ہفتہ، 10 فروری، 2018

یہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے

یہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے
آپ کبھی پاکستان کے کسی بھی شہر کا دور ہ کرلیں آپ کو بہت سے قصائی نظر آئیں گے جو انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔اس ملک کا نظام دیکھیں کہ آپ کچھ ملے یا نہ ملے انسانی جانوں کو چیڑنے پھاڑنے کا لائسنس بغیر اجازت مل جائے گا۔آپ آج کوئی بھی دکان کھول لیں اشیاء تیار کریں اس میں گھٹیا سے گھٹیا مال شامل کریں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔آپ دودھ میں پانی ملا لیں یا پاوڈر کوئی نہیں پوچھے گا کیوں کہ لوگوں کو چاہیے تو بس سستی اشیاء یہ نہیں دیکھنا کہ کیا جو چیز ہم خرید رہے ہیں کیا خالص بھی ہے یا نہیں ؟کیا یہاں صفائی کا نظام بہتر ہے؟کیا یہ بیکری کا سامان تیار کرنے والامعیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں ؟دکاندار حضرات سوچیں کیا جو چیز ہم لوگوں کو دینے جارہے کیا یہ محفوظ ہے۔کیا ہم اپنے حقوق ادا کررہے ہیں ۔آپ پاکستان میں موجود ان تمام مقامی و دیگر بیکریز کا حال دیکھ لیں جو مٹھائیاں اور میٹھی چیزیں وغیرہ تیار کرتی ہیں۔آپ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ یہ چیزیں جس برتن میں تیار ہوتی ہیں ان برتنوں میں میل کی تہیں جمی ہوں گی۔آپ کو سڑکوں میں فٹ پاتھوں پر کئی تعداد میں ریڑھیاں نظر آئیں گی جس میں ناقص چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔یہاں سیب کو رنگ لگا کرسرخ کیا جاتا ہے۔یہاں پر گندے پانی سے تیار شدہ سبزیاں نظر آئیں گی۔یہاں مردہ گوشت سے تیار کردہ کھانے ملیں گے ۔یہاں گلے سڑے آلو سے تیار شدہ جپس ملے گی۔یہاں ریسٹورنٹ میں کئی دن کا باسی کھانا ملے گا۔حتیٰ کہ ہر انسان یہاں اپنے مفاد کی خاطر لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے مگرافسوس صد افسوس ان کی روک تھام یقینی نہیں بنائی جارہی۔ان لوگوں کے پاس کیا اختیارہے کہ یہ لوگ انسانی جانوں سے کھیلیں۔انہیں کھلی چھٹی اس لیے حاصل ہے کہ ان کا گھیرا ابھی تنگ نہیں کیا گیا۔میں اکثر یہاں غذائی خرید و فروخت کے حوالے سے جائزہ لیتا ہوں جب یہ حالتِ زار دیکھتا ہوں توبہت دکھ ہوتا ہے۔آخر اس کے لیے کیوں اقدامات نہیں کیے جاتے۔میں جانتا ہوں یہاں حکمران صاحبان کو اس کی فکر نہیں کیوں کہ انہیں سب آسائشیں میسر ہیں انہوں نے یہاں چکر لگا کر نہیں دیکھا کہ یہاں نچلے درجے کے افراد کیسی غذائیں کھانیں پر مجبور ہیں۔یہاں لوگوں کو صاف پانی ،صاف کھانا نہیں مل رہا۔ان لوگوں کو انسانوں نے ہی ووٹ دے کر منتخب کیا ہے۔غریب کا خیال رکھنا، حفاظت و ذمہ داری کا کام انہی حکمرانوں کے سپرد ہے۔آپ کبھی پاکستان کے دیہاتوں کا وزٹ کرلیں۔دیہاتوں کے چھوڑیں بڑے شہروں کا وزٹ کرلیں آپ صحت کے معاملات میں حکومتی لاغرضی دیکھ کر پیٹنے پر مجبور ہوجائیں گے۔یہاںپھل و سبزیاں کیسے محفوظ کر کے فروخت کی جاتی ہیں آپ دیکھیں۔یہاں سڑکوں کے اردگرد لگے ٹھیلے دیکھیں۔کس طرح دیہاڑی کرنے والے اپنے ہی لوگوں کو چونا لگاتے ہیں۔آپ ایک ہی دن کسی بھی شہر کارخ کرلیں آپ کو اسی دن اندازہ جائے گا۔آپ کوہزاروں کی تعداد میں کھانا،سموسہ ،برگرو چپس وغیر تیار کرنے والی معمولی دکانیں نظر آئیں گی اور آپ کھانا بنانے والے لوگوں کی حالت زار اور لباس دیکھئے گا ۔ 
ہم آتے ہیں کہ ان ٹھیلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ۔ان کی تعداد میں مسلسل اضافے کی کیا وجہ ہے۔اس کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری و غربت ہے جنہیں روزگار نہیں ملتا وہ عام شہروںومحلوں میں معمولی دکانیں کھول لیتے ہیں یاکسی نے ریڑھی پر چپس لگا لی تو کسی نے سموسے اور وہی شخص آپ کو اک دن نظر آئے گا پھر اس کے بعد کئی ماہ بعد اسی شخص کو سموسے و چپس وغیرہ کی بجائے اس کے ٹھیلے میں کوئی اور چیز دیکھیں گے ۔آپ کسی جگہ کھانا و ناشتے والی ایک دکان دیکھیں گے پھر کچھ ماہ بعد دیکھیں گے اس کے ساتھ ہی اس کے مقابلے میں کوئی ایسی دوسری دکان موجود ہوگی۔آپ کبھی ان پھیری والوں کا جائزہ لیجئے گا ۔آپ کو پھیری والاگندا جوتا اٹھاتا ہوا نظر آئے گا اور اسی ہاتھ سے بچوں کو چیزیں دیتا نظر آئے گا۔آپ ان کے لباس پر بھی غور کیجئے گا۔ آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں مل رہا ہے ۔چاہے یہ لوگ زہر بھی ڈال کر بیچتے رہے تو پھر بھی لوگ ان سے خریدیں گے اور یہ لوگ اگلے دن آپ کو نظر نہیں آئیں گے ۔صحت کامعاملہ انتہائی سنگین ہے چٹکی بھر زہر بھی انسان کی جان لے سکتی ہے۔ صفائی کا نظام بہتر سے بہتر بنانا ہوگا۔جو صفائی کا انتظام نہیں رکھتا اسے کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کوئی دکان کھولے ۔
میں جانتا ہوں پاکستان میں ایک مسئلہ نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مسائل ہیں ۔اور یہ سب مسائل اتنی آسانی سے حل نہیں کیے جا سکتے۔مگر ان کے ساتھ نمٹنے کے لیے کوئی واضح و ٹھوس حکمت عملی اپنانے کی بجائے بالکل خاموشی کیوںاختیار کی جاتی ہے۔آج چاروں صوبوں کے وزیراعلیٰ صاحبان کو اس مسئلے کا حل سوچنا ہوگا۔مقامی حکام کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔مقامی حکمرانی کا سسٹم انتہائی کمزور ہے جو رشوت و سفارش پر پلابڑھا ہے ان کی توجہ ان مسائل پر نہیں ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے۔اس مسئلے کی وجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑوں زندگیاں خطرے میں ہیں۔جو ناقص غذا کی وجہ سے اکثر موت کے منہ چلے جاتے ہیں۔اس کے لیے ایک صاف شفاف نظام ترتیب دیا جانا چاہیے۔یہاں چاہے کوئی معمولی سی دکان کھولنا چاہتا ہے حتٰی کہ وہ ٹھیلہ اور ریڑھی بھی لگانا چاہتا ہے تو وہ حکومت کی اجازت کے بغیر نہ لگا سکے۔اس کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس کا معائنہ کرے اور دکان دار ہو یا کوئی سبزی والا چاہے کوئی بیکری والا ہو یا دودھ بیچنے والا یا کوئی بھی غذا فروخت کرنے والاہو۔ اس کے لیے باقاعدہ ایک حلف نامہ تیار کی جائے جس میں تمام شرائط موجود ہوں ۔میں صفائی کاخاص خیال رکھوں گا میں کسی چیز میں ملاوٹ نہیں کروں گا میں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔میں اپنا کام دیانت داری کے ساتھ کروں گا۔میں اپنے شعبے کو اپنے مفاد کی خاطر نہیں استعمال کروں گا۔اگر میں کوئی بھی ملاوٹ کرتا ہوں یا میری کوئی بھی تیارہ کردہ چیز صحت کے معیار پر پورا نہیں اتری یا کوئی بھی میری تیارہ کردہ چیز میں خامی دیکھتا ہے تو حکومت میرا اجازت نامہ منسوخ کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے سزا کا مرتکب ٹھہرا سکتی ہے۔یہ حلف نامہ ہر دکاندار کے باہر چسپاں کیے ہو۔اگر کوئی بھی روگردانی کرتا ہے کوئی بغیر حکومت کی اجازت کے بغیر ایک معمولی سا ٹھیلہ بھی لگاتا ہے اس کے لیے کڑی سے کڑی سزا مقرر ہو۔جس میں قید اور جرمانہ بھی ہو۔اور یہ کمیٹی ہر پندرا دن بعد یا ہر ماہ بعد تمام دکانوں کا وزٹ کرے اور تمام انتظامات کی چیکنگ کرے۔کوئی خریدار بھی چیک کرنا چاہتا ہو تو چیک کر سکے۔یقین مانے اگر اسی طرح صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے اس طرح دیانت داری و ایمانداری کے ساتھ حکمت عملی اپنائی جاتی ہے تو پاکستان میں یوں لاکھوں اموات نہ ہو۔یوں پاکستان میں ناقص غذاء کھانے کی وجہ سے لوگ نہ مریں۔یہاں سرعام ملاوٹ نہ ہو۔یہاں موذی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ نہ ہو۔باقی معاملات اپنی جگہ مگر غذائی اشیاء کی فراہمی میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں ہوسکتی۔کسی کو یوں انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔تمام معاملات بالخصوص صحت کے معاملے میں صفائی ہونی چاہیے ۔تمام وزراء و مشیر ابھی آج ہی اس معاملے پرسنجیدگی اختیار کریںاور ایک دن اپنے آرام دہ کمرے سے اٹھے اور یہاں غذائی اشیاء کی عام آدمی تک رسائی کا نوٹس لیںایک ہی دن میں اندازہ ہوجائے گا۔

جمعہ، 9 فروری، 2018

لاہور میں دہشت کی علامت عابد باکسر کس کا آلہ کار تھا ؟

لاہور میں دہشت کی علامت عابد باکسر کس کا آلہ کار تھا ؟
نوے کی دہائی میںپرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا نہ ہونے پر پاکستانیوں کی کثیر تعداد کو نہیں پتا تھا کہ شہر لاہور میں پولیس کی جانب سے کیا ہو رہا ہے ،کون ہے جو پولیس آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ انڈر ورلڈ کا ایک نامی گرامی کردار ہے،صرف وہی لوگ کسی حد تک جانتے تھے جو اخبار بینی کے عادی تھے،اس وقت الراقم خود آئے روز خبروں میں رہنے والے اس کردار کے بارے میں بہت متجسس تھا کہ آخر پولیس کا یہ بادشادہ سلامت کیا چیز ہے؟جسے نہ کسی کا ڈر ہے نہ خوف ،نہ کوئی اسے پوچھنے والا ہے نہ وہ کسی کو جواب دہ ہے،پولیس انسپکٹر عابد باکسربلاشبہ اس وقت لاہور میں دہشت کی سب سے بڑی علامت تھا2007میں منظر عام سے غائب ہونے والے پولیس کے اس نامور کردار کو انٹرپول نے دوبئی سے گرفتار کیا تو کراچی کے انکائونٹرسپیشلسٹ رائو انوار سے بھی کہیں شہرت یافتہ اب دوبئی میں زیر حراست ہے دو روز قبل وہ ملائیشیا سے دوبئی پہنچا تو ائیر پورٹ پر انٹر پول نے تصویر اور اشتہاریوں کی فہرست میں نام کی موجودگی کی تصدیق پر اسے گرفتار کر کے دوبئی پولیس کے حوالے کر دیا،بعض ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ شکنجہ کسے جانے پر عابد باکسر نے سرنڈر کرتے ہوئے خود گرفتاری دی ہے اور وہ اپنی زندگی کی ضمانت اور عدالت تک رسائی کے بعد اہم شخصیات کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے گا،اس سے پہلے اطلاعات آتی رہیں کہ وہ بنکاک،ہامگ کانگ ،ملائیشیا ،دوبئی یا مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں رہائش پذیر ہے،دو ماہ پہلے تقریباًبیرون ملک رہائش پذیر250اشتہاری ملزمان کے ریڈ ورانٹ انٹر پول بھیجے گئے ایک ڈی آئی جی کی سربراہی میں ایک خصوصی سیل قائم کیا گیا جسے ٹاسک دیا گیا کہ وہ بیرون ممالک فرار اشتہاریوںکی گرفتاری کو یقینی بنائے اس پرکئی اشتہاری دوبئی سے بھی دیگر ممالک فرار ہو گئے اور عابد باکسر بھی ملائیشیا چلا گیا،لاہور پولیس نے ابھی تک عابد باکسر کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی ہے، آئے روز کسی نہ کسی پولیس مقابلے کے علاوہ اسے اغنڈہ گردی سے انتہائی شہرت ملی جب اس نے شوبز کی دنیا کی نامور اداکارہ نرگس کو ناراضگی پر شدیدزدوکوب کیا سر کے بال اور بھنویں تک مونڈ ڈالیں،عابد حسین قریشی گورنمنٹ کالج سے تعلیم یافتہ اور باکسنگ کاکھلاڑی ہونے پر بطورسب انسپکٹر پنجاب پولیس میں بھرتی ہوا ،باکسر ہونے کی وجہ سے اس کا نام عابد باکسر سے ہی مشہور ہو گیا،عابد باکسر محکمہ پولیس میں جانے کے بعد بہت جلد اعلیٰ پولیس افسران اورحکومتی شخصیات کا منظور نظر بننے میں کامیاب ہو گیا،جلد ہی لاہور کے مختلف تھانوں میں ایس ایچ او کی کرسی اس کے لئے خالی کر دی جاتی ،لاہور کے تمام جرائم پیشہ گروہ بھی اس انوکھے اور دبنگ پولیس افسر کے رابطوں میں آنے لگے،اعلیٰ سیاسی شخصیات کی سرپرستی پر وہ کسی بھی نوعیت کی بازپرس سے محفوظ ہو گیا،پولیس مقابلے اس کی پہچان بنتے گئے ،کراچی کے رائو انوار کی طرح آئے روز لاہور میں کسی نہ کسی پولیس مقابلے کی خبر اخبارات کی زینت بنتی جن میں عابد باکسر ہی نمایاں ہوتا،ایک محتاط اندازے کے مطابق عابد باکسر نے چھ سالہ پولیسی فرعونیت میں کم از کم65پولیس مقابلوں میں درجنوں افراد کو پار کیا،عابد باکسر نے شوبز انڈسٹری کا رخ کیا تو کئی بڑے بڑے ناموں سے اس کی دوستی ہوگئی معروف ڈانسر نرگس بھی اس کے دوستوں میں تھی مگر اختلاف پیدا ہونے پر اس نے نرگس کو سر عام تشدد کا نشانہ بنایا،اس واقعہ کا مقدمہ 28مارچ2002کو ٹائون شپ میں درج ہوابدترین تشدد کے باوجود نرگس ڈر کے مارے پولیس کے پاس نہیں گئی بلکہ ایک گینگسٹر کے پاس گئی کہ اسے عابد سے بچایا جائے نرگس اور عابد باکسر کے درمیان صلح کرانے میں اہم کردار ممتاز نغمہ نگار اور شاعر خواجہ پرویز نے ادا کیا جس کے بعد نرگس شوبز کی دنیا کو خیر باد کہہ کر زبیر شاہ نامی شخص کے ساتھ شادی کر کے کینیڈا رہائش پذیر ہو گئیں،اس واقعہ کے بعد عابد باکسر شوبز انڈسٹری میںبھی ڈان بن کر ابھرا،عابد باکسر زمینوں،بنگلوں اور ہائوسنگ سو سائٹیوں میں قبضہ مافیا کا بھی سرغنہ بن گیا بھتہ خوری بھی اس کے لئے لازم و ملزوم تھی،جن جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ اس کے بہترین تعلقات تھے ان میں طیفی بٹ،گوگی بٹ گروپ اور ملک احسان گروپ نمایاں ترین تھے جو اس کے اندرون و بیرون ملک رہائش سمیت تمام دیگر اخراجات بھی برداشت کرتے تھے،قانون کا یہ رکھوالا خود کو ہر قسم کے قانون سے بالاتر سمجھتا اس کے نام کی دھاک لاہور میں بیٹھ گئی ،اس کے راستے میں جو بھی آیا اسے اس نے قانون کی طاقت کو غلط استعمال کرتے ہوئے روند ڈالا، طالب علم رہنماء طاہر پرنس ،اداکارہ ماروی ،سٹیج اداکارہ قسمت بیگ کو بھی اسی نے اگلے جہان پہنچایا،گلبرگ تھرڈ میں حالی روڈ پر 7E..1میں برگیڈئیر (ر)نسیم شریف (مرحوم )کے قیمتی پلاٹ پر قبضہ کر لیا اس کے بیٹے کو قتل کرنے کے بعد اس کی بیوہ نورین شریف کو گھر سے اغوا کر کے اس سے پلاٹ کی دستاویزات پر زبردستی دستخط کروانے کے بعد اسے قتل کر دیا گیا اس واقعہ میں اس کے ماموں ظفر عباس ،ماموں زاد بھائی علی عباس باکسر اور ندیم عباس بھی شامل تھے جو لاہور کا بہت بڑا قبضہ مافیا تھا،ندیم عباس اور علی عباس اس قبضہ کیس میں گرفتار ہوئے جنہیں21جولائی 2011کو کیمپ جیل میں ایڈیشنل سیشن جج ایم شہزاد کیانی نے موت و عمر قید کی سزا سنائی گئی عابد باکسر اس کیس میں گرفتار نہ ہوااسے جج نے اشتہاری قرار دے دیا،لاہور کے ایک اور معروف بچہ سکینڈل میں عابد نے ماموں ظفر عباس کے ساتھ مل کر کروڑوں روپے کی اراضی ہتھیا لی،مراکہ میں عابد باکسر نہ صرف994کنال پر مشتمل گجا گارڈن پر قبضہ کیا بلکہ وہاں اس نے ایک گجر خاندان کو ہی غائب کر دیا،عابد باکسر کے ماموں اور ماموں زاد بھائیوں کو ایس پی عمر ورک نے گرفتار کیا تھا اس کے ماموں ظفر عباس پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئے تھے عابد باکسر نے بھتہ نہ ملنے پر تھانہ گجر سنگھ کے علاقہ میں سینما مینجر کو قتل کر دیا،ڈائریکٹر آف کوآپریٹو بینک کا قتل بھی اس کے کھاتہ میں ہے،عابد باکسر اندرون شاہ عالم مارکیٹ کے معروف ٹرنسپورٹر امیر عارف عرف ٹیپوٹرکاں والا پر ایوان عدل میں قاتلانہ حملہ کے کیس جس میں پانچ افراد ہلاک اور ٹیپو زخمی ہوا کے مقدمہ میں بھی نامزد ہیں،اس کے بیرون ملک ہونے کے باوجود بطور ڈان اس کی کاروائیاں جاری رہیں اسے باقاعدگی سے بھتہ ملتا رہا گذشتہ برس اس نے سمن آباد میں کیبل آپریٹر جواد کا قتل ہوا تو اس کیس میں عابد باکسر نامزد ہوا کہ اس نے جواد کو بیرون ملک بیٹھ کر قتل کرایا ہے،عابد باکسر کے خلاف اسلام پورہ،قلعہ گجر سنگھ،مسلم ٹائون،ملت پارک،جوہر ٹائون،ٹائون شپ،سمن آباد ،سبزہ زاروغیرہ میں قتل،اقدام قتل،اغوا،بھتہ خوری سمیت دیگر سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں،یہ اطلاعات بھی منظر عام پر آئیں تھی کہ1998میں پنجاب کی ایک اعلیٰ شخصیت کی جانب سے عابد باکسر کی گرفتاری اور پھر پولیس مقابلے میں اس کی ہلاکت کا ٹاسک ڈی ایس پی عاشق مارتھ (مرحوم)کو سونپا گیا مگر جس دن یہ پلان بنا اسی دن حکومت تبدیل ہو گئی اس سے قبل 1996میں بھی بہاولنگر میں تعینات ضلعی پولیس آفیسر کو ایساٹاسک ملا مگر اس نے انکار کردیاتو اسے فیڈرل کنٹرول روم میں تبدیل کر دیاگیا،1999میں اسے ایک دفعہ گرفتار بھی کیا گیا مگر وہ با اثر پولیس آفیسر بچ نکلا اور اسے شیخو پورہ تبدیل کر دیا گیا اسی دوران اسے آئی جی پولیس طارق سلیم ڈوگر نے نوکری سے برخاست کر دیا،بعد میں انڈر ورلڈ رہا اور2007کے بعد وہ پاکستان چھوڑ گیا،بعد میں وہ کئی بار بیرون ملک سے منظر عام آتا رہا اور حکومتی شخصیات کے ساتھ پولیس افسران پر الزامات عائد کرنے کا دعویٰ کرتا رہااس نے جتنے بھی جعلی پولیس مقابلے کئے ان میں اعلیٰ افسران اور پنجاب کی ایگزیکٹو اتھارٹی شامل ہوتی تھی،سبزہ زار میں بھی اسے ایک پولیس مقابلے کا حکم ملا مگر اس انکارکیا تو یہاں جعلی پولیس مقابلے میں ایس پی عمر ورک نے پانچ افراد کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارا جن میں دو مزدور بھی شامل تھے جو فٹ پاتھ پر سورہے تھے اسی پولیس مقابلے کے مقدمہ میں وزیر اعلیٰ میاں شہبازشریف کا نام بھی شامل ہے ، معلوم ہوا ہے کہ عابد باکسر کی گرفتاری کی خبر سن کر پولیس افسران ،کاروباری اور شوبز کی شخصیات میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ Kبلاک ماڈل ٹائون میں رہائش پذیر اس کے اہل خانہ میں کہرام مچ گیا ہے انٹرپول نے اس کے ساتھی شہباز المعروف سائیں کو بھی گرفتار کر لیا ہے تاہم ان کا ایک خطرناک ساتھی افضال گھونو ابھی تک فرار ہے، 11سال بعد قانون کی گرفت میں آنے والے اس ڈان کے حوالے سے پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے،بہرحال یہ وقت بتائے گا کہ عزیر بلوچ ،رائو انوار کی طرح عابد باکسر کس کا آلہ کا رتھا۔

loading...