بدھ، 14 فروری، 2018

تھانے کچہری کی سیاست و عوام

تھانے کچہری کی سیاست و عوام
سیاستدانوں پر کرپشن کے بعد سب سے بڑا ٹیگ تھانے کچہری کی سیاست کا لگتا ہے سیاسی مخالفین کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا جو وہ مدمخالف کو عوامی سطح پر رسوا کرنے کیلئے استعمال کر سکیں اس لیئے یہ ضروری ہے کہ واضع کیا جائے حقیقت سے قریب تر اس سیاست کا اصل ذمہ دار ہے کون!ایک تجزیئے کے مطابق ہماری جھوٹی اناء وناانصافی اس مکروہ سیاست کی داغ بیل رکھتی ہے بحثیت قوم ہم نے سچ کو شجر ممنوعہ بنا دیا ہے ہماری ساری عقل جھوٹ کے تابع ہے جس کا انتہائی رزلٹ تھانے کچہری کی سیاست میں وقت ،پیسے اور جانوں کے ضیاع کی صورت میں نکلتا ہے ہم اپنے ناجائز کاموں کو نکلوانے کیلئے اس سیاست کا بے دھڑک استعمال کرتے ہیں سب سے بڑھ کر ہمارا دارومدار اپنے منتخب عوامی نمائندوں پر ہوتا ہے کچھ عوامی نمائندے تو اس سیاست کا شوق رکھتے ہیں بلکہ انکو لت پڑی ہوتی ہے اور بعض اپنے ووٹروں سے بلیک میل ہو کر اس شجر ممنوعہ کو چکھ لیتے ہیں بعد میں اس شجر ممنوعہ کو چکھنے کا صلہ ان کے مخالفین الیکشن میں طعنے مار کر ان کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچاکر دیتے ہیں کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنامیرے حلقہ 138 این اے کے منتخب عوامی نمائندوں کو ہے سیاستدان الیکشن میں مخالفت کرنیوالوں کو سبق سکھانے کیلئے اس نسخہ کیمیاء کو استعمال کرتے ہیں جیسے آج کل کے نوجوان عشق کرتے ہیں۔
 بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں کسی بھی قسم کی بے ایمانی کرنے دھوکہ دہی ،فراڈ بازی،اور کسی کو دنیاوی چودراہٹ سے ہٹانے خود کو بڑا چکڑ چوہدری ثابت کرنے کیلئے اس قسم کی سیاست کی دوکانداری استعمال کرنا عام سی بات ہے اس قسم کے بندے آخر کار عبرت ناک موت کا شکار ہوتے ہیں اس قسم کی بہت سی مثالیں ہم روزانہ دیکھتے ہیں مگر کیا مجال کہ عبرت پکڑیں ہم سچ بولنے کو گناہ اور جھوٹ بولنے کو ثواب سمھجے بیٹھے ہیں تھانے کچہری کی سیاست کے اصل ذمہ دار ہم عوام ہیں نہ کہ یہ مٹھی بھر سیاستدان اور گائوں کے ڈیرے دار ،کسی پر ذیادتی کرلینے یا کر بیٹھنے کے بعد ہم اسے تسلیم کرنے کی بجائے اُلٹا مظلوم پر ہی مقدمات کا اندراج کروانا شروع ہوجاتے ہیں کوئی آفیسر یا سیاستدان کسی کے پاس یہ پیغام نہیں بھیجتا کہ آپ میرے پاس جھوٹے مقدمات لیکر آئیں ہم خود انہیں جا کر مجبور کرتے ہیں ووٹ نہیں دیں گے آپ کو چوہدری نہیں مانیں گے وغیرہ وغیرہ !اس کے بعد پھر تھانے کچہری کی سیاست کرنیوالے سیاستدانوں اور گائوں کی سطح پر ڈیرداروں کی لمبی لائن لگ جاتی ہے جو اس لت کا شکار ہوتے ہیں محلے و علاقے میں اپنی چودراہٹ قائم کرنے کیلئے وہ سول و قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے افسران کے ساتھ تعلقات بنا کر ظلم و ستم کا نہ کرنے والا سلسلہ شروع کرتے ہیں موجودہ دور میں یہ وباء موذی مرض کی طرح پھیل کر آکاس بیل کی مانند اس معاشرے کو کھا چکی ہے اس سے بچنا اب عوام کے بس میں ہے لیکن عوام کی حالت اس ہاتھی جیسی ہے جس کے پائوں میں ایک نا پختہ زنجیر باندھ دی جاتی ہے اور وہ ساری عمر اس کی غلامی میں گزار دیتا ہے ۔
ضلع قصور میں بھی اسی طرح کے ہزاروں واقعات رونماء ہو چکے ہیں انتہائی اقدام کے طور پر مدثر قتل کیس بھی اسی کا شاخسانہ ہے بڑے بڑے نام ملوث ہیں اس سیاست کے کھلاڑیوں کے جو سچ لکھنے والوں کو بھی اپنے حلقے میں سیاست کے ذریعے سبق سکھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں پسند کی زمینوںپر قبضہ کرنے اور خریدنے کیلئے ناجائز مقدمات کا سہارا لینا سیاستدانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے یہ پریکٹس ملک عظیم میں مکمل طور پر جڑیں پیوست کر چکی ہے اس سیاست کا خاتمہ صرف اور صرف حقیقی انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے یا پھر بے لاگ احتساب ورنہ یہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہے گا میرے حلقہ انتخاب میں بھی کچھ ایسے ہی نعرے بلند ہو رہے ہیں 138 این اے PP175/PP176 البتہ سیاستدانوں کا طریقہ واردات زرا ہٹ کے ہوتا ہے کچھ تو سرعام ہی اور کچھ اپنے ٹائوٹ حضرات کو فرنٹ میں بنا کر مثال کے طور پر اسحاق ڈار صاحب کی طرح ملک سے بھاگنا ہے یا پھر پولیس انسپکٹر عابد باکسر و دیگر سیاستدان نماز روزوں اور دم درود کے پابند ہو کر یا بن کر بھی ایسے کو کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں بس لبادہ زرا سے اوڑھ لیا جاتا ہے اور کچھ اس وجہ سے بدنام ہو جاتے ہیں کہ ان کے قریبی عزیز پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتے ہیں بہت سارے لوگ منتخب عوامی نمائندوں پر الزام لگانا اپنا فرض خیال کرتے ہیں کئی بار ثبوت مانگنے پر نہیں ملتے ہیں میں کسی کا حامی نہیں مگر ثبوت مانگتا ہوں محض پروپیگنڈہ کرنے سے آپ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگ اپنے ٹائوٹوں کے ذریعے یہ کارخیر سرنجام دلوا کر پھر الزام منتخب لوگوں پر لگا دیتے ہیں انہیں یہ یاد نہیں ہوتا کہ وہ خود پیسوں کی گیم میں ماضی قریب میں کتنے ڈاکے چوریاں اور بوگس مقدمے درج کروا چکے ہیںمنتخب نمائندوں کو عوام خود جا کر مجبور کرتی ہے کہ ہمارا جھوٹا پرچا ہمارے مخالف کے خلاف کروادیں جیسے بھی ہو ذیادہ تر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ سیاستدان اپنے اپنے ووٹرز کو دوسرے سیاستدان کے عتاب سے بچانے یا پھر ووٹ نہ دینے پر سبق سکھانے کیلئے اسی حربے کو استعمال کرتے ہیں اس کی واضع مثال حلقہ پی پی 176 کے نواحی گائوں بگھیل سنگھ میں ہونے والا جھوٹا ذیادتی کا واقع ہے کمزور پر چڑھ دوڑنا یہ انتہائی ظلم کا آخری درجہ ہے سیاستدانوں کو حریفوں کو عوام میں رسوا کرنے کیلئے مکمل ثبوتوں کے ساتھ دعوی کرنا چاہیے اور دعوی کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے کہ خود وہ کہاں پر کھڑے ہیں شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر ماریں گے تو پتھر اپنے گھر میں بھی آئے گا ۔
آخری لائنیں لکھ کر بات کو سمیٹتا ہوں اس سیاست کے ذمہ دار ہم لوگ خود ہیں نہ کہ یہ مٹھی بھر مافیاء جو روزانہ یہ فعل سرانجام دیتا ہے مگر ہم لوگ اتنے بے حس ہیں اپنی زبانوں پر لگے تالے کھولنے پر تیار نہیں ہیں پتہ نہیں ابھی کتنے مدثر ،نقیب اللہ ،انتظار سیالکوٹ کے دو بھائی ناجانے اور کتنے جو شکار ہوچکے ہیں یا پھر مستقبل قریب میں ہوگے کسی کو بچانے کیلئے آگے کب بڑھیں گے میں خود اس سیاست کا شکار ہو چکا ہوں اب بھی یہ مافیاء کوشش کرتا ہے مگر میں نے لبوں کا تالہ کھول دیا ہے اس سیاست کی مداخلت ہر جگہ پر ہے انکار نہیں اللہ کرے سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدل کی زنجیر کو ہلایا ہے لوگ پر اُمید ہیں کبھی تو انصاف ملے گا ماڈل ٹائون والوں کو بلدیہ کراچی والوںکو مہاجر کا نعرہ لگاکرقتل کرنیوالوں سے سندھی وڈیروں کے سامنے سر اُٹھا کر اپنی عزتوں کو بچانے والوںکے عزیز و اقارب کو کبھی تو انصاف ملے گا ۔

کہیں شکست موروثی سیاست کو تو نہیں ہوئی؟

تحریر:شیخ خالد زاہد
پاکستان پر تو جیسے موروثی سیاست دانوں نے اپنا قبضہ ہی جمالیا ہے ، خصوصی طور پر ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جو خصوصی طور پر صوبائی سطح پر مضبوط گرفت رکھتی ہیں جن میں سندھ میںپاکستان پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اورخیبر پختون خوا میں عوامی نیشل پارٹی انتہائی قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ جماعتیں اپنے وجود میں آنے سے لیکر آ ج تک مخصوص خاندانوں کی میراث ہیں۔ پاکستان کو اس موروثیت سے نجات دلانے کیلئے بہت ضروری ہے کہ کوئی سیاسی جماعت جو فقط منشور کی بنیاد پر کھڑی ہو اور اس منشور کی مکمل بحالی کیلئے اپنی تمام تر کوششیں وقف کردے اور عوام کو اپنے کردار اور عمل سے یقین دلایا جائے کہ نا تو کسی قسم کے مفادات کی سیاست ہوگی اور نا ہی موروثیت کو پنپنے کی اجازت دی جائے گی۔ اگر غور کیا جائے تو اسلام کے دئیے گئے نظام حکومت میں بھی موروثیت کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ جس سے اس بات کو اخذ کرلینا چاہئے کہ موروثیت کسی بھی طرح سے جمہوریت کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی۔ عوام جماعتوں کے منشور پر لبیک کہتی ہے مگر دل کے کسی نا کسی خانے میں اس خاندانی نظام کا جماعتوں پر حاوی ہونا کھٹکتا رہتا ہے ۔ جب سے اس بات کا چرچا کیا جانے لگا ہے تو ظاہر سی بات ہے بہت سے کارکنان اپنی جماعتوں میں موروثیت کو بہت اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں۔ یہ موروثیت بھی جمہوریت کی راہ کی بہت بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو کتنی ہی عوام میں مقبول ہو اگر جمہوری طرز پر کام کرے گی تو دیر پا اور پائیدار ہوگی جسکی وجہ اس جماعت کا نظم و نسق کسی ایک گھر سے نہیں چل رہا ہوگا۔ جماعت اسلامی اور زبوں حالی کا شکار ایم کیوایم وہ جماعتیں ہیں جہاں موروثیت کی کوئی جگہ نہیں رہی ہے۔ دراصل جمہوریت کا راگ آلاپنے والے موروثیت کے چکر سے نکلتے نہیں ہیںجسکی وجہ سے جمہوریت اپنے قدم جما نہیں پاتی ۔ یہاں تک کے ملک کو خاندانی نظام کے طور پر بھی چلانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ 
اس مضمون کا نام دوسروں کو نصیحت خود کو فصیحت بھی رکھا جاسکتا تھا ۔ اگر اس حلقے کا تھوڑا سا تاریخی پس منظر دیکھیں تو یہاں ووٹرز کا اوسط تناسب پچاس سے ساٹھ فیصد رہا ہے جوکہ کافی مثبت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس حلقے کی ایک خاص بات اور بھی ہے کہ یہاں دو امیدواروں کے درمیان ہی مقابلہ رہا ہے ، ان دو کے علاوہ کوئی ووٹوں کی گنتی کی دوڑ میں دس ہزاربھی شائد پار نہیں کر پائے ہیں۔ ۲۰۱۳ کے انتخابات میں اس حلقے سے نواز لیگ کامیاب ہوئی مگر ۲۰۱۵ میں کامیاب امیدوار کی نااہلی کے سبب یہاں سے پی ٹی آئی نے میدان مارا اور ۲۰۱۷ میں جہانگیر ترین صاحب کی نااہلی کے باعث ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر یہ نشست نواز لیگ کے پاس چلی گئی ۔ مختصراً یہ کہ کہانی جہاں سے ۲۰۱۵ میں جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں پہنچ گئی ہے۔ گو کہ مقابلہ دونوں جماعتوں نے خوب کیا اور ایک بار پھر دو جماعتوں میں ہی مقابلہ ہوا۔ نواز لیگ تقریباً ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوتی چلی گئی ہے۔ 
پی ٹی آئی کی شکست کا تجزیہ کرنے سے سب سے اہم جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ آپ اپنے کہے کو کر کے دیکھانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں، لوگ آپ کے پیچھے آپکے عزم اور حوصلے کی وجہ سے چل رہے ہیں اور خان صاحب اگر آپ نے بھی وہی سب کچھ کرنا ہے جو یہ عوام پچھلے ۷۰ سالوں سے بھگتی آرہی ہے تو اللہ ہی حافظ ہے۔ ایک طرف موروثی سیاست کا خاتمہ پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے ، جس پر وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر تابڑتوڑ حملے کرتے رہے ہیںاور بلند و بانگ دعوے کرتے رہے ہیں۔ پاکستا ن تحریک انصاف کی اس نشست پر شکست کوئی خاص بات نہیں ہے ، جبکہ خاص بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں شکست جبکہ اگلے انتخابات سر پر کھڑے ہیں اہمیت رکھتی ہے۔ 
جیسا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین نے اپنے سماجی میڈیا پر یہ پیغام پی ٹی آئی کے کسی حد تک مایوس کارکنوں کیلئے جاری کیا ہے کہ عقل مند اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ خان صاحب کو اس بات کا احساس ہوگیا ہو کہ ان کا یہ فیصلہ کہ یہاں سے جہانگیر ترین کے صاحبزادے کو ضمنی انتخابات میں لڑایا جانا قطعی درست ثابت نہیں ہوا ہے۔ اگر ضمنی انتخابات میں وہ اپنے کسی اور مقامی قدرے کم حیثیت والے امیدوار کو کھڑا کردیتے تو شائد نتیجہ اس کے برعکس ہونے کیساتھ ساتھ ووٹوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ۔ پھر جب جنرل انتخابات کا وقت آتا تو باہمی صلاح مشورے سے لودھراں کی انتظامیہ سے علی ترین کا نام ڈلوا کر اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا آنے والے انتخابات کی تیاری میں اس بات کو کس حد تک اہمیت دی جائے گی کے پی ٹی آئی کے امیدوار بہت سوچ بچار کے ساتھ باہمی ہم آہنگی سے نامزد کئے جائینگے۔ 
اس شکست سے ایک اور خوش فہمی جنم لیتی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی عوام میں روشنی کی کرن جھلکنا شروع ہوئی ہے ، شعور نے باہیں پھیلانا شروع کردیا ہے ۔ یہ ان خوش فہمیوں کی بنیاد ہی ہے کہ عوام نے اس بات کاعندیہ دیا ہے کہ اب جو کہے گا اور نہیں کرے گا تو وہ اسے اپنا قیمتی ووٹ نہیں دینگے۔ جب تک اس موروثی سیاست کو ، اس خاص و عام کے فرق کو اور انسان کو انسان ہونے کا حق نہیں مل جاتا اب ایسے حیران کن کام ہوتے چلے جائینگے۔ انشاء اللہ

loading...