اتوار، 14 جنوری، 2018

بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کا پتہ صاف اورمسلم لیگ (ق) کا وزیر اعلیٰ کامیاب

 بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کا پتہ صاف اورمسلم لیگ (ق) کا وزیر اعلیٰ کامیاب
 قومی انتخابات 2013میں مسلم لیگ (ن) وفاق،پنجاب اور بلوچستان میں اپنی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو گئی ،بلوچستان میں اکثریتی پاٹی ہونے کی وجہ سے میاں نواز شریف نے پانچ سالہ دور کے پہلے اڑھائی سال ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیر اعلیٰ بنایاجنہوں نے انتہائی کامیابی اور ہر ایک کو ساتھ رکھتے ہوئے اپنا دور اقتدا ر پورا کیا،بعد میں مسلم لیگ کی مرکزی قیادت نے قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر بلوچستان کا اقتدار نواب ثنا ء اللہ زہری کے کی جھولی میں ڈال دیا،نواب ثنا ء اللہ زہری نے اپنا دور زیادہ تر بیرون ملک ہی گذارا ،ان کی ہمدردیوں اور خوشنودیوں کو محور و مرکز محمود اچکزئی کی پارٹی ہی رہی کیونکہ اچکزئی اور میاں نواز شریف کا نظریہ ایک ہو چکا تھا،مسلم لیگی (ن) کے ارکان کو ہمیشہ نظر انداز کرنے کی پالیسی،کرپشن ،اقرباء پروری اور ایک مخصوص ٹولے کی جانب جھکائو اور اپنوں سے بیگانگی سے سلگنے والی چنگاری بالآخران کے وزارت اعلیٰ کو لے ڈوبی ،نواب ثنا ء اللہ زہری نے جب اپنی اقتدار کا سورج ڈوبتا نظرآنے یقینی ہو چکا تو وہ بیرون ملک سے فوری بلوچستان پہنچے اور آتے ہی اپنے معاون خصوصی امان اللہ کو بر طرف کر دیا،دوسرے روز صوبائی وزیر ماہی گیری سرفراز خان چاکر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا،نواب زہری نہ جانے کس زعم میں تھے کہ انہوں نے صوبائی کابینہ کے ایکٹو ترین وزیر سرفراز احمد بگٹی کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا،ایسے حالات جب پہلے ہی مسلم لیگ (ن) زیر عتاب تھی کی اس صوبائی کابینہ کے چھ ارکان ساتھ چھوڑ گئے تب جا کر انہیں احساس ہوا کہ یہ سب کیاہو رہا ہے ؟نواب ثناء اللہ زہری کی خواب غماری سے بیدار ہوئے اور وفاق سے اقتدار کے سنگھاس کو بچانے کے لئے مدد طلب کی مگر اس وقت تک فاصلے کی طوالت یقینی طور پر بہت بڑھ چکی تھی ،وفاقی وزیر جنرل(ر)عبدالقادر بلوچ ،خرم دستگیر اور وزیر مملکت جام کمال بلوچستان گئے تو ان کے سامنے مسلم لیگیوں اور ان کے اتحادیوں نے نواب زہری کے خلاف شکایات کے انبار لگا دئے گئے ، ان کی رپورٹ پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی احسن اقبال کے ہمراہ کوئٹہ پہنچے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی انہوں نے اپنے ارکان کو منانے کی بے حد کوشش کی مگر ایک فیصد بھی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا بلکہ کئی ارکان نے تو وزیر اعظم سے ملنے سے بھی انکار کر دیا خود شاہد خاقان عباسی نے اعتراف کیا کہ منحرف ارکان نے ان سے بات کرنا تک مناسب نہ سمجھی ،وزیر اعظم ناکام دورے پر وزیر اعلیٰ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دے کر شہر اقتدار اڑان بھر گئے،نواب ثنا ء اللہ زہری ابھی ڈٹے ہوئے تھے کہ میاں نواز شریف کی ہدایت پر استعفیٰ دینے پر رضامند ہوئے اور تحریک عدم اعتماد جس پر 14ارکان کے دستخط تھے کے سامنے آنے پر نواب ثنا ء اللہ زہری کو مستعفی ہونا پڑا وہ 9جنوری کو2سال16دن کا اقتدار انجوائے کرنے کے بعد وزارت اعلیٰ کے عہدے سے گھر لوٹ گئے،قائد ایوان نہ ہونے پر کابینہ بھی تحلیل ہو گئی اور نئے قائد ایوان کے لئے جوڑ توڑ شروع ہو گیا ،اس حوالے سے تین گروپ سامنے آگئے ایک گروپ سردار یعقوب ناصر جس میں نواب ثنا ء اللہ زہری کے حمایتی ارکان تھے دوسرا گروپ نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی پارٹی کے اراکین پرمشتل تھاجن میں ڈاکٹر حامد اچکزئی ،عبدالرحیم زیارتوالی ،لیاقت آغا،عبداللہ بابت،مجیدخان اچکزئی،مسلم لیگ(ن)کے میر انجام کھوسہ ،محمد خان لہڑی،سردار در محمد ناصر،شکیل بلوچ اور نصیب اللہ شامل تھے،تیسرے گروپ میں مسلم لیگ (ن) کے منحرف اراکین میر سرفراز احمد بگٹی،پرنس علی احمد،میر عاصم کردگیلو،میر عبدالماجد ابڑو،میر عامر رند،طاہر محمود ،اکبر اسکانی،میر عاصم کردگے لو،پرنس علی احمد،نواب جنگیز خان مری،طاہر محمود خان،سردار صالح بھوتانی،میر جان محمد جمالی،میر عامر رند،سردارسرفراز چاکر ڈومکی،نواب زادہ طارق مگسی،زمرک خان اچکزئی،میر عبدالکریم نوشیروانی ،امان اللہ نوتیزئی،حاجی غلام دستگیربادینی مفتی گلاب،مولوی معاذ اللہ اورسید آغا محمد رضا شامل تھے جبکہ رکن قومی اسمبلی انجینئر عثمان بازینی بھی ان کے ساتھ انتہائی فعال نظر آئے،11جنوری کو سینئر لیگی رہنماء اور سابق سینیٹر سعید احمد ہاشمی کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ(ن) کے منحرف ،مسلم لیگ(ق) ،جمیعت علمائے اسلام (ف) و دیگر اتحادی جماعتوں کا اہم ترین اجلاس ہوا جس میں مسلم لیگ (ْق)سے تعلق رکھنے والے عبدالقدوس بزنجو کے نام قرعہ فال نکلا اور سب اتحادیوں نے ان کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دیا،وزارت اعلیٰ کے لئے ان کے کاغذات نامزدگی جن کے تائید کنندہ میر سرفراز احمد بگٹی اور تجویز کنندہ میر جان محمد جمالی تھے ان کے مقابلے میں پختونخواہ میپ کے عبدالرحیم زیارت وال اور آغا سید لیاقت نے کاغذات جمع کرادئیے،قائد ایوان کے چنائو کے لئے منعقدہ اجلاس کے آغازمیں ہی عبدالرحیم زیارتوال نے سیکرٹری اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کیاکہ وہ دوسرے امیدوار آغا لیاقت کے حق میں دستربردار ہو گئے ہیں یوں یہ مقابلہ عین موقع پر ون ٹو ون کی پوزیشن اختیار کر گیا بلوچستان اسمبلی کا یہ اجلاس جو سپیکر راحیلہ درانی کی سربراہی میںشروع ہوا میں ساڑھے چار سال میں تیسرے قائد ایوان کے انتخاب کے لئے 54ارکان اسمبلی ایوان میں موجود تھے ان ارکان میں میر ظفراللہ زہری بھی عبدالقدوس بزنجو کی حمایت میں آئے جو منتخب ہونے کے بعد صرف حلف اٹھانے آئے بعد میں انہوں نے کسی ایک اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی،اجلاس کے آغازمیں قصور کی معصومہ زینب ،سابق ائیر مارشل اصغر خان اور چند روز قبل اسمبلی کے قریب ہی شہید ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی اس کے بعد عبدالقدوس بزنجو کے حمایتی ارکان کے لئے Aلابی جبکہ آغا لیاقت کے حمایتی اراکین کے لئےBلابی بنائی گئی ،گنتی کے بعد سپیکر اسمبلی نے باقاعدہ اعلان کیا کہ عبدالقدوس بزنجو 41ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے ہیں جب ان کے مد مقابل آغا لیاقت کو صرف13ملے،اس موقع پر مسلم لیگ (ن)کے مزید چھ ارکان میر اظہار کھوسہ،سردار در محمد ناصر،محمد خان لہڑی،ثمینہ خان ،کشور ملک اور انیتا عرفان نے بھی اپنی قیادت سے بغاوت کرتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو کوووٹ دیا بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی کل تعداد 21ہے جن میں سے19ارکان نے عبدالقدوس کے حق میں ووٹ دیا صرف دو ارکان رراحیلہ درانی اور ثناء اللہ زہری ہی باقی بچے ہیں سپیکر سمیت 10ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا،اس صورتحال میں میاں نواز شریف مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمیعت علمائے اسلام سے ناخوش ہیں مگر پھر بھی انہی کے ساتھ کیونکہ اس چھائے اندھیرے میں میاں جی پھر بھی مولانا جی ضرورت ہے،، بلوچستان اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 65ہے جبکہ جیت کے لئے صرف33ووٹ درکار ہوتے ہیں،اسی شام چار بچے گورنرمحمد خان اچکزئی نے نئے منتخب وزیر اعلیٰ سے اپنے عہدے کا حلف لیا،نو منتخب وزیر اعلیٰ نے ایوان میں اپنے پہلے خطاب میں کہاحمایت کرنے پر تمام سیاسی جماعتوں اور مولانا فضل الرحمان جنہوں نے اس مہم میں میرا ساتھ دیا سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں انہوں نے کوئی غیر قانونی غیر جمہوری کام نہیں کیا جمہوریت مستحکم ہے محدود مدت میں ان کی اولین ترجیحات صحت ،تعلیم اور صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے ناراض بھائیوں کو منا قومی دھارے میں لایا جائے گا وقت کم اور مسائل زیادہ ہیں،ان کی 14رکنی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا جن میں میر طاہر محمود محکمہ تعلیم،سردار سرفراز چاکر ڈومکی فشریز،نواب جنگیز مری ایری گیشن اینڈ انڈسٹری،میر سرفراز احمد بگٹی ہوم اینڈ ٹرائیل اور پی ڈی ایم سی ،شیخ جعفر مندوخیل ایگریکلچرکو آپریٹو،میر عبدالناصر ابڑومحکمہ صحت،راحت خالق لیبر اینڈ مین پاور ،انڈسٹری اینڈ کامرس،میر غلام دستگیر بادینی لوکل گورنمنٹ ،رورل ڈویلپمنٹ اور این پی اینڈ ڈی ،سید محمد رضا قانون ،پارلیمنٹری افیئرز پراسیکیوشن،فاریسٹ،وائلڈ لائف لائیو سٹاک اینڈ دیری ڈویلپمنٹ،میر محمد عاصم کرد گیلو سی اینڈ ڈبلیو ،منظور احمد کاکڑکوآپریٹو،پرنس احمد علی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور انوائرمنٹ جبکہ چار مشیروں میر عبدالکریم نوشیروانی کو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور ٹرانسپورٹ،ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی خزانہ ،میر امان اللہ نوتیزئی پی ایچ ڈی اینڈ سی ڈی ڈبلیو اے ،واسا اور انوار الحق کاکڑ کو مشیر برائے انفارمیشن مقرر کیا گیا ،اب سپیکر کو ہٹانے پر بھی مشاورت کا عمل شروع ہو چکا ہے جس کے لئے جان محمد جمالی اور صالح محمد بھوتانی کے نام سامنے آ رہے ہیں جبکہ ڈپٹی سپیکر کا عپدہ جو سال سے خالی پر ڈاکٹر رقیہ ہاشمی کا نام لیا جا رہا ہے ،وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کا تعلق بلوچستان کے انتہائی پسماندہ ضلع آواران کے گائوں شنڈی سے ہے جو سابق سیاستدان سابق سینیٹر و ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی کے بیٹے ہیں یکم جنوری 1974کو پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد بلوچستان یونیورسٹی سے انگلش میں ماسٹر کیا،انہوں نے پہلی بار2002میں پرویز مشرف دور میں صوبائی حلقہ پی بی 41سے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب رہے صوبائی وزیر لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کا قلمدان سنبھالے رکھا ،الیکشن2013میں عبدالقدوس بزنجو نے مسلم لیگ (ق)کے ٹکٹ پر اسی حلقہ سے حصہ لیا اور پاکستان کی انتخابی تاریخ میں کم ترین ووٹ 544ووٹ حاصل کر کے ایم پی اے منتخب ہوئے اس حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب (ٹرن آئوٹ)1.8فیصد رہا اتنے کم ٹرن آئوٹ کی وجہ شدت پسند تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر نے اعلان کر رکھا تھا کہ جس کسی نے بھی ووٹ کاسٹ کیا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا اس کے باوجود عبدالقدوس بزنجو جیسے نڈر نوجوان نہ صرف انتخابات میں حصہ لیا بلکہ ہر گھر کا ایک فرد کسی نہ کسی طرح پولنگ سٹیشن پہنچ کر ووٹ کاسٹ کرنے میں کامیاب ہوایوں اس علاقے میں الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکا اور یہ علاقہ انتخابی عمل کی وجہ سے قومی دھارے میں شامل ہوا اور آج وہ کم ترین ووٹ حاصل کرنے والا محب وطن نوجوان وزیر اعلیٰ آف بلوچستان ہے ،وہ2013سے2015تک دُپٹی سپیکر رہے بعد میں انہوں نے اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا،صوبہ بلوچستان کی تاریخ میں تین مرتبہ وزراء اعلیٰ میر تاج محمد جمالی،سردار اختر خان مینگل اور ثنا ء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی اور تینوں نے ہی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے استعفیٰ دیا،نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے منعقد ہونے والے اجلاس کی سیکیورٹی انتہائی سخت تھی صبع 8بجے ہی اسمبلی کو جانے والے تمام راستے ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند کر دئے گئے اس کے لئے 900پولیس اہلکار اور ان کے علاوہ فرنٹئیر کور کے بھی اہلکار بھی بھاری تعداد میںتعینات تھے۔پنجاب میں سابقہ سیاسی صورتحال اور قصورکے موجودہ سانحہ پر پنجاب حکومت پر بھی دھند مزید گہری ہو چلی ہے،ماہرین اور مبصرین کے نزدیک موجودہ حکومت شاہد مارچ نہ دیکھ پائے مگر الراقم کے خیال میں بلوچستان کے بعد اگر کوئی حکومت دھڑم ہوئی تو وہ پنجاب کی صوبائی حکومت ہی ہو گی،بلوچستان میں حکومت ملنے پر مسلم لیگ (ق) بلاشبہ ملکی سیاست میں پھرسے بھرپور اڑان بھرے گی۔
رابطہ کیلئے 0300 6969277

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

loading...