بدھ، 14 فروری، 2018

نااہل وزیراعظم کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے:نیب کا خط،وزارت داخلہ کا انکار

اسلام آباد(حرمت قلم نیوز)قومی احتساب بیورو (نیب) نےنااہل وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کا نام ایگزٹ کنڑول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کیلئے وزارتِ داخله کو خط لکھ دیا۔مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے احتساب عدالت میں دو ہفتوں کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔درخواست میں بتایا گیا کہ بیگم کلثوم نواز کی طبیعت ناساز ہے اور اس کے لیے ان کے کچھ ٹیسٹ کیے جائیں گے جبکہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس موقع پر ان کے شوہر کی موجودگی ضروری ہے۔نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکلا کی جانب سے احتساب عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ان کے موکل کو 19 فروری سے دو ہفتوں کا استثنیٰ دیا  ۔نااہل وزیراعظم نواز شریف کا کہنا کہ 70 سال سے میں ملک میں ووٹ کا تقدس نہیں رہا، ہم ملک میں ووٹ کے تقدس کی بحالی چاہتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں عزت بخشی ہے، میرا بیانیہ عوام کے دل میں گھر کر چکا ہے، ووٹ کے تقدس کا پیغام لے کر ملک کے کونے کونے میں جائیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام کے مینڈیٹ کی تضحیک نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔انہوں نے واضح کیا کہ عوام کے مینڈیٹ کے احترام کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔قومی اسمبلی کی نشست این اے 154 پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ لودھراں میں کامیابی پر اللہ کے شکرگزا ر ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا  کہ لودھراں انتخاب کا نتیجہ سب کیلئے واضح پیغام ہے، میرا کا دل چاہتا ہے کہ وہ لودھراں جا کر عوام کا شکریہ ادا کروں۔نواز شریف نے اپنے سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے مخالفین کی جانب سے ہیمشہ جھوٹ، الزام تراشی اور سازشوں کی سیاست کی گئی، اور این اے 154 کا نتیجہ مخالفین کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔جبکہ دوسری طرف وزارت داخلہ نے نیب کی درخواست پر فوری عملدرآمد سے صاف انکار کر دیا۔ صرف عدالتی حکم پر ہی نام ای سی ایل میں ڈالے جاتے ہیں، حکام نے جواب دے دیا۔ناروے کے دورے پر آئے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چودھری احسن اقبال نے اس حوالے سےنجی ٹی وی  سے بات چیت میں کہا کہ شریف فیملی کے نام ای سی ایل میں ڈالنے یا نہ ڈالنے کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ وطن واپسی پر ہو گا اور وہی کریں گے جو آئین اور قانون کے مطابق ہو گا۔وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے کہا کہ آئین کے مطابق، کسی کو آنے جانے سے بلاوجہ نہیں روکا جا سکتا، فیصلہ وزارت داخلہ کے قوانین کے مطابق کیا جائے گا، تمام پیشیوں میں میاں صاحب عدالت جاتے ہیں، اگر ایسا معاملہ ہوتا تو عدالت کو یہ بات کہنی چاہئے تھی، دیکھیں گے کہ معاملہ کسی کو ذاتی طور پر تنگ کرنے کا ہے یا قانونی ہے۔



نااہلی کیس کی سماعت مکمل،فیصلہ محفوظ،مدت کا تعین نہیں تو نااہلی تاحیات ہوگی:چیف جسٹس

اسلام آباد(حرمت قلم نیوز)سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو مناسب وقت پر سنایا جائے گا،آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا ڈکلیئریشن وقت کے ساتھ ازخود ختم ہوسکتا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ڈکلیئریشن ازخود ختم نہیں ہوسکتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جرم کا ارتکاب ہوا ہو تو کیا دفعہ تا حیات ہی لگی رہے گی؟ کیا اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب مدت کا تعین نہیں ہے تو کیا اس صورت میں نااہلی تاحیات ہوتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے پارلیمنٹ کو جائزہ لینا ہوگا۔ نا اہلی کی مدت کا تعین کیس ٹو کیس ہونا چاہیے، ریٹرننگ افسرعدالتی گائیڈ لائن پر نااہلی کا تعین کرے گا ۔ ڈیکلریشن ازخود ختم نہیں ہو سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ نا اہلی کا داغ مجاز فورم یعنی مجاز عدالت ہی ختم کر سکتی ہے۔ نا اہلی کا داغ ختم ہوئے بغیر نا اہلی تاحیات رہے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں 62 ون ایف کے تحت مدت کا تعین نہیں۔ نااہلی کی مدت کا معاملہ پارلیمنٹ کو حل کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نااہلی کا داغ بعض اوقات کسی کے مرنے کے بعد بھی رہتا ہے۔آئین میں نااہلی ڈیکلریشن کو ری وزٹ یعنی (ختم) کرنے کا میکنزم بھی نہیں ہے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 'اگر کوئی کسی جرم میں سزا پائے تو وہ بھی داغ ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جب آئین میں مدت کا تعین نہیںکیاتو نااہلی تاحیات ہوگی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نااہل شخص ڈیکلریشن کے بعد آئندہ الیکشن لڑسکتا ہے جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نااہلی کی مدت کا تعین ہر کیس میں الگ الگ ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت نااہلی کا فیصلہ دیتے وقت مدت کا تعین کرے گی یا نااہل امیدوار جب کاغذات نامزدگی داخل کرے گا تو مدت کا تعین کرے گا۔عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد آرٹیکل 62ون ایف پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو مناسب وقت پر سنایا جائے گا۔

loading...