جمعرات، 8 فروری، 2018

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جائو گے!

تحریر:شیخ خالد زاہد
آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیادڈھاکہ میں دسمبر ۱۹۰۶ میں رکھی گئی اور برصغیر میں مسلمانوں کی نمائدہ جماعت کے بانی نواب وقار الملک تھے ، وقت اور حالات کیساتھ تبدیلیاں آتی گئیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کی وجہ شہرت محمد علی جناح بن گئے اور اس جماعت نے قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں پاکستان حاصل کرلیا۔ پاکستان کی سیاست ،سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے مرہون منت ہوتی ہے ، اس سیاست میں نا تو سیاسی جماعتوں کا عمل دخل ہوتا ہے اور ناہی ان جماعتوں کے منشورکا۔ یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخض جوکہ جماعت کا سربراہ ہوتا ہے وہ ہی منشور ہوتا ہے اور جماعت اسی سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتی ہے۔ ہم پاکستانیوں نے یہ بات سمجھنے میں دیر کردی ، ہمیں اسی وقت سمجھ آجانا چاہئے تھا جب پاکستان مسلم لیگ قائدِ اعظم کے ساتھ ہی دفن کردی گئی تھی، اس مسلم لیگ کی داغ بیل کسی اور نے ڈالی تھی مگر اس وقت وہ پاکستان نہیں تھا ، جب سے پاکستان بنا ہے کوئی بھی فرد اپنے منشورکی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت بنا لیتا ہے اور کچھ نامعلوم ارباب اختیار اس کو اپنے کسی خاص مقصد کیلئے ایک وقت تک استعمال کرتے ہیں پھر یا تو اس جماعت کا سربراہ نہیں رہتا یا پھر وہ جماعت نہیں رہتی ہاں البتہ وہ منشور بتدریج تقسیم ہوجاتاہے اور جماعت سے کچھ وابستہ لوگ اس میں سے نکل کر نئی جماعت بنالیتے ہیں۔ حقیقتاًسیاسی مقاصد سوائے کاروبار کہ اور کچھ بھی نہیں ہیں اگر ہوتے تو پاکستان اور پاکستان کی عوام کی جو حالت ہے ایسی کبھی نا ہوتی ۔ 
مذکورہ بالا معاملہ نا تو پیچیدگی لئے ہوئے اور نا ہی کسی سے پوشیدہ ہے ، ہر کھلی آنکھ رکھنے والاپاکستانی سمجھتا بھی ہے اوراچھی طرح سے یہ سب جانتا ہے۔ کسی بھی جماعت سے وابسطہ افراد کے مقاصد کی ترجیحات میں تبدیلی ، جماعت میں شگاف ڈالنے کا بنیادی عنصر ہوسکتا ہے۔بدلتی ہوئی دنیا کی روشوں میں ہر روز طلب اور رسد میں فرق آتا ہے یہ فرق ہی تبدیلی کا پیش خیمہ بنتا چلا جاتا ہے۔ کچھ بنیادی اصول اور اقدار ہوتے ہیں جو جماعتوں کو منظم رکھنے اور ایک دوسرے کے مزاج کے خلاف ہونے کے باوجود جڑے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اب اسے جمہوریت کا حسن کہہ کر سب کچھ اپنے آنکھوں سے تباہ و برباد ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھئے کہ کس طرح سے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی بنیاد پر برسوں کے تعلقات بھینٹ چڑھا دئیے جاتے ہیں۔ 
حالیہ اس جمہوری طرز کے مزاج رکھنے والے پاکستانی سیاست میں ایک معتبر نام رکھنے والے مشاہد حسین سید صاحب نے مسلم لیگ (ق) سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی، ان کے اس اقدام سے انکی ذاتیات پر سوالیہ نشان اٹھ گیا اب وہ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کرینگے۔ سید صاحب کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے جمہوریت کیلئے بہت کچھ کیا ہے ، اگر یہ جملہ سوشل میڈیا پر لکھاجاتا تو بہت سارے ایموجی اسکے ساتھ لگائے جاسکتے تھے۔ یہ لکھنا تکلیف کا باعث ہے کہ کوئی بھی جماعت اپنی تقسیم کی بدولت انجام کو پہنچنا شروع ہو جاتی ہے ۔ ہمارے ملک میں کتنی ہی کلعدم تنظیمیں اپنے منشور کیساتھ اپنی قیادت کے ساتھ نام بدل کر اپنا مشن رکنے نہیں دیتیں تو پھر وہ سیاسی جماعتیں جنہیں کلعدم بھی قرار نہیں دیا گیا ہو کیسے ختم ہوسکتی ہے۔ اس بات سے واجبی اختلاف تو کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی جماعت کا بنیادی منشور جماعت کی تقسیم کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوتا، کیونکہ جس کسی مقصد کے حصول کیلئے جماعت قائم کی جاتی ہے وہ قائدین کے ذہنوں سے کسے نکالا جاسکتا ہے ۔ 
ایم کیوایم سندھ میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو سندھ میں کمزور کرنے کیلئے بنائی گئی ۔ ایم کیو ایم بن تو گئی لیکن پہلے دن سے ہی عدم تحفظ کی آب و ہوا میں پلتی اور بڑھتی چلی گئی ۔ ایم کیو ایم کا وجود جامع کراچی میں تشکیل پایہ تھا تو اس سے وابسطہ ہونے والے کراچی کا اعلی تعلیم یافتہ طبقہ تھا۔ ایم کیوایم کا مسلئہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے مختلف دیکھائی دیتا ہے، ایم کیو ایم والوں کو کیا کچھ نہیں کہا گیا اور کہا جاتا ہے مگر یہ جماعت اپنے قائد کی طبعی غیر موجود گی کے باوجود بھی منظم طریقے سے چلتی رہی ۔ اس جماعت کو بارہا دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ، طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان الزامات کے غلط ثابت کرنے والے بھی منظر عام پر آتے رہے ، یہ جماعت ایک منظم تنظیم ہونے کے باعث اپنی بقاء کی جنگ لڑتی ہوئی یہاں تک تو پہنچ گئی ہے مگر اس ایم کیوایم کی اوائل کا تعلیم یافتہ طبقہ کہیں بہت پیچھے رہے گیا اور تعلیم کو بیکار اور وقت ضائع کرنے والی شے سمجھنے والے اس تنظیم میں اکثریت کی صورت میں جمع ہوگئے اور انہوں نے جیسے قیادت کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والا ہر شخص مشکوک ہوتا چلا گیا، کراچی جو ناصرف برقی قمقمو ں کے جلنے سے روشنیوں کا شہر مانا جاتا تھا وہیں علم و شعور کا مرکز بھی تھا ۔ایم کیوایم پر اس سے بڑا کوئی الزام نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے تعلیم جیسے زیور کو کسی خاطر میں نہیں رکھا اوراس پر بلکل دھیان نہیں دیا اپنی تنظیم سازی میں رکنیت سازی میں تعلیم کا کوئی میعار نہیں رکھا ۔ شائستگی اور ادب جو کراچی کی تہذیب تھی آج کہیں دروازوں کے پیچھے بیٹھی سسکیاں لیتی ہے اور ان سسکیوں کی صدائیں سارے شہر میں سنی جاتی ہیں۔ کراچی کے قبرستانوں میں جتنی نوجوانوں کی قبریں ہیں اتنی عمر رسیدہ لوگوں کی نہیں ہیں۔ کراچی کا تقریباً ہر نوجوان کسی نا کسی نشے کی لت میں لتھڑا ہوا ہے۔ کراچی والوں نے ایم کیوایم پر ایسا بھروسا کیا جو شائد ہی اس ملک کی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت پر اس کے چاہنے والوں نے کیا ہوگا۔ یہ کراچی والوں کا ہی حوصلہ اور ہمت ہے کہ اتنے نا مصائب و حالات کے ساتھ جی رہے ہیں لیکن ابھی تک اف نہیں کررہے ۔ ایم کیوایم اپنی ان مسلسل بے دھیانیوں اور شہر میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر کچھ بھی نا کرسکی اور ایم کیوایم کا ووٹر بد ظن ہوتا چلا گیا۔ درحقیقت ایم کیوایم کے کاندھوں پر نسلوں کا بوجھ ہے اور یہ ایسا بوجھ ہے جسے کہیں پھینکا نہیں جاسکتا اور نا ہی منتقل کیا جاسکتا ہے۔لیکن ایک سوال ملک بڑی سیاسی جماعتیں جو ایم کیوایم کو تمام تر خرابیوں کیساتھ سیاسی اتحاد کیلئے سر آنکھوں پر بیٹھاتی رہیں کیا وہ کراچی کی تباہی کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں جنہوں نے اپنے مفادات کیلئے کراچی میں قدم جمانے کیلے ، ایوانوں میں اعلی عہدے لینے کیلئے کیوں ایم کیوایم کو باربار اپنا حلیف بنایا۔ اگر یہ جماعت ملک کیلئے اتنی ہی نقصان دہ تھی تو کیوں بروقت اقدامات نہیں کئے گئے۔ 
ایک طرف جب ملک میں تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان صاحب اپنے بام عروج پر پہنچے ہوئے اور ملک کو ہرقسم کی تقسیم سے نجات دلانے کا عزم لئے ہوئے ہیں ، تو ایسے میں پاک سرزمین پارٹی کے وجود نے محترم مصطفی کمال صاحب کی سربراہی میں کراچی میں جنم لیااس جماعت کے سربراہ بھی عمران خان کی سیاسی بصیرت سے متاثر نظر آتے ہیں اور انہیں کی طرز کا منشور لئے اپنی پیش قدمی شروع کی ہے ۔ پی ایس پی کا وجود میں آنااس بات کی دلیل سمجھی جاسکتی ہے کہ اب ایم کیو ایم کو سیاسی دائو پیچ سے پس پشت دھکیلنے کی کوشش کی جائے گی ۔پاکستان کا وجود غیر مرئی طاقتوں کی مدد سے عمل میں آیا ہے اوریہاں بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی طاقت اس سارے عمل کے پیچھے موجود ہوتی ہے ،جو قدرت کے بعد ہمیشہ ہی رہتی ہے اور انتہائی منظم بھی ہے۔ایم کیوایم سے دیرینہ مائنس ون کا تقاضا تھا وہ پورا ہوگیا ، ایم کیوایم کے قائد پر پابندی لگائی گئی اور انہیں منظر عام و خاص سے ہٹا دیا گیا ، ایم کیوایم نے اپنے نام کیساتھ پاکستان لگا لیااور ایم کیوایم اپنے مرکز سے بے دخل کردی گئی (عنوان کے توسط سے)اور ابھی تک مرکزیت ڈھونڈ رہی ہے ۔ اب ایم کیوایم کی پھر تقسیم ہوئی اور پاکستان اور لندن کے لحیقے لگا دئیے گئے پھر ایم کیوایم پاکستان میں حالیہ تقسم کی خبریں گردش کر رہی ہیں جن کے ساتھ ایم کیوایم پاکستان (پی آئی بی) اور (بہادرآباد) لکھا جانے والا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ۱۹۹۲ میں ایم کیوایم (حقیقی) سے شروع ہونے والا سلسلہ۲۰۱۸ میں ایم کیوایم پاکستان (پی آئی بی) اور (بہادرآباد)تک پہنچ چکا ہے ۔ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کیا قیادتیں تقسیم ہوئی ہیں یا کارکنان بھی تقسیم ہوچکے ہیں ۔ ہم کسی کے جلسے کی بنیاد پر اسکے ووٹر ز کا اندازہ نہیں لگا سکتے اور ویسے بھی اب وہ وقت دور نہیں ہے جب ووٹ ہی فیصلہ کن کردار ادا کرینگے۔اس مضمون کے اختتام پر اپنے قارئین کی نظر اقبال عظیم صاحب کی ایک بہت ہی خوبصورت غزل جس کا ایک مصرعہ بطور عنوان لیا ہے کے چنداشعار پیش کرنا چاہونگا ؛ 
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جائو گے
خواب ہو جائو گے افسانوں میں ڈھل جائوگے
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جائو گے
تم ہو اک زندہ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جائوگے
صبح صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں 
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جائو گے
اس مضمون کے توسط سے تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے ،مسائل پر سیاست نا کریں مسائل کے حل کیلئے سیاست کریں ، پوائنٹ اسکورنگ چھوڑدیں اب عوام بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے والی ہے ، ملک کے اداروں کی تعظیم و تکریم کا خصوصی خیال رکھیںکیونکہ نئی نسل آپ کو دیکھ کر آگے بڑھے گی اور اب وہ وقت آچکا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ کوئی سیاسی ضابطہ اخلاق مرتب دیں جس میں سیاست کو تقویت دینے پر زور دیا جائے نا کہ سیاست دانوں کو۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کئے بغیر کام کریں اور ایک دوسرے کی عزت و احترام یقینی بنائیں۔ بدعنوانی کسی بھی نوعیت کی ہو کسی دیمک سے کم نہیں ہوتی اور ہمارا ملک پاکستان اب اور بدعنوانیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ ہمیں اس بات کا خصوصی خیال رکھنا ہے کہ اپنے مرکز سے دور نا نکل جائیں۔ 

اسلام سے انحراف ،منافق ،مرتد اور یورپ کا رخ

 اسلام سے انحراف ،منافق ،مرتد اور یورپ کا رخ
منافق کے معنی ہیں نفاق کرنے والا،دو رخی کرنے والا،بظاہر مسلمان اوردل سے اسلام کے خلاف عقیدہ رکھنے والا،نہ نافقا ء و نفقہ ہے جس کے معنی ہیں گوہ(جنگلی چوہا)کا بھٹ،جس کے کم از کم دو منہ ہوتے ہیں ایک دہانے سے کوہ اس میں داخل ہوتی ہے شکاری اس کی جانب متوجہ ہوتا ہے تو دوسرے سوراخ سے باہر نکل جاتا ہے(تبریزی)،اصطلاح قرآن میں نفاق اور منافقت اسی دورخی کا نام ہے بظاہر زبان سے تویہ آدمی مومن ہونے کا تذکرہ کرتا ہے اور دکھاوے کی نمازیں بھی پڑھتا ہے لیکن اس کے دل میں کافر رہتا ہے،اسلام کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے یہ تو ایک ایسا ہے اسے اگر کفر سے نقصان پہنچے تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اور اگر اسلام کے باعث اسے نقصان پہنچے تو فورااپنے کافر ہونے کا اعلان کر دیتا ہے یعنی حقیقت میں عقیدے کا نہیں بلکہ مفاد کا آدمی ہوتا ہے اسی لئے اس کی زبان اور دل میں ہم آہنگی نہیں بلکہ وہ دل میں اپنے مفادات کی ہر وقت پرورش کرتا رہتا ہے اور زبان پر اسی بات کو لاتا ہے جس سے اس کے دل میں اگنے والی فصل کی آبیاری ہو سکے ،اسلام کے بنیادی عقائد جس پر مسلمانوں کے کسی فرقہ میں کوئی اختلاف نہیں ان میں سے بنیادی عقیدہ یہی ہے کہ ۔حضرت محمدﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں،گذشتہ روز آزاد کشمیر کی اسمبلی نے بھی قادیانیوں کو آستین کا سانپ کہتے ہوئے آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا،لیبیا کے قریب سنہرے خواب سجائے پاکستانیوں سمیت درجنوں افراد کشتی الٹنے سے لقمعہ اجل بن گئے،پاکستان میں بدترین مالی و معاشی حالات کی بدولت ہر غریب آدمی دیار غیر باالخصوص یورپ جانے کے لئے سرگرداں ہے مگر مسلمان جس کا عقیدہ ختم نبوتﷺ پر پختہ یقین ہے وہ مسلمان ہے وہ مر تو سکتا مگر رسول عربی ؐ ؑ سے کسی صورت انحراف یا رخ نہیں موڑ سکتا ،مگر منافقین کے لبادے میں چھپے اب بھی ایسے خبیث موجود ہیں جو اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر مرتد ہونے میں لمحہ کی بھی کی تاخیر نہیں کرتے،قادیانیوں کا عیسائیوں،یہودیوں کی آشیر باد پر یورپ،پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلا نیٹ ورک ایسے خبیثوں کے لئے ہر مدد اور معاونت کے لئے تیار رہتے ہیں،ربوہ پاکستان میں کفار کی مدد سے مزرائیوں کی پوری ریاست قائم ہے،عام غیر مسلم کا تو عقیدہ ختم نبوتؐ پر یقین ہی نہیں اس کے بر عکس قادیانی ایک ایسا گروہ ہے جو ہر لمحہ،ہر جگہ ،ہر وقت توہین رسالتﷺ میں مگن اور پیش پیش ہیں،ملک کے کونے کونے میں اس تبلیغ کاعمل جاری ہے ،پاکستان کے ہر اہم محکمہ میں قادیانی اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں،اب تک لاکھوں پاکستانی دین اسلام سے مرتد ہو کر خاندانوں سمیت یورپ میں جا کرمنافقین کا وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو حضور اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں بھی تھا،ان میں کئی ایسے ہیں جو نئے سرے سے قادیانیت میں گئے اور دوسری قسم ایسی ہے جن کے ابائو اجداد یا اب بھی کئی خاندان مرزائی ہیں وہ آف دی ریکارڈ تمام جھوٹی دستاویزات تیار کرنے کے بعد مقامی قادیانی لیڈر سے قادیانی ہونے کا سرٹیفکیٹ لے کر یورپ نکل جاتے ہیں،یہ ایک ایسا عمل ہے جس پر ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی تحریک چلانے والوں کی آنکھیں بند ہیں یا انہیں علم نہیں،پاکستان کے جن علاقوں سے ایسے مرتد لوگ بیرون ملک گئے ہیں وہاں مسلمانوں کے ملی حمیت کو گھن لگ چکی ہیں ان کے دل سلب ہو چکے ہیں،حقیقت یہی ہے کہ مادیت کے اس دور میں سچے مسلمانوں کی بھی کمی نہیں مگر فی زمانہ دین نہیں خود نمائی کا دور دورہ ہے،اسلام سے رخ بدل کر قادیانی ہونے والے تو مرتد ہوئے مگر ان مرتدوں کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ تعلق رکھنے والے کون ہوتے ہیں ؟یہ تو ہمارے علماء ہی بہتر بتا سکتے ہیں،مرازئی بھی اپنے آقا انگریز کے اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں کہ اتنا جھوٹ بولوکہ لوگ اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں،قادیانیوں کا کفر ایک مکمل حقیقت ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔یعنی یہ منافق جب آپؐ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں وہ کلمہ پڑھ کر یقین دلاتے ہیں کہ مسلمان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سب واضح کر دیا،ترجمہ۔اللہ جانتا ہے کہ بے شک یہ منافقین جھوٹے ہیں،مزید فرمایا،منافقین سے جہاد اور قتال کا حکم ہے،اگرچہ کسی کا دل چیر کر نہیں دیکھا جا سکتا کہ یہ مسلمان ہے کہ نہیں مگر ان کے عمل سب کچھ واضح کر دیتے ہیں،مرتد کے معنی ہیں ،غدار،ناقص عہد،جس کا ادعا ہو اسی لا تعلقی،واپس جانا،اسلام سے پھر ہوا شخص،مسلمان جو کافر ہو جائے،مردود،ملعون،کافر،ملحد اور برگشتہ وغیرہ،اسلام میں مسکمانوں کے تبلیغ و ترغیب تو ہے لیکن قاعدہ کے مطابق کسی کو جبراً مسلمان نہیں بنایا جا سکتا لیکن اگر کوئی مسلمان ہے اور وہ بد بخت اسلام سے پھر کر مرتد ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ اور حضرت محمدﷺ کا باغی ہے،جب دنیا میں باغی شریعت محمدی یا کسی بھی مذہب و قوم کی عدالت میںکسی رعایت کا مستحق نہیں بلکہ لٹکانے کے قابل تو اللہ پاک کے لئے وہ کیوں کسی رعائت کا مستحق ہو گاحضرت مکرمہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا جس نے اپنا دین اسلام پر بدل دیا تو اس کو قتل کر دو،حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں جو شخص دین اسلام سے پھر کر کفر کی طرف چلا جائے تو وہ بلا تفریق واجب القتل ہے نہ تو اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی توبہ کا کوئی اعتبار ہے ۔قرآن مجید میں ہے ،بے شک وہ لوگ اپنی پشتوں پر لوٹ گئے(محمد۲۰)،ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ یا محمد رسول اللہ ﷺ کی تکذیب و توہین کا موجب بنے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ،دنیا کے کسی بھی ملک کا رہائشی اپنے ملک اپنے دین (خواہ اس کا دین کچھ بھی ہو)سے بغاوت کرے تو کیا اسے وہ ملک برداشت کر لے گا؟ ہر گز نہیں،کسی صورت نہیں،مسلمان سے قادیانی ہو کر یورپ جانے والے قطعیات اسلام سے انکار کر دیتے ہیں اور بے حائی سے شرعیہ کو ٹھکرانے کو کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے،حضور پاک ﷺ کے وصال کے بعد عرب میں نبوت کے متعدد دعویدار آئے ان میں سب سے زیادہ طاقتور مسیلمہ کذاب تھا جو ایک بہت بڑی جنگ جس میں دشمن کی قوت بہت بڑی تھی جن کے مقابلے میں صرف تیرہ ہزار تھی اسے حضرت حمزہ ؓ کے قاتل وحشی (جو مسلمان ہو چکا تھا)نے ایسا تیر مارا کہ کذاب جہنم واصل ہوا،حضرت خالد بن ولیدؓ نے بھی نبوت کا دعویٰ کرنے والے کئی کذابوں کو کیفر کردار تک پہنچایا، امام بخاری کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ نے بھی بہت سے مرتدین کو قتل کیا،بے دین اور دنیاوی اسائشوں کے لئے دین اسلام کو خیر باد کہنے والوں پھر منافقوں کی طرح اسلام اسلام کی گردان کرتے ہو لعنت ہے تجھ پر ،اس رسول عربی ﷺ کی حرمت و عظمت لازوال اور اتنی بلند ہے کہ اس تک انسانی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی،اس رحمت ا للعالمین سے بڑھ کر دنیا میں اور کچھ نہیں جتنا مرضی کھا لو جتنی مرضی پر آسائش زندگی گذار لو کھائے گی تمہیں مٹی ہی ،منافقوآخرت میں کیا ہو گا ،ایم بار حضرت جبرائیل ؑ تشریف لائے تو گھبرائے گھبرائے سے تھے وجہ تخلیق کائنات ﷺ نے پوچھا جبرائیل کیا بات ہے اتنے پریشان کیوں ہو ؟تب حضرت جبرائیل ؑ نے کہا یارسول اللہ ﷺ آج میں جہنم دیکھ کر آیا ہوں جس کے سات حصے ہیں ،مزید بتایا کہ جہنم کے سب سے برے اور نچلے حصے میں منافقین ہوں گے،غزوہ بد میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جنگ ہوئی تو اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بیٹے عبدالرحمان مسلمان نہیں ہوئے تھے دوران جنگ دو بار حضرت ابوبکر صدیق بیٹے کی زد میں آئے مگر بیٹے نے وار نہ کیا اس بات کا عظیم باپ کو نہیں پتا تھا کئی دن بعد گھر میں باپ بیٹے کے دوران بات ہوئی تو عبدالرحمان نے کہا جنگ میں آپ ؓ کئی بار میری تلوار کی زد میں آئے مگر میں نے باپ سمجھ کر وار نہ کیا،یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق بولے مجھے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میری جان ہے اگر تم میری تلوار کی زد میں آتے تو عشق مصطفیٰ ؑمیں دنیا کی کوئی رشتہ ،کوئی طاقت تمہیں میرے ہاتھوں جہنم واصل ہونے سے نہیں روک سکتی تھی،سبحان اللہ اسے کہتے ہیں مسلمانی اور ختم نبوت پر یقین،غریب گھرانے کے فرد مگر عاشق رسول ﷺ غازی علم دین شہید نے سولی پر جھولنا کیوں قبول کیا؟یہ کوئی کہانہ نہیں بلکہ یہ سب پاکستان بھر میں ہو رہا ،حکومت کے ساتھ مقامی علمائے دین،حقیقی مسلمان چاہے ان کا ان سے جتنا بھی قریبی رشتہ کیوں نہیں،سول سوسائٹی ان سے نہ صرف مکمل بائیکاٹ کرے بلکہ دین اسلام کی اساس کے عین مطابق انہیں مرتد کہ کر ان کے خلاف صف آراء ہوں ،بندہ دوست ہو مرتد کا اور دعویٰ کرے مسلمانی کا ؟ایسے مسلمان ان سے بھی زیادہ گنہہ گار ہیں،ختم نبوتﷺ پر بہت نعرے بازی ہو رہی ہے ،غلامی رسول ﷺ میں موت بھی قبول ہے ،بہت جلسے ہوں رہے ہیں ،بہت احتجاج ہو رہے ہیںمگر وہ سب نظر نہیں آتا جو آپ کے آس پاس توہین رسالت ؐکا عمل جاری ہے،بلاشبہ کذابوں،نے پیروکاروں اور جھوٹوں پر خدا نے تو قرآن مجید میں بھی لعنت بھیجی ہے۔
رابطہ کیلئے:0300-6969277-03446768477

loading...