بدھ، 7 فروری، 2018

ریاست کے سیاسی کاروباری!

 تحریر:شیخ خالد زاہد 
ایک طرف توپاکستان ہمیشہ سے ہی معاشی بحرانوں کی آماجگاہ رہا ہے مگر دوسری طرف اس ملک کے معزز سیاستدانوں کے کارخانے منافع بخش ہونے کیساتھ ساتھ ترقی کی منزلیں بھی طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی اسٹیل مل دیوالیہ ہوچکی ہے مگر ہمارے حکمرانوں کے لوہے کے کارخانے منافع پر منافع بنائے جا رہے ہیں ، پاکستان کی ہوائی سروس کی پروازیں ساری دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب بنی ہوئی ہیں مگر نجی ائر لائنز منافع بنا رہی ہیں اسی طرح اور بہت سے ادارے ہیں جو ملکی تحویل میں ہونے کی وجہ سے خسارے کا شکار ہوتے ہی چلے جا رہے ہیں جبکہ یہی ادارے جو نجی ملکیت میں کام کررہے ہیں منافع کے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔بدقسمتی سے ریاست کو ہمیشہ ہی نقصان کے سودوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کی کہی ہوئی وہ ایک بات کے جس نے چائے یا کافی پینی ہے وہ اپنے گھر سے پی کر آئے رہے رہے کر کانوں میں گونجتی رہتی ہے اور یہ گونج قائد کی گرجدارآواز میں گونجتی ہے۔ 
پاکستان کا سیاسی مزاج اور ماحول دنیا سے نرالاہی نہیں ، منفرد بھی ہے کیونکہ جانکاری سے معلوم یہ ہوا کہ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ایوانوں میں پہنچنے والے لوگ ایوانوں میں موجود ہوکر بھی کاروبار سے وابسطہ ہوتے ہوں ۔ وہ اپنے کاروبار کو کسی اور کو سونپ کر اپنے ملک اور قوم کی خدمت کا حلف اٹھاتے ہیں۔ عوام کو یہ کیوں نہیں نظر آتا ہے کہ جن کی چاہت میں دیوانے ہوئے جاتے ہیں وہ دراصل زر سے محبت کرنے والے لوگ ہیں انہیں لوگو سے کیا لینا دینا ، یہ تویکطرفہ محبت ہے اور یکطرفہ محبت کو بطور سزا سمجھا جاتا ہے تو پھر سزا برداشت کرتے رہے ہو اور آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے رہو کیونکہ جن سے محبت کی خاطر اپنا خون تک بہانے سے گریز نہیں کرتے ان لوگوں کی زندگیاں اپنے سے محبت کرنے والوں کی طرح ہیں۔ آخر ان لوگوں کو یہ کیوں نہیں دیکھائی دیتا کہ انکے بچوں کیلئے کیا مراعت ہیں اور انکے سیاسی محبتوں کے بچوں کی کیا مراعت ہیں کیا ان سیاسی امراء کے بچوں نے کبھی ننگے پاؤں زمین پررکھے ہیں یا برسات کے موسم میں کسی ٹپکتے ہوئے کمرے میں رات گزاری ہے۔ کیا کبھی کسی وقت کا کھانا میسر نا ہونے پر بھوک کی شدت کو محسوس کیا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر ایک بار ایوانوں کا رخ کر لیتے ہیں تو پلٹ کر دیکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور یہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی پلٹ کر دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ سیاسی خاندان ہیں، جو نسل در نسل منتقلی کے ساتھ اپنے پنچے سیاسی ایوانوں میں گاڑے ہوئے ہیں۔جماعتیں منشور پر چلتی ہیں جبکہ یہاں تو خاندانی نظام چلتا ہے ۔
اعلی عدلیہ کسی سپاہی کی مانند مختلف محاذوں پر بر سرپیکار ہے اور جو ملک میں حقیقی معنوں میں انصاف کو بحال کرنے کیلئے پرعزم دیکھائی دے رہی ہیں اور ہمارے جج صاحبان مسلسل ان سیاسی خاندانوں کی زد میں ہیں۔ انصاف کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ، قدرت نے جن سے یہ کام لینا ہوتا ہے ان لوگوں میں تحمل اور برداشت کوٹ کوٹ کر بھرا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معززین اتنا سب کچھ فطری صلاحیتوں کے بغیر برداشت کرنا ممکن ہی نہیں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ائین بنانا ایوان کا کام ہے تو عدالتیں ان قوانین کو جو ایوان بناتا ہے عدالتوں کا کام انکے مطابق فیصلے سناناہوتا ہے۔ اب اس قانون کا جواز بھی فوت ہوجاتا ہے کہ ایوان موروثی سیاست کے خاتمے کیلئے کسی قسم کی قانون سازی کرے گی۔ 
پاکستان کی دوبڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جو موروثی سیاست کی بھرپور علم بردار ہیں گزشتہ دنوں اس بات کی توثیق کرتی دیکھائی دیں جوکہ ہم سب نے دیکھا بھی اور سنا بھی ۔ موروثی سیاست کا مطلب یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ ملک میں یہ سیاسی ہنر عام نہیں ہے اگر سیاسی جماعتوں کا پنڈورا بکس کھولا جائے گا توچند ایک کو چھوڑ کر تقریباً سیاسی جماعتیں موروثی سیاست کرتی دیکھائی دینگی۔ یہ عجیب لوگ ہیں ایک طرف تو موروثی سیاست پر تنقید بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف جلسوں میں اپنے موروثیت کا اعلان بھی کرتے سنائی دیتے ہیں۔ 
اعلی عدلیہ اور سیاسی کاروبارکرنے والوں کے درمیان آہستہ آہستہ خلیج بڑھتی سجھائی بھی دے رہی اور دیکھائی بھی دے رہی ہے۔ عدلیہ اور فوج کئی بار اس بات کو باور کرا چکے ہیں وہ جمہوریت کے راستے میں نہیں آنا چاہتے اور نا ہی جمہوریت کی ریل گاڑی کو پٹری سے اترتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ لیکن اس بات کو حتمی نہیں سمجھنا چاہئے جوکہ ہمارے کچھ سیاستدان سمجھ بیٹھے ہیں۔ کیونکہ اداروں کے درمیان تصادم بھی ہوتا دیکھائی دے رہا ہے اور خلیج پیدا ہوتی بھی دیکھائی دے رہی ہے اب ایسی صورتحال میں ملک کی باگ ڈور تو کسی نا کسی کو سنبھالنی ہوتی ہے ۔ 
ہم بطور عوام اس بات کو کیوں محسوس نہیں کر رہے کہ ملک میں جن کی حکومت ہے وہ خود ہی سراپا احتجاج بن کر گھوم ہی نہیں رہے بلکہ پے در پے اعلی ترین اداروں کو تنقید و تحضیک کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آفرین ہے ان لوگوں پر جو اپنے ایسے اداروں پر اٹھنے والی انگلیوں کو برداشت کیسے کرتے ہیں۔ 
یہ بات ہماری سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ یہ لوگ ملک میں ناتو جمہوریت کو پنپنے دینا چاہتے ہیں اور نا ہی مارشل لاء کے حمائتی ہیں یہ ملک میں اپنا اپنا خاندانی نظام قائم کرنے کی جستجو میں ہیں اور انہیں ہماری مدد صرف اپنے نام کے ایک ووٹ کیلئے درکار ہے ۔ ہم جب تک اپنے اوپر لادے ہوئے لسانیت اور فرقہ پرستی کے خول سے باہر نہیں نکلیینگے اپنی آنکھوں پر سے شخصیت پرستی کی عینک نہیں اتارینگے ہم صحیح فیصلہ کر ہی نہیں پائینگے اگر واقعی آپکو پاکستان سے محبت ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپکے خلوص میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہے تو پھر دل و دماغ کو پاکستان کی بقاء کیلئے اور اپنی فلاح کیلئے صحیح فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ یہ فیصلے کا سال ہے اور ہماری نسلوں کی سلامتی کا سوال ہے۔ اب بھی اگر ان سیاسی کاروباریوں سے نجات حاصل نا کی تو پھر یونہی زینب رندتی رہے گی ، یونہی نقیب و انتظار قتل ہوتے رہینگے ، یونہی قانون قاتل بنا رہے گا اور ہمارے گھروں میں یونہی صفے ماتم بچھتی رہیگی اور ان پر بیٹھ کر ہماری مائیں بہنیں اور بچے ہماری خون آلود لاشوں پر سینہ کوبی کرتی رہینگی، تماشہ بنتی رہینگی۔


حسین وادی سوات ایک بار پھرشہیدوں کے لہو سے تر

 حسین وادی سوات ایک بار پھرشہیدوں کے لہو سے تر
 ہفتہ کی شام ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے8 کلومیٹر دور واقع قصبہ کبل جو سوات سے گذرنے والی مرکزی شاہراہ کے بالکل ساتھ دریائے سوات کے کنارے آباد ہے میں آرمی یونٹLk19 کے سپورٹس ایریا میں والی بال کا میچ کھیلا جا رہا تھا جسے دیکھنے کے لئے مقامی افراد کی کثیر تعداد بھی موجود تھی کہ اسی دوران خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا جس کے نتیجہ میں ایک افسر سمیت چار اہلکار موقع ہر ہی شہید ہو گئے جبکہ سات شدید زخمی حالت میں سیدو شریف ہسپتال پہنچ کر خالق حقیقی سے ملے یوں مجموعی طور پر11اہلکار شہید جبکہ 13زخمی ہوئے، دھماکہ اس قدر زور دار تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سن گئی ،دہشت گردی کے اس المناک واقعہ کے بعد فوری طور پر ساتھ گذرنے والی مرکزی شاہراہ کو بند کر کے پورے علاقہ کو سیکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کا آغاز کر دیاتمام داخلی و خارجی راستوں پر چینکنگ کا عمل سخت کر دیا گیا،زخمیوں کو ریسکیو کر کے سیدو شریف کے سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا،اس خود کش حملہ میں کیپٹن جاذب ،نائب صوبیدار زاہد،دفعدار ندیم ،اور ابراہیم،ایل ڈی آصف اعجاز،مہر خان،شکیل،سوار محمد آصف،ندیم،ضیافت اور این سی بی منور شہید جبکہ زخمیوں میں کیپٹن عدیل ،ایل ڈی مجید ،عارف،منور ،مجاہد ،طارق ،اے ایل ڈی شاہد ریاض،سوار محمد عامر ،عابد علی،طالب حسین ،دفعدار محمد عالم ،این سی بی حامد علی ،این سی ای محمد عثمان اور ایل ڈی کلرک طارق علی شامل ہیں،سوات میں ہونے والا یہ واقعہ حالیہ برسوں میں سب سے بڑا دہشت گرد حملہ ہے ،اس خود کش حملہ کے بعد سوات میں سیکیورٹی فورس میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور سہولت کاروں کی تلاش میں وسیع علاقے میں سرچ آپریشن کیا جاررہا ہے،غیرملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس دھماکہ کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے ،گذشتہ کئی سال سے اس علاقہ میں امن و امان کی صورتحال بہتر تھی ،سوات میں اس وقت چھ ہزارکے قریب پولیس اہلکار ہیں جن میں زیادہ تر چیک پوسٹوں پر تعینات ہیں،چند روز قبل ہی سی ٹی ڈی نے خفیہ اطلاعات پر کبل کے ایک گھر چھاپہ مار کر مطلوب دہشت گرد سراج خان اور مٹہ کے علاقہ شورا میں سے طالبان کمانڈر محمد علی شاہ جو سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں مطلوب تھا کو گرفتار کیا تھا،دہشت گردی کے اس بزدلانہ وارمیں شہداء کی نماز جنازہ پشاور میں ادا کئی گئی جس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اعلیٰ فوجی افسران نے شرکت کی جس کے بعد شہداء کے جسد خاکی ان کے آبائی علاقوں میں روانہ کر دئیے گئے ،آرمی چیف نے سی ایم ایچ میں زخمی اہلکاروں کی عیادت بھی کی، صدر مملکت ممنون حسین نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ،وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا بزدلانہ حملوں سے دہشت گردی کے خلاف عزم متزلزل نہیں ہو گا ملک میں فساد پھیلانے والوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے،عمران خان نے کہا ملک میں ایسے عناصر کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ان کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری،مریم اورنگ زیب،احسن اقبال،شہباز شریف،ڈاکٹر طاہر القادری اور جماعت الدعوۃ کے ترجمان یحیٰ مجاہد سمیت متعدد شخصیات نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی،ماضی میں 2007میں شدت پسندوں نے جنوبی وزیرستان کے گیٹ وے ٹانک پر حملہ کر کے اسے تہس نہس کرنے کی مذموم کوشش کی شمالی وزیرستان سے ملحق بنوں کے علاوہ مردان چارسدہ اور کوہاٹ بھی ایسی خبروں میں رہے لیکن حکومتی رد عمل کی وجہ سے جندولہ اور پکا خیل کے علاقوں میں راستے بند ہو جانے پر ان کی قوت مفلوج ہو کر رہ گئی تو اسی وجہ سے وزیرستان کے بعد شدت پسندوں نے جو فرنٹ کھولا وہ انتہائی شمال میں باجوڑ تھا باجوڑ میں قدرے کامیابی کے بعد سیکیورٹی فورسز کی توجہ منقسم کرنے کے لئے شدت پسندوں نے سوات کا انتخاب کیا جو ان کے لئے بہت زرخیز ثابت ہوا کیونکہ یہاں اس سے قبل ہی شریعی نظام کے لئے چلنے والی تحریک اور کمزور حکومتی رٹ ان کے لئے بہترین تھی،گوریلا جنگ کے ماہر شدت پسند وں کے لئے سوات کے پہاڑ ی علاقے بنوں اور ٹانک کے لئے بھی موافق تھے 2007میں مولانا صوفی محمد کے داماد مولانا فضل اللہ جو اس وقت ہر دم پاکستان مخالف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اسی سال اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن کے بعد سوات کے شدت پسند متحرک ہوئے اور مولانا فضل اللہ نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا اعلان کر دیا،15جولائی 2007کوسوات میں پہلا خود کش حملہ ہوا جس میں 13ایف سی اہلکار اور 6شہری شہید ہوئے اسی سال فضل اللہ نے شرعی عدالتیں قائم کر دیں،نومبر میں جنرل پرویز مشرف کے حکم پر فوج نے سوات کو شدت پسندوں سے پاک کرنے کے لئے آپریشن راہ نجات کے تحت فوج داخل کر دی اپریل2008 میں امام ڈھیرئی جو کہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کا ہیڈ کوارٹر تھا پر فوج نے قبضہ کر لئا بعد میں اے این پی نے شدت پسندوں کے ساتھ 21نکاتی امن معاہدہ کیا جو کامیاب نہ ہوا دسمبر میں ایک بار پھر شدت پسندوں نے سوات کے 75فیصد حصہ پر قبضہ کر لیا جس پر فوج نے راہ حق 2آپریشن کا آغاز کیا لیکن سرحدی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے وہ زیادہ کامیاب نہ ہوا اور فرور ی 2009میںنظام عدل پر آمادگی ظاہر کی اور یوں صوبائی حکومت نے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مولانا صوفی محمد کے ساتھ دستخط کر دئیے ،اسی آڑ میں شدت پسند پہلے تویہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے مگر بعد میں تازہ دم ہو کر اس علاقے میں پھر سے متحرک ہو گئے جس پر سیکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف بھرپور کاروائی کا آغاز کر دیا درجنوں جھڑپوں میں کئی سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ ہزاروں شدت پسند جہنم واصل ہوئے لاکھوں افراد محصور ہو کر رہ گئے اسی آپریشن کے بعد سوات کے علاقہ میں امن قائم ہوا،سوات کے نامور شدت پسندوں میں مولانا فضل اللہ جو اس وقت بھی افغانستان میں سے پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے،حاجی مسلم خان،سراج الدین ،اکبر حسین،شاہ دران ،محمود خان،نثار احمد،میاں گل غفور،لعل دین عرف بڑے میاں،شیر محمد قصاب اور ابن امین قابل ذکر ہیں جو انتہائی خطرناک تھے، سوات جسے پاکستان کا سوئٹرزلینڈ بھی کہا جاتا ہے دارلحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب 254کلومیٹر اور پشاور سے 170کلومیٹر دوری پر ہے جس کا رقبہ5337مربع کلومیٹر ہے اس کے شمال میں چترال ،جنوب میںبونیر ،مشرق میں شانگلہ ،مغرب میں ضلع دیر اور مالا کنڈ ایجنسی کے علاقے اور جنوب مشرق میں سابق ریاست امب کا خوبصورت علاقہ واقع ہے،سوات کو تین سطعی عاقوں بالائی سوات،زیریں سوات اور کوہستانی سوات میں تقسیم کیا گیا ہے، سر سبز و شاداب ،وسیع میدانی علاقوں جہاں خوبصورت مرغزار ،شفاف پانی کے چشمے اور دریا اسے دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں شامل کرتے ہیںسوات کا شمالی علاقہ کی ترقی میں ایک کردار ہے ،سوات ایک کوہستانہ ضلع ہے کوہستانہ اس علاقہ کو کہتے ہیں جو فطرت کے قریب ہو یعنی قدرتی طور پر خوبصورت جہاں پودے،درخت ،خوبصورت دریا اور فضا ہو،ماضی میں یہ ایک ریاست تھی جسے1970میں ضلع کی حیثیت دی گئی مالا کنڈ کا صدر مقام سیدو شریف اسی ضلع میں واقع ہے،سوات میں زیادہ تر چھوٹے چھوٹے گائوں ہیں ،سوات میں سیر و سیاحت کے لئے خاص کر مالم جبہ،کبل،سیدو شریف،شریف آباد خوازہ خیلہ،بحرین،مدین ،کالام ،مٹہ ،سری کوٹ،چارہااور مینگورہ وغیرہ شامل ہیں یہ ضلع سنٹرل ایشیائی تاریخ میں علم بشریات اور آثار قدیمہ سے مشہور ہے بدھ مت تہذیب وتمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شہرت ملی اس کا دوسرا نام باغ بھی ہے،مالم جبہ ایک ایسا سیاحتی و تفریحی مقام ہے جو پاکستان میں برف کے کھیل اسکی کا واحد مرکز ہے اور گائوں ڈاگے جو کبل سے محض دو کلومیٹر دور ہے اس گائوں کے زیادہ تر لوگ تعلیم یافتہ اور بیرون ملک کام کرتے ہیں،پاک فوج کی جانب سے موسم گرما میں جشن سوات کے رنگا رنگ فیسٹیول ہر سال منعقد ہوتے ہیںمگر ایک بار اس حسین وادی کو لہو سے رنگ دیا گیا ہے ۔
رابطہ کیلئے:0300-6969277






loading...