جمعہ، 16 مارچ، 2018

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر(8)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر(8)مسجدِ نبوی کا وسیع و عریض دامن شمعِ رسالت ﷺ کے پروانوں سے بھر چکا تھا ۔ لیکن لاکھوں عاشقانِ رسول ﷺ ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ مدینہ پاک کی طرف دیوانہ وار بڑھ رہے تھے ۔ چودہ صدیوں سے وقت شبُ روز کئی کروٹیں بدل رہا ہے ۔ہر بدلتی کروٹ اور نئے دن کے ساتھ پروانوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے ۔ فضاؤں میں پھیلی درود و سلام کی مشکبو گونج کیفُ و سرور کی لذتیں بکھیر رہی تھی ۔ پروانوں کی آنکھوں میں شوق و اشتیاق دید کی ہزاروں شمعیں روشن تھیں ۔دنیا کے چپے چپے سے آئے یہ لاکھوں پروانے مختلف خدوخال ، زبان اور تہذیب رکھنے کے باوجود اپنے چہروں کو عشقِ رسول ﷺ کے نور سے سجائے ہوئے اِس گوشہ عافیت میں جمع تھے ۔ اِن پروانوں کی یہاں موجودگی بتا رہی تھی کہ کائنات کہ ہر شے فخرِ دو عالم ﷺ کی محبت میں گرفتار ہے ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ چپہ چپہ آمنہ ؓ کے لال ﷺ کی محبت میں تو گرفتار ہے ہی اصل میں اِس کائنات کا مالک خالق ِارض و سما بھی بھی شہنشاہ ِ دو عالم کی محبت میں گرفتار ہے ۔ اپنے محبوب نبی کریم ﷺ کے نور کی تخلیق سے پہلے نور عشقِ الہٰی اپنے ہی گرد محوِ طواف رہتا تھا ۔ کیونکہ اِس نور کے اندر اپنے محبوب ﷺ کا عکس اور نور چھلکتا تھا۔ یہ سلسلہ ہزاروں سالوں تک اِسی طرح جاری و ساری رہا ۔صدیوں پر صدیوں گزرتی چلی گئیں اور محبت کا یہ طواف اِسی طرح جاری رہا ۔ پھر خالقِ ارض وسما نے اپنے محبوب ﷺ کے نور کو وجود بخشا تو نورِ عشقِ الہٰی اِس طرف منعطف ہوا۔
حضرت ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ اِس طرح فرماتے ہیں۔جب اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب پاک ﷺ کا نور پاک پیدا فرمایا تو کہا:
انت عشقی وانا عشقک۔
اے میرے حسنِ ازلی کے مظہر اور میری قدرت کا شاہکار محبوب ﷺ آپؐ ﷺ میرے عشق ہیں اور میں آپ ؐ ﷺ کا عشق ہوں ۔ اور پھر وہم و گمان سے بھی ماورا صدیوں تک محبوب کے نورانی جلوؤں میں مد غم رہا یہاں تک کہ نور عشقِ الہٰی نے اپنے محبوب ﷺ کے نور سے قرار پکڑا اور 18ہزار عاملین کی مخلوقات پر یہ عیاں ہو گیا کہ کائنات تخلیق کرنے کی وجہ صرف اﷲ رب العزت کے محبوب کی ذات با برکات اقدس و مقدس ہے اگر اس نے اپنے محبوب کا نو رپاک تخلیق نہ کیا ہوتا تو کائنات بھی تخلیق نہ کی جاتی اِس کائنات کی تخلیق اِس ذات کبریا کے محبوب ﷺ کے نور ِ پاک کی مرہون ِ منت ہے محورِ عشق و محبت صرف محمد ﷺ جو اﷲ رب العزت کے آخری رسول ﷺہیں صرف ان کی مایا ناز ہستی اور ستودہ صفات ہستی و شخصیت ہے جس سے اﷲ رب العزت خود بھی محبت فرماتا ہے اور تمام سماوی و ارضی اور آبی و فضائی مخلوقات کے لیے بھی یہ حکم ہے ۔
میرے محبوب ﷺ سے محبت لازمی اور ابدی ہے ۔
اگر اس کے محبوب ﷺ سے محبت نہ کی جائے تو یہ محبت نقش بر آب سے زیادہ نہیں اصحابِ چشم بینا ان حقائق کی روشنی میں پکا ر پکار کر کہتے ہیں اﷲ تعالی محبوب ﷺ نہیں مگر اس سے جدا بھی نہیں ۔ پھر خالق ارض و شما نے اپنے محبوب کے نور کو حضرت آدم ؑ کی جبیں مبارک میں رکھا پھر اُنہیں زمین پر اُتارا اور نسلِ انسانی کا آغاز ہوا ۔ پھر نورِ محمدی ﷺ سفر کرتا ہوا حضرت شیثؑ کی روشن پیشانی پر جگمگایا تو ربِ کعبہ نے حضرت آدم ؑ پر وحی بھیجی اے آدم ؑ پنے بیٹے شیثؑ سے عہد لیں اور وصایا و مواثین پر کار بند یں کہ وہ نورِ محمدی ﷺ کو کسی صورت بھی ناراض نہ کریں اور وصایا نسل در نسل جاری رہیں ۔کعب احبار سے روایت ہے حضرت آدم ؑ نے اپنے بیٹے شیث ؑ سے فرمایا ۔ اے میرے بیٹے تم میرے بعد میرے جانشین ہو تم تقوی اختیار کرو اور جب بھی اﷲ تعالی کا ذکر کرو تو اس کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کا اسم مبارک ضرور لو کیونکہ میں نے ان ﷺ کا نام ساق عرش پر اس وقت لکھا ہوا دیکھا جب کہ میں روح اور مٹی کی درمیانی حالت میں تھا ۔پھر میں نے تما م آسمانوں کا چکر لگایا تو میں نے اس ہستی ﷺ کی شان محبوبیت کا بارگا ہ ِ رب العزت میں یہ عالم دیکھا کہ آپ ﷺ کا نام پاک محمد ﷺ بھی اﷲ تعالی کو اتنا پیارا ہے کہ آسمانوں میں کوئی جگہ ایسی نہیں دیکھی جہاں محمد ﷺ کا نام نہ لکھا ہو میرے رب نے مجھے جنت میں رکھا تو میں نے جنت میں کوئی محل ، کوئی بالا خا نہ کوئی دریچہ ایسا نہ دیکھا جس پر اسمِ محمد ﷺ تحریر نہ ہو ۔ اے میرے بیٹے میں نے محمد ﷺ نام حوروں کے سینوں پر فرشتوں کی آنکھوں کی پتلیوں میں شجرِ طوبی اور سدرۃ المنتہٰی کے پتوں پر لکھا دیکھاہے تم بھی کثرت کے ساتھ اُن کا ذکر کیا کرو کیونکہ فرشتے بھی ہر وقت ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔ 
حضرت آدم ؑ اپنے بیٹے حضرت شیثؑ کو نصیحت کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں ۔اے پیارے بیٹے میری جبیں سے منتقل ہو کر تمھاری پیشانی میں جو یہ نور چمک رہا ہے وہ نورِ محمدی ﷺ ہے جو انبیاء کرام کے سرتاج اور نبی آخر الزمان ﷺ ہیں ۔بیٹا توجب بھی اﷲ کا نام لیا کرے تو محمد ﷺ کے نام سے اﷲ کے نام کو سجایا کر کیونکہ ذکرِ محمد ﷺ کے بغیر ذکرِ الہی میں رونق نہیں آتی ۔ اِسم اﷲ اس وقت جمال کمال کا مظاہرہ فرماتا ہے جب اس کے ساتھ اس کے کمالات کا حقیقی مظہر محمد ﷺ آ جا تا ہے ایک روایت میں آتا ہے ۔ حضرت شیثؑ نے اپنے والد حضرت آدم ؑ سے دریافت فرمایا والد صاحب آپؑ ہمیشہ بڑی تر غیبی اندا ز میں نبی آخرالزمان ﷺ کا وصف بیان کرتے آئے ہیں ذرا اتنا تو بتا دیں کہ آپ ؑ میں اور نبی آخر الزماں ﷺ میں کیا فرق ہے حضرت آدم ؑ یہ سن کر خوف و حیرت سے فرمانے لگے ۔ اے جانِ پدر محمد عربی ﷺ کے ساتھ میرا مقابلہ ہر گز نہ کرنا ان کی بزرگی و شرف کا اندازہ ان کی امت کا موازنہ میرے ساتھ کرنے سے تجھے پتہ چل جائے گا کہ ان کا مرتبہ میری قوت رسائی کی حد سے بعید ہے بیٹا غور سے سن اور یاد رکھ ۔ مجھ سے بے خیال میں ایک بھول ہو گئی تھی تو بحُکم اِلہٰی میرا ستر نکل گیا میں بے ستر ہو گیا ۔ جنت کے پتوں سے ستر چھپانے کی کوشش کی تو پتے مُجھ سے بھا گنے لگے اور پناہ مانگنے لگے مگر امت محمد ﷺ ہزار گناہ دانستہ کرے گی پھر بھی اُن کا ستر نہیں کھُلے گا وہ بے ستری سے بچ جائیں گے اور میں نہ بچ سکا ۔بیٹا ایک خطا مُجھ سے سر زد ہو گئی تھی ۔مجھے گھر سے نکا ل دیا گیا فرشتوں نے ملامتیں کیں مگر اُمت ِ محمدی ﷺ گناہوں پر گناہ کرے گی لیکن اُن کو بے گھر نہیں کیا جائے گا ۔ فرشتوں کو ملامت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہو گی ۔اے بیٹے تیرے والد کے بے جان ڈھانچہ میں اس وقت تک روح نہ داخل ہونے پائی جب تک میری جبیں پر نو رِ خدا کا قدم نہ آیا یعنی مجھے جان ملی تو صرف فخرِ دو عالم ساقی کو ثر ﷺ کے دم قدم سے ۔

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر(7)

عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر(7)آخر تاریخ کائنات کی غم ناک ترین ساعت آگئی تھی ‘نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان رفیق اعلی کے پاس جا چکے تھے ۔ درودیوار ساکت تھے ۔ عجیب غم اورسناٹے کا علم تھا ۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہر ذی روح زندگی کی حرارت سے محروم ہو گیا ہو ۔ آج عاشقان ِ رسول ﷺ کے چہروں پر وہ رونق نہیں تھی جِسے زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ غم ، جدائی اور اداسیوں کی بارش ہو رہی تھی ہر شے نے ماتمی لباس پہن لیا تھا ۔صحابہ کرام ؓ کو محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے نبضِ کائنات تھم سی گئی یہ سانحہ ِ عظیم نہایت کرب ناک جاں گداز و المناک تھا۔عاشقانِ مصطفے ٰ ﷺ نے جدائی کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا ۔پروانے جدائی کے درد سے نڈھال و دل گرفتہ تھے ۔ہر آنکھ پر نم تھی مسجدِ نبوی ﷺپر ایک ہنگامہ برپا تھا ۔ فوری طور پر یارِ غار حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اطلاع دی گئی تو وہ فوری طور پر مسجد نبوی ﷺ آئے ‘پروانوں کی حالت غیر تھی‘ یارِ غار ؓ کسی سے بات کیے بغیر حجرہ عائشہ ؓ میں محسنِ انسانیت کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو گئے ‘ نبی کریم ﷺ کا جسدِ مبارک دھار دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا ۔رخِ انور سے چاد ر ہٹائی جبین ِ اقدس پر بوسہ دیا پھر محبت و عشق کی نظریں نو را نی چہرہ مبارک پر گڑھ گئیں آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا اور انتہائی کرب ناک آواز میں ادب سے کہا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں ، آپ ﷺ پر دو موتیں جمع نہیں ہو ں گی جو آپ ﷺکے لیے مقدر تھی اس کا مزہ چکھ لیا اِس کے بعد پھر کبھی موت نہ آئے گی‘ رخِ انور ﷺ پر چادر ڈالی اور حجرہ مبارک سے باہر تشریف لے گئے اور جدائی اور غم کے سمندر میں ڈوب گئے‘ رسول کریم ﷺ کی جدائی کی خبر فوراً پھیل گئی اہلِ مدینہ پر غم کے کئی پہاڑ ٹوٹ پڑے چاروں طرف تاریکیا ں پھیل گئیں ‘حضرت انس ؓ فرماتے ہیں جس دن سرورِ دو عالم ہمارے ہاں تشریف لائے اس سے بہتر اور تابناک دن میں نے کبھی نہیں دیکھا اور جس دن رسول اﷲﷺ نے وفات پائی اس سے زیادہ قبیح اور تاریک دن بھی میں نے نہیں دیکھا ۔ آپ ﷺ کی وفات پر آپ ﷺ کی لاڈلی بیٹی نے شدت ِ غم نڈھال فرمایا ۔ہا ئے ابا جان ؐجنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا ہائے ابا جان ؐ جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے ہائے ابا جان ؐ ہم جبرئیل کو آپ ﷺ کی موت کی خبر دیتے یارِ غار حضرت ابو بکر ؓ جو شاعر نہ تھے لیکن ہجر و فراق میں اِس طرح آپ کی جدائی میں بو لے ۔
کاش موت آتی تو ہم سب کو ایک ساتھ آتی آخر ہم سب اِس زندگی میں بھی ساتھ تھے ‘ اے کاش آپ ﷺ کی وفات کے قبل ہی کسی قبر میں اِس طرح دفن ہو جاتا کہ مُجھ پر پتھر ہو تے ۔اے کاش (اسی وقت میں بھی مر گیا ہو تا ) جس وقت مجھے خبر ملی اور لوگوں نے کہا رسول اﷲ ﷺ انتقال کر گئے ہیں ۔آپ ﷺ کے بعد غم و الم کیا کچھ مجھے آزار پہنچاتے رہیں گے جب میں یا دکروں گا کہ اب مجھے کبھی ﷺ کا دیدار نصیب ہو گا نبی کریم ﷺ کی وفات کی خبر سن کر حضرت عمر ؓ جیسے مضبوط دل و دماغ کے ساتھی رسول ﷺ کے ہوش گم ہو گئے ۔ انہوں نے کھڑے ہو کر کہنا شروع کر دیا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ آپ ﷺ اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں جس طرح موسٰی بن عمران ؑ تشریف لے گئے تھے اور پھر چالیس رات غائب رہ کر واپس آگئے تھے ۔ خدا کی قسم رسول کریم ﷺ ضرور واپس آئیں گے‘ غم و فراق سے عاشقان ِ رسول ﷺ کے جگر پارہ پارہ تھے دل و دماغ زخموں سے چور تھے اور آنکھیں دیدارِ شہنشاہ ِ کائنات ﷺ سے محروم ہو گئیں تھیں ‘مدینہ کی گلیاں ، کوچے اور راستے اور مسجدِ نبوی ﷺ کے مختلف گوشے جہاں آپ ﷺ خرام ناز فرمایا کر تے تھے آپ ﷺ کی جدائی میں اداس ، غمگین اور نڈھال تھے ۔ حضرت عثمان غنی ؓ کو جب رسول کریم ﷺ کے وصال کاپتہ چلا تو سناٹے میں آگئے اور چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہی اور بے اختیار لبوں سے نکلا۔
اے میری آنکھ خوب رو اوررونے سے نہ تھک اِ س لیے کہ آقا ﷺ پر رونے کا وقت آن پہنچا،حضرت علی ؓنے کیونکہ بچپن و جوانی سب سرورِ دو عالم ﷺ کے سایہ عاطفت میں گزارے تھے لہذا اِس جانکاہ صدمہ پر حضرت علی ؓ شیرِ خدا پر سکتہ کی سی حالت طاری ہو گئی جدائی کے غم نے شیرِ خدا کو نڈھال کر دیا تھا ۔آپ ؓ فرماتے ہیں ان کی موت کے بعد ہم پر ایسی تاریکی چھا گئی جس میں دن کالی رات سے زیادہ تاریک ہو گیا ہائے رات کو آنے والا مجھے جدائی کی خبر دے کر لرزا بر اندام نہ کرتا اور آواز دے کر ساری رات مجھے نہ جگا تا ۔
غرض جس نے بھی محسنِ انسانیت کی وفات کی خبر سنی سناٹے میں آگیا ۔آخر حضرت ابو بکر ؓ تشریف لائے صحابہ کرام ؓ آپ ؓ کے گرد جمع ہو گئے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے فرمایا اما بعد تم میں سے جو شخص محمد ﷺ کی پوجا کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد ﷺ کی موت واقع ہو چکی ہے اور تم میں سے جو شخص اﷲ کی عبا دت کر تا تھا تو یقینا اﷲ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے کبھی نہیں مرے گا ‘اﷲ تعالی کا ارشاد پاک ہے ۔محمد ﷺ نہیں ہیں مگر رسول ہی ان سے پہلے بھی بہت رسول گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ محمد ﷺ مر جائیں یا ان کی موت واقع ہو جائے یا وہ قتل کر دئیے جائیں توتم لوگ اپنی ایڑ کے بل پلٹ جاؤ گے ؟اور جو شخص اپنی ایڑ کے بل پلٹ جائے تو (یاد رکھیے کہ) وہ اﷲ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور عنقریب اﷲ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا سرور دو عالم ﷺ کے پروانے جو شدتِ غم سے حیران و پریشان تھے انہیں اب حضرت ابو بکر ؓ کا خطاب سن کر یقین آگیا کہ محسنِ انسانیت واقعی رحلت فرما چکے ہیں حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں وﷲ ایسا لگتا تھا کہ گویا لوگوں نے جانا ہی نہ تھا کہ اﷲ نے یہ آیت ناز ل کی ہے اور جیسے ہی ابو بکر ؓ نے اِس کی تلا وت کی تو سارے لوگوں نے اُن سے یہ آیت اخذ کی اور جب کسی انسان کو میں سنتا تو وہ اِسی کی تلاوت کر رہا ہوتا ۔حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا وﷲ جوں ہی میں نے حضرت ابو بکر ؓ کو یہ تلاوت کرتے ہوئے سنا تو انتہائی متحیر اور دہشت زدہ ہو کر رہ گیا حتی کہ میرے پاؤں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے میں زمین پر گر پڑا کیونکہ میں جان گیا کہ واقعی رسول اﷲ ﷺ کی موت واقع ہو چکی ہے ۔
منگل کے دن نبی کریم ﷺکے کپڑے اتارے بغیر آپ ﷺ کو غسل دیا گیا یہ عظیم ترین سعادت حضرت عباس ؓ حضرت علی ؓ حضرت عباس ؓ کے دو صاحبزادوں فضل ؓاور قشم ؓاور رسول کریم ﷺ کے آزاد کردہ غلاموں حضرت اسامہ بن زید ؓ ، شقرانؓ اور اوس بن خوبیؓکے حصے میں آئی‘ حضرت عباس ؓ، فضل ؓ اور قشم ؓ آپ کی کرو ٹ بدل رہے تھے‘ حضرت اسامہ ؓ اور شقران ؓ پانی بہا رہے تھے‘ حضرت علی ؓ غسل دے رہے تھے اور حضرت اوس ؓ نے آپ ﷺ کو اپنے سینے سے ٹیک دے رکھی تھی اِس کے بعد آپ ﷺ کو سفید یمنی چادروں میں لپیٹ دیا گیا ۔غسل کے بعد پانی کے چندقطرات جو محسنِ کائناتﷺکے گوشہ چشمان اور ناف میں جمع ہو گئے تھے وفورِ محبت میں شیرِ خدا ؓ نے پی لیے اُن مقدس قطرات کے طفیل حضرت علی ؓ کے علم و حفظ میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔آپ ﷺ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں فیصلہ نہیں ہو رہا تھا تو حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا میں رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کوئی نبی بھی فوت نہیں ہو امگر اس کی تدفین وہیں ہوئی جہاں فوت ہوا۔اِس کے بعد حضرت ابو طلحہ ؓ نے آپ ﷺ کا بستر مبارک اٹھا یا جس پر آپ ﷺ کی وفات ہوئی تھی پھر اُسی کے نیچے قبر کھودی ۔اِس کے بعد بار ی باری دس صحابہ کرام ؓ حجرہ انور میں داخل ہوتے اور نمازِ جنازہ پڑھتے ‘کوئی امام نہ تھا پہلے بنو ہاشم نے نماز ِ جنازہ پڑھی اِس کے بعد مہاجرین نے پھر انصار نے پھر مردوں کے بعد عورتوں اور بچوں نے بھی نماز جنازہ پڑی‘ منگل کا سارادن نماز جنازہ میں گزر گیا اور بدھ کی رات آگئی ۔پھر نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان محسنِ انسانیت ، فخرِ دوعالم ، مر سلین کے تاجدار ، سید ابرار ، نورِ مجسم وجہ باعثِ تخلیقِ کائنات ، فخرِ موجودات ، مظہرِ رحمت ، مخزن رحمت ، محسنِ عالم ، سرور کونین ، محسنِ اعظم ، مجسمِ رحمت ، ہادی عالم رحمتہ للعالمین ، آمنہ کے لال ﷺ کے جسدِ اطہر کو حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ انور میں سپر دِ خاک کر دیا گیا ۔وہ دن اور آج کا دن لاکھوں عاشقان رسول ﷺ روزانہ دنیا کے چپے چپے سے روضہ رسول ﷺ پر حاضری دینا اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت اور خوش قسمتی سمجھتے ہیں ۔پوری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں عاشقانِ رسول ﷺ کی درود و سلام کی صداؤں سے مسجدِ نبوی ﷺ کا کونہ کونہ قیامت تک اِسی طرح مہکتا رہے گا۔

loading...