بدھ، 14 فروری، 2018

جنسی جرائم کی سزائوںمیں اضافہ اوردیگرضروری اقدامات

 تحریر: محمدصدیق پرہار
 قومی اسمبلی نے ملک میںبچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات روکنے کے لیے مجموعہ تعزیرات پاکستان ۱۸۶۰ء اورمجموعہ ضابطہ فوجداری میں مزیدترمیم کابل پاس کردیاہے۔یہ ایکٹ فوجداری قانون (ترمیمی ) ایکٹ  ۲۰۱۷ء کے نام سے موسوم ہوگا ۔مجموعہ تعزیرات پاکستان ۱۸۶۰ کی دفعہ ۲۹۲ ج میں ترمیم کی گئی ہے۔جس کے تحت دوسال اورسات سال کی سزاکوبڑھاکرچودہ سال اوربیس سال کردیاگیاہے۔جرمانہ پہلے دولاکھ روپے سے سات لاکھ روپے تھاجسے بڑھا کر دس لاکھ کردیاگیا ہے۔مجموعہ تعزیرات پاکستان ۱۸۶۰ء کی دفعہ ۳۷۷ب میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس دفعہ کے تحت پہلے سزاسات سال ہوسکتی تھی اورپانچ لاکھ جرمانہ تھا۔جسے بڑھاکرلکھا گیا کہ سزاکم سے کم چودہ سال اورزیادہ سے زیادہ بیس سال کردی گئی ہے اورجرمانہ دس لاکھ روپے ہوگا۔مجموعہ ضابطہ فوجداری ۱۸۹۸ء کے جدول دوم میں ترمیم کی گئی ہے۔دفعہ ۲۹۲ میں لکھاگیا ہے کہ کسی ایک نوعیت کی سزاکم سے کم چودہ سال اورزیادہ سے زیادہ بیس سال ہوسکتی ہے اورجرمانہ دس لاکھ روپے سے کم نہیں ہوگا۔دفعہ ۳۷۷ب میں لکھا ہے کہ کسی ایک نوعیت کی سزائے قیدکم ازکم چودہ سال اورزیادہ سے زیادہ بیس سال ہوسکتی ہے۔جرمانہ دس لاکھ روپے سے کم ہوگا۔یہ پرائیویٹ بل قومی اسمبلی کی رکن مسرت احمدزیب نے پیش کیا۔ ایوان نے متفقہ طورپربل کی منظوری دی۔بل کے اغراض ومقاصدمیں کہا گیا ہے کہ اس جرم کی شدت کے مقابلے میں سزائیں کی گئی ہیںبل کا مقصدبچوںکی فحش نگاری اورنابالغوں سے جنسی زیادتی کی سزامیں اضافہ کرناہے۔ 
            جنسی زیادتی، بدفعلی کاشمارسنگین جرائم میں ہوتا ہے۔شریعت میں اس جرم کی سزامقررہے۔ یوں توسنگین جرائم میں اس جرم کانمبرقتل کے بعدآتا ہے۔ اس کی سزاپرغورکیاجائے تواس کی سزاقتل کے جرم سے بھی سخت ہے۔قاتل کوجب سزائے موت دی جاتی ہے توایک دفعہ دی جاتی ہے ۔ اس میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ چاہے قاتل کاسرتلوارسے کاٹ دیاجائے، چاہے اسے لوہے کی کرسی پربٹھاکربجلی کاکرنٹ چھوڑاجائے یاتختہ دارپرلٹکایاجائے۔جب کہ شریعت میںجنسی زیادتی یابدفعلی کی سزااس جرم کے مرتکب مجرم کوسنگسارکرنا ہے۔ یہ جرم فاعل اورمفعول دونوں کی رضامندی سے ہوتوسزابھی دونوںکودی جائے گی۔ دونوں کی رضا مندی نہ ہوتو اس جرم کوزنابالجبرکہاجائے گا۔ اس صورت میں صرف فاعل کوہی سزادی جائے گی۔جرم کا ارتکاب کرنے والا غیرشادی شدہ ہوتو اس کی سزاشادی شدہ مجرم کی سزاسے کم ہے۔پاکستان میں چونکہ شرعی سزائیں نافذنہیں ہیں۔پاکستان چودہ اگست سال انیس سوسنتالیس کومعرض وجودمیں آیا۔ تعزیرات ہند ایکٹ ۱۸۶۰ء کوتعزیرات پاکستان ۱۸۶۰ء کانام دے کرملک میںنافذکردیاگیا۔پاکستان میں اب تک سزائیں اسی تعزیرات پاکستان کے تحت ہی دی جاتی رہی ہیں۔دنیامیں جہاں دیگرشعبوںمیں ترقی ہورہی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ تناسب سے جرائم میں بھی ترقی ہورہی ہے۔ ایک طرف نئی نئی ایجادسامنے آرہی ہیں تو دوسری طرف نئے نئے جرائم بھی سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے ایسے مجرم بھی پکڑے گئے ہیں ۔جن کے جرائم کی سزاقانون میں تھی ہی نہیں۔ایسے جرائم میں دوجرم نمایاں ہیں۔ان میں ایک قبروں کے مردے نکال کران کاسال پکاکرکھانااوردوسراجرم گدھوں، کتوں اورمردارگوشت کی خریدوفروخت تھا۔قومی اسمبلی اب ان جرائم کی سزائیں بھی مقررکرچکی ہے۔جوں ہی دہشت گردی کی وارداتوں میں قدرے کمی آئی ہے۔ جنسی زیادتی کے جرائم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ملک کے دیگرشہروں کے ساتھ ساتھ پنجاب کے ایک ہی شہرقصورمیں درجن سے زائدبچوںاوربچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اوراس سے پہلے اسی شہرمیں جنسی زیادتی کاسب سے بڑاسکینڈل اس جرم کی سنگینی اورپھیلائوکاواضح ثبوت ہے۔قصورمیں کم سن بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اوراس کے قتل کے المناک اورشرمناک واقعہ کے بعد یہ بحث زورپکڑگئی تھی کہ ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت کیسے کرنی چاہیے۔یہ بھی کہاجارہا تھا کہ بچوں کواپنی حفاظت کرنے کی تربیت دی جائے۔کچھ لوگ بچوں کواپنی حفاظت کی تربیت دینے کی آڑمیں اپنے خفیہ مقاصدپورے کرنے کی کوششوںمیں لگ گئے۔ کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی عجیب وغریب وجہ یہ پیش کی گئی کہ ایسے واقعات اس لیے ہورہے ہیں کہ بچوں کوسکولوںمیں جنسی تعلیم نہیں دی جاتی۔ ایسے جرائم کی روک تھام کایہ طریقہ بتایا گیا کہ سکولوں میںجنسی تعلیم دی جائے۔سکولوں میںجنسی تعلیم سے جنسی زیادتی کے جرائم میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ اس طرح تواس طرح کے جرائم میں اضافہ ہی ہوگا۔ہمارے معاشرے کی یہ اچھی روایت ہے کہ نابالغ تورہے ایک طرف غیرشادی شدہ کے سامنے بھی جنسی معاملات بات نہیں کی جاتی۔ کچھ لوگ سکولوںمیں جنسی تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعدتوبچے بچے کی زبان پرجنسی معاملات پرہی گفتگوہوگی۔شیطان جرائم کی طرف جلدی متوجہ کرتاہے۔دوچاربچے جہاں بھی اکٹھے ہوں گے وہ سکولوںمیں جنسی تعلیم کے بعداسی پرہی آپس میں گفتگوکریں گے۔اس سے توبچوں کی معصومیت تواوربھی دائوپرلگ جائے گی۔ہم سکولوںمیںجنسی تعلیم کے پہلے بھی خلاف تھے اب بھی خلاف ہیں۔بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام سکولوں میں جنسی تعلیم نہیں اس جرم کے مرتکب مجرم کی سزائوں میں اضافے سے ہی ممکن ہے۔جرائم کے مرتکب مجرموںکوسزائیں بھی اس لیے دی جاتی ہیں کہ ان کی سزائوں کودیکھ کردوسرے لوگ عبرت پکڑیں اورجرائم کے نزدیک بھی نہ جائیں۔قصوراوردیگرشہروںمیں کم سن بچوں اوربچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کے بعدیہ ضروری ہوگیاتھا کہ تعزیرات پاکستان میں ترمیم کرکے اس جرم کی سزائوںمیں اضافہ کیاجائے۔ قومی اسمبلی نے مجموعہ تعزیرات پاکستان ۱۸۶۰ء اورمجموعہ ضابطہ فوجداری ۱۸۹۸ء میں ترمیم کرکے نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرائم کی سزائوں اورجرمانوںمیں اضافہ کردیا ہے۔ جس کی تفصیل اس تحریر کے آغازمیںموجودہے۔جنسی زیادتی کے جرم کی سزائوں اور جرمانوںمیں اضافہ اس لیے کیاگیا ہے تاکہ اس جرم کومزیدپھیلنے سے روکاجاسکے اورمعاشرے کوبڑھتی ہوئی بے راہ روی سے روکاجاسکے۔قومی اسمبلی نے جنسی زیادتی کے جرم کی سزائوںمیں اضافہ کرکے اپنافرض اداکردیا ہے۔قومی اسمبلی پوری قوم کی نمائندگی کرتی ہے۔قومی اسمبلی کامتفقہ طورپراس جرم کی سزائوں اورجرائم میں اضافہ کرنے کی منظوری دینا اس بات کاثبوت ہے کہ پوری قوم جنسی زیادتی کے واقعات اوربڑھتی ہوئی بے راہ روی کی روک تھام چاہتی ہے۔قومی اسمبلی نے اپنافرض تواداکردیا ہے ۔ اس نے اس سلسلہ میں اپنامکمل فرض ادانہیں کیا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سزائوں کے خوف سے مجرم عبرت پکڑتے ہیں اور جرائم کے ارتکاب میںکمی آتی ہے۔جنسی زیادتی اوردیگرجرائم کی روک تھام کے لیے صرف سزائوں اورجرمانوںمیں اضافہ کرناہی کافی نہیں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے دیگراقدامات بھی ضروری ہیں۔جنسی زیادتی کے جرم کی سزائوں اورجرمانوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ایسے تمام محرکات کاخاتمہ بھی ضروری ہے جواس جرم کے ارتکاب میںمددگارثابت ہوتے ہیں یااس جرم کی طرف اکسانے کاسبب بنتے ہیں۔ جرائم کے ارتکاب میںکمی لانے کے لیے سزائوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان سزائوںکایکساںنفاذبھی ضروری ہے۔مکمل اورہرزاویہ سے تحقیق وتفتیش کے بعد جس پربھی جرم کاارتکاب ثابت ہوجائے تواس کو قانون کے مطابق سزادی جائے۔ مجرم کاتعلق چاہے کتنے ہی بااثرخاندان سے کیوں نہ ہو اس کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہیے۔مجرم چاہے امیرہویاغریب، خاص ہویاعام جرم کے مطابق اسے سزاملنی ہی چاہیے۔سزائوںمیں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسے عوامل کی روک تھام بھی ضروری ہے جوجنسی زیادتی کے جرم میں معاون ثابت ہوتے ہیں یااس جرم کاسبب بنتے ہیں۔جس طرح کسی بھی مرض کاعلاج توکیاجائے پرہیزنہ کیاجائے توصحت یابی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ قومی اسمبلی نے جنسی زیادتی کے جرم کاسزائوں اورجرمانوںمیں اضافہ کرکے علاج توکردیا ہے ۔ پرہیز کے بارے میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اقدامات بھی ایسے ہونے چاہییں جس سے جرائم میںکمی واقع ہوایسے اقدامات نہ ہوں جن سے جرائم مزیدبڑھ جائیں۔سکولوںمیں کم سن بچیوں سے بے ہودہ رقص کرانے سے جنسی زیادتی کے جرائم میں کمی لائی جاسکتی ہے یااس سے بچیوںکی معصومیت بھی دائوپرلگ جاتی ہے ۔ سوچیں کہ کم سن بچیوں سے اس طرح کے رقص کرانے سے ہماری نئی نسل کوکیاسکھایا جارہا ہے اوراس کے مستقبل میںکیانتائج برآمدہوں گے۔ کاش کسی کویہ سوچنے اورسمجھنے کاحوصلہ بھی ہوتا۔فلموں اورڈراموںمیں جو کلچر دکھایا جارہا ہے۔ اس سے جنسی زیادتی کے واقعات میںکمی ہوگی یااضافہ ؟اکثرفلموں اورڈراموںمیں مرداورعورت کاگھروالوں سے چھپ کرمحبت کرنااورخاندان والوں سے چھپ چھپ کرباغوں اورپارکوںمیںملاقاتیں کرنے سے قوم کوکیادکھایااورسکھایاجارہاہے۔کیایہ بھی سوچاہے کسی نے کہ الیکٹرانک میڈیا چینلز پر مختلف پراڈکٹ کے کواشتہاردکھائے جارہے ہیں ان سے مصنوعات کی تشہیرزیادہ ہورہی ہے یاجنسیات کی۔جب اشتہارات میں عورت کے جسم کی نمائش کی جائے گی تواس کے کیانتائج سامنے آئیں گے کاش اس بارے بھی کوئی سوچتااورسمجھتا۔یہ بات درست ہے کہ عورت کے جسم کی نمائش پرمبنی اشتہارات اس لیے دیے اوردکھائے نہیں جاتے کہ ان سے جرائم کوفروغ ملے۔ایسے اشتہارات جنسی جرائم کاسبب بن سکتے ہیں۔انٹرنیٹ پربے ہودہ اورفحش تصاویراورویڈیوزبھی جنسی جرائم کاسبب ہیں۔ایسی بہت سی ویب سائٹس بلاک کی جاچکی ہیںجوفحش تصاویریاویڈیوزدکھاتی ہیں ۔ چوردروازوں سے ایسی ویب سائٹس اب دیکھی جارہی ہیں۔پی ٹی اے کویہ چوردروازے بھی بندکرناہوں گے۔کیایہ بھی کسی نے سوچاہے کہ فاسٹ فوڈ زکے استعمال سے ہماری صحت اورجنسیات پرکیااثرات مرتب ہورہے ہیں۔برائلرمرغی اورمچھلی ہماری صحت اورجنسیات پرکیااثرات مرتب کررہی ہیں۔ٹیکے والادودھ ہماری صحت اورجنسیات کے ساتھ کیاسلوک کررہا ہے۔ کاش اس طرف بھی کوئی توجہ دیتا۔جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے سزائوںمیں اضافے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ سکولوںمیں طلباء کے ہرقسمی رقص کرنے، دکھانے اوردیکھنے پرپابندی لگائی جائے۔فلموں اورڈراموںمیں مرد اورعورت کاگھروالوں سے چھپ کرمحبت کرنااورخاندان والوں سے چھپ چھپ کرملاقاتیںکرنانہ دکھایاجائے۔ عورت کے جسم کی نمائش والے کمرشل اشتہارات نہ دکھائے جائیں۔فحش تصاویراورویڈیوزدکھانے والی ویب سائٹس بلاک کرکے انہیں دیکھنے اوردکھانے کے چوردروازے بھی بندکیے جائیں۔برائلرمرغی، برائلرمچھلی پربھی مکمل پابندعائدکرکے دیسی مرغی اوردریائی مچھلیوںکوفروغ دیاجائے۔فاسٹ فوڈزپربھی پابندی ہونی چاہیے۔ایسے جرائم سے بچنے کے لیے اپنی نگاہوں اورخیالات کوبھی پاکیزہ رکھناضروری ہے۔فحش تصاویردیکھنے اور برے خیالات سے اجتناب کیاجائے ۔ فارغ اوقات میں اپنی گزشتہ زندگی کاجائزہ لیں کہ کون کون سے کام آپ سے غلط ہوگئے اورکیوں ہوئے۔ایسے کاموں کے ازالہ، کفارہ کی ترکیب تیارکریں۔انبیاء کرام، اولیاء کرام کی حیات مبارکہ پرمبنی اوردیگراسلامی وتاریخی کتب کامطالعہ کریں۔زبان پراللہ تعالیٰ اوراس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاذکرجاری رکھیں۔جرائم کاخیال آتے ہی قیامت کامنظرسامنے لے آئیں اوراپنے آپ کوسمجھائیں کہ اللہ کاعذاب برداشت کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے۔جس طرح ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ضروری تھا۔اسی طرح جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے یہ اقدامات بھی ضروری ہیں۔
       ڈاکٹرفوزیہ حمیدکی طرف سے پیش کردہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ترمیمی) بل جسے ایوان نے متفقہ طورپرمنظورکرلیاکے تحت کل پاکستان ملازمتوں ،وفاق کی ملازمت ہائے دیوانی، وفاق کے معاملات کے ضمن میں دیوانی اسامیوںاوروفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والی کارپوریشنوں،خودمختاراداروںمیںبنیادی پے سکیل گیارہ یااس کے مساوی اوراس سے بالاپرافرادکی بھرتی کے لیے ٹیسٹ اورامتحانات منعقدکیے جائیں گے۔بل میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ کمیشن اپنابھرتی عمل اشتہارکی اشاعت کی تاریخ سے آٹھ ماہ کے عرصہ کے اندرمکمل کرے گا۔بل کے اغراض ومقاصدمیںکہاگیا ہے کہ ایف پی ایس سی کادائرہ اختیارصرف پی ایس سولہ اوراس کے اوپرکی اسامیوں تک محدودہے۔دوسرے یہ کہ خودمختاراورآئینی ادارے ایف پی ایس سی کے برعکس کم مسابقتی امتحانات کے ذریعے پر کیا جائے۔ایوان میں قومی اسمبلی کامجالس قائمہ کی متعددرپورٹس بھی پیش کی گئیں۔شازیہ مری نے قومی اسمبلی میں کارروائی اورطریقہ کارمیں ترمیم پیش کی جس میں تجویزدی گئی ہے کہ کمیٹی کے ایک چوتھائی تعدادخواتین پرمشتمل ہونی چاہیے۔ڈپٹی سپیکرنے یہ تجویزغورکے لیے مجلس قائمہ برائے قواعدوضوابط کوبھیج دی۔
 رابطہ کیلئے: siddiqueprihar@gmail.com

یہ ریڈیو پاکستان ہے

     یہ ریڈیو پاکستان ہے ہواکے دوش پررقص کر نے والی آواز کی ایک اپنی دنیا ہے، اپنا طلسم ہے ،جو بہت آسانی سے نہ صرف احساسات کے تار چھیڑ دیتی ہے بلکہ جذبات کی نا زک دھنوں میں بھی ارتعاش برپار کر دیتی ہے،ہلکی آنچ پر چلنے والی ہوا۔۔۔ جوکہ آواز کا میڈیم ہے دو دھاری تلوار کے طور پر کا م کر تا ہے۔ ایک آواز کو جھونکوں کی سواری کے سہارے حسین سماعتوں تک پہنچانا اوردوسرا جلتے چراغوں سے آنکھ مچولی کرتے رہنا ۔ہوا اور چراغ کی روشنی کی جنگ ازل سے ابد تک جا ری رہے گی عشق کے چراغ جلانے سے سینے منور کرنے کاسبق ایک عارف حضرت میاں محمد بخش کی الہامی شاعری سے ملتا ہے، عقیدت مندوں کے لیے ان کے مزار شریف پرچراغ روشن کر نا بڑے نصیب کی بات سمجھا جا تا ہے۔ 
آواز کی دسترس کا سب سے معتبر اور توانا ذریعہ ریڈیو پاکستان رہا ہے ، ریڈیو کو آواز کے اسرارورموز سمجھنے اور تلفظ کی درست ادائیگی تک رسائی کا سب سے موثر ذریعہ اور بنیادی سکول گردانا جا تا ہے ، ریڈیو پاکستا ن کی نشریات کا آغاز پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ہوگیا تھا ، ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان اور مملکت پاکستان آپس میں ہم عمر ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ریڈیو پاکستان کے تین ا سٹیشن ، لاہور ، ڈھاکہ اور پشاور میں موجودتھے ۔ آل انڈیا ریڈیو کو تن آور درخت کہا جا ئے تو یہ تینوں ا سٹیشن اس کی شاخیں کہلائیں گی ۔ ریڈیو پاکستان کے پہلے پروڈیو سر ذوالفقار علی بخاری، جو کہ مشہور لکھاری پطر س بخاری کے بھائی تھے۔ قیام پاکستان کے بعدجو ریڈیو اسٹیشن قائم کیا گیا وہ تھا کراچی ا سٹیشن ، جنگ عظیم دوم اختتام کی جا نب مائل تھی مگر اس کی تباہی چارسو پھیلی ہو ئی تھی چنانچہ سامان کی خریداری یورپ اور ایک ہمسایہ ممالک سے کر کے کر اچی کا ریڈیوا سٹیشن قائم کیا گیا ،اس وقت ریڈیو پاکستان کے 31ریڈیو اسٹیشنز سے باقاعدہ نشریات جا ری وساری ہیں جن میں سے تین آزادکشمیر ، سات بلوچستان ، ایک اسلام آباد ، چھ NWFP،دو ناردن ایریاز، سات پنجاب میں قائم ہیں ، ان سب کاصدر مقام دارلحکومت اسلام آباد میں ہے۔
 پچاس اور ساٹھ کی دہائی کو ریڈیو پاکستان کی تاریخ کا سنہری دور قرار دیا جا تا ہے معلومات ، ثقافت ، حالات حاضرہ ،خبررسانی ،ڈرامے ،بچوں وخواتین کے خصوصی پروگرامز، شاعری ، دینی تعلیمات گویا سب سہولتیں ایک چھت تلے دستیاب تھیں، نامی گرامی شاعر ، ڈرامہ نگار ، آرٹسٹ ، لکھاری سب ریڈیو پاکستان کا حصہ بننا اپنے لیے اورملک کے لیے فخر محسوس کرتے تھے یہ زمانہ پاکستا ن ٹیلی ویژن کے قائم ہونے سے پہلے کا ہے ، 1964میں ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغازکر دیا گیا ، اب توجہ کا مرکز پی ٹی وی بننا شروع ہوگیا، گلیمر، پیسہ ، شہرت سب کچھ ٹی وی سے منسوب ہو کر رہ گیا ، ریڈیو آرٹسٹ بچارہ ،’’ چھٹے اسیر تو بدلہ ہو ازمانہ تھا‘‘ کا عملی نمونہ بن کر رہ گیا ۔
نوے کی دہائی میں ایف ایم ریڈیو (پرائیویٹ سیٹ اپ) قائم کیا گیا جس کی فریکوینسی تھی ایف ایم 100، اب ایک سوسے زائد ایف ایم 24/7اپنی نشریات کا جادوجگانے میں مشغول رہتے ہیں ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، ریڈیو پاکستان سے منسلک آرٹسٹ بھی کنارہ کر نا شروع ہوگیا موجودہ دور میں بہت کم آرٹسٹ ریڈیو پاکستان کے لیے وقت نکال پاتے ہیں وجہ یہ کہ ریڈیو اور ٹی وی کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کر نے کے لیے کوئی جامع پالیسی اختیار نہ کی گئی ایک طرف ’’وہ سب ‘‘اور دوسری طرف ماسوا پیرانہ سالی کے اور کچھ انتظام نہیں ۔
ریڈیو پاکستا ن جو آواز اور قوم کی امیدوں کا مرکز تھا اب عضو معطلی کی تصویر بنتاجا رہا ہے ،شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قومی خدمت کے جذبوں سے لبریز خدمت گاروں کی سریلی آواز کی ترجیجات اب ریڈیو کی بجائے پی ٹی وی ہے ۔ اس لیے ریڈیو جو علم و ثقافت کی مرکزہے اس کی بحالی اور ترقی پر توجہ دینا فضول ہے۔ پرانے زمانے میں ریڈیوکی نشریات سینوں پر ریڈیو سیٹ رکھ کر سنی جا تی تھیں ۔، اب دیکھیے تو شاذ ہی کسی گھر میں کوئی ریڈیو نظر آئے ، البتہ موبائل سسٹم میں موجود ایک عدد ریڈیو کی Applicationصرف شغل طرب کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے ، ریڈیو آرٹسٹ جو صرف چند ٹکوں پر کا م کر کے قدر ت کی طرف سے عطا کر دہ اپنے فن کی پیاس بجانے میں مشغول ہے ان سب ’’مہربانیوں ‘‘ کے باوجود ریڈیو پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے ، شاہی خزانے میں سے آرٹسٹ کے لیے ، جو ریڈیو کا فیول ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں ، ملازمین کی فوج ظفر موج سے دوسرے قومی اداروں کی طرح اس ادارے کی نائو بھی اپنے ہی بوجھ سے ڈوبتی جا رہی ہے،ریڈپاکستان سے جو پہلے الفاظ نشر کیے گے تھے وہ تھے ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے ‘‘خیر پاکستان ٹیلی ویژن کے بعد اگلی باری اب ریڈیو پاکستا ن ہی کی تھی ’’گھر میں تھا کیا ،جو تیرا غم اسے غارت کرتا ‘‘ 

loading...