ہفتہ، 10 مارچ، 2018

اپنی خود بھی باز پرس کی جاسکتی ہے

اپنی خود بھی باز پرس کی جاسکتی ہے زمین سے گری چیز کو اٹھانے میں بھلا کیا خسارہ ہو سکتا ہے مگر آنکھوں سے بارہا چھلکی ہوئی چیز کو تھا م لینے کو خسارہ کہا جائے یا بلند ہمتی گر دانا جائے سوچنا پڑے گا ،بہر حال معاملات زندگانی کے ساتھ کچھ مفاہمتی پالیسی کی جھلک عوام کی پیشانی سے بھی نظر آتی ہے، بقول غالب
 راز معشوق نہ رسوا ہوجائے
 ورنہ مرجانے میں کچھ بھید نہیں
 حقیقت پر مبنی جمہوری سیاست ایک جاندار چیز ہے جو آنکھیں رکھتی ہے ، دیدہ بینا دل جو عوام کی دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکتا ہے،اس قسم کی سیاست کا ذہن جو مجبور ومحکوم کی پریشانیوں کو سلجھانے میں مشغول رہتا ہے،اس کے قدم جو ایک عام آدمی کے قدموں کے شانہ بشانہ محوسفر نظر آتے ہیں،اس کی نبض جو قوم کی نبض کے ساتھ ساتھ ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔جمہوری سیاست ایک بظاہر نظر آنے والا لباس بھی زیب تن رکھتی ہے جو معاشرے میںجابجابکھرے ہوئے کا نٹوں کی فوج کے خلاف نبرد آزمائی میںخون آلود ہوتا رہتا ہے،جوکہ ایک معمول کا عمل ہے ،اس کے پائوں جو عوام کو درپیش آبلہ پائیوں کو رفو کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔
 ہمارے یہاں سیاست کی تعریف ایک بے جا ن سے تصور (Concept)سے کرائی جاتی ہے جس کی کھوپڑی تو موجود ہے مگر ہزاروں لاکھوں خلیے اپنا اپنا کا م کر نے سے یکسر قاصر ہیں ، چہرہ موجود ہے مگر آنکھیں بینائی سے محروم،اس کادل توموجودمگر دھڑکنے کی صلاحیت سے ہر لمحہ قاصر،اس کی زبان تو موجود مگر قدرت کی طرف سے عطا کر دہ میٹھا وترش ذائقہ چانچنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ،حیران کن یہ کہ اس بے جان سیاسی زبانی کے Taste budsکڑوے زہر کو ڈیٹکٹ کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں،اس سے میٹھی باتوںکی ادائیگی تو گویا ْقصہ پارینہ ہوچکی،اس کے ہاتھ تو موجود مگر مشیت ایزدی کے سامنے فریا د کر نے سے یکسر قاصر اور بات اگر دست وبازو کی ہو تو بقول شاعر
 خنجر اٹھے ہے نہ تلوار ان سے 
یہ بازو میر ے آزمائے ہوئے ہیں 
 روز مرہ کی سیاست میں ایک اصطلاح زیر استعمال رہتی ہے جسے عرف عام میں’ واک آئو ٹ‘ کہا جا تا ہے یہ اصطلاح اپوزیشن کے اراکین اسمبلی سے منسوب رہتی ہے جب کسی من پسندبل یا ایجنڈے کو حکومتی اراکین کی اکثریت منظور کر نے کی کوشش کر تی ہے تواپوزیشن کے اراکین اس کی ناراضی کا اظہار ایجنڈہ کی کاپیاں پھاڑ کر ،ان کوہوا کے سپرد کر کے خودکیٹین کی طرف چائے پانی کے لیے نکل آتے ہیں اور حکومتی اراکین غالب والا ’’تماشا ‘‘نہ ہونے کے باوجودبھی بل پاس کر لیتے ہیں، یہ بھلے وقتوں کے قصے ہیں اب واک آئو ٹ کی اصطلاح پرانی ہوچکی ہے ، سیاست کے سائنسی تکنیکوں پر آراستہ ہونے کے بعد سیاست کر نے والے بھی سائنسی میکا نیزم سے بخوبی آگاہ ہیں، گلیاں ، نالیاں ، ٹوٹیاں ، نلکے وغیرہ سائنسی سیاست کے میکانیزم کے دائر ہ کا ر میں نہیں آتے، اب رات کی تاریکیوں میں بھی معاملات طے کیے جا تے ہیں اور چڑھتے سورج کر کرنوں کو مد نظر رکھ کے بھی ،سیاسی منڈیوں میںمال کبھی بھی فکس ریٹ پر دستیاب نہیں ہوتا کبھی گاہک اپنی مرضی کر جا تا ہے اور کبھی خریدار مال دیکھ کر سودا کر تا ہے ،اس کے علاوہ چند ایک شہد سے زیادہ میٹھی زبان کا استعمال کر کے وقتاً فوقتاً’’قومی خدمت‘‘ میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں ، موجودہ دور میں یہ سب سے ادنیٰ کوشش بھی ہے اور ارفعٰ بھی ، سودہ بازی کیے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل کر نے کا فن ایسے لوگوں کو خوب آتا ہے ، سیاسی منڈی کے یہ بیوپاری اپنے بڑوں کو من پسند مشورے بھی دیتے رہتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے بھی بیان کر تے ہیں مزید برآںاپنی اپنی پارسائی کے دعوے بھی ان کی زبان سے جاری رہتے ہیں۔
 واک آئوٹ ایک چھوٹی اصطلاح ہے جو ایوان کے اندر مشاورت کا عمل بہتر طریقے سے نہ ہو پانے سے زیر استعمال آتی ہے ،لیکن یہ سب کچھ جمہوری روایات میں چلتا رہتا ہے مشاورت کا عمل نکتہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جس اصطلاح کا دور دورہ ہے وہ ہے ’ہارس ٹریڈنگ ‘جو ایوانوں تک پہنچنے پہنچانے کا آسان ترین راستہ بن گیا ہے اب اس کی روک تھام کو اس کے لیے قانون سازی کر نے سے مشروط سمجھا جا رہا ہے ،ہر قابل اعتراض چیز سے بازرہنے کے لیے کسی کاغذ پر لکھی ہوئی ہدایت درکار نہیں ہوتی ، جسے قانون کا نام دیا جا تا ہے ۔
 ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا جب نیو یارک ٹائمز نامی اخبار کے ایڈیٹوریل میں اخبارات کی سرکولیشن کی تعدادغلط نو ٹ کر انے کی روک تھام کے لیے لکھا گیا کہ اگرجھوٹ کو قانون کے ہتھیار سے روکنا ہے توشائد ہارس ٹریڈنگ رک جائے مگراس قانون کے عمل درآمد ہونے کے ساتھ ہی کچھ محدود سی دستیاب خوشیاں بھی دم توڑ جائیںگی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

loading...