اسلام آباد(مانیٹرنگ)جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی دستاویزنہیں ملی جس کے مطابق نوازشریف آف شورکمپنیوں اورلندن فلیٹس کے مالک ہوں۔اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایون فیلڈریفرنس پرسماعت ہوئی، جس میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کرتے ہوئے جے آئی ٹی سربراہ سے پوچھا کہ کوئی ایسی دستاویز آپ نے حاصل کی جس کے مطابق نوازشریف نیلسن اورنیسکول کے مالک ہیں جس پرواجد ضیا نے کہا کہ نہیں ایسی کوئی دستاویز نہیں جس سے ظاہرہوکہ نوازشریف لندن فلیٹس کے مالک رہے، برٹش ورجن آئی لینڈز (بی وی آئی اور موزیک فونسیکا )کی طرف سے نواز شریف کے بینی فیشل اونرہونے کی کوئی معلومات نہیں دی گئیں، ہم نے نواز شریف کے بینی فیشل اونرہونے سے متعلق پوچھا بھی نہیں تھا۔خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا نیلسن اورنیسکول لمیٹڈ پاناما کی قانونی فرم موزیک فونسیکا کے ساتھ کام کررہی تھیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ بنیادی طور پر موزیک فونسیکا لا فرم ہے اوروہ کمپنیوں کے ساتھ ڈیل کررہی تھی۔ ایک بارخواجہ حارث کی جانب سے پوچھا گیا کہ موزیک فونسیکا نے کوئی ایسی معلومات دیں کہ نوازشریف ان کمپنیوں کے بینیفیشل اونر ہیں جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ نہیں کوئی ایسی معلومات نہیں دی گئیں اور ہم نے میوزک فونسیکا سے براہ راست کوئی خط و کتابت نہیں کی، موزیک فونسیکا پرائیویٹ لا فرم تھی ہم نے براہ راست بی وی آئی اٹارنی جنرل آفس سے خط و کتابت کی جب کہ کوئی ایسی دستاویزات سامنے نہیں آئیں کہ 2012 میں بی وی آئی ایف آئی اے اور موزیک فونسیکا کے درمیان خط و کتابت ہوئی۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پاکستان سے کس کے کہنے پر 2012 میں خط و کتابت ہوئی جس پر واجد ضیا نے کہا کہ ایسی کوئی دستاویزات نہیں جوظاہر کرے کہ بی وی آئی ایف ائی اے نے 2012 میں معلومات کسے بھجیں، 2012 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر داخلہ رحمان ملک تھے، جزوی طور پر یہ درست ہے کہ بینیفیشل اونر کا نتیجہ ان 2012 اور2017 کے دو خطوط کی بنیاد پر نکلا، ان دو خطوط اور وہاں کے قوانین کے مطابق بینیفیشل اونر کا نتیجہ نکالا، رجسٹرڈ آف شیئر ہولڈرز کی اصل دستاویزات کبھی نہیں دیکھیں، کبھی کوئی گواہ ایسا پیش نہیں ہوا جس نے یہ کہا ہو کہ دو کمپنیوں کے بیرئر شیئرز کبھی بھی نواز شریف کے پاس رہے ہوں۔ واجد ضیا نے کہا کہ لندن فلیٹس سے متعلق نواز شریف کے حوالے سے کسی بھی آفس میں کوئی خط و کتابت نہیں ملی، ایسی کوئی دستاویزات نہیں ملیں کہ کبھی نواز شریف نے لندن فلیٹس کے حوالے سے کوئی ادائیگی کی ہو، ایسی بھی کوئی دستاویزات سامنے نہیں آئی کہ نواز شریف نے لندن فلیٹس کے یوٹیلیٹی بل بھی ادا کئے ہوں، ایسا بھی کوئی بینک اکاونٹ سامنے نہیں آیا جس سے نواز شریف نے لندن فلیٹس کی خریداری کی ادائیگی کی ہو، تفتیش کے مطابق یہ درست ہے کہ لندن فلیٹس 1993 سے 1995 میں نیلسن اور نیسکول کے نام پر خریدے گئے، موزیک فونسیکا نے ایسی کوئی دستاویزات نہیں دیں جس میں نواز شریف نیلسن اور نیسکول کا بینیفیشل اونر ظاہرکیا ہو، ایسی بھی کوئی دستاویزات نہیں ہیں کہ نواز شریف ان کمپنیوں کے بینیفیشل اونر تھے۔ واجد ضیا نے کہا کہ بی وی آئی کے اٹارنی جنرل سے بھی ایسی کوئی دستاویزات نہیں ملیں جس میں نواز شریف ان کمپنیوں کے مالک اوربینیفیشل اونر ہوں، دوران تفتیش بھی ایسی کوئی دستاویزات نہیں ملیں جس سے ظاہر ہو کہ نواز شریف نیلسن اور نیسکول کے رجسٹرڈ ڈائریکٹر یا نامزد ڈائریکٹر یا شیئر ہولڈر یا نامزد شیئر ہولڈر ہوں، ایسی کوئی دستاویزات بھی نہیں کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے ٹرسٹی یا بینیفشری ہوں جب کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ نواز شریف گلف اسٹیل کے مالک یا شیئرہولڈر ہوں۔ واجد ضیا نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ہم نے بی وی آئی کی ایف آئی اے کو خط لکھا جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ والیم چار کا صفحہ 53 اور 54 دیکھیں، کیا یہ خط بی وی آئی کی ایف آئی اے نے نہیں لکھا۔جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جوابی خط مجھے براہ راست نہیں ملا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ جتنا مرضی گھمائیں میرا سوال وہی ہے۔ واجد ضیا نے کہا کہ خط ڈائریکٹر فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کے دستخط کے ساتھ تھا جو جے آئی ٹی کے نام لکھا گیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ خط کے مندرجات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ خط اٹارنی جنرل آفس سے بھیجا گیا۔ واجد ضیا نے کہا یہ درست ہے کہ خط کے مندرجات سے پتا نہیں لگ رہا کہ یہ اٹارنی جنرل آفس سے بھیجا گیا۔جے آئی ٹی سربراہ نے مزید کہا کہ جزوی طور پر درست ہے کہ بینیفیشل اونر کا نتیجہ 2012 اور 2017 کے 2 خطوط کی بنیاد پر نکلا جس پر نواز شریف کے وکیل نے فاضل جج سے درخواست کی کہ یہ رضا کارانہ جواب دے رہے ہیں اسے ریکارڈ کا حصہ بنالیں۔ واجد ضیا نے کہا کہ ان دو خطوط اور وہاں کے قوانین کے مطابق بینی فیشل اونر کا نتیجہ نکالا تاہم رجسٹرڈ آف شئیر ہولڈرز کی اصل دستاویزات کبھی نہیں دیکھیں۔ سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ نواز شریف گلف اسٹیل کے مالک یا شئیر ہولڈر ہوں تاہم جے آئی ٹی کے سامنے صرف طارق شفیع نے کہا کہ گلف اسٹیل کا شئیر ہولڈر شریف خاندان ہے اور کسی گواہ نے نہیں کہا کہ نواز شریف گلف اسٹیل کے مالک یا شئیر ہولڈر ہیں۔سماعت کے دوران احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ آپ کچھ مختصر جرح نہیں کرلیتے؟جتنا ہوسکتا ہے مختصر کریں، ابھی تو مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے بھی جرح کرنی ہے۔جج محمد بشیر نے کہا کہ عدالت پہلے ایون فیلڈ ریفرنس کو مکمل کرے گی پھر دیگر ریفرنس سنے گی۔جج کے ریمارکس پر خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا نے جورضاکارانہ طور پر باتیں کیں ابھی ان پربھی جرح کرنی ہے، ابھی میں نے واجد ضیا کا بیان نہیں پڑھا، وہ سوالات کیے جوذہن میں تھے، پاناما جےآئی ٹی کے سربراہ کا بیان پڑھنے کے بعد مزید جرح کروں گا، امید ہے جمعہ تک جرح مکمل ہوجائے گی۔خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جو قطری خطوط آئے ان کے 3 پہلو ہیں، قطری خط کاپہلا پہلو یہ ہے کہ 1980میں سرمایہ کاری ہوئی، دوسرا پہلو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ تقسیم ہوا، تیسرا پہلو 2006 میں ایون فیلڈ پراپرٹیز کی سیٹلمنٹ سے متعلق ہے۔خواجہ حارث نے واجد ضیا سے سوال کیا کہ قطری خط میں کسی بھی پہلو سے نواز شریف کا نام موجود ہے؟ اس پر واجد ضیا نے کہا کہ نہیں ، تینوں پہلوں میں کہیں بھی نواز شریف کا نام موجود نہیں ،خواجہ حارث نے پوچھا کہ دوران تفتیش کسی نے نواز شریف کا نام کسی ٹرانزیکشن میں ہونیکی گواہی دی؟ کیا کسی نے نوازشریف کا نام ایون فیلڈ پراپرٹیز،گلف اسٹیل ملز میں لیا؟ واجد ضیا نے کہا کہ نہیں دوران تفتیش کسی گواہ نے بھی نواز شریف کا نام نہیں لیا۔بعد ازاں عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت آج دن 12 بجے تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران واجد ضیا نے اپنا بیان قلمبند کرایا تھا اور بیان مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کی تھی۔گزشتہ روز سماعت پر نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف قطری شہزادے کے خط سمیت تین اضافی دستاویزات کو بطور شواہد جمع کرانے کی درخواست کی جس پر عدالت نے اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا تھا۔اس سے قبل احتساب عدالت نے 22 مارچ کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف اور مریم نواز کی ایک ہفتے کے لئے حاضری سے استثنی کی درخواست بھی مسترد کردی تھی۔سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق تھے۔نیب کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ( لندن فلیٹس ) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔نیب کی جانب سے ان تینوں ریفرنسز کے ضمنی ریفرنسز بھی احتساب عدالت میں دائر کیے جاچکے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں