بادشاہ صرف ایک سیب توڑتا ہے جبکہ رعایا سارا باغ تہس نہس کردیتی ہے، ایک لیڈراور ایک سیاستدان میں تمیز یہی رویہ کرتا ہے ، لیڈر قوم اور اسکے اثاثوں کو جوڑتا ہے جبکہ سیاستدان کی توجہ توڑپھوڑ کی طرف رہتی ہے ۔ بقول جمال احسانی
ایسے میں روشنی کا تمنائی کیا کرے
ہرسمت تیرگی ہوتو بینائی کیاکرے
کھلی کچہریاں لگانے کا کلچر بھٹوصاحب نے عام کیا تھا ’’کوئی آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں ‘‘ اس کلچر کو عام کر نے کامقصدیہ تھا کہ عوامی مسائل کو جہاں تک ممکن ہوحل کیا جاسکے ، ساتھ ہی عوام میں ان کی مقبولیت برقرار رہے یہی بھٹو صاحب کا سیاسی کر شمہ تھا کہ وہ ایک زیر ک سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا جانتے تھے ، یہ انکے اقتدار سبنھالنے کے اوائل ایام کی باتیں ہیں۔وزیراعلیٰ، انکی کابینہ اور کچھ ’’فرض شناس‘‘ سول آفیسران نے اپنا رنگ دکھا نا شروع کر دیا ، عرضی گزاروں کو پہلے ہی سوال اور مسائل تقسیم کردیے جاتے ، چنانچہ بھولے بسرے لوگ وہی سوال بھٹو صاحب کی خدمت میں پیش کر تے جن کی منظوری وزیراعلیٰ پنجاب رامے صاحب اور ان کی ٹیم کی طرف سے ہوتی تھی ۔اپنے آپ کو زیادہ ’’خدمتگار‘‘ثابت کرنے کی دوڑ میں ان لوگوں نے بھٹو صاحب کی لگائی گئیں کھلی کچہریوں کا اصل مقصد ختم کر دیا ،گویا یہ عوامی مسائل کو عوام کے روبرو ہو کر سننے کا آخری دورتھا ،پھر کسی سیاستدان کو حکومت میں ہوتے ہوئے اسطرح عوامی مسائل سننے کی توفیق وجرات نہ ہوسکی ۔
تازہ خبر یہ کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے امسال (2017-18)کی کرپشن میں ملوث ممالک کی فہرست جاری کر دی ہے یہ فہرست ہر ملک کے امن وامان ، سیاسی صورت حال، معاشرتی ومعاشی مسائل ، مفاد عامہ کے جا ن ومال کے تحفظ ،کرنسی کی مضبوطی کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی جا تی ہے ۔پاکستا ن کا کرپشن میں ملوث ممالک کی فہرست میں 117واں نمبرہے ،180ممالک میں سے گزشتہ سال بھی پاکستان کی یہی پوزیشن تھی ۔رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمارے یہاں ہر سطح پر کرپشن کے آدم خود جراثیم موجود ہیں ضلعی انتظامیہ سے متعلقہ کام مثلاً پولیس ، پٹوار طبقہ وغیرہ کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں ،یوں کہا جا سکتا ہے کہ نوٹ کی چمک ہر مرض کی دعا بنتی جا رہی ہے ۔
کرپشن کی کئی اقسام ہیں ، یہ بیماری صرف رشوت یا غبن ہی تک محدود نہیں بلکہ کوئی بھی ایسا کام جس سے ذاتی یا اپنے کسی عزیز کی فلاح وبہبود کو ہرصورت ممکن بنانے کا جذبہ بیدار ہوجائے جو عام حالات میں ممکن نہ ہو کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔ سرکاری سکولوں کی حالت دیکھیے طلبہ کی تعداد کم ہو رہی ہے اور اساتذہ کی تعداد زیادہ ، وجہ یہ کہ والدین اس بات پر یقین کرنے کوتیار نہیں کہ ہمارا بچہ سرکاری سکول میں استاد کی مناسب توجہ حاصل کر پائے گا ، ان سکولوں میں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد اپنے فرائض منصبی کو دل سے ادا نہیں کر تی ،قومی فرائض منصبی کو اس طرح ادانہ کرنا جس طرح اسکو کر گزرنے کا حق ہو کرپشن اور ناانصافی کی ابتداء کو جنم دیتا ہے، اسی سطح سے مسائل جنم لیتے ہیں ساتھ ہی طفل مکتب کے اذہان میں یہیں سے یہ بات ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ سرکاری نوکری کاحصول متعلقہ فرائض ادا کرنے کا نا م نہیں ۔
صحت کا شعبہ اپنے مسائل میں گھر ا ہوا ہے، پرائیویٹ میڈیکل کا لجوں کی شدید قسم کے ٹریفک کے رجحان کو وزرات ہیلتھ اور ایک ریگولیڑی ادارہ ،پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں ۔وفاقی ہیلتھ سیکرٹری کے خلاف نیب میں غیر قانونی طور پر پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو اجازت نامے دینے کے بدلے میں کرپشن میںملوث ہونے کے الزامات ہیں ۔ضلعی انتظامیہ سے متعلقہ محکوموں کودیکھ لیجئے جو رشوت کے بغیر ایک قدم بھی اٹھانے کوتیار نہیں ہوتے ،پولیس کا محکمہ جو کہ امن امان کو بحال رکھنے کا ذمہ دار ہے اس کی حالت زاردیکھ کے ترس آتاہے ۔کرپشن میں استعمال ہونے والی رقم کی ایک بڑی تعداد شدت پسندی میں استعمال ہوتی رہی ہے ، نیشنل ایکشن پلان ایسے تمام معاملات کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیتا ہے ، کچھ اسی قسم کے معاملات کی وجہ سے پاکستا ن کا نام FATFکی گرے لسٹ میں شامل کر نے کی باز گشت ہے ۔
معاشی طور پربھی ہم کر پشن سے پاک نہیں کمیشن مافیاز کا یہاں بھی راج ہے کمیشن مافیاز اور پریشر گروپوں کی موجودگی کی وجہ سے بیرونی ممالک سے سرمایہ کاریہاں سرمایہ کا ری کو تیار نہیں۔ کرپشن کو بہت حد تک کمزور کیا جاسکتا ہے مثلاً تعلیم کو عام کیا جائے ،بلدیاتی اداروں کو فعال کیا جائے ،شکایات سیل بنائے جائیں تاکہ لوگ مسائل نہ حل ہونے کی صورت میں اپنا مسئلہ رجسٹرڈ کر اسکیں، ضلعی انتظامیہ سے متعلقہ محکموںپولیس ، پرائس کنٹرول وغیرہ کی ہر ماہ جانچ پٹرتال کی جائے، تمام سرکاری تعیناتیاں میرٹ پر کی جائیں ، ڈپٹی کمشنر وں کو ہر پندرہ دن بعد کھلی کچہری لگانے کا اہتمام کر نا چاہیے ،ہمارے یہاں بے شمار غیر سرکاری ادارے (این جی اوز ) موجود ہیں انہیں چاہیے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے بھی پبلک سیمنار کریں ، کالجوں اور یونیورسٹیوںمیں بھی کرپشن اور ناانصافی کے خاتمے کے لیے لیکچرز کا اہتما م کر نا چاہیے ۔میں نے جان بوجھ کر سیاسی کرپشن کی طرف کوئی زیادہ توجہ نہیں دی جوکہ ان سب مسائل کی جڑ ہے ، سنا ہے سینٹ کی ایک نشست کی بولی لاکھو ں نہیں کروڑوں میںلگ رہی ہے ، آپ سیاسی کرپشن کو چھوڑ کر اس بات پر توجہ دیں کہ کرپشن آزادی اظہار رائے کوقتل کرنے میں پیش پیش ہے ۔ بقول لارڈ ایکٹن Power tends to corrupt and absolute power corrupts absolutely۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں