بدھ، 14 فروری، 2018

کہیں شکست موروثی سیاست کو تو نہیں ہوئی؟

تحریر:شیخ خالد زاہد
پاکستان پر تو جیسے موروثی سیاست دانوں نے اپنا قبضہ ہی جمالیا ہے ، خصوصی طور پر ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جو خصوصی طور پر صوبائی سطح پر مضبوط گرفت رکھتی ہیں جن میں سندھ میںپاکستان پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اورخیبر پختون خوا میں عوامی نیشل پارٹی انتہائی قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ جماعتیں اپنے وجود میں آنے سے لیکر آ ج تک مخصوص خاندانوں کی میراث ہیں۔ پاکستان کو اس موروثیت سے نجات دلانے کیلئے بہت ضروری ہے کہ کوئی سیاسی جماعت جو فقط منشور کی بنیاد پر کھڑی ہو اور اس منشور کی مکمل بحالی کیلئے اپنی تمام تر کوششیں وقف کردے اور عوام کو اپنے کردار اور عمل سے یقین دلایا جائے کہ نا تو کسی قسم کے مفادات کی سیاست ہوگی اور نا ہی موروثیت کو پنپنے کی اجازت دی جائے گی۔ اگر غور کیا جائے تو اسلام کے دئیے گئے نظام حکومت میں بھی موروثیت کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ جس سے اس بات کو اخذ کرلینا چاہئے کہ موروثیت کسی بھی طرح سے جمہوریت کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی۔ عوام جماعتوں کے منشور پر لبیک کہتی ہے مگر دل کے کسی نا کسی خانے میں اس خاندانی نظام کا جماعتوں پر حاوی ہونا کھٹکتا رہتا ہے ۔ جب سے اس بات کا چرچا کیا جانے لگا ہے تو ظاہر سی بات ہے بہت سے کارکنان اپنی جماعتوں میں موروثیت کو بہت اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں۔ یہ موروثیت بھی جمہوریت کی راہ کی بہت بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو کتنی ہی عوام میں مقبول ہو اگر جمہوری طرز پر کام کرے گی تو دیر پا اور پائیدار ہوگی جسکی وجہ اس جماعت کا نظم و نسق کسی ایک گھر سے نہیں چل رہا ہوگا۔ جماعت اسلامی اور زبوں حالی کا شکار ایم کیوایم وہ جماعتیں ہیں جہاں موروثیت کی کوئی جگہ نہیں رہی ہے۔ دراصل جمہوریت کا راگ آلاپنے والے موروثیت کے چکر سے نکلتے نہیں ہیںجسکی وجہ سے جمہوریت اپنے قدم جما نہیں پاتی ۔ یہاں تک کے ملک کو خاندانی نظام کے طور پر بھی چلانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ 
اس مضمون کا نام دوسروں کو نصیحت خود کو فصیحت بھی رکھا جاسکتا تھا ۔ اگر اس حلقے کا تھوڑا سا تاریخی پس منظر دیکھیں تو یہاں ووٹرز کا اوسط تناسب پچاس سے ساٹھ فیصد رہا ہے جوکہ کافی مثبت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس حلقے کی ایک خاص بات اور بھی ہے کہ یہاں دو امیدواروں کے درمیان ہی مقابلہ رہا ہے ، ان دو کے علاوہ کوئی ووٹوں کی گنتی کی دوڑ میں دس ہزاربھی شائد پار نہیں کر پائے ہیں۔ ۲۰۱۳ کے انتخابات میں اس حلقے سے نواز لیگ کامیاب ہوئی مگر ۲۰۱۵ میں کامیاب امیدوار کی نااہلی کے سبب یہاں سے پی ٹی آئی نے میدان مارا اور ۲۰۱۷ میں جہانگیر ترین صاحب کی نااہلی کے باعث ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر یہ نشست نواز لیگ کے پاس چلی گئی ۔ مختصراً یہ کہ کہانی جہاں سے ۲۰۱۵ میں جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں پہنچ گئی ہے۔ گو کہ مقابلہ دونوں جماعتوں نے خوب کیا اور ایک بار پھر دو جماعتوں میں ہی مقابلہ ہوا۔ نواز لیگ تقریباً ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوتی چلی گئی ہے۔ 
پی ٹی آئی کی شکست کا تجزیہ کرنے سے سب سے اہم جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ آپ اپنے کہے کو کر کے دیکھانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں، لوگ آپ کے پیچھے آپکے عزم اور حوصلے کی وجہ سے چل رہے ہیں اور خان صاحب اگر آپ نے بھی وہی سب کچھ کرنا ہے جو یہ عوام پچھلے ۷۰ سالوں سے بھگتی آرہی ہے تو اللہ ہی حافظ ہے۔ ایک طرف موروثی سیاست کا خاتمہ پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے ، جس پر وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر تابڑتوڑ حملے کرتے رہے ہیںاور بلند و بانگ دعوے کرتے رہے ہیں۔ پاکستا ن تحریک انصاف کی اس نشست پر شکست کوئی خاص بات نہیں ہے ، جبکہ خاص بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں شکست جبکہ اگلے انتخابات سر پر کھڑے ہیں اہمیت رکھتی ہے۔ 
جیسا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین نے اپنے سماجی میڈیا پر یہ پیغام پی ٹی آئی کے کسی حد تک مایوس کارکنوں کیلئے جاری کیا ہے کہ عقل مند اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ خان صاحب کو اس بات کا احساس ہوگیا ہو کہ ان کا یہ فیصلہ کہ یہاں سے جہانگیر ترین کے صاحبزادے کو ضمنی انتخابات میں لڑایا جانا قطعی درست ثابت نہیں ہوا ہے۔ اگر ضمنی انتخابات میں وہ اپنے کسی اور مقامی قدرے کم حیثیت والے امیدوار کو کھڑا کردیتے تو شائد نتیجہ اس کے برعکس ہونے کیساتھ ساتھ ووٹوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ۔ پھر جب جنرل انتخابات کا وقت آتا تو باہمی صلاح مشورے سے لودھراں کی انتظامیہ سے علی ترین کا نام ڈلوا کر اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا آنے والے انتخابات کی تیاری میں اس بات کو کس حد تک اہمیت دی جائے گی کے پی ٹی آئی کے امیدوار بہت سوچ بچار کے ساتھ باہمی ہم آہنگی سے نامزد کئے جائینگے۔ 
اس شکست سے ایک اور خوش فہمی جنم لیتی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی عوام میں روشنی کی کرن جھلکنا شروع ہوئی ہے ، شعور نے باہیں پھیلانا شروع کردیا ہے ۔ یہ ان خوش فہمیوں کی بنیاد ہی ہے کہ عوام نے اس بات کاعندیہ دیا ہے کہ اب جو کہے گا اور نہیں کرے گا تو وہ اسے اپنا قیمتی ووٹ نہیں دینگے۔ جب تک اس موروثی سیاست کو ، اس خاص و عام کے فرق کو اور انسان کو انسان ہونے کا حق نہیں مل جاتا اب ایسے حیران کن کام ہوتے چلے جائینگے۔ انشاء اللہ

عاصمہ جہانگیر

 عاصمہ جہانگیر
پاکستان میں انسانی حقوق کی علمبردار ،اپنے مئوقف پر ڈٹ جانے والی نڈر ،بے باک خاتون معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدر عاصمہ جہانگیر ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے برین ہیمرج کا شکار ہو گئیںانہیں بے ہوشی کی حالت میں فیروز پور روڈ کیایک نجی ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ بے ہوشی کی ی حالت میں جانبر نہ ہو سکیں،اس کی موت کی خبر ملک بھرمیں جنگل کی آگ کی طرح پاکستان کیا دنیا بھر میں پھیل گئی ان کے انتقال کا سنتے ہی چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار،چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ یاور علی ،جسٹس عظمت سعید ،جسٹس آصف سعید کھوسہ،جسٹس عابد عزیز،جسٹس عمر عطا بندیال، چیر مین پی سی بی نجم سیٹھی ،چوہدری اعتزاز احسن،ملک ریاض احمد اور دیگر سیاسی ،سماجی شخصیات اور وکلاء کی کثیر تعداد ان کی رہائش گاہ پہنچ گئی ،ان کی نماز جنازہ لندن میں مقیم ان کی بیٹی کی آمد کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی جس وجہ سے ان کا جسد خاکی نجی ہسپتال کے سرد خانہ میں رکھا گیا اور آج دوپہر دو بجے قذافی سٹیڈیم سے ملحقہ گرائونڈ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی، ہسپتال ذرائع کے مطابق عاصمہ جہانگیر ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی خالق حقیقی سے مل چکی تھیں،آخری بار 9فروری کو آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کی تشریع کے مقدمہ میں عدالت اعظمیٰ میں پیش ہو کر دلائل دینے والی عاصمہ جہانگیر 2جنوری1952کو لاہور میں ہی میں پیدا ہوئیں،کانوننٹ آج جیزسن اینڈ میری سکول میں ابتدائی تعلیم کے بعد کنیئرڈ کالج سے گریجویشن اور پھر پنجا ب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی،پنجاب یونیورسٹی سے فراغت کے بعد کاروباری شخصیت طاہرجہانگیر سے ان کی شادی ہو گئی ،ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں جن میں سے منیزے جہانگیر ٹی وی کی معروف اینکر جبکہ دوسری بیٹی سلیمہ جہانگیر شعبہ وکالت سے وابستہ ہیں ،عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی جو ایک سول سرونٹ تھے ریٹائر منٹ کے بعد سیاست میں حصہ لیا اور کئی بار جیل کاٹی اور نظر بند رہے ،ان کی والدہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں یہی وجہ تھی کہ ان کا خاندان شروع سے ہی سیاسی اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتا تھا،عاصمہ جہانگیر نے1980میں لاہور ہائیکورٹ اور دوسال بعد سپریم کورٹ میںوکالت اختیار کر لی اسی سال انہوں نے اپنی بہن حنا جیلانی کے ساتھ مل کرخواتین کی پہلی لاء فرم قائم کی اس فرم میں مستحقین با الخصوص عورتوں اور چائلڈ لیبر کے لئے فری لیگل امدادی سنٹر زقائم کئے جس کان دستک رکھا کیا جسے جنرل سیکرٹرین منیب چلاتا تھا، ،عاصمہ کو کم عمری میں ہی اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے ڈکٹیٹر جنرل یحیٰ خان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپنے والد کی گرفتاری کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کر دی اس پٹیشن کا فیصلہ ایک سال بعد آیا جب جنرل یحیٰ کی حکومت نہ رہی مگر لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ میں فوجی حکومت کو غیر قانونی اور جنرل یحیٰ خان کو غاضب قرار دیا،عاصمہ جہانگیر نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی جمہوریت کے لئے ان گنت مظاہروں میں حصہ لیا1983وومن ایکشن فورم کے ساتھ لاہور کے مال روڈ پر حدودقوانین کے خلاف ایک بہت بڑے مظاہرے میں بھر پورحصہ لیااس مظاہرے کو تاریٰخی مظاہروں میں سمجھا جاتا ہے،انہوں نے 1983میں اپنی سیاسی و جمہوری سرگرمیوں کا آغاز کیا،ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل آرگنائزیشن کی چیر پرسن رہنے کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی بنیاد رکھی اس کی سیکرٹری جنرل اور چیر پرسن رہیں،ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ خواتین اور بچوں کے حقوق اور حصول کے لئے صرف کر دی، بعد میں عاصمہ جہانگیر نے لاء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری یونیورسٹی آف STگبلن سوئٹرزلینڈ سے حاصل کی اس کے علاوہ کونیین یونیورسٹی اور سائمن فریسرزکینیڈا اور کارنل یونیورسٹی آف امریکہ سے بھی تعلیم یافتہ تھیں،عاصمہ جہانگیر کو اپنی زندگی میں کئی مرتبہ غداری اور توہین عدالت جیسے اکلزامات کا سامنا کرنا پڑا،ان کے گھر پر کئی حملے ہوئے فوج پر کڑی تنقید عاصمہ کی شخصیت کا خاصہ تھی وہ بھی اپنے باپ کی طرح کئی بار جیل گئیں اور نظر بند ہوئیںقیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں،عدلیہ بحالی تحریک میں ان کا کردار انتہائی جاندارتھا،کو چیر پرسن سائوتھ ایشیاء فار ہومین رائٹس ،وائس صدر انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائتس ،اقوام متحدہ کی سپیشل مندوب برائے انسانی حقوق و مذہبی آزدی ایران اورانہیں سری لنکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حقیقت جاننے کے لئے نامزد کیا گیا، جولائی2012 میں عاصمہ جہانگیر نے اپنے قتل کی سازش پر کھل کر بات کر کے ملک میں پہلے سے موجود خوف کی فضا میں مزید اضافہ کر دیا،انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ منصوبہ کسی انفرادی دماغ کی اختراع نہیں بلکہ ایک ایسی سازش ہے جس کے تانے بانے ریاست کے سیکیورٹی آپریٹرز تک جاتے ہیں،عاصمہ جہانگیر کو دنیا بھر میں مشکل ترین حالات میں اپنے دوٹوک مئوقف اور کھل کر اپنے خیالات کے اظہار پر احترام کی نظر سی دیکھا جاتا تھا،بطور وکیل وہ ہمیشہ اس مسلمہ اصول پر قائم رہیں کہ ملزم کو عدالت میں اپنے دفاع کا مکمل حق ہے،سالوں پر محیط اس سفر کے دوران عاصمہ نے کبھی بھی اپنی حفاظت کے معاملے پر خطرے کی گھنٹیاں نہیں بجائیں مگر ایسے خدشات سے ضرور آگاہ کیا وہ ہمیشہ ملک میں موجودترقی پسند جدوجہد رکھنے کے لئے پر عزم رہیں،ان کی زندگی مجموعی طور پر متنازعہ رہی اسی وجہ سے آج بھی سوشل میڈیا پر ان کی وفات پر نئی بحث چھڑی ہو ئی ہے،بہرحال کسی کو ان سے جتنا بھی اختلاف ہو مگر کسی ڈکٹیٹر کے خلاف کھڑے ہونا ،ہیومن رائٹس کے لئے زندگی وقف کرنااور50فیصد مقدمات بغیر فیس کے لڑنا کسی طور کم نہیں،وہ آمریت کے خلاف جمہوریت کی علامت تھیں،عاصمہ جہانگیر کو ان کی خدمات کے پیش نظر حکومت نے انہیں ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا،سویڈن میں انہیں انسانی حقوق کا ایوارڈ رامون میک دیا گیا جسے نوبل انعام کا متبادل قرار دیا جاتا ہے،عاصمہ جہانگیر کے علاوہ یہ ایوارڈ صرف ایڈوڈننوڈن اور ہارسل فرنینڈو نے حاصل کیا،شہریوں کی سرکاری خفیہ نگرانی سے متعلق انتہائی اہم دستاویزات عام کرنے والی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق کانٹریکٹر سنوڈن نے انہیں رائٹ لائیولی ایوارڈ دیا ،عاصمہ جہانگیر نے سویڈش ایوراڈ کا دو لاکھ دس ہزار ڈالر کا انعام ایشین ہیومن رائٹس کے ہارسل فرنینڈو اور ماحولیات کے امریکی ماہر ہل بک کیبن کے ساتھ شیئر کرنا تھا فائونڈیشن کے ڈائریکٹر اولے ولسن ایکل کے مطابق یہ اعزاز جیتنے والوں کو یکم دسمبر کو کونٹار ہوم میں منعقد ہونے والی تقریب میں دیا جانا تھا، اس کے علاوہ پاکستان سمیت دنیا بھر سے انہیں درجنوں ایوراڈز سے نوازا گیا،وکلاء برادری نے عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے ،ان کے انتقال پر وکلاء عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔
مختلف شخصیات کی جانب سے ان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
صدر مملکت ممنون حسین۔قانون دان اور انسانی حقوق کی علمبردارنے ہمیشہ قانون کی بالا دستی اور جمہوریت کے استحکام کے لئے ناقابل فراموش کردار اد اکیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار۔عدالتی نظام میں ان کی خدمات پر کراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری۔ ان کا انتقال ناقابل تلاقی نقصان ہے وہ ایک فرد نہیں بلکہ انسانی حقوق کے لئے مئوثر ترین آواز تھیں۔
سینئر اینکر مبشر زیدی۔عاصمہ نے ہمیشہ آئین اور قانون کی سر بلندی کی بات کی اور ڈٹ کر ہر دور میں آمریت اور غیر جمہوری قوتوں کا سامنا کیا،لاپتی افراد کا معاملے پر مرحومہ نے ہمیشہ حق آواز بلند کی۔
ممتاز قانون دان خالد رانجھا۔عاصمہ جہانگیر اپنی ذات میں ایک انجمن تھیوہ غیرمعمولی خداداد صلاحیتوں کی مالک تھیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گھٹن زدہ ماحول میں بھی ہمشہ حق کا ساتھ دیا۔
سینئر تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس۔عاصمہ جہانگیر کے بڑے کارناموں میں ایک یہ کارنامہ بھی ہے کہ انہوں نے جنرل یحیٰ خان جیسے آمر کی حکومت سے اپنے والد کو جیل سے رہا کروایا۔
اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف۔وہ ایک سخت قانون دان کے طور پر یاد رکھی جائیں گی وہ ایک آواز نہیں بلکہ مشعل راہ تھیں۔
ممتازتجزیہ کار امتیاز عالم۔عاصمہ نے ہر دور میں مارشل لاء کی مخالفت کی ،وہ چائلڈ لیبر کے خلاف تھیں انہیں کئی بار قتل کی دھمکیاں ملیں مگر وہ اپنے مقصد سے ذرا پیچھے نہیں ہٹیں۔
سینئر صحافی مظہر عباس۔عاصمہ جہانگیر بہت بڑی قانون دان تھیں ان کا خلا اتنی آسانی سے پر نہیں ہو گاوہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر کھڑی رہیں اور کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔
شیری رحمٰن ۔عاصمہ جہانگیرسے ان کا گہرا تعلق تھا،پاکستان،انسانیت اور قوانین کے لئے بہت نقصان ہوا۔
بلاول بھٹو زرداری۔وہ پاکستانی قوم کی ایک دلیر بیٹی اور ماں کے انتقال پر غمزدہ ہیںان کی خدمات ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھیں جائیں گی۔
ایچ آر سی پی کے چیر مین ڈاکٹر مہدی حسن۔عاصمہ جہانگیر نے چند روز قبل بتایا تھا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اور وہ بہت جلد طبی معائنے کے لئے ربوہ میں قائم امراض قلب انسٹییوٹ جانے کا رادہ رکھتی ہیں۔
عمران خان۔انسانی حقوق کے لئے عاصمہ نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔

loading...