اتوار، 4 فروری، 2018

طالبان نے سرخ لکیر عبور کرلی،نتائج بھگتنا ہونگے:افغان صدر،پاکستان طالبان اور داعش کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے:وزیر داخلہ کا الزام

طالبان نے سرخ لکیر عبور کرلی،نتائج بھگتنا ہونگے:افغان صدر،پاکستان طالبان اور داعش کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے:وزیر داخلہ کا الزام
کابل (حرمت قلم نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک،نیٹ نیوز) افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان نے سرخ لکیر پار کرلی، نتائج بھگتنا ہوںگے ، وحشت ناک حملے کرنے والے عسکریت پسندوں سے قیام امن کیلئے بات چیت کا دروازہ بند ہو چکا، امن مذاکرات کا راستہ قبول کرنے تک افغان قوم انہیں قبول نہیں کرے گی۔ افغانستان کے صدر نے دارالحکومت کابل میں مذہبی عمائدین کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ طالبان کے ساتھ اب امن کا فیصلہ یقینی طور پر میدان جنگ میں کیا جائے گا۔ انہوں نے بعض عسکری عناصر کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ امن کو قبول کر لیں گے تو افغان قوم بھی انہیں قبول کر لے گی۔ اشرف غنی نے کابل میں حالیہ دو بڑے حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں پر گہرے رنج اور افسوس کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے وحشت ناک حملے کرنے والے عسکریت پسندوں سے قیام امن کیلئے بات چیت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اب انہیں نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔
طالبان نے سرخ لکیر عبور کرلی،نتائج بھگتنا ہونگے:افغان صدر،پاکستان طالبان اور داعش کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے:وزیر داخلہ کا الزام
جبکہ دوسری طرف  افغان وزیر داخلہ وارث برمک نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان طالبان اور داعش کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے،شدت پسندوں کی جانب سے کابل میں عام شہریوں کو ہدف بنانے کا مقصد ملک میں بغاوت شروع کرانا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وارث برمک نے کہا کہ طالبان اور دولتِ اسلامیہ کا مشترکہ مقصد لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانا ہے۔ افغان وزیر داخلہ کا کہنا ہے طالبان اور داعش دونوں عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسایا جائے تاکہ حکومت کا خاتمہ ہو جائے اور افراتفری کا ماحول پیدا ہو۔انھوں نے کہا کہ دونوں کا ماخذ ایک ہی ہے اور پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ دونوں گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے تاہم جیل میں قید خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم کے ایک جنگجو نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں تنظیموں کے مقاصد مختلف ہیں۔ افغان خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی موجودگی میں کیے جانے والے اس انٹرویو میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجو نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کے نزدیک اگر حکومت میں سے کوئی اپنے کیے پر پچھتاوے کا اظہار کرتا ہے تو اس کو معاف کر دینا چاہیے جبکہ دولتِ اسلامیہ کا کہنا ہے کہ اس کو مار دیا جانا چاہیے۔

بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ناقابل تسخیرکشمیری

 بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ناقابل تسخیرکشمیری
کشمیر دنیا کا اہم اور خوبصورت ترین علاقہ ہے جہاں گذشتہ کئی دہائیوں سے مسلمانوں نے بدترین دشمن نے مکمل ریاستی قوت کے ساتھ بارود اور بر بریت سے آگ اور خون کا میدان آباد کر رکھا ہے مگر یہ وہ دھرتی ہے جہاں قیام پاکستان سے قبل 1931میں جب عبدالقدیر نامی کشمیری رہنماء کو باغی قرار دے کر سری نگر سنٹرل جیل میں قید کیا تو غیور مسلمانوں کی کثیر تعداد احتجاج کے لئے وہاں پہنچ گئی نماز کا وقت ہوا اذان دینے کے لئے ایک نوجوان آگے بڑھا اذان شروع کی تو انگریز کے پٹھو ہندو فوجیوں نے گولی چلا دی ،ایک کے بعد ایک شہادت کا رتبہ حاصل کرتا گیا مگر اذان کو ادھورا نہ چھوڑا گیااس اذان کو مکمل کرنے میں 24نوجوانوں نے شہادت حاصل کی یہاں اس وقت بھی حق خود ارادیت کو دبانے کے لئے انڈین فورسز جس کی تعداد سات لاکھ سے زائد ہے اس عظیم کشمیری جدوجہد کو دبانے کے لئے موجود ہے روزانہ کی بنیاد پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا جا تا ہے مگر یہ ممکن نہیں ہو سکا کہ کشمیریوں کے عزم کو متزلزل کیا جا سکا ہو،ان میں فوج ،پولیس،بارڈر سیکیورٹی فورس،راشڑیہ رائفلز ،انڈین ریزروفورس،سپیشل آپریشن گروپ (کمانڈوز) شامل ہیں جوآرمڈ سروسز سپیشل پاور ایکٹ کے تحت وہاں قیامت برپا کئے ہوئے ہیں،جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی حق تلفی بہت اہم معاملہ ہے جس میں کشمیری عوام کے اجتماعی قتل،زبردستی غائب کر دینا،عسکریت پسند ی کے نام پر نوجوانوں کا قتل ،عصمت دری،سیاسی جبر اور ہمہ وقت پر تشدد صورتحال نے ہی وہاں عسکریت پسندی کو جنم دیا،اب تک لاکھوں افراد شہادت کے رتبے پر فائز ہو چکے ہیں گذشتہ دو سال سے بھارتی بربریت میں شدت کئی گنا بڑھ چکی ہے ایک رپورٹ کے مطابق اس دوران85ہزار سے زائد شہید،14ہزار سے زائد افراد زخمی جن میں 500افراد پیلٹ گنوں کے ذریعے اپنی بینائی سے محروم ہوئے ،چند روز قبل ہی ضلع شوپیاں میں ایسے مزید واقعات سامنے آئے ہیں،برہان وانی کی شہادت کے بعد اس تحریک آزادیکو جیسے نئی زندگی مل چکی ہے ،اپنے نوجوان بھائیوں کی مدد کے لئے بہنیں بھی میدان میں اتر چکی ہیں جو کالج یا یونیورسٹی سے نکل کر بھارتی فورسز کے سامنے ڈٹ جاتی ہیں،ریاست جموں وکشمیر متحدہ ہندوستان میں ان پانچ نوابی ریاستوں حیدر آباد،بڑودا،میسور اور گوالیر میں شامل تھی جہاں کسی بھی اہم موقع پر اکیس توپوں کی سلامی دی جاتی تھی باقی تمام115 نوابی ریاستوں میں ایسا نہیں تھا،اس وقت کی نوابی ریاستوں میں بہاولپور،چترال ،خیر پور اس وقت پاکستان میں باقی سب کی سب انڈیا میں ہی ہیں،1846سے1947تک پہلی انگریز سکھ جنگ کے بعد یہاں سکھ راج ہی رہا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور فوری طور پر امرتسر معاہدے کے تحت یہ ریاست جموں کے ڈوگرہ خاندان کو فروخت کر دی گلاب سنگھ،رنبیرسنگھ اور پرتاب سنگھ کے بعد1925میں راجہ ہری سنگھ اس ریاست کا حکمران بنا،1947میں تقسیم ہند کے وقت تمام ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں یا اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھیں،کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی اسی لئے اس ریاست کی عوام نے ہندو مہاراجہ کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا اور اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے مگر دوسری جانب شاطر مسلمان دشمن ہندو (بھارت)نے الحاق کو جواز بنا کر ریاست کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر دیں،یوں قیام پاکستان سے قبل ہی سکھوں کے ظلم کی چکی میں پسنے والوں کے حقوق پھر سے چھین لئے گئے ،مسلمان مجاہدین نے کشمیر کے بہت سے علاقوں پر مہاراجہ کا تسلط ختم کرتے ہوئے گلگت بلتستان اور کشمیر کے دیگر علاقے قبضہ میں کر لئے جو پاکستان کے زیر انتظام ہو گئے جہاں آج بھی کشمیری امن و سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں،کشمیریوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق سے ڈر کرہندوستان کشمیر کامعاملہ اقوام متحدہ لے گیاجہاں کمیشن کے ذریعے کشمیریوں کے استصواب رائے کا فیصلہ کیا گیا اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے عوام رائے شماری کو تسلیم کرنے کا وعدہ کیا بعد میں بھارت اس سے مکر گیا ،تاحال اقوام متحدہ بھی کشمیر کے الحاق کا فیصلہ نہیں کر سکی اور بھارت کے کشمیر پر غاضبانہ قبضے کو کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا،90کی دہائی میں تحریک آزادی عروج پر پہنچ گئی اور یہ قوم اسلحہ اتھانے پر مجبور ہو گئی اس طرح یہ تحریک ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ،انڈیا نے اس تحریک کو کچلنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے مگر ناکام رہا،لاکھوں شہادتیں دیں بربریت کو برداشت کیا مگر وہ آج بھی ابھی حقیقی منزل پاکستان کے لئے پر عزم ہیں،مقبوضہ کشمیر بھارت کی سب سے بڑی شمالی ریاست ہے جس کا بیشتر حصہ کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ہے کشمیر میں پیر پنجال کوہ ہمالیہ کا ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو کشمیر اور ہماچل پردیش سے گذرتا ہواگلمرگاتک جاتا ہے پہلگام کا تفریحی مقام اسی پہاڑی سلسلے پر ہے کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے اس میں72ہزار میٹر سے بلند 100سے زیادہ چوٹیاں ہیں دنیا کے بہت بڑے دریا جیسے سندھ ،برہم پترا،گنگا،پانگیزی ،سیکانگ،وغیرہ ہمالیہ کی برف پوش وادیوں سے ہی نکلتے ہیںیہ دریا نہ صرف پاکستان،انڈیا،بنگلہ دیش بلکہ کئی وسطی ایشیائی ریاستوں تک جاتے ہیںپاکستان اور بھارت کی سرحد پر 70کلومیٹرطویل سیا چین گلیشئیر بھی ہے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسی گلیشئیر کے لئے کارگل کا معرکہ پیش آیا تھا سیاچین پر موجود بھارتی فوجیوں کو رسد کی فراہمی کے لئے واحد راستہ کارگل ہی ہے جو سری نگر اور لداخ کو بھی ملاتا ہے کارگل تا سیاچین کا راستہ سال کے دس مہینوں تک برف کی قید میں رہتا ہے اور صرف دوما ہ کے لئے یہ شاہراہ سیاچین کے برف پوش پہاڑوں تک پہنچنے کے لئے استعمال ہوتی ہے کسی زمانہ میں سیاچین پاکستان کے پاس تھا مگر بعد میں اس پر بھارتی قبضہ ہو گیا ،جموں کشمیر کی سرحدیں جنوب میں ہماچل پردیش اور بھارتی پنجاب،مغرب میں پاکستان ،شمال اور شمال مشرقی سرحدیںچین سے ملتی ہیں،جموں کشمیر اس وقت تین حصوں جموں،کشمیر اور لداخ پر مشتمل ہے،سری نگر اس کا گرمائی اور جموں اس کا سرمائی دارالحکومت ہے،وادی کشمیر اپنے حسن کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے جبکہ مندروں کا شہر جموں ہر وقت ہزاروں ہندوئوں زائرین کو اپنی طرف کھینچتا ہے لداخ کو تبت صغیر بھی کہا جاتا ہے جو اپنی خوبصورتی اور ثقافت کی وجہ سے جانا جاتا ہے،مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وادی کشمیر میں مسلمان95فیصد،جموں میں28فیصداور لداخ میں 44فیصد ہیںجموں میں ہندو66فیصد جبکہ لداخ میں بدھ 50فیصد کے ساتھ اکثریت میں ہیں،کشمیر کے اضلاع میں سری نگر،اننت ناگ،کولگام،پلوامہ،شوپیاں،بڈگام،گاندربل،بانڈی پورہ بارہ مولا اور کپواڑہ ہیں،دنیا میں سب سے زیادہ زعفران کی پیدا وار اسی علاقے میں ہوتی ہے جس کی پیداوار سے جہاں معاشی حالت بہتر ہوتی وہیں کشمیر میں آنے والے زعفران کے پودوں کے رنگوں میں کھو جاتے ہیں،پلوامہ زعفران کی کاشت میں دنیا بھر میں مشہور ہے،جموں کے اضلاع میں جموں،ڈوڈا،رام بن،ریاسی،کشنواڑ،سکھوا،اودھم پورا، راجوڑی اور پونچھ ہیںپونچھ لائن آف کنٹرول پر واقع ضلع ہے آزاد کشمیر اس کے شمال ،مغرب اور جنوب میں ہے 1947کی جنگ میں پونچھ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا اس ضلع میں 90.45فیصد مسلمان بستے ہیں اس میں چھوٹا سا ہوائی اڈا بھی ہے پاکستانی شہر راولااکوٹ اور پونچھ کے درمیان شارع مغل کے ذریعے بس سروس بھی حالات ٹھیک ہونے پر چلتی ہے،شارع مغل سطع سمندر سے 11سے35سو میٹر بلند ی پر ہے اسی شارع کی وجہ سے پونچھ کو راجوڑی اور سری نگر کے قریب کرتا ہے،پونچھ بلند وبالا برف پوش پہاڑوں اور گھنے جنگلوں کا خوبصورت خطہ ہے،لداخ شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان ہے یہ بھارت میں سب سے کم آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے ،لداخ اپنی خوبصورتی اور بدھ ثقافت کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے اس کے دو اضلاع لہیہ اور کارگل ہیں،لداخ کی سرحدیںمشرق میں چین کے علاقے تبت،جنوب میں ہماچل پردیش اور مغرب میں جموں اور شمال میں چین اور جنوب مغرب میں پاکستان ہیں،مقبوضہ کشمیر میں سے دریائے انڈس،سندھ راوی جہلم ،چناب ،نیلم سمیت24دریا نکلتے ہیںجبکہ وولر،سستر،گنگا،مناسبل،سرسر ،چینگانگ،گل سر،تر سر،شی شنگ بنجوسہ ،باغ سر اور ڈل سمیت درجنوں خوبصورت ترین جھیلیں بھی ہیں،سری نگر شہر ڈل جھیل کے کنارے آباد ہے ڈل جھیل دنیا کی چند ممتا سیر گاہوں میں سے ایک ہے ،دریائے جہلم اسی جھیل کے بیچ سے ہو کر گذرتا ہے ،سری نگر کے علاقہ میں ہی شالیمار،فتح پورہ ،کولام چنار اور ہری پربت چوٹی ہے،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسی لئے فرمایا تھاکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، لائن آف کنٹرول جنوبی کشمیر اورکارگل کو پاکستان سے الگ کرنے والی سرحد ہے اس کا سابقہ نام سیز فائر لائن ہے پھر سیاچین گلیشئیر تک واضح حد بندی نہ ہونے کے سبب لائن آف ایکچوئل کنڑول کہلانے لگی یعنی وہاں جو دستہ جس جگہ ہے وہی سرحدی حدبندی ہے ،بعد میں اس کانام لائن آف کنٹرل ہو گیا جس کی لمبائی740کلومیٹر کے قریب ہے،مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کے لئے آل پارٹیز حریت کانفرنس،آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس،جموں اینڈ کشمیر ڈیمو کریٹک فریڈم،جموں کشمیر ڈیمو کریٹک لبریشن پارٹی،حزب المجاہدین ،جیش محمد،حرکت المجاہدین ،البدر جمو ںو کشمیر ،لشکر طیبہ ،یونائٹیڈ پارٹی،پیپلز لیگ،جماعت اسلامی ،پیپلز کانفرنس،اتحاد المسلمین ،جموں کشمیر نیشنل فرنٹ اپنے قائدین سید علی گیلانی ،یسین ملک ،عبدالغنی لون،آسیہ اندرابی ،نعیم احمد خان،میر واعظ عمر فاروق،شیخ یعقوب ،مشال ملک سمیت ان گنت رہنماء بلکہ آج کل تو ہر کشمیری آزادی کے لئے سر پر کفن باندھے ہوئے ہے اور بھارت کو بالآخر یہ سمجھنا ہو گا ظلم و ستم کا بازار بند کرناہو گا،کنٹرول لائن پر اس نے بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ صرف اور صرف مسئلہ کشمیر سے دنیا بھر کی نظریں پھیرنا ہے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو گا، اس نے کشمیریوں پر ظلم کو دنیا سے اوجھل کرنے کے لئے آئے روز کرفیو لگایا ہوتا ہے،نیٹ سروس اسے بند کرنا پڑتی ہے،شدید ترین ریاستی دہشت گردی کے باوجود اسے ریل سروس تک معطل کرنا پڑتی ہے،برف پوش وادیوں میں اس کے ہزاروں فوجی لقمعہ اجل بن چکے ہیں ،اربوں روپے وہ خرچ کر رہا ہے ،مگر خود اس کے ملک میں غربت ،بے روزگاری اس حد تک ہے کہ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں ،انتہا پسندی عروج پر ہے ،خالصتان سمیت درجنوں علیحدگی پسند گروپس انڈیا سے الگ ہونا چاہتے ہیںاور اسے جنت نظیر کشمیر کو جہنم بنانے کا بدلہ ضرور ملے گا،چند ماہ قبل انڈین ریاست دہشت گردی کا ایک اور بھیانک چہرہ سامنے آیا جب اس نے کشمیری رہنمائوں کو دہشت گردی جیسے سنگین الزامات میں گرفتار کر کے دہلی کی تہاڑ جیل میں بند کر دیا جہاں ان پر زندگی کو تنگ کردیا گیا ہے،کشمیری رہنماء سید علی گیلانی نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کو خط لکھا ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو ہر صورت تسلیم کیا جائے ،آبادی والے علاقوں سے فوج کا انخلا یقینی بنایا جائے ،عوام کش فوجی قوانین کو ختم کیا جائے ،تمام سیاسی لیڈران کو رہا کیا جائے ،نظر بندی کے کلچر کا خاتمہ ہو اور حق خود ارادیت کے حامی سیاسی و سماجی رہنمائوں کو ہر قسم کی سیاسی گرمیوں کی آزادی ہو،کشمیر میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی پر اقوام متحدہ سمیت تمام وہ ادارے خاموش ہیں جو ہیومن رائٹس کے علمبردار بنے پھرتے ہیں،آفرین تو ان پر ہے جن کا عزم ناقابل تسخیر ہے جو حق خود ارادیت کے حصول کے لئے لاکھوں کی تعداد میں فوجیوں جن کے جبراو رظلم کے چرچے ہیں کے باوجودان کے سامنے ڈتے ہوئے ہیں ،پاکستان کا بچہ بچہ ان کے ساتھ ہے حکومت پاکستان ہر سطع پر ان کی اخلاقی اور سفارتی مدد کرتا رہے گا،اسی خطہ میں کئی صدیاں پہلے بھی مسلمان حکومت قائم ہوئی تھی جب صدر الدین عرف رنچن کو آبائی طور پر بدھ مت کا پیرو کار تھانے مبلغ السام سید عبدالرحمان المعروف بلبل شاہ ؒکے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوا یوں وہ کشمیر میں پہلے مسلمان حکمران تھے ایسا وقت ضرور آئے گا جب پاکستانی پرچم وہاں لہرائے گا، اس مسئلہ کے حل کے بغیر دنیا میں امن ممکن ہی نہیںبلاشبہ یہ کشمیر میرا ہے ،ہمارا ہے ،ہم سب کا ہے اور رہے گادنیا کے منصفو کشمیریوں پر ہونے والا ظلم و ستم شاید تمہیں نظر نہیں آتا،کشمیری اس نعرے سے پیچھے کبھی نہیں ہٹیں گے کہ لے کے رہیں گے آزادی ۔
رابطہ کیلئے:0300-6969277-0344-6748477

loading...