومال اور عزت نفس کے تحفظ کے لالے پڑے رہے ۔ حالات کی سنجیدگی کو رپورٹ کرتے ہوئے میڈیا کاحال اس شعر کی مانند رہا 
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار 
اور کچھ لوگ بھی دیوانا بنا دیتے ہیں
سویت افواج کے افغانستا ن پر حملے کوArabian-seaکے گرم پانیوں تک رسائی کا پروگرام گردانا گیا تھا ۔ ہم نے چوبیس سو کلومیٹر چوڑائی اور پندرہ سو فٹ گہرائی پر محیط اس سمندر کے ساحل تک سویت افواج کو نہ پہنچنے دیا ۔ مگرحالات کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی موثر حکمت عملی ترتیب نہ دی جا سکی ، لاکھوں افغان باشندوں کے لیے پاک سرزمین کے دروازے کھول دیے گئے مگر جب ایک دہائی بعد سویت افواج کا افغانستان سے انخلا ہوا تو ان پردیسی افغانیوں کو واپس نہ بھیجا گیا درآں حالیکہ اسی مہمان نوازی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ نان اسیٹٹ ایکٹرز نے کبھی بڑی سکرین پراداکاری کے جوہر دکھانے شروع کر دیے اورکبھی سکرین کے پس پردہ رہ کر اپنا کھیل شرو ع کر دیا ، ہمارے بزرجمہروں نے ’’اشتہارات‘‘کی ترسیل میںدل کھول کر حصہ لیا جو اشتہارا ت کسی بھی ٹی وی ڈرامے کے آن ایئر ہونے کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں ، انہی اشتہا رات کی مد سے ملنے والی رقم سے ’’ایکٹرز‘‘بھی اپناحصہ وصول کرتے رہے اوران خصوصی اشاعت ونشریات کا ذریعہ بننے والے ’’اسٹیشنوں‘‘ کے مالکان کی بھی چاندی ہوتی رہی، اس سے آگے کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے ۔
اب اسٹیٹ ایکٹر ز یعنی عوام نے اپنا غم وغصہ دکھانا شروع کر دیا ہے ، آئو دیکھا نہ تائو عوام کے ہاتھ میں جو آرہا ہے مائیک کے سامنے موجود خدمت گار کی خدمت میں پیش کر دیا جا تا ہے ،ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے غصے میں اضافہ ہوتا جار ہا ہے ، بارود کی بو ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ جوتوں کی دھول کا غبار شروع ہوگیا ، غور طلب یہ کہ یہ سب کچھ کیوں شروع ہوگیا ، اس کے کئی اسباب ہیں ، ماضی میں ہمیشہ بے لاگ احتساب اور فوری وسستا انصاف عوام کی دہلیز تک پہنچانے کے وعدے کیے گے مگر یہ سب کچھ کسی دیوانے کے خواب کی مانند رہا ، طاقت ور طبقہ نے اس رائج الوقت نظام کی کمزوری سے جی بھر کر فائدہ اٹھایا اور قسمت کا مارا متوسط طبقہ ظلم وناانصافی کی چکی میں بری طرح پستا رہا ، صوابدیدی اختیارات کا اندھااستعمال تو ایک طرف ، میرٹ پر نوکریاں دی گئیں نہ عوام کو کار وبار کر نے کے یکسر مواقع فراہم کیے گئے ، معاشی ومعاشرتی انصاف کی غیر مساوانہ تقسیم سے عوام کا غم وغصہ اندر ہی اندر لاوے کی شکل اختیار کر تا رہا ، اس غیر مساوانہ معاشی و معاشرتی تقسیم سے پڑھا لکھا نوجوان طبقہ بے روزگاری کا شکا ر رہا اور کسان طبقہ کاشت کاری کے لیے کی گئی خون پسینے کی کمائی کا اجرحاصل کر نے سے محروم رہا ۔
دوسری طرف دیکھیے تو خدمت گاروں کی اخلاقیات و روایات سے ہٹ کر زبان بازی نے معاشرتی اقدار کو اور بھی گدلا کر دیا ، دوبڑی سیاسی جماعتوں کی سیاسی پیش رفت ڈی جے بٹوں اور گلوبٹوں کی جلسوں میں موجودگی سے مشروط ہے ، اس رائج الوقت سیاسی ماحول نے اختلاف ، جو کہ جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہے ، کو ختم کر دیا ، موجود سسٹم میں اختلاف نامی چیز کی کوئی گنجائش نہیں ۔ جس کا رکن نے جماعت کی پالیسی سے اختلاف کیا اس کو سائیڈ لائن لگا دیا گیا ۔اس کا سیاسی نتیجہ یہ نکلا کے اپنے اکابرین کے دیکھا دیکھی کا رکنوں نے بھی وہی لب ولہجہ اور رویہ اپنا لیا جو کہ ان کے بڑوں کے زیر استعمال ہے شاذ ہی کسی سیاسی جماعت نے کارکنوں کی تربیت اور اخلاقی اقدار سکھانے کی کو شش کی ہے جو کہ ایک لیڈ ر کا خاصہ ہوتا ہے ، اسی وجہ سے برداشت ، رواداری ، محبت ، دوستی اور دلیل کی جگہ غم وغصہ ، نفرت اور اشتعال انگیزی نے لے لی ہے ،خدمت گارو ں کوجاننا چاہیے کہ دلیل ایک مثبت اور نا درونایاب چیز ہے جو اخلاقیات کی پہچان کراتی ہے ،پتہ نہیں احمد فراز نے یہ کس لیے کہا تھا ’’وہ بات کرے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں ‘‘۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

loading...