پیر، 15 جنوری، 2018

شہرسنگ دل

شہرسنگ دل
جاگنا کا فی نہیں ، بیدار ہو نا وقت کی ضرورت ہے ، بے حسی کی بپھری ہو ئی موجیںاخلاقی اقدار کو ساتھ بہائے لے جا رہی ہیںان کے آگے بند باندھناضروری ہے عملی طو ر پر اس کے تریاق کے لیے نگا ہ ودل کا جا گنا ضروری ہے شعور وفکر کو بید ار کر نا بھی اہم مزیدبراںضمیر بھی زندہ آباد کا علم سربلند رکھے اور زبان سے بھی کلمہ حق کے شعلے بلندہوں تو ہم کلیہ بید اری سے آشنا ہوتے چلے جاتے ہیں ،نگا ہ دوڑائیے تو ضمیر بے ضمیری کا شکا ر نظرآتے ہیں سو چنے سمجھنے کی صلاحیت بھی دم توڑ رہی ہے ،دانائی کے موتے بکھرنے والے بھی نہ جا نے کہا ں گوشہ نشین ہوگئے جہا ں نیندتو موجود مگر خواب دیکھنے کی نعمت سے محروم کردیا گیا یہی عکس نمائی ہے بے حسی کے پنچوں میں جھکڑے ہوئے معاشرے کی،بقول جمال احسانی 
ختم ہونے کوہیں اشکوں کے ذخیرے بھی جمال
 روئے کب تک کو ئی اس شہر کی ویرانی پر 
بروقت او ریقینی انصاف کی فراہمی کسی بھی معاشرے کے پنپنے اور دنیا کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی ضامن ہوتی ہے جہاں سچائی کو پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا جا تا ہے اور باطل کا جہاں تک ممکن ہو قلع قمع کہا جا تا ہے جہاں آزادی اظہار رائے کا احترام کیا جا تا ہے شہریو ں کو ان کے حقوق دیے جا تے ہیں ۔ اس معاشرے سے نہایت نفیس اور نکھری ہوئی اخلاقی اقدار نموپاتی ہیں ہم اپنے ارد گرد کے ماحول میں جب انصاف سے لے کر اخلا قی اقدار پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ان کی ضعیفی پر سر پکڑ کر رہ جا تے ہیں ظلم کے اس سرگرم با زارنے منیر نیازی والے کسی" شہر سنگ دل ـ"کی یا د تا زہ کردی ہے ۔ ایک مقدس پہاڑ عرب کے گوشہ شمال ومغرب میں واقع ہے جسے ـ'کو ہ طورـ' کے نا م سے یا دکیا جا تاہے حضرت موسی کلیم اللہ کو تجلی باری کے فیوض وبرکا ت سے اسی جگہ نواز ا گیا تھا ، اس واقعہ کو یا د کرتے ہوئے غالب نے بھی ایسا جواب ملنے کی طلب میں ـــ"آئونہ ہم بھی سیر کریں کو ہ طور کی ــ"کہہ ڈالا تھا ان کا شاعری پر مبنی یہ سوال کسی شاعردوست سے ہوتاتو لازماً جواب آں غزل کے طور پر جواب بھی مل جا تاتا ہم غالب ایسی خواہش ہر پاکستانی کے دل میں بھی موجزن ہے کہ معاشرتی وسیاسی ظلم وجبر کی سیاہ رات کا خاتمہ کوئی "چراغ طور ــــ" جلاکرکر ڈالے۔
 سیاسی شعبدہ بازیوں کے نئے نئے زایو ں سے عوام کے صبر کا پیما نہ لبریز ہورہا ہے کھوٹے نعرے اور جعلی تسلیاں بھلا کب تک عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں گے ، دس سال ہونے کو ہیں پنجاب میں بلاشرکت غیر ے خادم اعلیٰ کی حکومت ہے روزگار، صحت، تعلیم تو درکنار لوگوں کوتو جا ن ومال کے تحفظ کے بھی لالے پڑچکے ،تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کومدنظر رکھتے ہوئے کتنے نئے سرکا ری ہسپتال قائم کیے گئے اس سوال کا جواب جا ننے کے لیے بقراط ایسی سوچ ہرگزدرکا ر نہیں عوام کو جا ن ومال کا تحفظ فراہم کرنے کے لیے پولیس ریفارمز کے لیے چنداں کو شش نہیں کی گئی سیاسی تعیناتیو ں نے محکمہ پولیس کا بیڑا غرق کر دیا جس ڈی پی اوکے آرڈر سیاسی گھرانے سے ہوں گئے وہ بھلا کیوں عوام کے جا ن ومال کے تحفظ کے معاملہ میں آئی جی کو جواب دہ ہو گا ایساتھاتو قصور میں درجنوں درندگی کے واقعات پیش آئے ، پنجاب پولیس کے شیر دل جوانوں کی ذرا فرض شنا سی ملاحظہ فرمائیے کہ دوکلو میڑ کی حدود میں آٹھ بچیوں کی جا ن لینے والا درندہ پولیس کی گرفت میں نہیں آرہا ، درجن سے زائد درندگی کے واقعات پیش آنے کے بعد حکومت پنجاب اب کہیں جاکر اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ مجرم ایک ہی ہے جو با ربا ر معصوم بچوں کو ڈس رہا ہے اب کی باریہ اس لیے ہو ا کہ میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا پر لوگوں نے علم بغاوت بلند کر دیا ورنہ وہی ہو تاکہ متاثرہ خاند ان کے گھر جا ئو چند" خدمت "کے جذبوں سے لبرلیز ٹسوئے بہائو ، متعلقہ تھانہ کہ سربراہ کو چندروز کے لیے معطل کر دو ، فوٹو بنوائو اور میڈیا پر ٹکر چلوادو "خادم اعلیٰ نے واقعہ کا نوٹس لے لیا " گزارش یہ کہ پولیس کا نظام ٹھیک کیے بغیر لوگوں کے جان ومال کا تحفظ ممکن نہیں پولیس والوں نے یہ فرق مٹادیا کہ آئے پولیس مظلوموں کے تحفظ کے لیے ہے یا ظالموں کے سرپر دست شفقت رکھنے کے لیے اکثردیکھا گیا کہ وہ ظالموں کی پشت پنائی میںمصروف عمل نظر آئی عدالتوں میں کمزور کیس پیش کیے گواہوں کو تحفظ فراہم نہ کیا پولیس کی مندرجہ بالا "سہولت"سے ملزم چند روز ہی میں سلاخوں سے باہر آجا تا ہے ۔ 
 محکمہ پولیس میں سلیکشن ، ٹرینگ ، تعیناتی کا نظام فرسودہ ہو چکا ، نئے سرے سے ٹرینگ درکا ر ، سیاسی تعیناتیوں کا خاتمہ ، اخلاقیات ااور حالات حاضرہ کی بدلتی ہوئی دنیا کے مطابق ان کے لیے ایک سلیبس کی تیاری ، ماہر نفسیات کی موجودگی اور باقاعدہ لیکچرز کا اہتمام وقت کی اشد ضرورت ہے پولیس میں پروموشن کو لکھائی پڑھائی کے مختلف امتحانات سے مشروط کیاجا ئے نہ کہ سیاسی وفاداریوں سے ، آئے روز ایک مجرم اور ایک پولیس والے میں فرق مٹتا جا رہا ہے یہ کھلم کھلاخدمت گاروں کے عوام سے کیے گئے وعدوں اور نعروں کی نفی ہے ۔
بقول ساحر 
ایک دیا اور بجھا اور بڑی تاریکی 
شب کی تاریک سیاہی کو مبارک کہہ دو 
اے بجھتی ہوئے آنکھوں پہ سسکتے اشکو
جائو فرعونوں کی شاہی کو مبا رک کہہ دو 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

loading...