ہفتہ، 24 فروری، 2018

تاپی (ترکمانستان،افغانستان،پاکستان ،انڈیا) گیس پائب لائن منصوبہ

 تاپی (ترکمانستان،افغانستان،پاکستان ،انڈیا) گیس پائب لائن منصوبہپاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے انرجی بحران کے عفریت نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں سینکڑوں کی تعداد میں کارخانے بند جبکہ لاکھوں افراد بے روز گار ہو ئے حکومتوں کی جانب سے کئی منصوبے تو شروع ہوئے مگر وہ سب مہنگے منصوبے اس بحران کو ختم نہ کر سکے،قطر کے ساتھ ایل این جی منصوبے سے قبل ایران کے ساتھ گیس فراہمی کا منصوبہ ہوا جو تاحال کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اب 28سال قبل جس گیس پائپ لائن منصوبے پر بات کا آغاز ہوا آج اس پر عمل درآمد پر تیزی سے کام شروع ہے، گذشتہ روزوزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ طور پر تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے پہلے حصے کا افتتاح کیا اس تقریب میں ترکمانستان کے صدراور وزیر مملکت برائے خارجہ امور ایم جے اکبرسمیت دیگر بھارتی حکومت کے نمائندوں نے بھی شرکت کی پائپ لائن کے پہلا حصے کے افتتاح افغانستان کے مغربی صوبے ہرات کی سرحد سے متصل ترکمانستان کے شہر راحت آباد میں ہواجبکہ دوسرے روزمغربی افغانستان کے تاریخی شہر ہرات میں بھی ایک تقریب منعقد ہوئی جس کے تحت بجلی ،آپٹک فائبرسمیت دیگر منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھا گیا ،شاہد خاقان عباسی افتتاح سے ایک روز قبل ترکمانستان پہنچے تھے جہاں انہوں نے صدر قربان گلی بردی محمدوف سے ملاقات میںترکمانستان کے ساتھ دو طرفہ تعاون،توانائی ،تجارت اور اقتصادی راہداری کے حوالے سے مئوثر بات چیت ہوئی،1814کلومیٹر اس طویل گیس پائپ لائن سے بھارت اور پاکستان کے علاوہ افغان صوبوں ہرات،فراہ،ہلمنداور نمرورکو بھی گیس فراہم کی جائے گی،جاری اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس سلسلہ میں ہونے والی تقاریب میں کہا کہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبے سے خطہ کے کروڑوں عوام کی اقتصادی ،سماجی حالت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی خطہ میں امن کے فروغ میں اس کا اہم کردار ہو گاپاکستان خطہ میں امن و ترقی کا علمبردار ہے انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کا شکریہ اد ا کیا جنہوں نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا جبکہ ترکمانستان کے صدر قربان گل بردی محمدوف نے گیس پائپ لائن منصوبے کا جو تصور پیش کیا تھاوہ اب توانائی کی راہداری میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس راہداری میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ،قتصادی زون ،،بجلی اور رابطوں کے دیگر منصوبے شامل ہیں ،افغان صدر اشرف غنی نے اس موقع پر کہا ہماری آنے والی نسلیں اس پائپ لائن منصوبے کو ہمارے خطے میں مشترکہ پوزیشن کی بنیاد کے طور پر دیکھیں گی اور اس سے ہماری معیشت کو ترقی،روزگار کے مواقع،سلامتی اور دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں مدد ملے گی،ہرات کے گورنر کے ترجمان جلال فرحاد نے کہا جنگ زدہ افغانستان میں اس پائپ لائن منصوبے کی تعمیر کے لئے سخت سیکیورٹی کے انتظامات کئے جائیں گے ،اس حوالے سے سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ طالبان کے ترجمان ذبیع المجاہد نے ایک خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ہم اس منصوبے کی حفاظت کی ضمانت لینے کو تیار ہیں کیونکہ یہ منصوبہ افغانستان کی معیشت کے لئے اہم ترین ہے اور جو طالبان کی حکمرانی میں بھی قابل غورتھا،اس منصوبے سے ابتدائی طور پر 27ارب مکعب میٹر سالانہ گیس کی فراہمی ممکن ہو سکے گی جس میں سے تین ارب افغانستان جبکہ 12۔12ارب مکعب میٹر بھارت اور پاکستان کو حاصل ہو گی(یوں 500ملین کیوبک فیٹ افغانستان جبکہ ایک ارب 32کروڑ کیوبک فیٹ پاکستان اور اتنی ہی بھارت کوملے گی) بعد میں اس مقدار کو مزید بڑھایا جائے گا،پاکستان ہندوستان سے سالانہ 200سے250ملین ڈالر ٹرانزٹ فیس کے طور پر وصول کر کے یہی رقم افغانستان کو بطور اپنی فیس ادا کیا کرے گا،اس گیس پائپ لائن منصوبے کے 5۔5فیصد شیئرز پاکستان اور انڈیا نے خرید رکھے ہیں،اس منصوبے کی تکمیل میں مزید دو سال لگ سکتے ہیں اس معاہدے کے مطابق اگر ہندوستان نے منصوبے سے علیحدگی اختیار کی تو ترکمانستان اس پر ہرجانہ عائد کرنے کا مجاز ہو گا،اس منصوبے پر بات چیت کا آغاز1990کو روس کے ساتھ ہوا تھاکیونکہ ترکمانستان اس وقت روس کا حصہ تھا1995میں معاہدے پر باقاعدہ دستخط ہو گئے اس وقت انڈیا اس میں شامل نہیں تھا روس کے ٹکڑے ہونے اور نائن الیون کے بعد 27دسمبر 2002میں نئے معاہدے پر بات چیت شروع ہوئی جس میں افغانستان اور پاکستان مشترکہ طور پر شامل ہوئے 2005میں ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے انگلش کمپنی ہینس بین سے اس کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کروائی،بالآخر 28اپریل2008 کو اس معاہدے میں انڈیا بھی شامل ہو گیا اور اس معاہدے کو TAPIکا نام دے کر 11دسمبر2010کو ترکمانستان کے دارلحکومت اشک آباد میں اس پر تمام فریقین ممالک نے دستخط کئے،تاپی گیس پائپ لائن اب ترکمانستان ،افغانستان ،پاکستان اور انڈیا کو مشترکہ گیس پائپ لائن منصوبہ ہے جس کے تحت گیس پائپ لائن ترکمانستان سے افغانستان میں قندھار ،ہرات ہائی وے کے ساتھ پاکستان، وہاں سے کوئٹہ اور ملتان کے راستے فاضلکا کے قریب انڈیا میں داخل ہو گی ،اس منصوبے پر ماضی کی طرح بے یقینی کے گہرے بادل چھائے رہے جنگ زدہ افغانستان کی وجہ سے یہ منصوبہ انتہائی پیچیدہ سمجھا جاتا رہا اس کے علاوہ اس کا گذر افغانستان کے علاوہ پاکستان کے بھی بعض حساس مقامات سے ہونا تھا،آخر کاراس منصوبے کا سنگ بنیاد 13دسمبر2015کوسابق وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف ،افغان صدر اشرف غنی،بھارتی نائب صدر حامد انصاری اور ترکمانستانی صدر قربان محمدوف نے رکھ دیا گیا ،نواز شریف اس وقت ترکمانستان کی مستقل غیر جانبداری کی 20ویں سالگرہ کے موقع پرمنعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لئے وہاں گئے تھے سنگ بنیاد رکھنے سے ایک ماہ قبل ترکمانستانی صدر نے ریاستی کمپنیوں ترکمان گیس اور ترکمان گیس نیفٹسٹوری کے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن تعمیر کرنے کے احکامات جاری کئے جبکہ اس گیس فیلڈ کو ڈویلپ اور آپریٹ کرنے کے لئے جاپانی ماہرین نے وہاں کام شروع کر رکھا ہے،سنگ بنیاد کے بعدایم ڈی انٹر سٹیٹ گیس پراجیکٹ مبین صولت نے کہا تھااس منصوبے کو آئندہ تین سال میں فاسٹ ٹریک پر مکمل کیا جائے گاجس کے بعد پاکستان میں گیس بحران ختم ہو جائے گااس کے علاوہ مزید تین منصوبے گوادر ایل این جی ٹرمینل ،گوادر تا نواب شاہ اور کراچی تا لاہور ایل این جی پائپ لائن مکمل ہوئی تو ان کے ذریعے 3.5تا4ارب کیوبک فیٹ گیس یومیہ قومی سسٹم میں شامل ہو جائے گی ،28سال قبل سے شروع ہونے والے اس منصوبے کی بازگشت اب پایہ تکمیل پہنچنے کو ہے ،دس ارب ڈالر مالیت کے ا س منصوبے کوپہلے اسے 2017میں مکمل ہونا تھا اب امید ہے یہ2019تک مکمل ہو جائے گا، ،ترکمانستان کے سنٹرل ایشیا میں دنیا کے 52ویں بڑے اور مسلم ملک تاجکستان جس کا 80فیصد سے زائد حصہ صحرا قراقرم پر مشتمل ہے جس کے جنوب مغرب میں قازقستان ،شمال میں ازبکستان ،جنوب شرق میں افغانستان ،جنوب میں ایران اور جنوب مغرب میں بحیرہ قزوین (یہ سمندر ایرانی شہر قزوین کے نام سے موسوم ہے جو رقبے اور حجم کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے جس کا مجموعی رقبہ تین لاکھ 71ہزار مربع کلومیٹر ہے جو ایشیا اور یورپ کے درمیان چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا خطہ آب ہے)،اس مسلم ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 89فیصد ہے ،ترکمانستان کے جنوب مشرق میں واقع صوبہ ماری جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں یولونین اس کا ایک رہائشی علاقہ ہے یہ شہر مسلم ممالک کا اہم ترین اور سلک روڈ پر انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے کے قریب دنیا کی دوسری بڑی گیس فیلڈ ہے جہاں 4سے14ٹریلین کیوبک میٹرز ذخائر ہیں یہ گیس فیلڈ 27 سو مربع کلومیٹر جس کی لمبائی 90جبکہ چوڑائی30کلومیٹر جبکہ گہرائی 13سے17ہزار فٹ تک ہے ،تاپی گیس فراہمی منصوبے سے پاکستان میں گیس کی کمی بڑی حد تک ختم ہو جائے گی تاہم ایران اور پاکستان کے ساتھ کئے گئے گیس فراہمی معاہدے کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے ایران اس حوالے سے اپنی جانب گیس پائپ لائن کئی سال قبل مکمل کر چکا ہے مگر پاکستان نے صرف گوادرتا نواب شاہ پائپ لائن میں اضافی صلاحیت شامل کی گئی تا کہ ایران سے خریدنے والی گیس بھی سسٹم میں شامل کی جا سکے عالمی پابندیوں و دیگر وجوہات کے ہٹنے پر اگر یہ منصوبہ بھی کامیاب ہوتا ہے تو ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی ایران پاکستان کو ایک ارب کیوبک فیٹ گیس روزانہ فراہم کرنے پر رضامند ہے مگر پاکستانی حکام کی بیرونی مصلحتوں کے باعث لگتا نہیں کبھی ایران کے ساتھ ایسے روابط ہوں گے یہی وجہ بن رہی ہے کہ ایران نے اپنی چاہ بہار بندر گاہ کا انڈیا کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے ،پاکستانی حکام کی سر د مہری کا اظہارایرانی سفیرمہدی دوست نے اسٹریٹجک وژن انسٹی ٹیوٹ پاک ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اور موجودہ خطرات کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران کہا کہ دنیا کے کئی ممالک ایران کے ساتھ بیکنگ تعلقات قائم کر رہے ہیں مگر پاکستان گیس فراہمی معاہدے کے بعد بینکنگ تعلقات میں بھی بلاوجہ تاخیر کر رہا ہے پاکستان کی ایران کے حوالے سے قدامت پسند پالیسی مناسب نہیں ،ایرانی سفیر کا یہ بیان دو طرفہ تعلقات کے درمیان در پیش چیلنجز کو واضح کرتا ہے

زبان کی آفتیں اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر:حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی جمشید پور
یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے اس پر ذرا غور کریں کہ یہ کتنی عظیم نعمت ہے۔ بندہ اس کا کما حقہ شکر ادا نہیں کر سکتا۔ یہ زبان پیدائش سے لے کر مرتے دم تک انسان کا ساتھ دے رہی ہے۔نہ اس کی سروس(Service) کی ضرورت نہ پٹرول کی ،نہ اوورہالنگ کی۔ انسان کا ساتھ دیتے چلی جارہی ہے۔یہ زبان ہماری ملکیت نہیں بلکہ ہمارے پاس امانت ہے۔ جب یہ امانت ہے تو پھر اس کو اللہ کی رضا کے مطابق استعمال کیاجائے۔ یہ نہ ہو کہ جو دل میں آیا بک دیا بلکہ جو بات اللہ کے احکام کے مطابق ہے وہ بات بولی جائے۔ زبان ہی سے آدمی جنت کا مستحق بنتاہے اور زبان ہی سے دوزخ کا بھی مستحق بن جاتاہے۔ اس لئے زبان کی بہت اہمیت ہے اور ہر اہم و قیمتی چیز کی حفاظت کرنی پڑتی ہے ورنہ وہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے۔ اسی لئے قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ میں زبان کی حفاظت اور اس کے صحیح استعمال کی بڑی تاکید یں آئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اِذ یَتَلَقَی المْتَلَقِّیٰنِ عَنِ الیَمِینِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِید(16) مَا یَلفِظْ مِن قَولٍ اِلَّا لَدَیہ ہِ رَقِیبْ عَتِید(17) ترجمہ: اس سے لیتے ہیں دو لینے والے ایک داہنے بیٹھا ایک بائیں۔کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس سے پہلے وہ لکھ لی جاتی ہے۔ ایک تیار بیٹھا ہوا محافظ لکھ لیتاہے۔(سورہ ق 50/16،17) اللہ تبارک و تعالیٰ سب جانتاہے صرف زبان سے بات کرنا ہی نہیں بلکہ سوچ کو بھی جانتاہے۔ ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہیں جو ہر بات لکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مریضوں کا کراہنا بھی لکھا جاتاہے۔ اچھی بات دائیں طرف والا اور بری بات بائیں والا فرشتہ لکھتاہے۔(سوائے پیشاب پاخانہ کی حالت میں یا بیوی کے ساتھ وقت خاص میں) یہ فرشتے الگ ہو جاتے ہیں (اسی لئے اس وقت بات کرنا ممنوع ہے)۔نیکی والا فرشتہ ایک نیکی کا دس لکھتاہے بدی والا ایک کی ایک ہی لکھتاہے۔ بندہ توبہ کر لے تو گناہ مٹ جاتا ہے بندہ مومن کے مرنے کے بعد وہ دونوں فرشتے قیامت تک اس کی قبر پر تسبیح وتحلیل کرتے رہتے ہیں جس کا ثواب اس بندے کو ملتاہے۔
زبان کو گناہ کی باتوں سے بچاؤ:
زبان کو بات چیت، بیان و احکام میں ہمیشہ گناہوں کی باتوں سے بچانا ضروری ہے۔ مثلاً حرام کو حلال اور حلال کو حرام قراردے دینا، کسی کو تکلیف پہنچانا۔قرآن پاک کا ارشاد ہے۔ترجمہ: اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں، یہ حلال ہے یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو۔ بے شک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہیں۔(سورہ نحل، آیت 116) آج جو لوگ حلال چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں مثلاً فاتحہ ایصال ثواب کے مختلف طریقے ،قرآن خوانی وغیرہ کی محافل کو جو لوگ ناجائز قرار دیتے ہیں ان کو اس آیت کے پیش نظر اپنا حکم معلوم کرلینا چاہئے کیوں کہ قرآن پاک اور حدیث پاک میں کہیں بھی ان چیزوں کو حرام قرار نہیں دیا گیا ہے۔ تو اب لوگوں کو یہ حق کہاں سے مل گیا کہ اللہ پر افترا کرکے حلال چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح آج بہت سے لوگ حرام چیزوں کو حلال قرار دے کر بھی بہت بڑا گناہ کرتے ہیں اور اللہ پر افترا باندھتے ہیں۔ مثلاً سود، رشوت، جوا، ناجائز کھیل تماشے ، شرعی ضرورت کے بغیر فوٹو کھنچوانا وغیرہ۔ آجکل ان سب کا بازارخوب گرم ہے اور کہنے پر طرح طرح کے حیلے بہانے نکالتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی اس آیت مبارکہ میں داخل ہیں۔ آجکل لوگوں کی عادت ہے کہ کسی سے ناراض ہوئے ،غصہ آیا اور لعنت ملامت شروع کردی۔ فلاں پر اللہ کی لعنت ، فلاں پر لعنت۔ آجکل یہ بیماری بلکہ وبا عام ہے۔ حالانکہ ہم کو نہیں معلوم کہ یہ ہماری بھیجی ہوئی لعنت کا کیا حشر ہوتاہے۔حضور ﷺ نے فرمایا: مومن نہ لعن کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت کرنے والا ، نہ فحش بکنے والا بیہودہ ہوتاہے۔(ترمذی) رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جو لعنت کرتے ہیں وہ قیامت کے دن نہ گواہ ہوں گے نہ کسی کے سفارشی۔(صحیح مسلم) اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا مومن کو یہ نہ چاہئے کہ لعنت کرنے والا ہو۔(ترمذی) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتاہے تو وہ لعنت آسمان کو جاتی ہے۔آسمان کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں۔ پھر دائیں بائیں جاتی ہیں۔ جب کہیں راستہ نہیں پاتی تو اس کی طرف آتی ہے جس پر لعنت بھیجی گئی۔ اگراسے اس کا اہل پاتی ہے تو اس پر پڑتی ہے ورنہ بھیجنے والے پر آجاتی ہے۔ (ابو داؤد شریف) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص کی چادر کو ہوا کے تیز جھونکے لگے۔ اس نے ہواپر لعنت کی۔ حضور نے فرمایا کہ ہوا پر لعنت نہ کرو،وہ خدا کی طرف سے مامور ہے۔ اور جو شخص ایسی چیز پر لعنت کرتاہے جو لعنت کی اہل نہ ہو تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے۔ (بحوالہ کشف القلوب جلد۳صفحہ280،ترمذی شریف)
زبان اللہ کی امانت ہے:
حضرت ابو ہریرہ ص روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ یا تو وہ اچھی اور نیک بات کہے یا خاموش رہے۔ دوسری روایت بھی ابو ہریرہ صسے مروی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے سنا ،آپ نے فرمایا کہ ایک انسان سوچے سمجھے بغیر جب کوئی کلمہ زبان سے کہہ دیتاہے تو وہ کلمہ اس شخص کو جہنم کے اندر اتنی گہرائی تک گرا دیتاہے جتنا مشر ق اور مغرب کے درمیان فاصلہ اور بْعد(دوری) ہے۔(صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان)
زبان جہنم میں لے جانے والی ہے:
ایک حدیث پاک میں سرکار دوجہاں ﷺ نے فرمایا کہ جتنے لوگ جہنم میں جائیں گے ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوگی جو اپنی زبان کی کرتوت کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔ مثلاً جھوٹ بول دیا، غیبت کردی ، کسی کا دل دکھا یا، کسی کی دل آزاری کی، دوسروں کے ساتھ غیبت میں حصہ لیا، کسی کی تکلیف پر خوشی منائی ، زیادہ باتیں کیں۔ جب یہ گناہ کے کام کئے تو اس کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلا گیا۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ماجاء4 فی حرم الصلا، حدیث نمبر2616) یعنی بہت سے لوگ زبان کی کرتوت کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔ ایک بڑی پیاری حدیث پاک ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ کَرِہَ لَکْم ثَلَاثًَ قِیلَ وَ قَالَ وَ اِضَاعََ المَالِ وَ کَثرَتْ السّْوَال اللہ پاک تین لوگوں کو سخت ناپسند فرماتاہے۔(۱)زیادہ باتیں کرنے والے کو(۲)فضول خرچی کرنے والے کو (۳)زیادہ سوال کرنے والے کو۔بیہقی نے حضرت عمر بن حصینص سے روایت کی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ سکوت پر قائم رہنا ساٹھ برس کی عبادت سے افضل ہے۔ ترمذی شریف میں ابو سعید خدری صسے روایت ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ابن آدم جب صبح کرتا تو تمام اعضا زبان کے سامنے عاجزانہ یہ کہتے ہیں کہ تو خدا سے ڈر کہ ہم سب تیرے ساتھ وابستہ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب ٹیڑھے ہوجائیں گے۔(ترمذی، حدیث نمبر2407) یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے اگر اس کو صحیح استعمال کریں اس کو قابو میں رکھیں،بے قابو نہ چھوڑیں۔ اسی لئے کہا گیا کہ زبان سے یا تو صحیح بات بولو ورنہ خاموش رہو۔ اس لئے کہ خاموشی اس سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ آدمی غلط بات زبان سے نکالے۔ اسی وجہ سے زیادہ باتیں کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ نہ صرف منع کیا گیا ہے بلکہ اللہ پاک ایسے شخص کو ناپسند فرماتاہے جیساکہ اوپر حدیث پاک آپ پڑھ چکے ہیں۔
اگر انسان زیادہ بولے گا تو زبان قابو میں نہیں رہے گی۔کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہوگی اور اس کے نتیجے میں انسان گناہ میں مبتلا ہوجائے گا۔ اس لئے ضرورت کے مطابق بولو، زیادہ نہ بولو۔ جیسے ایک بزرگ کا قول ہے کہ پہلے بات کو تولو پھر بولو۔ جب تول تول کربولو گے تو یہ زبان قابو میں آجائے گی۔ صحابہ کرام اور صوفیائے کرام نے بھی زبان کی حفاظت کو خوب اہمیت دی ہے۔
حضرت ابوبکرصدیق صجو انبیاء4 کرام کے بعد سب سے افضل انسان ہیں ،وہ ایک مرتبہ اپنی زبان کو پکڑ ے بیٹھے تھے اور اس کو مروڑ رہے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ ایساکیوں کر رہے ہیں؟انھوں نے جواب دیا:ان ہذا وری الموارد ترجمہ: اس زبان نے مجھے ہلاکتوں میں ڈال دیا ہے، اس لئے اس کو قابومیں کرنا چاہتا ہوں۔(موطا امام مالک ،کتاب الکلام باب ماجاء4 فی مایخاذ من اللسان) بعض روایات مروی ہیں کہ آپ منھ میں کنکریاں ڈال کر بیٹھ گئے تاکہ بلا ضرورت زبان سے بات نہ نکلے۔ زبان ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان جنت بھی کماسکتاہے اور دوزخ بھی کما سکتا ہے۔ زبان کو بہرحال قابو میں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ بیجا استعمال نہ ہو۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ انسان زیادہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے۔ اس لئے انسان جتنا زیادہ کلام کرے گا اتنا ہی زیادہ گناہوں میں مبتلا ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں زبان کے غلط استعمال کی جو وبا چل پڑی ہے یہ بہت خراب اور خطرناک بات ہے۔ دوستوں کو بلالیا کہ آنا ذرا بیٹھ کر گپ شپ کریں گے۔ اب اس گپ شپ کے اندر جھوٹ بولا جارہاہے ، غیبت ہورہی ہے،دوسروں کی برائی ہورہی ہے، دوسروں کی نقل اتاری جارہی ہے۔ اس طرح کی اڈہ بازی میں نہ جانے کتنے گناہ ہورہے ہیں۔ لہٰذا زبان کی آفات، خرابی، فحش گوئی، دشنام طرازی، زبان درازی کی لعنت ، مسخرہ پن، فضول گوئی ،چغلی ، حسد وغیرہ وغیرہ جتنی آفتیں ہیں زبان کی ہی وجہ سے ہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ زبان شکر بھی کھلائے اور جوتے بھی کھلائے۔ حضرت ہشام بن عمرص سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص غلام کو طمانچہ مارے اس کا کفارہ غلام کو آزاد کرنا ہے۔ جو شخص اپنی زبان کی حفاظت کرے گا اس کو عذاب سے نجات دی جائے گی۔ جو اللہ سے معذرت کرے گا معذرت قبول کی جائے گی۔ مومن کو چاہئے کہ پڑوسی اور مہمان کا اکرام کرے ،زبان کی ترشی سے بچائے اور پڑوسی سے بھلائی کی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔
زبان کی گھٹتی قیمت:
نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کے دور میں زبان کی قدر وقیمت گھٹتی جارہی ہے اور اس کے صحیح استعمال سے بہت غفلت برتی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ اب اہل علم ، دین کے ذمہ داران بھی اس سلسلے میں بے توجہی کا شکار ہیں۔ اس لئے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اس زبان کو قابو میں کرنے کی اہمیت دل میں پیدا کریں، خوفِ خدا پیدا کریں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا’’ من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاخر فلیقل خیرً اولیصمت، و من کان من باللّٰہ و الیوم الاخر فلیکرم جارہ ، و من کان یؤمن باللّہِ والیوم الاخری فلیکرم ضیفہ ‘‘(ترجمہ) جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ خیر کی بات کرے،ورنہ خاموش رہے،اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہووہ اپنے پروسی کی عزت کرے ، اور جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے‘‘(بخاری شریف حدیث نمبر 6475،6138،مسلم شریف : 47)یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خیر کی بات کرنا،پڑوسی کے حقوق ادا کرنا اور مہمان نوازی کرنا133. یہ سارے اعمال ایمان میں شامل ہیں۔خیر کی بات کرنا زبان کی اہمیت کو بتاتا ہے اور خاموش (چپ) رہنے کی تلقین زبان کی اہمیت کو اجاگرکرتی ہے۔
اپنا احتساب کریں:
کیا آپ کے نزدیک آپ کی زبان ہر قسم کی ذمہ داری سے آزاد اور مستثنیٰ ہے؟ کیا آپ اس بات کے منکر ہیں جو قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ انسان کوئی بات بولتا ہے مگر یہ کہ اس کے لئے ایک فرشتہ تیار رہتا ہے لکھنے کے لئے۔(القرآن سورہ ق، آیت ۱۸)کیا آپ کو اطمینان ہے کہ آپ کی زبان سے جو کچھ نکل رہا ہے اس پر کسی کی گرفت نہیں ہوگی؟ اگر آج ہم میں ہر شخص اتنا عزم کرلے کہ آئندہ سے اپنی زبان اپنے قابو میں رکھے گا تو ذاتی ،خاندانی کتنی ہی خرابیوں ، رنجشوں اور فتنوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔قْولْو قَولاً شَدِیداً بات کہو تو پکی اور مضبوط۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے زبان کی اہمیت ہمارے دلوں میں پیدا فرمائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ کاش ایک مرتبہ بھی ہمیں قرآنی نسخہ کیمیا پر عمل کی توفیق ہوجائے۔
رابطہ کیلئے
09386379632 hhmhashim786 @gmail.com 
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجدھا جر ہ رضویہ اسلام نگر کپا لی وایا مانگو جمشید پور الھند
loading...