امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈین کوئس نے نے امریکی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے بیان میں کہا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند گروپ بھارت ،افغانستان اور امریکی مفادات پر حملوں کے لئے اپنی محفوظ پناہ گاہوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ پاکستان بارہا ایسے بیانات کو مسترد کر تے ہوئے وضاحت کر چکا ہے کہ ایسے گروپس پاکستان میں نہیں ہیں امریکی انٹیلی جنس ڈائریکٹر نے ان الزامات کی بوچھاڑ اس وقت کی جب چند گھنٹے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل میں امریکی اور نیٹو حکام کے ساتھ چیفس آف ڈیفنس کانفرنس میں میں واضح کیا کہ ہم نے دہشت گردی کو اکھاڑ پھینکا ہے اور یہاں اب دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں اور پاکستان دوسروں سے بھی ایسے اقدامات کی توقع رکھتا ہے اس کانفرنس میں کمانڈر یوایس سین ٹکام ،کمانڈر سپورٹ ریولسٹ مشن اور افغانستان،کرغزستان،ازبکستان،قازقستان،ترکمانستان کے آرمی چیف شامل تھے، ،چند دن پہلے ہی صدر مملکت ممنون حسین نے اتوار کے روز قومی اسمبلی و سینیٹ اجلاس سے ایک روز قبل انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کر دیا ہے ان ترمیمی ایکٹ کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کی جانب سے قرار دئے جانے والی کالعدم تنظیمیں اور دہشت گرد اب پاکستان میں بھی قابل گرفت ہوں گے،ترمیمی بل پر صدارتی دستخط کے بعد حافظ سعید احمد کی جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت(ایف آئی ایف )،الرشید ٹرسٹ،اختر ٹرسٹ،،روشن منی ایکسچینچ،حاجی خیر اللہ اور حاجی نثار منی ایکسچینج،حرکت جہاد اسلامی،امہ تعمیر نو اور راحت لمیٹیڈ شامل ہیں،الرشید ٹرسٹ اور ختر ٹرسٹ خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں کام کرتے رہے ہیں،دہشت گردی ایکٹ میں ہونے والی اس ترمیم نے اقوام متحدہ اور پاکستان کی تیار کردہ کالعدم تنظیموں کی فہرست میں فرق ختم ہو چکا ہے،گذشتہ ماہ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھرو نوریٹ نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حافظ سعید احمد اقوام متحدہ کی تیارکردہ فہرست میں حافظ سعید کا نام بطور دہشت گرد شامل ہے ،امریکہ نے حافظ سعید کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر لگا رکھی ہے ،امریکہ نے اسامہ بن لادن کے سر کی قیمت ڈھائی کروڑ ڈالر لگائی تھی،حافظ سعید کے خلاف ترمیمی آرڈننس کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب18فروری کو فنانشل ایکٹ فورس (ایف اے ایف ٹی)کا پہلا اجلاس پیرس میں جہاں اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر ہے میں امریکہ اور بھارت کی سربراہی میں منعقد ہونے جا رہا ہے،امریکہ اور بھارت کی یہ خواہش سامنے آئی ہے کہ پاکستان بھی ایف اے ایف ٹی کا حصہ بن کر بین الاقوامی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی وسائل کی فراہمی سے متعلق نگران کا کردار ادا کرے در حقیقت وہ اسی پلیٹ فام سے پاکستان کو اندرون ملک کاروائی پر مجبور کرنے کی کوشش میں ہیں،جنوری میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی (NSC (نے تمام تمام متعلقہ وزارتوں کو اس ضمن میں فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی تھی،سول اور عسکری کوآرڈینیشن فورم صوبائی اور وفاقی حکومت کے فیصلے کو ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں جائزہ لینے کی خبریں ہیں جس کے تحت پاکستان پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں حافظ سعید احمد اور دیگر تنظیموں کی مالی امداد بند کرنے سے متلعق مفصل رپورٹ پیش کی جانی ہے،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندی کمیٹی نے گذشتہ ماہ دورہ پاکستان میں خدشہ ظاہر کیا تھا کی ایف اے ٹی ایف کے تحت پاکستان کو سخت اقدامات اٹھانا ہوں گے بصورت دیگر عالمی تنظیمیں اسلام آباد کے خلاف سنگین اقدامات یا جرمانے عائد کردیں گی،ایف اے ٹی ایف بلیک اور گرے دو طرح کی کٹیگریاں رکھتی ہے ایران اور شمالی کوریا کو بلیک جبکہ پاکستان کوتین سال 2014تک گرے کٹیگری میں رکھا گیا،کٹیگری گرے میں شامل ممالک سے مراد یہ ہے کہ یہ ممالک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لئے مئوثر قدامات نہیں اٹھا رہے،اس فہرست میں پاکستان کے علاوہ الجیریا،ایکوڈور،ایتھوپیا،انڈونیشیا،میانمار،ترکی،مصر شام تھے اب ایک بار پھر مصر،پاکستان،نائجیریا،ایکوڈور،ایتھوپیا ،انڈونیشیا ،کینیااور ریڈار پر ہیں،گو ایف اے ٹی ایف کے پاس کسی ریاست پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا اختیار حاصل نہیں لیکن ان کی سفارشات پر پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں،جنوری میں بھارت اور امریکی دبائو کے بعد پاکستان میں جماعت الادعواۃکے سربراہ حافظ سعید احمد پر عائد پابندیوں کا جائزہ لینے لئے اقوام متحدہ کی پابندی1267مانیٹرنگ کمیٹی ٹیم برائے حافظ سعید احمد اسلام آباد پہنچی تھی،اس کمیٹی کی آمد پر دفتر خارجہ نے مئوقف اختیار کیا تھا کہ پابندی کی نگران ٹیم طالبان،القاعدہ اور داعش کے حوالے سے پابندیوں کا جائزہ لینے پاکستان آئی ہے،چند روز قبل ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے یہ بھی بتایا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ چکی ہے جسے دہشت گردی کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق بریفنگ دی گئی یہ نگران کمیٹی دورے کی رپورٹ پابندی کمیٹی کے سامنے پیش کرے گی،ٹیم کا خیال ہے کہ 1267پابندیوں کی فہرست میں 25تنظیمیں اور36افراد پاکستان میں کام کر رہے ہیں لیکن ان کی اصل توجہ حافظ محمد سعیداور ان سے منسلک معاملات پر ہی مرکوز رہی،،پاکستانی حکومت کا عالم یہ رہا کہ اس نے نگران ٹیم کے دورے سے قبل خصوصی اقدامات کئے جن میں کالعدم تنظیموں کے عطیات دینے کے خلاف تشہیری مہم جیسے عوامل شامل تھے،اس کے علاوہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق پاکستان میں کام کرنے والی کمپنیاں کسی کالعدم تنظیم سے کاروبار نہ کریں،دسمبر میں امریکی نائب صدر مائیک پینس نے دورہ کابل کے دوران کہا کہ پاکستان مبینہ طور پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو نوٹس پر لیا ہوا ہے امریکی نائب صدرکے اس بیان پر پاکستان کی جانب سے شدید رد عمل آیا،جنوبی ایشیا امور کے امریکی ماہر مادروں جی وینیم نے واشنگٹن میں ہرزا سرائی کی کہ حافظ سعید احمد اور مولانا خادم حسین رضوی جیسے افراد کی سرگرمیاں پاکستانی معاشرے کے لئے بہت خطرناک ہیں،امریکہ نے اپنی دھمکیوں میں امداد روکنے جیسی دھمکیوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ دہشت گردوں کو محفوظ پنا گہیں دینے پر پاکستان کو بہت کچھ کھونا پڑے گا حالانکہ دہشت گردی کا بدترین شکار پاکستان کئی بار واضح کر چکا ہے کہ یہاں دہشت گردوں کے لئے کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں،پاکستانی مبصرین کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جاتا رہا کہ کہیں ایسا نہ ہو اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن جیسا کوئی آپریشن حافظ سعید احمد کے خلاف بھی نہ اٹھا لے،حال ہی میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹیلر جس کی چند روز پہلے بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات بھی ہوئی تھی نے خبردار کرتے کہا کہ وہ اپنے علاقوں پر کنٹرول کھو دے گا اگر اس نے حقانی نیٹ ورک و دیگر دہشت گرد وں کے ساتھ روابط ختم نہ کئے تو،اس تمام تر صورتحال پر سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق صدارتی آرڈننس قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس سے ایک روز قبل جاری کیا گیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس آرڈننس جاری کرنے کا اصل مقصد جماعت الدعواۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کے سیاسی ونگ ملی مسلم لیگ کو اسی سال ہونے والے عام انتخابات کا حصہ بننے سے روکنا ہے،حافظ سعیداحمد اس دھرتی کے نامور اور عظیم سپوت ہیں وہ ہر وقت پاکستانی قوم کی خدمت کے لئے کوشاں رہتے ہیں ان کے ہزاروں رضا کار پاکستان بھر میں آنے والی قدرتی آفات کے دوران وہ کارنامے انجام دئیے جن کی کہیں اور مثال نہیں ملتی،فلاح انسانیت فائونڈیشن میں عوامی خدمت کے لئے کام کرنے والے رضاکاروں کی تعداد کم از کم50ہزار ہے31شہروں میں چار سو کے قریب ایمبولینسز ہر قصبہ میں میڈیکل سروسز کی فراہمی کے ساتھ 25بڑے ہسپتال کام کر رہے تھے جنہیں امریکی و بھارتی خوشنودی و غلامی میں کام سے روک دیا گیا ہے،وفاقی وزیر خواجہ آصف نے پوری دنیا کے سامنے کیمروں کے سامنے آ کر کہا تھا کہ حافظ سعید احمد پاکستان پر بوجھ ہیں،کتنی اچنبھے کی بات ہے جو خود بوجھ ہیں وہ حافظ سعید جیسے شخص کو ریاست کا بوجھ قرار دے رہے ہیں،ایک ایم این اے نے کہا حافظ سعید احمد کون سے ہمارے لئے انڈے دیتے ہیں کہ ہم پوری دنیا کو جواب دیتے پھریں،کیا بات ہے ؟کیا عجب بات ہے پاکستان کا طالب اول اس ریاست اور قوم کے لئے بوجھ بن کیسے سکتے ہیں؟اس جماعت نے پاکستان میں ہمیشہ فلاحی کام کیا،یہ وہ جماعت ہے جس نے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا،جس نے کبھی مساجد پر حملے نہیں کئے،جس نے کبھی بے گناہوں کو خون میں نہیں رنگا،ہاں البتہ آزادی کشمیر کے لئے ان کی آواز دنیا میں سب سے زیادہ بلند ہے،کشمیر کی آزادی اور ان کے حق خود ارادیت کے لئے تو پاکستانی حکومت بھی ان کے ساتھ ہے اس نے ہر سطع پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کی بھر پور مذمت کی کیا یہ ساری ریاست دہشت گرد ہے؟پاکستان کے خلاف بھارت اور امریکہ ایک ساتھ ہیں ان کی خوشنودی کے لئے پاکستان مزید کیا کیا کرے گا؟چند روز قبل وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے دورہ امریکہ کے بعد خوشی خوشی بیان دیاکہ ان کے دورہ میں امریکہ کا رویہ ان کے ساتھ بہت اچھا تھا،احسن اقبال یہ بھول گئے کہ وہ ایک خود مختار اسلامی ملک کے وزیر داخلہ ہیں نہ کے ان کے ٹٹواور غلام تھے ،غلام ہی کسی کے اچھے رویوں کی یوں تعریف کرتا ہے،پہلے ہی ملک بری طرح گروی رکھا جا چکا ہے مزید کیا کیا کرنا ہے ابھی ؟ان تمام خواہشات کے باوجود بھارت اشتعال انگیزیوں سے باز آنے کی بجائے مزید دھمکیوں پر اتر آیا ہے دوسری طرف حافظ سعید سمیت دیر افراد کے خلاف کاروائی کا صدارتی آرڈننس اور اس کی کابینہ سے منظوری بھی کر لی گئی مگر اس کے باوجود امریکی نے فناشنل ٹاسک فورس کو درخواست کی ہے کہ پاکستان کو گلوبل واچ ڈاگ لسٹ میں شامل کیا جائے اس سے قبل بھی پاکستان اسی لسٹ میں رہا،امریکی عزائم کے رد عمل میں مشیر خزانی مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ واچ لسٹ میں شامل ہونے سے بچنے کے لئے امریکہ،برطانیہ ،فرانس اور جرمنی سمیت دیگر ممالک سے رابطے میں ہیں، ساتھ ہی حکومت کہہ رہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں ،چلیں جی ضرور چلیں ،بہتر خارجہ پالیسی نہ جانے اب کس دور میں بنے گی جو خود داری پر استوار ہو گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں