ہفتہ، 17 مارچ، 2018

ہماری ماں حضرت عائشہ بنتِ ابو بکر صدیق ؓ(حصہ اول)

ہماری ماں حضرت عائشہ بنتِ ابو بکر صدیق ؓ(حصہ اول)سرتاج الانبیاء محبوب ِ خدا مجسمِ رحمت ﷺ کی محبوب اور وفادار بیوی اِس جہانِ فانی سے جا چکی تھیں ۔ پیارے آقا ﷺ کا اپنی محبوب بیوی سے 25سالہ خوبصورت ناطہ ٹوٹ چکا تھا ۔ آپ ﷺ جب بھی اپنی معصوم بیٹیوں کو دیکھتے تو دل بھر آتا ۔ معصوم بیٹیاں ماں کی جدائی میں غم کا پیکر بن چکی تھیں ۔ وہ کم سن تھیں اور قدم قدم پر انہیں ماں کی بہت ضرورت تھی ۔ آقائے دو جہاں ﷺ پر رسالت کی بہت بڑی ذمہ داری تھی جو آپ ﷺ نے ہر حال میں نبھانی تھی آپ ﷺ کی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب ؓ اور سیدہ رقیہ ؓ بنت رسول ﷺ تو خیر سے اپنے خاوند ابوالعاص بن ربیع اور حضرت عثمان غنی ؓ کے گھر آبا د تھیں ۔ جبکہ اصل مسئلہ تو معصوم شہزادیوں سیدہ ام کلثوم ؓ اور سیدہ فاطمہ ؓ کا تھا جن کو توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت تھی ۔ اِس کے ساتھ ساتھ محبوب خدا ﷺ کو بھی ایسی نیک خاتون خانہ کی ضرورت تھی جو نہ صرف بچیوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اُن کو ماں کی محبت دے سکے بلکہ جب آپ ﷺ گھر تشریف لائیں تو باعث راحت و سکون ہو ۔
چچا ابو طالب اور حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد کفار مکہ کے مظالم میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا ۔ آپ ﷺ جب بھی گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو بد قماش لوگ آپ ﷺ کو تنگ کرتے آپ ﷺ پر کوڑا کرکٹ پھینکتے جب آپ ﷺ گھر تشریف لاتے تو چہرہ مبارک گرد و غبار سے اٹا ہو تا تو معصوم شہزادیوں کے دل تڑپ اٹھتے اور رخساروں پر آنسو بہنے لگتے پھر معصوم شہزادیاں اپنے بابا جان کا سر اور چہرہ مبارک دھوتی اور ساتھ ساتھ کفار کو برا بھلا بھی کہتیں کہ وہ کیوں ہمارے بابا جان کو تنگ کرتے ہیں ۔ رسول عربی ﷺ اپنے جگر گو شوں کے آنسو دیکھ کر پریشان ہو جاتے لیکن اپنی بیٹیوں کو حوصلہ دیتے کہ رو نہیں اﷲ تعالی تمھارے باپ کی حفاظت کرے گا ۔ حالات تقاضہ کرتے تھے کہ تاجدارِ کائنات ﷺ اب دوسری شادی کر لیں ۔ انہی دنوں میں ایک دن تاجدارعرب و عجم ﷺ ایک دن گھر میں آرا م کر رہے تھے کہ عالم خواب میں حضرت جبرائیل ؑ سبز ریشمی پارچہ پر سیدہ حضرت عائشہ ؓ کی تصویر لائے اور عرض کیا ۔ یا رسول اﷲ ﷺ یہ خاتون دنیا اور آخرت میں آپ ﷺ کی زوجہ ہے ۔ بیوی کا چہرہ دیکھنے کے بعد آپ ﷺ نے خواب میں ہی ارشاد فرمایا اگر یہ خواب اﷲ تعالی کی طرف سے ہے تو ضرور پورا ہو گا اور ایک دن رب ذولجلال ایسی زوجہ ضرور عطا کرے گا ۔یہ خواب مسلسل تین رات آتا رہا اور یہ حضرت عائشہ ؓ کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ رسول کائنات ﷺ کو اُن کے آنے سے پہلے ہی ان کا چہرہ مبارک کے جمال پر انوار کا محب و مشتاق بنا دیا ۔ چند دن بعد ایک دن سرور کائنات ﷺ گھر میں تشریف فرما تھے کہ حضرت خولہ بنتِ حکیم ؓ حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان آپ ﷺ دوسرا نکاح کر لیں ۔ کس سے ؟ نبی کریم ﷺ نے دریافت کیا ۔ بیوہ اور کنواری دونوں طرح کے رشتے ہیں جسے آپ ﷺ پسند فرمائیں ۔ حضرت خولہ ؓ نے عرض کیا ۔بیوہ تو حضرت سودہ بنتِ زمعہ اور کنواری آپ ﷺ کے قریب ترین دوست اور عاشق زادحضرت ابو بکر ؓ کی صاحبزادی سیدہ عائشہؓ ہیں ۔ دونوں جگہ بات کرو ۔ نبی کریم ﷺ سے اذن پانے کے بعد حضرت خولہ بنتِ حکیم ؓ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے درِ دولت پر پہنچیں اس وقت وہ گھر پر نہیں تھے اُن کی اہلیہ محترمہ سے بات کی تو ماں نے کہا عائشہ ؓ کے باپ کو آنے دو اُن سے بات کروں گی پھر بتاؤں گی کل آنا اِس کے بعد حضرت خولہ بنتِ حکیم ؓ سیدہ سودہ ؓ کے والد زمعہ کے پاس آتی ہیں اور آنے کا مقصد بیان کیا باپ نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا مجھے ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں لیکن سودہ کی مرضی دریافت کر لو ۔ اب حضرت خولہ بنتِ حکیم ؓ اند ر حضرت سودہ ؓ کے پاس جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ تم سے شادی کر نا چاہتے ہیں کیا مرضی ہے ۔ حضرت سودہ ؓ نے سنا تو اپنی سماعت اور قسمت پر یقین نہ آیا کہ اِس عمر میں جبکہ پچاس سال سے تجاوز کر چکی ہے محبوب خدا ﷺ کا رشتہ آئے گا خوشی اور جذبات کا عجیب عالم تھا کہ ایسی دولت نایاب حاصل ہو گی کیونکہ حضرت سودہ ؓ قدیم الاسلام تھیں اور فدائیت کی حد تک اﷲ کے رسول ﷺ سے محبت کرتی تھیں بولیں خولہ ؓ میں رسول خدا ﷺ اپنے آقا اور مولا پر ایمان لائی ہوں وہ میرے ہادی و رہنما ہیں انہیں میری ذات کے بارے میں فیصلہ کر نے کا کلی اختیار ہے جس طرح چاہیں فیصلہ فرمائیں ۔ اگلے دن حضرت خولہ بنت حکیم ؓ دوبارہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے گھر گئیں وہ پہلے سے منتظر تھے گویا ہو ئے خولہ ؓ مجھے تمھارے توسط سے حضور اکرم ﷺ کا پیغام ملا ہے میرا جو تعلق نبی کریم ﷺ سے ہے اس کی روشنی میں کیا یہ جائز ہے عائشہ ؓ تو رسول اﷲ ﷺ کی بھتیجی ہیں ۔ میں حضور ﷺ سے اِس ضمن میں بات کروں گی پھر اطلاع دوں گی ۔ رسول اﷲ ﷺ نے ساری بات سننے کے بعد کہا ابو بکر ؓ صرف میرا دینی بھائی ہے نکاح جائز ہے۔
پھر حضرت سودہ ؓ سے آپ ﷺ کی شادی ہو گئی جنہوں نے اپنے آقا و مولا ﷺ کی بیٹیوں کی دیکھ بھال اپنی اولاد سے بڑھ کر کی ۔ چند دن بعدحضرت ابو بکر ؓ نے حضرت خولہ ؓ کے ذریعے رسول خدا ﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپ رسول اﷲ ﷺ سے کہہ دیں کہ جب چاہیں عائشہ ؓ سے شادی کر لیں ۔ سیدہ حضرت عائشہ ؓ کی عمر محبو ب خدا سے نکاح کے وقت پندرہ سال ہجرت کے وقت اٹھارہ سال اور رخصتی کے وقت انیس سال تھی اور جو لوگ نکاح کے وقت چھ سال رخصتی کے وقت نو سال لکھتے ہیں وہ درست نہیں ہے ۔ میاں محمد سعید نے اپنی کتاب حیات ام المومنین ؓ میں معتبر حوالوں کے ساتھ اِس اہم موضوع پر روشنی ڈالی ہے ۔ 
ماہ شوال دس نبوی بعوض پانچ سو درہم حق مہر پر نبی کریم ﷺ کے نکاح میں سیدہ عائشہ ؓ آگئیں نکاح کے وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی لیکن اُس وقت رخصتی عمل میں نہ آئی اِس کو موخر کر دیا گیا جس کی حکمت رسول خدا ﷺ اور ان کا خدا ہی بہتر جانتے تھے ۔حضرت سیدہ عائشہ ؓ سے نکاح ایک تو حکم ِ ربی تھا دوسرا اپنے محبوب اور عاشق حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ساتھ تعلقات کی مضبوط بنیاد استوار کر نا اور غلط جہالت پر مبنی رواجوں کی قید سے لوگوں کو آزاد کرانا مقصود تھا ۔ جس نے انسانی معاشرے کو جہالت کے سمند میں غرق کیا ہوا تھا مثال کے طور پر منہ بولے رشتوں کو بنیا دبنا کر نکاح کے لیے جائز اور وسیع حلقے کو محدود کر دیا گیا تھا جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے اس دو ر جہالت میں منہ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح حرام خیال کیا جاتا تھا لہذا اِس جہالت پر مبنی رسم کا قلع قمع کر نا ضروری تھا ۔ لہذا محبوب خدا ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے نکاح کر کے اِس جہالت پر مبنی رسم کا خاتمہ کر دیا ۔

ہماری ماں حضرت خدیجہ ؓ

ہماری ماں حضرت خدیجہ ؓسر زمین ِ عرب کی سب سے امیر اور باوقار خاتون آرام فرما رہیں تھیں خواب میں ایک روح پرور نظارہ دیکھتی ہیں کہ آسمان سے آفتاب اُن کے گھر کے آنگن میں اُتر آیا ہے اُس کے نور سے گھر روشن ہے روشنی اور نور اتنا زیادہ ہو تا ہے کہ مکہ مکرمہ کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو اِس نور کی روشنی سے روشن نہ ہوا ہو ۔ اِس خوبصورت خواب سے جب وہ بیدار ہوتی ہیں تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو تی ہیں کہ بہت اچھا اور عجیب و غریب خواب تھا ‘انہوں نے اپنے طور پر اِس خواب کی تعبیر نکالنے کی بہت کوشش کی مگر وہ کوئی بھی نتیجہ نہ نکال سکیں پھر اُنہیں اپنے چچا زاد بھائی نو فل بن ورقہ کا خیال آیا جو اس دور کا مشہور عالم تھا ۔ اپنے خواب کی تعبیر کے سلسلے میں آپ ؓ اپنے اِس چچا زاد عالم فاضل شخص کے پاس گئیں اور اپنا خواب سنایا ۔ ورقہ بن نوفل نے توجہ سے خواب سنا تو اُس کا چہرہ خوشی سے روشن ہو گیا ۔ وہ بولا یہ بہت ہی مبارک خواب ہے اور کہا تم نبی آخر الزماں سے شادی کروں گی معزز خاتون کا بلکل یقین نہ آیا کہ کیا آخری نبی مجھے اپنی زوجیت میں لے لیں گے اُن کا ظہور کب ہوگا تو ورقہ بولا آسمانی کتب کے مطابق آخری نبی کے ظہور کا زمانہ یہی ہے خواب کی تعبیر سن کر آپ ؓ واپس آگئیں خواب کی تعبیر سن کر آپ ؓ کے اندر خوشی و انسباط کی لہریں اٹھ رہی تھیں کیو نکہ وہ اتنی بڑی سعادت کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں کائنات کی اِس عظیم خاتون کا نام خدیجہ بنت خو یلد ؓ تھا جو سر زمین عرب کی ارب پتی خاتون تھیں ۔ آپ ؓ حسین و جمیل عالی نسب اور سر زمین عرب کی بہت بڑی رئیسہ تھیں قریش کے اکابرین و اشراف آپ ؓ کو کئی بارنکاح کی درخواست کر چکے تھے لیکن آپ ؓ ہر بار انکار کر دیتیں ۔ آپ ؓ کی ولادت پندرہ سال قبل عام الفیل قبیلہ بنو اسد میں ہوئی جو قریش کی ایک نہایت معزز شاخ تھی ان کے والد خویلدین اسد ۔ عرب کے امیر ترین انسانوں میں سے ایک تھے انہی دنوں میں جنگ حرب الفجار شروع ہوئی اِس جنگ میں حضرت خدیجہ ؓ کے والد شریک ہوئے اور داعی اجل کو لبیک کہا اور جہاں سے رخصت ہو گئے ۔ خاندانی پیشہ تجارت تھا باپ کے مرنے کے بعد سیدہ خدیجہ ؓ نے کاروبار میں دل چسپی لینی شروع کر دی ۔ ان دنوں محمد بن عبداﷲ ﷺ کے پاکیزہ اخلاق کی گواہی مکہ کی ہر گلی و کو چہ دے رہا تھا آپ ﷺ کو امین کے لقب سے پکارا جا تا ‘حضرت خدیجہ ؓ کی عقیدت نواز نگاہیں بھی کسی ایسے ہی اعلی فرد مقدس کی جستجومیں تھیں ۔ بصد ادب سامان تجارت ملک شام لے جانے کے لیے درخواست کی آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کے ذریعے معاملہ طے پا گیا ۔ حضرت خدیجہ ؓ کا غلام میسرہ ساتھ بھیجا ۔ اِس تجارت سے پہلے کی نسبت دو گنا منافع ہوا ۔ واپسی پر غلام میسرہ کے کہنے پر نبی کریم ﷺ حضرت خدیجہ کو ملنے گئے تاکہ نفع کے بارے میں بتا سکیں ۔
ظہر کا وقت تھا سیدہ خدیجہ ؓ دوسری عورتوں کے ہمراہ بالا خانے میں بیٹھی تھیں دیکھا کہ محمد بن عبداﷲ ﷺ اپنے اونٹ پر تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے اِدھر اُدھر سایہ کئے ہو ئے ہیں یہ مسحور کن منظر دیکھ کر حضرت خدیجہ ؓ حیران رہ گئیں آپ ؓ کے ساتھی عورتیں بھی حیران تھیں کہ اِس چلچلاتی دھوپ میں سوائے آپ ﷺ کے اوپر سایہ کے اور کہیں نہیں تھا ۔ جب آپ ﷺ آئے تو حضرت خدیجہ ؓ نے دروازے پر استقبال کیا اور خوش آمدید کہا تو نبی کریم ﷺ نے سفر شام اور تجارتی منافع سے متعلق گفتگو کی ‘حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کی ایمانداری اور اخلاق سے بہت متاثر ہو ئیں اور طے شدہ منافع سے دو گنا منافع آپ ﷺ کو پیش کیا جب میسرہ آیا تو حضرت خدیجہ ؓ نے بڑی حیرانگی سے کہا کہ محمد بن عبداﷲ ﷺ کے اوپر سایہ تھا تو وہ بولا میں نے شام کے سفر میں بہت کچھ دیکھا اور سنا جب بھی ہمارا قافلہ چلتا اور دھوپ تیز ہوتی تو دو فرشتے آپ ﷺ پر سایہ کر دیتے ۔ میسرہ نے دوران سفر بہت سارے روح پرور واقعات کا ذکر کیا تو حضرت خدیجہ ؓ کو اپنا وہ خواب یا د آگیا اور سوچنے لگیں کیا محمد بن عبداﷲ ﷺ نبی آخر الزمان ہیں پھر حضرت خدیجہ ؓ نے اپنی سہیلی نفیسہ کے ذریعے آپ ﷺ کا شادی کا پیغام بھیجا اور پھر آپ ﷺ کی ایما پاکر اکابرین خاندان کی موجودگی میں آپ ﷺ سے نکاح ہو گیا اور اپنا سارا مال نبی کریم ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا کہ آپ ﷺ جس طرح چاہیں استعمال فرمائیں ۔ حضرت خدیجہ ؓ کے پاس بے شمار باندیا ں اور غلام تھے لیکن آپ ﷺ کی محبت نے یہ گوارا نہ کیا کہ کوئی اور آپ ﷺ کی خدمت کرے اِس سعادت کو وہ خود سمیٹنا چاہتی تھیں آپ ﷺ کا سارا کام وہ خود کرتیں ‘امارت کا مزاج دوسروں سے خدمت و ادب کروانا اور دوسروں سے ایثار و قربانی طلب کرنا لیکن جب کسی سے دلی محبت ہو جائے تو معاملہ الٹ ہو جاتا ہے۔ اور جب شہنشاہِ دو عالم ﷺ نے نزول وحی کے بارے میں اپنی محبوب زوجہ کو بتایا تو انہوں نے کہا بے شک آپ ﷺ سچ کہتے ہیں اور جب اعلانِ نبوت فرمایا تو آپ ؓ فوراً ایمان کے آئیں ۔ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نبی کریم ﷺ کی جان کے دشمن بن گئے تو آپ ؓ اپنے محبوب خاوند کے بارے میں بہت فکر مند رہتی تھیں اگر آپ ﷺ کو گھر آنے میں دیر ہوجاتی تو طرح طرح کے وساوس دل و دماغ کو گھیر لیتے اور آپ ؓ اپنے محبوب خاوند کی تلاش میں ایک رات نکل پڑئیں تو راستے میں ایک شخص ملا تو اُس سے حضوراکر م ﷺ کے بارے میں پوچھا اور آپ ؓ ڈر بھی گئیں کہ کہیں کوئی بد خواہ نہ ہو جو آپ ﷺ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہو ۔ اِس بات کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو پیارے آقا ﷺ نے فرمایا جبرائیل ؑ تھے اور مجھ سے کہہ گئے میں تم کو سلام پہنچا دوں اور جنت میں ایسا گھر ملنے کی بشارت سنا دو جو موتیوں سے بنا ہو گا ۔ ام المومنین سیدہ حضرت خدیجہ ؓ فطری طور پر شرافت پاکیزگی و طہارت کا مجسمہ تھیں ۔ نبی کریم ﷺ کی قربت نے ان کی سیرت و محاسن کو چار چاند لگا دئیے ۔ انہوں نے اپنی ذات کو رحمت ِ مجسم ﷺ کی ذات میں فنا کر دیا تھا ۔ ساقی کوثر ﷺ سے شادی کے وقت حضرت خدیجہ ؓ کی عمر چالیس سال تھی لیکن آپ ؓ کی سیرت خدمت گزاری دل پسند عادات وفا کش طرزِ عمل حُب ِرسول ﷺ سے آپ ﷺ کے دل میں ان کی انسیت و محبت پیدا ہو گئی تھی کہ کسی اور خاتون سے شادی کا خیال تک نہیں آیا حالانکہ اس معاشرے میں دوسری شادی کر نا عام بات تھی ۔ قریش کے مظالم سے تنگ آکر ابو طالب مجبوراً خاندان بنو ہاشم کے ساتھ شعب ابی طالب میں پناہ گزین ہوئے ۔ یہاں محصوری کے عرصہ میں حضرت خدیجہ ؓ کی صحت بہت متاثر ہو ئی کیونکہ آپ ؓ نے ساری عمر آرام و راحت میں ملکہ کی طرح گزاری تھی یہاں کی مشکلات نازک جسم برداشت نہ کر سکا شدید بیمار پڑ گئیں ۔پیارے آقا ﷺ نے علاج دل جوئی میں کو ئی کسر نہ اٹھا رکھی مگر وقت معین آگیا تھا رمضان المبارک دس سال نبوت میں آپ ﷺ کی محبوب بیوی نے اِس دنیا سے منہ موڑ لیا اور اپنے رحیم کریم شوہر اور کملی والی سرکا ر ﷺ کے سامنے دم توڑ دیا اس وقت سیدہ خدیجہ کی عمر پینسٹھ سال تھی ‘ربع صدی اپنے محبوب شوہر کی رفاقت اور خدمت گزاری میں بسر کی ‘حضور ﷺ نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا ۔ نبی کریم ﷺ اپنے محبوب بیوی کو قبر مبارک میں اتارنے کے لیے خود قبر اُترے اور اپنے ہا تھوں سے اپنی غم گسار اور محبوب بیوی کو سپر د خاک کیا نبی کریم ﷺ کو اپنی محبوب بیوی سے اس قدر محبت تھی کہ ساری عمر اُن کے رشتہ داروں اور ان کی سہلیوں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آتے تھے چنانچہ جب بھی قربانی کر تے تو سب سے پہلے سیدہ خدیجہ ؓ کی سہیلیوں کو گوشت بھجواتے اور بعد میں کسی اور کو دیتے ۔

loading...