|
میرا آخری کالم اور وراثت بہت عرصہ قبل میرے محسن و محترم میر شکیل الرحمٰن نے ایک خصوصی کالم لکھنے کے لئے مجھ سے خود فرمائش کی میں نے تحریر کا عنوان پوچھا تو انہوں نے بڑی سنجیدگی سے تین الفاظ کہے ’’میرا آخری کالم‘‘ میں نے پرتبسم انداز میں وضاحت چاہی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں آپ کے بے شمار چاہنے والے ہیں جو آپ کی تحریروں کو باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ ایسے قدر دانوں کے لئے ایک کالم ایسا بھی ہونا چاہئے جو آپ کے بعد خصوصی طور پر شائع ہو۔اب جبکہ جسم کی اندرونی پیچیدگیوں نے کافی عرصے سے چھیڑ چھاڑ جاری کر رکھی ہے بلکہ اب خاصی شدت بھی اختیار کرلی ہے تو میں واضح طور پرمحسوس کر رہاہوں کہ اب میرا قلم بھی ’’فل اسٹاپ‘‘ کا منتظر ہے چونکہ میں خود بھی ناسازی طبع سے دوچارہوں تو اسی کی مناسبت سے اس کیفیت میں مبتلا دوستوں کےلئے آج حوصلے، خوشی ا ور امید کی بات کروں گا اورخدمت کی مشعل اہل معاشرہ کے سپرد کروں گا۔ایک ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں ایک لاکھ قسم کے مختلف جسمانی امراض بنی نوع آدم کی نسل کو مٹا رہے ہیں جس کا ذریعہ وہ جراثیم ہیں جو بذریعہ فضایا خوراک جسمانی نظام کو متاثرکرتے ہیں جس کے بعد علاج و معالجہ اور مہنگی ترین ادویات کا ایک امتحان زندگی کی بقا کے لئے شروع ہو جاتا ہے لیکن کوئی بھی بیماری چاہے قابل علاج ہو یا لاعلاج دونوں صورتوں میں مریض کی اصل دوا اور حقیقی حوصلہ و ہ افراد ہوتے ہیں جو محبت اور شفقت کے ساتھ سہارا دیتے ہیں اور یہ سہارا ہی اصل زندگی ہے۔ میں خود کوخوش نصیب کہوں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ قدرت نے مجھ سے جو کام لیا وہ ہر کسی کےحصے میں نہیں آتا۔ زندگی کی دودہائیاں مریضوں کی خدمت کرکے محسوس کرتا ہوں کہ میں نے دنیا میں سکون اور آخرت میں جنت کا سودا کیا ہے۔تنہائی تو محض ایک وہم ہے انسان کا ورنہ رشتے ناطے ہر وقت ہمارے اردگرد ہی تو ہیں۔ دل کی آنکھ سے دیکھو تو کوئی بھی پرایا نہیں سب ہی تو اپنے ہیں کیونکہ دل میں خلوص ہو تو سبھی رشتے زندہ ہیں ورنہ موت انسان کے مرنےسے نہیں بلکہ احساس کے مرنے سے ہوتی ہے۔ بس اسی احساس کو ہم سب نے مل کر زندہ رکھنا ہے۔ اگر ہمیں ہمارے عہدوں اور اختیارات نے بڑا بنایا ہے تو ہمیں اپنے چھوٹوں کا خیال کرنا ہے اور ان کے لئے خود وقت نکالنا ہے ورنہ اگر وقت خود نکل گیا تو پھر بہت دیر ہو جائے گی۔ میں بھی روزانہ سندس فائونڈیشن میں تھیلے سیمیا، ہیموفیلیا اور بلڈکینسر کے مریض بچوں کے لئے وقت نکالتا ہوں، بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے خود بھی بچہ بن جاتا ہوں۔ گھنٹوں ان کی بے معنی باتوں کو سن کر ان کو بولنے کا اعتماد دیتا ہوں۔ ڈاکٹر انہیں دوا دیتا ہے میں انہیں دعا دیتا ہوں۔ڈاکٹر والدین کو مشورہ دیتاہے، میں انہیں حوصلہ دیتا ہوں اور یوں ایک دن اچھی امیدوں کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ میں ان چھوٹوں کے لئے بڑا ہونے کے فرائض تو ادا کر رہا ہوں لیکن میری مسلسل علالت شاید مجھے ذمہ داری کے اس بوجھ اور زندگی سے آزاد کرنا چاہتی ہے۔ یہ تو میرے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں نے سندس فائونڈیشن کے مریضوں کے لئے اپنی زندگی کا باقی ماندہ حصہ وقف کر رکھا ہے جو کہ میری موت تک چلے گا لیکن میں یہاں اپنی اس خواہش کو بھی اپنے پڑھنے والوں تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ جس طرح وراثتی بیماریاں دوسری نسلوں کو منتقل ہوتی ہیں بالکل اسی طرح اچھائیوں کو بھی دوسری نسلوں تک منتقل ہوناچاہئے یعنی میں چاہتا ہوں کہ میرے اس مقصد میں بھی میری اگلی نسل شامل ہوجائے اور میرے گھرانے کے افراد بھی ان موذی امراض کے خلاف اپنا کردار ادا کریں اور میری اس وراثت کے حصے دار بنیں جو انسانیت کی اصل معراج ہے کیونکہ زندگی کی اصل لذت تو مخلوق خدا کی خدمت میں ہی ہے۔سندس فائونڈیشن کے مشن کی کامیابی صرف میرے لئے ہی نہیں بلکہ سارے معاشرے کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے کہ عوامی امداد کے ذریعے چلنے والا یہ ادارہ 6000سے زائد مریض بچوں کو مفت علاج فراہم کر رہا ہے اور تھیلے سیمیا سنٹرز کی کامیابی کے بعد لاہور میں اب ایک اور بڑے جنرل اسپتال کا آغاز کرنے جارہا ہے جہاں مریضوں کو نہ صرف بلڈ ٹرانسفیوژن بلکہ بون میرو ٹرانسپلانٹ، ڈائیلاسز،گائنی اور دیگر طبی شعبہ جات کی سہولت فراہم کی جائےگی۔ یہ میرا ایک دیرینہ خواب تھا جس کی تعبیر یقیناً بہت جلد ملے گی۔ سندس فائونڈیشن کے صدر جناب یٰسین خان نے اس پراجیکٹ کے کے لئے مخیر حضرات کے تعاون سے دو کنال قطعہ اراضی بھی حاصل کرلی ہے جس کی تعمیر جلد ہی شروع کی جارہی ہے۔ یٰسین خان نے میرے اس دیرینہ خواب کو میرے نام ہی سے منسوب کرکے اس کا نام ’’منوبھائی ویلفیئر اسپتال‘‘ رکھا ہے یقیناً یہ معاشرے کی مزید خدمت کےلئے ایک بہترین اقدام ہے۔ لیکن اس کی تکمیل اور خدمت کی اس وراثت کے لئے سربراہان کےطور پر میرا آئندہ بہترین انتخاب سہیل احمد عزیزی، سہیل وڑائچ اور خالد عباس ڈار ہیں کیونکہ یہ وہ قیمتی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اختیارات اور فن کا زیادہ تر استعمال اپنے ملک اور ملک کے رہنے والوں کے لئے کیاہے۔گوشہ دل میں ہمیشہ رہنے والوں میں ایک نام سرمد علی بھی ہے جن کے نام کا مطلب بھی ہے ’’ہمیشہ رہنے والا‘‘ میری گود میں کھیل کر جوان ہونے والے اس صاحبزادے کو میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ اچھی یادوں سے وابستہ سرمد علی جو کہ اب آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر ہیں۔ سندس فائونڈیشن کے خیرخواہوں میں ان کا نام بھی سرفہرست ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ میرے بعد بھی وہ سرفہرست ہی رہیں گے۔بہت ہی مثبت سوچ کے حامل اور عملی کوششوں پر یقین رکھنے والے وزیرصحت خواجہ سلمان رفیق اور سیکرٹری ہیلتھ جناب نجم احمد شاہ جیسے لوگ بھی قابل ستائش ہیں جنہو ںنے اعلیٰ عہدیدار نہیں بلکہ مخلص دوست بن کر معاشرے کی خدمت اور بالخصوص سندس فائونڈیشن کی ہمیشہ سرپرستی کی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ میرے بعد بھی وہ اپنے اس بڑے پن کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔یقیناً ہمارے ملک اور فلاحی اداروں کوایسے ہی سربراہان کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ قومی اور عوامی مفاد کے لئے ہر طبقے کے لوگ تمام اختلافات کو بھلا کر ایک تسبیح میں جڑے ہوئے دانوں کی مانند یکجا نظر آتے ہیں جس کی بہترین مثال پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کی صورت میں موجود ہے جو حکومت کے ساتھ ساتھ فلاحی اداروں کی نمائندگی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ سندس فائونڈیشن کے مریضوں کے علاج و معالجہ کے لئے ان کی طرف سے مالی امداد اور ادویات کے عطیات ایک صحت مند معاشرے کےلئے ان کی گہری دلچسپی کی ترجمانی ہے۔ میں خواہش کرتا ہوں کہ سندس فائونڈیشن کے اس فلاحی مشن میں وہ بھی وراثتی حصہ دار بنیں۔جبکہ معاشرے کے مخیر حضرات جو سندس فائونڈیشن کی اصل بنیاد اور مریضوں کے مضبوط ستونوں پر قائم چھت کی حیثیت رکھتے ہیں انہوں نے پہلے بھی ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے اوراب جبکہ سندس فائونڈیشن ایک مزید بڑا پراجیکٹ شروع کر رہاہے تو انہیں سخاوت کی مزید مثالیں قائم کرنی ہیں کیونکہ یہ مثالیں پاکستان کے نقشے پر ایک نئے فلاحی سنگ میل کو طے کرتے ہوئے عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو مزید بہتر بنانے میں کارگر ثابت ہوں گی جو لوگ مجھے منوبھائی کہتے ہیں میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں خاکسار تو کچھ بھی نہیں ہوں منوبھائی تو ایک نظریے، خدمت، محبت اور احساس کا نام ہے اور اگر میرے چاہنے والے میرے اس نظریے کے حامل ہیں تو میں اکیلا نہیں آپ سب بھی منوبھائی ہیں او ر آپ سب ہی سندس فائونڈیشن کے حقیقی جانشین ہیں.
|
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں