جمعرات، 12 اپریل، 2018

عظمت ِ بشر

عظمت ِ بشرمعراج النبی ﷺ کو ہمارے ہاں مذہبی نوعیت کا واقعہ تہوار سمجھا جاتا ہے اور اِسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے ‘اسی وجہ سے مقدس مذہبی تہوار کی مناسبت سے ایک آدھ جلسہ منعقد کر کے شب دیدار کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں ‘نوافل پڑھ لیے ‘شیرینی بانٹ دی ‘ریڈیو ٹی وی چینل پر مقررتقریریں کر کے واہ واہ کا ماحول بنایا اور فارغ ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ اصل میں یہ واقعہ عروج آدم خاکی کا شاندار مظہر ہے ۔ تسخیرِ کائنات کے سفر کا اہم سنگِ میل ہے۔ سفر معراج کے تین مراحل ہیں ۔ پہلا مرحلہ مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک یہ زمینی سفر ۔ دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک ہے ‘یہ کرہ ارض سے کہکشاوں کے اس پار واقع نورانی دنیا کا سفر ہے اور سب سے اہم تیسرا مرحلہ سدرۃ المنتہی سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک ہے ۔یہ لازوال سفر محبت اور عظمت کا سفر ہے یہ سب دیدار محب اور محبوب کی انوکھی خاص ملاقات ہے لہذا اِس ملاقات کو زیادہ تر راز میں رکھا گیا سور النجم میں صرف اتنا فرمایا وہاں اللہ تعالی نے اپنے محبوب سے راز و محبت کی باتیں کرلیں ۔ بے شک اِس مقام پر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کا خوبصورت مکھڑا دیکھا اور اپنے محبوب کی میٹھی میٹھی زبان سے باتیں سنیں ۔ یہی وہ مقام تھا جہاں فقط رسول کریم ﷺ ہی تھے جو اپنے رب تعالیٰ کے حسن بے نقاب کے جلوے میں مشغول تھے اور اللہ تعالی کے ارشادات اور پیار بھری باتیں ۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سفر محبت و عظمت اپنے مقصود کو پانے والا تھا ۔ اِس رات سر تاج الانبیا ﷺ کے ہر روحانی لطیف کو قرب ِ الٰہی نصیب ہو ااور وہ دیدار خدا کی لازوال لذتِ دوام سے ہمکنار ہوا یہاں پر جب تمام مراحل طے پاگئے تو ساقی کو ثر اِس حال میں زمین پر لوٹے کہ ہر ہر لطیفے میں مالک ارض و سما کے قرب اور دیدار کی لذتیں سما چکی تھیں ۔ معراج النبی ﷺ کا وقوع پذیر ہونا انسانی تاریخ کا ایک ایسا زرین اور درخشندہ باب ہے جس کا ایک ایک حرف عظمت و رفعت کی ہزار ہا داستانو ں کا امین اور عروج آدم خاکی کا ان گنت پہلوئوں کا مظہر ہے نقوش ِ کفِ پائے محمد ﷺ سے لوح افلاک پر شوکت انسانی کی جو دستاویز مرتب ہوئی وہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہی نہیں بلکہ ایسا مینارہ نور بھی ہے کہ جو تسخیرِ کائنات کے ہر مرحلے پر آنے والی نسل انسانی کے راستوں کو منور کرتا رہے گا اور آسمانوں کی حدود سے نکل کر اولادِ آدم کو مشاہدہ فطرت کی ترغیب دیتا رہے گا سفر معراج اصل میں سفر ارتقا ء ہے یہ آقائے دو جہاں کا وہ عظیم معجزہ ہے جس پر عقل انسانی آج بھی انگشت بد نداں ہے انتہائی کم وقت میں مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک لمبا سفر طے ہو جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے قسم ہے روشن ستارے (وجود محمدی ﷺ)کی جب وہ(شبِ معراج عرشِ بریں پر عروج فرما کر زمین کی طرف ) اترا تمھارے آقا نہ کبھی گمراہ ہوئے اور نہ بے راہ چلے اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے ۔ ان کافرمانا فقط وحی الٰہی ہی ہوتا ہے جو (انکی طرف)کی جاتی ہے ۔ انہیں سکھایا سخت قوتوں والے بہت زبردست اللہ نے ۔ پھر اس اللہ نے استوی فرمایا ۔ اِس حال میں کہ وہ(محمد ﷺ) سب سے اونچے کنارے پر تھے پھر قریب ہوااللہ محمد ﷺسے پھر زیادہ قریب ہوا ۔ تو محمد ﷺ اپنے رب سے دو کمانوں کی مقدار نزدیک ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ۔ تو وحی فرمائی اپنے عبد مقدس کو جو وحی فرمائی۔ سور انجم ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ وہ ذات ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے محبوب اور مقرب بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے با برکت بنا دیا تاکہ ہم اس بندہ کامل کو اپنی نشانیاں دکھائیں بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے ۔ سور بنی اسرائیل ۔ حدیث مبارکہ میں یوں بیان ہے ۔ یہاں تک کہ آپ سِدرۃ المنتہیٰ پر آگئے رب العزت اپنی شان کے لائق بہت ہی قریب ہوا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اِس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ صحیح بخاری ۔ رب کعبہ نے اپنی شان کے مطابق اپنے محبوب ﷺ کو خوش آمدید کہا اور اتنا قریب ہوا کہ اللہ تعالی اور اس کے محبوب کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا گویا کہ رحمتِ مجسم ﷺ پر پروردگار کے جلوئوں کی برسات خوب ہوئی بارگاہ خدا میں نبیوں کے سردار تاجدار کائنات ﷺسرتاپا صفات ربانی میں اسطرح رنگے گئے کہ آپ ﷺ کی ذات اللہ تعالیٰ کی پیکراتم بن گئی ۔ سرور کائنات ﷺ مقام بشریت کو بیت المقدس میں چھوڑ گئے اور مقامِ نورانیت کو عالم ملکیت میں چھوڑ کر آگے گزر گئے ۔ حقیقت محمدی ﷺ ان دونوں مقامات کی انتہا سے بھی بالا تر ہے آپ ﷺکا اصلی گھر تو لامکاں تھا جہاں پر آپ ﷺ کو مدعو کیا گیا ۔ سفر معراج کی شان دیکھئے رب ذولجلال جب چاہے دنیا کے اندازے اور قاعدے ضابطے قوانین وقت کے پیمانے پلٹ کر رکھ دے ۔ معراج کے حوالے سے عبدالقدوس گنگوہی نے کیاخوب کہا ہے کہ ۔ حضور ﷺ فلک افلاک پر پہنچے مگر واپس آگئے اگر میں وہاں پہنچ جاتا تو کبھی واپس نہ آتا ۔ یہ بات ایک صوفی تو کر سکتا ہے کہ صوفی کا نقطہ کمال یہی ہے اگر وہ اس تک پہنچ گیا تو گویا اِس کی تمام عبادات ریاضتوں کا ثمر حاصل ہو گیا لیکن پیغمبر کا منصب مخلوق خدا کی ہدایت اور راہنمائی ہے کہ وہ عرش پر جا کر بھی اپنے منصب کی تکمیل کے لیے واپس فرش پر لوٹ آتا ہے ۔شبِ معراج کا یہ معجزہ ہے کہ انسان بس ایک مشتِ خاک جسے ہوا کا ایک جھونکا اڑا اور بکھیر سکتا ہے ۔ فرشتوں نے بھی حضرت انسان کی عظمت کو محض تسبیح و تقدس کے حوالے سے دیکھا اور بول اٹھا کہ ہم اِس سے زیادہ خدا کی پاکی اور حمد بیان کر نے والے ہیں لیکن معراج کی رات نبی کریم ﷺ ان انتہائی رفعتوں اور منزلوں سے ہو آئے جس کے پہلے زینے پر جبرائیل امین کے پر جلنے لگے وہ منظر کتنا خوب ہو گا جب محبوب خدا ﷺ خراماں خراماں ان رفعتوں کی طرف بڑھے جہاں فرشتوں کے پر جلتے تھے اس وقت ملائکہ کتنی حسرت سے دیکھتے ہوں گے اور رشک کرتے ہوں گے ۔ مرحوم کوثر نیازی نے کیا خوب کہا ہے۔
ان کی عظمت کی جھلک دیکھ کر معراج کی شب 
کب سے جبرائیل کی خواہش ہے بشر ہو جائے

بدھ، 11 اپریل، 2018

کتابوں کے بوجھ تلے دبدتی معصومیت!

کتابوں کے بوجھ تلے دبدتی معصومیت! لفظ بوجھ کے آتے ہی ایک اکتاہٹ سی طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے ، یوں تو بوجھ کی بے تحاشہ اقسام ہیں اور ہماری نئی نسل کیلئے توہر کام ہی بوجھ کی مد میں جاتا ہے ۔ اس دور کے جہاں اور بہت سارے دکھ ہیں ان میں سے یہ بھی ایک بہت تکلیف دہ عمل ہے کہ نئی نسل کی زندگی میں بیزاریت کا عنصر بہت واضح دیکھائی دے رہا ہے۔ بوجھ تو احسانوں کا بھی ہوتا ہے جسے ساری زندگی ہی لادے لادے پھرنا پڑتا ہے ، دوسرا ہر وہ وزن جسے آپ اپنی خوشی سے نا اٹھانا چاہتے ہوں وہ بوجھ بن جاتا ہے ۔ آج اس ترقی یافتہ دور میں والدین کی ترجیحات میں اوالین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ انکی اولاد اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کرے اور دنیا میں اپنے ساتھ ساتھ ہمارا نام بھی روشن کرے۔والدین اپنی اس ذمہ داری کو نبہانے کیلئے محنت مشقت کرتے ہیں تاکہ انکی اگلی نسل ان سے اچھی زندگی گزارے جسکے لئے بنیادی ضرورت اعلی تعلیم کی ہے ۔ اب اعلی تعلیم کا میعار بھی سمجھ لیجئے جس میں دو بنیادی چیزیںہیں پہلی زیادہ سے زیادہ فیس اوردوسری بہت ساری کتابیں۔ بچے بھی روتے دھوتے اسکول جانا شروع کر دیتے ہیں ۔
اپریل کی ابتداء ہوئی ہے تو نئی کلاسوں میں جانے والے بچے بہت شوق و ذوق سے اپنی نئی کتابیں اور بستے لئے اسکولوں کی طرف جاتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ بچوں نے اپنے اوپرکسی مسلسل کئے جانے والے ظلم کی طرح ان بستوں کو تو لاد لیا ہے ۔ دراصل انہیں یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اپنی خواہشات منوانے کیلئے یہ سب کرنا پڑے گا اور اس کے بغیر زندگی کی گاڑی آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔ 
پانی قدرت کی ایک ایسی نعمت کا ہے کہ جس کا کوئی نعملبدل نہیں ہے اب یہ جو پانی ہمیں پینے کو دستیاب ہے کیا اس قابل ہے کہ اسے پی کر انسان زندہ رہ سکے اور اگر زندہ رہ بھی گیا ہے تو بغیر کسی معذوری کے رہ سکے ، کون سی ایسی چیز ہے جو خالص ہے اب جب ہمارے بچے ایسی چیزیں کھائینگے اور ایسا پانی پیئنگے تو کیا خاک ان میں توانائی یا طاقت آئے گی اور وہ کیا مستقبل کا بوجھ اٹھائنگے۔ایسے حالات میں ان بچوں پر بھاری بھرکم بستوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے ۔ وہ اس بات پر کسی قسم کا احتجاج کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے کیونکہ ان کی نافرمانیوں پر انہیں پہلے ہی اتنا کچھ سننے کو ملتا ہے اور کبھی کبھی تو بات اس سے آگے بھی نکل جاتی ہے ۔کیا بچوں کو اپنی کتابوں کے وزن نما بوجھ کو کم کرنے کیلئے کسی قسم کا دھرنا دیناپڑیگا یا کوئی احتجاج کرنا پڑے گا، مگر ان کے پاس ہمارے معاشرے میں اتنے اختیارات و وسائل کہاں ہیں۔ 
گو کہ بھاری بھرکم بستوں کا مسلئہ واقعتا بہت دیر سے باقاعدہ طور سے اٹھایا کیا گیا ہے ۔ اب جبکہ میڈیکل سے وابسطہ لوگوں نے اس بات کی بہت اچھی طرح سے وضاحت کردی ہے کہ یہ بھاری بھرکم بستے طبعی طور پر بچوں کی جسمانی ساخت پر اور افزائش پر کس بری طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ تو ہمارے محکمہ تعلیم یا ماہر تعلیم یا تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے تھا جو ابھی تک ممکن نہیں ہوسکتا ہے ۔ صبح اسکول جاتے ہوئے آدھے سوئے آدھے جاگے ہوئے بچے اور واپسی میں کڑی دھوپ میں بری طرح سے تھکے ماندے معصوم بچے ان بھاری بستوں کو اٹھائے کتنے مظلوم سے لگتے ہیں۔ 
بستے کو رکھا تونہیں جا سکتا مگر اس بات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ بستے کا وزن کس طرح سے کم کیا جائے۔ اس مضمون کے توسط سے تعلیم کے ماہرین کی نظرکچھ تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں اس یقین کے ساتھ کہ اس پر کوئی عملی اقدامات کرینگے۔ اس سلسلے میں ہماری کسی بھی قسم کی معاونت درکار ہوگی ہم فراہم کرینگے (انشاء اللہ)
تجویز نمبر ایک ۔ کتابوں کی چھپائی میں استعمال ہونے والے کاغذ اور گتا کم وزن والا ہو، جس سے کتابوں کا وزن کم سے کم کیا جاسکتا ہے ۔
تجویز نمبر دو۔ نصابی کتابیں دو حصوں میں تقسیم کردی جائیں ایک حصہ جو معروضی ہو جو اسکول لانے کیلئے ہو جبکہ دوسرا حصہ تفصیلی یا بیانیہ ہو جسے گھر پر رکھا جائے۔ اس طرح سے کلاس کا دورانیہ اور بستے کا وزن بھی کم کیا جاسکتا ہے ۔
تجویز نمبر ۳۔ ایسے اقدام سے اساتذہ کی اہمیت اور بڑھ جائے گی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ بیانیہ دینا پڑیگا۔ اس عمل سے نقل کے رجحان میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی کیونکہ اس طرح سے ذہنی مشقیں زیادہ سے زیادہ ہونگی۔ 
تجویز نمبر ۴۔ جتنے بھی بڑے اسکلول سسٹمز کام کررہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اپنے نظاموں میں رائج کورس کوسالانہ طور پر مرتب دینے کیلئے ایک تحقیقی بورڈ تشکیل دیں جو ہر سال اس چیز پر کام کرے کہ کس طرح سے بچوں کو کم کتابوں سے زیادہ سے زیادہ علم فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ 
تجویز نمبر پانچ۔ آج ملٹی ٹاسکنگ (ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام جاننا)کا دور ہے اساتذہ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ بطور موٹیویشنل اسپیکر(حوصلہ افزائی کرنے والا)اور کائونسلر (مشارت فراہم کرنیوالا) کی بھی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ جس سے استاد شاگرد کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ کم ہونا شروع ہوجائے گا اور ذہنی ہم آہنگی بھی بڑھے گی۔ 
تجویز نمبر چھ۔ہر اسکول انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ والدین کی تنظیم بنائیں، اس تنظیم کے ساتھ ششماہی یا سہ ماہی ملاقات رکھی جائے جسمیں نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں سمیت نصابی عمل پر بھی مشاہدات کی بنیاد پر گفتگو کی جائے۔ ایک متوازن معاشرے کیلئے یہ عمل بہت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے ۔ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ نئی نسل کی پرورش و نشونما معاشرتی مسلئہ بن چکا ہے ، جس کے لئے سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا پڑیگا۔
تجویز نمبر سات۔ اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں کچھ سبق ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھایا نہیں جاتا یعنی ان اسباق کو کسی بھی وجہ سے نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتااگر یہ معاملہ کتاب کی چھپائی سے پہلے طے کر لیا جائے تو اور انہیں کتابوں سے نکلوا دیا جائے۔
تجویز نمبر آٹھ۔ عددی (ڈیجیٹل ) دور میں کتابیں کتنا کردار ادا کر رہی ہیں اور کیا ہم اس دور کے تکازے پورے کر رہے ہیں۔
تجویز نمبر نو۔تعلیمی اداروں سے وابستہ ایک اور دیرینہ مسلئہ بھی ہے اور وہ ہے بچوں کے ذرائعے آمد و رفت ، ہم سب روزانہ کی بنیاد پر اسکولوں کی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی دیکھتے ہیں ان گاڑیوں کی حالت زار پر ماتھوں پر شکن اور زبان پر شکوے کے علاوہ اور کچھ اپنے بس میں ہوتا ہی نہیں تو یہی کر کر آگے بڑھ جاتے ہیں سونے پر سوہاگا ان اسکول کی گاڑیوں کے ڈرائیور جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول و گھر پہنچانا ہوتا ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ اسکول خود کیوں ان گاڑیوں کی ذمہ داری لیتے ، سوائے چند اسکولوں کے اسکولوں کی اکثریت اس ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے اور آپ کو ٹرانسپوڑٹر کے حوالے کر دیتی ہے۔ آپ کو اگر اس سہولت سے فائدہ اٹھانا ہے تو آپ ان تمام موجود خطرات پر آنکھیں بند کر لیجئے اور اپنے بچے کو انکے حوالے کر دیجئے ۔ سب سے پہلا خطرہ تو یہ کہ شہر کی جتنی خستہ حال گاڑیاں ہیں وہ اسکولوں میں اپنی ذمہ داریا ں نبھا رہی ہیں۔ دوسرے ہمارے ڈرائیور بھائی جو ان گاڑیوں کو اس طرح چلاتے ہیں جیسے مشہور زمانہ پبلک وین چلا رہے ہوںاور رہی سہی کسر ان میں چلنے والے گانے ۔ اسکول انتظامیہ کو اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ اسکول میں چلنے والی گاڑیوں کی حالت قابل استعمال ہو۔ گرمیاں شروع ہو چکی ہیں یہ گاڑیاں اپنی اسی حالت کے ساتھ بچوں کو بری طرح سے ٹھونس ٹھونس کر بھر لیتے ہیں ۔ 
 وقت کا تکازہ ہے کہ معاشرے کی بگڑتی ہوئی چھوٹی چھوٹی باتوں پر شدت سے دھیان دیں ، ہمیں حکومت اور ارباب اختیار کی جانب دیکھنا چھوڑ نا پڑیگا ، ہمیں اپنے آنے والے کل کیلئے خود ذمہ داری اٹھانی پڑے گی اور عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ تعلیم کی ترسیل آج ایک کاربار کی صورت اختیار کرچکا ہے لیکن اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اچھی تعلیم اور اچھا معاشرہ تشکیل دیناہے ،نئی نسل کو نئے تکازوں سے ہم آہنگ رکھنا ہے تو یہ سب برداشت کرنا پڑے گا، لیکن ان باتوں کو یقینی بنانا بھی ان تعلیمی اداروں پر لازم ہے جو اپنی مرضی کی فیس وصول کر رہے ہیں۔ 
ہم نے ان بنیادی جزیات پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے ۔ہمارے سیاستدانوں نے نا تو کبھی خود اس ملک اور اسمیں رہنی والی رعایا کیلئے کچھ کیا ہے اور نا کسی کرنے والے کو کرنے دیا ہے ۔ اس ملک کے ہر ادارے میں سیاست نے گند گھول رکھا ہے ، خدارا تعلیم اور تعلیمی اداروں کو سیاست سے پاک رہنے دیں ہم روتے گاتے ہیں کہ ہماری نسلیں کہاں جا رہی ہیں مگر ہم آنکھیں کھول کر یہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ ہم نے انہیں معاشرتی طور پر دیا کیا ہے انکے لئے کن راستوں کا تعین کیا ہے ۔آج درسگاہوں سے کہیں زیادہ ٹیوشن سینٹر ز اور سماجی میڈیا طالب علموں کی ذہن سازی کر رہے ہیں ، معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ مغرب کے بچھائے ہوئے جال کے چنگل میں پھنستے ہوئے اسکول و کالج کے بچے اور بچیاںجس ڈگر پر چلنا شروع ہوگئے ہیں ہم سب بہت اچھی جانتے ہیں ، اس سارے بگاڑ کے پیچھے اگر کوئی ہاتھ ہے تو دوسرا ہاتھ ہمارا بھی برابر کا شریک ہے ۔ ہمارا دھیان بانٹ دیا گیا ہے ۔سرے عام اسکول یونیفارم میں بچے سگریٹ نوشی کر رہے ہیں اور بچے بچیاں پارکوں میں ٹہلتے نظر آرہے ہیں۔ اسکولوں کی انتظامیہ ، اساتذہ اور والدین اپنی اپنی حدود سے باہر نکل کر ایک جامع حکمت عملی بنائیں اور اس پر عمل پیرا ہوں ۔ تب کہیں جا کر ان معاملات میں سدھار لایا جاسکتا ہے ، ورنہ خاتمہ بل خیر ہوتا سجھائی نہیں دے رہا۔ یہ سب پریشانیاں ختم تو نہیں مگر بہت حد تک کم ہوسکتی ہیں۔ اگر مذکورہ بالا تجاویز کا بغور جائزہ لیتے ہوئے عملی طور پر کام کیا جائے۔ کم از کم معصومیت کو کتابوں کے بوجھ سے تو آزادی مل جائے گی۔

جامعہ نعمانیہ رضویہ میں علامہ خادم حسین خورشیدالازہری کاخطاب

تحریر:محمدصدیق پرہار
 گزشتہ چھ دہائیوں سے لیہ شہرکے گنجان آبادمحلہ شیخانوالہ کی خوش نصیب گلی میں واقع مدرسہ جامع نعمانیہ رضویہ میں قوم کے نونہالوں کوحفظ قرآن پاک اور درس نظامی کی تعلیم سے مزیّن کیاجارہا ہے۔ صوفی باصفا صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ یہاں علم کی شمع کوروشن کیاجومسلسل علم کے متلاشیوںکومسلسل روشنی دے رہی ہے۔صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ کے شجرعلم سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادہزاروں میں ہے۔اس مدرسہ سے فیض یاب حفاظ کرام اورعلماء کرام ملک بھرمیں دین اسلام اورفروغ عشق رسول میں اپنانمایاںکرداراداکررہے ہیں۔ تمام طلباء کی خوراک ورہائش کاانتظام مدرسہ کی طرف سے ہی کیاجاتاہے۔اس مدرسہ کے معلمین ومدرسین بڑی محنت، انتہائی توجہ، مشفقانہ رویہ کے ساتھ طلباء کوقرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔جامعہ نعمانیہ رضویہ کے تمام معلمین میں یوں تو کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔علامہ قاری ممتازاحمدباروی حافظ قرآن بھی ہیں اورقرآن پاک کے بہترین قاری بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوب صورت اخلاق کے ساتھ ساتھ سحرانگیزاورپرسوزآوازسے بھی نوازاہے۔ قاری ممتازاحمدباروی صاحب جب قرآن پاک کی تلاوت کی سعادت حاصل کرتے ہیں توسننے والے چاہتے ہیں کہ قاری صاحب قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہیں اورہم سنتے رہیں۔ قاری ممتازاحمدباروی عالم دین بھی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کوجوہرخطابت بھی خوب عطاء کیاہے۔جب بھی خطاب کرتے ہیں علمی اورمدلل خطاب کرتے ہیں۔نقابت کرنے میں بھی قاری صاحب اپنی مثال آپ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قاری صاحب کوفن شاعری کااسلوب بھی دے رکھا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح بھی لکھ رہے ہیں۔ دیگرمدرسین علامہ شبیرالحسن باروی، علامہ محمداشرف مظہری، مولانامظفرحسین باروی اپنی مثال آپ ہیں۔ اس درس گاہ میں طلباء کی کردارسازی پربھی توجہ دی جاتی ہے۔ ہفتہ میں ایک دن بزم حامدیہ منعقدکی جاتی ہے۔اسی مدرسہ میں ہرسال رجب المرجب کی سترہ تاریخ کوصوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ محمداقبال باروی رحمۃ اللہ علیہ کاایک روزہ عرس مبارک بھی منعقد کیا جاتاہے۔ جس میں حفظ قرآن اوردرس نظامی مکمل کرنے والے طلباء کی دستاربندی بھی کی جاتی ہے۔ عرس مبارک میں جیّد علماء کرام خطاب کرتے ہیں۔ اس سال بھی سترہ رجب المرجب کو جامعہ نعمانیہ رضویہ لیہ میں صوفی حامدعلی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ محمداقبال احمدباروی رحمۃ اللہ علیہ کاسالانہ ایک روزہ عرس مبارک منایا گیا ۔ عرس مبارک کی آخری نشست بعدنمازعشاء منعقدہوئی۔عرس مبارک کی اخری نشست سے چیئرمین وحدت اسلامی انٹرنیشنل علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے خطاب کیا۔علامہ خادم حسین خورشیدنے عرس مبارک کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جودعائیہ کلمات کہے اس سے ان کے اندازخطابت کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے۔ان کے دعائیہ کلمات ہی بتارہے تھے کہ وہ امت مسلمہ کے بارے میںکتنے فکرمندہیں۔ وہ مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول موجزن بھی دیکھناچاہتے ہیں اوران کے کردارکوبھی سنوارناچاہتے ہیں۔علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام پاکیزہ دین ہے۔ کعبہ تعمیر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعامانگی ’’ اے ہمارے رب ان میں سے اپنارسول مبعوث فرما جوتیری آیات کی تلاوت کرے، انہیں علم وحکمت کی تعلیم دے اورانہیں پاک وصاف کرے ‘‘ پاکیزگی جسم کی بھی ہوتی ہے اورروح کی بھی۔ یہ پاکیزگی ایمان ،عقیدے اورعمل کی بھی ہوتی ہے۔ اسلام میں ان تمام پاکیزگیوں کی طرف توجہ دی گئی ہے۔نمازکی شرائط میںجسم، جگہ اورلباس کی پاکیزگی شامل ہیں۔عبادات سے پہلے، طہارت، وضواورغسل اس بات کاثبوت ہیں کہ اسلام میں پاکیزگی پرکتنی توجہ دی گئی ہے۔ ان کاکہناتھا کہ دین اسلام سے وابستگی ہی عزت کاباعث ہے۔ہم عزت ووقاراقتدار، کرسی، جائیداد، مال ومتاع، سرمایہ، جاہ ومنصب میں تلاش کرتے ہیں۔یہ سب چیزیں تواللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت بھی ہیں اورآزمائش بھی۔ حقیقی عزت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں ہے۔ دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہوجائیں تواس دنیامیں بھی حقیقی عزت ملتی ہے اورمحشرکے دن بھی عزت ملے گی۔ اسلام میں نہ صرف زندہ لوگوںکوعزت دی گئی ہے بلکہ اس دارفانی کوچھوڑ کرجانے والوںکوبھی عزت واحترام کے ساتھ سپرخاک کیاجاتاہے۔ جب بھی کوئی مسلمان فوت ہو جاتاہے تواس کوغسل دیا جاتاہے،اس کوپاک وصاف کفن پہنایا جاتاہے، اس کانمازجنازہ اداکیاجاتاہے، اس کے لیے دعائے مغفرت کی جاتی ہے، ا س کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی، قل خوانی، دسواں، بیسواں، تیسواں، چالیسواں اورجمعرات کے نام سے ایصال ثواب کی تقاریب منعقدکی جاتی ہیں۔ اس کو قبرستان میں دفن کرنے کے لیے بارات کی صورت میں لے جایاجاتاہے۔اسے عزت کے ساتھ سپردخاک کیاجاتاہے۔کسی اورمذہب اورطبقہ کے لوگ اپنے مرُدوں کواتنی عزت نہیں دیتے۔علامہ خادم حسین خورشیدکہتے ہیں کہ اسلام کی یہ کوالٹی ہے کہ اس کوجتنادبایاجائے یہ اتناہی بڑھتااورپھیلتاہے۔اسلام دنیامیں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نائن الیون کے بعدجس منصوبہ بندی کے تحت اسلام کوٹارگٹ کیاگیا ہے۔ اسلام کودہشت گردمذہب اورمسلمانوںکودہشت گرد ثابت کرنے کاکوئی حربہ نہیں چھوڑاگیا۔ دنیابھرکی عوام میں اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیاگیا۔ عالمی طاقتوں اورمیڈیاکی اسلام مخالف مہم کاہی یہ اثرہواکہ غیرمسلم عوام کواسلام میں دل چسپی پیداہوئی ، انہوںنے اسلام کامطالعہ کرناشروع کردیا ، اسلام کامطالعہ کرنے کے بعد وہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگے ہیں۔عالم اسلام کی بے حسی پرتبصرہ کرتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ طیب اردوان کے سواکسی بھی اسلامی ملک کے سربراہ کاکردارقابل تعریف نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت زار، اسلامی ممالک کے سربراہوں کی بے حسی کودیکھاجائے توعالم اسلام کی بے بسی پرافسوس ہوتاہے۔مسلمان ممالک مل کرمشترکہ دشمن کامقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے برسرپیکارہیں۔مسلمان ملکوں سے دشمنیاں اوراسلام کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں کی جا رہی ہیں۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ کفرکاسب سے بڑاٹارگٹ مدارس ہیں ۔ مدارس کے خلاف اب تک جوپروپیگنڈہ کیاجارہا ہے وہ سب کواچھی طرح معلوم ہے ۔ مدارس کی کردارکشی کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیاجاتا۔کفرکے اس پروپیگنڈہ کاہمارے اپنوںنے بھی بھرپورساتھ دیا۔کفرکی مدارس کے خلاف مہم کے بعد مدارس میں طلباء کی تعدادمیں اضافہ ہی ہواہے۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ کفراسلام پرڈائریکٹ نہیں ان ڈائریکٹ حملہ کرتاہے۔ کفراسلام پرحملہ کرنے کے لیے مسلمانوں کے غداروںکوخریدکرتاہے، ان کے ذریعے مسلمانوں کے جذبہ عشق رسول اورعقیدے پرحملے کراتاہے۔کبھی وہ ملعون قادیانی کوسامنے لے آتا ہے توکبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کردیتاہے۔ کبھی وہ مدارس کوٹارگٹ کرتاہے توکبھی مسلمان ممالک کی حکومتوں کونشانے پرلے لیتاہے۔صوفی حامد علی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ مولانامحمداقبال احمدباروی کے عرس مبارک کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے علامہ خادم حسین خورشیدالازہری نے کہا کہ مسلمانوں میں رسول اکرم، نورمجسم، شفیع معظم، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ختم کرنے کے لیے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔کفراسلام اورمسلمانوںکوبدنام کرنے پرتلاہواہے۔کفراسلام کوبدنام کرنے کے لیے کیاکیانہیں کررہا عالمی حالات وواقعات سے آگاہی رکھنے والے اس کواچھی طرح جانتے اورسمجھتے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ حکمرانوںکے درکے چکرلگانے والاعالم دین نہیں ہوسکتا۔قصورسمیت ملک کے مختلف شہروںمیں کم سن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پراظہارخیال کرتے ہوئے علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ باکردارعوامی نمائندوںکوہی منتخب کرناچاہیے۔ جب ووٹ بدکردارکودیاجائے گاتوقوم کی بچیوںکی عزت کیسے محفوظ رہے گی۔انہوںنے کہا کہ ہوٹلوں، چوراہوں، بسوں، ٹرینوں میں لکھاہواہے کہ مذہبی گفتگوکرنامنع ہے۔ علامہ صاحب نے سوال کیا کہ کیایہ امریکہ، اسرائیل یاانڈیا ہے جویہاںمذہبی گفتگوکرنامنع ہے۔ملک میں مذہبی گفتگوپرپابندی افسوس کامقام ہے۔مذہبی گفتگوپرپابندی کے ذریعے عوام کواسلام سے دورکرنے کی کوشش ہورہی ہے۔اس کوشش کاآغازمساجدمیں فائرنگ اورخون ریزی کے واقعات سے کیاگیاتھا۔انہوںنے کہا کہ ایم این اے کوتیسراکلمہ نہیں آتا اوروزیرکوسورۃ اخلاص نہیں آتی تواس میں اسلام کاکیاقصورہے۔انہوں نے بلدیاتی امیدواروں کے انٹرویوکااحوال سناتے ہوئے کہا کہ ایک امیدوارسے پوچھاگیا تجھے دعائے قنوت یادہے، امیدوارنے جواب دیا جی یادہے، سے کہا گیاسنائو، امیدوارنے سورۃ اخلاص سنادی،انٹرویولینے والے نے کہا کہ یہ پہلاامیدوارہے جسے دعائے قنوت یادہے۔یہ سب اسلامی تعلیمات کی ترویج واشاعت پرتوجہ نہ دینے کانتیجہ ہے۔یہ مسلمانوںکواسلام سے دور کرنے کارزلٹ ہے۔ ہم اسلام کوکتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اس کااندازہ اس سے لگائیں کہ سکول کی ٹیوشن پڑھانے والے کوتومنہ مانگی فیس ایڈوانس دی جاتی ہے، جب کہ قرآن پاک پڑھانے والوں کوپانچ سوروپے ماہانہ دیتے ہوئے بھی بوجھ محسوس ہوتاہے۔سکولوں میں دنیاوی کتب پڑھانے والے توہزاروں روپے تنخواہ لے رہے ہیں اورسکول کے بچوںکوقرآن پاک پڑھانے والے معلم کوماہانہ پانچ سوروپے بھی حکومت کی طرف سے نہیں دیے جاتے۔انہوںنے کہا کہ ختم نبوت قانون پرڈاکہ ڈالا گیا۔ تمام ممبران اسمبلی اس پرخاموش رہے،ختم نبوت حلف نامہ میں ترمیم کرتے وقت کسی ممبراسمبلی نے احتجاج نہیں کیا۔انہوںنے واضح اعلان کیا ہمیں ایسے ممبران اسمبلی قبول ہیںجوایوانوں میںناموس رسالت کاتحفظ کریں۔علامہ صاحب نے کہا کہ الیکٹرانک اورسوشل میڈیا اسلام کے خلاف استعمال ہورہا ہے، انہوںنے سوشل میڈیاپروائرل ایک ویڈیوکااحوال سناتے ہوئے کہا کہ مسلمان سمیت دیگرمذاہب کے افرادآپس میں گفتگوکرتے ہیں اور مسلمان کولاجواب کردیتے ہیں۔اس کاجواب دیتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ قوم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانی مانگا اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی پانی مانگا۔ فرق یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں چل نہیں گئے، کسی پتھرپرعصا نہیں مارا، ایک پیالے میں دست مبارک ڈالاتوانگلیوں سے پانی کے فوارے جاری ہوگئے سیکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خوب سیرہوکرپیا۔انہوں نے کہا کہ مدارس کے طلباء کوحقارت سے نہ دیکھاکرو۔ چٹائیوں پربیٹھ کرقرآن پاک پڑھنے والوںکی وجہ سے ہی ملک قائم ہے۔علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ حکمرانوں کی بیٹی ملالہ ہے۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی اوربیٹاممتازقادری ہے۔ملالہ نے پاکستان اوراسلام کے بارے میںجوکچھ بھی کہا ہے اس سے یہ اندازلگانامشکل نہیں کہ وہ کس ایجنڈے پرکام کررہی ہے۔ایک گولی کالگ جاناکوئی بہادری نہیں ہے۔اس نے کون ساایساکارنامہ انجام دیا ہے جومغربی میڈیاکی آنکھوںکاتارابن گئی۔مغرب والے کسی کوایسے ہی آنکھوں پرنہیںبٹھاتے۔قوم کی بیٹی توعافیہ صدیقی ہے جوگوانتاموبے جیل میں سزاکاٹ رہی ہے۔قوم کابیٹا توممتازقادری ہے جس نے ناموس رسالت پراپنی جان بھی قربان کردی۔قوم کابیٹاتوطالب علم اسفندیارہے۔ جس نے جان پرکھیل کردہشت گردکوقابوکرتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے سکول ، اساتذہ اورطلباء کودہشت گردی سے بچالیا، قوم کی بیٹیاں توآرمی پبلک سکول کی وہ ٹیچرز ہیں جنہوںنے طلباء وطالبات کودہشت گردوں سے بچاتے ہوئے شہادت پائی۔قوم کی بیٹی تووہ سکول ٹیچرہے جوخود توسلنڈرپھٹنے کی وجہ سے سکول وین کولگنے والی آگ میں خودتوجھلس کرشہیدہوگئی لیکن طلباء کوآگ سے بچالیا۔ان کاکہناتھا کہ افغانستان میںمدرسہ پربمباری سے سوسے زیادہ بچے شہیدہوئے اورشام میں چارسوبچوںنے جام شہادت نوش کیا۔ملالہ کوایک گولی لگنے پر شور مچانے والامیڈیا ان بچوں کے اجتماعی قتل عام پرکیوںخاموش ہے۔علامہ صاحب کہتے ہیں کہ محراب ومنبرسے عوام کارابطہ توڑنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ مساجد سے لائوڈ سپیکروںکااتاراجانا اورصرف ایک سپیکرکی اجازت دینا اسی کاتسلسل ہے۔علامہ خادم حسین خورشیدالازہری کہتے ہیں کہ اسلام میں طے شدہ امورکی من پسندتشریح کرنے والے دانشوراس وقت میڈیاکے ہیروہیں۔ اسلام کے طے شدہ اصول وضوابط میں سے ایسے دانشوربعض اصول وضوابط کواس وقت کی ضرورت قراردے کرموجودہ دورمیں ان امورسے انکاری ہیں۔انہوںنے مغرب میں مدرڈے ، فادرڈے منانے پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی معاشرہ میں لوگ بوڑھے والدین کوبوجھ سمجھ کرانہیںاولڈہومزمیں چھوڑ آتے ہیں۔ سال میں ایک باران کوملنے جاتے ہیں ، انہیں تحفے وغیرہ دیتے ہیں۔ اس دن کوانہوںنے مدر ڈے اورفادرڈے کانام دے رکھا ہے۔ علامہ خادم حسین خورشیدنے کہا کہ جس معاشرے میں والدین کوسال میں ایک دن ملے ایسے معاشرے پرلعنت ہے۔ یہ مذہب اسلام کاہی امتیازہے کہ مسلمان کاہردن مدرڈے اورفادرڈے ہے۔ مسلمان معاشروںمیں والدین کوبوجھ نہیں سمجھاجاتا بلکہ ان کی خدمت کرنے کو سعادت مندی سمجھاجاتاہے۔ 

انسان ، انسانیت کی تلاش میں ہے!

انسان ، انسانیت کی تلاش میں ہے!قدرت نے دنیا اپنی مخلوق کیلئے بنائی اور اس مخلوق کی اقسام و تعداد کے اندا مگر حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کردیا ، انسانوں کو رہن سہن کے طور طریقے بھی سمجھائے ،جسم کے مردہ ہونے جانے کی صورت میں دفنانے کا طریقہ بھی اپنی کسی اور تخلیق کے توسط سے سمجھایا۔ قدرت نے آہستہ آہستہ اختیار منتقل کرنا شروع کیا ، جیسے جیسے انسان کو دنیا میں رہنے کی سمجھ آتی گئی اس نے خود کو ہی مالک سمجھنا شروع کردیا۔ ہر انسان میں کسی نا کسی درجہ انا یا میں کا عنصر موجود ہوتا ہے (اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا)۔ انااور میں کا تعلق انسان نے حسب نسب اور رتبے سے پختہ کیا اور نسل در نسل معلومات میں اضافے کی بنیاد پر بڑھتا ہی چلا گیا۔ ایسے لوگوں نے اپنے اپنے طور سے علم اور معلومات کو قید کرنا شروع کیا ، قیدسے مراد جاننے کیلئے حسب نسب کا ہونا ضروری قرار پایہ ، یعنی قدرت سے ملنی والی نعمتوں پر بھی پابندیاں اور حدیں تعین کر دی گئیں۔ اس سے بڑھ کراور کیا ظلم ہو سکتا ہے کہ جو اناج اگاتا ہے وہی اناج کے عدم دستیابھی کی وجہ سے بھوکا مرتا ہے۔ دنیا ترقی کرتی جارہی ہے اورانسان اپنی طاقت میں بیش بہا اضافہ کئے جا رہا ہے
یہ انسان کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہی تو ہے کہ کوئی نہتے اور کمزور انسانوں پر بمباری کر کر انسانیت ڈھوننے کی کوشش میں کررہا ہے ، کوئی مجمع پر گولیا ں چلاکر نا حق خون بہاکر انسانیت تلاش کر رہا ہے ، کو ئی معصوم ادکھلے گلابوں کو مسخ کر کے انسانیت کا درس دے رہا ہے ۔ آج انسان ،انسانیت کو تہہ و بالا کر کے انسانیت تلاش کر نے کی کوشش کر رہا ہے ۔ آج ساری دنیا کے انسان اپنی اپنی انسانیت ڈھونڈ رہے ہیں۔ 
ہر طرف افسوس ہے ، ہر طرف خون ہی خون ہے زمین اپنا رنگ بھولتی جا رہی ہے مگر آج انسان کو انسانیت مل کر نہیں دے رہی۔ ہر فرد دوسرے فرد کو یہ کہہ کر ماردینا چاہتا ہے کہ اسے جینے کا کوئی حق نہیں ہے، اس میں انسانیت نہیں ہے ، مگر کوئی اس مارنے والے سے تو پوچھے کہ جو تم کر رہے ہو اسے انسانیت کہہ سکتے ہیں۔ اقتدار و اختیار کی ہوس نے انسانوں کو انسانوں کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے کہیں مذہب کے نام پر شب خون مارا جا رہا ہے تو کہیں مال و دولت کیلئے سر تن سے جدا کئے جا رہے ہیں کہیں عزتیں پامال ہو رہی ہیں تو کہیں معصوم بچے معاشرتی غلاظت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ بات سب کے سب انسانیت کی کر رہے ہیں۔ 
آج کسی فرد کو خدا بننے کیلئے فرعون جیسا اقتدار نہیں چاہئے ، آج تو کرائے کی گاڑی میں بیٹھ کر بھی حضرت انسان پیدل چلنے والے بندہ خدا کو انسان کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ حقیت تلخ تو ہمیشہ سے ہی تھی مگر آج تلخ ترین ہوتی جا رہی ہے یہاں تک کہ ایک انسان دوسرے انسان کو اسکی حقیقت بتانے پر قتل بھی کر سکتا ہے ۔ آج معاشرہ اپنی روح سے عاری ہوچکا ہے قدرت نے دلوں سے تو روحیں پہلے ہی صلب کر لیں تھیں اب معاشرے کی روح بھی آہستہ آہستہ کھینچی جا رہی ہے پھر یہ دنیا مصنوعی ہوکر رہ جائے گی۔ 
اس مضمون کو لے کر بہت سارے اختلافات سامنے آسکتے ہیں مگر جیسا کہ بتا یا گیا ہے کہ حقیقت تلخ ہوتی ہے اوراب تو تلخ ترین ہوچکی ہے ، آپ خود فیصلہ کر لیجئے اپنا احتساب کرلیجئے کیا آپ انصاف کے متمنی ہیں کیا آپ چاہتے ہیں تمام کام سہولت سے ہوں جس کیلئے آپ کو مختلف لائنوں میں لگنا پڑے گا، کیا آپ بغیر رشوت دئیے کام کروانے کیلئے تیار ہیں ۔ آپ یہ بھی کہیںگے کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں لوگ ایک دوسرے کے ہر ممکن کام آرہے ہیں لیکن پھر بھی دنیا کی بدامنی میں کوئی فرق نہیں پڑرہا، دنیا کو چھوڑ دیں آپ اپنے چھوٹے سے علاقے کو لے لیجئے ، آپ اپنے اپنے گھروں کو لے لیجئے۔ مان لیجئے کہ سب کچھ مصنوعی ہے اب یہ دنیا مصنوعی انسانیت پر چل رہی ہے، بلکل ایسے ہی جیسے ہمارے ہسپتال والے کسی مرتے ہوئے مریض کے اہل خانہ کو وقتی تسلی دینے کیلئے مصنوعی تنفس پر منتقل کردیتے ہیں اور ایک طے شدہ وقت کے بعد موت کی تصدیق کردیتے ہیں۔ آج دنیا میں جو کچھ چل رہا ہے لوگ اپنی اپنی جان چھڑا تے محسوس ہوتے ہیں ، جیسے وقت کو گزارنے کیلئے اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہوسکتا ،دنیا اپنے انجام کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے یہ بات کے لاشعور میں اجاگر ہرچکی ہے جبھی تو سب اپنی اپنی عاقبت سدھارنے کیلئے مصنوعی طریقوں پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ بھیک کیوں دی جارہی ہے کیا آپ معاشرے کے اس فرد کو معذور نہیں کر رہے جسکے ہاتھ پائوں سلامت ہونے کے باوجود بھیک مانگ رہے ہیں۔کہیں ہم ثواب کے نام پر اپنے رب کو خوش کرنے کے نام پر اسے ناراض تو نہیں کر رہے اسکے بندوں کو معذور بنا رہے ہیں اسکے بندوں کا ایمان بانٹ رہے ہیں۔ آج تو جو انصاف کی بات کرتا ہے ، عدل کی بات کرتا ہے اسے دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں اس پر اسکے خاندان پر زندگی تنگ کردی جاتی ہے پھر یا تو اسے انصاف ترک کرنا پڑتا ہے یا پھر جینا ترک کرنا پڑتا ہے ۔ 
انسان کتنا ہی دولت مند کیوں نا ہوجائے کتنا ہی صحت مند کیوں نا ہو کر رہے وہ اپنے ساتھ ایک ایسا دائمی سچ لئے گھومتا رہتا ہے جو کسی بھی وقت اس سے وہ تمام حیثیتیں اور تمام طاقت صلب کر لیتا ہے اور دنیا کو یہ باور کرادیتا ہے کہ انسان کی حقیقت یہی ہے ۔انسان مرتے رہتے ہیں مگر انسانیت زندہ رہتی تھی مگر اب تو انسان جیتے جی مردہ ہے اور انسانیت اپنا سب کچھ سمیٹ کر دارِ فانی سے کوچ کرچکی ہے۔ اگر انسان کے دل سے خداخوفی ختم ہوجائے یا پھر آب حیات نامی شے ہاتھ لگ جائے تو پھر انسان اپنا وہ روپ دیکھائے کہ ہلاکو خان جیسے بھی شرما جائیں۔ آج دنیا میں بہت بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں نے انسانیت کی خدمت کیلئے ادارے بنائے ہیں اور یہ ادارے بہت قابل تعریف کام کر رہے ہیں مگر جو لوگ انسانیت کوبرباد کرنے کا کام کر رہے ہیں وہ بہت کم ہیں لیکن جب اچھائی خاموش رہتی ہے تو برائی چاہے کتنی ہی قلیل کیوں نا ہو وہ سب کچھ برا کرکے دیکھاتی چلی جاتی ہے ۔ 
انسان ہی انسانیت کو مٹانے کے درپے ہیں اور انسان ہی انسانیت کے دفاع پر بھی ہیں مگر جو دفاع کرنا چاہتے ہیں انہیں ہی انسانیت کو مٹانے والے انسان تصور کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ وقت ایک لامتناہی فاصلہ طے کر کے واپسی کی جانب بہت تیزی سے سفر کر رہا ہے اور حساب کتاب تو سب نے دینا ہے ، آپ کیوں اس عارضی ٹھکانے کو مستقل ٹحکانہ سمجھ بیٹھے ہو۔ آج دنیا میں ہر شے بہت با آسانی دستیاب ہے مگر سب سے زیادہ انمول اور نایاب انسانیت ہے۔ ہم سب نے مل کر انسانیت کا قتل کیا پھر اسے دفنانا بھول گئے آج انسانیت کی لاش تلاش کرنے میںبے تہکان انسانوں کا خون بہائے جا رہے ہیں۔ زمین پر ناحق خون بہہ رہا ہے کہیں زمین اناج دینا نا بند کردے ، کہیں زمین پانی دینا نا بند کردے کہیں درختوں پر پھل اگنا نا بھول جائیں۔ وقت ہے یا نہیں یہ کسی کو معلوم نہیں ہے قدرت انتقام لے گی تو کوئی مذہب کوئی علم اسے راستے کو روکنے کا اہل نہیں ہوگا۔ 

پیر، 9 اپریل، 2018

نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر کی سیاست میں انٹری

نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر کی سیاست میں انٹری لاہور (مانیٹرنگ ) مسلم لیگ ن یوتھ ونگ کے مرکزی صدر کیپٹن(ر)صفدر اور مریم نواز شریف کے صاحبزادے جنید صفدر نے بھی اپنے نانا نوازشریف، والد کیپٹن(ر)صفدر اور والدہ مریم نواز شریف کی سیاسی سرگرمیوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔

 جاتی امرا رائے ونڈ اور پنجاب ہائوس اسلام آباد میں ان کا مسلم لیگی کارکنوں بالخصوص نوجوان کارکنوں کے ساتھ میل جول بڑھتا جا رہا ہے اور ان کی کارکنوں میں پسندیدگی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ 

جاتی امرا کے باہر مقامی لیڈروں نے جنیدصفدر کی تصاویر بھی فلیکسز میں لگانی شروع کر دی ہیں تاہم جنیدصفدر الیکشن لڑنے کی عمر کو نہیں پہنچے ہیں۔

اعجاز الحق نے نواز شریف نے راستے جدا کر لئے

اعجاز الحق نے نواز شریف نے راستے جدا کر لئے لاہور(مانیٹرنگ)سابق صدر ضیاء الحق کے صاحبزادے اور مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق نے ایک بار پھر نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا ۔سماء سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ نون سے الحاق ختم کرنے کا اعلان کیاجبکہ ہم خیال گروپ کے شمس حیدر سے ملاقات کی ۔

اعجاز الحق نے جنوبی پنجاب اور آزاد لیگیوں کے ساتھ ملکر الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا، ان کا کہنا تھا کہ اداروں سے محاذ آرائی میرا نظریہ نہیں، اس دفعہ دوسری سائیڈ اعتماد نہیں کررہی۔

ان کا کہنا تھا کہ شہبازشریف نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کی، عدالت نےترقیاتی فنڈزروک دیے تو لوگ چھوڑرہےہیں ، ووٹ کوعزت کاکہنے والے خودپارلیمنٹ کوعزت نہیں دیتے۔واضح رہے کہ اعجاز الحق انیس سو اٹھانوے میں بھی ہم خیال گروپ بنانے والے پہلے آٹھ ارکان میں شامل تھے۔

ن لیگ ختم اور نواز شریف کی سیاست ختم ہونیوالی ہے،بلاول بھٹو

ن لیگ ختم اور نواز شریف کی سیاست ختم ہونیوالی ہے،بلاول بھٹو ملتان(جیو نیٹ) پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہےکہ (ن) لیگ ختم اور نوازشریف ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر ہوگئے اب مسلم لیگ (ش) اور تحریک انصاف کے خلاف الیکشن لڑنا ہے۔

ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نوازشریف واحد ہیں جو تین بار پاکستان کے وزیراعظم بنے لیکن ان کے دور میں انہوں نے میٹرو کے علاوہ کیا کیا ہے؟ ہم گنوا نہیں سکتے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا کیا کام کیے، انہوں نے غریبوں کو ان کے حقوق دلوائے اور اسٹیٹس کو کو ہلاکر رکھ دیا جب کہ بےنظیر بھٹو نےبھی تاریخ بنائی۔

۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم نے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لیے الگ صوبے کی بات کی، مخالفین مانتے ہیں جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔چیئرمین پی پی نے کہا کہ ہم (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کی طرح ایک شہر کو فوکس نہیں کرتے، لوگ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ پی پی نے کچھ نہیں کیا، ہم نے شوبازی نہیں کی، میڈیا ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے ، ہماری کامیابی نہیں دکھاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ ختم اور نوازشریف بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے، اب مسلم لیگ (ش) اور پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن لڑنا ہے، ان کے امیداور الگ ہوں گے لیکن نظریہ اور منشور ایک ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کے معاملے پر پیپلزپارٹی اور دیگر جماعیں کافی دیر سے بات کررہے ہیں، چیف جسٹس کو پہلےنوٹس لینا چاہیے تھا، اب ہم امید رکھتے ہیں کہ شہیدوں کو انصاف ملے گا۔

احتساب سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کا ہمیشہ سے نظریہ رہا ہے کہ ہمارا احتساب کا نظام کمزور ہے اس میں تبدیلی لانا پڑےگی، ہمارے دور میں جو کرنے کی کوشش کی اس وقت مخالفت ہوئی، ہم نے اپوزیشن میں ترمیم لانے کی کوشش کی اس میں بھی مخالفت ہوئی، ہم ایسا قانون چاہتے ہیں جس میں (ن) لیگ کے لیے وی آئی پی احتساب نہ ہو بلکہ سب کے لیے ایک جیسا احتساب ہو، ہم سب کا احتساب چاہتےہیں۔

لوڈشیڈنگ سےمتعلق سوال پر چیئرمین پی پی نے کہا کہ یہ لوگ پانچ سال سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن لوڈشیڈنگ کہاں ختم ہوئی؟ اگر تخت رائے ونڈمیں لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پورےملک میں ختم ہوگئی، ملک میں بجلی نہیں آتی، اوور بلنگ ہوتی ہے، لوگ بجلی کے بلوں کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہیں، حکومت نے صرف ایل این جی کے لیے سوچا، ٹیکسٹائل، مینوفیکچر اور زراعت کے شعبے کو چن چن کر تباہ کیا۔

ازخود نوٹسز کا مقصد بنیادی حقوق کی فراہمی ہے:چیف جسٹس

ازخود نوٹسز کا مقصد بنیادی حقوق کی فراہمی ہے:چیف جسٹسکوئٹہ(مانیٹرنگ )چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ انہوں نے جتنے بھی از خود نوٹس لیے ان کا مقصد بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔کوئٹہ میں بلوچستان ہائی کورٹ بار کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ سماجی رہنماؤں کی جانب سے بنیادی حقوق پر پٹیشن دائر نہیں کی گئیں اس لیے ازخود نوٹس لینے پڑے۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج تک بلوچستان سے بنیادی حقوق سے متعلق ایک بھی پٹیشن دائر نہیں ہوئی، اس خلا کو پر کرنے کیلئے از خود نوٹس لینے پڑے، میں وضاحت دینے کا پابند نہیں اور نہ ہی کوئی وضاحت پیش کر رہا ہوں لیکن جتنے بھی اقدامات اور سو موٹو ایکشن لیے وہ سب بنیادی حقوق سے متعلق تھے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ تعلیم، صحت اور خوراک جیسے بنیادی حقوق سے متعلق ازخود نوٹس لیے، سو موٹو ایکشن لینے کا مقصد بنیادی حقوق کی فراہمی پر عمل درآمد کرانا تھا اس کا مقصد جانبداری یا ذاتی فائدہ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے جتنے اقدامات کیے نیک نیتی سے کیے ہیں، میری بلوچستان سے محبت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی سے متعلق پٹیشن لگانے میں قطعاً کوئی بدنیتی نہیں تھی، کوئی رائے قائم کرنے سے قبل حقائق جان لینے چاہئیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم عوام کو حقوق دلانے اور فرائض میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کریں گے۔چیف جسٹس نے کوئٹہ میں صوبائی سنڈیمن ہیڈکوارٹر سول ہسپتال کا دورہ بھی کیا اور اس دوران چیف جسٹس نے ہسپتال کے ٹراما سینٹر اور آئی سی یو سمیت مختلف شعبوں کا معائنہ کیا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار صوبائی سنڈیمن ہیڈکوارٹر سول ہسپتال پہنچے تو صوبائی حکام اور ہسپتال انتظامیہ حرکت میں آگئی۔کچھ ہی دیر بعد وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو بھی صوبائی وزیرصحت عبدالماجد ابڑو اوردیگر حکام کے ہمراہ ہسپتال پہنچ گئے۔چیف جسٹس نے ان کے ہمراہ ٹراماسینٹر، آئی سی یو سمیت ہسپتال کے مختلف شعبوں کا معائنہ کیا، ایک خاتون مریضہ بھی چیف جسٹس سے ملی اوراُن سے مدد کی درخواست کی جو انھوں نے وزیراعلیٰ کے سپرد کردی اور وزیراعلیٰ نے جیب سے کچھ رقم نکال کر خاتون کی مدد کی۔

چیف جسٹس ہڑتالی ینگ ڈاکٹروں کےاحتجاجی کیمپ بھی گئے اور ان کےمسائل سنے، اس موقع پران کا کہنا تھا کہ جو جائز مطالبات ہیں وہ تسلیم اور جو ناجائز ہیں انھیں ابھی رد کرتے ہیں، چیف جسٹس نے ڈاکٹروں کو ہڑتال ختم کرکے اپنے فرائض سرانجام دینے کا کہا جس کے بعد ڈاکٹروں نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کردیا اور جسٹس ثاقب نثار کے حق میں نعرے بھی لگائے۔چیف جسٹس  نے سول ہسپتال میں صفائی کی ناقص صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے غفلت برتنے والوں کیخلاف کارروائی کےاحکامات بھی دئیے۔

چراغ چشت

چراغ چشتکفر اوربت پرستی میں غرق ہزاروں سال پرانی تہذیب کا وجود خطرے میں پڑ چکاتھا ‘ذات پا ت میں منقسم بلند و بالا عما رت زمین بو س ہو نے جا رہی تھی ‘ہر طا قتور اور چمکتی چیز کو خدا کا اوتا ر سمجھنے والوں کو نور ِ ایما نی میں رنگنے والا آن پہنچا تھا ‘تا رہ گڑھ کی پہا ڑیوں ‘اجمیر شہر میںایسا چراغ چشت روشن ہو چکا تھا جس کے اجا لے نے قیامت تک کروڑوں اندھوں کو معرفت الٰہی کی روشنی دینی تھی ‘نسلِ انسانی کے ایسے عظیم بزرگ نے یہاں آکر ڈیرہ جما یا تھا جس نے روز محشر تک انسانوں کے دلوں پرراج کر نا تھا ‘دھرتی کا واحد مزار پر انوار ِ جہاں پر مسلمان تو مسلمان غیرمسلم بھی سکون اور روشنی کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ‘ایسا مزار جہاں مسلمانوں سے زیا دہ غیر مسلموں کی تعداد دن رات دامنِ مراد پھیلا ئے نظر آتی ہے ‘شہنشاہِ چشت خو اجہ معین الدین چشتی ؒ کے یہاں آتے ہی آسمان پر ہلچل مچی ہو ئی تھی ‘علم نجوم کے ما ہرین کسی بڑے انقلاب کی نو ید سنا رہے تھے ‘نسل ِ انسانی کا ایسا عظیم انسان کہ مخفی قوتیں غلاموں کی طر ح اُس کے سامنے نظر جھکا ئے کھڑی تھیں ‘شاہِ چشت ؒ نے آکر ڈیرہ ڈالا تونو ر اسلام تیزی سے پھیلنا شروع ہوا جو بھی آپ ؒ کے پاس آتا آپ کا پر انوار چہرہ مبا رک دیکھ کر پکا ر اُٹھتا کہ یہ جو بھی کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے آپ ؒ کے چہر ے پر پھیلا دلنواز تبسم آنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ‘آپ کی شہرت تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی پھر قدرت نے اہل علا قہ کوآپ ؒ کا مقام دکھا نے کا فیصلہ کیا ‘خوا جہ معین پا ک ؒ نے آکر شہر سے با ہر قیا م کیا جہاں پر آپ ؒ نے قیام کیا وہ با دشاہ پر تھوی راج کے اونٹو ں کی جگہ تھی ‘جہاں پر راجہ کے اونٹ آرام کر تے تھے ‘آپ ؒ کو وہاں دیکھ کر حکو متی اہلکا ر تیزی سے آپ ؒ کے پاس آئے اور غصیلے لہجے میں بو لے آپ ؒ کون ہیں اور یہاں کیوں بیٹھے ہیں ‘آپ ؒ نہیں جانتے یہ راجہ کے اونٹوں کی جگہ ہے اِس جگہ کو کو ئی اور استعما ل نہیں کر سکتا ‘شاہِ چشت ؒ شیریں لہجے میںبولے یہ خدا کی جگہ ہے میں آرام کی غر ض سے بیٹھ گیاہوں ‘میدان بہت بڑا ہے میری وجہ سے کم نہیں ہو جا ئے گا آپ ؒ راجہ کے اونٹوں کو بھی بٹھا لیں لیکن حکو متی کا رندوں کا لہجہ سخت ہو تا جا رہا تھا ‘آخر کا ر خو اجہ چشت ؒ اٹھ کھڑے ہو ئے لیکن جا تے جا تے یہ کہہ گئے کہ میں اُٹھ کر جا رہا ہوں لیکن اب جو بھی یہاں آکر بیٹھے گا وہ پھر نہیں اٹھے گا ‘ساربانوں نے درویش باکمال کی باتوں کا مذاق اڑا یا اور قہقہے لگا تے رہے ۔ خوا جہ پا ک ؒ کے جا نے کے بعد راجہ کے اونٹ وہاں آکر بیٹھنا شروع ہو گئے تا کہ رات گزارسکیں ۔ اگلے دن حسبِ معمول ساربان آئے اور اونٹوں کو اٹھا نا چاہا لیکن اونٹوں نے اٹھنے سے انکار کر دیا ‘اٹھنا تو درکنار اونٹوں میں جنبش تک نہیں ہو رہی تھی ‘او نٹوں کی بے حسی سے لگ رہا تھا جیسے زمین نے اُنہیں جکڑ لیا ہو اب ساربانوں نے اونٹوں پر کو ڑے برسانا شروع کر دئیے ‘اونٹوں نے اٹھنے سے انکا ر کر دیا اب حکومتی کارندوں کو درویش کی با ت یاد آئی تو گھبرا کر راجہ کے پا س جا کر سارا واقعہ سنا دیا ‘با دشاہ گہری سوچ میں پڑ گیا اور کا رندوں سے بو لا جا ئوجا کر اُس سادھو سے معافی ما نگو‘ اِسی دوران اہل علا قہ بھی اس واقعے سے واقف ہو چکے تھے ‘اب ساربان واپس آئے اور خواجہ پاک ؒ کو ڈھونڈنا شروع کیا تو آپ کو انا ساگر تالاب کے کنا رے درخت کے نیچے آرام کر تے دیکھا ‘آکر معا فی ما نگی رحم دل فقیر نے معاف کیا اورکہا جا ئو اب زمین تمہا رے اونٹوں کو چھوڑ دے گی اور پھر اجمیر کے با سیوں نے عجیب منظر دیکھا جو اونٹ اٹھنے کا نام نہیں لے رہے تھے ‘خوا جہ پاک ؒ کی اجازت کے بعد آسانی سے اُٹھ گئے اہل اجمیر حیران تھے کہ جانور بھی درویش کی با ت مانتے ہیں ‘علا قے میں یہ کر امت آگ کی طرح پھیل گئی کہ بہت بڑا جا دوگر آگیا ہے اب لوگ قافلوں کی صورت میں آکر شاہ اجمیر ؒ کو دیکھنے لگے وہ تو کسی جادوگر کو دیکھنے آتے تھے لیکن یہاں تو دلنواز تبسم اور روشن چہرے کے ساتھ اللہ کا بند ہ تھا جس کے لہجے کی مٹھا س سے لو گ گھا ئل ہو رہے تھے ‘ایک مقنا طیسی کشش تھی جس کی کشش میں لو گ دیوانہ وار شاہ چشت ؒ کے قریب آرہے تھے آپ ؒ کے دیوانوں کی تعداد بڑھنے لگی ‘لوگ نفرت کے ساتھ آتے لیکن نگا ہِ درویش پڑتے ہی اپنے سر زمین پر رکھ کر اقرار غلا می کر تے‘ مندروں میں کہرام مچ گیا پنڈت برہمن آگ بگولا ہو رہے تھے براہمنوں پنڈتوں نے مسلمان ہو نے والے راجپوتوں کو اکٹھا کیا اور پو چھا تم نے اُس فقیر میں کیا دیکھا جو صدیوں پرا نے دھرم سے مکر گئے ہو ‘نو مسلموں کا ایک ہی جوا ب تھا وہ روشن چہرے والا جھوٹ نہیں بو لتا ‘ہما رے دل گو اہی دیتے ہیں کہ وہ سچا ہے وہ حقیقی ہمدرد ہے ‘بر ہمنوں نے جب دیکھا کہ یہ باز نہیں آرہے تو پہلے انہیں دولت کی پیشکش کی پھر برادری سے خا رج کرنے کی دھمکی دی لیکن ایمان کے چراغ جہاں جل جا ئیں وہا ں پر کفر کا زنگ کیسے رہ سکتا ہے ‘پھر سزاکے طور پر اِن نو مسلموں کو برادری سے خا رج کر دیا گیا ‘اب یہ نو مسلم شاہ اجمیر کے در پرآ گئے‘ دن بدن مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے راجہ پرتھوی نے سخت حکم جا ری کیا کہ درویش اور اُس کے ساتھیوں پر پا نی بندکر دو تا کہ پیا س کی وجہ سے علا قہ چھو ڑ کر چلے جا ئیں اب جب شہنشاہِ چشت ؒ کے مرید وضو کے لیے انا ساگر تالاب پر پانی لینے گئے تو وہاں پر پہلے سے حکومتی اہلکا روں کو پہرہ دیتے دیکھا ‘انہوں نے خو اجہ جی کے غلا موں کو حکم دیا کہ اب تم اِس تالاب سے پانی نہیں لے سکتے تم لو گ ناپاک ہو تمہا رے چھونے سے پا نی ناپاک ہو جاتا ہے اِس لیے اب تم پانی کسی اور جگہ سے لیا کر و‘ مریدین نے کہا پا نی تو جانوروں پر بھی بند نہیں کرتے تو کا رندے بو لے تم جانوروں سے بھی برے ہو ‘تم کو پا نی نہیں ملے گا مریدوں نے آکر شاہ چشت ؒ کو بتا یا کچھ دیر سو چنے کے بعد آپ ؒ نے اپنے خادم کو کہا جا ئواور اُن سے کہو آج ایک پیا لہ پا نی دے دو آئندہ ہم اپنا انتظام کر لیں گے پھر خا دم کو اپنی اطراف آتا دیکھ کر حکو متی کا رندے تحقیر ٓامیز لہجے میں قہقہے لگا نے لگے وہ مسلمانوں کی بے بسی کا مذاق اڑا رہے تھے وہ نہیں جا نتے تھے کہ بے بسی کا شکا ر تو وہ خو د ہو نے والے تھے ‘خادم نے کہا آج ایک پیالہ پا نی دے دیں تو کارندے حقارت سے بو لے آج ایک پیا لہ لے جائو لیکن آج کے بعد تمہیں ایک قطرہ پا نی کی بھی اجا زت نہیں ملے گی ‘اہل علا قہ بھی یہ منتظر دیکھنے کے لیے جمع تھے ‘پھر خا دم آگے بڑھا اور جا کر تالاب سے ایک پیا لہ پا نی بھر لیا لیکن پھر کا رندوں اور لوگوں نے جو منظر دیکھا اُسے دیکھ کر سب کی سانسیں رک چکی تھیں آنکھیں پتھر ا چکی تھیں حیرتوں کے پہا ڑ ٹو ٹ پڑے تھے ‘خا دم نے پیا لہ کیا بھرا کہ سارے تالاب کا پانی پیا لے میں آگیا تھا ‘تا لاب میں اب ایک قطرہ پانی بھی مو جود نہیں تھا فوجیوں پر دہشت طا ری ہو گئی خو ف کے ما رے وہاں سے بھا گ گئے شاہ اجمیرؒ کے روحا نی تصرف سے پورا تالاب ایک پیالے میں سما گیا تھا ۔ 

ن لیگ کے 6ارکان قومی اسمبلی،2ارکان صوبائی اسمبلی مستعفی،نیا صوبہ محاذ بنانے کا بھی اعلان

ن لیگ کے 6ارکان قومی اسمبلی،2ارکان صوبائی اسمبلی مستعفی،نیا صوبہ محاذ بنانے کا بھی اعلان

لاہور(تھرتھلی نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 6 ارکان قومی اسمبلی اور 2 ارکان صوبائی اسمبلی نے عام انتخابات سے قبل پارٹی سے انحراف کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے منحرف رکن خسرو بختیار کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران ان تمام ارکان نے اپنی نشستوں سے استعفیٰ دیتے ہوئے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنانے کا بھی اعلان کیا۔جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی قیادت میر بلخ شیر مزاری کریں گے جبکہ ان کے علاوہ دیگر منحرف ارکان اس کا حصہ ہوں گے۔

مستعفی ہونے والے ارکان قومی اسمبلی میں خسرو بختیار، اصغر علی شاہ، طاہر اقبال چوہدری، طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط بخاری جبکہ صوبائی اسمبلی سے سمیرا خان اور نصراللہ دریشک شامل ہیں۔اس موقع پر صحافیوں سے بات چیت میں خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ آنے والے چند دنوں میں مزید ارکان اسمبلی اس کارواں میں شامل ہوں گے اور کئی ارکان پنجاب اسمبلی کے باہر کھڑے ہوکر استعفیٰ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں لوڈشیڈنگ، صاف پانی اور سڑکوں کا مسئلہ ہے لیکن ہم اورنج ٹرین پر نئے ایئر کنڈیشنز لگا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین ہر شخص کو مساوی حقوق دیتا ہے لیکن یہاں عوام بنیادی سہولت تک میسر نہیں ہے۔

جنوبی پنجاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں غربت 27 فیصد جبکہ جنوبی پنجاب میں 51 فیصد ہے جبکہ اسی جگہ سے مختلف وزیر اعظم اور وزرا آتے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور ایران میں صوبوں کی تعداد بڑھ رہی لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہورہا لہذا ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا ایک ہی سیاسی نکتہ ہے اور وہ نئے صوبے کا قیام ہے۔ان کا کہنا تھا یہاں اکٹھے ہونے کا مقصد وفاق کی مضبوطی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جگہ پر ہی تمام دبا ڈال دیا جائے اور ہمارے محاذ میں کوئی لسانی تعصب نہیں ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اقتدار میں رہنے کے باجود مسائل وہی کے وہی ہے اور اگر ہم نے اب بھی توجہ نہیں دی تو ہمارے چھوٹے چھوٹے اضلاع ختم ہوجائیں گے۔انہوں نے کہا جو ہمارے اس ایک نکاتی ایجنڈے پر عمل کرے گا ہم اس سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور اس کے لیے آئندہ عام انتخابات کے بعد پہلے اجلاس میں قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کی جانی چاہیے۔

اس موقع پر دیگر منحرف ارکان نے کہا کہ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے اسے علیحدہ صوبہ بنانا چاہیے تاکہ وہاں ترقی اور خوشحالی کا نیا سفر شروع ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ ایک وقت آئے گا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو وہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے بغیر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی۔پریس کانفرنس کے دوران ضلع مظفر گڑھ سے منتخب ایم این اے باسط بخاری کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور میں نے 4 اسمبلیوں کو دیکھا لیکن ہمارے ساتھ برابری کی بات نہیں ہوتی۔ان کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں ہمارا حق اور اپنا صوبہ دیا جائے، اس کے لیے کوئی بھی جدو جہد کرنا پڑی ہم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وقت آگیا ہے اور آج ہم پاکستان کے استحکام کی بنیاد رکھنے کا آغاز کر رہے ہیں اور امید ہے کہ اس میں ہمیں کامیابی ملے گی۔

اتوار، 8 اپریل، 2018

طے شدہ معاملات کو ہدف نگاہ بنایاجائے

طے شدہ معاملات کو ہدف نگاہ بنایاجائے  ایک بستی کشمیر کی بستی ہے جس کے ہر ایک فر د کا تعلق حسینی قافلہ سے ہے ، اس قافلہ سے حق کا فیض قیامت تک جاری رہے گا ، آزادی حق کاسورج طلوع ہو کے رہے گا مگرابھی کچھ ذمہ داریوں کا بوجھ باقی ہے ،احساس کی شدت کا بیدار ہونا بھی کہیں راستے ہی میں رہ گیا ہے ،منیر نیازی یاد آئے 
اس نگر میں اک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی 
افغانوں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے اہل کشمیر نے پنڈت بیر بل کو کسی نجات دہندہ کی تلاش میں والی پنجاب رنجیت سنگھ کے پاس بھیجا ۔ بیربل کے تحریک پر رنجیت سنگھ کشمیر پرحملہ آور ہونے کے لیے آمادہ ہوگیا ، اسے پہلے دوحملوں میں کشمیر پر قبضہ کر نے کا موقع نہ مل سکا مگر 1819؁ء میں رنجیت سنگھ کشمیر پر قابض ہو نے میں کامیاب ہو گیا ، اس کی وفات کے بعد سکھ سرداروں نے اس کی بیوہ رانی جنداں کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ، رانی نے اپنے سات سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کے سر پر بادشاہت کا تاج سجایااور حکومت کا نظام خو دسنبھال لیا تا ہم خانہ جنگی عروج پر رہی ، سکھ فوج کے وفادار رانی اور وزیرکے خلاف بغاوت کے منصوبے ترتیب دینے میں مصروف ہوگئے جب رانی کو علم ہو ا تو اس نے اپنی فوج کے جرنیلوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اب سکھ فوجیں ستلج کے پار انگریز ی علاقوں پر چڑھائی کر نے میں مصروف تھی کہ 24دسمبر 1845؁ء جنگ چھڑگئی ۔ اس ناز ک صورت حال میں رانی نے والئی جموں گلاب سنگھ کو مدد کے لیے لاہور بلا لیا، گلاب سنگھ نے جرنیلوں کو فوری طورپر جنگ بندی کا حکم دیا مگر خون ریز معرکہ ہو کے رہا ۔ جس میں سکھ افواج کو شکست ہوئی ۔
16مارچ 1846؁ء کوایسٹ انڈیا کمپنی ( انگریزوں ) اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین دس دفعات پر مشتمل ایک معاہدہ طے پایا ، جس کی رو سے دریائے روای سے لے کر دریائے سند ھ کے مابین چمبہ اور ہزارہ کا علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا گیا جس کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کو 75لاکھ نانک شاہی سکے تاوان جنگ کے طور پر ادا کرنے تھے ۔ گلاب سنگھ جانتا تھا کہ رانی اور اس کی سکھ برادری تاوان کی یہ رقم ادا کر نے سے قاصر ہے چنانچہ اس نے انگریزوں کو یہ رقم اپنی طر ف سے ادا کر نے کی آفر کی جس کو انگریزوں نے شرف قبولیت بخشا اور کشمیر کی حکمرانی گلاب سنگھ کے سپرد کر دی ، کشمیر اس کے حوالے تھا مگر ضرورت پڑنے پر وہ انگریزوں سے مدد طلب کر سکتا تھا ، یہی لمحات کشمیر کے لیے بد قسمت ٹھہرے جنہیں ’’معاہدہ امرت سر‘‘کے نام سے یاد کیا جا تا ہے ۔ 
کشمیری آزادی کشمیر کی تاریخ اپنے لہو سے رقم کر رہے ہیں ، برھان وانی کی شہادت کے بعد اب تحریک نوجوان طبقہ کے ہاتھ میں ہے ، آئے روز تحریک آزادی زور پکڑتی جا رہی ہے ۔ پچھلے ایک ہفتہ سے بھارتی فوج کی طرف سے ضلع شوپیاں کے علاقوں درا گد اور کچدورا کو محاصرے میں لیکر گھر گھر جعلی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ، اس موقع پر اہل علاقہ کی طر ف سے شدید قسم کی مزاحمت کا مظاہر ہ کیا گیا ۔ قابض بھارتی افواج نے اندھادھند فائرنگ شروع کر دی جس سے دونوں اضلاع میں ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے اور آزادی کی اس تازہ لہر میں بیس نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا ، مزید ستم یہ کہ بھارتی افواج نے زخمیوں کو ہسپتالوں تک لے جانے والی ایمبولینس گاڑیوں کی نقل وحرکت پر بھی پابندی لگا رکھی ہے اس کے علاوہ شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کو بھی حالات کا درست رخ قلم بند کر نے سے منع کیا جا تا ہے ،ظلم وجبر کی یہ لہر دنیا کے کسی بھی خطہ میں شاذ ہی نظر آئے گی ۔
 1948؁ء میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان (UNCIP)نے مسئلہ کشمیر کے متحارب فریقین سے بات چیت کے بعد کشمیر میں برپاء جنگ بند کر نے کی تجویز پیش کی تھی جس میں طے پایا تھا کہ فی الفور جنگ بند کی جا ئے گی اور جنگ بند ی کی نگرانی کے لیے لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کی طر ف سے فوجی مبصر تعینات کیے جا ئیں گے اس کے بعد کشمیریوں سے ان کی خواہشات کے مطابق مستقبل کے فیصلے کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔سترسال گزرنے کے باوجود بھارتی افواج کا ظلم وستم تھم نہیں سکا ، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ہونے کا انتظار شدت سے کیا جا رہا ہے ،کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کا یہ بیان کہ کشمیر کا حل سیاسی ہے یافوجی، ہم ابھی تک طے نہیں کر سکے ۔ یہ بیان ایک درد ناک حقیقت کی طر ف اشارہ کر تا ہے ، کشمیر کمیٹی اور باقی متعلقہ لوگو ں کے لیے سوچنے سمجھنے کا وقت ہے ، پچھلے دنوں پاکستانی سفارت خانے کے عملہ کو ہراساں کیا جا نا اور مبصرمشن کے اراکین کے سامنے لائن آف کنٹرول کے ارد گرد کے علاقوں میں بھارتی افواج کی بلااشتعال فائرنگ کو جس شدت سے عالمی دنیا اور اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانا چاہیے تھا ایسا نہیں ہوسکا ،مقبوضہ علاقے میں مبصر مشن کو حالات کا جائز ہ لینے کی اجازت نہیں، اس کو بھی عالمی دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے ۔ کچھ نیا کرنا اگر ممکن نہیں تو پرانے طے شدہ معاملات یعنی اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر فی الفور عمل درآمد پر تو زور دیا جاسکتا ہے ،متعلقہ لوگوں کی اب تک کی کارکردگی تو دل لہو لہو کر رہی ہے ۔ 

سرکاری تعلیمی ادارے میں خوبصورتی،خوشبو اور علم کی آمیزش

 سرکاری تعلیمی ادارے میں خوبصورتی،خوشبو اور علم کی آمیزشاس وقت ملک بھر میں سرکاری تعلیمی اداروں کی مجموعی طور پر جو حالت ہے ان پر شرم آنے کے ساتھ ساتھ بہت دکھ ،تکلیف اور مایوسی ہوتی ہے ایک جانب ہماری کوئی بھی سرکار شعبہ تعلیم بارے کوئی انمٹ،شاندار،یادگار اور جاندار پالیسی دینے سے قاصر رہی جن سے ہماری نسل میں نکھار اور اندھیرے روشنیوں میں بدل جاتے، ان کا دھیان اس جانب نہیں جو اندھیرے دور کرتے ہیں بلکہ اس جانب ہے جہاں سے دولت کے ساتھ وہ مصنوعی اور نمائشی کاموں کی بھرمار جنہیں روشن کرنے یا رکھنے کے لئے قوی سرمایہ کے ساتھ ساتھ ایسے دماغوں کی ضرورت رہتی ہیں جنہیں ہم کسی بہتر پالیسی کی بدولت خود تخلیق کر سکتے ہیں،اس شعبہ کے لئے قومی خزانے سے انتہائی قلیل بلکہ شرمناک بجٹ اور اس میں بھی Divertionہو تو ترقی کا خواب کسی کلر اور سیم زدہ زمین کی مانند ہو گا،اوپر سے ہماری سرکار نے اس شعبہ کو تجربات کی بھٹی بنا رکھا ہے،ہر سال نصاب کی تبدیلی،کبھی امتحان نظام میں تبدیلی،کبھی چیک اینڈ بیلنس میں تبدیلی غرضیکہ نظام کے چیتھڑے ادھیڑ دئے جاتے ہیں ،اساتذہ کی عزت نفس تک کا کوئی خیال نہیں ،اب اگر دوسرے زاویہ سے دیکھا جائے تو حکومتی نا اہلیوں کی طرح تعلیمی اداروں میں تعینات سربراہان،ساتذہ کی کثیر تعداد بھی ایسے کرداروں پر مشتمل ہے جنہیں سوائے تنخواہ یا دستیاب فنڈز کو ہڑپ کرنے کے کچھ اور کام نہیں ،ان حالات میں معاشرتی و قومی ترقی ناممکن ہے مگر کچھ ایسے کردار ضرور زندہ ہیں جو ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے جن کا جذبہ،سوچ،فکر،پالیسی،درد مندی،ہمدردی ،محبت ،خلوص اور نیک نیتی سے انہی وسائل کے ساتھ جو دیگر اداروں کو بھی دستیاب ہیں کی نسبت ان کے ادارے ہر لحاظ سے کہیں زیادہ بہتر،خوبصورت ،خوشبواور علم کی آمیزش سے یوں لبریز ہوتے ہیں جن سے کئی نسلیں سدھر جاتی ہیں ایسے کرداروں بلکہ لاجواب کرداروں کو سراہنا،ان کی انسان دوست سوچ اور اپنے وطن سے محبت میں سرشاری کو اجاگر کرنا ہم جیسوں کا بنیادی فرض ہے ہم لوگ جہاں معاشرتی برائیوں کو اجاگر کرتے ہیں وہیں ہمیں ایسے عظیم کرداروں کو بھی نمایاں ترین کرنا چاہئے کس کو نہیں پتا کہ ملک بھر میں تعلیمی گراف کس قدر گراوٹ زدہ ہے،ایسے میں کوئی بھی ادارہ عظیم ترین شکل اختیار کر جائے تو وہ اس علاقے کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں،پرنسپل گونمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اوکاڑہ ظفر علی ٹیپو کی دعوت پر الراقم اور برادرم عابد مغل ڈسٹرکٹ یونین آف جرنلسٹس اور سٹی پریس کلب اوکاڑہ کے عہدیداران و ممبران کے ہمراہ کالج پہنچے جہاں جشن بہاراں کے سلسلہ میں تین روزہ پھولوں کی نمائش جس کا ایک روز قبل ہی ڈی سی اوکاڑہ ڈاکٹر ارشاد احمد نے افتتاح کیا تھا جبکہ تیسرے روز میاں محمدمنیر صوبائی پارلیمانی سیکرٹری نے اس نمائش کاوزٹ کیا،صحافیوں کے وفد میںمرکزی سیکرٹری جنرل RUJُ پاکستان عابد مغل ،ََُDUJ اوکاڑ ہ اور سٹی پریس کلب اوکاڑہ کے صدور مظہر رشید چوہدری اور احتشام جمیل شامی(دونوں بھائی ہی کالم نگار اور شاعر ہیں)،رائے امداد حسین کھرل،ڈاکٹر مہر محمد سلیم،خادم حسین کمیانہ،سجاد احمد بھٹی،میاں مزمل حسین جوئیہ،نثار احمد جوئیہ ،شکیل عاصم، عاشق مغل،تسکین کمبوہ،منشاء نوید ،عرفان اعجاز چوہدری شامل تھے ،اس موقع پر ڈائریکٹر کالجز ساہیوال ڈویژن رانا عبدالشکور،ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز اوکاڑہ محمد اقبال ڈھلوں،پروفیسر کاشف مجید (شاعر) پروفیسر حامد خان اور سینئر صحافی شہباز ساجد بھی موجود تھے،پرنسپل ظفر علی ٹیپو نے ہمیں پھولوں کی نمائش جس میں درجنوں اقسام کے خوبصورت ترین پھول تھے ایک پلاٹ جس میں صرف دیسی گلاب اپنی خوشبوئیں بکھیر رہا تھا کے علاوہ مختلف بلاک کا وزٹ کرایا،یقین نہیں آ رہا تھا کہ نظم و ضبط سے بھرپور یہ وہی تعلیمی ادارہ ہے جو کبھی ہماری بھی درس گاہ تھا اس وقت شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب وہاں لڑائی جھگڑا نہ ہوتا ہو،آئے روز پولیس کی نفری کا وہاں موجود ہونا ،پڑھائی اور طلباء کی تعداد برائے نام ،لوگ بچوں کو یہاں کی بجائے گورنمنٹ کالج ساہیوال میں داخل کرانے کو ترجیح دیتے، آج وہ وہی اپنی مثال میں یکتا لگ رہا تھا،اصل میں ظاہری خوبصورتی تو ہر کوئی آرٹیفیشل طریقے سے بنا لیتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ خوبصورتی بدبودار نہ ہو بلکہ اس کا انگ انگ خوشبو بکھیر رہا ہو،کئی خوبصورت چہرے غلاظت سے لتھڑے ہوتے ہیں کئی عالی شان عمارتیں اندر سے دنیا جہان کی کمینگی سمیٹے ہوتی ہیں ،در حقیقت اندر کی خوبصورتی ہی اصل خوبصورتی ہے جس کا عملی مظاہرہ اس کالج میں نظر آ رہا تھا،پرنسپل ظفر علی ٹیپو سے پرانی گپ شپ ہے جب سے انہوں نے اس ادارے کی چیر حاصل کی تب سے یہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کی طرف گامزن ہو گیا،جہاں کبھی بچوں کی تعداد2000تک نہیں پہنچتی تھی اب وہ انرولمنٹ6ہزار کو کراس کر چکی ہے،کالج کے اندر تمام راستے صاف ستھرے اور پختہ،ہر لان میں سبزہ ہی سبزہ،بیٹھنے کے لئے بینچز،پوسٹ گریجویشن طلبا و طالبات کے لئے نئی بلڈنگ کی تعمیر جاری،ہر سال طلبا ء طالبات کی تعداد میں اضافہ،مستحق سٹوڈنٹس کے واجبات ڈونرز کے ذریعے تا کہ کوئی تعلیم جیسی عظیم نعمت سے محروم نہ رہ جائے،کالج میں باقاعہ اسمبلی کا انعقاد،بغیر یونیفارم سٹوڈنٹس کالج نہیں داخل ہونا نا ممکن،کالج کی مسجد عام پبلک کے لئے بھی کھلی جہاں نماز جمعہ اور ماہ رمضان میں تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے،پھولوں کی اس نمائش کو دیکھنے کے لئے شام کے بعد جوق در جوق فیملیاں آتی ہیں،در اصل پھولوں کی یہ خوبصورتی ظاہری نہیں بلکہ ان میں وہ خوشبو ہے جو نہ صرف سانسوں کو بلکہ دلوں کو،ذہنوں کو ،سوچ کوزیور تعلیم سے یوں آراستہ کرتی ہے جو معاشرے کے نکھار تک پہنچتی ہے،ظفر علی ٹیپو کی انتھک کوششوں سے تعلیمی اس ادارہ کا تعلیمی معیار دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کوئی سرکاری ادارہ نہیںبلکہ مہنگا ترین کوئی پرائیویٹ کالج ہے، کالج میں ہر پیریڈ کو باقاعدہ چیک کیا جاتا ہے جبکہ خود پرنسپل روزانہ دو پیریڈ چیک کرتے ہیں کہ تدریسی عمل کیا چل رہا ہے اس کے علاوہ ہر ہفتے ہر کلاس کے ہر سیکشن میں طلبا کا تحریری ٹیسٹ لیا جاتا ہے جس کی مارکنگ کے بعد وہی ٹیسٹ پیپرز پرنسپل آفس پہنچانے ہوتے ہیں جہاں شام کو یا کسی فری وقت ظفر علی ٹیپو متعلقہ پروفیسر یا لیکچرار کا مارکنگ لیول خود چیک کرتے ہیں ،اصل بات نیت کی ہے ان کے حق میں یوں لکھنا در حقیقت ان کی انتھک کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے ،وہ ہیں ہی اس قابل ،ان کی تدریسی ٹیم،معاون ٹیم و دیگر شعبوں میں تعینات چھوٹے ملازمین سب قابل تعریف ہیں جو راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے ان کے شانہ بشانہ چل کر اس ادارے کی نیک نامی میں نہ صرف اضافہ کر رہے ہیں بلکہ ضلع اوکاڑہ کی نئی نسل کو بہتر انداز میں تعلیم و تربیت فراہم کر رہے ہیں جو کہ سرکاری اداروں میں مجموعی طور پر نہ ہونے کے برابر ہے ،ظفر علی ٹیپو نے صرف پھول ہی نہیں سجا رکھے وہ تو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے اندر کی خوشبو سے سب کچھ معطر کر رہے ہیں یہاں وہ ظاہری خوبصورتی نہیں تھی جس کے اندر گند ہوتا ہے،نو خیز نسل کو قوت احساس ،فکری بالیدگی ،اخلاقی پاکیزگی ،آداب زندگی اورآداب معاشرت سے متعلق وسعت آشنائی کی جانب لے جانے والے بہتر ی کی جانب ڈھالنے والے یہ کردار جانتے اور سمجھتے ہیں کہ دین اسلام میں علم اور تعلیم حیات اسلامی کے لئے اسی طرح ناگزیر ہے جس طرح طبعی زندگی کے لئے ہوا اور پانی ہے،معلم کا کردار نہایت بلند اور قابل رشک ہے والد کے بعد اس روحانی باپ سے بڑھ کر کوئی زیادہ اہم اور واجب التعظیم نہیں جو ان کو قلب و روح کی غذا فراہم کرتا اور ان کے فکرو شعور کو جلا بخشتا ہے،کاش تمام سربراہان ادارہ جات ظفر علی ٹیپو اور ان کی ٹیم کی تقلید کریںپھر ہمہ وقت پائیدار خوشبو ان کے انگ انگ سے بھی ٹپکے گی۔

ہفتہ، 7 اپریل، 2018

مشرف کیخلاف غداری کیس کی سماعت کیلئے خصوصی عدالت کی تشکیل مکمل

مشرف کیخلاف غداری کیس کی سماعت کیلئے خصوصی عدالت کی تشکیل مکملاسلام آباد(جیو مانیٹرنگ )سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل مکمل ہوگئی۔پرویز مشرف کے وکلا نے سابق صدر کے خلاف غداری کیس سننے والے خصوصی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی پر اعتراض کیا تھا جس کےبعد انہوں نے خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا تھا۔جسٹس یحییٰ آفریدی کے بینچ سےعلیحدہ ہونے کےبعد عدالت غیر فعال ہوگئی تھی اور وفاقی حکومت نے نئی عدالت کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا تھا۔

جیونیوز کےمطابق چیف جسٹس پاکستان کو نئی عدالت کی تشکیل کے لیے وزارت قانون کی جانب سے خط لکھا گیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے نئی خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نذر اکبر کو خصوصی عدالت کا رکن نامزد کردیا ہے جب کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس یاور علی کو اسپیشل کورٹ کا سربراہ بنانے کی منظوری دی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے وزارت قانون کے خط پر نامزدگی کی منظوری دے کر خط واپس بھجوادیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہےکہ چیف جسٹس کی منظوری کے بعد اب وزارت قانون نامزدگیوں کا باضابطہ نوٹی فکیشن جاری کرے گی۔

زرداری پیسہ چلا کر پنجاب فتح نہیں کر سکتے:عمران خان

زرداری پیسہ چلا کر پنجاب فتح نہیں کر سکتے:عمران خان
اسلام آباد(جیو نیٹ )پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کو غلط فہمی ہے کہپیسہ چلا کر سینیٹ کی طرح پنجاب کی وزرات اعلیٰ لے لیں گے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی نشست پر رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے موقع پر عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم اقلیتوں کو تحفظ دیں گے اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ 2013 کے الیکشن پر تمام جماعتوں نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے اور دھاندلی میں ریٹرننگ افسران بھی ملوث تھے۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ نوازشریف بتائیںپیسہ کیسے کمایا اور باہر کیسے بھجوایا؟، نوازشریف فیملی نے صرف قطری خط پیش کیا جس کو کسی نے قبول نہیں کیا۔

پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کی کوشش ہے کہ عدلیہ کو بے توقیر کرکے کرپشن بچالیں لیکن 29 اپریل کومینار پاکستان میں جلسہ کریں گے اور ثابت کریں گے کہ قوم عدلیہ کے ساتھ ہے، سپریم کورٹ کی نئی قیادت پر سب کو اعتماد ہے۔عمران خان نے کہا کہ آصف زرداری کو غلط فہمی ہے کہ سینیٹ انتخابات کی طرحپیسہ چلاکر پنجاب کی وزارت اعلی لے لیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ 2013 کے انتخابات میں زرداری اور نواز شریف مل گئے تھے اور مک مکا کرلیا تھا لیکن اس بار پورا زور لگائیں گے کہ غیر جانبدار امپائر مقرر کیے جائیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ ہم ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے قبل از وقت انتخابات چاہتے تھے مگر کسی صورت انتخابات میں تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔

نواز شریف کو ہر بار بچایا انہوں نے چھرا گھونپا،آصف زرداری

نواز شریف کو ہر بار بچایا انہوں نے چھرا گھونپا،آصف زرداری
لاہور(جیو نیٹ )پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہےکہ نوازشریف کو بار بار بچایا اور اس نے ہماری پیٹھ پر چھرا گھونپا۔سابق صدر آصف زرداری سے پیپلزپارٹی کے رہنما عامر حسن نے ملاقات کی جس میں پارٹی امور اور سیاسی صورتحال پر گفتگو کی گئی۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری نےکہا بڑی کوشش کی کہ نوازشریف ٹھیک ہوجائیں اور جمہوری سیاست کریں، ہم نےجمہوریت کی خاطر نوازشریف سے مفاہمت بھی کی لیکن اس کے باوجو وہ نہ سدھر سکے۔سابق صدر کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو بار بار بچایا اوراس نے ہماری پیٹھ پر چھرا گھونپا، وہ جمہوریت اور ملک کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذات کے لیےسیاست کرتے ہیں۔

بعد ازاں نوابشاہ پریس کلب کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی بہت بڑی طاقت ہے لیکن کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔انہوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے پاس عقل نہیں ہے اور انہوں نے اٹھارہویں ترمیم پر مکمل عمل نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جمہوریت کی خاطر 2013 کے انتخابات کو قبول کیا، 2013 کے آر او الیکشن نے ہمیں پنجاب میں الیکشن جیتنے نہیں دیا لیکن وقت آنے پر میاں صاحب سے جمہوری انداز میں حساب لیں گے۔سابق صدر نے کہا کہ میاں صاحب کی حکلومت ڈیڑھ سال میں ختم ہونے والی تھی لیکن ہم نے جمہوریت کو بچانے کے لیے ان کا ساتھ دیا۔آصف زرداری نے کہا کہ اگر حکومت ختم ہو جاتی تو کرسیوں کا گیم شروع ہو جاتا اس لیے نواز شریف کا ساتھ دیا لیکن میاں صاحب نے اچھا صلہ نہیں دیا۔ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب کے ساتھ الیکشن میں مقابلہ ہو گا، وہ بھی اپنے گُر آزمائیں ہم بھی اپنے گر آزمائیں گے۔

ملک میں بادشاہت نہیں،کروڑوں کی بند بانٹ نہیں ہونے دینگے:چیف جسٹس

ملک میں بادشاہت نہیں،کروڑوں کی بند بانٹ نہیں ہونے دینگے:چیف جسٹس لاہور(جیو نیٹ )چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملک میں بادشاہت نہیں اور کروڑوں کی بندر بانٹ نہیں کرنےدیں گے۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں اسپتالوں کے فضلے سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت ہوئی جس کے سلسلے میں مشیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایاگیا کہ چیکنگ کے دوران معلوم ہوا کئی اسپتالوں میں مکمل ڈاکٹر ہی نہیں ہیں، چیکنگ کےدوران لکڑی کی راکھ دکھائی گئی جواسپتال کےفضلے کی نہیں تھی۔کمیشن کی رپورٹ پر چیف جسٹس نے اسپتالوں میں فضلے کی تلفی کےناقص انتظامات پر خواجہ سلمان رفیق پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سنیں ذرا، آپ کے محکمہ صحت میں کیا کیا چیزیں سامنے آرہی ہیں، اس پر خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ ہم بہت بہتر انتظامات کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ یہ تو آپ روز جلسوں میں بتاتے ہیں، ہمیں ہمارے سوال کا جواب دیں، فضلہ ٹھکانے لگانے والی مشینوں کی ناقص صورتحال کےبارےمیں بتائیں۔جسٹس ثاقب نثار نے مشیر صحت سے استفسار کیا کہ محکمہ صحت مکمل فلاپ ہوگیا ہے، اس کا تو ککھ بھی نہیں رہا، آپ 10 سال سے ایڈوائزر ہیں، کیا کام کرنےکی کوشش کرتےرہے ہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب میں گائنی کی سیٹ پر کوئی اور ڈاکٹر لگا دیاجاتا ہے، پنجاب حکومت کی یہ کارکردگی رہ گئی ہے، خواجہ سلمان صاحب جو کام آپ کر نہیں سکتے وہ چھوڑ دیں۔

شلوار قمیض پہنے ڈاکٹر کے آپریشن کا نوٹس
دوران سماعت چیف جسٹس نے شلوار قمیض پہنے ڈاکٹر کے آپریشن کا نوٹس لیا اور اپنے فون پر خواجہ سلمان کو شلوار قمیض پہنے ڈاکٹر کی تصویر دکھائی۔چیف جسٹس کے تصویر دکھانے پر خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ یہ ڈاکٹر میرے ماتحت نہیں ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ تو پھر آپ کس چیز کے وزیر ہیں؟ ایک وزیر کے پرسنل سیکریٹری کو بھی 3 لاکھ روپےمیں لگا دیا، خواجہ سلمان رفیق صاحب آپ وزیراعلیٰ سے بات کریں گے یا ہم بلائیں، ملک میں بادشاہت نہیں ہے، کروڑوں کی بندر بانٹ نہیں کرنےدیں گے۔

وزیراعظم کا ایمنسٹی سکیم پر تنقید کرنے والوں کو چیلنج

وزیراعظم کا ایمنسٹی سکیم پر تنقید کرنے والوں کو چیلنج خاران(مانیٹرنگ ) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر تنقید کرنے والوں کو کھلا چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے ٹیکس کےبارے میں بتائیں اور دعوے سے کہتا ہوں کوئی شخص تنقید کے قابل نہیں ہوگا۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے خاران میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کہیں بھی جائیں اور اسکیم دیکھیں وہاں نوازشریف اور(ن) لیگ کی اسکیم ملے گی، ہمیشہ سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ وسائل پہلے نہیں تھے اور پہلے حکومتیں نہیں تھیں، ملک میں آمریت اور دوسری حکومتیں رہیں لیکن کوئی کام نظر نہیں آتا۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف ترقی کا دوسرا نام ہے، ملک میں ترقی ہوتی رہے گی، (ن) لیگ نے ثبوت دیا ہےکہ حکومتی وسائل وہاں خرچ ہونے چاہئیں جہاں زیادہ ضرورت ہے، اس وقت 1500 کلو میٹر سڑکیں بلوچستان میں بن رہی ہیں، ہزاروں کلو میٹر مکمل ہوچکی، یہ منصوبے صوبے کو ہمیشہ کے لیے ترقی دیں گے۔

ویراعظم کا کہنا تھا کہ ترقی جھوٹے وعدوں سے نہیں ہوتی، ترقی سوچ سمجھ کر کی جاتی ہے، (ن) لیگ نے ثابت کیا کہ وہ ترقی کے لیے کام کرنے والی جماعت ہے، اگر پاکستان میں عوام کے ووٹ سے یہی لیڈر شپ رہی جو ملک سے مخلص ہے اور عوامی مسائل حل کرنا چاہتی ہے، تو وہ وقت دور نہیں جب بلوچستان پاکستان کا امیر ترین صوبہ ہوگاکیونکہ اس حکومت نے جتنی کوشش بلوچستان کے لیے کی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ ملک میں امن کی ضرورت تھی، ہم نے سیاسی طور پر سب کو اکٹھا کیا، فوج نے پوری جرات سے مقابلہ کیا، ہمارے ہزاروں جوان شہید ہوئے لیکن اس کا اثر یہ ہے کہ آج پورے پاکستان میں امن ہے۔

ان کا کہنا تھا ایک فیصلہ جولائی میں آپ کے پاس آئے گا وہ اگلے پانچ سال کے لیے ملک کی تقدیر کا فیصلہ ہوگا، آج سیاست میں عوام سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں، عوام جانتے ہیں سیاست کا کیا معیار ہے، ایک طرف (ن) لیگ کی سچ اور خدمت کی سیاست ہے، دوسری طرف گالیوں اور جھوٹ کی سیاست ہے، اگر عوام کو گالیوں کی سیاست چاہیے تو وہ لوگ موجود ہیں، اگر سچ کی سیاست چاہیے تو وہ لوگ بھی موجود ہیں، آج بدقسمتی ہے کہ گالیاں دینے والے اس حد کو پہنچ گئے کہ ان کی گالیاں ختم ہوگئیں لیکن عوام سے پذیرائی نہیں ملی، اب کرائے کے گالیاں دینے والے لائے ہیں، ایسے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں گالیوں کی سیاست کو عوام رد کرچکے، اب جولائی میں بھی رد کریں گے، پاکستان میں جہوریت ہے اور رہے گی۔

بالی وڈ سپر سٹار سلمان خان جیل سے رہا،7مئی کو پھر پیشی

بالی وڈ سپر سٹار سلمان خان جیل سے رہا،7مئی کو پھر پیشی
جودھپور(نیٹ نیوز)کالے ہرن کے شکار کے کیس میں سزا یافتہ بالی وڈ اسٹار سلمان خان ضمانت کے بعد جیل سے رہا ہوچکے ہیں جہاں سے وہ خصوصی چارٹرڈ طیارے کے ذریعے ممبئی روانہ ہوگئے۔سلمان خان کو 2 روز عدالت کی جانب سے 5 سال قید اور 10 ہزار جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی جس کے فوری بعد ان کے وکلاء نے سزا پر ضمانت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔عدالتی فیصلے کے بعد دبنگ خان کو سینٹرل جیل منتقل کیا گیا تھا جہاں انہوں نے 2 راتیں گزاریں لیکن اب عدالت نے ان کی درخواست ضمانت منظور کرلی ہے۔عدالت نے سلمان خان کی درخواست ضمانت پر 25، 25 ہزار کے 2 مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے سلمان خان کو بغیر اجازت ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کردی ہے اور انہیں 7 مئی کو پیش ہونے کا بھی حکم دیا ہے۔سلمان خان کو عدالتی فیصلے کے بعد جودھ پور کی سینٹرل جیل سے رہا کردیا گیا ہے جہاں سے انہیں سخت سیکورٹی حصار میں ایئرپورٹ لے جایا گیا جس کے بعد کچھ ہی دیر میں انہوں نے خصوصی چارٹرڈ طیارے کے ذریعے ممبئ کے لیے اڑان بھرلی ہے۔ فیصلے کے وقت دبنگ خان کے مداحوں کی بڑی تعداد عدالت کے باہر موجود تھی جنہوں نے رہائی کے فیصلے پر خوب جشن منایا جب کہ ان کے مداحوں کی بڑی تعداد جیل کے باہر ان کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ جودھ پور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت کے جج روندا کمار جوشی نے آج سلمان خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سنانا تھا لیکن اس سے قبل جج کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔

بھارتی میڈیا کا کہنا ہےکہ راجستھان ہائیکورٹ نےجج روندرا کمار جوشی سمیت 87 ڈسٹرکٹ ججز کے تبادلے کردیئے ہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق کالے ہرن کے شکار کے کیس میں سلمان خان کو سزا سنانے والے جج دیو کمار کھتری کا بھی تبادلہ کردیا گیا ہے۔بھارتی میڈیا کا کہنا ہےکہ ججز کے تبادلے معمول کی کارروائی ہے اور ہر سال 15 سے 30 اپریل کے دوران راجستھان ہائیکورٹ کی جانب سے تبادلے کیے جاتے ہیں۔واضح رہےکہ جودھ پور کی عدالت نے کالے ہرن کے شکار کے 20 سال پرانے کیس میں سلمان خان کو 5 سال قید اور 10 ہزار روپےجرمانے کی سزا سنائی ہے۔

ٹیکس ایمنسٹی سکیم

 ٹیکس ایمنسٹی سکیم کسی بھی ملک ،ریاست کی تعمیر و ترقی یاتنزلی و بربادی کا دارو مدار معیشت پر ہی ہوتا ہے،وسائل کم ہوں یا زیادہ مگر حقیقت یہی ہے کہ نیت درست ہو،لوٹ مار کا عنصر قریب تک نہ ہو،ہر ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دی جانے کی سوچکا دائرہ وسیع ہو تو قومیں اور ریاستیں ترقی کرتی ہیں،کوئی لاکھ دعوے کر لے ،مگر مچھ کی طرح ٹسوے بہا لے مگر حقیقت یہی ہے کہ اس وقت پاکستانی معیشت تاریخ کے بد ترین بحران کا شکا ر ہے،بیرونی اور اندرونی قرضوں نے ملک کھوکھلا کر دیا ہے اگر یہی صورتحال اپنی اسی رفتار سے جاری رہی تودنیا کی کوئی طاقت بد نما لیڈروں کی غلط ،ناقص اور لوٹ مار پالیسی کی بدولت اسے تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا،ہر آنے والے نے ملکی معیشت کو درست سمت لے جانے کے بلند و بانگ دعوے کئے مگر آج تک کوئی بھی رہنماء پاکستان کو اس دلدل سے نہیں نکال پایا الٹا ان کی وجہ سے پاکستان مزید دھنستا چلا گیا،کئی دہائیوں سے قومی معاشی پالیسی جعل سازی کا شکار ہے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں قوم کو الجھا دیا جاتا ہے،ملک تباہی کی جانب اور ایوانوں میں بسیرا کرنے والے ترقی کی جانب گامزن ہیں،کرپشن کے خاتمہ کے لئے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ،پاکستانی عوام کی اکثریت اچھے لوگوں کی ہے لیکن وہ خاموش ہیں یہاں خاموشی توڑنا پڑے گی اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنے پڑے گا،یہاں سچ دھندلا گیا ہے کرپشن کے خلاف بات تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن عمل اس کے خلاف ہوتا ہے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر کوئی سنجیدہ نہیں،اب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستانی تاریخ کی 9ویں انکم ٹیکس کے حوالے سے ایمنسٹی سکیم متعارف کرا دی ان کے مطابق اس وقت صرف 7لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیںاور یہ محدود تعداد معاشی مسائل پیدا کر رہی ہے جو لوگ ٹیکس نہیں ادا کرتے یا ان کے بیرون ملک اثاثے ہیں تو وہ صرف دو فیصد جرمانہ ادا کر کے کالا دھن سفید کرا سکتے ہیں،شاہد خاقان عباسی نے اسی موقع پر آف شور کمپنیوں کو بھی قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا یہ کمپنیاں جرم نہیں ،ماضی میں پہلی بار جنرل ایوب خان(1958) پھر جنرل یحیٰ خان(1969) ،ذوالفقارعلی بھٹو(1976)،جنرل ضیاء الحق (1979)،میاں محمد نواز شریف (1997)،پرویز مشرف (1999)،یوسف رضا گیلانی (2008)اور میاں محمد نواز شریف (2016)میںبھی اس سے ملتی جلتی سکیمیں لائی گئیںمگر فائدہ کچھ نہ ہو سکا اگر ہوتا تو آج کیا پاکستان کی معاشی حالت یہ ہوتی؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو میاں نواز شریف کے تیسری مرتبہ منتخب وزیر اعظم کی طرح تیسری مرتبہ ہی ایمنسٹی سکیم لانے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے، گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سو کمپنیاں ایسی ہیں جو431ارب روپے ٹیکس ادا کرتی ہیں جبکہ ہزاروں کمپنیوں میں سے صرف10ہزار ٹیکس ادا کرتی ہیں،عجب بات تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں ٹیکس چوروں کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جاتی ہے مگر یہاںالٹی گنگا بہتی ہے یہاں اگر کبھی کوئی سکیم لائی گئی تو اس نے صرف امراء اور سیاستدانوں کے مفادات کو ہی تحفظ دیا اسحاق ڈار نے بتایا تھا کہ کم از کم 6کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں جبکہ غربت اس سے کہیں زیادہ ہے ،عالمی اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں غربت کی یہ 44.2فیصد ہے جو کہ حکومتی اعداد و شمار سے29.5فیصد زیادہ ہے ، جون2017تک حکومت کی جانب سے پبلک کی گئی ڈیبٹ مینجمنٹ رسک رپورٹ جو کئی حلقوں کی جانب سے شدید دبائو کے بعد جاری کی گئی تھی کے مطابق مالی سال کے اختتام تک حکومت کی جانب سے قرضوں کا حجم 21.4ٹریلین روپے تک جا پہنچا ہے جو مجموعی قومی آمدنی کا 67.2فیصد بنتا ہے حالانکہ ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں بھی کئی اعداد و شمار چھپائے گئے ،اس دوران قلیل مدتی قرضون کو جنہیں بطور رینٹ انٹرنیشنل ریزرو (NIR) کہا جاتا ہے شامل نہیں کیا گیاNIRمجموعی غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر اور اس سے متعلق حقائق کا فرق واضح کرتا ہے جون2016تک قلیل مدتی غیر ملکی قرضوں کو بطور NIRکی شرح 76.5فیصد تھی مگر اس رپورٹ میں بھی کئی اعدادو شمار شامل نہیں تھے اس وقت سٹیٹ بینک کے پاس سرکاری طور پر مجموعی ذخائر18.2بلین ڈالر تھے تو نیٹ ذخائر کا حجم صرف7.5بلین ڈالر تھا،اس رپورٹ پر شدید تنقید ہوئی کہ اسحاق ڈار نے قومی معیشت اور عوام کو قرضوں کے انتہائی برے جال میں پھینک دیا ہے کیونکہ قومی معیشت کے زیادہ تر اشاریے خطرناک صورتحال کی غمازی تھی،قومی اور بین الاقوامی قرضوں کی صورتحال بھی مزید ابتر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا قرضوں کے حوالے سے پیدا ہونے والی یہ کمزور ترین شرح مسلم لیگ کے ابتدائی تین سال 8ماہ میں سب سے کم تھی،بعد ازاں حکومت نے مزید 10ارب ڈالرز کے قرضے حاصل کئے جو غیر ملکی قرضوں ، سود کی ادائیگی اور زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سنبھالا دینے کے لئے تھے،حکومت نے یہ قرضے مختلف اداروں سے قلیل مدتی مگر زیادہ شرح سود پر حاصل کئے تھے ،کئی سال قبل سٹیٹ بینک کے سابق گورنر و ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں ورلڈ بینک،آئی ایم ایف،ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ کے طویل المعیاد قرضے کم شرح مارک اپ کے ہوتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ لینے چاہئیں تاکہ ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے،ان قرضوں میںحکومت نے 2.3ارب 90کروڑ ڈالرچین سے لئے جن میں قدرے زائد شرح سودکے 1.2ارب 30کروڑ ڈالر کے تجارتی جبکہ باقی باہمی تجارت کے قرضے ہیں،12ارب ڈالر قرضے میں سے4ارب 40کروڑ ڈالر قلیل المدتی تجارتی قرضوں کا ہے جن کی شرح سود عام مالیاتی اداروں کی نسبت بہت زیادہ ہے،یہ مہنگے قرضے سود اور اقساط میں خرچ کئے گئے،اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کا طویل المدتی قرضوں کی بجائے قلیل المدتی تجارتی قرضوں پر بڑھتا ہوا رجحان انتہائی باعث تشویش ہے،یہ قرضے چائنہ ڈویلپمنٹ بینک ،انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنہ کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے نور بینک سے ساڑھے44کروڑ ڈالر،سوئز کنسورشیم ،اے بی ایل ،یو بی ایل سے65کروڑ ڈالر،سٹی بینک سے ساڑھے27کروڑ ڈالراور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سے 70کروڑ ڈالر حاصل کئے گئے،موجودہ حکومت مجموعی طور پر 40ارب ڈالر کا قرضہ لے چکی ہے آخری کئی ماہ سے تواوسطاً ہر ماہ ایک ارب ڈالر کا قرض لیا جا رہا ہے آخر معاشی طور پر ہم کھڑے کہاں ہیں سوائے حکومت کے کسی کو کچھ پتا نہیں ہماری قومی معاشی پالیسی اور خزانے کا ذمہ دار ہے کون؟دنیا بھر میں معاشی پالیسی کو10سال کے لئے بنائی جاتی ہے اور یہاں تجربات کی ہنڈیاں ہر وقت چولہے پر رہتی ہے،حکومت کے آخری چند ماہ ہیں مگر عوام کی حالت کیسے اور کب سدھرے گی یہ روٹی کھاتے ہیں نعرے نہیں،علاج کے بیرون ملک جانے والے نیب زدہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں نے بیڑہ غرق کر دیا مگر وہ بیمار شخص ٹی وی پر آکر اپنی ہی حکومت پر چڑھ دوڑتا ہے معیشت کو ٹھیک کر کے تو دکھائو ؟ عجب بات ہے،وہ یہ بھول گئے ہیں کہ انہی کی پالیسی کے تحت لئے گئے قرضوں پر اربوں ڈالر تو سود کی مد میں قومی خزانے سے چھلانگ لگا جائیں گے،ملکی وسائل کا استعمال تک نہیں کیا گیا فلاحی و ترقیاتی کام کہاں سے ہوں گے حکومت اس کام کے لئے رکھے فنڈز کا بھی اجراء نہیں کر پائی ،1001ارب روپے میں سے 400ارب روپے جو مختلف منصوبوں کے لئے مختص تھے وہ حکومتی اخراجات کی نذر ہو گئے،کیا شاندار معاشی پالیسیاں ہیںکبھی ہم موٹروے ،کبھی ائیر پورٹ،کبھی پورٹ گروی رکھتے ہیں اس کے باوجود عوام کے مفاد سے منسلک کوئی پالیسی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی،برآمدارت ختم ہو چکی ہیں درآمدات آسمان کو چھو رہی ہیں،قوم قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی مگرمحلات ایوان صدر روازنہ25لاکھ اور وزیر اعظم ہائوس روزانہ20لاکھ روپے خرچہ ہے اسی طرح کے درجنوں شاہی محلات غریبوں کا خون نچوڑ رہے ہیں گذشتہ صرف ایک سال میں 14لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت اور ناقص غذائوں جن کی بنیادی وجہ مہنگائی تھی سے ہلاک ہوئے،ملکی سرکلر ڈیڈ 1000ارب کو چھو رہا ہے ہر قومی ادارے میں خسارا ہی خسارا جس کا جن قابو سے باہر ہے،10ماہ میں 10ارب ڈالر کا خسارا ہو چکا جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں 17.5ارب ڈالر کی کمی واقع ہو چکی ہے، لگتا ہے آنے والے وقت میں گشکول نہیں بلکہ بھیک لینے کے لئے کوئی بڑا برتن پکڑنا پڑے گا،لیبیا کے کرنل قذافی مرحوم کے بیٹوں نے انڈیا میں پراپرٹی خریدی جس کا کیس انڈین ہائی کورٹ تک پہنچ گیا18ماہ کیس چلا اور بیرون ملک خریدی گئی جائداد کی نیلامی کر کے اسے فروخت کر دیا گیا،یہاں کی اشرافیہ دوبئی،لندن سمیت کئی ملکوں میں بلیک منی کے ذریعے نہ صرف جائداد خرید چکی ہے بلکہ ان کے بیرون ملک کاروبارکسی جیٹ طیارے کی طرح تیز ترین رفتار سے بلندیوں کو چھو رہی ہے،یہاں ہر آنے والا حکمران معاشی طور نہ صرف ملک کا بیڑا غرق کرتا ہے بلکہ سب سے زیادہ شور بھی وہی مچاتے ہیں کہ آنے والے سب کھا گئے،ملک کو معاشی طور پر ان نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ ملکی سلامتی دائو پر لگ چکی ہے،ہمارے لیڈران کے اربوں ڈالر رہبروں کی مرضی و منشا اور سرپرستی کی بدولت سوئس بینکوں میں پڑے ہیں مگر ہمارا اپاہج نظام جو یرغمال بھی انہی کے ہاتھوں ہے جن کی یہ رقم ہے تو بھلا اس کی واپسی کیسے ممکن ہے انہی سوئس بینکوں سے تیونس نے 61لاکھ ڈالر،مصر نے 65لاکھ،یوکرائن نے70ارب ڈالر واپس لئے ہیں بھارت بھی ایسی جدوجہد کے ثمرات کسی حد تک مل چکے ہیں اور مزید واپسی جلد متوقع ہے،اب پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر نے غریب آدمی کی کمر سرے سے ہی توڑ دیا ہے،سیمنٹ،سریا سمیت دیگر تمام تعمیراتی سامان کی قیمتوں ہوش ربا اضافے سے عام آدمی تو اپنے لئے چھت بھی نہیں بنا سکتا،ماضی میں کالا دھن سفید کرنے والی اسکیموں سے ہمیشہ اشرافیہ کو ہی فائدہ پہنچا ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے آخری دو ماہ میں جاری کی جانے والی اس سکیم سے بھی وہ لوگ زیادہ فائدہ اٹھائیں گے جنہوں نے پاکستانی مہنگے ترین یورو بانڈز خریدے تھے جن کا مجموعی تعلق بر سر اقتدار پارٹی سے ہے،بلاول بھٹو نے اس ایمنسٹی سکیم کو پانامہ ایمنسٹی سکیم قرار دیا،سینیٹر رضا ربانی نے اس سکیم سے محنت کش طبقے کو مزید نقصان ہو گا،پی ٹی آئی کے اسد عمر نے کہا اس سکیم کا سب سے زیادہ فائدہ سیاستدانوں کو ہی ہو گا،2016کی عالمی رینکنگ کے مطابق اکائونٹ بیلنس میں پاکستان کا161/199واں،ایکسپورٹ کم کرنے کی بجائے ہم66ویں نمبر ،درآمدات پر ہمارا اتنا زیادہ انحصار ہے کہ ہم اس سلسلہ میں55ویں نمبر پر ہیں ،جی ڈی پی میں ہم 158ویں پوزیشن پر تھے،شدید معاشی پالیسیوں کی بدولت تازی ترین اعداد و شمار ان سے بھی کہیں بد تر ہیں پھر کہا جتا ہے کہ بہت ترقی ہوئی،بہت ترقی کر رہے ہیں،عوام کی حالت سدھاری ،ادندھیرے ختم کئے ہو اس کے بر عکس رہا عوام کی حالت مزید بگاڑی ،اندھیروں کا جن بے قابو اور جو پچھلے دنوں سے روپے کی قدر میں کمی اس کی بے حرمتی ایسے ہی نہیں ہوئی بلکہ کئی لوگ راتوں رات کروڑوں روپ کما گئے،یہ سلسلہ مزید جاری ہے آج بھی 10پیسے مزید کمی ہوئی بھلا ایسے مہنگائی کم ہو گی یا زیادہ ؟غذائی اشیاء کی قیمتوں کی پرواز بلند تر ہوتی جا رہی ہے،نئی اسکیمیں لانے والوں کو یقیناً یہ خبر نہیں ہو گی کہ ہر عام آدمی سوائے سانس لینے کے ہر چیز پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ کن گناہوں کی بھینٹ چڑھنے کے لئے پیدا ہو کر اس دھرتی پر غلامانہ اور بے بسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں؟موجودہ حکومت جاتے جاتے بجٹ پیش کر کے جائے گی جس کے لئے پیسہ ہونا ضروری ہے اور ساتھ ساتھ چھپایا گیا کالا دھن بھی سفید ہو جائے گا۔

جمعہ، 6 اپریل، 2018

چیئرمین سینٹ کیخلاف بیان،وزیراعظم کیخلاف تحریک استحقاق

چیئرمین سینٹ کیخلاف بیان،وزیراعظم کیخلاف تحریک استحقاق اسلام آباد(نیٹ نیوز) وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف سینیٹ میں تحریک استحقاق جمع کروا دی گئی۔پیپلزپارٹی نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف سینیٹ میں تحریک استحقاق جمع کروا دی ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر سینیٹر شیری رحمان، سینیٹر فاروق نائیک ، سینیٹر سکندر میندرو، سینیٹر گیان چند، سینیٹر انور لال دین، سید محمد علی شاھ جاموٹ، سینیٹر کرشنا بائی نے تحریک استحقاق جمع کرائی۔

تحریک استحقاق میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف وزیراعظم کا بیان پاکستان کے پارلیمان پر حملہ ہے، وزیر اعظم کے بیان سے پورے ایوان کا تقدس مجروع ہوا ہے، ان کے بیان نے پاکستان کے جمہوری بنیاد کو کمزور کیا۔ تحریک استحقاق میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے چیئرمین سینیٹ اور ہائوس کی توہین کی۔

پولیس اہلکاروں کی پٹائی،چینی انجینئرز قصور وار قرار مگر اختتام پر صلح کرادی گئی

پولیس اہلکاروں کی پٹائی،چینی انجینئرز قصور وار قرار مگر اختتام پر صلح کرادی گئی خانیوال(نیٹ نیوز) کبیروالامیں موٹروے بنانے والے چینی انجینئرز اور پولیس اہلکاروں میں جھگڑے کی انکوائری رپورٹ میں چینی انجینئرز کو قصوروار قرار دے دیا گیا۔چینی انجینئرز نے تحقیقاتی رپورٹ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔کبیروالا میں پولیس اہلکاروں کی پٹائی کےمعاملےمیں قصور چینی انجینئرز کا نکلا۔ پاکستان میں چینی باشندوں کی بدمعاشی کی انکوائری میں سب سامنے آگیا۔

آر پی او آفس نے چینی انجینئرز کو جھگڑے کا ذمہ دار ٹھہرادیا۔اجلاس میں دونوں فریقین میں صلح کرادی گئی۔ انجینئرز کو سخت وارننگ بھی جاری کی گئی کہ آئندہ بغیر سکیورٹی  سفر بھی نہیں کرسکیں گے۔انکوائری میں قصورثابت ہواتو چنی انجیئنرز ساری اکڑ بھول گئےاورجن اہلکاروں کو مارا تھا ان کی ہی مختلف پھلوں سےتواضع کی۔آر پی او نے معاملہ تو حل کروا دیا مگرچینی انجینئرزانکوائری کمیٹی کی تحقیقات سے مطمئن نہیں۔کمشنرملتان سے تحقیقات کرانے کی درخواست کردی۔

loading...