2012میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کے چند سال باقی تھے کہ سربراہ ادارہ منہاج القرآن و پاکستان عوامی تحریک علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان میں بد ترین عوامی حالات کو بدلنے کے نام پر لاہور سے اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لئے قافلہ نکالا سردی کے سخت موسم کے باوجود جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے باسی صبح سے ہی ایکسپریس ہائی وے کے دونوں جانب پہنچ گئے جی ٹی روڈ پر بے پناہ عوامی پذیرائی کے باعث ان کا یہ قافلہ نصف شب کے قریب شہر اقتدار وارد ہوااور شاہراہ دستور پر دھرنا دے دیا ،یہ دھرنا کئی دن جاری رہا بالآخر مذاکرات کے بعد حکومت نے شرکاء کو گھروں تک پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹ تک مہیا کی،اس دوران علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی انتہائی جذباتی تقاریر میں موجودہ نظام کو بدلنے پر سارا زور تھا ملک میں کئی دہائیوں سے پسی ہوئی اور آج تک پسنے والی قوم کی حالت بدلی جا سکے،بعد میں قومی انتخابات میں عوامی امنگوں کے عین مطابق منشور کا پر چار اور پیپلز پارٹی کے سربراہ و صدر مملکت آصف علی زرداری کو لوٹی دولت پیٹ سے نکالنے اور گلیوں میں گھسیٹنے جیسی جذباتی تقاریر میں عوام کو اپنی جانب مائل کر لیا،وقت گذرتا چلا گیا موجودہ حکومت کے ایک سال گذرنے کے قریب ڈاکٹر طاہرالقادری نے کینیڈا سے حکومت کے خلاف مہم کا اعلان کر دیادوسری جانب پی ٹی اے نے بھی لانگ مارچ اور دھرنے کے لئے پر تول لئے،طاہر القادری کی واپسی سے قبل پنجاب حکومت نے کچھ ارادے باندھ کر ادارہ منہاج القرآن ماڈل ٹائون پر بیرئیرز ہٹانے کے نام پر ہلہ بول دیا دل دہلا دینے والے مناظر ساری دنیا نے دیکھے جن میں 14افراد جن میں عورتیں بھی شامل تھیں شہید کر دیا کارکنوں پر بربریت کا پہاڑ توڑ دیا گیا،اس کے بعدلانگ مارچ ہوا ،دھرنا ہوا پی ٹی آئی پاکستان عوامی تحریک کے متوازی چلتی رہی،دھرنا اور لانگ مارچ میں یہ یکجا ضرور تھے مگر مسلمہ حقیقت تو یہی تھی کہ عمران خان موجودہ نظام کے حامی کے طور پر نکلے اور ڈاکٹر طاہر القادری اس نظام کو یکسر بدلنے کے منشور پر قائم تھے،ان طویل ترین دھرنوں میں ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن ہر مقام پر ڈٹے رہے مگر پی ٹی آئی کے کارکنان تیار ہو کر شام کو آتے اور نصف شب کے قریب لوٹ جاتے،بالآخر طاہر القادری کو جب یقین ہو گیا کہ اس بار بھی کامیابی کا زینہ ان سے روٹھ چکا اور عمران خان کی جموعی سوچ ان سے مختلف ہے تو انہوں وہاں سے کوچ کیا ،بعد میں سانحہ اے پی ایس تک عمران خان کا دھرنا بھی جاری رہا ،جب کئی دن عمران خان کا اسلام آباد میں اکلوتا دھرنا رہا تو الراقم نے لکھا تھا اب کنٹینر پر کیمروں کے سامنے ٹہلنے والے عمران خان کے کانوں میں وہاں سے گذرنے والی ہوا یہ سرگوشی ضرور کرتی ہو گی کہ یہ تنہائی کیسی ہے؟ وقت کا دھارا چلتا رہا ڈکٹر طاہر القادری کئی بار پاکستان آئے مگر سوائے تقریری جدوجہد کے وہ سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کے لئے کچھ نہ کر سکے،اب کی بار وہ کینیڈا سے واپس آئے تو اس سانحہ پر جسٹس باقر نجفی رپورٹ عدلیہ کے حکم پر سامنے آ گئی،پہلے دو بار ڈاکٹر طاہر القادری نظام کی تبدیلی میں دومرتبہ انتہائی جدوجہد کے باوجو دمات کھا چکے تھے مگر اس بار وہ سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کے حوالے سے نئی بنی پالیسی جس کا نہ جانے انہیں کس نے مشورہ عنایت فرمایا اس وقت تک وہ بری طرح ناکام نظر آتے ہیں ان کی اس ناکامی کے پیچھے کئی اہم دماغوں کی صلاحیتیوں کا کمال تھا،انہوں نے ماڈل ٹائون میں40 سے زائدسیاسی و مذہبی جماعتوں کو دعوت دی سب کھینچے چلے آئے ان میں پاکستان تحریک انصاف،پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ (ق)،مجلس وحدت المسلمین ،اہل سنت والجماعت ،جے یو آئی (س) اور عوامی مسلم لیگ بھی شامل تھیںمشاورت کے بعد 17 جنوری کو لاہور کے اہم ترین علاقہ مال روڈ پر احتجاجی تحریک کا باقاعدہ آغاز کیا گیا،اس احتجاجی جلسہ میں ڈاکٹر طاہر القادری سمیت وہ سب اہم شخصیات شامل تھیں جو ماضی میں اپنی اپنی تقاریر میں ایک دوسرے کے خلاف بدترین لفظی گولہ باری کرتے رہے،طاہر القادری کا پہلا دھرنا آصف علی زرداری کے خلاف ہی تھا،شہداء سانحہ ماڈل ٹائون کے انصاف کے حصول کے لئے سجی محفل میں اہم سیاسی لیڈران آگے مگر ایک ساتھ نہیں،دوسرے سیشن میں پی ٹی آئی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہان عمران خان اور شیخ رشید کی جذباتی تقاریر جس میں نااہل شخص کے حق میں ووٹنگ اور ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے تبدیلی کی مذموم کوشش پر پالیمنٹ پر لعنت جیسے الفاظ ادا کر دئیے،(الراقم پارلیمنٹ کو بطور ادارہ کسی صورت لعنت بھیجنے کے حق میں نہیں ) مگر اس بیان پر وہ طوفان برپا کیا گیا کہ ماڈل ٹائون میں شہید ہونے والوں کی روح ضرور تڑپی ہو گی تب شاید علامہ طاہر القادری کی نیند بھی روٹھ گئی ہو گی کہ وہ کرنا کیا چاہتے تھے اور ہو کیا گیا؟اس وطن میں بسنے والی عوام اس لحاظ سے ضرور بدقسمت واقع ہوئی کہ انہیں جب بھی کسی بہتری کی آس نظر آتی ہے تب ایسے حالات پیدا کر دئیے جاتے ہیں کہ ان کی بینائی ہی سلب ہو جاتی ہے ،شہداء ماڈل ٹائون کے انصاف کے لئے کیا گیا یہ جتن پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ضرور بہترین اور کسی نعمت سے کم ثابت نہیں ہوا جس کے اگلے چند دن میں نہ جانے روابط کے کتنے تار تھرکے،پی پی پی کو پنجاب میں پائوں جمانے کا سنہری پلیٹ فارم جو انہیں شاہد ملتا ہی نہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھوں یہ سب کچھ ہو گیا،جاننے والے سبھی کچھ جانتے ہیں،مان لیا اور مانتے ہیں کہ پارلیمنٹ مقدس ترین ادارہ ہے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ جنہوں نے اپنے دور حکومت اور بطور اپوزیشن لیڈر عوام کی بربادی میں برابر اور بھرپور کردار کے حامل ہیں دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داریاں ہوتی کیا ہیں اور یہاں کیا کردار ادا ہوا ؟دوسرے دن قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کی گئی تقریریں اور شدید رد عمل چیخ چیخ کر واضح کر رہا تھا یہ سب ایک ہی ہیں ان میں سوئی برابر بھی دوری نہیں اور جو دوری ظاہر کی جاتی ہے وہ اپنی پارٹی کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے ہوتی ہے تا کہ لوگ سمجھے یہ نہیں وہ ہمارا ہمدرد ہے قیام پاکستان سے لے کر آج تک قوم کے ساتھ یہی چھپن چھپائی کا کھلواڑ کیاجا رہا ہے اسی طرح ان کے حقوق غضب کئے جا رہے ہیں،جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں یہ ایک دوسرے کے تہوں میں پڑے راز اور لوٹ مار بھی عوام کے سامنے لے آتے ہیں تہذیب کا ،بہتر روایات کاجنازہ نکال دیا جاتا ہے تا کہ ان کا ووٹ پھر سے زندہ ہو جائے،خیر ہر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام ارکان کرپٹ نہیں ہوتے مگر کیا آج تک مقننہ نے نظام عدل میں میں رائج صدیوں پرانے قانون کو بہتر کیاْ؟ عوام کی بہتری کے لئے کیا اقدامات یا اصلاحات لائی گئیں؟آج تک عوام کو صاف پانی مل سکا؟تعلیم و صحت میں عوام خود کفیل ہیں؟قبضہ گروپس کن لوگوں کے ہیں؟منی لانڈرنگ میں کون ملوث ہیں؟بیرون ممالک کس طبقہ کے اثاثے اور جائدادیں ہیں ؟ملک و قوم کو قرضوں میں جکڑنے والے کون ہیں؟کرپشن کے شہنشاہ کون ہیں؟قومی اداروں کو اپاہج اور لولا لنگڑا کس نے بنایا؟تمام بڑے قومی اداروں پر کرپٹ حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو تعیناتی کون کرتا ہے؟اس گندے فرسودہ اور بدبودار نظام کی آبیاری کن کے ہاتھوں ہوتے ہیں؟ماورائے عدالت قتل کن کی پشت پناہی سے ہوتے ہیں؟اس طرح کے ایسے نہ جانے کتنے تکلیف دہ سوال ہیں مگر کس کس کا ذکر کیا جائے؟پارلیمنٹ کے بعد حکومت کا سب سے بڑا ستون عدلیہ ہے ،پانامہ لیکس کے بعد اعلیٰ ترین عدلیہ کے حکم پر جے آئی ٹی کی انکوائری کے بعد میاں نواز شریف کو نااہل کر دیا اور مزید کرپشن یاناجائز اثاثہ جات کے مقدمات زیر سماعت ہیں مگر جو کچھ عدلیہ کے بارے ہرزا سرائی اور سر عام تذلیل کی جاتی ہے ،اعلیٰ عدلیہ کے جسٹس صاحبان کو محض افراد کہا جا جاتا ہے ،عوامی جلسوں میں سپریم کورٹ کے بارے میںShame Shameکے نعرے لگوائے جاتے ہیں،انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں ،انہیں کسی عالمی سازش کا مہرہ ثابت کرنے کا گھٹیا ترین الزام لگایا جا تا ہے،وزیر اعظم کہتا ہے اس عدلیہ کے فیصلے ردی کی ٹوکری میں ہوں گے،اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے سربراہ ،خورشید شاہ سمیت دیگر اہم رہنماء بھی عدلیہ پر شریف خاندان کی طرح چڑھائی کئے ہوئے ہے ،اس کے علاوہ پاکستان کی محافظ اور دنیا کی بہترین فوج کو نام لئے بغیر اسے بہت کچھ کہا جاتا ہے ،کیا ان تمام قباحتوں،عوامی حقوق کو غضب کئے جانے،عدلیہ کے خلاف پاکستانی تاریخ کی بدترین سر عام لعن طعن کئے جانے،ختم نبوت ؐکے قانون میں ترمیم کے بارے ان کی بصیرت اور بصارت کہاں ہے؟یہ سب معزز و مقدس پارلیمنٹ کے اراکین کی نظروں سے اوجھل ہے؟کچھ تو شرم یا حیا ہو تی کہ اس وطن میں بسنے والی قوم کو اپنا سمجھا جائے،حال ہی میں کراچی میں بے گناہ نوجوانوں کی ہلاکت اور قصور میں معصوم زینب کا معاملہ بد ترین معاشرتی پستی اور المیہ ہے جس کے ذمہ دار بھی ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے اس قوم کو محرومیوں اور پستیوں میں رکھنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جہاں نظام ہی گندہ ہو وہاں گندگی تو ہو گی،ؑعلامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور اس کے ساتھیوں سے یہ غلط فیصلہ کروا لیا گیا،ڈاکٹر طاہر القادری یہ بھی فراموش کر گئے کہ وہ جن کو انپا دوست سمجھ رہے ہیں جن کے بارے کیا کیا کچھ نہیں کہتے رہے اگر وہ ٹھیک ہیں یا تھے تو پھر ان کا یہ مقام تھا کہ ان کے بارے میں ناقابل بیان الفاظ استعمال کرتے ،میرے جیسا عام آدمی بھی طاہر القادری کے اس قول و فعل کے واضح نظر آنے والے تضاد پر حیران و پریشان ہے ،ایک تو پہلے ہی شہداء ماڈل ٹائون سے انصاف کوسوں دور تھا جسے ادارہ منہاج القرآن نے خود مزید دور کر دیا ہے،جس طرح شہر اقتدار میں کنٹینر پر مارگلہ سے آنے والی ہوا عمران خان پر ہنستی تھیں آج اسی ہی طرح ہوائیں اور لمحات بیڈروم سمیت ہر جگہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ہمرکاب ہیں ان کی سوچوں پر حاوی ہوں گے،ہنستے ہوں گے ،ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کا رکنان ڈاکٹر طاہرالقادری اور ادارے سے بہت مخلص ہیں ڈاکٹر طاہر القادری کو انہی پر ہی بھروسا کرنا ہو گا اگر انہیں اپنے شہداء بیٹے اور بیٹیوں کے لئے انصاف چاہئے تو۔
رابطہ نمبر 0300 6969277...0344 6748477
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں