بدھ، 14 فروری، 2018

غزل

ویران اندر سے کر رہا ہے کوئی
مجھ سا مجھ میں اتر رہا ہے کوئی 

وقت سا تحلیل ہوا چاہتا ہے 
خاموش جان سے گزر رہا ہے کوئی 

ساتھ چلنے کا وعدہ تو کر لیا تھا
سفرطویل دیکھ کر مکر رہا ہے کوئی

کڑی دھوپ میں بھی تپش نہیں
ہاتھ اٹھائے دعا کر رہا ہے کوئی

دل کے سرتال بگڑے ہوئے ہیں
مجھ سے جیسے بچھڑرہا ہے کوئی

گرد ہی گردہے اور ہم راہی
ہرطرف جیسے بکھر رہا ہے کوئی

خالد راہی 
غزل
ویران اندر سے کر رہا ہے کوئی
مجھ سا مجھ میں اتر رہا ہے کوئی 

وقت سا تحلیل ہوا چاہتا ہے 
خاموش جان سے گزر رہا ہے کوئی 

ساتھ چلنے کا وعدہ تو کر لیا تھا
سفرطویل دیکھ کر مکر رہا ہے کوئی

کڑی دھوپ میں بھی تپش نہیں
ہاتھ اٹھائے دعا کر رہا ہے کوئی

دل کے سرتال بگڑے ہوئے ہیں
مجھ سے جیسے بچھڑرہا ہے کوئی

گرد ہی گردہے اور ہم راہی
ہرطرف جیسے بکھر رہا ہے کوئی

خالد راہی 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

loading...