بدھ، 28 مارچ، 2018

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ حیدرکرارکی فضیلت


تحریر:محمدصدیق پرہار
 کتاب خصائص اہل بیت کے صفحہ ۶۵ پرحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ولادت باسعادت ان الفاظ میں لکھی ہوئی ہے کہ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد طواف کعبہ میںمصروف تھیں ۔طواف کرنے والوںکاجم غفیرتھا کہ حضرت فاطمہ کودردزہ شروع ہواآپ گھبراگئیں کہ کیا کروں اپنے گھرتوجانہیں سکتی اوریہاںلوگوںکاہجوم ہے ۔اچانک دیوارکعبہ پھٹی اورندائے غیبی آئی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اگراپنے گھرنہیںجاسکتی تو ہمارے گھرمیںآجا ۔ایسی حالت میںکوئی بھی عورت کسی بھی مسجدکے قریب بھی نہیںجاسکتی بلکہ بی بی مریم کوحکم ہواکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہونے والی ہے ۔بیت المقدس سے ذرادورچلی جااورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ کوکعبہ کے اندربلالیاگیا۔شایدیہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کوہی حالت جنابت میں مسجدسے آنے(گزرنے)کی اجازت دی جس کی ماں حالت نفاس میں کعبہ کے اندرجاسکتی ہے اس کابیٹاحالت جنابت میں مسجدکے اندرکیوںنہیں آسکتا۔یہاں ہم ایک قابل غورنکتہ عرض کرناچاہتے ہیں عام زمین سے میقات کی زمین افضل ہے ۔کیوںکہ اس سے آگے بغیراحرام کے نہیںجاسکتے پھرمیقات سے حرم افضل ہے کہ وہاںکوئی غیرمسلم نہیںجاسکتا ۔پھرحرم مکہ سے شہرمکہ افضل ہے کہ جہاں ایک نمازکاثواب ایک لاکھ نمازکے برابرہے پھراس سے خانہ کعبہ کے اردگردکی جگہ جہاں طواف کیاجاتاہے پھراس سے کعبۃ اللہ کی عمارت والی زمین افضل ہے جوبیت عتیق ہے اورسارے جہانوںکے لیے ہدایت ہے اورکعبہ شریف کے اندرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ولادت ہوئی توچشمان مبارک بندہیں۔ عجیب بات ہے کہ لوگ ہزاروںلاکھوں روپے لگاکرزیارت کعبہ کے لیے جاتے ہیں ۔شایدحضرت علی رضی اللہ عنہ کعبہ کوبعدمیں دیکھناچاہتے ہیں اورکعبہ کے کعبہ کے رخ شمس الضحیٰ بدرالدجیٰ کی زیارت پہلے کرناچاہتے تھے۔یااس لیے آنکھیں بندرکھیں کہ غریب کے گھرکابچہ پیداہوتو سب سے پہلے محلے کی دائی کامنہ دیکھے ۔امیرکے گھرکابچہ پیداہوتوہسپتال کی نرس کامنہ دیکھے ۔مولاعلی نے چاہا کہ نرس اوردائی کامنہ توسارے بچے دیکھتے ہیں ایک بچہ ایسابھی ہوناچاہیے جوپیداہوتے ہی نہ دائی کامنہ دیکھے اورنہ نرس کابلکہ نہ اپنی ماںکاچہرہ دیکھے نہ باپ کا۔پیداہوتے ہی ادھراس کی آنکھ کھلے ادھر محبوب خداکاچہرہ کھلاہواقرآن علی کوزیارت کرانے کامنتظرہو۔حضرت علی المرتضیٰ کی پیدائش ہوئی تواتفاق ایساہواکہ ادھربیت اللہ سے اپنی والدہ کی گودمیں باب ولایت چل پڑے ۔ادھربیت عبداللہ سے باب نبوت ورسالت چل پڑے۔ادھرسے شہنشاہ اولیاء چل پڑے ،ادھرسے تاجدارانبیاء چل پڑے ۔ادھرسے کرامات والاغلام چل پڑاادھرسے معجزات والے آقاچل پڑے ۔ادھرسے حسنین کااباچل پڑاادھرسے بتول کاباباچل پڑا۔ادھرسے اسداللہ چل پڑے ادھر سے رسول اللہ چل پڑے ۔ادھرسے حبیب مصطفی چل پڑے ادھرسے محبوب خداچل پڑے۔راستے میں نبی وعلی کی ملاقات ہوگئی۔نبی علیہ السلام نے اپنی چچی فاطمہ نبت اسد(والدہ مولیٰ علی) کوبچے کی مبارک باددی۔انہوںنے قبول توکی لیکن عرض کیا۔ بچہ بڑاخوب صورت ہے لیکن آنکھیں نہیں ہیں ۔ حضور تاجدار کائنات نے بچہ ہاتھوں پہ اٹھایا اورعلی رضی اللہ عنہ نے نبی علیہ السلام کے ہاتھوں پہ آتے ہی موٹی موٹی آنکھیں کھول دیں۔ فرمایا چچی توکہتی ہے آنکھیں نہیں ہیں میں کہتاہوں اس جیسی کسی کی آنکھیں نہیں ہیں۔علماء کرام لکھتے ہیں کہ حضرت علی جب بڑے ہوئے توحضورعلیہ السلام نے ایک دن آپ سے پوچھا اے علی تونے کعبہ میں پیداہوکرآنکھیںکیوں بندرکھیں توحضرت علی نے عرض کی ۔حضوراللہ نے مجھے آپ کے لیے بھیجاتھا تومیںنے سوچا اعظم اوتھے کی ’’ویکھنا‘‘ جتھے یار نظرنہ آوے۔کتاب خاک کربلاکے صفحہ نمبرچوبیس پر حضرت علی شیرخداکاتعارف اس طرح لکھا ہواہے کہ آپ کی والدہ کانام فاطمہ بنت اسدہے اوروالدکانام عمران ہے اورکنیت ابوطالب اورآپ کعبہ میںپیداہوئے ۔آپ امیرالموء منین بھی ہیں اورامام المتقین بھی۔شیرخدابھی ہیں اورمشکل کشابھی۔مرتضیٰ بھی ہیں اوردامادمصطفی بھی۔کون علی رضی اللہ عنہ جس نے کبھی خیبرکے قلعے کواکھاڑااورکبھی مرحب وابن ودکوپچھاڑااورجس کی تلوارکبھی احدکے میدان میں چمکی اورکبھی بدر کے ریگستان میں اورجس کی شمسیربراں کبھی غزوہ حنین میں لہرائی اورکبھی غزوہ خندق میں کفرپرگری ۔کون علی رضی اللہ عنہ وہ جوکعبہ میں پیداہوااورشہیدمسجدمیں اور جوہمارے نبی کاویر(بھائی) ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہماکامشیرہے۔موء منوں کاامیرہے ،سنیوںکاپیرہے اورجواس کونہ مانے وشریرہے۔کون علی رضی اللہ عنہ وہ جس نے ہجرت کی رات محبوب خداعلیہ السلام کے بسترپربسرکی۔اس رات بڑاشدیدامتحان تھا اوراس رات نبی کے بسترپرسونا گویاتلواروںکے سائے میں سوناتھا اور موت وہلاکت سے دست بدست جنگ تھی۔مکہ مکرمہ کے ناموراورمشہورقبیلوں کے قبیلوںکے بہادروںکامقابلہ تھا۔ہرلمحہ جان جانے کاخطرہ تھا۔اس لیے کہ کافر پورے سازوسامان کے ساتھ نبی کریم علیہ السلام کو(نعوذباللہ ) قتل کرنے کے اٹل ارادے سے آئے تھے مگرچونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ایمان کے کوہ گراں تھے۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سرشارتھے۔اس لیے بغیرکسی تامل کے اپنے آقاومولاکے بسترپرسونامنظورکرلیا۔کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ نبی کے حکم کے بعدسوچناایمان کی توہین ہے۔کتاب تاریخ کربلاکے صفحہ ایک سواڑتالیس پرحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں لکھا ہے کہ خلیفہ چہارم حضرت علی سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم بارہ اماموں میں سے پہلے امام ہیں۔آپ کااسم شریف علی اورحیدرہے۔کرارآپ کالقب اورکنیت ابوالحسن اورابوتراب ہے ۔ آپ کوابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسندیدہ نہ تھا۔جب کوئی آپ کوابوتراب کہہ کرپکارتاتھا توآپ بہت مسروراورشادماںہوتے تھے۔کیوں کہ یہ نام آپ کو حضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت عطافرمایاتھا جب آپ مسجدشریف کی دیوارکے پاس لیتے ہوئے تھے اورپشت مبارک پرمٹی لگ گئی تھی۔اسی وقت حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے توآپ کواس عالم میں دیکھ کرفرمایا اٹھیے اے ابوتراب۔اورآپ کانام حیدرہے اس کے معنی ہیں شیر۔یہ نام آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسدنے اپنے والدکے نام پررکھا تھا اورکرارکے معنی پلٹ پلٹ کرحملہ کرنے والا۔آپ کے والدگرامی کانام ابوطالب ہے۔آپ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازادبھائی ہیں۔حضرت ابوطالب نے آپ کانام علی رکھا۔اورحضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسداللہ کاخطاب عطافرمایا،یعنی اللہ کاشیر۔آپ کانسب نامہ اس طرح ہے علی ابن ابی طالب المعروف بہ عبدمناف بن عبدالمطلب شیبہ بن ہاشم بن عبدمناف المعروف بہ مغیرہ بن قصی المعروف بہ زیدبن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہربن مالک بن نضربن کنانہ۔آپ کی ولادت مبارکہ عین جوف خانہ کعبہ میں جمعہ کے دن تیرہ رجب المرجب تیس عام الفیل میں ہوئی۔آپ وہ واحدشخص ہیںجن کویہ شرف حاصل ہوا۔آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کی ولادت کے فوراًبعدآپ کوحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گودمیں دے دیاجب تک حضرت علی کی آنکھ بندتھی۔جیسے ہی آپ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گودمیں تشریف لائے فوراً آنکھ کھول دی۔اوردنیامیں آنے کے بعدسب سے بڑاشرف آپ کویہ حاصل ہواکہ آپ نے سب سے پہلے حضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامقدس چہرہ دیکھا۔غسل ولادت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی دیا۔اوراپنالعاب دہن حضرت علی کے منہ میں ڈال دیا۔پھرآپ کی پرورش اورتعلیم وتربیت کی ذمہ داری حضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوداپنے ذمہ کرم پرلے لی تھی۔اس لیے آپ نے کبھی بت پرستی نہیں کی۔اسی وجہ سے آپ کوکرم اللہ وجہہ کہتے ہیں۔اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی توآپ نے فوراًاسلام قبول کرلیا۔تاریخ الخلفاء میں ہے جس وقت آپ ایمان لائے اس وقت آپ کرم اللہ وجہہ کی عمردس سال تھی۔بعض لوگوں کے قول کے مطابق نوسال اوربعض آٹھ سال اوربعض اس سے بھی کم بتاتے ہیں۔آپ کویہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ کرم اللہ وجہہ داماد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔حضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی الٰہی کے مطابق اپنی چہیتی بیٹی فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہاکانکاح آپ کرم اللہ وجہہ سے کیا۔اورآپ ہی سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل چلی۔جیساکہ حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشادگرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کی ذریت کواس کی صلب میں رکھا ہے اورمیری ذریت کوعلی ابن ابی طالب کی ذریت میں رکھا ہے۔آپ امامین کریمین سیدناامام حسن وحضرت سیدناامام حسین رضی اللہ عنہماکے والدگرامی ہیں۔اورولایت کی مرکزی شخصیت ہیں کہ آپ کی ذات سے ہرولی کوفیض ولایت ملتا ہے اورشریعت کے دریائے ناپیداکنارہیں۔آپ کرم اللہ وجہہ کاشمارپنجتن پاک، عشرہ مبشرہ اورخلفاء راشدین میں ہوتا ہے۔آپ ہی کے گھرحضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش ہوئی۔جس روزحضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی توآپ ہی کواپنے ؎بسترمبارک پرلٹاکراہلیان مکہ کی امانتیں سپردفرمائی تھیں۔آپ تمام غزوات میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔سوائے غزوہ تبوک کے کہ اس غزوہ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کواپنانائب بناکرمدینہ منورہ میں چھوڑدیاتھا۔اورارشادفرمایااے علی !کیاتم اس بات سے راضی نہیںہوکہ میںتمہیں اس طرح چھوڑے جاتا ہوں جس طرح موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پرمناجات کے لیے تشریف لے گئے تھے ۔ بس فرق اتنا ہے کہ ہارون علیہ السلام خودبھی نبی تھے اورایک نبی کے خلیفہ بھی اورتم صرف میرے نائب ہونبی نہیں ۔ کتاب خطبات محرم کے صفحہ ایک سوبہترپرحضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی فضیلت میں اس طرح لکھا ہے کہ دنیامیں بے شمارانسان پیداہوئے جن میں سے اکثرایسے ہوئے کہ ان میںکوئی کمال وخوبی نہیں اوربعض لوگ ایسے ہوئے جوصرف چندخوبیاں رکھتے تھے مگرحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وہ ذات گرامی ہے جوبہت سے کمال وخوبیوں کی جامع ہے۔کہ آپ شیرخدابھی ہیں اوردامادمصطفی بھی۔حیدرکراربھی ہیں اورصاحب ذوالفقاربھی۔حضرت فاطمہ زہراکے شوہر نامدار بھی ہیں اورحسنین کریمین کے والدبزرگواربھی۔صاحب سخاوت بھی ہیں اورصاحب شجاعت بھی۔عبادت وریاضت والے بھی اورفصاحت وبلاغت والے بھی۔علم والے بھی اورحلم والے بھی۔فاتح خیبربھی ہیں اورمیدان خطابت کے شہسواربھی۔غرض کہ آپ بہت سے کمال وخوبیوں کے جامع ہیں اورہرایک میں ممتازویگانہ روزگارہیں ۔ کتاب خصائص اہل بیت کے صفحہ سترپرہے کہ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمدرضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کبھی کفرشرک کی آلودگی میں ملوث نہ ہوئے ۔نہ غیراللہ کوسجدہ کیا۔جب کہ وہ ایمان لانے کے وقت چھوٹے تھے ۔اس لیے آپ کوخاص طورسے کرم اللہ وجہہ کہاجاتاہے۔اوریہ ان کی خصوصیت ہے۔حضرت حسن بن زیدبن حسن رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ نے کبھی بھی بتوںکی عبادت نہیں کی (یعنی زمانہ جاہلیت میں بھی آپ کہیں بھی کسی بت کے قریب نہیں گئے اورزمانہ اسلام میں توسوال ہی پیدانہیںہوسکتاتھا) اسی وجہ سے آپ کوکرم اللہ وجہہ کہاجاتاہے۔بعض علماء آپ کے نام نامی اس گرامی کے ساتھ کرم اللہ وجہہ کے الفاظ کی وجہ یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ جب ایک جنگ کے موقع پرعلی المرتضیٰ کے مقابلے میں آنے والے بدبخت نے شجاعت علی کانظارکرکے اپنی شکست کویقینی دیکھا تواس نے کہا اے علی! تیرہ چہرہ سیاہ ہو(نعوذباللہ) امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کرم اللہ وجھک اے علی! اللہ تیرے چہرے کوعزت عطافرمائے۔

جب الفاظ زہر اور لہجے تلوار ہوجائیں!

جب الفاظ زہر اور لہجے تلوار ہوجائیں!مواصلات انسان کی زندگی کا ایک انتہائی اہم اور بنیادی عنصر ہے ۔ آپ کو کسی سے کچھ پوچھنے یا بتانے کیلئے الفاظ کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے ورنا اشاروں کی زبان میں بھی موقع کی مناسبت سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی فنی قابلیت اپنی جگہ لیکن الفاظ اور لہجوں کا خوبصورت چنائو سے بنا امتزاج انسان کی شخصیت کو منوانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔یہ جو الفاظ ہوتے ہیں انہیں لکھنا بھی محال ہوتا ہے انہیں سنبھالنا بھی محال ہوتا ہے یہ اگر یہ الفاظ جذبات کا حقیقی لبادہ اوڑھ کر قلم کی سیاہی سے نکلیں تو تباہی ہی تباہی پھیلا کر رکھ دیں۔ یہ خوب کمال ہوتا ہے جذبات پر الفاظ پر دسترس ہوتی ہے اور لہجے کے معاملے میں تو ہم لوگ گونگے بن جاتے ہیں بس قلم کو ہی زبان بنا لیتے ہیں ۔ تب کہیں جاکہ جذبات جو صرف الفاظ تک محدود رہے جاتے ہیں اور لہجے کے محتاج ہونے کے باعث اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا کہ فقط بولنے والے کرتے ہیں۔ جذبات میں تو دل کی دھڑکن بھی اپنے طرز پر الفاظ مرتب کررہی ہوتی ہے اب یہ جذبات پر منحصر ہے کہ وہ محبت لئے ہیں یا پھر نفرت کا طرز مرتب دے رہے ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں گونگے ہوجانا ہی بہتر ہے ورنہ بہت کچھ ٹوٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے ہی جذبات کسی مسخرے کی تقویت کا باعث بنتے سنائی بھی دئیے جا سکتے ہیں۔ کیوں کہ جذبات بھی بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا رکھتے ہیں۔ بہت ہی قلیل لوگ ایسے ہونگے جن کے جذبات وقت کیساتھ پختہ ہوتے گئے ہوں اور وہ انہیں جذبات کو سنبھالے سنبھالے اور ساتھ لئے زندگی کی تمام منزلیں طے کرتے ہوئے آخری سفر پر روانہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان احساسات اور جذبات کو ساتھ رکھنے کی مد میں انہوں نے کیا کچھ کھویا ہو اور شائد ہی کچھ پایا ہو۔ مضمون الفاظ اور لہجے پر ہے اور جذباتوں نے جذباتی کردیا ہے ۔

ہمارا معاشرہ ہی ہماری دنیا ہے ،جس معاشرے پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے اطراف میںدیکھتے ہیں جہاں ہمیں سب سے پہلے ہمارے گھروں میں موجود ٹیلی وژن پر ہر وقت نمودار رہنے والے ٹی وی کہ وہ میزبان دیکھائی دینگے جو اپنے الفاظ کیساتھ ساتھ لہجے سے بھی سنائی و دیکھائی جانے والی ایک غیر اہم خبر کو انتہائی اہم بنانے کی جستجو میں دیکھائی دیتے ہیں جس سے ناصرف لوگ ایک انجانے اور اندیکھے ہیجان کا شکار ہوتے ہیں اور یہ ہیجان مختلف کیفیات کی شکل اختیار کر کے منفی اقدامات کی جانب پیش قدمی کرتا چلا جاتا ہے اور پے درپے ایسی خبریں ہماری ذہنوں پر کیا اثر ڈال رہی ہیں ہمیں اس کا احساس نہیں ہورہا ہاں البتہ ہمارے مزاج مسلسل تند ہوئے جا رہے ہیں اور الفاظ مغلظات میں تبدیل ہورہے ہیں۔ ایک عام سی بات کیلئے بھی زور زور سے بولنا شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح سے ہم اگلی نسل کو کیسے الفاظ اور کیسا لہجہ منتقل کر رہے ہیں ہمیں سمجھ آجانا چاہئے۔ 

یہ ایک ایسا موضوع ہے جو کہ اتنا غور طلب نہیں ہے جتنا غور طلب ہونا چاہئے، آج ہر فرد کسی نا کسی الجھن میں الجھا ہوا ہے ۔معاشرہ اجتماعیت کھوتا جا رہا ہے اور انفرادیت کی جانب تیزی سے سفر طے کر رہا ہے جس کیلئے ہمیں جن آلات کی ضرورت تھی وہ ہمیں مہیہ کردئیے گئے ہیںجن میں اول نمبر پر موبائل فون ہیے۔یہ تو بہت عام سی بات ہے کہ ایک ایک کر کے ختم کرنا آسان ہوتا ہے پہلے ٹیلی ویژن ہوا کرتے تھے جوکچھ بھی دیکھا جاتا تھا سب دیکھتے تھے مگر اب تو موبائل ہیں سب اکیلے اکیلے اور کیا دیکھ رہے ہیں یہ ایک دوسرے سے پوشیدہ ہے۔ معاشرہ اخلاقی طور سے تباہ ہوتا جا رہا ہے ۔ 

ایک خوبصورت سا باغ جس میں لگے پھول اوران پھولوں سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبواس خوشبو سے لطف اندوز ہوتے لوگ پھر کہیں سے کسی نے اس باغ کے کسی کونے میں کچرا پھینکا اور دیکھنے والوں نے یہ کہہ کر کچھ نہیں کیا کہ یہ ہمارا مسلئہ تو نہیں ہے کچھ دنوں میں باغ کم کچرے خانہ دیکھائی دینے لگا اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو میں کچرے کی بدبو غالب آنا شروع ہوگئی دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی لاپرواہی کی بدولت ایک اچھا بھلا باغ کچرے کا ڈھیر بنتا چلا گیا۔ ہمارے معاشرے میں ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو بغیر کسی مخصوص وجہ کہ مغلذات بکتے رہتے ہیں، کبھی بھونڈے مذاق کیلئے کبھی کسی کی تضحیک کیلئے اور کبھی کسی معصوم پر بس ایسے ہی رعب ڈالنے کیلئے ۔ یہ ایسی گفتار ہے جس کی مماثلت کسی ایسی دھواں چھوڑتی گاڑی سے کی جاسکتی ہے جو ماحول کو باضابطہ طور پر الودہ کرنے پر سڑک پر نکالی گئی ہو اور لوگ سوائے اپنی اپنی گاڑیوں کے شیشیے اوپر کرنے کے یا پھر جلد سے جلد اسے کراس کرنے کے اور کچھ نہیں کرتے ۔ ان الفاظوں کا بھی استعمال بے دریغ کیا جاتا ہے جن سے کراہیت محسوس ہوتی ہے جیسے کسی رینگنے والے جاندار کو دیکھ کر ہوسکتی ہے۔ 

آخر معاشرے کو اس جانب گامزن کرنے میں کن عوامل کا کردار نمایاں ہے ۔ سب سے اول نمبر پر میڈیا پر موجود وہ پڑوسی ملک کی فلمیں جن میں تیسرے درجے کے معاشرے کی عکاسی اتنی بری طرح سے کی جاتی ہے (شائد وہاں ایسی ہی ہو) جو کہ عمومی سطح پر ناقابل قبول ہے ۔ معاشرے میں بے قاعدگیاں ، بدعنوانیاں اور میرٹ کا قتل عام بھی ایسی ذہن سازی کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرر ہے ہیں ۔شائد کچھ لوگ اس بات کو مضحکہ خیز قرار دیں کے ہمارے گھر میں ہونے والی گندگی میں بھی بیرونی ہاتھ کیسے ملوث ہوسکتا ہے ، جی بلکل ہوسکتا ہے ۔ میڈیا کے توسط سے جو ذہن سازی کی جارہی ہے اس کی بنیادیں کہاں جاکر ملتی ہیں۔ 
 منددرجہ ذیل شعر میں شاعر نے معاشرے کی بے اعتنائی اور بے ثباتی کا کیا خوب ماتم کیا ہے ؛
تاثیر ہی الٹی ہے اخلاص کے امرت کی جس جس کو پلاتے ہیں وہی زہر اگلتا ہے
ایسے معاشرے میں جہاں الفاظ زہر بن کر من کو آہستہ آہستہ کھاتے جا رہے ہوں اور لہجے تلوار کی طرح تن کو زخمی کئے جا تے ہوں تو خاموش رہنا دستور زباں بندی پر کاربند رہنا عافیت کا سبب بن سکتا ہے ورنہ زندگی تو انکی بھی گزر جاتی ہے جنہیں عملی طور پر چلنے کیلئے کہا نہیں جاتا بلکہ ایک ڈنڈا یا ایک چابک رسید کی جاتی ہے۔ جہاں ہمارے کیلئے ملک کو بدعنوانوں سے پاک کرنا بہت ہی اہم معاملہ ہے بلکل اسی طرح ہمیںاس بات پر بھی بھرپور دھیان رکھنا ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کو کسطرح سے اس چنگل سے نکالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ 

loading...