جمعہ، 30 مارچ، 2018

پاکستان کیلئے فریادی بنا،امید ہے چیف جسٹس نے فریاد کو سمجھا ہوگا:وزیراعظم

پاکستان کیلئے فریادی بنا،امید ہے چیف جسٹس نے فریاد کو سمجھا ہوگا:وزیراعظم سرگودھا(نمائندگان) وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ مخالفین کو ان کی اور چیف جسٹس کی ملاقات سے تکلیف ہوئی حالانکہ وہ ملک کی بہتری کے لیے ان کے پاس فریادی بن کر گئے تھے۔سرگودھا میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘مخالفین کو میرے چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملنے پر تکلیف ہوئی، اس ملاقات میں کوئی ذاتی بات نہیں کی تھی بلکہ ملک کی بہتری اور عوام کی مشکلات دور کرنے کے لیے فریادی بن کر گیا، جب ادارے مشکل میں ہوں تو فرض بنتا ہے کہ کردار ادا کروں۔’

ان کا کہنا تھا بے بنیاد الزامات سے ترقی رک جاتی ہے، آئندہ انتخابات میں پہلے سے زیادہ نشستیں جیتیں گے اور الزمات کی سیاست جولائی میں دفن ہوجائے گی۔خیال رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی تھی، جس کے بعد گزشتہ روز ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ وزیراعظم سے ملاقات میں کھویا کچھ نہیں صرف پایا ہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا تھا کہ میں نے وزیراعظم ہاوس جانے سے انکار کیا تو وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی خود چل کر میرے گھر تشریف لے آئے اور میرا کام فریادی کی فریاد سننا ہے، وہ فریاد سنانے آئے تھے مگر دیا کچھ نہیں۔

بعد ازاں اس بیان پر سپریم کورٹ کے ترجمان کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا تھا کہ چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے لیے فریادی جیسے الفاظ استعمال نہیں کیے تھے۔جمعہ کے روز اسلام آباد کی احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ چیف جسٹس نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے متعلق فریادی والی بات کی تھی تو انہیں اس پر قائم رہنا چاہیے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ فریادی یا وہ میرے پاس آئے تھے’ جیسے الفاظ کا استعمال کرنا مناسب نہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں ایک بار پھر خرید و فروخت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں ملک میں پیسے کی سیاست ختم کرنی ہوگی اور خرید و فروخت کی سیاست کو ہم نے دفن کرنا ہے، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پریس کانفرنس میں آکر کہیں کہ ان کے اراکین صوبائی اسمبلی کو نہیں خریدا گیا، جبکہ جو پیسے دے کر سینٹ کے چیئرمین بنے وہ پاکستان کے نمائندے نہیں۔انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اور آصف زرداری کے ادوار میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا، ماضی میں سڑکیں بنیں نہ بجلی گھر بنے جبکہ ملک میں گیس نہیں تھی اور صنعتیں بند تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آج ملک میں ہر جگہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ترقیاتی منصوبے نظر آرہے ہیں جبکہ سرگودھا میں 11 ارب روپے کے گیس منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔

کالا باغ ڈیم سے کالے بادل چھٹنے لگے

 کالا باغ ڈیم سے کالے بادل چھٹنے لگے
اسلام آباد(حرمت قلم نیوز)پاکستان میں ہر آنے والے دن کے ساتھ پانی کی قلت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک کروڑ 23لاکھ ایکڑ فٹ میٹھاپانی ہر سال سمندر کی نذر ہو رہا ہےاب جبکہ پنجاب کی سرزمین کانوئے فیصد زیر زمین حصہ پانی سے محروم ہوچکا ہے اور اس کے بارے میں بین الاقوامی پانی کے اداروں نے پاکستان کو خبردار بھی کیا ہے اس موقع پر سپریم کورٹ نے پاکستان کے متنازعہ ترین پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے کالاباغ کی تعمیر کیلئے ریفرنڈم کے حوالے سےدائر درخواست بھی سماعت کیلئے مقرر کردی ہے۔پاکستان میں ہر آنیوالے دن کے ساتھ پانی کی قلت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک کروڑ 23لاکھ ایکڑ فٹ میٹھاپانی ہر سال سمندر کی نذر ہونے لگا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم بنچ 2 اپریل کو کالاباغ ریفرنڈم کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کرے گا۔واضح رہے کہ میانوالی کے علاقے کالاباغ میں ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ 1953 سے زیر غور ہے، یہ پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ترین منصوبوں میں سے ایک ہے جس پر چاروں صوبوں کا اپنا اپنا موقف ہے، پنجاب کے علاوہ باقی تینوں صوبے اس ڈیم کی تعمیر کے سخت مخالف ہیں۔ 2005 میں سابق صدر پرویز مشرف نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کیا لیکن سیاسی مخالفت کے باعث وہ اس منصوبے پر کام شروع نہ کراسکے جس کے بعد 2008 میں اس وقت کے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے اس منصوبے کو ناقابل عمل قرار دے دیا تھا۔پاکستاان میں کوہ ہمالیہ کے گلیشئرسے آنے والے پانی کو ضائع کیے جانے اور اسے سمندر میں بہہ جانے کی منطق کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان خود اٹھا رہا ہے۔ بھارت پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو بھاری رشوت دے کر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے دور رکھنا چاہتا ہے اور وہ ابھی تک اس مقصد میں بڑی حد تک کامیابرہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ پاکستان کے عوام کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنیوالے اس حیاتی اہمیت کے حامل ڈیم کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔

loading...