جمعرات، 1 فروری، 2018

سندھ کے وزیر ہزار خان بجارانی اور اہلیہ کی لاشیں برآمد،کنپٹی، ماتھے پر گولیاں لگیں،4 ملازمین سمیت 5 گرفتار


کراچی(حرمت قلم نیوز) پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سندھ کے صوبائی وزیر برائے منصوبہ بندی وترقی میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ کی نعشیں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ان کی رہائش گاہ سے برآمد ہوئی ہیں۔ میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ فریحہ رزاق پراسرار طور پر فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ پولیس نے خودکشی اور قتل کے امکانات کے بارے میں تفتیش شروع کردی جبکہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت صوبائی وزراءاور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی بڑی تعداد میر ہزار خان بجارانی کی رہائش گاہ پہنچ گئی۔ ہزار خان بجارانی کی موت پر ان کے آبائی قصبے کرم پور میں کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گیا۔
سندھ کے وزیر ہزار خان بجارانی اور اہلیہ کی لاشیں برآمد،کنپٹی، ماتھے پر گولیاں لگیں،4 ملازمین سمیت 5 گرفتار
 اطلاعات کے مطابق میرہزار خان بجارانی کنپٹی اور ان کی اہلیہ فریحہ رزاق کی موت ماتھے پرگولی لگنے سے ہوئی۔ دونوں جب صبح دیر تک کمرے سے باہر نہیں آئے تو دروازہ توڑا گیا تو وہ مردہ حالت میں پائے گئے۔ پولس کا کہنا ہے کہ واقعہ خودکشی ہے یا دونوں میاں بیوی کوقتل کیا گیا ہے اس بارے میں تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ میر ہزار خان بجارانی کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ فریحہ رزاق بھی سیاست سے وابستہ تھیں اور سابق رکن سندھ اسمبلی بھی رہ چکی تھیں۔ اس بات کے باوجود کہ پولیس خودکشی کے امکان پر بھی تفتیش کررہی ہے۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراءاور اہم رہنما اس حوالے سے مطمئن نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میر ہزار خان بجارانی ایک سنجیدہ اور بردبار انسان تھے ان کی خودکشی کی بات پر یقین کرنا آسان نہیں ہے۔ سابق رکن سندھ اسمبلی فریحہ رزاق صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی کی دوسری بیوی تھیں‘ پولیس دونوں کی پراسرار ہلاکت کے بعد میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں بھی تحقیقات کررہی ہے۔ دونوںکی لاشیں ڈیفنس میں ان کی رہائش گاہ کی بالائی منزل پر جس کمرے سے ملیں وہاں کسی قسم کی مزاحمت کے آثار نہیں پائے گئے، دونوں میاں بیوی کے سروں پر ایک ایک گولی لگی تھی‘ فریحہ رزاق کی لاش بیڈ پر پڑی ہوئی تھی جبکہ میر ہزار خان بجارانی کرسی پر مردہ پائے گئے جس کے قریب ہی پستول بھی پڑا ہوا تھا جسے پولس نے قبضے میں لے لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں کوگولیاں کتنے فاصلے سے لگیں اس کا پتہ پوسٹمارٹم سے چل سکے گا جبکہ قبضے میں لئے گئے پستول کا فارنزک ٹیسٹ کرایا جائے گا۔ پولیس نے ہزار خان بجارانی کے 4ملازمین سمیت 5افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ گرفتار افراد میں چار گھریلو ملازمین جن میں ہزار خان بجارانی کا باورچی‘ ڈرائیور اس کی بیوی شامل ہیں ڈرائیور سرکاری ملازم ہے اس کی اہلیہ اسی بنگلے میں رہتی تھی۔ ہزار خان بجارانی کی سکیورٹی کیلئے تعینات 2 پولیس اہلکاروں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب نے کہا ہے کہ میر ہزار خان بجارانی کی کنپٹی پر گولی لگی ہوئی ہے۔ جائے وقوعہ سے 30بور کی پستول اور 3گولیاں ملی ہیں۔ صرف میر ہزارخان بجارانی کی لاش کا معائنہ کیا ہے۔ بجارانی کی اہلیہ فریحہ کی لاش کا معائنہ لیڈی ڈاکٹر کریں گی۔ میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ کی لاشیں جناح ہسپتال منتقل کر دی گئی ہیں‘ 4راؤنڈ فائر ہوئے جو مس ہوگئے۔ آصف علی زرداری اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے صوبائی وزیر سندھ میر ہزارخان بجارانی اور ان کی اہلیہ کی ہلاکت پر اظہار افسوس کیا ہے۔ آصف علی زرداری نے سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ میر ہزارخان بجارانی پرانے ساتھی تھے‘ اس واقعہ کے بارے جان کر بہت صدمہ ہوا۔ دریں اثناءپی پی پی کے سینٹ کے ٹکٹوں کے فیصلے کیلئے کراچی میں طلب کیا جانے والا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ کی ہلاکت کا واقعہ منظرعام پر آنے کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تمام مصروفیات منسوخ کر دیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات ناصرشاہ نے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان کے سر پر گولیاں 
لگی ہیں اور مزید تفصیلات پوسٹ مارٹم اور تفتیش کے بعد ہی سامنے آسکیں گی۔ 
سندھ کے وزیر ہزار خان بجارانی اور اہلیہ کی لاشیں برآمد،کنپٹی، ماتھے پر گولیاں لگیں،4 ملازمین سمیت 5 گرفتار
صوبائی وزیر کی ہلاکت کی اطلاع ملنے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سیدمرادعلی
 شاہ، صوبائی وزیر داخلہ سہیل انورسیال میر ہزار خان بجارانی کی رہائش گاہ پہنچے تاہم دورے کے بعد وہ میڈیا سے کوئی بات کیے بغیر روانہ ہو گئے۔ تاہم صوبائی وزیر منظور وسان نے میڈیا سے بات کی اور جب ان سے سوال کیا گیا کہ کہیں میر ہزار خان نے خودکشی تو نہیں کی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ انتہائی شفیق اور پیار کرنے والا شخص تھا ان کی زبان سے کبھی ایسا منفی لفظ نہیں سنا گیا جو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہو۔ انہوں نے اس خیال کو بھی مسترد کیا کہ میر ہزار خان ذہنی دباو¿ میں تھے۔ منظور وسان کے مطابق گزشتہ روز ہی وہ کابینہ کے اجلاس میں ساتھ تھے اور ایسا کچھ نہیں تھا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک نے جمعرات کو طلب کردہ اپنی پریس کانفرنس سوگ میں ملتوی کردی ۔ پارٹی قیادت کی ہدایت پر رحمان ملک نے اہم قومی سلامتی کے معاملا ت پر پریس کانفرنس کرنا تھی۔ انہوں نے واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میر ہزار بجارانی اور سیف اللہ بنگش کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ آئی جی سندھ نے میڈیا کو بتایا کہ سب سے پہلے وقوعہ کا علم فریحہ بی بی کے بچوں کو ہوا۔ داخلی دروازہ بند تھا، بچے عقبی دروازے سے گھر میں داخل ہوئے، گھر کے سی سی ٹی وی کیمرے اور ڈی وی آئی تحویل میں لے لئے ہیں۔


روائتی صحافت اور صحافتی طرفین!


 تحریر:شیخ خالد زاہد 
 تمام ادارے منافع بخش اور قدرے ہموارسمتوں کا تعین کرتے ہیں یہ ادارے اجتماعی سطح پر بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے مفادات سے کوئی نا ٹکرائے اور کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش نا کرے اسی طرح اگر کوئی اپنی ہی نوعیت کا ادارہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث پایا جاتا ہے تو پہلے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ معاملہ نجی سطح پر ہی حل کرکے ختم کردیا جائے نا کہ اس کو منظر عام پر بطور تماشہ بننے کیلئے چھوڑ دیا جائے۔ یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اداروں کی سربراہی کرنے والے لوگ اداروں کے منتظمین انتہائی منظم اور پختہ ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں۔ ملک کے چار ستونوں میں سے اب تک صرف ایک ستون ایسا تھا جو اپنے آپ میں غیر متوازن تھا ۔ اس غیر متوازن ستون کو ہم پارلیمنٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن ہمارے دیگر تین ستون عدلیہ ، فوج اور صحافت مضبوط ستونوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مملکت کا نظام و امور احسن طریقے سے چلتے دیکھائی دیتے رہے ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ کسی دریا کی مانند بہہ رہا ہے، کہیں کوئی رکتا ہی نہیں ، یہ ہوگیا وہ ہوگیا اسنے یہ کہہ دیا اسنے یہ کردیا سب کچھ چلتے چلتے ہورہا ہے ۔ کوئی حادثہ کوئی سانحہ اس دریا میں ظغیانی کا باعث بنتا ہے اور پھر یہ اپنے معمول کے بہا وٗپر بہنے لگتا ہے۔ 
اکیسویں صدی میں صحافت مختلف اصناف میں تقسیم ہوچکی ہے جسکی ایک وجہ سوشل میڈیا بھی بنا ہوا ہے ۔ چھپائی شدہ اخبارات آج بھی بڑے بڑے نامی گرامی کتابوں کی دکانوں کے ساتھ ساتھ ماضی کی طرح چھوٹے چھوٹے لکڑی کے کھوکھے پر بھی بکتے دیکھائی دیتے ہیں لیکن آج کی ضرورت کے عین مطابق تقریباً اخبارات تک رسائی بذریعہ انٹرنیٹ بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں صحافت کی تقریباً ہر صنف نے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں ترقی کے سارے سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ صحافت نے ترقی کرتی دنیا سے بھرپور ہم آہنگی نبہائی اور اپنے بھرپور بین الاقوامی اثرورسوخ کی مدد سے عوام میں آگہی کی پرورش کا بیڑا اٹھایا کہ پاکستانی عوام سیاسی طور پر بالغ ہوتی محسوس ہورہی ہے۔ یہ صحافتی ترقی کاہی نتیجہ ہے کہ لوگوں میں بہت حد تک امور سلطنت میں دلچسپی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور اپنے حقوق اور قانون کی کسی حد تک سمجھ بوجھ آنا شروع ہوگئی ہے ۔ عوام جو کسی حد تک شعور کے زیور سے آراستہ ہوئی ہے درحقیقت اس کا سہراصحافت کے ماتھے پر ہی سجے گا۔ اب بہت جلد اس بلوغت کا امتحان ہونے والا ہے جو کہ آنے والے انتخابات کے نتائج سے ثابت ہوجائیگا۔ 
ہم اور آپ اگر اپنے ذہن میں کسی بھی فرد کیلئے خود ساختہ تصویر بنالیں ،اسکے ذہن کی پیمائش بھی خود ہی طے کرکرلیں (یعنی وہ کیسا سوچتا ہوگا) اور جس کو آپ نے اپنی مرضی سے ترتیب دیا ہے اور خال و خد خود ہی بنائے ہیںتو اس خام خیالی اور خود فہمی میں اس شخص کابتائیں کیا قصور ہے۔اب وہی شخص حقیقتاً سامنے آجائے کی صورت میں کوئی بات نہیں آپ اپنا تصور حقیقت سے تبدیل کرلیجئے۔ تبدیلی تو قدرتی طور پر ہوجائے تو ہوجائے ورنہ ہم جان بوجھ کر بدلنے کے قائل نہیں ہیں۔ 
ایک وقت ایسا بھی تھا جب اختلاف رائے پر گردن اڑا دی جاتی تھیں ، آپ کے خیال میں وہ وقت گزر گیا؟ جی نہیں ! آج اس عمل نے بھی ترقی کرلی ہے کیونکہ اپنی زندگی سے بھی پیار ہوتا ہے اس لئے آج اختلاف کرنے والی گردن تو نہیں ماری جاتی بس اسکی عزت کے درپے ہوجاتے ہیں اور اسکے خلاف اپنے ہم خیال لوگوں کو جمع کرلیا جاتا ہے اور باقاعدہ قلم و زبان سے بہت خوبصورتی سے اسکی عصمت دری کی جانے لگتی ہے۔اسوقت کرائے کے قاتل میسر تھے (وہ آج بھی دستیاب ہیں اور انہوں نے وردیاں پہن لی ہیںاور وہ اپنی مرضی سے اس کام کو سرانجام دے رہے ہیں) ۔آج اس کام کوسرانجام دینے کیلئے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ ٹیلی میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ پارلمینٹ ریاست کا اہم ترین ستون ہونے کے باوجود ہمیشہ سے عدم استحکام کا شکار رہا ہے جسکی وجہ سے یہ اپنی بالادستی آج تک قائم نہیںکرسکا ، پارلمینٹ کے عدم استحکام کی ایک اہم ترین وجہ یہاں منتخب نمائندوں کے مابین ملکی سالمیت کے لئے مختلف سمتوں میں کام کرنا ہے ۔ اب کچھ اس ہی طرح کا حال میڈیا کا بھی دیکھائی دے رہا ہے کہ سب اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر صحافت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور آہستہ آہستہ پاکستان انکے بنیادی منشور میں سے مٹتا جا رہا ہے ۔ 
بطور انسان صحافی بھی اس ہی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں ، کسی کی طرفداری اور کسی سے اختلاف انسان کی فطرت میں ہے ۔ یہ اختلاف اور حمایت بہت حد تک کسی کے بھی ذاتی مفاد کی بنیاد پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس ذاتی مفاد سے ماورا فردمعاشرے کو اہمیت دیتے ہیں اور معاشرے کی یعنی اجتماعی بہتری کیلئے کچھ کرنے کو اہمیت ہی نہیں دیتے بلکہ اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔ بہت تکلیف سے لکھ رہا ہوں کہ آجکل صحافت کا حال لہروں کے سپرد کی جانے والی نائوکی جیسے ہے ۔یہی ایک وجہ صحافت اور صحافی پر ہونے والی دہشت گردی کی وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ شائد سچ اور جھوٹ کی تشہیر میں مفاد کو خاطر میں رکھا جانے لگا ہے ۔کاندھے پر بستہ لٹکائے سادہ سا لباس پہنے آپ جناب کرتی روائتی صحافت کا ضابطہ اخلاق تھا اور ابھی بھی ہے مگر روائتی صحافت صاحب فراش ہے۔ صحافت نے بھی جدید ملبوس کرلی ہے قلم و قرطاس سے بات بہت آگے نکل گئی ہے ، موبائل فون کے ذرئیعے ہی سارا کام سرانجام دیا جاسکتا ہے اور دیا جاتا بھی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت سے حتمی دن تاریخ معلوم کئے جاسکتے ہیں۔ صحافت نے جب ترقی کے رن وے پر قدم رکھاتو ضابطہ اخلاق ترتیب دینا بھول گیا ، ویسے بھی اونچی اڑان والوں کو کسی ضابطے اخلاق سے کیا لینا دینا، اور پھر ایسی اڑان پکڑی کے ضابطے خوفزدہ سے دیکھائی دینے لگے۔ اخبارات و رسائل سے بات نکل گئی ، بڑے بڑے میڈیا ہائوسز بننے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں میڈیا نے اپنی جگہ ہی نہیں بنائی بلکہ ریاست کے چھوتے ستون کی ذمہ داری سنبھال لی ۔اب خود ساختہ تصویریں تصور کی جانے لگیں اور حقیقت منظر عام پر آنے پر اپنا سمجھایا ہوا جھٹلائے جانے لگا۔ اب انہیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ اب یہ آسمان کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں وہاں رہتے ہوئے اپنے لوگوں کے تحفظ کیلئے اپنی اخلاقی اقدار کی پاسداری کیلئے سچ اور جھوٹ میں تفریق کرنے کیلئے سارے میڈیا ہائوسز بشمول چھوٹے بڑے سب اور خدا کیلئے اپنے بنیادی صحافتی منشور کوہمیشہ یاد رکھیں اور وہ یہ کہ صحافت ، صحیفوں سے نکلی ہے اور وہ صحیفے جو قدرت نے اپنے پاکیزہ بندوں کو انکی رہنمائی اور دنیا کی رہنمائی کیلئے اتارے ۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب طرفین کی صحافت کو ترک کردیا جائے۔ 

loading...