جمعہ، 16 مارچ، 2018

آمنہ ؓکے لال کی آمد

آمنہ ؓکے لال کی آمدآج سے تقریبا ً سوا چودہ سو سال قبل تمام دنیا پر ظلم و جبر اور جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی ‘اہل فارس آگ کی پوجا اور ماؤں کے ساتھ وطی کرنے میں مصروف تھے ‘ترک شب و روز انسانی بستیوں کو تباہ برباد کر رہے تھے ‘بندگان ِ خدا شدید اذیت میں مبتلا تھے اِن کا دین بتوں کی پوجا اورکمزور بے بس انسانوں پر ظلم کرنا تھا۔ ہندوستان کے لوگ بتوں کی پوجا اور خود کو آگ میں جلانے کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے ‘نیوگ جیسی انتہائی پست رسم کو جائز سمجھتے تھے یہ عالمگیر ظلمت اِس امر کی متقاضی تھی کہ ایک مسیحا ِاعظم اور ہادی تمام دنیا کے لیے مبعوث ہو اِس کے لیے خالقِ کائنات نے عرب کی سر زمین کو چنا اُس وقت سر زمین عرب تمام برائیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی ۔اہل عرب میں ہر طرح کی برائی موجود تھی‘ عرب میں زیادہ تر لوگ خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے رہتے جہاں پانی اور سبزہ نظر آتا وہیں ڈیرہ جما لیتے ‘چارہ ختم ہوتا تو خیمے سمیٹ کر آگے چل دیتے تھے یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ منظم شہر اور دیہات بہت کم تھے لوگوں کا آپس میں میل جول نہ ہونے کے برابر تھا اور نہ ہی کوئی با قاعدہ مضبوط حکومت تھی ۔اِن حالات میں طاقت ور کا راج تھا مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ تھا‘ طاقت ور اپنی طاقت کے زور پر اپنی مر ضی کرتا اور کمزور طبقہ طاقتورو ں کی غلامی پر مجبور تھا ۔ زیادہ تر قبائلی سسٹم تھا ہر قبیلے کا ایک سردار ہوتا چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا شروع ہو تا جو برسو ں تک چلتا لڑائیوں میں بے شمار لوگ مارے جاتے غالب قبیلہ مغلوب قبیلے کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیتا ۔شراب اور جوا کی لت عام تھی شراب پی کی سرِ عام فحش باتیں کی جاتیں ۔ خود پسندی ، تکبر و غرور اتنا زیادہ تھاکہ کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے عرب بہت زبان آور تھے ان میں کئی بڑے شاعر بھی تھے لیکن اُن کی یہ خوبی بھی برائی میں کام آرہی تھی بے ہودہ اشعار کہے جاتے عورتوں کا نام لے کر فحش شاعری اور کہانیاں بیان کی جاتیں اگر کسی کے گھر بیٹا پیدا ہو تا تو خوب خوشیاں منائی جاتیں ۔ لیکن اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی تو اس کو زندہ دفن کر دیا جاتا بیٹی کا سوگ منا یا جاتا جس کے گھر بیٹی پیدا ہوتی وہ اپنا منہ چھپا تا پھرتا ۔ آپس کی لڑائیوں میں دشمنوں کو زندہ جلا دیا جاتا ۔ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے جاتے بچوں کو خنجروں اور تلواروں سے بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا جاتا ۔ غرض کسی کی عزت و آبرو محفوظ نہ تھی ‘معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ عورتیں تھیں عورتوں کی حالتِ زار بہت ہی قابل ِ رحم تھی عورتوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کیا جاتا ۔ جانوروں کی طرح عورتوں کو سر عام منڈیوں میں نیلام کیا جاتا ۔ لڑکیوں کو اِس خیال سے کہ جب بڑی ہونگی تو اِن کی شادی کرنا پڑے گی پیدا ہوتے ہی بچیوں کو مار دیا جاتا اکثر میاں بیوی میں نکاح کے وقت ہی یہ معاہدہ طے پا جاتا کہ اگر لڑکی ہوئی تو اُس کو زندہ دفن کر دیا جا ئے گا مرد و عو رت کے اختلاط کی انتہائی گھٹیا صورتیں تھیں ۔ جنہیں بد کاری و بے حیائی ، فحش کاری اور زنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا تھا ۔ نکاح کی چار مختلف صورتیں تھیں ۔ ایک صور ت تو آج جیسی تھی جبکہ باقی تین صورتیں صرف فحاشی اور زنا کاری پر مشتمل تھیں دو سگی بہنوں سے نکاح کرنے کی رسم عام تھی باپ کے وفات پانے پر بیٹا اپنی ماں کے علاوہ باقی سوتیلی ماؤں سے نکاح کر لیتا اقتصاص طور پر عرب پورے دنیا سے پیچھے تھے تجارت ہی ان کے نزدیک ضروریات ِ زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی ۔کیونکہ زیادہ تر وقت آپس میں لڑائی جھگڑوں میں صرف ہوتا اِس لیے اقتصادی حالت بھی اچھی نہ تھی مردار کھانے کی عادت عام تھی عرب میں زیادہ تر لوگ حضرت اسماعیل ؑکی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں دین ابراھیمی کے پیروکار تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خدائی درس و نصیحت کا بڑا حصہ بھلا دیا ایک دفعہ اِن کے ایک سردار عمر و بن لحی نے شام کا سفر کیا تو وہاں پر بتوں کی پوجا کو دیکھا تو متاثر ہو کر واپسی پر اپنے ساتھ ہبل نامی بت بھی لے آیا اور لا کر اُسے خانہ کعبہ میں نصب کر دیا ۔ عرب میں بت پرستی کا بانی یہی شخص تھا اِس نے اہلِ مکہ کو بت پرستی کی دعوت دی جس پر اہلِ مکہ نے لبیک کہا اِس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا اِس بعد طائف میں لات نامی بت وجود میں آیا پھر وادی نخلہ میں عُزّیٰ نامی بت رکھا گیا یہ تینوں عرب کے سب سے بڑے بت تھے ۔اِس کے بعد عرب کے ہر خطے میں بتوں کی بھر ما ر ہو گئی جدہ میں بہت سارے مدفون بت نکالے گئے اور جب حج کا زمانہ آیا تو اُن بتوں کو مختلف قبائل میں تقسیم کر دیا گیا اِس طرح ہر قبیلے اور پھر ہر ہر گھر میں ایک ایک بت رکھ دیا گیا مشرکین نے خانہ کعبہ کو بھی بتوں سے بھر دیا گیا ۔ بیت اﷲ کے گردا گرد تین سو ساٹھ بت تھے ۔ غرض شرک اور بت پرستی اہل ِ جاہلیت کے دین کا سب سے برا مظہر بن گئی ۔ مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے اُنہیں زور زور سے پکارتے ۔ مشرکین عرب کا ہنوں اور نجومیوں کی باتوں پر ایمان رکھتے مختلف ہڈیاں گھروں میں لٹکاتے ۔ بعض دنوں ، مہینوں میں جانوروں گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھتے بیماریوں اور چھوت کے بہت زیادہ قائل تھے ۔ روح کے الو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے بڑے درختوں کی پوجا کرتے تھے ۔ بیماری کا علاج جادو منتر ٹونے ٹوٹکوں سے کرتے ۔ ہر طرف بد اخلاقی ، بے انصافی قتل و غارت کا دور دورہ تھا گویا عرب اور پوری کائنات اندھیر نگری بن چکی تھی بندگان خدا کے حقوق بری طرح پا مال ہو رہے تھے ۔ خالقِ کائنات کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ جب بھی انسانوں کی حالت زار آخری حدوں تک پہنچ جاتی ہے تو وہ کسی مسیحا کو بھیج دیتا ہے اور پھر کرہ ّ ارض کی سب سے قیمتی ساعت طلوع ہوئی رب کعبہ نے ایک ایسا مسیحا اِعظم بھیجا جس کی ایک جنبش چشم سے صدیوں سے بیمار اور پیاسی روحوں کو سیرابی ملنے والی تھی وہ مسیحا کہ روز اول سے قیامت تک پیدا ہو نے والے انسانوں میں ایک بھی ایسا نہیں جو اِس مسیحا کے پیروں سے اٹھنے والی خاک کو بھی چھو سکے ۔جذبوں کا حکمران ، جسموں اور روحوں پر حکومت کرنے والا قیامت تک آنے والی اندھی اور کثیف روحوں کو روشن کرنے والا ، مُردہ دلوں کو اپنے سوز ِ دل سے زندگی کی حرارت بخشنے ، سنگلاخ زمینوں کی طرح بنجر روحوں کو روشن کرنے والا ایک ایسا مسیحا جس کے قدموں سے اُٹھنے والے غبار کا ایک ذرہ جس پر بھی پڑا وہ سونے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ۔صدیوں سے سسکتی تڑپتی انسانیت کی پیاس بجھانے کے لیے حضرت آمنہ ؓ کے لال 9یا 12ربیع الاول کو دو شنبہ کے دن فجر کے وقت رحمت دو عالم دنیا میں تشریف لائے آپؐ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح نورانی اور آنکھیں قدرت الہی سے سر مگیں ۔آپ کا نام محمد ؐ رکھا گیا ۔ حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے پورے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے بعض روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ ولادت کے وقت ایوان ِ کسرٰی کے چودہ کنگورے گر گئے ۔ فارس کا ہزاروں سال سے جلتا آتش کدہ بجھ گیا ۔ عرب کے سارے بت منہ کے بل گرے اور سر بسجود ہو گئے بحیرہ سا وہ خشک ہو گیا اس کے گرجے منہدم ہو گئے ۔ حضرت آمنہ کے لال کے نور سے ساری کائنات جگمگا اٹھی اور آپ کی خوشبو سار اعالم معطر ہو گیا ۔

کِتھےّ مہر علی کِتھےّ تیری ثنا

کِتھےّ مہر علی کِتھےّ تیری ثناچشمِ فلک فلک حیرت سے یہ منظر پہلی اورآخری بار دیکھ رہی تھی کہ نوجوان شاگرد گھوڑے پر سوارہے اور اُس کا استاد اپنے شاگرد کے احترام اور محبت میں گھوڑے کے آگے آگے پیادہ پا دوڑ رہا ہے نوجوان شاگرد بار بار درخواست کر رہا تھا کہ اُستادِ محترم یہ سب بڑی گستاخی ہے خدارا مجھے گھوڑے سے اُترنے دیں لیکن یہ اُستاد محترم کا حکم تھا کہ تم گھوڑے پر ہی سوار رہو اگر تم گھوڑے سے نیچے اُترے تو میں تم کو شاگردی سے خارج کر دوں گا نوجوان درویش بعد میں جب بھی اِس واقعہ کا ذِکر کرتا تو کہتا کہ میں سخت شرمندہ تھا مگر قہرِ درویش بر جانِ درویش تعمیل حکم کی آخر اِسی طرح کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد اُستاد محترم بھی گھوڑے پر سوار ہو گئے اور فرمانے لگے ایک دفعہ اثنائے سفر سیال شریف اِسی مقام پر آپ میرے گھوڑے کے آگے دوڑے تھے ۔جس کا میرے دل پر سخت بوجھ تھا۔ جیسے میں بے ادبی محسوس کرتا رہا الحمدﷲ کہ آج اِس کی تلافی ہو گئی۔اِس واقعہ سے چند سال پہلے دوران تدریس نوجوان طالب علم نے ایک رات قوالی سنی تو اُس کی شکایت استاد ِ محترم کو کی گئی جب استاد محترم نے طالب علم سے پوچھا تو مسجد کے قریب ہی ایک عابدہ مائی رہتی تھی جو سلطان باہو ؒ کی حضوری سے مشرف تھیں انہوں نے استادِ محترم سے کہا آج جس سید زادے کو تم ٹوک رہے ہو ۔ کل جب اِ س کے مقام اور مرتبے سے تم واقف ہو گے تو اِس کے تم پاؤں تک چومو گے ۔ یہ سید زادہ بہت کمال کا بچہ ہے اور اﷲ کے نزدیک بلند مقام والا ہے ۔ خدا کی شان اُس عابدہ مائی کی پشین گوئی کا ظہور اِس طرح ہوا کہ جب ہندوستان سے تعلیم مکمل ہو نے کے بعد خواجہ شمس الدین سیالوی سے مجاز ہوئے تو ایک مرتبہ عرس سیال شریف کے موقع پر یہ واقعہ پیش آیا۔اِس نوجوان سید زادے کی ولادت با سعادت کے متعلق آپ کے خاندان میں پہلے سے ہی بشارتیں چلی آرہی تھیں آپ کے خاندان کے بڑے بزرگ سید فضل دین صاحب جو آپ کے والد ماجد کے ماموں اور شیخ ِ طریقت بھی تھے اور اس وقت خاندان شریف قادریہ کی سند ِ ارشاد پر بھی جلوہ فِگن تھے وہ اِس بات سے آگاہ تھے کہ اِس گھر میں چشمہ معرفت جلوہ اَفروز ہونے والا ہے نیز اِس پیدائشی ولی کی پیدائش سے چند روز پیشتر ایک اہل حق مجذوب آپ کی خاندانی خانقاہ میں آکر ٹہر گیا وہ روزانہ عنقریب پیدا ہونے والے مقبول خدا کی زیارت کا ذکر کرتا وہ شدید انتظار میں تھا ۔جیسے ہی یہ اﷲ کا ولی دنیا میں ظاہر ہو ا تو مجذوب حرم سرائے کی ڈیوڈھی میں پہنچا اور آپ کو منگوا کر زیارت کی ہا تھ پاؤں چومے اور رخصت ہو گیا ۔یہی بچہ جوان ہو کر پیر مہر علی شاہ ؒ آف گولڑہ شریف کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوا ۔آپ یکم رمضان المبارک ۱۲۷۵ھ مطابق 14اپریل 1859ء میں راولپنڈی سے گیارہ میل کے فاصلہ پر قلعہ گولڑہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد سید نذر دین شاہ ایک صاحب کمال مجذوب بزرگ تھے آپ کا پیدائشی نام مہر منیر تھا مگر آپ نے مہر علی کے نام سے پوری دنیا میں شہرت پائی ۔سید مہر علی شاہ صاحب چار سال کی عمر میں ابتدائی تعلیم شروع کی ۔ آپ نے عربی فارسی اور صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی بچپن سے ہی ذہانت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو پارہ ایک روز پڑھتے وہ اگلے روز ازبر ہوتا اِس طرح آپ نے قرآن حکیم بہت جلد حفظ کر لیا ۔ دوران تدریس ایک بار قصیدہ غوثیہ کا عامل آپ کے مدرسے میں آیا تو تمام طلبا اُس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے مگر آپ ہنوز بیٹھے رہے یہ دیکھ کر عامل قصیدہ غوثیہ کو بہت غصہ آیا اور وہ مہر علی شاہ صاحب سے مخاطب ہو کر بولا پڑھوں قصیدہ غوثیہ کہ تم تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہو ۔ تو جواباً مہر علی شاہ صاحب بولے تم قصیدہ پڑھو اور میں قصیدے والے کو بلاتا ہوں۔یہ سن کر عامل آپ کے جلال معرفت کی تاب نہ لا تے ہوئے بے ہوش ہو گیا ۔بچپن سے ہی آپ کی پیشانی سے سعادت و انوار کے آثار نظر آتے تھے ۔ یہ آپ کی ذھانت اور درویشی کا روشن ثبوت تھا کہ اِس قدر نو عمری میں ہی وہ مشکل مراحل طے کر لیے جن سے اکثر انسان جوانی میں بھی نہیں گزر پاتے زمانہ طالب علمی میں ہی آپ معرفت کے اُس مقام پر تھے جہاں پہنچ کر نظر کے سامنے بہت سارے حجاب اٹھ جاتے ہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ جگہ جگہ گئے اکثر مالی مسائل بھی تنگ کرتے ۔لیکن آپ اِس قدر غیرت مند تھے کہ کسی آنکھ نے آپ کے دستِ طلب کو دراز ہوتے نہیں دیکھا آپ کسی دولت مند کے در پر آواز دینے سے بہتر یہ سمجھتے تھے کہ اتنی دیر اپنے خدا کو پکار وں اس سے مزید صبر و استقامت طلب کروں کیونکہ وہ یقینا بے نیا ز ہے اور اپنی اِس صفت عالیہ کے صدقے عنقریب وہ مجھے امیروں کے کرم سے بے نیاز کر دیگا دنیا سے بے نیازی کی یہ روش ساری عمر آپ کا خاصہ رہی ۔مسجد میں لوگوں سے ملاقاتیں ہوتیں تو زائرین کی طرف سے نذرانہ اور ہدایا کا سلسلہ بارش کی طرح جاری رہتا لیکن آپ گھر جانے سے پہلے سارے کا سارا غریبوں میں بانٹ دیتے ۔
1911ء میں دہلی میں منعقد ہونے والے بر طانوی شاہی دربار میں شمولیت کی جب آپ کو دعوت دی گئی تو آپ نے صاف انکار کر دیا ۔ حکومت نے بے ادبی سمجھتے ہوئے شروع میں آپ کو تنگ کرنا شروع کر دیا ۔لیکن جب انگریز سرکار کی ایذا رسانی آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکی تو بعد ازاں حکومت نے آپ کو سینکڑوں مربع اراضی بطور جاگیر دینا چاہی تو قلندرِ وقت نے انکار کر دیا ۔
پیر مہر علی شاہ صاحب کی زندگی کرامات سے بھری پڑی ہے لیکن کالم کی تنگ دامنی اِ سکی اجازت نہیں دیتی ۔مرزا غلام احمد قادیانی کذاب و دجال فتنہ جب پورے عروج پر تھا جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا تھا ۔ وہ اپنی زھانت چرب زبانی اور دلائل بازی سے بے شمار لوگوں کو زچ کر چکا تھا ہندوستان کے مسلما ن بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے کہ اشارہ غیبی کے تحت شاہ گولڑہ میدان میں آئے اور غلام احمدقادیانی کو مناظرے کو چیلنج کیا 25۱ور 26 اگست 1900کو لاہور شاہی مسجد میں مناظرہ طے پایا پیر مہر علی شاہ صاحب لاہور آگئے لیکن مرزا غلام احمد قادیانی آپ کے جلال معرفت سے ڈر گیا مختلف بہانے بناتا رہا وہ نہ آیا ۔ قادیانی با ربار مرزا غلام قادیانی کو بلاتے رہے لیکن وہ نہ آیا ۔شاہ گولڑہ نے کہا اگر تم سچے ہو تو ہم دونوں جلتے ہوئے تندور میں چھلانگ لگاتے ہیں جو سچا ہوگا وہ بچ جائے گا اور جو جھوٹا ہو گا وہ جل جائے گا ۔ لیکن مرزا غلام احمد فرار ہو گیا اور کبھی آپ کے سامنے مناظرے کے لیے نہیں آیا اِسی لیے آپ کو فاتح مرزایت بھی کہا جاتا ہے ۔ روحانیت شناس ابنِ عربی کی فتوحات ِ مکیہ اور فصوص الحکیم سے بخوبی واقف ہیں ہر دور میں لاکھوں میں کوئی ایک ایسا صاحب علم ہوتا ہے جو مندرجہ بالا کُتب کو سمجھ سکے پیر مہر علی شاہ صاحب مذکورہ دونوں کتب کو اپنے دور میں سب سے زیادہ جانتے اور سمجھتے تھے۔آپ اپنے حج کے احوال میں بیان فرماتے ہیں کہ وادی حمرا میں ڈاکووں کے خوف سے میں نے عشاء کی سنتیں وجہ مجبوری موقوف کر دیں تو رات کو مسجد نبوی میں خود کو پایا اور دیکھا کہ نبی کریم ﷺ تشریف لاتے ہیں اور مجھ کو نہیں بلاتے تو میں درخواست کرتا ہوں کہ حضور ؐ میں تو آپ کے دیدار کے لیے اتنی دور سے آیا ہوں لیکن آپ مجھے اپنے لطف و کرم سے محروم رکھ رہے ہیں تو آپ ؐ نے فرمایا تم نے میری سنتیں ترک کر دیں تو پھر لطف کا مطالبہ کیسا ۔اُسی وقت آنکھ کھل گئی فوراً دوبارہ نماز ادا کی اور حضور پاک ؐ سے عشق و محبت کی والہانہ لہر اور جذبات پیدا ہو گئے کامل استغراق طاری ہو گیا جذب اور مستی جب حد سے بڑھ گئی تو اپنی مشہور نعت اُسی شکر و جذب کی خاص حالت میں کہی کہ قیامت تک آپ امر ہو گئے ۔محترم قارئین جب بھی کوئی تلاش حق کا مسافر اﷲ کی توفیق سے عبادت و ریاضت ،ذکر اذکار مجاہدے اور روحانی اشتعال کے بعد بہت ساری منزلیں طے کر لیتا ہے تو خالقِ کائنات اپنے اِس بندے کو قیامت تک کے لیے امر کر دیتا ہے دیدار ِ مصطفی ﷺ کے بعد حالت ِ جذب جو نعت آپ نے کہی اُ سکے چند اشعار :
اَج سک مِتراں دی ودھیری اے 
کیوں دِلڑی اُداس گھنیری اے 
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے 
اَج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں 
کِتھے مہر علی کتھے ّ تیری ثنا 
گستاخ اکھیاں کِتھے ّ جا اڑیاں

loading...