محسنِ انسانیت فخرِ دو عالم نبوت و رسالت کے آفتاب و مہتاب انبیاء و مرسلین کے تاج دار نورِ مجسم ، شافع محشر سرورکونین محسنِ اعظم ،سیدالمرسلین ہادی عالم رحمتہ للعالمین محبوب خدا پیغمبرِ رحمت ﷺ منبرِ رسول ﷺ پر جلوہ آفروز ہونے اور عاشقانِ رسول ﷺ کی پیاس بجھانے کے لیے منبر ِ رسول ﷺ کی طرف بڑھتے ہیں۔ جب آپ ﷺ نے پہلی سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو باآواز فرمایا آمین پھر جب دوسری سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین پھر جب منبرِ رسول ﷺ کی تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین ۔ عاشقانِ مصطفے ﷺ آپ ﷺ کے باآواز آمین کہنے پر تھوڑے حیران تھے کہ آج شہنشاہِ کائنات ﷺ روٹین سے ہٹ کر باآواز آمین کیوں کہہ رہے ہیں تو آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو میرے پاس فرشتوں کے سردار جبرائیل امین ؑ آئے اور کہا اے سیدنا محمد ﷺ جس نے رمضان کو پایا اور اُس کی بخشش نہیں کی گئی اﷲ اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے میں نے کہا آمین پھر جبرائیل ؑ نے کہا جس نے اپنے ماں باپ ان میں سے کسی ایک کو پایا اِس کے با وجود وہ دوزخ میں داخل ہو گیا یعنی ماں باپ کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی اﷲ اُس کو اپنی رحمت سے دور کر دے میں نے کہا آمین پھر جبرائیل ؑ بولے جس کے سامنے محبوب خدا آپ ﷺ کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ ﷺ پر درود شریف نہ پڑھے اﷲ اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے تو میں نے کہا آمین ۔ محترم قارئین اب کہنے والا فرشتوں کا سردار ہو اور آمین کہنے والے نبیوں کے سردار ﷺ اور محبوب خدا ﷺ ہوں جن کی وجہ سے ہی کائنات تخلیق کی گئی ہو تا کیا ایسی دعا قبول نہ ہو گی ۔ روز اول سے قیامت تک شب و روز اِسی طرح چلتے رہیں گے اِن دنوں میں بہت سارے دن افضل ہیں یوں تو تمام زمانے ، سال ، مہینے ، دن رات اچھی ساعتیں اور صدیاں سب اﷲ تعالی کی ہیں ۔ تاہم رمضان المبارک کو اﷲ تعالی نے خاص اعزاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔رمضان میں ایک خاص روحانی اور جسمانی سر شاری اور کیفیت ہے قرآن مجید کے نزول اور روزے کا مہینہ قرار دے کر باقی مہینوں سے اعلی اور ممتاز مقام عطا کر دیا ہے ۔ ماہِ رمضان میں ہو نے والی عبادت کا درجہ کم از کم ستر گنا اور زیادہ کی قید نہیں ہے ۔ سرور کائنات ﷺ نے شعبان کے آخری جمعہ کے موقع پر خطبہ دیا وہ استقبال رمضان کے حوالے سے تھا ۔ رحمتِ دو عالم ﷺ نے فرمایا اے لوگوں تم پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جس کا اول رحمت وسط مغفرت اور آخر جہنم سے آزادی ہے ۔ اِس مہینہ میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اﷲ نے اِ س مہینہ میں روزہ فرض کر دیا ہے اور اِس کی رات میں قیام کو نفل کر دیا ہے جو شخص اِس مہینہ میں کوئی نیکی کر ے تو وہ دوسرے مہینہ میں فرض ادا کرنے کی مثل ہے اور جو شخص اِس مہینہ میں فرض ادا کرے تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے مہینہ میں ستر فرض ادا کیے یہ صبر کا مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں زیادتی کی جاتی ہے اِس مہینہ میں جو کسی روزہ دار کو افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کی مغفرت ہے اور اس کی گردن کے لیے دوزخ سے آزادی ہے اور اس کو بھی روزہ دار کے مثل اجر ملے گا اور روزہ دار کے اجر میں کو ئی کمی نہیں ہو گی صحابہ ؓنے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ ہم میں سے ہر شخص کی یہ استطاعت نہیں ہے کہ وہ روزہ دار کو افطار کر اسکے تو رحمتِ دو عالم ﷺ نے فرمایا اﷲ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرما ئے گا جو روزہ دار کو ایک کجھور یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ سے روزہ افطار کرائے یہ وہ مہینہ ہے جس کا اول رحمت ہے جس کا درمیان مغفرت ہے اور جس کا آخر جہنم سے آزادی ہے ۔ جس شخص نے اِس مہینہ میں اپنے خادم سے کام لینے میں کمی کی اﷲ اس کی مغفرت کر دے گا اور اس کو دوزخ سے آزاد کر دے گا اِس مہینہ میں چار خصلتوں کو جمع کر و دو خصلتوں سے تم اپنے رب کو راضی کرو اور دو خصلتوں کے بغیر تمھارے لیے کوئی چارہ کار نہیں ہے ۔ جن دو خصلتوں سے تم اپنے رب کو راضی کرو گے وہ کلمہ شہادت پڑھنا اور اﷲ تعالی سے استغفار کر نا ہے اور جن دو خصلتوں کے بغیر کو ئی چارہ نہیں ہے وہ یہ ہیں کہ تم اﷲ سے جنت کا سوال کرو اور اس کی دوزخ سے پناہ طلب کرو اور جو شخص روز دار کو پانی پلائے گا اﷲ تعالی اُس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا اسے پھر کبھی پیا س نہیں لگے گی حتی کہ وہ جنت چلا جائے گا ۔ سرور دو عالم محبوب خدا ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جس شخص نے رمضان کے مہینہ میں اپنی حلال کمائی سے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا تو رمضان کی تمام راتوں میں فرشتے اس کے لیے استغفار کر تے ہیں اور لیلۃ القدر میں فرشتوں کے سردار جبرائیل امین ؑ اس سے مصافحہ کر تے ہیں اورجس سے جبرائیل ؑ مصافحہ کر تے ہیں اس کے دل میں رقت پیدا ہو تی ہے اوراس کے آنسو نکلتے ہیں حضرت سلیمان ؓ نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ یہ فرمائیے کہ کسی شخص کے پاس افطار کرا نے کے لیے کچھ نہ ہو تو رحمت ِ دو جہاں ﷺ نے فرمایا ایسا شخص ایک مٹھی کھانا دے دے میں نے کہا یہ فرما ئیے اگر اس کے پاس روٹی کا ایک لقمہ بھی نہ ہو تو شافع محشر ﷺ نے فرمایا وہ ایک گھونٹ دودھ دے دے میں عرض کیا اگر اس کے پاس وہ بھی نہ ہو تو فرمایا وہ ایک گھونٹ پانی دے دے ۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رمضان آیا تو سرور کائنات ﷺ نے فرمایا ۔ تمھارے پاس رمضان آگیا ہے یہ برکت کا مہینہ ہے اﷲ تعالی تم کو اِس میں ڈھانپ لیتا ہے اِس میں رحمت نازل ہو تی ہے اور گناہ جھڑ جاتے ہیں اور اِس میں دعا قبول ہو تی ہے اﷲ تعالی اِس مہینہ میں تمھار ی ر غبت کو دیکھتا ہے سو تم اﷲ کو اس مہینہ میں نیک کام کرتے دکھا ؤ کیونکہ وہ شخص بد بخت ہے جو اس مہینہ میں اﷲ کی رحمت سے محروم رہا ۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ بیان کر تے ہیں فخرِ دو عالم ﷺ نے رمضان کا ذکر کیا اور تمام مہینوں پر اِس کی فضیلت بیان کی پس فرمایا جس نے رمضان کی حالت میں ثواب کی نیت قیام کیا نفلی نمازیں ادا کیں وہ گناہوں سے اِس طرح پاک ہو جائے گا جس طرح آج اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ایک بار پھر سحر خیزی کے لمحے جو بڑے دلآویز اور افطاری کے روح پرور مناظر جو ایمان افروز ہوتے ہیں ملے ہیں ۔ گویا جس طرح بہار کے آنے سے پورا موسم بدل جاتا ہے اِسی طرح رمضان کی آمد سے پورا ماحول بدل جاتا ہے ۔ رمضان خدا کا مہمان مہینہ ہے اور مہمان کا احترام ہر انسانی معاشرے میں احسن طریقے سے کیا جاتا ہے ۔
ہفتہ، 17 مارچ، 2018
رونا نہیں ہنسنا سیکھیں
وہ میرے سامنے رونی صورت بنائے پچھلے ایک گھنٹے سے بیٹھا تھا اور مایوسی رونے پیٹنے کی باتیں کیے جا رہا تھا ۔ میں بار بار اُس کو حوصلہ اور ہمت دینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ سوال پر سوال داغے جا رہا تھا میری مثبت بات کو منفی رنگ دے رہا تھا ۔ میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ اُس کو کسی طرح مطمعن کر سکوں لیکن وہ بے تکے سے بے تکا مایوسی اور مرنے مارنے والے سوال جواب کئے جا رہے تھے آخر تنگ آکر میں نے اُس سے کہا کہ آخر آپ چاہتے کیا ہیں تو وہ بولا میری زندگی کی ساری پریشانیاں ، ناکامیاں اور دکھ دور کردیں کوئی ایسا وظیفہ یا چّلہ بھی آپ خود یعنی میں کروں تاکہ میری زندگی ناکامیوں اور نامرادیوں کی بجائے خوشیوں کا گہوارہ بن جائے اُس کی باتوں سے میں آخر کار یہ اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ پوری دنیا کو ریمورٹ پر چلانا چاہتا تھا ۔ تصوراتی دنیا میں رہنے والا ایک بے عمل ، حساس اور فل آف ڈپریشن ، زندگی کی تمام آسائشوں کے باوجود وہ اُس نے رونا پیٹنا لگا ہوا تھا ۔ اُس کی ماں بے بسی کی تصویر بنے میرے سامنے بیٹھی تھی ماں کی آنکھوں میں امید کے دیپ روشن تھے وہ امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی کہ میں کوئی کرامت کر کے اُس کے مایوس اور مسلسل تنگ کر نے والے بیٹے کو چشم زدن میں ٹھیک کر دوں گا ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے مایوس نوجوان روزانہ میرے پاس آکراپنا اور میرا وقت بر باد کر تے ہیں اور میں اپنی فطری شفقت کی وجہ سے کوشش کر تا ہوں کہ شاید میرے اﷲ کو میرے اوپر اور اِن پر ترس آجائے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اِن مایوس نوجوانوں اور خواتین میں اکثریت ایسی ہو تی ہے جن کو کوئی بھی حقیقی پریشانی یا غم نہیں ہوتا یہ ناشکرے لوگ اﷲ تعالی کی موجود نعمتوں کو Enjoyنہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود سے گھر والوں سے معاشرے ملک اور خدا سے بھی ناراض نظر آتے ہیں آج میرے سامنے جو نازک مزاج نوجوان بیٹھا تھا اِس کا مسئلہ یہ تھا کہ موصوف نے شادی کی پہلی رات ہی اپنی دلہن پر پہلا حکم یہ چلایا کہ فوری طور پر واش روم جاؤ اپنے تمام زیورات اتا ر کر اچھی طرح منہ دھو کر تما م میک اپ اتا ر کر آؤ ۔ دلہن کی کاجل لگی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ وہ تو سہانے سپنے سجائے بیٹھی تھی اِس پاگل پن اور احمقانہ حرکت کے لیے بلکل تیا ر نہیں تھی لیکن شوہر کے بار بار کہنے اور آخر کار گرجنے پر بیچاری واش روم گھس گئی واپسی پر فرعون کی اولاد دلہا صاحب نے کہا تم نے میک اپ نہیں اتارا اب اُس کو لے کر خود واش روم گھُس گیا اور اب جلاد کی طرح اپنے سامنے اچھی طرح اُس کا میک اپ اتروایا اور پھر کمرے میں آکر کمرہ عدالت سجا کر خود جج بن کر بیٹھ گیا اب وہ بیچاری دلہن جو اِس پاگل پن کے لیے بلکل بھی تیا ر نہیں تھی مجرم بنے سر جھکائے جلاد صاحب کے سامنے کھڑی تھی ۔ شادی اور سہاگ رات کے سہانے خواب چکنا چور ہو چکے تھے آنسو کاجل لگی آنکھوں سے ٹپ ٹپ فرش پر گر رہے تھے دلہا صاحب کو معصوم اور بیچاری پر رحم آنے کی بجائے غصہ آرہا تھا کہ اُس کی غلطی پکڑی گئی ہے اِس لیے اب یہ رو رہی ہے دلہن بے چاری ہکا بکا حیران پریشان کہ کس جرم کی پاداش میں اُس کی تفتیش ہو رہی ہے وہ حیرت اور پریشانی کی دلدل میں ڈوبتی جا رہی تھی کہ میرے کس جرم کی سزا مجھے ملنے جارہی ہے ۔ دلہا کے چہرے پر طنز اور غصہ برس رہا تھا ۔ اب اُس نے زور زور سے قہقہ لگا یا اپنا دلہن کا بازو پکڑ ا اور کمرے سے باہر آگیا ۔ اور اپنی نئی نویلی دلہن کو گھر والوں کے سامنے بطور مجرم کھڑا کر دیا اور چیخ چیخ کہ کہنے لگا ہمارے ساتھ فراڈ ہو گیا ہے میں اِس دلہن کو ما ننے سے انکا ر کر تا ہوں ۔لڑکی کا جرم یہ تھا کہ اُس کے چہرے پر معمولی دانے تھے اور رنگ زیادہ صاف نہیں تھا الزام یہ تھا کہ جب بھی اِس کو دیکھنے گئے یہ تیز اور بھاری میک اپ کرتی تھی تا کہ اِس کے دانے نظر نہ آسکیں ۔ ماں باپ قدرے شریف تھے اُنہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بہت سمجھایا کہ بیٹا یہی لڑکی ہے اور دانے زیادہ نہیں ہیں رنگ بھی بُرا نہیں ہے ۔ اب دلہا صاحب نے دلہن کے ساتھ ماں باپ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر لیا کہ اِس جرم اور سازش میں میرے ماں با پ بھی شامل ہیں ۔ ماں باپ نے اپنے بیٹے کو بہت سمجھایا لیکن ساری رات کی عدالت کے بعد دلہا صاحب نے حکم صادر فرمایا کہ میں پوری تسلی کروں گا مجھے اور بھی بہت سارے اعتراضات ہیں محترم قارئین وہ ایسے اعتراض تھے کہ شرم سے میں آپ سے Shareنہیں کر سکتا ۔ بہر حال ایک ماہ تک یہ جنگ دلہن ، دلہا اور ماں باپ میں ہوتی رہی پھر کسی نے اِن کو میرا بتا یا تو آج یہ دلہا صاحب میرے پاس آئے ہوئے تھے یہاں بھی اپنی نفسیاتی منفی سوچ اور فطرت کی وجہ سے انہوں نے مجھے بھی عدالت میں کھڑا کر لیا اور مجھ سے بھی سوال جواب جاری تھے ۔ اِس دوران اس کی ماں نے مجھے الگ لے جاکر کہا کہ بچپن سے آج تک اِس نے ہمیں سولی پر لٹکایا ہوا ہے ۔ اعتراض اعتراض اور بس اعتراض یہ کبھی خوش نہیں ہو تا ۔ اب لمبی چوڑی نشست کے بعد یہ بار بار مُجھ سے پوچھ رہا تھا کہ مجھے خو شیا ں کب ملیں گی میں CSPافسر کب بنوں گا ۔ مجھے اُس بوڑھی ماں پر ترس آرہا تھا جو برسوں سے اِس کو بر داشت کر رہی تھی میں نے دونوں کو حوصلہ دے کر بھیج دیا لیکن مجھے اکثر ایسے ناشکرے لوگوں سے مل کر دکھ اور مایوسی ہو تی ہے۔دکھ سکھ زندگی کا لازمی حصہ ہے تاریخ انسانی کا کونسا انسان ایسا ہے جس پر دکھ ، بیماری ، بڑھاپا اور موت نہ طاری ہو ئی ہو ۔ بیاری ، صحت اِسی کا نام زندگی ہے ۔ سکھی لوگوں پر بھی مشکل وقت آجا تا ہے ۔ لیکن کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں موت اور رونے کا سامان کر نے لگتے ہیں ۔ زندگی اِن کے لیے بوجھ اور غمستان بن جاتی ہے ۔ جوانی میں اِن کو بڑھاپے کا غم لگ جا تا ہے اِس طرح یہ جوانی کے لطف بھی محروم رہتے ہیں ۔ اِن کو صحت کے ساتھ بیماری کا وہم چپکا رہتا ہے تو صحت کو کس طرح Enjoyکریں گے موت بر حق ہے لیکن زندگی بھی تو اﷲ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے بیماری بلا شبہ ایک آفت ہے لیکن صحت کتنی بڑی الہی عنایت ہے اِس پر انسان کو مسرور مطمعن شکر گزار ہو نا چاہیے ۔ دکھ پریشانی اگر زندگی میں لکھے ہیں تو ضرور آئیں گے لیکن اِس سے پہلے سکھ اور خوشیوں کا دکھوں اور غم میں بدل دینے اپنے اوپر ہر وقت حالت مرگ اور مایوسی کی چادر تان لینا نا شکری بھی ہے اور بے حوصلگی بھی، اﷲ اور اسلام اپنے پیروکاروں کو امید سے بھر پور حوصلہ مند دیکھنا چاہتا ہے ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...