ہوائیں دم بخود تھیں ‘فضا ئیں حیران تھیں ‘چشمِ فلک حیرت سے پلک جھپکنا بھول چکی تھی ‘نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان ‘سردار الانبیاء ‘محبوب خدا‘ سرور کائنات ﷺ نے 20رمضان کی صبح اسلامی لشکر کے ساتھ مکہ کہ طرف مارچ کیا ۔ سرور دو عالم ﷺ کے ارشاد کے مطابق حضرت عباس ؓ ابو سفیان کو اونچے ٹیلے پر لے گئے جہاں سے اسلامی لشکر کے دستے شہر میں داخل ہوئے دکھائی دے رہے تھے ۔ اِس میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ سردار ِ قریش ابو سفیان اہلِ مکہ کو بتا سکے کہ اب اسلامی لشکر کا مقابلہ ممکن نہیں ہے ‘علم بردار حضرت سعد بن عبادہؓ کا دستہ گزرا تو انہوں نے جوش میں نعرہ بلند کیا آج تو گھمسان کی جنگ کا دن ہے ‘رحمتِ مجسم ﷺ کو پتہ چلا تو اِس فخریہ نعرے کو ناپسند کیا اور دستے کی سرداری کا علم حضرت سعد بن عبادہ ؓ سے لے کر اُس کے بیٹے قیس بن سعد ؓ کے حوالے کیا اور عجز سے کہا آج تو کعبہ کی عظمت کا دن ہے اور پھر جب شہنشا ہِ دو عالم ﷺ کی اونٹنی مکہ شہر میں داخل ہو ئی تو اﷲ تعالی کے بخشے ہو ئے اعزاز ِ فتح پر فاتح کا سر عجز اور شکرانے پر جھکا ہوا تھا آپ ﷺ کا سر مبارک اتنا زیادہ جھکا ہوا تھی کہ داڑھی مبارک کے بال مبارک کجاوے کی لکڑی کو چھو رہے تھے اور زبان مبارک پر سورۃ فتح کی آیا ت مبارکہ جاری تھیں ۔ رسول اقدس ﷺ نے لشکر کی ترتیب یوں فرمائی تھیں حضرت خالد بن ولید ؓ کو داہنے پہلو پر رکھا انہیں حکم دیا کہ و ہ مکہ کہ زیریں حصے سے داخل ہوں اور اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے تو اُس کو زِیر کرتے ہوئے صفا پر آکر ملیں حضرت زبیر بن عوام ؓ بائیں پہلو پر تھے آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ مکے کے بالائی حصے یعنی کداسے داخل ہوں اور حجون میں آپ ﷺ کا جھنڈا گاڑ کر آپ ﷺ کی آمد تک وہیں ٹہرے رہیں حضرت ابو عبیدہ ؓ پیادے پر مقرر تھے آپ ﷺ نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ بطن وادی کا راستہ پکڑیں یہاں تک کہ مکے میں رسول خدا ﷺ کے آگے اتریں ‘حضرت خالد بن ویلد ؓ مکہ کے گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے کوہ ِ صفا پر رسول اﷲ ﷺ سے جا ملے ‘ادھر حضرت زبیر ؓ نے آگے بڑھ کر حجون میں مسجد فتح کے پاس رسول اﷲ ﷺ کا جھنڈا گاڑ دیا اور آپ ﷺ کے لیے قُبہّ نصب کیا پھر وہیں ٹہرے رہے ‘یہاں تک کہ رحمتِ دو جہاں ﷺ تشریف لے آئے اِس کے بعد فخرِ دو عالم یہاں سے آگے بڑھے ‘آگے پیچھے چاروں طرف موجود انصار و مہاجرین کے جلومیں مسجدِ حرام کے اندر تشریف لائے آگے بڑھ کر حجراسود کو چوما اور بیت اﷲ کا طواف کیا اِس وقت آپ ﷺ کے ہاتھ مبارک میں ایک کمان تھی ‘بیت اﷲ کے گرد اور اس کی چھت پر تین سو ساٹھ بت تھے آپ ﷺ اسی کمان سے ان بتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ترجمہ :حق آگیا اور باطل چلا گیا باطل جانے والی چیز ہے۔ حق آگیا اور باطل کی چلت پھرت ختم ہو گئی ۔ آپ ﷺ کی ٹھوکر سے بت چہروں کے بل گرتے جا تے تھے ۔ آپ ﷺ نے طواف اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر فرمایا اور حالتِ احرام میں نہ ہونے کی وجہ سے صرف طواف پر ہی اکتفا کیا ۔ پھر آپ ﷺ کے حکم پر خانہ کعبہ کھولا گیا آپ ﷺ اندر داخل ہو ئے تو تصویریں نظر آئیں جن میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی تصویریں بھی تھیں اُن کی تصویروں کے ہاتھ میں فال گیری کے تیر تھے رحمتِ دو جہاں ﷺ نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا اﷲ اِن مشرکین کو ہلاک کرے خدا کی قسم اِن دونو ں پیغمبروں نے کبھی بھی فال کے تیر استعمال نہیں کئے ‘آپ ﷺ نے خانہ کعبہ کے اندر بنی ہوئی لکڑی کی کبوتری بھی دیکھی جسے اپنے دستے مبارک سے توڑ دیا اور تما م تصویریں آپ ﷺ کے حکم سے مٹا دی گئیں ۔ ملائکہ کی تصویروں پر نظر ڈالی تو فرمایا غضب اﷲ کا فرشتے نہ تو مرد ہیں اور نہ ہی عورت ان کو مٹا دینے کا حکم فرمایا پھر جب کعبہ کی چھت پر نظر ڈالی تو ہر طرف بت ہی بت نظر آئے جنہیں دیوار کے ساتھ چونے کے ساتھ لگا یا گیا تھا ‘ہبل کعبہ کے بلکل وسط میں رکھ اہوا تھا آپ ﷺ اشارہ فرماتے جاتے اور بت خود ہی گرتے جاتے ۔ رسول دو جہاں ﷺ نے بیس سال جس مقصد کی دعوت دی تھی آج وہ دن آگیا تھا آج جھوٹے معبود وں سے خانہ کعبہ کو پاک و صاف کر دیا گیا ۔ تطہیرِ کعبہ کے فوراً بعد حضور اقدس ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو کعبہ کی چھت پر چڑھ کر آذان دینے کا حکم دیا اور پھر مکہ کے گلی کوچے اور گھاٹیاں سر مدی نور میں نہائی ہو ئی گونج سے چھلکنے لگے ۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی پھر رحمتِ دو جہاں ﷺ کی امامت میں مسلمانوں نے نماز ادا کی ۔ نماز کے بعد بیت اﷲ کے اندرونی حصے کا چکر لگا یا تما م گوشوں میں توحید کے کلمات کہے ۔ قریش مسجدِ حرام میں گردنیں جھکائے کھڑے تھے مسجدِ حرام کھچا کھچ بھر چکی تھی قریش مکہ کو انتظار تھا کہ آپ ﷺ ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں ‘آپ ﷺ خانہ کعبہ کے دروازے پر آئے ‘نیچے قریش کھڑے تھے سرور دو جہاں پھر قریش سے مخاطب ہو ئے اﷲ کے سوا کو ئی معبود نہیں ‘وہ تنہا ہے اس کا کو ئی شریک نہیں اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے جتھوں کو شکست دی ۔ اے قریش کے لوگوں اﷲ نے تم سے جہالت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کر دیا سارے لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ ترجمہ : اے لوگوں ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو تم میں اﷲ کے نزدیک سب سے باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو ‘بے شک اﷲ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے ۔ اِس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا قریش کے لوگوں تمھارا کیا خیال ہے میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کر نے والا ہوں تو قریش مکہ بولے آپ ﷺ کریم بھا ئی ہیں اور نیک بھائی کے بیٹے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی آج تم پر کو ئی سر زنش نہیں جا ؤ تم آزاد ہو ۔ مغرب جو پیارے آقا ﷺ پر انتہا پسندی کا الزام لگا تا ہے اُس کے لیے ذیل کا واقعہ سبق آموز ہے ۔ دعوت اسلام کے ابتدائی دنوں کی بات ہے ایک دن رحمتِ دو جہاں ﷺ کا دل کیا کہ خانہ کعبہ کے اندر جا کر عبادت کریں آپ ﷺ کعبہ کے چابی بردار عثمان بن طلحہ کے پاس گئے اور تھوڑی دیر کے لیے چابی مانگی تو عثمان نے انکار کر دیا تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا عثمان ایک دن آئے گا جب یہ چابیاں میرے پاس ہو نگیں اور میں جسے چاہوں گا دوں گا تو عثمان نے قہقہ لگایا اور بولا کیا اُس دن قریش مر جا ئیں گے ، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا نہیں وہ تو قریش کی سچی عزت کا دن ہو گا اور آج قریش سر جھکائے کھڑے تھے‘ رسول اقدس ﷺ کی آواز ابھرتی ہے عثمان بن طلحہ کہاں ہے تو خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزتا بوڑھا سامنے آیا اُس کا چہرہ خوف سے فق تھا آپ ﷺ نے فرمایا عثمان وہ دن یاد ہے جب میں نے تم سے چابی مانگی تھی عثمان سر جھکائے کھڑا تھا بولا جی حضور ﷺ ایک ایک بات یاد ہے ۔ چابیاں حضور ﷺ کے ہاتھ میں تھیں ‘حضرت علی سمیت معتبر صحابہ ؓ ان چابیوں کا تقاضہ کر چکے تھے رحمتِ دو جہاں ﷺ نے عثمان کو پاس بلایا چابیاں اُس کے ہاتھ پر رکھیں اور فرمایا جاؤ یہ چابیاں ہمیشہ تم اور تمھارے خاندان کے پاس رہیں گی یہ اعزاز ِ خاص آج بھی عثمان بن طلحہ کے خاندان کے پا س ہے ۔
ہفتہ، 17 مارچ، 2018
خیرالبشر علی حیدرؓ
قریش مکہ کے مظالم سے تنگ آکر رحمتِ دو جہاں ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے ۔ اہلِ مکہ مہاجرین مدینہ منورہ میں پر دیسی تھے اِس لیے رسول دوجہاں ﷺ نے ایک دن مہاجرین اور انصار کو ایک جگہ کیا ۔ اور ان کے درمیان رشتہ مواخاۃ کا عظیم سلسلہ قائم فرمایا اِ س لیے پہلے مہاجرین ِ مدینہ منورہ میں بطور مہمان تھے لیکن اب ان سے رشتہ اخوت و یگانگت میں بندھ گئے ۔ اِس رشتہ کے بعد اِن کے دلوں میں ایسی بے مثال اور حقیقی محبت اور خیر خواہی پیدا ہو گئی کہ حقیقی بھائیوں میں بھی نہیں ہو سکتی تھی ۔ اِس عظیم موقع پر ایک نوجوان جاں نثار کو شافع دو عالم ﷺ نے ویسے ہی چھوڑ دیا اِن کا رشتہ کسی سے قائم نہ فرمایا ۔ یہ جاں نثار نوجوان تھوڑا سا آزردہ ہو گیا آگے بڑھ کر بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض گزار ہوئے یا رسول اﷲ ﷺ آپ ﷺ نے تمام اصحاب ؓ کے درمیان مواخوۃ قائم کر ائی ہے لیکن میری مواخاۃ کسی سے بھی نہیں کرائی ‘سر تاج الانبیاء ﷺ شفقت سے مسکرائے اور اس جانثار نوجوان کا ہاتھ محبت سے پکڑ لیا اور شفقت بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہو ئے فرمایا تم میرے بھائی ہو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ رسول اﷲ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ سن کر نوجوان فرطِ مسرت سے بے قابو ہو گیا ہجرت کی شب مکہ سے روانگی کے وقت رحمتِ دو عالم ﷺ نے اِسی نوجوان کو اپنے بستر مبارک پر استر احت کا حکم دیا اور خود حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ساتھ سوئے مدینہ چل پڑے کفار مکہ نے نبی کریم ﷺ کے کاشانہ اطہر کا گھیرا کر رکھا تھا کہ آپ ﷺ کو قتل کر دیں گے(نعوذباﷲ ) اِس ہولناک رات میں اِس نوجوان کا موت کے خوف سے بے نیاز ہو کر محو استراحت ہو نا اِس بات کاعملی ثبوت ہے کہ یہ نوجوان آقائے دو جہاں ﷺ سے بے پناہ محبت کر تا تھا اور پوری زندگی ہر لمحہ سائے کی طرح رحمت دو جہاں ﷺ کے ساتھ لگا رہا کہ کوئی آپ ﷺ کو نقصان نہ پہنچا دے اِس عظیم جا نثار خوش بخت نوجوان جن کو محبوب خدا ﷺ نے دنیا اور آکرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور جن کی نسبت کو اِس نسبت سے تشبیہ دی جو حضرت موسٰی ؑ کو حضرت ہارون ؑ سے تھی سیدنا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ بن ابی طالب ؓ تھے ۔ سیدنا علی کی ولادت ۱۳ رجب ۳۰ عام الفیل بعثت نبوی ﷺ سے دس سال پہلے جمعۃ المبارک کے دن مکہ مکرمہ خانہ کعبہ کے اندر ہو ئی یہ سعادت صرف اور صرف آپ ؓ کے حصے میں آئی ۔ حضرت ابو طالب کی تنگدستی دیکھ کر حضور ﷺ نے ان کا بوجھ ہلکا کر نے کی تجویز سوچی کہ جب حضرت علی ؓ تھوڑے بڑے ہو ئے تو ان کو اپنی کفالت میں لے لیا گویا وہ 5سال سے محبوب خدا ﷺ کے دامن اقدس سے وابستہ ہو گئے اور آغوش ِ نبوت میں پر ورش اور تربیت پائی ۔ نبوت کے بعد جن چار نفوس قدسی کو سب سے پہلے اسلام کا شرف حاصل ہوا اِن میں سے ایک حضرت علی ؓ تھے ۔ آپ کا اسم گرامی علی ؓ ہے مشہور القاب حیدر۔ مرتضٰی اور اسد اﷲ ہیں کنیت ابو الحسن اور ابو تراب تھی ابو تراب کیونکہ محبوب خدا نے کہا تھا آپ اِس لیے اس کو بہت عزیز جانتے تھے کیونکہ یہ عطیہ رسول ﷺ تھی ۔ حسب نسب کے لیے اتنا کافی ہے کہ سرور کائنات ﷺ کے حقیقی چچا حضرت ابو طالبؓ بن عبدالمطلب کے فرزند تھے والدہ کا نام فاطمہؓ بنتِ اسد بن ہاشم تھا اِس طرح حضرت علیؓ ماں باپ دونوں طرف سے ہاشمی تھے ۔ حضرت ابو طالب نے قریش کے مقابلے میں شہنشاہِ دو عالم ﷺ کی جس طرح پرورش کی سرپرستی اور حمایت میں تن من کی بازی لگا دی وہ تاریخ اسلام کا ایک روشن و عظیم باب ہے اِسی طرح حضرت علی ؓ کی والدہ نے بھی حضور پر نور ﷺ کی نہایت محبت اور خلوص سے سر پرستی اور پر ورش کی جب انہوں نے وفات پائی تو نبی کریم ﷺ نے اپنی قمیض مبارک کا کفن پہنایا اور میت کے سرہانے کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا اے میری ماں اﷲ آپ پر رحم کرے آپ میری ماں کے بعد ماں تھیں آپ ؓ خود بھوکی رہتی تھیں مگر مجھے کھلاتی تھیں آپ ؓ کو خود لباس کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آپ مجھے پہناتی تھی گویا حضرت علی ؓ کے والد اور والدہ ماجدہ دونوں سرور کائنات ﷺ کے مربی اور محسن تھے حضرت علی ؓ صرف ابن عم مصطفے ؐ ہی نہیں تھے بلکہ آپ ﷺ کے مواخاتی بھائی بھی تھے اور آپ ﷺ کی لخت جگر سیدۃ النسا حضرت فاطمہ الزھرہ ؓ کے شوہر بھی ۔ قبول اسلام کے بعد حضرت علی ؓ نے بھی حضور اقدس ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کر دی ایک دن حضرت ابو طالب ؓ نے انہیں نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا بیٹا یہ کیا دین ہے جس پر تو چل رہا ہے تو انہوں نے کہا اباجان میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لا یا ہوں اور ان کی تصدیق کی ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے ابو طالب نے کہا محمد تمھیں بھلائی کے سوا کسی چیز کی طرف نہیں بلائیں گے تم ان کے ساتھ لگے رہو ۔ نبوت کے بعد رسول اقدس ﷺ نے بنو ہاشم کو کھانے پر بلایا تو چالیس آدمی مدعو تھے کھانے کے بعد سرور دو عالم ﷺ نے جب دین کی دعوت دی تو سب خا مو ش رہے لیکن حضرت علی ؓ نے اٹھ کر عرض کی اگرچہ میری عمر کم ہے تاہم میں آپ ﷺ کا ساتھ دوں گا اس وقت آپ ؓ کی عمر تیرہ برس تھی فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی ؓ ان دس ہزار سرفروشوں میں شامل تھے جن کو سرور دو عالم ﷺ کی ہمر کابی کا شرف حاصل ہوا اور جن کے بارے میں سینکڑوں سال پہلے یوں پیش گوئی کی گئی تھی ۔ خداوند سینا سے آیا اور شعر سے ان پر طلوع ہوا کوہِ فاران سے وہ جلوہ گر ہوا دس ہزار قدوسوں کے ساتھ آیا اور اس کے ہا تھ ایک آتشیں شریعت تھی ، حضور اقدس ﷺ نے فتح مکہ کے بعد کعبہ میں داخل ہو کر بتوں کو توڑا تو تانبے سے بنا ہوا سب سے بڑا بت رہ گیا کیونکہ یہ لو ہے کی ایک سلاخ کے ساتھ زمین میں پیوست تھا پیارے آقا ﷺ نے حضرت علی ؓ کے کندھوں پر چڑھ کر تو ڑنا چاہا لیکن وہ نہایت مضبوط ہونے کے باوجود حضور پر نور ﷺ کے جسم اطہر کا بار نہ سہہ سکے اِس پر محبوب خدا ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اپنے شانہ اقدس پر چڑھا کر اس بت کو گرانے کا حکم دیا انہوں نے سلاخ اکھاڑ کر اس بت کو گرا دیا ۔ اسلامی تاریخ کے نامور سپوت حضرت علی ؓ کو خدا نے بہت سارے امتیازات اور اعزازات سے نوازا ہے ان میں سے کوئی ایک اعزاز دنیا بھر کی ناموری اور آخرت کی سر خروئی کے لیے کافی ہے ۔ شیرِ خدا جنہیں برس ہا برس تک محبوب خدا ﷺ کی آغوش نصیب ہوئی نو عمر لوگوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا جن کی پیشانی پر دور جہالت میں بھی بت پرستی کا داغ نہ لگا جو خدا کے آخری نبی کے چچا زاد بھائی ہیں ۔ آپ ؓ کی شادی اُس جگر گو شہ رسول ﷺ کی صاحبزادی سے ہوئی جن کے احترام میں سردار الانبیاء ﷺ کھڑے ہو جایا کرتے تھے ۔ فتح خیبر کا عظیم اعزاز بھی آپ ؓ کا مقدر بنا ۔ جن صاحبزادوں میں ایک امام حسن ؓ ہیں جو اسلام اور امت کے وسیع تر مفاد اور اتحاد کے مسند اقتدار سے دستبردار ہو نے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور دوسرے شید الشہداء امام حسین ؓ ہیں جو آبروئے اسلام کی حفاظت اور ملتِ اسلامیہ کی وحدت برقرار رکھنے کے لیے حکمران وقت کے مد مقابل آنے کا جذبہ رکھتے ہیں علی ؓ جو ہر غزوہ میں رسول خدا ﷺ کے دوش بدوش رہے جن کا شمار عشرہ مبشرہ اصحاب بدر احد شرکائے خندوق اور عظیم خلفائے راشدین میں ہو تا ہے علی جن کو ایک سے زائد بار زبان پیغمبر سے مومن اور جنتی ہو نے کی بشارت ملی آپ ؓ کے ہی کے بارے میں رسول خدا ﷺ نے کہا علی ؓ تمھاری ہڈیوں کے گودے تک ایمان بھرا ہے آپ ؓ کے ہی بارے میں رسول ﷺ کا فرمان علی ؓ حق کے ساتھ ہے اور حق علی ؓ کے ساتھ ہے اور میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے اور میں علیؓ سے ہوں اور علیؓ مُجھ سے ہیں ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...