ہواکے دوش پررقص کر نے والی آواز کی ایک اپنی دنیا ہے، اپنا طلسم ہے ،جو بہت آسانی سے نہ صرف احساسات کے تار چھیڑ دیتی ہے بلکہ جذبات کی نا زک دھنوں میں بھی ارتعاش برپار کر دیتی ہے،ہلکی آنچ پر چلنے والی ہوا۔۔۔ جوکہ آواز کا میڈیم ہے دو دھاری تلوار کے طور پر کا م کر تا ہے۔ ایک آواز کو جھونکوں کی سواری کے سہارے حسین سماعتوں تک پہنچانا اوردوسرا جلتے چراغوں سے آنکھ مچولی کرتے رہنا ۔ہوا اور چراغ کی روشنی کی جنگ ازل سے ابد تک جا ری رہے گی عشق کے چراغ جلانے سے سینے منور کرنے کاسبق ایک عارف حضرت میاں محمد بخش کی الہامی شاعری سے ملتا ہے، عقیدت مندوں کے لیے ان کے مزار شریف پرچراغ روشن کر نا بڑے نصیب کی بات سمجھا جا تا ہے۔
آواز کی دسترس کا سب سے معتبر اور توانا ذریعہ ریڈیو پاکستان رہا ہے ، ریڈیو کو آواز کے اسرارورموز سمجھنے اور تلفظ کی درست ادائیگی تک رسائی کا سب سے موثر ذریعہ اور بنیادی سکول گردانا جا تا ہے ، ریڈیو پاکستا ن کی نشریات کا آغاز پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ہوگیا تھا ، ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان اور مملکت پاکستان آپس میں ہم عمر ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ریڈیو پاکستان کے تین ا سٹیشن ، لاہور ، ڈھاکہ اور پشاور میں موجودتھے ۔ آل انڈیا ریڈیو کو تن آور درخت کہا جا ئے تو یہ تینوں ا سٹیشن اس کی شاخیں کہلائیں گی ۔ ریڈیو پاکستان کے پہلے پروڈیو سر ذوالفقار علی بخاری، جو کہ مشہور لکھاری پطر س بخاری کے بھائی تھے۔ قیام پاکستان کے بعدجو ریڈیو اسٹیشن قائم کیا گیا وہ تھا کراچی ا سٹیشن ، جنگ عظیم دوم اختتام کی جا نب مائل تھی مگر اس کی تباہی چارسو پھیلی ہو ئی تھی چنانچہ سامان کی خریداری یورپ اور ایک ہمسایہ ممالک سے کر کے کر اچی کا ریڈیوا سٹیشن قائم کیا گیا ،اس وقت ریڈیو پاکستان کے 31ریڈیو اسٹیشنز سے باقاعدہ نشریات جا ری وساری ہیں جن میں سے تین آزادکشمیر ، سات بلوچستان ، ایک اسلام آباد ، چھ NWFP،دو ناردن ایریاز، سات پنجاب میں قائم ہیں ، ان سب کاصدر مقام دارلحکومت اسلام آباد میں ہے۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی کو ریڈیو پاکستان کی تاریخ کا سنہری دور قرار دیا جا تا ہے معلومات ، ثقافت ، حالات حاضرہ ،خبررسانی ،ڈرامے ،بچوں وخواتین کے خصوصی پروگرامز، شاعری ، دینی تعلیمات گویا سب سہولتیں ایک چھت تلے دستیاب تھیں، نامی گرامی شاعر ، ڈرامہ نگار ، آرٹسٹ ، لکھاری سب ریڈیو پاکستان کا حصہ بننا اپنے لیے اورملک کے لیے فخر محسوس کرتے تھے یہ زمانہ پاکستا ن ٹیلی ویژن کے قائم ہونے سے پہلے کا ہے ، 1964میں ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغازکر دیا گیا ، اب توجہ کا مرکز پی ٹی وی بننا شروع ہوگیا، گلیمر، پیسہ ، شہرت سب کچھ ٹی وی سے منسوب ہو کر رہ گیا ، ریڈیو آرٹسٹ بچارہ ،’’ چھٹے اسیر تو بدلہ ہو ازمانہ تھا‘‘ کا عملی نمونہ بن کر رہ گیا ۔
نوے کی دہائی میں ایف ایم ریڈیو (پرائیویٹ سیٹ اپ) قائم کیا گیا جس کی فریکوینسی تھی ایف ایم 100، اب ایک سوسے زائد ایف ایم 24/7اپنی نشریات کا جادوجگانے میں مشغول رہتے ہیں ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، ریڈیو پاکستان سے منسلک آرٹسٹ بھی کنارہ کر نا شروع ہوگیا موجودہ دور میں بہت کم آرٹسٹ ریڈیو پاکستان کے لیے وقت نکال پاتے ہیں وجہ یہ کہ ریڈیو اور ٹی وی کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کر نے کے لیے کوئی جامع پالیسی اختیار نہ کی گئی ایک طرف ’’وہ سب ‘‘اور دوسری طرف ماسوا پیرانہ سالی کے اور کچھ انتظام نہیں ۔
ریڈیو پاکستا ن جو آواز اور قوم کی امیدوں کا مرکز تھا اب عضو معطلی کی تصویر بنتاجا رہا ہے ،شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قومی خدمت کے جذبوں سے لبریز خدمت گاروں کی سریلی آواز کی ترجیجات اب ریڈیو کی بجائے پی ٹی وی ہے ۔ اس لیے ریڈیو جو علم و ثقافت کی مرکزہے اس کی بحالی اور ترقی پر توجہ دینا فضول ہے۔ پرانے زمانے میں ریڈیوکی نشریات سینوں پر ریڈیو سیٹ رکھ کر سنی جا تی تھیں ۔، اب دیکھیے تو شاذ ہی کسی گھر میں کوئی ریڈیو نظر آئے ، البتہ موبائل سسٹم میں موجود ایک عدد ریڈیو کی Applicationصرف شغل طرب کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے ، ریڈیو آرٹسٹ جو صرف چند ٹکوں پر کا م کر کے قدر ت کی طرف سے عطا کر دہ اپنے فن کی پیاس بجانے میں مشغول ہے ان سب ’’مہربانیوں ‘‘ کے باوجود ریڈیو پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے ، شاہی خزانے میں سے آرٹسٹ کے لیے ، جو ریڈیو کا فیول ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں ، ملازمین کی فوج ظفر موج سے دوسرے قومی اداروں کی طرح اس ادارے کی نائو بھی اپنے ہی بوجھ سے ڈوبتی جا رہی ہے،ریڈپاکستان سے جو پہلے الفاظ نشر کیے گے تھے وہ تھے ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے ‘‘خیر پاکستان ٹیلی ویژن کے بعد اگلی باری اب ریڈیو پاکستا ن ہی کی تھی ’’گھر میں تھا کیا ،جو تیرا غم اسے غارت کرتا ‘‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں