بات تشنگی کی تووہ اکثروبیشتر رہ جایا کرتی ہے دوستی کے سرور سے لے کر عشق کے ظہور تک اور باتوں کی برسات سے لے کر یادوں کی بارات تک ،احمد مشتاق یادآئے
روز ملنے پہ بھی لگتا ہے کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دلوں سے اٹھنے والے دھویںبھلا کہا ں دکھائی دیتے ہیں اس بات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے دل کی آنکھوں کا جاگنا ضروری ہے، پانچ برس ہونے کو آئے جبکہ اس قافلہ عشق کا پہلا قدم سرزد ہوا درویش کی بات یا دآئی میدان عشق کاپہلاقدم ہی گہہ شہادت کا قدم ہے وقت کی گھڑیاں تیزی سے گزر کر ماضی کاحصہ بنتی رہیں عشق کی منزلیںبرق رفتاری سے طے ہوتی ر ہیں ،پہلا سال گزرگیاپھر دوسرا حتٰی کہ پانچ سال پلک جھپکنے میں گزرگئے انہی لمحات کو بیان کرتے ہوئے شاعرنے قلم توڑدیا تھا
ابھی تو گوش بر آوازتھی بھری محفل
کہاں پر تونے کہانی کا اختتام کیا
ہا ں مگر کہانی زندہ رہتی ہے بلکہ زندہ جاوید،کردار پیوندخاک ہوجاتے ہیں ۔ بانی پرنسپل کو شاندار طریقے سے مدعو کیا جا تا چاہیے تھا ۔ میرپور آزادکشمیررومی کشمیرحضرت میاں محمد بخش کی دھرتی میںواقع محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل کالج کے دوسرے فارغ التحصیل ہونے والے بیج (M2) کی الوداعی پارٹی تھی جس کے میزبان M3کے طلباء وطالبات تھے بانی پرنسپل کو مدعو کرنے میں کالج انتظامیہ سے ضرور لغزش ہوئی ہے ،پروفیسر ڈاکٹر زبیر بھی نظر نہ آئے ،خیرریٹائرڈ ہونے والی کسی بھی شخصیت کو یوں بے دردی سے نہیں بھلایا جاتا ،بہرحال فراغ دلی کاموقع گنوا دیا گیا ۔
انسان کو خامیوں سے فرار ممکن نہیں ، اس کا حل ان غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ہوتا ہے ہمارے یہاں اختلاف کسی بھی نظریہ کی بجائے اس شخصیت سے کیا جا تا ہے جو جلدہی نفرت کا روپ دھار لیتا ہے ، مخالفت نظریہ کی ہوتی ہے مضبوط اور توانا دلیل کے ساتھ، زندگی کا سبق یہی کہ زندگی اپنی اچھائیوں پر بسر ہوتی ہے ،دوسروں کی خامیوں پر نہیں ، تنقید کر نے کے لیے حوصلہ درکار ہوتاہے اورتعریف کر نے کے لیے۔۔۔ اس سے بھی کہیں زیادہ، احمد عطایا دآئے
جوبھی مانگتاہے دے دیتا ہوںمیں اسکورستہ
میں تو صحرائوں میںمجنوںکی مدد کر تا ہوں
پانچ سال آزادکشمیر یونیورسٹی کے ساتھ الحاق کی پوری قیمت جھکانا پڑی ،لیکن میڈیکل اداروں کے الحاق کا تجربہ یونیورسٹی کے لیے بھی نیاتھا امتحانات کا انعقاد وقت پر نہ ہو پاتا ، اور نتائج کا اعلان بھی کسی کفر کے خدا خدا کرکے ٹوٹنے کی طرح ہوتا، چنانچہ طلباء کا مطالبہ یہ رہا کہ آزادکشمیریونیورسٹی سے الحاق ختم کرکے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزلاہور سے الحاق کیا جا ئے اور ایسا ہی ہوا،الحاق ہوگیا اور طلبا ء کا یہ درینہ مسئلہ بھی حل ہوگیا ۔ خداکے ذکر کے بعد سب فارغ التحصیل ہونے والے ڈاکٹرزکو انتہائی فرینڈلی ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ٹائیٹلزسے نوازا گیا جس کو ہال میں موجودہ تمام سامعین نے بے حد پسند کیا ۔ثوبان قمر کی گائیگی نے خوب داد سمیٹی توعبدالرحمان کی شعلہ بیانی نے بھی خوب دل گرمائے کالج فیکلٹی کی ایک بڑی تعداد تقریب میں موجود تھی جن میں پروفیسر ڈاکٹر فیصل بھوپال ، پروفیسر ڈاکٹر شہبازکیانی،پروفیسر ڈاکٹراظہرقیوم ،پروفیسر ڈاکٹر فیصل بشیر سرجن ڈاکٹر ، ثاقب سماعیل ،ڈاکٹر تنویرصادق کالج کے قائم مقام پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر شوکت موجود تھے، اس کے علاوہ آبروصحافت الطاف حمیدرائو اور علی اختر سلیم نے بھی محفل شرکت کرکے شکریہ کا موقع فراہم کیا ،یاد رہے کہ اس بیج کے پانچ سال مکمل ہونے سے پہلے ایک بیج کالج ہذا سے فارغ التحصیل ہوچکا ہے جس میں شامل کپٹن ڈاکٹر باسط نے پاکستانی سپاہ کی طرف سے Sword of Caneکا اعزاز حاصل کیا جو ادارے اور طلبا ء و اساتذہ کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے آج مورخہ 31جنوری کو کالج کی چھٹی سالگرہ منائی گئی ساتھ ہی نئے پرنسپل محترم پروفیسر ڈاکٹر عمران بٹ نے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا اُن کا عزم یقینا کالج کو مزید آگے لے کر جائے گا حسب معمول ڈاکٹر حسنات سرگرم نظر آئے لیکن کالج میگزین کو منظر عام تک لانے کے لیے انھیں پھر کمربستہ ہونا پڑے گا ، ڈاکٹر ہاشم کچھ انتظامی معاملات پر دُکھی ہیں یہ کہانی پھر سہی ۔
بات الواعی تقریب کی ہورہی تھی جہاں دانش میرکو ’’رونق محفل ‘‘قرار دیا گیا ، بات وہی ابتدائیہ والی دلوں میں اُٹھنے والے دھویںبھلا کہاں دکھائی دیتے ہیں ، تیز آندھی کا رخ آج تک کون موڑ سکا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں