جمعرات، 15 مارچ، 2018

معاشرہ سیاسی انتہا پسندی کی راہ پر!

تحریر:شیخ خالد زاہد 
حقیقت ہمیشہ سے ہی تلخ او ر کڑوی رہی ہے ، جسکی وجہ سے کچھ بھی لکھتے ہوئے بہت سی تکالیف کا سامنا رہتا ہے ، مگر حقائق سے صرف اسلئے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں یا لکھنا ترک نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے یا اپنی بدنامی کا خوف رہتا ہے ۔ اندرونی طورسے کشیدہ ہوتی صورتحال پر اکثریت خاموشی اختیار کئے رکھتی ہے اور جیسے ہی کوئی انکے احساسات کی زبان بنتا ہے تو پھر بس اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں، ہم اس انتظار میں ساری عمر بھی کھڑے رہتے ہیں اور دعائیں کرتے ادھر ادھر دیکھتے رہتے ہیں کہ شائد خدا کوئی معجزہ کردے اور ہمارا دیرینا مسلۂ حل ہوجائے ۔زندہ مثال لے لیجئے نادرا نامی ادارے سے تقریباً ساری قوم ہی نالاں ہے مگر کوئی اس بات کیلئے آواز اٹھانے کو تیار نہیں تھا یا پھر کراچی الیکٹرک کی من مانیوں کے سامنے سب ڈھیر ہوئے پڑے تھے جماعت اسلامی نے اس دونوں مسائل کے حل کیلئے ناصرف آواز اٹھائی بلکہ ان معاملات کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ جماعت اسلامی نے اس مسلئے کو سیاسی یا مذہبی نہیں بنایا اور نا بنا کر پیش کیا انہوں نے عوام کی امنگوں کے عین مطابق ان مسائل کی جانب ارباب اختیار کی بھر پور توجہ دلائی اور اس توجہ دلانے میں کراچی کے شہریوں نے بھی سیاسی وابسطگیوں سے قطعہ نظر سڑکوں پر نکل کر جماعت اسلامی کا بھرپور ساتھ دیا۔ 
آج دنیا میں موجود تمام مذاہب میں سب سے زیادہ زیر بحث اور زیرِ عتاب اسلام اور اسکے ماننے والے ہیں جنہیں مسلمان کہا جاتا ہے ۔ ایسا ایک رات یا دن میں نہیں ہوا یہ تو طے شدہ طریقے سے ہوا ہے ۔ مسلمانوں کی نفرت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسلام دنیا میں رائج وہ مذہب ہے جو سب سے آخیر میں نافذ العمل ہوا اور ایسا منظم ہوا کہ رہتی دنیا تک کیلئے اللہ رب العزت نے قائم ودائم کر دیا۔ ویسے تو ہر مذہب کا تعلق خدائے بزرگ و برتر سے ہے لیکن اسلام وہ مذہب ہے جسے خدانے مقبول اور پسندیدہ قرار دیا یعنی پیغمبر اسلام محمد ﷺ پر نبوت کے دروازے بند کردئیے ۔ یہ بات ان دیگر مذاہب پر عمل پیرا لوگوں کیلئے نا قابل ہضم ثابت ہوئی جو اسلام سے قبل دنیا میں رائج تھے۔ جبکہ قدرت نے ہر نئے مذہب یا یوں کہہ لیجئے کہ ہر نبی علیہ اسلام کے مبعوث کئے جانے پر پرانا طریقہ عبادت موقوف کر دیا جاتا تھا اور کچھ اضافے یا کمی کے بعد نیا طریقہ اپنایا جاتا تھا ایسا شائد کبھی بھی نہیں ہوا ہوگا کہ تمام کے تمام موجود لوگ پرانا طریقہ ترک کر کے نئے طریقے پر چلنے لگے ہوں۔ میں کاعنصر تو انسان میں قدرت نے ہمیشہ سے ہی رکھاہے اور دنیا میں کسی بھی انسان کیلئے کسی بھی نئی چیز کو آسانی سے تسلیم کرلینا مشکل کام ٹہرتا ہے اور جب اپنے تخلیق کرنے والے پر سوال اٹھائے جا رہے ہوں اور اسکے صحیح یا غلط ہونے پر یقین متزلزل کیا جا رہا ہو تو ایسا مان لینا یا سمجھ لینا قطعی آسان کام نہیں ہوسکتا ۔ اسلام کی بالادستی نے دنیا میں تہلکہ مچایا تھا اور یہ تہلکہ رہتی دنیا تک مچا ہی رہے گا۔ مسلمانوں کو ہر طرح سے دنیاوی آسائشوں کی دلدل میں گردن تک دھنسا دیا گیا ہے ۔ آج اگر زیادہ دور نہیں اپنے قرب و جوار میں دیکھیں تو ہماری تگ و دو ان آسائشوں کے حصول کیلئے ہی ہے۔اسلام کو بدنام کیا گیا یا پھر اسلام کے ماننے والوں اور اسکا دفاع کرنے والوں کی ناکامیوں کی وجہ تھی کہ آج ساری دنیا میں جتنی تذلیل مسلمانوں کی ہورہی ہے شائد ہی ماضی میں کسی اور مذہب کے ساتھ ایسا ناروا سلوک رکھا گیا ہوگا۔ اس بات کو ذہن میں رکھئے کہ ہم غاروں کے یا اندھیروں کے دور میں نہیں ہیں ہم ماڈرن ایج (جدید دور ) میں زندہ ہیں جہاں انسانیت ترقی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ 
ہمارے یہاں شادیوں میں بہت ساری رسومات میں سے ایک رسم جوتا چھپائی کی بھی ہوتی ہے مگر جوتا مارنے کی کوئی باقاعدہ رسم ہمارے معاشرے میں رائج نہیں ، ہاں یہ اور بات ہے کہ عمر کہ ایک حصے تک ہماری اور آپکی حرکات کی مرہون منت گاہے بگاہے ایک جوتا نہیں بلکہ ایک ہی جوتے سے تابڑ توڑ حملے اور وہ بھی بغیر کسی مزاحمت کی اجازت کے ، عمر کے جس حصے میں ایسے حادثے رونما ہوتے تھے وہاں عزت اور بے عزتی سے کہیں اہم مستقبل میں ان جوتوں کی برسات کو یاد کرکے ایسے کاموں سے قطعی اجتناب برتنے کی جانب رغبت بڑھانا رہا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں بہت ہی کم ایسے بچے خصوصی طور پر لڑکے ہونگے جنہیں جوتوں کی بارش میں نہانے کا اتفاق نہیں ہوا ہوگا ۔ ان جوتے کھانے والوں میں یقین سے تونہیں مگر کہہ رہا ہوں کہ بڑے ہوکر کبھی ایسی نوبت نہیں آئی ہو گی کہ کسی ایسے کام کی جرات ہوکہ جس کی وجہ سے جوتے کھانے پڑیں۔ مذکورہ گفتگو سے جو بات اخذ کی جانی چاہئے وہ یہ کہ جنہوں نے بچپن میں جوتے نہیں کھائے انہیں بڑے ہوکر کھانے پڑ رہے ہیں یعنی انہیں اس بات کی سمجھ ہی نہیں تھی کہ کن کاموں کی وجہ سے جوتے کھانے پڑتے ہیں اور بڑھتی ہوئی عمر کا پاس رکھتے ہوئے جوتے مارنے والے اس انتظار میں دیر سے دیر کرتے رہے کہ اب سدھر جائے کے اب سدھر جائے، مگر جوتے کھائے بغیر سدھرنا ہمارے معاشرے میں مشکل کام ہے۔ جنہوں نے بچپن میں اپنے بڑوں سے جوتے کھا لئے تھے وہ اپنے بڑوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے چلیں اور ہماری اولاد ہمارا شکریہ کرلیں۔ (یہاں جوتے بطور اصطلاح استعمال کئے جا رہے ہیں)
گزشتہ دنوں تواتر سے دو ایسے واقعات جن میں ایک تو خواجہ آصف صاحب پر سیاہی پھینکنے کا ہے اور دوسرا میاں نواز شریف صاحب پر جامعہ نعیمیہ کے دورے پر جوتا پھیکنے کا ہے، رونما ہوئے جس نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ عوام میں سیاسی حجان کس حد تک بڑھ رہا ہے ۔جوتے مارنے کے واقعات ساری دنیا میں ہوتے رہے ہیں جو ناپسندیدگی کی علامت سے مشابہ ہے ، یعنی آپکی حکومت چلانے کی حکمت عملی کے خلاف ایک اتنہائی غیر اخلاقی نفرت کے اظہار کا طریقہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہم پاکستانیوں کیلئے یہ کوئی ایسے واقعات نہیں کہ جن کو لے کر کم از کم ہم من حیث القوم پریشان ہوجائیں کیونکہ کسی بھی بات پر شرمندگی کیلئے علم کا ہونا بہت ضروری ہے اور ہم تو لفظ علم سے ہی لاعلم ظاہر ہوتے ہیں(معذرت) ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ایک ایک کرکے جوتامارنے والے واقعات جوکسی فرد کی انفرادی ذہنی اذیت کا اظہارکر رہے ہیں کب یہ عمل یعنی جوتے مارنے یا پھینکنے کا اجتماعی صورت اختیار کرے گا۔ قوم کو اس نہج تک پہنچانے میں ان جوتا کھانے والے لوگوں کا ہی ہاتھ ہے اب فرق صرف اتنا ہے کہ جوتا مارنے والا انا کی بھینٹ چڑھ جائے گا اور اس غریب کا پتہ بھی نہیں چلے گا، جبکہ پوچھنا تو ان سے (جوتا کھانے والے) چاہئے کہ محترم کیا آپ کچھ بتا سکتے ہیں کہ آپ کو جوتا کیوں مارا گیا ہے۔ اسلام کی تربیت اور اس پر عمل کرنے والے حقیقی لوگوں میں سے ایک حضرت علیؓ کا واقعہ یاد آرہا ہے کہ جب آپؓ دشمن کے سینے پر بیٹھ گئے اور قریب تھا کہ اسے واصل جہنم کرتے اس نے آپؓ کے منہ مبارک پر تھوک پھینکا جس پر حضرت علیؓ فوراً اسکے اوپر سے اترے اور اس کی جان بخش دی پھر اس سے پوچھا کہ تونے ایسا کیوں کیا تو اس کافر نے کیا خوب جواب دیا کہ میں جانتا تھا کہ آپؓ مجھے ااسلام کیلئے تو قتل کرنے سے نہیں رکینگے مگر میرے اس عمل سے جو کہ آپؓ کی ذاتی انا کا مسلۂ بن جائے گا اور آپؓ ذاتی تسکین کیلئے مجھے کبھی قتل نہیں کرینگے (اللہ تعالی کمی بیشی معاف فرمائے، آمین)۔ ہماری محترم سیاسی بہن مریم نواز نے جن مثالوں کا تذکرہ عوام کے سامنے کیا ہے وہ قطعی قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ جب آپ اور آپکے اہل خانہ انصاف نہیں کرسکتے اور نا مانتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جھوٹ پر جھوٹ بولے جاتے ہیں تو پھر آپ لوگ اپنے ناپاک زبان سے پیارے آقا محمد ﷺ اورفاطمہ الزہرہؓ کی مثالیں کیسے دے سکتی ہیں۔ اس وقت سے ڈرئیے اور بچنے کے صد باب کیجئے جب یہ قوم آپکو ایک ایک جوتا نہیں بلکہ اجتماعی جوتے برسانے نکل کھڑی ہوجائے گی۔ اپنے کئے کی ناصرف اللہ رب العزت سے معافی مانگیں بلکہ اس عوام سے بھی معافی طلب کریں ۔ آپ نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں کیا ہے یہ آپ کے لہجوں سے جھلکنا شروع ہوگیا ہے ۔ مجھے تو ڈر سا لگ رہا ہے کہ ایک فرد کی حیجانی کیفیت نے اس سے ملک کی معزز ترین ہستی پر جوتا پھینکنے کی نوبت تک پہنچا دیا اگر یہ کیفیت اس پورے مجمع کی ہوگئی جو آئے دن سڑکوں پر رلتا پھرتا ہے تو ہمارے ملک کے سیاستدانوں کا کیا بنے گا۔ یہ صرف نواز شریف یا انکی سیاسی جماعت کا مسلۂ نہیں ہے پھر یہ قوم نا عمران خان کو دیکھے گی ، نا زرداری صاحب کو اور نا ہی کسی اور سیاستدان کو برداشت کرے گی کیونکہ اب بطور قوم ہم سیاستدانوں سے بدظن ہونے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں ۔ اب پاکستانی قوم مذہبی انتہاء پسندی سے بہت آگے نکل چکی ہے اور سیاسی انتہا پسندی کی جانب بڑھتی محسوس ہو رہی ہے ۔خدارا اسلام کے نام پر حاصل کی گئی مملکت لاج رکھئیے ، دوقومی نظرئے پر دھیان رکھئے ،شائد دنیا کے تمام ممالک پاکستان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ اب امت کی تشکیل و تنظیم پاکستان سے ہوگی ۔ 

جہانِ تصوف


تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
مغرب نواز دانشوروں پر عقل کل بننے کا جنون ہر وقت طا ری رہتا ہے اِسی جنون میں ایسے نام نہاد دانشور تصوف پر بھی ہرزہ سرائی سے با ز نہیں آتے کسی چیز کو سمجھے جانے بغیر 'حقیقت میں اُترے بغیر رائے دینا حما قت کا آخری درجہ ہے یہ لو گ یہی حما قت کر تے نظر آتے ہیں اہل حق پر سب سے بڑا الزام یہ لگا تے ہیں کہ تصوف جاہلوں نا خواندہ لوگوں کا مسلک ہے فہم و آگہی بصیرت علمی شعور رکھنے والے لو گ تصوف کے قریب بھی نہیں پھٹکتے 'ایسا الزام لگا نے سے پہلے عقل سے عاری ایسے معترضین کو تاریخ تصوف کا مطالعہ کر نا چاہیے 'تا ریخ تصوف کے آسمان پر ہر دو رمیں ایک سے بڑھ کر ایک علمی شخصیت طلو ع ہو تی رہی ہے بلکہ ہمیں بے شما رایسے صوفیا کرام نظر آتے ہیں جو کو چہ تصوف میں آنے سے پہلے علوم و فنون کے بہت سارے علمی دھا روں سے شرابور ہو چکے تھے امام قشیری 'ابو طالب مکی 'ابن عربی 'امام رازی 'امام غزالی  'ابنِ خلدون   'شیخ عبدالقادر جیلانی  'خوا جہ معین الدین چشتی اجمیری 'شہاب الدین سہروردی 'حضرت زکریا ملتا نی  'حضرت مجدد الف ثانی 'حضرت علی ہجویری   یہ تمام نہ صرف تعلیم درویشی کے شہنشاہ تھے بلکہ کشور علم و فصل کے بھی تا جدار تھے 'کسی میں ہمت ہے جو اِن جلیل القدر علمی شخصیات پر جہا لت کا الزام لگا سکے صدیوں سے تصوف کے اِن آفتا بوں کی تصانیف جہالت کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کا کام کر رہی ہیں بلکہ شہنشاہِ پاک پتن   تو اکثر فرمایا کر تے تھے کہ جاہل مسخرہ شیطان ہو تا ہے اس کی نگا ہ حقیقت اور سراب میں فر ق کر نے سے قاصر رہتی ہے وہ دل و روح کی بیما ریوں کی تشخیص اور علا ج نہیں کرسکتا حضرت نظا م الدین اولیاء   کسی بھی ایسے شخص کو خلا فت عطا نہیں کر تے تھے جو عالم نہ ہو 'کشف المحجوب میں بیان ہے تین قسم کے آدمیوں کی صحبت سے پرہیز کرو ایسے عالموں سے جو غافل ہوں 'ایسے فقیروں سے جو دھوکے باز ہوں اور ایسے صوفیوں سے جو جاہل ہوں 'علامہ ابن جو زی جو تصوف اور اولیا ء کرام پر تنقید کر نے والوں کے سر خیل سمجھے جا تے ہیں وہ بھی یہ تسلیم کر نے پر مجبور ہو گئے کہ صوفیا علوم قرآن 'فقہ 'حدیث اور تفسیر کے امام ہوا کر تے تھے وطن عزیز کے منکرین اور اہل مغرب یہ بھو ل گئے ہیں کہ جب سارا یو رپ جہا لت کی تاریکی میں ڈوبا ہو اتھا تو اُس وقت تا ریخ عالم میں ایک سے بڑھ کر ایک صوفی عالم پیدا ہوا ہوئے جنہوں نے جہا لت میں ڈوبی انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکا لنے میں اپنا کردار ادا کیا 'ایسا ہی ایک ستا رہ ابن خلدون تھا جنہیں فلسفہ تا ریخ کا امام کہا جا تا ہے ۔ مغرب کے موجود ہ دور کے سب سے بڑے فلا سفر ٹا ئن بی اپنی کتاب فلسفہ تا ریخ میں ابن خلدون کے لیے سات صفحات مخصوص کر تے ہیں ابن خلدون کی خدمات کا کھل کر اقرار کر تے ہیں یو رپ کے سارے فلا سفر ابن خلدون  کی تعریف کر تے نظر آتے ہیں ابن خلدون  کی مقدمہ ابن خلدون ایسی کتا ب ہے جسے پڑھ کر اہل یو رپ آج تک عش عش کر تے ہیں جس میں ابن خلدون نے قوموں کے عروج و زوال پر لا ثانی بحث کی ہے اِسی ابن خلدون  نے تصوف کی حالت استغراق پر خو ب لکھا ہے استغراق پر وہی اہل قلم اظہا ر کر سکتا ہے جو استغراقی حالت سے گزرا ہو جہا لت کے اُسی دور میں آسمان تصوف پر ایک اور ستار ہ چمکا حضرت امام فخر الدین رازی   جو پچیس رمضان ٥٤٤میں ''رے '' شہر میں پیدا ہو ئے 'امام رازی دنیا وی علوم کومکمل طو رپر سیکھنے کے بعد انہوں نے یہ علم دوسروں تک بھی پہنچا یا آپ  نے تمام علوم پر کتابیں لکھیں لیکن اُن کا اصلی سرما یہ فلسفہ و علم و کلام تھے آپ نے عقلی علو م میں غیر معمو لی شہرت پائی آپ سے پہلے علم و کلا م اور فلسفے پر کتا بیں بہت مبہم اور پیچیدہ تھیںاُن کے خیالات و نظریا ت انتشار پیدا کرتے تھے امام غزالی  اور امام رازی  نے علوم فلسفہ کی الجھنوں کو بہت آسانی سے حل کر دیا' آپ   نے فلسفہ کی گرہیں اِس طرح کھو لیں کے بصیرت و آگہی کے پھو ل کھلتے نظر آتے ہیں جن سے علم کے پیاسوں کی روحیں معطر ہو تی چلی جا تی ہیں امام رازی   فرمایا کر تے تھے عالم اور جا ہل کے درمیان سونے اور مٹی جتنا فرق ہے علوم ظاہری کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو بے پنا ہ شہرت سے نواز ا ' پو ری دنیا میں آپ کے علم کا چرچہ تھا آپ جس شہر یا ملک بھی جاتے پورا شہر با دشاہ سمیت آپ کے استقبال کو آجا تا دولت کی دیوی اِس قدر مہربان تھی کہ چالیس غلام سنہری کمر بند با ندھے منقش پو شاک پہنے ہر وقت آپ کے اطراف میں رہتے تھے 'آپ امیر غریب سب میں مقبو ل تھے ہر کو ئی آپ کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتا ایک دفعہ آپ کی ہرات میں جب آمد ہو ئی تو سارا شہر علما وصلحا سلا طین آپ کی زیارت کو آئے شہر میں ایک بھی شخص با قی نہ بچا سوائے ایک درویش بے نیاز کے جو دنیا سے دور معرفت الٰہی عشق الٰہی میں مستغرق تھاامام رازی  کو جب اس بات کا پتہ چلا تو کہا میں مسلمانوں کا امام ہوں قابل تعظیم ہو ں پو رے شہر میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو میری ملا قات کو نہیں آیا تو اِس کی بھی کو ئی خا ص وجہ ہو گی تجسس سے مجبو ر ہو کر آپ   نے اپنے خدام کو اُس مر دِ بے نیاز کے پاس بھیجا اور نہ آنے کی وجہ پو چھی لیکن خدا مست درویش نے جواب دینا منا سب نہ سمجھا اور گو شہ نشینی کا لطف اٹھانے میں مصروف رہے 'امام رازی   کے دل میں ملا قات نہ ہو نے کی خلش مچلتی رہی اور پھر ایک دن اہل ہرا ت نے اُس مرد بے نیاز خدا مست درویش کی دعوت کی اور اُس دعوت میں امام رازی   کو بھی مدعو کیا یہاں امام رازی   کو جب اس مرد صالح سے ملا قات کا موقع ملا تو عرض کیا جب سارا شہر میری ملا قات کو آیا اور صرف آپ نے آنا منا سب نہ سمجھا 'کیا میں اِس بے نیازی کی وجہ جان سکتا ہوں تا کہ میں حقیقت کا ادراک کر سکوں تو درویش بے نیاز بو لا میں فقیر آدمی ہو ں میری ملا قات یا دیدار سے کسی کو کو ئی شرف حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی میرے نہ ملنے سے کسی کا کچھ بگڑ سکتا ہے نہ ہی کو ئی نقص پیدا ہو سکتا ہے 'امام رازی   نہا یت ذہین فطین انسان تھے فقیر کی صوفیا نہ گفتگو کی تہہ میں پہنچ گئے اور بو لے جو آپ نے جواب دیا ہے یہ تو اہل صوفیا کا ہی ہو سکتا ہے آپ برا ئے مہربا نی اپنے بارے میں کچھ اور بتائیں تا کہ میں آپ کے بار ے میں مزید جان سکوں تو جانباز بے نیا ز درویش بو لا آپ سے کس بنا پر ملا قات واجب تھی تو امام بو لے کیونکہ میں مسلمانوں کا امام ہوں علمی طور پر وہ مقام رکھتا ہوں جس کی بنا پر واجب التعظیم ہوں تو درویش نے معرفت کے مو تے بکھیرتے ہو ئے کہا آپ کا سرما یہ فخر علم ہے لیکن حق تعالیٰ کی معرفت راس العلوم ہے پھر آپ نے خدا کو کیسے پہنچا نا امام رازی بو لے سو دلیلوں سے 'تو بے نیاز قلندر دلنواز تبسم سے بو لا دلیل تو شک کو زائل کر نے کے لیے ہو تی ہے لیکن خدا ئے بزر گ و برتر نے میرے دل و دما غ کو وہ عرفانی نور عطا کیا ہے کہ اُس کی وجہ سے میرے دل میںشک کا گزربھی نہیں ہو تا لہٰذا مجھے کسی بھی دلیل کی ضرورت نہیں ہے امام رازی   کا آج سے پہلے دنیا وی علم کے شاہسواروں سے واسطہ پڑا تھا آج عرفانی نو ر الہی کے سالک سے جب واسطہ پڑا تو با طنی اضطراب جو دنیا جہاں کے علم کے سمندر رکھنے  کے بعد بھی قائم تھا اُس اضطراب بے چینی کی کیفیت کم ہو تی گئی امام رازی پہلی بار با طنی حلا وت نشے سرورسے متعارف ہو رہے تھے دنیا ئے اسلام کا شیخ الاسلام مسلمانوں کا امام ایک درویش خدا مست کے سامنے اقرار کر رہا تھا امام رازی  جو فلسفے اور علم و کلام کے امام تھے جنہوں نے بے شمار کتب تصنیف کر کے علم کے پیاسوں کی پیاس بجھا ئی جو لفظوں اور فقروں کے بڑے کھلاڑی تھے آج درویش خدا مست کے علم کے سامنے طفل مکتب بنے بیٹھے تھے آج و ہ علم کے حقیقی اور با طنی پہلوئوں سے روشنا س ہو رہے تھے درویش بے نیاز کی گفتگو کے مو تی امام رازی   کے قلب و روح کو منور کر تے جا رہے تھے اور پھر مسلمانوں کے امام شیخ اسلام کے دل پر اس قدر اثر ہوا کہ اُس مجلس میںمردِ صالح کے ہا تھ پر تو بہ کی اور غلامی کی درخوا ست بھی کہ مجھے اپنے ہا تھ پر بیعت کر کے علم کا حقیقی نور عطا کریں اِسطرح فلسفے کے امام رازی   تصوف کی وادی پر خار میں خلوت گزیں ہو ئے 'امام رازی   جس مردِ درویش کے ہاتھ پر بیعت ہو ئے اُن کا نام حضرت نجم الدین کبری   تھا تا ریخ تصوف کے وہ آفتاب جو نہ صرف امام رازی کے مرشد تھے بلکہ حق تعالی نے وہ روحانی تصرف بخشا تھا کہ جس شخص کو نظر بھر کر دیکھ لیتے وہ ولی ہو جا تا اِسی وجہ سے حضرت نجم الدین کبری کو ولی ساز یا ولی گر کہا جا تا ہے جو دیکھنے والے کو شراب معرفت میںغر ق کر دیتے اِسی شراب معرفت میں امام رازی بھی غرق ہو ئے ۔ 
loading...