ہفتہ، 17 مارچ، 2018

محافظ

محافظوہ میرے سامنے مجسم التجا بن کر بیٹھی تھی ۔ ایک معصوم 18سالہ نازک اندام کمزور جسم کی مالک بیٹی جس کی آنکھوں اور چہرے پر خوف ، دکھ، دہشت کے خوفناک تاثرات واضح طور پر نظر آرہے تھے اُس کی آنکھوں میں التجا اور مدد کے تاثرات گہرے سے گہرے ہو تے جارہے تھے ۔ وہ بار بار دائیں بائیں دیکھ رہی تھی جیسے کو ئی اُس کا پیچھا کر رہا ہو مجھے وہ معصوم ہرنی کی مانند لگ رہی تھی جو شکا ری کتوں کے چنگل سے بھاگ کر آئی ہو خوف اور دہشت نے اُس کے نازک جسم کو جکڑا ہوا تھا ۔ کسی شدید خوف کی وجہ سے بار بار اُس کے جسم پر لرزا طاری ہو جا تا وہ بار بار مجھے کہہ رہی تھی کہ میں شدید خطرے میں ہوں پلیز میری بات فوری سن لیں شدت دکھ اور خوف سے اُس کا چہرہ بار بار زرد پڑ رہا تھا اور بولنے کے دوران اُس کے ہونٹ کا نپ رہے تھے ۔ وہ کسی جان لیوا خوف اور کشمکش میں مبتلا تھی ۔ وہ نوجوان تھی لیکن اُس کے چہرے پر نو جوانی کی تازگی نہیں تھی اُس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا ۔ اُس کی حالت بتارہی تھی کہ پتہ نہیں وہ مشکلات کے کتنے صحراؤں سے گزر کر آئی ہو ۔ مشکلات کی پتہ نہیں کتنی دلدلوں سے وہ گزر کر آئی ہو ۔ نازک سی بچی پر پتہ نہیں کون سی مصیبت یا ظلم ہوا تھا کہ وہ مدد مدد پکار رہی تھی اُس کی آواز چہرہ آنکھیں اور پورا جسم شدید دکھ اور درد میں مبتلا نظر آرہا تھا ۔ مجھے جلد ہی احساس ہو گیا کہ وہ کسی بڑی مشکل میں ہے اِس لیے میں شفقت سے لبریز لہجے میں اُس کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا بیٹی بتاؤ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہو ں ۔ میری شفقت دیکھ کر اُس نے رونا شروع کر دیا ۔ روتے روتے اُس نے اپنی جو دکھی داستان سنائی وہ سن کر میرے دل و دماغ کے سرکٹ بھی اُڑ گئے میرے جسم میں کئی آتش فشاں پھٹ پڑے اُس کی کرب ناک داستان یوں تھی ۔ سر ہم تین بہن بھائی ہیں میرے والد صاحب 5سال پہلے فوت ہو گئے تو میری ماں نے ٹیوشن اور لوگوں کے کپڑے سی کر ہماری پرورش کی رشتہ داروں نے چند ماہ تو ہماری خبر گیری کی لیکن آہستہ آہستہ تمام رشتہ دار ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ گئے ۔ اب اس ظالم معاشرے میں کوئی بھی ہمارا والی مدد گار نہ تھا ۔ اوپر سے لوگوں کی گندی نظریں عزت کو سنبھالنا بھی مشکل ہو گیا بڑی مشکل سے گزارا ہو رہا تھا میری ماں نے دن رات مزدوری کر کے مجھے ایف اے تک تعلیم دلائی دوسرے بہن بھائی مُجھ سے چھوٹے ہیں ۔ اب تین بچوں کی تعلیم جاری رکھنا بہت مشکل ہو گیا تھا ۔ لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اپنی ماں اور بہن بھائی کا ساتھ دوں گی اور اب کوئی نوکری کروں گی ۔ اب میں نے نوکری کی تلاش شروع کر دی میں نے دو پرائیویٹ نو کریاں کیں لیکن چند دنوں بعد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ میں غلط جگہ آگئی ہوں ۔ کیونکہ دونوں جگہوں پر چند دن بعد ہی ناجائز مطالبے شروع ہو گئے جب میں نے ان کے مطالبوں کو ماننے سے انکار کر دیا تو مجھے مختلف بہانوں سے تنگ کیا جانے لگا اور نو کری میرے لیے بہت مشکل بنا دی گئی ۔ جب یہ مشکل آخری حدوں سے بھی باہر گزر گئی اور مجھے احساس ہو ا کہ اب نو کری صرف ایک ہی صورت میں چلے گی کہ میں مالکوں کی ناپاک خواہشوں کی تکمیل کروں ۔ لہذا میں نے دونوں نو کریا ں چھوڑ دیں اور گھر بیٹھ گئی لیکن گھر بیٹھنے کے چند دنوں بعد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ اِس طرح زندگی کی گاڑی آگے نہیں بڑھے گی تو میں نے پھر نوکری کی بھاگ دوڑ شروع کر دی میری ایک دوست نے بتایا کہ اب تم کوئی سرکاری نوکری حاصل کرو ۔ سرکاری نوکری میں لڑکیاں با عزت نوکری کر سکتی ہیں ۔ پرائیوٹ نوکریوں میں جو بلیک میلنگ ہو تی ہے وہ گورنمنٹ کی نوکریوں میں نہیں ہو تی اب باعزت نوکری کے لیے میں نے مختلف جگہوں پر جانا شروع کر دیا ۔ سرکاری دفتروں نے دھکے کھانے کے چند دنوں میں ہی مجھے یہ احساس ہو گیا کہ سرکاری نو کری سفارش کے بغیر نہیں ملتی اب میرے پاس کوئی بڑی سفارش نہیں تھی ۔ جس کو استعمال کر کے میں سرکاری نوکری حاصل کر سکوں ۔ اِسی پریشانی اور بھاگ دوڑ میں کسی نے مجھے کسی بڑے آدمی کا بتایا کہ وہ تمھیں آسانی سے نوکری دلا سکتا ہے اب میں نے ہمت کی اور اُس کی کوٹھی پر چلی گئی مجھے وہا ں پر ایک کارڈ دیا گیا کہ آپ اِس ایڈریس پر فلاں دن آجاؤ آپ کی نوکری کا انتظام ہو جا ئے گا ۔ میں خوشی خوشی گھر آگئی اور اپنی ماں کو بتایا کہ میری ملاقات آخر کار ایک فرشتہ نما انسان سے ہو گئی ہے جس نے نو کری دینے کا وعدہ کیا اب میں اُس جگہ جاؤں گی تو مجھے نوکری بھی مل جائے گی ۔ اب میں شد ت سے اس دن کا انتظار کر نے لگی آخر مقررہ دن میں اُس جگہ پر پہنچ گئی ۔خلاف توقع اس بنگلے پررش بلکل نہیں تھا ۔ میں آنے والے بڑے طوفان سے بے فکر بڑے ڈرائینگ روم میں بیٹھی تھی کہ آخر اور انسان آگیا میں نے ادب سے سلام اور شکریہ ادا کیا کہ اُس نے مُجھ غریب پر ترس کھایا اور مجھے نوکری دلانے میں مدد کر رہے ہیں وہ میرے سامنے بیٹھ گیا وہ مجھے بہت غور سے دیکھ رہا تھا ۔ مجھے اچھی طرح دیکھنے کے بعد وہ بولا تم بے فکر ہو جا ؤ تم کو نوکری بھی ملے گی اور تمھاری باقی ضروریات بھی پوری کی جائیں گی ۔ اب اُس نے مُجھ سے نوکری کی درخواست مانگی اور کہا کہ میرے پاس آؤ اور مجھے درخواست دو میں نے جا کر اُس کو درخواست دینے کی کوشش کی تو اُس نے میرا بازو پکڑ کر اپنے پاس بیٹھا لیا ۔ اور ساتھ ہی میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی میرا محسن فرشتے سے شیطان بن چکا تھا ۔ مجھے شدت سے خطرے کا احساس ہوا کہ میں غلط جگہ آگئی ہو ں میں نے اﷲ تعالی کو یاد کیا اور ہمت کر کے باہر کی طرف بھاگی کمرے سے نکل کر مین گیٹ کو کھولا اور با ہر نکل کر دوڑنا شروع کر دیا وہ شیطان بھی میرے پیچھے بھاگا جب میں گلی میں آگئی تو اُس نے اپنے سیکورٹی گارڈ محافظ کو چلا کر کہا اِس لڑکی کو پکڑ کر لاؤ اِس دوران میں گلی کو موڑ کراس کر گئی اِسی دوران اُس کو سیکورٹی گارڈ موٹر سائیکل پر میرے پیچھے آتا نظر آیا تو اُس نے جلد ہی مجھے پکڑ لیا میں اُس کے قدموں میں گر گئی کہ اپنی بیٹیوں کے صدقے میں مجھے معاف کر دو اُس شیطان کے پاس لے کر نہ جاؤ اچانک اﷲ تعالی کی مدد آئی اور گارڈ کو مُجھ پر ترس آگیا اُس نے مجھے کہا چلو میں تمھیں تمھارے گھر چھوڑ کے آتا ہو ں پھر وہ مجھے میرے گھر چھوڑ گیا ۔ اگلے دن وہ گارڈ پھر میرے گھر آیا اُس شیطان کو پتہ چل گیا ہے کہ میں نے تمھاری مدد کی میرے ساتھی نے مجھے فون کر دیا کہ تم واپس نہ آنا تمھارے خلاف تھانے میں رپورٹ کرا دی گئی ہے کہ تم نے روپے اور زیورات چوری کئے ہیں تم جیسے ہی واپس آؤ گے پکڑے جاؤ گے ۔ وہ گارڈ اب رات دن چھپتا پھرتا ہے اور وہ شیطان شکاری کتے کی طرح اُس کے پیچھے پیچھے ہے ۔ اُس لڑکی کی داستانِ غم سن کر میری آنکھیں نمناک ہو گئیں وہ بار بار کہہ رہی تھی سر آپ دعا کریں وہ گارڈ جو میر ا محافظ تھااُس ظالم کے قابو نہ آئے ۔ پھر وہ بچی چلی گئی لیکن میری روح کو اُدھیڑ کر چلی گئی پتہ نہیں ہر روز کتنی ایسی مجبور بچیاں گھر سے نکلتی ہیں اور ایسے ہی شیطانوں کے ظلم کا شکار ہو کر اپنی نازک انگلیوں سے اپنے زخمی جسموں کے ریزہ ریزہ وجودوں کو چنتی ہیں ہمارے مردہ معاشرے میں جو اب ہڑپہ اور موہنجوداڑوں بن چکا ہے وہ یہاں کا ہر شہری بے حسی اور بے غیرتی کے ہاتھوں بیعت ہو چکا ہے مظلوم گھروں سے زینب جیسی کئی بیٹیاں نکلتی ہیں لیکن اِن مظلوم بیٹیوں کی آواز کو ئی نہیں سنتا ۔

مرنا نہیں جینا سیکھیں

مرنا نہیں جینا سیکھیںمیں روزانہ کی طرح جیسے ہی اپنے آفس کی کار پارکنگ میں پہنچا ابھی میں کار سے اترا بھی نہیں تھا کہ ایک نوجوان تیز ی سے میری کار کی طرف بڑھا اُس کی بے چینی اور بے قراری کی وجہ سے میں بھی جلدی سے باہر نکلا اور اُس کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا کہ کیا بات ہے تو اُس نے سلام کے بعد ایک بہت بڑی جیپ نما سیاہ جہازی گاڑی کی طرف اشارہ کیا کہ اُس گاڑی میں میرے مالک بیٹھے ہیں اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ مالک پورے غرور اور تکبر سے گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا کیونکہ گرمی کا موسم تھا اِس لیے وہ گاڑی کی آرام دہ نشست پر ACلگا کر بیٹھا تھا چند لمحوں کے لیے بھی وہ اپنے آرام کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ایک لمحے کے لیے بغاوت اور انکار کی لہر سے اُٹھی اور میرے دماغ کے سرکٹ کو ہلا کر چلی گئی یہ لہر یا کیفیت اکثر ایسے امیروں اور متکبروں کو دیکھ کر میرے جسم کے کئی سرکٹ ہلا دیتی ہے لیکن جلد ہی میں نے اِس باغی لہر کو قابو کیا اور اُس امیر زادے کی گاڑی کی طرف بڑھا ۔ ڈرائیور نے دوڑ کر دروازہ کھولا اور میں اُس امیر زادے کی ساتھ والی آرام دہ اور گداز نشست پر بیٹھ گیا باہر درجہ حرارت بہت گرم تھا جبکہ جاپانی گاڑی کے اندر کا ماحول بہت Coolاور آرام دہ تھا ۔ سیٹ پر بیٹھنے کے بعد میں اُس امیر زادے کی طرف متوجہ ہوا جو سپاٹ چہرے سے میری طرف دیکھ رہا تھا سلام دعا کے بعد میں نے اُس سے پوچھا فرمایے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں تو بولا بھٹی صاحب میرے کسی دوست نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اگر آج شام تک میرا کام نہ ہوا تو میں خود کشی کر لوں گا اور میری موت کے ذمہ دار آپ ہونگے ۔میں اُس کی اِس دھمکی کے لیے بلکل تیار نہ تھا۔ میرے چہرے اور آنکھوں کی فطری شائستگی اور شفقت کی جگہ تحیر کے بہت سے تاثرات ابھر آئے ۔ لیکن پھر بھی میں نے اخلاق اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور نرم لہجے میں اُس سے پوچھا کیو ں جناب میرا کیا قصور ہے جو آپ خود کشی کرنا چاہ رہے ہیں اور آپ کس طریقے سے مرنا چاہتے ہیں تو وہ بولا میں سمندر میں ڈوب جاؤں گا ۔ جناب خود کشی کی وجہ کیاہے تو امیر زادہ بولا میرے والد صاحب مجھے ہر ماہ خرچہ دے دیتے ہیں وہ کوئی کاروبار کیوں نہیں کراتے کوئی فیکٹری لگا کر کیوں نہیں دیتے ۔اُس سے گفتگو کے بعد جلد ہی میں جان چکا تھا کہ یہ ڈپریشن کا مریض ہے اور بات بات پر مرنے کی دھمکی دے کر ماں باپ سے اپنی فرمائشیں پوری کرتا ہے ۔ جب وہ بول چکا اپنے والد صاحب کے خلاف زہر اگل چکا تو میں بولا جناب خود کشی کے لیے سمندر ہی کیوں یہ کا م تو مینارِ پاکستان سے کود کر یا زہر کی گولیاں کھا کر بھی ہو سکتا ہے تو وہ بولا مجھے اِن کاموں سے ڈر لگتا ہے یعنی وہ خود کشی کے لیے بھی اپنی مرضی چاہ رہا تھا ۔ مجھے بھی وہ ڈرا دھمکا کر یہ چاہ رہا تھا کہ اُس کا والد سارا کاروبار اُس کے نام لگا دے ۔ جب کہ اُس کا لباس گھڑی موبائل اور گاڑی بتا رہی تھی کہ اُس کے والد صاحب نے اُس کی زندگی کی تمام آسائشیں دے رکھی ہیں ۔ وہ کافی دیر تک اپنے والد صاحب بیوی ماں اور بہن بھائیوں کے خلاف زہر اگلتا رہا اور میں خاموشی سے اُس کی بکواس سنتا رہا جب وہ اپنی بھڑاس نکال چکا تو مجھے خود کشی کی دھمکی دیتا ہوا چلا گیا۔ اِس امیر زادے کا رونا مایوسی اور خود کشی کی دھمکی کے بعد مجھے اپنے گاؤں کا وہ پہلوان یاد آگیا ۔ چند ماہ پہلے مجھے پتہ چلا کہ پہلوان صاحب بیمار ہو گئے ہیں پہلوان صاحب ایک شاکر اور زندہ دل آدمی تھے میں جب کبھی بھی ملا انہوں نے ہر بات پر اﷲ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ۔اِن کی گفتگو اور کمپنی زندگی سے بھر پور ہوتی تھی ۔ لہذا میں اُن سے ملنے ہسپتال پہنچ گیا مجھے باہر ہی اُس کا بیٹا مل گیا اُس نے بتایا کہ والد صاحب کا جگر کام کرنا چھوڑ چکا ہے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے اور پہلوان صاحب زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں مجھے یہ سب سن کر بہر دکھ ہوا انہی باتوں کے دوران ہم پہلوان صاحب کے کمرے میں داخل ہو ئے جہاں پر پہلوان صاحب بے شمار نالیوں اور نلکیوں میں جکڑے نظر آئے اُن کا پیٹ پانی سے بھر چکا تھا اور پھولا ہوا تھا چہرے پر صحت کی سرخی اور تازگی کی جگہ سیاہی آچکی تھی ۔ زندگی کے تاثرات نہ ہونے کے برابر تھے ۔ میری آنکھیں ایسے کسی منظر کے لیے بلکل تیا ر نہیں تھیں اِس لیے میں غم زدہ حیرت و استعجاب میں ڈوبا کسی سنگی مجسمے کی طرح پہلوان صاحب کو دیکھ رہا تھا ۔ ڈاکٹر اور نرسیں بے دردی سے اُس کو انجیکشن اور ڈرپس لگا رہے تھے لیکن پہلوان صاحب کسی بھی درد یا تکلیف کا اظہار کئے بغیر آرام سے لیٹے ہو ئے تھے ۔ میں حیران تھا کہ پہلوان کسی درد یا تکلیف کا اظہار کیوں نہیں کر رہے مجھے لگا شاید پہلوان صاحب بے ہوش ہو چکے ہیں لیکن جب ڈاکٹر اور نرسیں اپنا کام وغیرہ کر کے چلے گئے تو پہلوان صاحب کے کان میں اُس کے بیٹے نے میرا نام لیا توپہلوان صاحب نے فوری اپنی آنکھیں کھولیں اور بولے پروفیسر صاحب کیا حال ہے ۔ شدید بیماری ڈاکٹروں کے جواب دے دینا بیماری کا آخری درجہ ، لیکن اِس کرب ناک کیفیت سے دو چار ہو نے کے باوجود بھی پہلوان صاحب کے چہرے آواز اور لہجے کی شائستگی بر قرار تھی اُن کے ہونٹوں پر مخصوص شفیق تبسم ابھر آیا جن کو اﷲ نے مسکراہٹ کی اسی کرامت دے رکھی ہو اُس سے بڑا شاکر اور ولی کون ہو گا۔ پہلوان صاحب کو مسکراتا دیکھ کر میرے بکھرے اعصاب نارمل ہوئے اور میں ان کے پاس پڑے بینچ پر بیٹھ گیا اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور محبت بھر ی آواز سے پوچھا پہلوان جی کیا حال ہے مولا کا کرم ہے ستے خیراں نیں وہ اپنے مخصوص پنجابی لہجے میں بولے بیماری کی آخری سٹیج اور پہلوان صاحب کا اظہار تشکر ، مجھے حیرت زدہ خوشی نے گھیر لیا میں نے اُن کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں فرشتوں سی روشنی اور پاکیزگی کا تاثر شدید ہو تا جا رہا تھا ۔ اِس حالت میں بھی شکر ۔ میں نے اگلا سوال کیا پہلوان جی جب ڈاکٹر صاحب اور نرسیں آپ کو انجیکشن اور ڈریپس لگا رہے تھے تو آپ نے ایک بار بھی درد یا تکلیف کا اظہار نہیں کیا آپ کئی دن سے کچھ بھی نہیں کھا رہے پانی کاقطرہ بھی آپ کے حلق سے اترے تو باہر آجا تا ہے آپ کا پیٹ بار بار پانی سے بھر جاتا ہے اور تکلیف د ہ مرحلے کے بعد یہ پانی ڈاکٹر نکالتے ہیں اور آپ کو بلکل بھی درد نہیں ہو رہا اور بیماری کی شدید ترین حالت میں بھی آپ اﷲ کا شکر ادا کر رہے ہیں تومیری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ چکی تھیں میں بھیگی دھندلائی آنکھوں سے پہلوان جی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ پہلوان صاحب نے میری طرف دیکھا اور بولے پروفیسر صاحب میری عمر 65سال ہے صرف 10دن پہلے سے جب میں بیمار ہوا ہوں تو اس سے پہلے 65سال میرے منہ سے جو بھی دعا اور خواہش نکلی سوہنے رب نے پوری کی مجھے زندگی کی ہر نعمت سے نوازا اور آج اگر تھوڑی سی بیماری دی ہے تو رونا شروع کر دوں جس رب نے ہر خوشی دی اب اُس کی تھوڑی سی بیماری پر ناشکری کیسی میں اﷲ تعالی کی ہر عطا اور آزمائش پر کل بھی راضی تھا اور آج بھی اور آنے والے دنوں میں بھی رہوں گا ۔ میں پہلوان صاحب کا اظہار تشکر دیکھ کر شرمندگی اور ندامت کے سمندر میں غرق ہو چکا تھا ۔ مجھے لگا میرے سامنے ایک زندہ ولی لیٹا ہوا ہے میں نے پہلوان صاحب کے ہاتھ کو چوما اپنے سر پر رکھا اور کمرے سے باہر نکل آیا پہلوان صاحب آسمان سے بھی بلند اور میں خود کو مٹی کا کیڑا سمجھ رہا تھا ۔ ہر روز جب کوئی بے زار شخص مجھے مایوسی اور خود کشی کی دھمکی دیتا ہے تو مجھے پہلوان صاحب کا تشکر بھرا نورانی چہرہ یاد آجا تا ہے ۔

loading...