
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر پوری ہائی کورٹ ہی ختم ہو جائے تو جج کہاں سے لائیں گے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ نے پٹیشن دائر کی تو قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے جج بن چکے تھے، آپ کی تمام باتیں غیر متعلقہ ہو چکی ہیں۔سپریم کورٹ بار اور لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ معاملہ قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی خود احتسابی کا ہے، بارز چاہتی ہیں کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3 کے تحت اس معاملے کا فیصلہ کرے۔ وزیر اعلیٰ اور گورنر کی آئین کے تحت مشاورت کے بغیر ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تقرر کیا گیا۔ عدالت اوگرا اور نیب میں تقرریوں سے متعلق ریکارڈ طلب کرتی رہی، اس معاملے میں بھی کرے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں ریکارڈ طلب کرنا ہمارا کام نہیں ہے، مشاورت نہ ہونے کے شواہد آپ دیں۔ عدالت نے مطمئن نہ ہونے پر درخواست خارج کر دی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں