بدھ، 11 اپریل، 2018

جامعہ نعمانیہ رضویہ میں علامہ خادم حسین خورشیدالازہری کاخطاب

تحریر:محمدصدیق پرہار
 گزشتہ چھ دہائیوں سے لیہ شہرکے گنجان آبادمحلہ شیخانوالہ کی خوش نصیب گلی میں واقع مدرسہ جامع نعمانیہ رضویہ میں قوم کے نونہالوں کوحفظ قرآن پاک اور درس نظامی کی تعلیم سے مزیّن کیاجارہا ہے۔ صوفی باصفا صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ یہاں علم کی شمع کوروشن کیاجومسلسل علم کے متلاشیوںکومسلسل روشنی دے رہی ہے۔صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ کے شجرعلم سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادہزاروں میں ہے۔اس مدرسہ سے فیض یاب حفاظ کرام اورعلماء کرام ملک بھرمیں دین اسلام اورفروغ عشق رسول میں اپنانمایاںکرداراداکررہے ہیں۔ تمام طلباء کی خوراک ورہائش کاانتظام مدرسہ کی طرف سے ہی کیاجاتاہے۔اس مدرسہ کے معلمین ومدرسین بڑی محنت، انتہائی توجہ، مشفقانہ رویہ کے ساتھ طلباء کوقرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔جامعہ نعمانیہ رضویہ کے تمام معلمین میں یوں تو کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔علامہ قاری ممتازاحمدباروی حافظ قرآن بھی ہیں اورقرآن پاک کے بہترین قاری بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوب صورت اخلاق کے ساتھ ساتھ سحرانگیزاورپرسوزآوازسے بھی نوازاہے۔ قاری ممتازاحمدباروی صاحب جب قرآن پاک کی تلاوت کی سعادت حاصل کرتے ہیں توسننے والے چاہتے ہیں کہ قاری صاحب قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہیں اورہم سنتے رہیں۔ قاری ممتازاحمدباروی عالم دین بھی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کوجوہرخطابت بھی خوب عطاء کیاہے۔جب بھی خطاب کرتے ہیں علمی اورمدلل خطاب کرتے ہیں۔نقابت کرنے میں بھی قاری صاحب اپنی مثال آپ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قاری صاحب کوفن شاعری کااسلوب بھی دے رکھا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح بھی لکھ رہے ہیں۔ دیگرمدرسین علامہ شبیرالحسن باروی، علامہ محمداشرف مظہری، مولانامظفرحسین باروی اپنی مثال آپ ہیں۔ اس درس گاہ میں طلباء کی کردارسازی پربھی توجہ دی جاتی ہے۔ ہفتہ میں ایک دن بزم حامدیہ منعقدکی جاتی ہے۔اسی مدرسہ میں ہرسال رجب المرجب کی سترہ تاریخ کوصوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ محمداقبال باروی رحمۃ اللہ علیہ کاایک روزہ عرس مبارک بھی منعقد کیا جاتاہے۔ جس میں حفظ قرآن اوردرس نظامی مکمل کرنے والے طلباء کی دستاربندی بھی کی جاتی ہے۔ عرس مبارک میں جیّد علماء کرام خطاب کرتے ہیں۔ اس سال بھی سترہ رجب المرجب کو جامعہ نعمانیہ رضویہ لیہ میں صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ محمداقبال احمدباروی رحمۃ اللہ علیہ کاسالانہ ایک روزہ عرس مبارک منایا گیا ۔ عرس مبارک کی آخری نشست بعدنمازعشاء منعقدہوئی۔عرس مبارک کی اخری نشست سے چیئرمین وحدت اسلامی انٹرنیشنل علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے خطاب کیا۔علامہ خادم حسین خورشیدنے عرس مبارک کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جودعائیہ کلمات کہے اس سے ان کے اندازخطابت کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے۔ان کے دعائیہ کلمات ہی بتارہے تھے کہ وہ امت مسلمہ کے بارے میںکتنے فکرمندہیں۔ وہ مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول موجزن بھی دیکھناچاہتے ہیں اوران کے کردارکوبھی سنوارناچاہتے ہیں۔علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام پاکیزہ دین ہے۔ کعبہ تعمیر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعامانگی ’’ اے ہمارے رب ان میں سے اپنارسول مبعوث فرما جوتیری آیات کی تلاوت کرے، انہیں علم وحکمت کی تعلیم دے اورانہیں پاک وصاف کرے ‘‘ پاکیزگی جسم کی بھی ہوتی ہے اورروح کی بھی۔ یہ پاکیزگی ایمان ،عقیدے اورعمل کی بھی ہوتی ہے۔ اسلام میں ان تمام پاکیزگیوں کی طرف توجہ دی گئی ہے۔نمازکی شرائط میںجسم، جگہ اورلباس کی پاکیزگی شامل ہیں۔عبادات سے پہلے، طہارت، وضواورغسل اس بات کاثبوت ہیں کہ اسلام میں پاکیزگی پرکتنی توجہ دی گئی ہے۔ ان کاکہناتھا کہ دین اسلام سے وابستگی ہی عزت کاباعث ہے۔ہم عزت ووقاراقتدار، کرسی، جائیداد، مال ومتاع، سرمایہ، جاہ ومنصب میں تلاش کرتے ہیں۔یہ سب چیزیں تواللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت بھی ہیں اورآزمائش بھی۔ حقیقی عزت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں ہے۔ دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہوجائیں تواس دنیامیں بھی حقیقی عزت ملتی ہے اورمحشرکے دن بھی عزت ملے گی۔ اسلام میں نہ صرف زندہ لوگوںکوعزت دی گئی ہے بلکہ اس دارفانی کوچھوڑ کرجانے والوںکوبھی عزت واحترام کے ساتھ سپرخاک کیاجاتاہے۔ جب بھی کوئی مسلمان فوت ہو جاتاہے تواس کوغسل دیا جاتاہے،اس کوپاک وصاف کفن پہنایا جاتاہے، اس کانمازجنازہ اداکیاجاتاہے، اس کے لیے دعائے مغفرت کی جاتی ہے، ا س کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی، قل خوانی، دسواں، بیسواں، تیسواں، چالیسواں اورجمعرات کے نام سے ایصال ثواب کی تقاریب منعقدکی جاتی ہیں۔ اس کو قبرستان میں دفن کرنے کے لیے بارات کی صورت میں لے جایاجاتاہے۔اسے عزت کے ساتھ سپردخاک کیاجاتاہے۔کسی اورمذہب اورطبقہ کے لوگ اپنے مرُدوں کواتنی عزت نہیں دیتے۔علامہ خادم حسین خورشیدکہتے ہیں کہ اسلام کی یہ کوالٹی ہے کہ اس کوجتنادبایاجائے یہ اتناہی بڑھتااورپھیلتاہے۔اسلام دنیامیں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نائن الیون کے بعدجس منصوبہ بندی کے تحت اسلام کوٹارگٹ کیاگیا ہے۔ اسلام کودہشت گردمذہب اورمسلمانوںکودہشت گرد ثابت کرنے کاکوئی حربہ نہیں چھوڑاگیا۔ دنیابھرکی عوام میں اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیاگیا۔ عالمی طاقتوں اورمیڈیاکی اسلام مخالف مہم کاہی یہ اثرہواکہ غیرمسلم عوام کواسلام میں دل چسپی پیداہوئی ، انہوںنے اسلام کامطالعہ کرناشروع کردیا ، اسلام کامطالعہ کرنے کے بعد وہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگے ہیں۔عالم اسلام کی بے حسی پرتبصرہ کرتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ طیب اردوان کے سواکسی بھی اسلامی ملک کے سربراہ کاکردارقابل تعریف نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت زار، اسلامی ممالک کے سربراہوں کی بے حسی کودیکھاجائے توعالم اسلام کی بے بسی پرافسوس ہوتاہے۔مسلمان ممالک مل کرمشترکہ دشمن کامقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے برسرپیکارہیں۔مسلمان ملکوں سے دشمنیاں اوراسلام کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں کی جا رہی ہیں۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ کفرکاسب سے بڑاٹارگٹ مدارس ہیں ۔ مدارس کے خلاف اب تک جوپروپیگنڈہ کیاجارہا ہے وہ سب کواچھی طرح معلوم ہے ۔ مدارس کی کردارکشی کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیاجاتا۔کفرکے اس پروپیگنڈہ کاہمارے اپنوںنے بھی بھرپورساتھ دیا۔کفرکی مدارس کے خلاف مہم کے بعد مدارس میں طلباء کی تعدادمیں اضافہ ہی ہواہے۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ کفراسلام پرڈائریکٹ نہیں ان ڈائریکٹ حملہ کرتاہے۔ کفراسلام پرحملہ کرنے کے لیے مسلمانوں کے غداروںکوخریدکرتاہے، ان کے ذریعے مسلمانوں کے جذبہ عشق رسول اورعقیدے پرحملے کراتاہے۔کبھی وہ ملعون قادیانی کوسامنے لے آتا ہے توکبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کردیتاہے۔ کبھی وہ مدارس کوٹارگٹ کرتاہے توکبھی مسلمان ممالک کی حکومتوں کونشانے پرلے لیتاہے۔صوفی حامد علی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ مولانامحمداقبال احمدباروی کے عرس مبارک کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے کہا کہ مسلمانوں میں رسول اکرم، نورمجسم، شفیع معظم، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ختم کرنے کے لیے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔کفراسلام اورمسلمانوںکوبدنام کرنے پرتلاہواہے۔کفراسلام کوبدنام کرنے کے لیے کیاکیانہیں کررہا عالمی حالات وواقعات سے آگاہی رکھنے والے اس کواچھی طرح جانتے اورسمجھتے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ حکمرانوںکے درکے چکرلگانے والاعالم دین نہیں ہوسکتا۔قصورسمیت ملک کے مختلف شہروںمیں کم سن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پراظہارخیال کرتے ہوئے علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ باکردارعوامی نمائندوںکوہی منتخب کرناچاہیے۔ جب ووٹ بدکردارکودیاجائے گاتوقوم کی بچیوںکی عزت کیسے محفوظ رہے گی۔انہوںنے کہا کہ ہوٹلوں، چوراہوں، بسوں، ٹرینوں میں لکھاہواہے کہ مذہبی گفتگوکرنامنع ہے۔ علامہ صاحب نے سوال کیا کہ کیایہ امریکہ، اسرائیل یاانڈیا ہے جویہاںمذہبی گفتگوکرنامنع ہے۔ملک میں مذہبی گفتگوپرپابندی افسوس کامقام ہے۔مذہبی گفتگوپرپابندی کے ذریعے عوام کواسلام سے دورکرنے کی کوشش ہورہی ہے۔اس کوشش کاآغازمساجدمیں فائرنگ اورخون ریزی کے واقعات سے کیاگیاتھا۔انہوںنے کہا کہ ایم این اے کوتیسراکلمہ نہیں آتا اوروزیرکوسورۃ اخلاص نہیں آتی تواس میں اسلام کاکیاقصورہے۔انہوں نے بلدیاتی امیدواروں کے انٹرویوکااحوال سناتے ہوئے کہا کہ ایک امیدوارسے پوچھاگیا تجھے دعائے قنوت یادہے، امیدوارنے جواب دیا جی یادہے، سے کہا گیاسنائو، امیدوارنے سورۃ اخلاص سنادی،انٹرویولینے والے نے کہا کہ یہ پہلاامیدوارہے جسے دعائے قنوت یادہے۔یہ سب اسلامی تعلیمات کی ترویج واشاعت پرتوجہ نہ دینے کانتیجہ ہے۔یہ مسلمانوںکواسلام سے دور کرنے کارزلٹ ہے۔ ہم اسلام کوکتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اس کااندازہ اس سے لگائیں کہ سکول کی ٹیوشن پڑھانے والے کوتومنہ مانگی فیس ایڈوانس دی جاتی ہے، جب کہ قرآن پاک پڑھانے والوں کوپانچ سوروپے ماہانہ دیتے ہوئے بھی بوجھ محسوس ہوتاہے۔سکولوں میں دنیاوی کتب پڑھانے والے توہزاروں روپے تنخواہ لے رہے ہیں اورسکول کے بچوںکوقرآن پاک پڑھانے والے معلم کوماہانہ پانچ سوروپے بھی حکومت کی طرف سے نہیں دیے جاتے۔انہوںنے کہا کہ ختم نبوت قانون پرڈاکہ ڈالا گیا۔ تمام ممبران اسمبلی اس پرخاموش رہے،ختم نبوت حلف نامہ میں ترمیم کرتے وقت کسی ممبراسمبلی نے احتجاج نہیں کیا۔انہوںنے واضح اعلان کیا ہمیں ایسے ممبران اسمبلی قبول ہیںجوایوانوں میںناموس رسالت کاتحفظ کریں۔علامہ صاحب نے کہا کہ الیکٹرانک اورسوشل میڈیا اسلام کے خلاف استعمال ہورہا ہے، انہوںنے سوشل میڈیاپروائرل ایک ویڈیوکااحوال سناتے ہوئے کہا کہ مسلمان سمیت دیگرمذاہب کے افرادآپس میں گفتگوکرتے ہیں اور مسلمان کولاجواب کردیتے ہیں۔اس کاجواب دیتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ قوم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانی مانگا اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی پانی مانگا۔ فرق یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں چل نہیں گئے، کسی پتھرپرعصا نہیں مارا، ایک پیالے میں دست مبارک ڈالاتوانگلیوں سے پانی کے فوارے جاری ہوگئے سیکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خوب سیرہوکرپیا۔انہوں نے کہا کہ مدارس کے طلباء کوحقارت سے نہ دیکھاکرو۔ چٹائیوں پربیٹھ کرقرآن پاک پڑھنے والوںکی وجہ سے ہی ملک قائم ہے۔علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ حکمرانوں کی بیٹی ملالہ ہے۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی اوربیٹاممتازقادری ہے۔ملالہ نے پاکستان اوراسلام کے بارے میںجوکچھ بھی کہا ہے اس سے یہ اندازلگانامشکل نہیں کہ وہ کس ایجنڈے پرکام کررہی ہے۔ایک گولی کالگ جاناکوئی بہادری نہیں ہے۔اس نے کون ساایساکارنامہ انجام دیا ہے جومغربی میڈیاکی آنکھوںکاتارابن گئی۔مغرب والے کسی کوایسے ہی آنکھوں پرنہیںبٹھاتے۔قوم کی بیٹی توعافیہ صدیقی ہے جوگوانتاموبے جیل میں سزاکاٹ رہی ہے۔قوم کابیٹا توممتازقادری ہے جس نے ناموس رسالت پراپنی جان بھی قربان کردی۔قوم کابیٹاتوطالب علم اسفندیارہے۔ جس نے جان پرکھیل کردہشت گردکوقابوکرتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے سکول ، اساتذہ اورطلباء کودہشت گردی سے بچالیا، قوم کی بیٹیاں توآرمی پبلک سکول کی وہ ٹیچرز ہیں جنہوںنے طلباء وطالبات کودہشت گردوں سے بچاتے ہوئے شہادت پائی۔قوم کی بیٹی تووہ سکول ٹیچرہے جوخود توسلنڈرپھٹنے کی وجہ سے سکول وین کولگنے والی آگ میں خودتوجھلس کرشہیدہوگئی لیکن طلباء کوآگ سے بچالیا۔ان کاکہناتھا کہ افغانستان میںمدرسہ پربمباری سے سوسے زیادہ بچے شہیدہوئے اورشام میں چارسوبچوںنے جام شہادت نوش کیا۔ملالہ کوایک گولی لگنے پر شور مچانے والامیڈیا ان بچوں کے اجتماعی قتل عام پرکیوںخاموش ہے۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ محراب ومنبرسے عوام کارابطہ توڑنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ مساجد سے لائوڈ سپیکروںکااتاراجانا اورصرف ایک سپیکرکی اجازت دینا اسی کاتسلسل ہے۔علامہ خادم حسین خورشیدالازہری کہتے ہیں کہ اسلام میں طے شدہ امورکی من پسندتشریح کرنے والے دانشوراس وقت میڈیاکے ہیروہیں۔ اسلام کے طے شدہ اصول وضوابط میں سے ایسے دانشوربعض اصول وضوابط کواس وقت کی ضرورت قراردے کرموجودہ دورمیں ان امورسے انکاری ہیں۔انہوںنے مغرب میں مدرڈے ، فادرڈے منانے پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی معاشرہ میں لوگ بوڑھے والدین کوبوجھ سمجھ کرانہیںاولڈہومزمیں چھوڑ آتے ہیں۔ سال میں ایک باران کوملنے جاتے ہیں ، انہیں تحفے وغیرہ دیتے ہیں۔ اس دن کوانہوںنے مدر ڈے اورفادرڈے کانام دے رکھا ہے۔ علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ جس معاشرے میں والدین کوسال میں ایک دن ملے ایسے معاشرے پرلعنت ہے۔ یہ مذہب اسلام کاہی امتیازہے کہ مسلمان کاہردن مدرڈے اورفادرڈے ہے۔ مسلمان معاشروںمیں والدین کوبوجھ نہیں سمجھاجاتا بلکہ ان کی خدمت کرنے کو سعادت مندی سمجھاجاتاہے۔ 

انسان ، انسانیت کی تلاش میں ہے!

انسان ، انسانیت کی تلاش میں ہے!قدرت نے دنیا اپنی مخلوق کیلئے بنائی اور اس مخلوق کی اقسام و تعداد کے اندا مگر حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کردیا ، انسانوں کو رہن سہن کے طور طریقے بھی سمجھائے ،جسم کے مردہ ہونے جانے کی صورت میں دفنانے کا طریقہ بھی اپنی کسی اور تخلیق کے توسط سے سمجھایا۔ قدرت نے آہستہ آہستہ اختیار منتقل کرنا شروع کیا ، جیسے جیسے انسان کو دنیا میں رہنے کی سمجھ آتی گئی اس نے خود کو ہی مالک سمجھنا شروع کردیا۔ ہر انسان میں کسی نا کسی درجہ انا یا میں کا عنصر موجود ہوتا ہے (اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا)۔ انااور میں کا تعلق انسان نے حسب نسب اور رتبے سے پختہ کیا اور نسل در نسل معلومات میں اضافے کی بنیاد پر بڑھتا ہی چلا گیا۔ ایسے لوگوں نے اپنے اپنے طور سے علم اور معلومات کو قید کرنا شروع کیا ، قیدسے مراد جاننے کیلئے حسب نسب کا ہونا ضروری قرار پایہ ، یعنی قدرت سے ملنی والی نعمتوں پر بھی پابندیاں اور حدیں تعین کر دی گئیں۔ اس سے بڑھ کراور کیا ظلم ہو سکتا ہے کہ جو اناج اگاتا ہے وہی اناج کے عدم دستیابھی کی وجہ سے بھوکا مرتا ہے۔ دنیا ترقی کرتی جارہی ہے اورانسان اپنی طاقت میں بیش بہا اضافہ کئے جا رہا ہے
یہ انسان کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہی تو ہے کہ کوئی نہتے اور کمزور انسانوں پر بمباری کر کر انسانیت ڈھوننے کی کوشش میں کررہا ہے ، کوئی مجمع پر گولیا ں چلاکر نا حق خون بہاکر انسانیت تلاش کر رہا ہے ، کو ئی معصوم ادکھلے گلابوں کو مسخ کر کے انسانیت کا درس دے رہا ہے ۔ آج انسان ،انسانیت کو تہہ و بالا کر کے انسانیت تلاش کر نے کی کوشش کر رہا ہے ۔ آج ساری دنیا کے انسان اپنی اپنی انسانیت ڈھونڈ رہے ہیں۔ 
ہر طرف افسوس ہے ، ہر طرف خون ہی خون ہے زمین اپنا رنگ بھولتی جا رہی ہے مگر آج انسان کو انسانیت مل کر نہیں دے رہی۔ ہر فرد دوسرے فرد کو یہ کہہ کر ماردینا چاہتا ہے کہ اسے جینے کا کوئی حق نہیں ہے، اس میں انسانیت نہیں ہے ، مگر کوئی اس مارنے والے سے تو پوچھے کہ جو تم کر رہے ہو اسے انسانیت کہہ سکتے ہیں۔ اقتدار و اختیار کی ہوس نے انسانوں کو انسانوں کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے کہیں مذہب کے نام پر شب خون مارا جا رہا ہے تو کہیں مال و دولت کیلئے سر تن سے جدا کئے جا رہے ہیں کہیں عزتیں پامال ہو رہی ہیں تو کہیں معصوم بچے معاشرتی غلاظت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ بات سب کے سب انسانیت کی کر رہے ہیں۔ 
آج کسی فرد کو خدا بننے کیلئے فرعون جیسا اقتدار نہیں چاہئے ، آج تو کرائے کی گاڑی میں بیٹھ کر بھی حضرت انسان پیدل چلنے والے بندہ خدا کو انسان کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ حقیت تلخ تو ہمیشہ سے ہی تھی مگر آج تلخ ترین ہوتی جا رہی ہے یہاں تک کہ ایک انسان دوسرے انسان کو اسکی حقیقت بتانے پر قتل بھی کر سکتا ہے ۔ آج معاشرہ اپنی روح سے عاری ہوچکا ہے قدرت نے دلوں سے تو روحیں پہلے ہی صلب کر لیں تھیں اب معاشرے کی روح بھی آہستہ آہستہ کھینچی جا رہی ہے پھر یہ دنیا مصنوعی ہوکر رہ جائے گی۔ 
اس مضمون کو لے کر بہت سارے اختلافات سامنے آسکتے ہیں مگر جیسا کہ بتا یا گیا ہے کہ حقیقت تلخ ہوتی ہے اوراب تو تلخ ترین ہوچکی ہے ، آپ خود فیصلہ کر لیجئے اپنا احتساب کرلیجئے کیا آپ انصاف کے متمنی ہیں کیا آپ چاہتے ہیں تمام کام سہولت سے ہوں جس کیلئے آپ کو مختلف لائنوں میں لگنا پڑے گا، کیا آپ بغیر رشوت دئیے کام کروانے کیلئے تیار ہیں ۔ آپ یہ بھی کہیںگے کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں لوگ ایک دوسرے کے ہر ممکن کام آرہے ہیں لیکن پھر بھی دنیا کی بدامنی میں کوئی فرق نہیں پڑرہا، دنیا کو چھوڑ دیں آپ اپنے چھوٹے سے علاقے کو لے لیجئے ، آپ اپنے اپنے گھروں کو لے لیجئے۔ مان لیجئے کہ سب کچھ مصنوعی ہے اب یہ دنیا مصنوعی انسانیت پر چل رہی ہے، بلکل ایسے ہی جیسے ہمارے ہسپتال والے کسی مرتے ہوئے مریض کے اہل خانہ کو وقتی تسلی دینے کیلئے مصنوعی تنفس پر منتقل کردیتے ہیں اور ایک طے شدہ وقت کے بعد موت کی تصدیق کردیتے ہیں۔ آج دنیا میں جو کچھ چل رہا ہے لوگ اپنی اپنی جان چھڑا تے محسوس ہوتے ہیں ، جیسے وقت کو گزارنے کیلئے اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہوسکتا ،دنیا اپنے انجام کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے یہ بات کے لاشعور میں اجاگر ہرچکی ہے جبھی تو سب اپنی اپنی عاقبت سدھارنے کیلئے مصنوعی طریقوں پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ بھیک کیوں دی جارہی ہے کیا آپ معاشرے کے اس فرد کو معذور نہیں کر رہے جسکے ہاتھ پائوں سلامت ہونے کے باوجود بھیک مانگ رہے ہیں۔کہیں ہم ثواب کے نام پر اپنے رب کو خوش کرنے کے نام پر اسے ناراض تو نہیں کر رہے اسکے بندوں کو معذور بنا رہے ہیں اسکے بندوں کا ایمان بانٹ رہے ہیں۔ آج تو جو انصاف کی بات کرتا ہے ، عدل کی بات کرتا ہے اسے دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں اس پر اسکے خاندان پر زندگی تنگ کردی جاتی ہے پھر یا تو اسے انصاف ترک کرنا پڑتا ہے یا پھر جینا ترک کرنا پڑتا ہے ۔ 
انسان کتنا ہی دولت مند کیوں نا ہوجائے کتنا ہی صحت مند کیوں نا ہو کر رہے وہ اپنے ساتھ ایک ایسا دائمی سچ لئے گھومتا رہتا ہے جو کسی بھی وقت اس سے وہ تمام حیثیتیں اور تمام طاقت صلب کر لیتا ہے اور دنیا کو یہ باور کرادیتا ہے کہ انسان کی حقیقت یہی ہے ۔انسان مرتے رہتے ہیں مگر انسانیت زندہ رہتی تھی مگر اب تو انسان جیتے جی مردہ ہے اور انسانیت اپنا سب کچھ سمیٹ کر دارِ فانی سے کوچ کرچکی ہے۔ اگر انسان کے دل سے خداخوفی ختم ہوجائے یا پھر آب حیات نامی شے ہاتھ لگ جائے تو پھر انسان اپنا وہ روپ دیکھائے کہ ہلاکو خان جیسے بھی شرما جائیں۔ آج دنیا میں بہت بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں نے انسانیت کی خدمت کیلئے ادارے بنائے ہیں اور یہ ادارے بہت قابل تعریف کام کر رہے ہیں مگر جو لوگ انسانیت کوبرباد کرنے کا کام کر رہے ہیں وہ بہت کم ہیں لیکن جب اچھائی خاموش رہتی ہے تو برائی چاہے کتنی ہی قلیل کیوں نا ہو وہ سب کچھ برا کرکے دیکھاتی چلی جاتی ہے ۔ 
انسان ہی انسانیت کو مٹانے کے درپے ہیں اور انسان ہی انسانیت کے دفاع پر بھی ہیں مگر جو دفاع کرنا چاہتے ہیں انہیں ہی انسانیت کو مٹانے والے انسان تصور کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ وقت ایک لامتناہی فاصلہ طے کر کے واپسی کی جانب بہت تیزی سے سفر کر رہا ہے اور حساب کتاب تو سب نے دینا ہے ، آپ کیوں اس عارضی ٹھکانے کو مستقل ٹحکانہ سمجھ بیٹھے ہو۔ آج دنیا میں ہر شے بہت با آسانی دستیاب ہے مگر سب سے زیادہ انمول اور نایاب انسانیت ہے۔ ہم سب نے مل کر انسانیت کا قتل کیا پھر اسے دفنانا بھول گئے آج انسانیت کی لاش تلاش کرنے میںبے تہکان انسانوں کا خون بہائے جا رہے ہیں۔ زمین پر ناحق خون بہہ رہا ہے کہیں زمین اناج دینا نا بند کردے ، کہیں زمین پانی دینا نا بند کردے کہیں درختوں پر پھل اگنا نا بھول جائیں۔ وقت ہے یا نہیں یہ کسی کو معلوم نہیں ہے قدرت انتقام لے گی تو کوئی مذہب کوئی علم اسے راستے کو روکنے کا اہل نہیں ہوگا۔ 

loading...