بدھ، 7 فروری، 2018

حسین وادی سوات ایک بار پھرشہیدوں کے لہو سے تر

 حسین وادی سوات ایک بار پھرشہیدوں کے لہو سے تر
 ہفتہ کی شام ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے8 کلومیٹر دور واقع قصبہ کبل جو سوات سے گذرنے والی مرکزی شاہراہ کے بالکل ساتھ دریائے سوات کے کنارے آباد ہے میں آرمی یونٹLk19 کے سپورٹس ایریا میں والی بال کا میچ کھیلا جا رہا تھا جسے دیکھنے کے لئے مقامی افراد کی کثیر تعداد بھی موجود تھی کہ اسی دوران خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا جس کے نتیجہ میں ایک افسر سمیت چار اہلکار موقع ہر ہی شہید ہو گئے جبکہ سات شدید زخمی حالت میں سیدو شریف ہسپتال پہنچ کر خالق حقیقی سے ملے یوں مجموعی طور پر11اہلکار شہید جبکہ 13زخمی ہوئے، دھماکہ اس قدر زور دار تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سن گئی ،دہشت گردی کے اس المناک واقعہ کے بعد فوری طور پر ساتھ گذرنے والی مرکزی شاہراہ کو بند کر کے پورے علاقہ کو سیکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کا آغاز کر دیاتمام داخلی و خارجی راستوں پر چینکنگ کا عمل سخت کر دیا گیا،زخمیوں کو ریسکیو کر کے سیدو شریف کے سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا،اس خود کش حملہ میں کیپٹن جاذب ،نائب صوبیدار زاہد،دفعدار ندیم ،اور ابراہیم،ایل ڈی آصف اعجاز،مہر خان،شکیل،سوار محمد آصف،ندیم،ضیافت اور این سی بی منور شہید جبکہ زخمیوں میں کیپٹن عدیل ،ایل ڈی مجید ،عارف،منور ،مجاہد ،طارق ،اے ایل ڈی شاہد ریاض،سوار محمد عامر ،عابد علی،طالب حسین ،دفعدار محمد عالم ،این سی بی حامد علی ،این سی ای محمد عثمان اور ایل ڈی کلرک طارق علی شامل ہیں،سوات میں ہونے والا یہ واقعہ حالیہ برسوں میں سب سے بڑا دہشت گرد حملہ ہے ،اس خود کش حملہ کے بعد سوات میں سیکیورٹی فورس میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور سہولت کاروں کی تلاش میں وسیع علاقے میں سرچ آپریشن کیا جاررہا ہے،غیرملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس دھماکہ کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے ،گذشتہ کئی سال سے اس علاقہ میں امن و امان کی صورتحال بہتر تھی ،سوات میں اس وقت چھ ہزارکے قریب پولیس اہلکار ہیں جن میں زیادہ تر چیک پوسٹوں پر تعینات ہیں،چند روز قبل ہی سی ٹی ڈی نے خفیہ اطلاعات پر کبل کے ایک گھر چھاپہ مار کر مطلوب دہشت گرد سراج خان اور مٹہ کے علاقہ شورا میں سے طالبان کمانڈر محمد علی شاہ جو سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں مطلوب تھا کو گرفتار کیا تھا،دہشت گردی کے اس بزدلانہ وارمیں شہداء کی نماز جنازہ پشاور میں ادا کئی گئی جس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اعلیٰ فوجی افسران نے شرکت کی جس کے بعد شہداء کے جسد خاکی ان کے آبائی علاقوں میں روانہ کر دئیے گئے ،آرمی چیف نے سی ایم ایچ میں زخمی اہلکاروں کی عیادت بھی کی، صدر مملکت ممنون حسین نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ،وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا بزدلانہ حملوں سے دہشت گردی کے خلاف عزم متزلزل نہیں ہو گا ملک میں فساد پھیلانے والوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے،عمران خان نے کہا ملک میں ایسے عناصر کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ان کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری،مریم اورنگ زیب،احسن اقبال،شہباز شریف،ڈاکٹر طاہر القادری اور جماعت الدعوۃ کے ترجمان یحیٰ مجاہد سمیت متعدد شخصیات نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی،ماضی میں 2007میں شدت پسندوں نے جنوبی وزیرستان کے گیٹ وے ٹانک پر حملہ کر کے اسے تہس نہس کرنے کی مذموم کوشش کی شمالی وزیرستان سے ملحق بنوں کے علاوہ مردان چارسدہ اور کوہاٹ بھی ایسی خبروں میں رہے لیکن حکومتی رد عمل کی وجہ سے جندولہ اور پکا خیل کے علاقوں میں راستے بند ہو جانے پر ان کی قوت مفلوج ہو کر رہ گئی تو اسی وجہ سے وزیرستان کے بعد شدت پسندوں نے جو فرنٹ کھولا وہ انتہائی شمال میں باجوڑ تھا باجوڑ میں قدرے کامیابی کے بعد سیکیورٹی فورسز کی توجہ منقسم کرنے کے لئے شدت پسندوں نے سوات کا انتخاب کیا جو ان کے لئے بہت زرخیز ثابت ہوا کیونکہ یہاں اس سے قبل ہی شریعی نظام کے لئے چلنے والی تحریک اور کمزور حکومتی رٹ ان کے لئے بہترین تھی،گوریلا جنگ کے ماہر شدت پسند وں کے لئے سوات کے پہاڑ ی علاقے بنوں اور ٹانک کے لئے بھی موافق تھے 2007میں مولانا صوفی محمد کے داماد مولانا فضل اللہ جو اس وقت ہر دم پاکستان مخالف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اسی سال اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن کے بعد سوات کے شدت پسند متحرک ہوئے اور مولانا فضل اللہ نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا اعلان کر دیا،15جولائی 2007کوسوات میں پہلا خود کش حملہ ہوا جس میں 13ایف سی اہلکار اور 6شہری شہید ہوئے اسی سال فضل اللہ نے شرعی عدالتیں قائم کر دیں،نومبر میں جنرل پرویز مشرف کے حکم پر فوج نے سوات کو شدت پسندوں سے پاک کرنے کے لئے آپریشن راہ نجات کے تحت فوج داخل کر دی اپریل2008 میں امام ڈھیرئی جو کہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کا ہیڈ کوارٹر تھا پر فوج نے قبضہ کر لئا بعد میں اے این پی نے شدت پسندوں کے ساتھ 21نکاتی امن معاہدہ کیا جو کامیاب نہ ہوا دسمبر میں ایک بار پھر شدت پسندوں نے سوات کے 75فیصد حصہ پر قبضہ کر لیا جس پر فوج نے راہ حق 2آپریشن کا آغاز کیا لیکن سرحدی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے وہ زیادہ کامیاب نہ ہوا اور فرور ی 2009میںنظام عدل پر آمادگی ظاہر کی اور یوں صوبائی حکومت نے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مولانا صوفی محمد کے ساتھ دستخط کر دئیے ،اسی آڑ میں شدت پسند پہلے تویہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے مگر بعد میں تازہ دم ہو کر اس علاقے میں پھر سے متحرک ہو گئے جس پر سیکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف بھرپور کاروائی کا آغاز کر دیا درجنوں جھڑپوں میں کئی سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ ہزاروں شدت پسند جہنم واصل ہوئے لاکھوں افراد محصور ہو کر رہ گئے اسی آپریشن کے بعد سوات کے علاقہ میں امن قائم ہوا،سوات کے نامور شدت پسندوں میں مولانا فضل اللہ جو اس وقت بھی افغانستان میں سے پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے،حاجی مسلم خان،سراج الدین ،اکبر حسین،شاہ دران ،محمود خان،نثار احمد،میاں گل غفور،لعل دین عرف بڑے میاں،شیر محمد قصاب اور ابن امین قابل ذکر ہیں جو انتہائی خطرناک تھے، سوات جسے پاکستان کا سوئٹرزلینڈ بھی کہا جاتا ہے دارلحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب 254کلومیٹر اور پشاور سے 170کلومیٹر دوری پر ہے جس کا رقبہ5337مربع کلومیٹر ہے اس کے شمال میں چترال ،جنوب میںبونیر ،مشرق میں شانگلہ ،مغرب میں ضلع دیر اور مالا کنڈ ایجنسی کے علاقے اور جنوب مشرق میں سابق ریاست امب کا خوبصورت علاقہ واقع ہے،سوات کو تین سطعی عاقوں بالائی سوات،زیریں سوات اور کوہستانی سوات میں تقسیم کیا گیا ہے، سر سبز و شاداب ،وسیع میدانی علاقوں جہاں خوبصورت مرغزار ،شفاف پانی کے چشمے اور دریا اسے دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں شامل کرتے ہیںسوات کا شمالی علاقہ کی ترقی میں ایک کردار ہے ،سوات ایک کوہستانہ ضلع ہے کوہستانہ اس علاقہ کو کہتے ہیں جو فطرت کے قریب ہو یعنی قدرتی طور پر خوبصورت جہاں پودے،درخت ،خوبصورت دریا اور فضا ہو،ماضی میں یہ ایک ریاست تھی جسے1970میں ضلع کی حیثیت دی گئی مالا کنڈ کا صدر مقام سیدو شریف اسی ضلع میں واقع ہے،سوات میں زیادہ تر چھوٹے چھوٹے گائوں ہیں ،سوات میں سیر و سیاحت کے لئے خاص کر مالم جبہ،کبل،سیدو شریف،شریف آباد خوازہ خیلہ،بحرین،مدین ،کالام ،مٹہ ،سری کوٹ،چارہااور مینگورہ وغیرہ شامل ہیں یہ ضلع سنٹرل ایشیائی تاریخ میں علم بشریات اور آثار قدیمہ سے مشہور ہے بدھ مت تہذیب وتمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شہرت ملی اس کا دوسرا نام باغ بھی ہے،مالم جبہ ایک ایسا سیاحتی و تفریحی مقام ہے جو پاکستان میں برف کے کھیل اسکی کا واحد مرکز ہے اور گائوں ڈاگے جو کبل سے محض دو کلومیٹر دور ہے اس گائوں کے زیادہ تر لوگ تعلیم یافتہ اور بیرون ملک کام کرتے ہیں،پاک فوج کی جانب سے موسم گرما میں جشن سوات کے رنگا رنگ فیسٹیول ہر سال منعقد ہوتے ہیںمگر ایک بار اس حسین وادی کو لہو سے رنگ دیا گیا ہے ۔
رابطہ کیلئے:0300-6969277






روائتی صحافت اور صحافتی طرفین!

 تحریر:شیخ خالد زاہد 
تمام ادارے منافع بخش اور قدرے ہموارسمتوں کا تعین کرتے ہیں یہ ادارے اجتماعی سطح پر بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے مفادات سے کوئی نا ٹکرائے اور کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش نا کرے اسی طرح اگر کوئی اپنی ہی نوعیت کا ادارہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث پایا جاتا ہے تو پہلے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ معاملہ نجی سطح پر ہی حل کرکے ختم کردیا جائے نا کہ اس کو منظر عام پر بطور تماشہ بننے کیلئے چھوڑ دیا جائے۔ یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اداروں کی سربراہی کرنے والے لوگ اداروں کے منتظمین انتہائی منظم اور پختہ ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں۔ ملک کے چار ستونوں میں سے اب تک صرف ایک ستون ایسا تھا جو اپنے آپ میں غیر متوازن تھا ۔ اس غیر متوازن ستون کو ہم پارلیمنٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن ہمارے دیگر تین ستون عدلیہ ، فوج اور صحافت مضبوط ستونوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مملکت کا نظام و امور احسن طریقے سے چلتے دیکھائی دیتے رہے ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ کسی دریا کی مانند بہہ رہا ہے، کہیں کوئی رکتا ہی نہیں ، یہ ہوگیا وہ ہوگیا اسنے یہ کہہ دیا اسنے یہ کردیا سب کچھ چلتے چلتے ہورہا ہے ۔ کوئی حادثہ کوئی سانحہ اس دریا میں ظغیانی کا باعث بنتا ہے اور پھر یہ اپنے معمول کے بہا وٗپر بہنے لگتا ہے۔ 
اکیسویں صدی میں صحافت مختلف اصناف میں تقسیم ہوچکی ہے جسکی ایک وجہ سوشل میڈیا بھی بنا ہوا ہے ۔ چھپائی شدہ اخبارات آج بھی بڑے بڑے نامی گرامی کتابوں کی دکانوں کے ساتھ ساتھ ماضی کی طرح چھوٹے چھوٹے لکڑی کے کھوکھے پر بھی بکتے دیکھائی دیتے ہیں لیکن آج کی ضرورت کے عین مطابق تقریباً اخبارات تک رسائی بذریعہ انٹرنیٹ بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں صحافت کی تقریباً ہر صنف نے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں ترقی کے سارے سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ صحافت نے ترقی کرتی دنیا سے بھرپور ہم آہنگی نبہائی اور اپنے بھرپور بین الاقوامی اثرورسوخ کی مدد سے عوام میں آگہی کی پرورش کا بیڑا اٹھایا کہ پاکستانی عوام سیاسی طور پر بالغ ہوتی محسوس ہورہی ہے۔ یہ صحافتی ترقی کاہی نتیجہ ہے کہ لوگوں میں بہت حد تک امور سلطنت میں دلچسپی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور اپنے حقوق اور قانون کی کسی حد تک سمجھ بوجھ آنا شروع ہوگئی ہے ۔ عوام جو کسی حد تک شعور کے زیور سے آراستہ ہوئی ہے درحقیقت اس کا سہراصحافت کے ماتھے پر ہی سجے گا۔ اب بہت جلد اس بلوغت کا امتحان ہونے والا ہے جو کہ آنے والے انتخابات کے نتائج سے ثابت ہوجائیگا۔ 
ہم اور آپ اگر اپنے ذہن میں کسی بھی فرد کیلئے خود ساختہ تصویر بنالیں ،اسکے ذہن کی پیمائش بھی خود ہی طے کرکرلیں (یعنی وہ کیسا سوچتا ہوگا) اور جس کو آپ نے اپنی مرضی سے ترتیب دیا ہے اور خال و خد خود ہی بنائے ہیں تو اس خام خیالی اور خود فہمی میں اس شخص کابتائیں کیا قصور ہے۔اب وہی شخص حقیقتاً سامنے آجائے کی صورت میں کوئی بات نہیں آپ اپنا تصور حقیقت سے تبدیل کرلیجئے۔ تبدیلی تو قدرتی طور پر ہوجائے تو ہوجائے ورنہ ہم جان بوجھ کر بدلنے کے قائل نہیں ہیں۔ 
ایک وقت ایسا بھی تھا جب اختلاف رائے پر گردن اڑا دی جاتی تھیں ، آپ کے خیال میں وہ وقت گزر گیا؟ جی نہیں ! آج اس عمل نے بھی ترقی کرلی ہے کیونکہ اپنی زندگی سے بھی پیار ہوتا ہے اس لئے آج اختلاف کرنے والی گردن تو نہیں ماری جاتی بس اسکی عزت کے درپے ہوجاتے ہیں اور اسکے خلاف اپنے ہم خیال لوگوں کو جمع کرلیا جاتا ہے اور باقاعدہ قلم و زبان سے بہت خوبصورتی سے اسکی عصمت دری کی جانے لگتی ہے۔اسوقت کرائے کے قاتل میسر تھے (وہ آج بھی دستیاب ہیں اور انہوں نے وردیاں پہن لی ہیں اور وہ اپنی مرضی سے اس کام کو سرانجام دے رہے ہیں) ۔آج اس کام کوسرانجام دینے کیلئے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ ٹیلی میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ پارلمینٹ ریاست کا اہم ترین ستون ہونے کے باوجود ہمیشہ سے عدم استحکام کا شکار رہا ہے جسکی وجہ سے یہ اپنی بالادستی آج تک قائم نہیں کرسکا ، پارلمینٹ کے عدم استحکام کی ایک اہم ترین وجہ یہاں منتخب نمائندوں کے مابین ملکی سالمیت کے لئے مختلف سمتوں میں کام کرنا ہے ۔ اب کچھ اس ہی طرح کا حال میڈیا کا بھی دیکھائی دے رہا ہے کہ سب اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر صحافت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور آہستہ آہستہ پاکستان انکے بنیادی منشور میں سے مٹتا جا رہا ہے ۔ 
بطور انسان صحافی بھی اس ہی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں ، کسی کی طرفداری اور کسی سے اختلاف انسان کی فطرت میں ہے ۔ یہ اختلاف اور حمایت بہت حد تک کسی کے بھی ذاتی مفاد کی بنیاد پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس ذاتی مفاد سے ماورا فردمعاشرے کو اہمیت دیتے ہیں اور معاشرے کی یعنی اجتماعی بہتری کیلئے کچھ کرنے کو اہمیت ہی نہیں دیتے بلکہ اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔ بہت تکلیف سے لکھ رہا ہوں کہ آجکل صحافت کا حال لہروں کے سپرد کی جانے والی ناؤکی جیسے ہے ۔یہی ایک وجہ صحافت اور صحافی پر ہونے والی دہشت گردی کی وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ شائد سچ اور جھوٹ کی تشہیر میں مفاد کو خاطر میں رکھا جانے لگا ہے ۔کاندھے پر بستہ لٹکائے سادہ سا لباس پہنے آپ جناب کرتی روائتی صحافت کا ضابطہ اخلاق تھا اور ابھی بھی ہے مگر روائتی صحافت صاحب فراش ہے۔ صحافت نے بھی جدید ملبوس کرلی ہے قلم و قرطاس سے بات بہت آگے نکل گئی ہے ، موبائل فون کے ذرئیعے ہی سارا کام سرانجام دیا جاسکتا ہے اور دیا جاتا بھی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت سے حتمی دن تاریخ معلوم کئے جاسکتے ہیں۔ صحافت نے جب ترقی کے رن وے پر قدم رکھاتو ضابطہ اخلاق ترتیب دینا بھول گیا ، ویسے بھی اونچی اڑان والوں کو کسی ضابطے اخلاق سے کیا لینا دینا، اور پھر ایسی اڑان پکڑی کے ضابطے خوفزدہ سے دیکھائی دینے لگے۔ اخبارات و رسائل سے بات نکل گئی ، بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز بننے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں میڈیا نے اپنی جگہ ہی نہیں بنائی بلکہ ریاست کے چھوتے ستون کی ذمہ داری سنبھال لی ۔اب خود ساختہ تصویریں تصور کی جانے لگیں اور حقیقت منظر عام پر آنے پر اپنا سمجھایا ہوا جھٹلائے جانے لگا۔ اب انہیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ اب یہ آسمان کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں وہاں رہتے ہوئے اپنے لوگوں کے تحفظ کیلئے اپنی اخلاقی اقدار کی پاسداری کیلئے سچ اور جھوٹ میں تفریق کرنے کیلئے سارے میڈیا ہاؤسز بشمول چھوٹے بڑے سب اور خدا کیلئے اپنے بنیادی صحافتی منشور کوہمیشہ یاد رکھیں اور وہ یہ کہ صحافت ، صحیفوں سے نکلی ہے اور وہ صحیفے جو قدرت نے اپنے پاکیزہ بندوں کو انکی رہنمائی اور دنیا کی رہنمائی کیلئے اتارے ۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب طرفین کی صحافت کو ترک کردیا جائے۔

loading...