جمعہ، 16 فروری، 2018

بھارتی جارحیت پر پاک فوج کا دندان شکن جواب

 بھارتی جارحیت پر پاک فوج کا دندان شکن جواب کوٹلی اور راولا کوٹ روڈ پر دریائے پونچھ کنارے لائن آف کنٹرول پر تتہ پانی سیکٹر پر پاک فوج نے بلا وجہ معصوم شہری آبادی کو نشانہ بنانے پر انڈین فوج کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اس کی چیک پوسٹ کو تباہ کرتے ہوئے صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے آئی ایس پی آر کے مطابق اس کے نتیجہ میں پانچ بھارتی فوجی جہنم واصل بلکہ متعدد زخمی ہوئے کی اطلاع ہے اور آئندہ جب بھی بھارت کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ایسا ہی کاری وار کیا جائے گاآئی ایس پی آر نے بھارتی سرجیکل سٹرائیک جیسے مضحکہ خیز دعوے جس میں بھارت کوئی شواہد نہیں پیش کر سکا تھا کے بر عکس بھارتی چیک پوسٹ کی تباہی کی ویڈیو بھی جاری کر دی ہے تا کہ کوئی دشمن کو کوئی ابہام نہ رہے،پڑوسی مگر سب سے زیادہ زہریلے دشمن بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ،پاکستان پر کئی جنگیں مسلط کر چکا ہے ملک میںانتہائی غربت کے باوجود اس کا جنگی جنون حدوں کو چھو رہا ہے ہر سال اربوںڈالر کا جنگی سازو سامان خریدنا اس مشغلہ بن چکا ہے ،پورے بھارت میں ہندو انتہا پسندی عروج پر ہے مسلمان سمیت اقلیتوں کیا وہاں نچلی ذات کے ہندو پس رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت وہاں درجنوں علیحدگی پسند تنظیمیں برسرپیکار ہیں،سکھوں کی تنظیم خالصتان ایک بار پھر شدت اختیار کر چکی ہے،مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی دنیا بھر میں کہیں مثال نہیں ملتی اس کی بربریت کے خلاف جب کشمیری مجاہدین کی طرف سے ری ایکشن آتا ہے تو اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا جاتا ہے اس کی تازہ مثال چند روز قبل جموں کے مضافاتی علاقہ سنجون میں قائم بھارتی فوجی کیمپ میں حریت پسندوں نے حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں پانچ فوجی جہنم واصل ہوئے پانچ حملہ آوروں نے دو دن تک بھارتی فوج کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا،پٹھانکوٹ بیس پر حملہ کی طرح اس کا الزام بھی بھارت نے پاکستان پر لگا دیاسنجونی کیمپ پر حملہ پر بھارتی وزیردفاع نرملا ستھارامان نے دھمکی دی تھی کہ پاکستان کو جموں کے حصے سنجوان میں بھارتی فوجی کیمپ پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی مزید الزام لگایا کہ اس حملہ میں جیش محمد کے عسکریت پسند ملوث تھے جنہیں پاکستان نے مدد فرام کی ،بھارتی میڈیا میں انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ ابھی جدید اسلحہ سے لیس مزید تین سو عسکریت پسند کنٹرول لائن پر ہیں جنہیں پاکستان کسی وقت بھی کشمیر میں داخل کر سکتا ہے، بھارتی فوج نے 2003میں کنٹرول لائن پر فائر بندی کا معاہدہ کیا تھا مگر آئے روز وہ اس معاہدے کا دھجیاں بکھیرتا رہاگذشتہ دوسال میں تو اس نے انتہا ہی کر دی ہے،2017میں غیر مسلح شیریوں پر حملوں کی تعداد میں ماضی کے برعکس پانچ گنا زیادہ حملے کئے گئے،رواں برس ابھی دوماہ بھی مکمل نہیں ہوئے مگر بھارتی سیکیورٹی فورسز اب تک فائر بندی کی 335بار خلاف ورزی کر چکی ہے جس میں 15معصوم شہری شہید اور 65سے زائد زخمی ہوئے ،شہری آبادی پر فائرنگ بھارت کا ایک ایسا گھنائونا ،مکروہ ،منافقانہ ،انسانی وقار کے برعکس اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے منافی اقدامات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ،حالت جنگ میں بھی شہری آبادی ،زخمیوں اور امدادی کاکارکنوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا مگر اس ڈھیٹ اور منافق دشمن کے نزدیک سب جائز ہے، ایک روز قبل بٹل سیکٹر میں سکول وین کو بھارتی فوج کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جس میں طالبات تو معجزانہ طور پر محفوظ رہیں البتہ 28سالہ ڈرائیور محمد سرفراز شہید ہو گیایہ وین سکول کی چار بچیوں کو مندھول سے دھرمسل ان کے گھر لے کر جا رہی تھی کہ ھارتی فوج نے نشانہ بنایا ،دفتر خارجہ کی جانب سے اس بزدلانہ واقعہ پر شدید احتجاج کیا گیا تھا دفتر خارجہ کے سارک ڈائریکٹر اور ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو طلب کر کے مذمت کی تھی جبکہ آئی ایس پی آر نے کہا بھارت کی جانب سے شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا غیر اخلاقی اور غیر پیشہ ورانہ سلسلہ جاری ہے جو اب قبول نہیں کیا جائے گا، چند ماہ قبل نکیال سیکٹر میں بھی سکول وین کو بھارتی فورسز نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا جس میں ڈرائیور شہید جبکہ 8کم سن طلباء زخمی ہو گئے تھے،نومبر2016میں لائن آف کنٹرول پر مسافر وین کو نشانہ بنایا گیا اس واقعہ میں 9مسافر شہید اور11زخمی ہوئے ،16جولائی 2017کو بھارتی فائرنگ سے گشت پر مامور پاک فوج کی گاڑی نشانہ بنی جس کے نتیجہ میں گاڑی دریائے نیلم میں جا گری اور قوم کے چار بیٹے ماں دھرتی پر قربان ہو گئے،29ستمبر اور 25دسمبرکو تین تین پاکستانی فوجی اہلکاروں کو شہید کیا گیا جبکہ 31اکتوبر کو چار نہتے شہریوں کو شہید کیا گیاسول آبادی کو نشانہ بنانے کے تو سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں،نومبرمیں پاکستان رینجرز اور بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورسز کے اعلیٰ حکام کے درمیان میٹنگ ہوئی جس میںسول آبادی کو نشانہ بنانے کے پاکستانی تحفظات پر انڈین افسران نے یقین دلایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا مگر یہ شرمناک کام نہ تھم سکا بلکہ ان میں تیزی آتی گئی ،15جنوری کو جند روٹ کوٹلی سیکٹر پر چار پاکستانی جوان لائن کمیونیکیشن کی مرمت کے کام میں مصروف تھے کہ بھارتی فورسز نے فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دیااس واقعہ پر بھی پاکستان کی جانب سے منہ توڑ جواب دیا گیا تھا اور بھارتی چوکی کے پرخچے اڑا دئے گئے جس میں تین فوجی ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے،6فروری کو بٹل سیکٹر اور اس کے گردو نواح میں فائرنگ کے واقعات میں 65سالہ کبیر احمد اور45سالہ شہری اورنگ زیب شہید اور متعدد زخمی ہوئے ،جب سے بھارت ،امریکہ اور اسرائیل گٹھ جوڑ ہوا ہے بھارتی جنگی جنون میں مزید شدت آ گئی ہے کوئی دن ایسانہیں گذرتا جب کہیں نہ کہیں پاکستان دشمنی کا عنصر واضح نہیں ہوتا،اب یہی دشمن ممالک پاکستان کو واچ لسٹ میں بھی داخل کر وا رہے ہیں،دہشت گردی کا شکار بھی ہم ہیں اور ہمیں ہی واچ لسٹ میں رکھا جا رہا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ نے مسلم ممالک کے حقوق کو مغرب کے مقابلے میں کبھی اہمیت نہیں دی اقوام متحدہ میں سب سے پرانے حل تنازعات کشمیر اور فلسطین ہیں مگر اس پر نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں بھی مجرمانہ خاموشی کا کردار ادا کئے ہوئے ہیں جبکہ صرف2016میں عظیم مجاہد برہان وانی کی شہادت کے بعداب تک 600کے قریب بے گناہ اور حق خود ارادیت مانگنے والے مقبوضہ کشمیریوں کو شہید کا جا چکا ،ہزاروں زخمی جن میں سے سینکڑوں اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیںوہاں ظلمت و بر بریت کا بازار پوری آب و تاب سے جاری ہے،وزیر دفاع خرم دستگیر نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن پر عمل درآمد کی مذموم کوشش میں تیزی لا چکا ہے یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار پاکستانی سرحد کے قریب چھائونیاں ،ہوائی اڈے اور کیمپ بنا کر اسلحہ بارود کے ڈھیر لگا رہا ہے تاہم اگر اس نے مہم جوئی کی کوئی بھی کوشش کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا،پاکستانی فوج جسے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حوالے سے دنیا کی بہترین فوج سمجھا اور مانا جاتا ہے اپنی زمین ،سمندر اور فضائوں کی حفاظت کو چوکنا ہے اور وہ وطن عزیز کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرنا جانتی ہے ،ابھی حال ہی میں 17امریکی خفیہ ایجنسیو ں نے رپورٹ پیش کی ہے کہ پاکستان مستقبل قریب میں انتہائی خطرناک میزائلوں کا تجربہ کرنے والا ہے جس سے اس کی عسکری طاقت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا کیا انڈیا اس سے بھی غافل ہے ؟ جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنایا انسانی حرمت ،عالمی انسانی حقوق اور قوانین کی خلاف ورزی ہے جسے اب پاک فوج کے عزم کے مطابق کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

الحمدوللہ رب العالمین!

تحریر:شیخ خالد زاہد
یوں تو کائنات کا ذرہ ذرہ ، چرند پرند ، حشرات العرض ، سمندروں کی مخلوق اور ہماری آنکھوں سے پوشیدہ تخلیقات خدائے بزرگ و برتر کی تعریف میں مصروف و مشغول رہتیں ہیں اور الحمدوللہ رب العالمین کا ورد کرتی رہتی ہیں، یہ اللہ سبحانہ تعالی کی وہ تخلیقات ہیں جن کیلئے جوکچھ ہے مخصوص ہے یا محدود ہے۔ پھر ان سب سے بڑھ کر اشرف المخلوقات کی تخلیق اور اسکے لئے لامتناہی نعمتوں کا خزانہ ۔ یعنی خدا نے اپنی تخلیقات کا عجوبہ اور کوئی بہت ہی محبوب تخلیق جسے انسان کہا بات یہیں ختم نہیں ہوگئی اپنا خلیفہ قرار دے دیا۔ علم کی روشنی سے نوازا ، کھانے پینے کا مزاعطاء فرمایا، ایک دوسرے کی قربت کا احساس پیدا کیا اور خوب سے خوب تر کی جستجو پیدا کردی۔
الحمدو للہ رب العالمین کہنے کیلئے کسی کو کسی جواز کی ضرورت نہیں ہے، دنیا کے ہر مذہب میں خدا کی تعریف کی جاتی ہے اور جہاں کہیں بھی تعریف کی جاتی ہے، جب وہ تعریفیں آسمانوں کی طرف اٹھتی ہونگی تو الحمدوللہ رب العالمین میں تبدیل ہوکر پہنچتی ہونگی کیونکہ خدا نے یہی طریقہ اپنی تعریف کا بتایا ہے۔ جس طرح ہم اپنی ماں کا احسان اپنی زندگی اس پر قربان کر کے بھی نہیں اتار سکتے تو پھر اپنے خالق کا احسان تو ہم انگنت زندگیاں نچھاور کر کے بھی نہیں اتار سکتے ۔کیا خالق ہے اپنا احسان بھی نہیں جتاتا۔ 
آنکھوں کو بصارت ہی نہیں دی ، بصارت کے توسط سے رنگوں کی تقسیم بھی کافی نہیں تو مختلف رنگوں کی ملاوٹ سے نئے رنگوں کی شناخت کرنے کی اہلیت کا ملنا اور رب کائنات کی اس دین پرنم آلود آنکھوں سے الحمدوللہ رب العالمین کہنا اپنے خلق کرنے والے سے محبت کا ایک حسین ترین انداز ہے۔ کرہ عرض پر جہاں تک نظر جاتی ہے اور جہاں تک اس نظر کو لے جاتے ہیں تو ایک ایسے مصور کے شاہکار بنے دیکھائی دیتے ہیں جو کسی بھی غلطی سے ماوراء ہے ، آنکھیں ہیں کہ دیکھتی جاتی ہیں اور اپنے رقبے پر پھیلتی ہی چلی جاتی ہیں۔ 
ابھی کچھ دن پہلے ہم نے سوشل میڈیا پر الحمدوللہ رب العالمین لکھ دیا۔ عربی زبان میں کہے گئے یہ وہ تعریفی کلمات ہیں جو اللہ تعالی نے بذریعہ قران کے اپنے محبوب نبی ﷺ کے توسط سے ہم مسلمانوں کو سیکھائے ہیں۔ الحمدوللہ ہی کہہ دینا کافی تھا مگر اللہ نے اپنی بڑائی کی بھی سمجھ عطاء فرمائی اور جہاں تعریفوں کی کوئی حد نہیں بتائی، دوسری طرف جہانوں کو بھی لاتعداد بتا دیا۔ کیا یہ اللہ کریم کا ہم پر احسان عظیم نہیں کہ ہمیں نعمتوں رحمتوں کی سمجھ سے قبل ہی اپنی تعریف کا پابند بنادیا یعنی ابھی قران پڑھنا ہے اسے سمجھنا ہے اس میں پوشیدہ رازوں پر سے پردہ اٹھنا ہے ہمیں اپنے شکر کا طریقہ بتا دیا اور سمجھنے کیلئے ہم پر چھوڑدیا، بندگی سے قبل بندگی کے آداب بھی سیکھادئیے۔ جیسے ان تعریفی کلمات کیساتھ اللہ رب العزت نے ہمیں یہ بتایاہے کہ وہ صرف اس بہت بڑے جہان کا رب نہیں ہے جہاں ہم رہتے ہیں بلکہ وہ تو تمام جہانوں کا رب ہے جس کا ہمیں علم بھی نہیں ہے اور وہ جہان کتنے کتنے بڑے ہونگے اور وہاں کا کیسا نظم و نسق ہوگا۔
دنیا میں رہنے والے کسی انسان کی آپ تعریف کرنا شروع کردیں جو معلوم نہیں تعریف کے لائق ہے بھی یا نہیں پھر دیکھئے آپ کے وارے نیارے ۔ اب آپ اس رب کی تعریف کیجئے جو آپ کے خلق سے لیکر دنیاکو آپکے رہنے کیلئے ہر آسائش سے مزین کرے گا۔ یہاں آسائشوں کی بھی وضاحت ضروری ہے ۔اگر آپ کو الحمدو للہ رب العالمین کا مطلب سمجھ آچکا ہے تو پھر کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر کسی قسم کے تذبذب کی حالت میں گرفتار ہیں تو پھر سمجھیے کہ آپ کے جسمانی اعضاء مکمل ہیں آپ کسی جسمانی معذوری میں مبتلا ء نہیں ہیں، آپکی بینائی درست ہے جوکچھ دکھ رہا ہے آپ دیکھ رہے ہیں ، جہاں جانا چاہا رہے ہیں جارہے ہیں دوڑتے پھررہے ہیں اپنے ہاتھوں سے کھارہے ہیں اپنے دانتوں سے چبا رہے ہیں اپنے حلق سے معدے میں اتار رہے ہیں اور نظام ہاضمہ اس عمل کو پایہ تکمیل پر پہنچاکر خارج بھی کر رہے ہیں ، آپ سانس لے رہیں بد اور خوش بو میں فرق کر رہے ہیں ۔ کسی بات کو سمجھ کر عمل کرنا ایک بات اور کسی بات کو حکم سمجھتے ہوئے اس کی تعمیل کرنا دوسری بات ، عمل کرنے کیلئے دونوں صورتیں قابل قبول ہیں۔
آج کا انسان دوسرے انسان کا معترف نہیں رہا آپ اگر کسی کے کام آتے ہیں تو وہ یہ سمجھتا ہے یہ آپ کی ذمہ داری تھی کے آپ اسکے کام آئیں، ہم جس دور میں زندہ ہیں اس دور میں ہماری اولاد بھی ہمیں یہ کہہ سکتی ہے کہ دنیا کی ساری آسائیشیں ہمیں فراہم کرنا آپکی ذمہ داری ہے کیونکہ ہمیں دنیا میں آپ ہی لائے ہیں۔ 
اب کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر ہم سے منسلک افراد نے گاہے بگاہے یہ سوال کرنا شروع کیا کہ سب خیریت ہے نا ۔ عمومی طور پر تو یہ سوال بنتا ہے کیونکہ خصوصی طور پر لکھا گیا تھا کہ تمام تعریفیں تمام جہانوں کے رب کیلئے ہیں ۔ اب ہم نے ایسا کیوں لکھا ، دراصل زندگی قدم قدم پر کچھ نا کچھ سبق دیتی رہتی ہے ، کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ استاد سبق پڑھا کر امتحان لیتا ہے مگر زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔ 
موت ایک ایسا کائناتی سچ ہے جس سے کوئی انکار توکیا انحراف کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتاکیونکہ موت وہ حتمی مقام ہے جہاں زندگی کی گاڑی کا آخرکار رکنا ہی ہوتا ہے ۔اس کے رکنے کا علم سوائے خدائے بزرگ وبرتر کے اور کوئی نہیں جانتا اور ناہی کسی بھی قسم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 
ایک مرتبہ ایک دوست سے حال احوال دریافت کیا توجناب نے حسب توقع الحمدوللہ کہہ دیا جس پر ہم نے کہ سب ہی زبان سے الحمدوللہ کہہ دیتے ہیں مگر دل میں تو کچھ اور ہوتا ہے جس پر ہم تاحیات کیلئے لاجواب کئے گئے کہ چلوزبان سے ہی سہی اپنے رب کی تعریف توکی ہے ۔ بے شک اس بات کی ہمیں کیا خبر کہ کون دل سے کہہ رہا ہے یا زبان سے ، کیفیت کو تو وہی سمجھ سکتا ہے جس پر گزرتی ہے ۔ بے شک جب آپ اس بات کو سمجھ جائینگے اور من کی گہرائیوں تک اتار لینگے آپ جب بھی الحمدوللہ رب العالمین کہینگے ایک لمحے کیلئے سرشاری سے ضرور گزرینگے اور اس لمحے میں ان ساری انگنت نعمتوں اور رحمتوں کا خیال دل سے ہو کر گزر جائے گا۔ یہ ایک بہت ہی چھوٹا سا مضمون مجھ پر اس سمجھ کا قرض تھا جو مجھ پر الحمدوللہ رب العالمین لکھنے میں سمجھا تھاشائد اس ایک لمحے میں ایک زندگی جی گیا ہونگا ۔ 
جہاں دنیا گناہوں ، کوتاہیوں اور نافرمانیوں کی دلدل ہے تو اس دنیا کا چلانے والا ایسا رحیم ہے کہ اسی سے رحم شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے ، اس سوچ میں الجھنا ہی نہیں چاہئے کہ مجھ سے تو یہ ہوگیا مجھ سے تو وہ ہوگیاجو کچھ بھی ہوگیا ہے وہ جو مالک عرض و سماء ہے سب جانتا ہے وہ صرف ہماری تسلیم کا منتظر ہوتا ہے اور پلک جھپکنے میں اپنی رحمت کی چادر تان دیتا ہے پھروہ سارے دلدل میں دھنستے جانے کے احساس ہواؤں میں معلق ہونے سے تبدیل ہوجاتے ہیں اور پھر دل الحمدوللہ رب العالمین کہنا شروع کردیتا ہے پھر زبان پر جاری ہوتا ہے اور پھر عملی طور پر زندگی اپنے رب کی بندگی میں مصروف ہوتی چلی جاتی ہے۔ 
کائنات میں انسان کی تخلیق کو اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات قرار دیا ہے ، آسان لفظوں میں سمجھنا ہو تو قدرت کی تخلیق کی گئی تمام چیزوں میں سب سے اہم ترین شے ہے ۔یہ انسان ہی ہے جو دو ٹانگوں پر اپنے توازن کی فکر کئے بغیر بھاگ دوڑ کرتا نظر آتا ہے ۔ سوئی سے لے کر ایٹم بم جیسی چیزوں کو بنا بیٹھاہے ۔ زندگی کی ٹوٹتی ہوئی ڈور کو پکڑلیتا ہے ۔ ابھی تلاطم ہے ابھی توازن بھی آجائے گا۔ 
مجھے معلوم ہے کہ میں آپکے ذہن کی وسعطوں کو سمیٹ کر ایک جگہ نہیں کرسکتا ، یہ ہماری ناقص ا لعقلی سے تشکیل پانے والی تحریر ہے جس میں اپنے خالق و مالک کی تعریف کی توثیق کرنے کی جسارت کی ہے ۔ ایک تو دعا ہے کہ اللہ تعالی جو لفظوں سے کہیں آگے سوچوں کی گہرائیوں سے کہیں پہلے تشکیل پانے کے عمل سے قبل ہونے والے عمل سے پہلے سمجھ جانے والا ہے میرے اس انداز سے اپنی تعریف کو قبول کرے اور ہم سب کی زندگیاں الحمدوللہ رب العالمین کو سمجھنے میں وقف ہوجائیں تو ذرا سوچئیے کہ پھر کیا مقام ملنے والا ہے ۔ 
میں نا عالم ہوں، نامفتی ہوں، نا محدث ہوں ، نا ڈاکٹر ہوں اور نا ہی کوئی مذہبی اسکالر ہوں میں تو ایک ادنا سا طالب علم ہوں اور الحمدوللہ رب العالمین کہتے کہتے اس دارِ فانی سے کوچ کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ یہی وہ وقت ہوگا جب یقین اپنی معراج پر پہنچ چکا ہوگا اور وہ رب کائنات جو مجھے میرے علم کے بغیر دنیا میں تو بھیج دیتا ہے مگر مجھے علم کے سمندر میں ڈبودیتا ہے اور پھر اپنے پاس واپس بلاتا ہے جو اس علم کے سمندر میں جتنا ڈوبتا ہے جتنا تر ہوتا ہے شائد وہ ہی قربت کیلئے معتبر ہوتا ہے۔ 

loading...