لمحات کی تعداد گنتی میں چند ہی کیوں نہ ہو ، اگر وہ محبت وشادمانی کے ہیں تو ان کا کوئی ثانی نہیں، ایسے لمحات کی موجودگی ساری زندگی کے واقعات پر بھاری رہتی ہے ۔ خوشگوار لمحات طبیعت کو ایسے ہی نر م وگداز کر دیتے ہیں جیسے تپتپاتی دھوپ میں اچانک گہرے بادل بسیرا کر لیں ، ٹھنڈی ہوائوں کا دور شروع ہوجائے پھر دیکھتے ہی دیکھتے بوندا باندی ۔۔۔ان نعمتوں کا وجودسامنے کا منظر بدل دیتا ہے ، اس منظر کی موجودگی اندرونی وبیرونی کیفیات کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کرتی ہے جو سرور وظہور کی کیفیات کو جنم دیتا ہے ، جواں مر گ شاعر شکیب جلالی یا دآئے
نہ جا نے کیا کہا اس نے بہت ہی آہستہ سے
فضا کی ٹھہری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی
خوشگوار فضا کے جھونکوں کی ایک جھلک جو کسی چنگاڑتی دھاڑتی چنگاری کی مانند ہے ، نے معاشرتی آلودگیوںکے منڈلاتے بادلوں کو کسی حد تک چھٹنے پر مجبور کر دیا ہے ، اپنے حصے کی شمع جلانے کی ابتداء اب کی بار سپریم کورٹ کی طر ف سے دیکھنے میں آئی ہے ، اس شمع کی روشنی سے عوام کو مستفید ہونے کا پورا پورا موقع ملنا چاہیے ۔ چیف جسٹس نے کیمیکل زدہ اور جراثیم زدہ دودھ سے لے کر دوائیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں ایسے سنجید ہ مسائل کی طر ف ایک ’’طائرانہ نگاہ‘‘ ضرور دوڑائی ہے کہ بستر مرگ پر پڑھے مریض کی مجبوریوں اور ننھے پھولوں کی نازکی سے مزید کھلواڑکاموقع نہیںدیا جا ئے گا ۔
عوام اب چیف جسٹس کی شخصیت سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ عدالتی اصلاحات (Judicial Reforms) سے لے کر معاشرتی اصلاحات (Social Reforms) کی بحالی و دستیابی تک جو کچھ بھی مقدم ہو ، ملک وقوم کی بہتری کے لیے کر گزرا جا ئے ، انصاف کے ترازو کے دونوں بازو ایک ہی سطح پر ہونے چاہییں اور منادی ہوجائے کہ قانون کا ترازو سب کو انصاف کے پلڑے میں ایک سا تولتا ہے ۔
حال میں ہی یواین کی طرف سے’ ورلڈ ہیپی نس رپورٹ ‘شائع کی گئی ہے ، جس میں معاشرتی خوشیوں واطمینان کی موجودگی ، اقتصادی ترقی ، عوام کی نفسیاتی مسائل سے خلاصی ، خوشحال زندگی ، صحت وتعلیم کے شعبوں کو درپیش چینلچز اور آزادی اظہار رائے کی سہولت کو مد نظر رکھ کر ترتیب دیاگیا ہے پاکستان اس رپورٹ میں پانچ درجے ترقی کر کے گزشتہ سال کی نسبت 80نمبرسے 75نمبر پر آگیا ہے ایشیائی ممالک بشمول چائنہ اور بھارت پاکستان سے خوشیوں کے معاملہ میں پیچھے ہیں کسی بھی ملک کے باشندوں کو دستیاب اجتماعی خوشیوں اور لوگوں کی معاشی ، معاشرتی ، نفسیاتی حالت زار کے ماپنے کے پیمانہ کو’ گراس ’ہیپی نس انڈیکس‘کہا جا تا ہے یہ انڈ یکس صرف روٹی ، کپڑا ، مکان کی سہولت ہی کا احاطہ نہیں کر تا بلکہ صاف ستھرا ماحول ، جسمانی ونفسیاتی صحت کی اہمیت و وقعت اور وقت کی متوازن تقسیم کی طرف بھی توجہ مبذول کراتا ہے۔
یہ انڈیکس درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور مستقبل کے منصوبوں پر غور وفکر اور ان کی درست منصوبہ بندی پر بھی دھیان گیان کر اتا ہے ، دیکھا جائے تو پاکستا ن میں آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ان کے لیے معیاری تعلیم ، روزگار کے مواقع ، کیئریر کونسلنگ ، کاروبار کے لیے حکومتی سطح پر توجہ اور تندرست و صحت مند ماحول کے لیے اوپن ڈیبیٹ سسٹم اور میدانوں کی موجودگی مہیا کر نا بہت ضروری ہے ۔ پاکستا ن میں نوزائیدہ بچو ں کی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے جس میں انفیکشن سے وابستہ بیماریاں مثلاً نمونیا ،ڈائیریا وغیر ہ ، کم عمر بچوں کی پیدائش اور بچوں کی پیدائش کے وقت آکسیجن کی کمی جیسے صحت کے مسائل درپیش ہیں ، زچہ بچہ کی صحت کے حوالے سے مطلوبہ سہولیات کی فراہمی بہت ضروری ہے ۔ پاکستا ن میں 60فیصد سے زائد بچے خوراک کی کمی کا شکا ر ہیں اور مائیں خون کی کمی والی بیماری ، انیمیا ، کا شکار ہیں ۔ اس معاملہ کی درستگی کے لیے بچوں کو پیدائش کے لیے صاف ستھرا ماحول ، تجربہ کا ر سٹاف ، بروقت سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی موجودگی اور ہسپتالوں کی طر ف سے آگاہی و شعور کے لیے خصوصی ترتیب دی گئیں ٹیموں کی موجودگی وقت کی اشد ضرورت ہے ۔
سائنس کے اس ترقی یافتہ دور میں کا م کا بوجھ اتنا مشینوں کے پرزوں پر نہیں جتنا بوجھ انسان کے ناتواں کندھوں پر ہے اس لیے فرصت کے کچھ لمحے بھی زندگی کا مسکن ہونے چاہییں ، ذہنی الجھنوں سے نکلنے کا بہتر ین حل کتاب بینی ہوسکتی ہے ، کتاب بینی کا رحجان ختم ہونے کے قریب ہے ، ذہنی خوشیوںاور اطمینان کا اہم ذریعہ کتاب بینی ہے ۔ ہم یواین کی خوشیوں سے متعلقہ رپورٹ میں ایشیائی ممالک سے آگے ہیں تاہم بہتری کی بہت حد تک گنجائش موجود ہے انفرادی و اجتماعی خوشیوں کے حصول تک پہنچنے کے لیے آزادذہن اور خیالات کی متوازن پرواز بہت ضروری ہے یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس حد تک ذہن و قلب کو بوجھ سے آزادرکھ پاتے ہیں ، خوشیاں تقسیم کر نے سے بڑھتی ہیں اور غم تقسیم کر نے سے کم ہوتے ہیں ، خوشیوں کی کھیتی اندرونی کیفیات کی سرزمین پر پرورش پاتی ہے بیرونی کیفیات کے ماحول میں نہیں ،خوشیوں کی موجودگی نعمت خدا وندی بھی ہے اور درجہ عبادت بھی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں