کابل (حرمت قلم نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک،نیٹ نیوز) افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان نے سرخ لکیر پار کرلی، نتائج بھگتنا ہوںگے ، وحشت ناک حملے کرنے والے عسکریت پسندوں سے قیام امن کیلئے بات چیت کا دروازہ بند ہو چکا، امن مذاکرات کا راستہ قبول کرنے تک افغان قوم انہیں قبول نہیں کرے گی۔ افغانستان کے صدر نے دارالحکومت کابل میں مذہبی عمائدین کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ طالبان کے ساتھ اب امن کا فیصلہ یقینی طور پر میدان جنگ میں کیا جائے گا۔ انہوں نے بعض عسکری عناصر کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ امن کو قبول کر لیں گے تو افغان قوم بھی انہیں قبول کر لے گی۔ اشرف غنی نے کابل میں حالیہ دو بڑے حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں پر گہرے رنج اور افسوس کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے وحشت ناک حملے کرنے والے عسکریت پسندوں سے قیام امن کیلئے بات چیت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اب انہیں نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔
جبکہ دوسری طرف افغان وزیر داخلہ وارث برمک نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان طالبان اور داعش کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے،شدت پسندوں کی جانب سے کابل میں عام شہریوں کو ہدف بنانے کا مقصد ملک میں بغاوت شروع کرانا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وارث برمک نے کہا کہ طالبان اور دولتِ اسلامیہ کا مشترکہ مقصد لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانا ہے۔ افغان وزیر داخلہ کا کہنا ہے طالبان اور داعش دونوں عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسایا جائے تاکہ حکومت کا خاتمہ ہو جائے اور افراتفری کا ماحول پیدا ہو۔انھوں نے کہا کہ دونوں کا ماخذ ایک ہی ہے اور پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ دونوں گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے تاہم جیل میں قید خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم کے ایک جنگجو نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں تنظیموں کے مقاصد مختلف ہیں۔ افغان خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی موجودگی میں کیے جانے والے اس انٹرویو میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجو نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کے نزدیک اگر حکومت میں سے کوئی اپنے کیے پر پچھتاوے کا اظہار کرتا ہے تو اس کو معاف کر دینا چاہیے جبکہ دولتِ اسلامیہ کا کہنا ہے کہ اس کو مار دیا جانا چاہیے۔