دنیا بھر میں ہر سال 22مارچ کو یوم آبپاشی منایا جاتا ہے تا کہ اس عظیم ترین نعمت خداوندی کے بحران سے دنیا کو بچایا جا سکے 1993سے شروع کئے گئے اس عالمی ڈے کا مقصد لوگوں میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے ،صاف پانی پر ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اس لئے اس ہر اس ممکن طریقے کا فائدہ اٹھانا چاہئے جس کے ذریعے غریب سے غریب افراد تک یہ سہولیت پہنچا جا سکے دنیا میں ہر نواں شخص صاف پانی سے محروم ہے،مضر صحت پانی کی وجہ سے دنیا میں ہر 90سیکنڈ میں ایک بچہ اس جہاں سے کوچ کر جاتا ہے،ترقی پذیر ممالک میں1.4ارب افراد کو صاف پانی میسر نہیں جبکہ450افراد کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے آئندہ 25سالوں میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے یہ شرح دوگنی ہو جائے گی،بعض علاقوں میں عورتوں کو پانی کے حصول کے لئے اوسطاًروزانہ 6گھنٹے لگتے ہیں،پانی کے بدترین بحران کے شکارممالک میں پہلے ٹاپ ٹین میں پاکستان کا ساتواں نمبر ہے ،باقی ممالک میں بالترتیب صومالیہ، موریطانیہ،،سوڈان،نائیجر،عراق،ازبکستان ،ترکمانستان اور مصر شامل ہے،پاکستان کی اس بحرانی شدت میںروز بروز خوفناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے حالانکہ اس خطرناک ترین مسئلے سے پلوتہی خطرناکاور خود کشی کرنے کے مترادف ہے، اور اس بھی بڑی بد قسمتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو آج تک اس کا ادراک نہیں ہو سکاحالانکہ اس مسئلے نے قیام پاکستان کے چند ماہ بعد ہی سر اٹھا لیا جب انڈیا نے بغیرکسی پیشگی اطلاع کے آب پاشی کے لئے ان مخصوص نہروں کو بند کر دیا جو فیروز پور اور گورداسپور سے نکل کر سرحد عبور کرکے پاکستانی علاقہ کو سیراب کرتی تھیں اس اقدام سے پاکستانی زرعی اراضی کو سخت نقصان پہنچابھارت نے یہ حرکت اس لئے کی تھی کہ پاکستان بھارتی پنجاب سے گذرنے والے تمام دریائوں پر اس کا حق تسلیم کرے جبکہ پاکستان کا مئوقف تھا کہ اس آبی صورتحال کو جوں کاتوں رہنے دیا جائے جبکہ جو پانی زائد ہوا اسے دونوں ممالک کی آبادی اور رقبہ کے لحاط سے تقسیم کیا جائے،اپریل1948میں بھارت نے دوسرے بار پاکستان کا پانی بند کر دیا اور مجبور کیا کہ پاکستان ایسا معاہدہ کرے جس کا فائدہ انڈیا کو ہی ہو،اس نے اس وقت ستلج کے بالائی حصے فیروز پور کے قریب کریک کے مقام پر اور بھاگرا ڈیم کی تعمیر بھی شروع کر دی تھی اور پاکستان کی ہر کوشش اور اعتراض کو مسترد کر دیا، وقت گذرنے کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ ہوا،سندھ طاس کا کل رقبہ3لاکھ 65ہزار مربع میل پر مشتمل ہے جوزیادہ تر پاکستان میں ہے جبکہ اس کا کچھ حصہ کشمیر،افغانستان،بھارت اور چین پر مشتمل ہے،تکلیف دہ امر تو یہ ہے کہ اس کے باوجود سوائے ایوب خان کے کسی اور نے پانی کے ذخائر پر توجہ ہی نہیں دی،اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والی اشرافیہ نے کچھ نہ کیا ،حالات کی سنگینی کا ادارک نہ کیا مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی اپنی ترجیحات اور آبی ذخائر کے بجائے دیگر منصوبوں تک محدود رکھا حالانکہ پانی ایک ایسی نعمت اور قدرتی وسائل ہے جس کی بدولت ترقی کی معراج کو چھوا جا سکتا ہے،بھارتی آبی جارحیت جاری رہی جب اس کا دل چاہا پانی روک لیا جب دل چاہا پاکستان کے وسیع تر علاقے کو پانی میں بہا دیا،پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیموں کی تعمیر کو ہم نے اپنی سیاست کی نذر کر دیا ہے لسانیت ،صوبائیت کے بیج کو تن آور درخت بنا دیا ہے اگر کبھی کوئی ڈیم کی بات کرتا ہے تو یہ محب وطن سیاستدان آگ بگولہ ہو جاتے ہیں،دھمکیوں پر اتر آتے ہیںجیسے ان کا وطن پاکستان نہیں انڈیا ہے،بھوک،ننگ اور افلاس نے ہماری قوم پر ویسے ہی چادر تانی ہوئی ہے اور جو بچ جاتے ہیں انہیں سیلاب کا پانی بہا لے جاتا ہے،حالیہ پانی بحران سے قبل ہمارا اڑھائی کروڑ ایکڑ سے زائد بہترین زرعی رقبہ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بنجراوربے آباد ہے،جمہوریت کے نام پر ملکی وسائل کو اپنی خوشنودی کے بے دریغ استعمال کرنے کی بجائے آئین پاکستان کی روح کے مطابق دیانت داری سے کام لیتے تو آج پاکستان کو ایسے آبی بحران جیسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا،ستم ظریفی یہ کہ وہ مسئلہ جو قیام پاکستان کے بعد ہی بانی پاکستان کی موجودگی میں سر اٹھا چکا تھا اسے ہم آج تک حل نہ کر پائے،کالا باغ ڈیم کی سائیٹ کا وزٹ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے ہی کیا تھا، پانی کا یہ بحران کیا صورت اختیار کر چکا ہے اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق پاکستان کے تینوں بڑے آبی ذخائر تربیلا،منگلا اور چشمہ خالی ہو چکے ہیں پانی کی اس کمی کی وجہ سے سات لاکھ ایکٹر سے زائد زرعی رقبہ متاثر ہوایہ تو مقام شکر ہے کہ انہی دنوں باران رحمت کی وجہ سے حالات میں کچھ بہتری آئی اور ہمارا شعبہ زراعت مکمل تباہی سے بچ گیا،پاکستان پانی سمیت قدرتی وسائل جیسے انمول خزانوں سے مالا مال ہے لیکن بد قسمتی ہے کہ بر وقت اور مناسب اقدامات اور ناقص منصوبہ بندی سے ملک اس وقت پانی کی شدید قلت کا شکار ہے،قیام پاکستان کے وقت پانی کی مقدار 5260کیوبک میٹر فی کس تھی جو کہ وقت گذرنے اور حکومتی نا اہلیوں کے باعث یہ شرح اس وقت صرف900کیوبک میٹر فی کس کے قریب ہے،ماہرین کے مطابق دستیاب پانی کا 90 فیصدسے زائد شعبہ زراعت میں استعمال ہوتا ہے اور وہی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جبکہ زراعت ایسا شعبہ ہے جو پاکستانی معیشت (وہ بھی تباہی کے دہانے پر ہے)کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے،ربیع کی فصلوں کے لئے دستیاب نہری پانی میں20فیصد تک کمی کی پیش گوئی کی گئی لیکن موسم ربیع کے آغازمیں ہی کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں نہری پانی کی یہ قلت40فیصد سے زائد ہو گئی،اب آبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس صورتحال پر بر وقت قابو نہ پایا گیا توصورتحال مزید سنگین ہو جائے گی جو دہشت گردی سے بھی خطرناک ثابت ہو گی،اس وقت زیر زمین پانی کا تقریبا60فیصد ٹیوب ویلز اور پمپوں کے ذریعے نکالا جا رہا ہے،عالمی اسٹینڈرز کے مطابق کسی بھی ملک کی مجموعی پانی کی ضرورت کے لئے کم از کم120دنوں کے لئے پانی کا ذخیرہ کرنا ضروری ہے لیکن اس کے برعکس پاکستا ن میں اس اوسط کو پورا کرنے کے لئے محض30دنون کے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے پڑوسی ملک بھارت میں یہ شرح300دن اور امریکہ میںیہ شرح900دن ہے دوسرے الفاظ میں زیادہ تر ممالک کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد40فیصد تک ہے جبکہ پاکستان کے پاس صرف2فیصد تک ہے،بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو پہلے سے سخت کر دیا انڈیا نے ستلج ،راوی اور بیاس کا پانی مکمل بند جبکہ دریائے چناب اور جہلم کا پچاس فیصد تک پانی نئی ٹیکنالوجی Rubber Damکے ذریعے روک لیا جس سے پاکستان کی90اہم نہریں مکمل طور پر بند کرنا پڑیں،گذشتہ سال بھارتی پنجاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے دریائوں کا پانی اب صرف بھارتی کسانوں کو ملے گا پاکستا ن کو نہیں،نریندر مودی نے اس وقت یہ دھمکی بھی دی تھی کہ ہم پاکستان کا پانی روک لیں گے اور اس دھمکی پر عمل درآمد ہو چکا ہے،بھارت نے ہمیشہ سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیری ہیں حالانکہ اس معاہدے کو توڑنے کے لئے دونوں فریقین کا متفق ہونا ضروری ہے اور ضامن عالمی بینک ہے (مگر بھارت کے لئے عالمی ضمانت کیا حیثیت رکھتی ہے)گذشتہ سال چین نے بھی بھارت کو پاکستان کے ساتھ آبی جارحیت سے متنبہ کیا تھاچین نے کھل کر پاکستان کی حمایت کیاور کہا کہ اگر ایسا ہوا تووہ تبت سے آنے والے دریائے برہم پتراجو چین میں ڈیڑھ ہزار کلومیٹر سے زائد فاصلے کے بعد ریاست ہما چل پردیش سے بھارت میں داخل ہوتا ہے جس سے بھارت کی لاکھوں ایکڑ زمین سیراب ہوتی ہے کا پانی بند کر دے گا،کیا ہمیں ساری زندگی دوسروں کے سہارے ہی رہنا ہے بھارتی دھمکی اور پھر چین کی پاکستانی حمایت سے بھی پاکستانی سرخیلوں کو عقل نہ دلا سکا، ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث موجوہ دور میں دریائوں کی روانی اور بہائو میں غیر متوقع طور پر تبدیلی رونما ہو سکتی ہے،ذخیرے کی مقدار میں کمی یا گلیشیائی جھیلوں کے پگھلائو کے سبب سیلابی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اس لئے اب آبی ذخائر سے پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے ورنہ ان اثرات کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ لاکھوں ایکڑ علاقہ ریگستان بن جائے گا،خوراک کی کمی،خشک سالی اور قحط سے بچنے کے لئے پاکستان کو دیگر منصوبوں کی بجائے ہنگامی بنیادوں پر آبی ذخائر بنانے ہوں گے، پاکستان میں زیر زمین پانی کی سطع انتہائی تیزی سے نیچے گر رہی ہے یہ صورتحال زمین پر پانی کے وسائل اور اکثر اوقات سطع زمین پر موجود بہائو پر شدید دبائوکا باعث بنتی ہے ،بھارت میں ڈیموں کی تعمیر اور آبی وسائل پر کنٹرول کئے جانے کے بعد بھی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی،ربیع کی فصل اور دیگر زرعی یداوار کے لئے آب پاشی کی طلب بڑھ جاتی ہے جسے دریائے سندھ کا پانی80 فیصد تک پورا کرتا ہے مگر اب اس میں واضح کمی آ چکی ہے،پاکستان میں سال بھر کے لئے انتظام کے لئے وافر پانی کے ذخیرے اور ریگولیٹرین میکنزم کے تحت آبی ذخائر کی اشد ترین ضرورت وقت کا اہم ترین تقاضا ہے،ہر سال ہمارا 30لاکھ کیوسک پانی سمندر میں چلا جاتا ہے بھارتی جارحیت پر جہاں یہ کم ہو گاوہیں ہماری فصلیں بھی گل سڑ جائیں گی ،زمین مزید بنجراور ویران ہو جائیں گے،ایوانوں میں بیٹھے سب معززین ہر اس ترمیم یا کام کے لئے یکجا ہو جاتے ہیں جن میں ان کے سیاسی مفادات پنہاں ہوں مگر جب کوئی منصوبہ سامنے آتا ہے جو پاکستان کی خوشحالی کاضامن ہو جس سے عوام کی تقدیر بدلنے کی آس ہو وہاں ان کے دل میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں،صوبائیت جاگ پڑتی ہے،لسانیت کا لبادہ زیب تن کر لیتے ہیں،باتوں کو دہراتا تو نہیں مگر یہ بات تیسری بات لکھ رہا ہوں موجودہ حکومت کے اہم ترین رکن خواجہ آصف نے اقتدار کے پہلے سال سیالکوٹ میں فرمایا تھا کہ اگر ہم نے پانی کی قلت پر قابو نہ پایا تو آئندہ دو سالوں میں پاکستان کو ایتھوپیا یا صومالیہ بننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی ،حیرت ہے سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان کی حکومت میں بھی نئے آبی ذخائر ڈھونڈنے سے نہیں ملتے،ایک تو گندے پانی کی وجہ سے لاکھوں پاکستانی ہیپا ٹائٹس کا شکار ہو چکے ہیں،صاف پانی کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے شرم نام بات تو یہ بھی کہ مہنگی منرل واٹربوتلوں میں بھی مضرصحت پانی نہیں بلکہ زہر بیچا جا رہا ہے اور ایسی کمپنیاں بھی اشرافیہ کے چہیتوں کی ہی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں