کبھی آکاش تلے
اوائل مارچ کی تھوڑی سرد سرد
تھوڑی گرم دھوپ ھو
گزرتی بہاروں کی ہر ادا
ٹہنیوں پر پھوٹتے شگوفوں کی
ہر سو بکھرتی خوشبوئیں ھوں
گنگناتی ہواؤں کے سنگ
مہکتی فضاؤں کے سنگ
تیری میری ملاقات ھو
لب کچھہ نہ بولیں
آنکھوں میں ہر بات ھو
دھیرے دھیرے دن گزرے
پھر شام ڈھلے
اور چاندنی رات ھو
گواہ اپنی محبت کے
چاند,ستارے,جگنو
فقط سہانے خواب ھوں
اور تم.........
اک پل کو
بیٹھو میرے پاس
تھام کر میرا ہاتھہ
اپنی تمام تر شدیتوں سے کہو
مجھے تم سے محبت ھے جاناں
میری ذات کی تکمیل
صرف تیری چاہت ھے جاناں
اور میں .......
اس ایک پل کو
قید کر کے اپنی مٹھی میں
ہزار صدیاں جی لوں
ہزار صدیاں جی لوں.....
( راحیلہ منظر)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں