جمعہ، 16 مارچ، 2018

چشمہِ معرفت کشف المعجوب

چشمہِ معرفت کشف المعجوب
اسی (80) کے عشرے میں حضرت علی ہجویری ؒ (المعروف داتا صاحب ) کی پرانی مسجد کو شہید کر کے بڑی مسجد اور کھلے صحن کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری تھا دوران کھدائی بنیادوں میں بہت ساری پرانی قبروں کا انکشاف بھی ہو ا زیادہ تر قبروں میں پرانی اور بوسیدہ ہڈیاں ملیں جن کو پورے احترام کے ساتھ دوبارہ دفن کر دیا گیا ۔ اِسی دوران ایک ایمان افروز حیران کن واقع پیش آیا جس نے اہل ایمان کے دلوں کو اور مضبوطی دی ۔
دوران کھدائی ایک جگہ سے ایسا جسم مبارک ملا جو برسوں پہلے دنیا فانی سے جا چکا تھا لیکن آج بھی ترو تازہ لگ رہا تھا جیسے آج ہی فوت ہو اہو ‘زیادہ حیرت والی بات یہ تھی کہ یہ کسی انگریز کا جسم تھا جس کے نورانی چہرے پرداڑھی مبارک بھی تھی ۔ یہ واقعہ سب کے لیے ہی بہت حیران کن تھا ۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ یہ ایک گورے کاجسم پاک ہے جو کہ برطانیہ کا رہنے والا تھا تحقیق سے پتہ چلا کہ 1936میں برطانیہ کے لینارڈ خاندان سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ جب کشف المعجوب کا انگریزی ترجمہ پڑھا تو کتاب کی حقانیت اور سچائی سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے ‘دلوں میں عشق الٰہی کی ایسی شمع روشن ہو گئی کہ بر طانیہ چھوڑ کر تلاش شیخ اور تصوف کے اسرار و رموز سیکھنے کے لیے ہندوستان آگئے ‘تلاشِ حق اور تلاشِ شیخ کے لیے ملک کا چپہ چپہ چھان مارا پھر جب خالق ِ بے نیاز کو دونوں بھائیوں پر رحم آیا تو اُن کو حیدر آباد میں مولانا سید محمد ذوقی شاہ کا د ر دکھا دیا دونوں بھائی مولانا ذوقی شاہ صاحب کے مرید ہوئے اور اپنے شیخ کی زیرنگرانی سلوک الیٰ اﷲ طے کئے اور اپنی روحوں کو عشقِ الٰہی اور روحانیت کے اسرار و رموز سے روشن کیا شیخ نے اپنی نگاہ خاص سے اُن کے مرُدہ دلوں کو روحانیت کی حرارت بخشی بڑے بھائی کا اسلامی نام فاروق احمد رکھا گیا جو مرشد سے روحانیت کی تربیت لے کر لاہور میں سید علی ہجویری ؒ کے دربار مبارک پر آگیا یہاں آکر تاریخ کے سب سے بڑے چشمہ معرفت سے عرصہ دراز تک فیض یاب ہو تا رہا اور لوگوں کی بھی تربیت کرتا رہا ۔یہاں کی شدید گرمی کی تاب نہ لا سکا اور اسلامی زندگی کے آٹھویں سال جامِ شہادت نوش کیا اور حضرت علی ہجویری ؒ قدس سرہ کے آستانہ مبارک میں دفن ہوئے کئی سالوں کے بعد جب مسجد کا توسیعی کام ہو رہا تھا تو آپ کا جسم مبارک ویسے کا ویسا تھا یہ حضرت علی ہجویری ؒ کی ایک اور زندہ کرامت تھی ۔ فاروق احمد کے جسم مبارک کو دوبارہ ایک خوبصورت کمرے میں دفن کیا گیا سرہانے سنگ مرمر کی خوبصورت تختی بھی لگائی گئی جس پر آپ کی ساری تفصیل درج ہے احقر کئی بار اِس کمرہ مبارک اور قبر مبارک کی زیارت کر چکا ہے ‘اہلِ دل آج بھی فاروق احمد صاحب کی قبر مبارک پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں ۔فاروق احمد صاحب کے چھوٹے بھائی جن کا اسلامی نام حضرت شہید اﷲ فریدی ؒ نے ریاضت ،مجاہدوں کے بعد سلوک الیٰ اﷲ میں تکمیل حاصل کی اور خلافت سے نوازے گئے ۔ اِس کے بعد تقریباً عرصہ تیس برس تک مریدین کی تربیت میں مشغول رہے شدید گرمی اور روحانی مصروفیات کی وجہ سے دل کے مریض ہو گئے اور 1978میں واصل باﷲ ہوئے آپ کا مزار مبارک کراچی کے قبرستان سخی حسن میں مرجع خلائق ہے ۔حضرت شہید اﷲ صاحب کشف المعجوب مطبوعہ مکتبہ المعارف لاہور کے دیباچہ میں شہنشاہ لاہور علی ہجویری ؒ کو شاندار الفاظ میں اِس طرح خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔’’حضرت علی ہجویری ؒ کی شہرت کا دارومدار کشف المعجوب ہی نہیں ہے بلکہ آپ کا لاہور میں وہ مزار مبارک ہے جہاں پر ملک ہندوستان اور دیگر ہمسایہ ملکوں کے زائرین کا ہجوم رہتا ہے اور روحانیت کے پیاسے اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں ۔ کشف المعجوب کو تو چند لوگوں نے پڑھا ہو گا۔ لیکن آپ کی روحانیت سے لاکھوں سیراب ہو رہے ہیں لہذا آپ کی شہرت اور عظمت کا دارومدار صرف کتابیں اور تذکرے نہیں بلکہ آپ کی بے پناہ روحانی قوت اور کشش ہے جس سے ہر کس و ناکس آپ کی طرف کھینچا چلا آتا ہے ‘‘۔
محترم قارئین کسی معتبر تاریخ سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ شہنشاہِ لاہور حضرت علی ہجویریؒ کا خلیفہ اکبر کون تھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں تصوف کے عظیم بزرگ راہنما حضرت داتا گنج بخش ؒ کی شہرہ آفاق کتاب کشف المعجوب ہی آپ کی خلیفہ اکبر ہے اور قیامت تک سلسلہ ہجویر جارہ و ساری رہے گا ۔ تصوف پر لکھی جانے والی عربی زبان کی پہلی کتاب شیخ حارث المحاسی کی ’’کتاب الرعایہ ‘‘ہے ۔ فارسی میں یہ شرف کشف المعجوب کا حاصل ہے ۔ تصوف کے ماخذ میں اِس کتاب کو سند د کادرجہ حاصل ہے ۔ یہ کتاب سید علی ہجویری ؒ نے اپنے ہم وطن ابو سعید غزنوی کی درخواست پر لکھی اگرچہ آپ کی ساری کتابیں غزنی میں رہ گئی تھیں ۔ لیکن آپ نے اپنی بے پناہ قوت حافظہ اور مسائل تصوف پر عبور کی بدولت ایسی مکمل اور بھر پور کتاب لکھی ہزار سال گزرنے کے بعد بھی کوئی کتاب آپ کی کتاب کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے یہ کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ یہ کتاب فارسی میں تصوف پر پہلی کتاب ہے اور ارباب ِ علم و فن کا قول ہے کہ پہلی کوشش کرنے والا مشکل ترین راستے سے گزر کر آنے والی نسلوں کے لیے راہ ہموار کرتا ہے لیکن حیرت ہے کہ ہزار سال گزرنے کے باوجود بھی یہ کتا ب حر ف آخر کا درجہ رکھتی ہے ۔صدیوں کا غبار بھی اِس کتاب کی شان کو دھندلا نہ سکا صاحب کتاب نے فقر و تصوف پر بڑے خوبصورت اور روح پرور پیرائے میں وضاحت اور تشریح کی ہے ۔عرف عام کے مطابق اور لغوی مفہوم کے اعتبار سے تو فقر مہتاجی ،غربت اور تنگدستی کا مترادف ہے جبکہ صوفیاء کے ہاں یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جب اس پر کوئی بندہ فائز ہو جا تا ہے تو اس کے نزدیک سونے کی ڈلی اور مٹی کے ڈھیلے میں چنداں فرق نہیں رہتا اور وہ خدا کا اِس قدر مہتاج بن جاتا ہے کہ ساری دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے ۔اِسی طرح تصوف کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ درود و وظائف ، چلہ ّ کشی تسبیح گردانی اور کشف و کرامت کے چرچے کا نام ہے جب کہ قدیم اور حقیقی صوفیاء کے نزدیک تصوف ، مال نہیں ایک حال ہے جو بندے پر وارد ہو تا ہے جس سے اِس کے ظاہر و باطن کا تضاد دور ہو جاتا ہے اور قلب ِ و دماغ تزکیہ و طمانیت کا مرکز بن جاتا ہے اِسی طرح اثبات ِ فقر کے عنوان میں کہتے ہیں فقیر کون ہے؟
فقیر وہ ہے جس کی ملکیت میں کوئی چیز نہ ہو اور کسی چیز کے حاصل ہونے سے اُسے کوئی فرق نہ پڑے وہ اسبابِ دنیا کے موجود ہونے سے اپنے آپ کو غنی نہ سمجھے اور نہ ہونے سے خود کو مہتاج نہ جانے یعنی اس کی نظر میں اسباب کا ہونا نہ ہونا برابر ہو ۔ ہر دور کے اولیا ء اور بڑے مشائخ کا قول مبارک ہے ۔اگر کسی کو مرشد کامل کی تلاش ہواور پوری کوشش کے بعد بھی کوئی روحانی راہنما نہ ملتاہو تو وہ خلوصِ نیت کے ساتھ کشف المعجوب کا مطالعہ کرے انشاء اﷲ ہدایت پا جائے گا۔ایک ایسی کتاب جو صدیوں سے لاکھوں متلاشیانِ روحانیت اور قربِ الہٰی کے مسافروں کے بے نور اندھی روحوں اور دماغوں کو روشن کر رہی ہے ۔ یہ قدرت ِ خداوندی کا کرشمہ ہے کشف المعجوب باطنی اندھوں کے لیے اکسیر کا مقام رکھتی ہے ۔

وزیراعلیٰ صاحب وینٹی لیٹر کا سوال ہے

وزیراعلیٰ صاحب وینٹی لیٹر کا سوال ہےدسمبر کا مہینہ اور رات کے آخری پہر جب گلی کی ساری بتیاں کُہر کی چادر اوڑھے سو چکی تھیں ۔ سرد ہواؤں نے دن بھر کے تھکے ماندے انسانوں کو تھپک تھپک کر گہری نیند سُلا دیا تھا ۔ میں بھی حسب معمول عبادت او رطویل مراقبے کے بعد سونے کے لیے نرم اور گداز بستر پر لیٹ گیا ۔ سو فٹ گرم کمبل اور میرے بوجھل اعصاب جلد ہی مجھے نیند کی وادی میں لے گئے ‘مجھے سوئے ہوئے ابھی شاید چند گھڑیاں ہی گزری تھیں کہ تیز شور بلند ہوا ۔ جیسے ہی میرے حواس بیدار ہوئے تو پتہ چلا کہ کوئی بہت شدت اور زور سے دستک دے رہا تھا اور یہ عمل وہ تواتر سے دہرائے جا رہا تھا ۔میرا نیند کا خمار کچھ کم ہوا اور جب اعصاب قدرے بحال ہوئے تو میں تیزی سے بیڈروم سے نکل کر مین گیٹ کی طرف گیا۔ کیونکہ مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں نے ذرا بھی دیر کر دی تو شور سے گھر والوں کے ساتھ ساتھ اہل محلہ بھی جاگ جائیں گے ۔میں نے تیزی سے جا کر دروازہ کھولا تو میرے سامنے دو دیہاتی وضع قطع کے نوجوان لڑکے کھڑے تھے ‘مجھے دیکھتے ہی وہ تیزی سے میری طرف بڑھے اور بولے جناب عبداﷲ بھٹی صاحب آپ ہیں‘ وہ پنجابی زبان میں بات کر رہے تھے میرے اقرار کرنے پرہاتھ جوڑتے ہوئے بولے جناب ہمارے والد صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے ڈاکٹروں نے ہمیں جواب دے دیا کسی نے ہمیں آپ کا بتایا تو دم کرانے آپ کے پاس آگئے ہیں ۔ وطن عزیز میں جب بھی بیماری پرانی اور پیچیدہ ہوتی ہے یا لاعلاج شکل اختیار کر جاتی ہے تو بے بس لا چار مریض اور لواحقین بزرگوں درویشوں کی طرف بھاگتے ہیں ۔ میرے ساتھ اکثر یہ حادثہ ہو تا رہتا ہے جب لوگ رات کے کسی بھی وقت آکر دعا اور دم کا تقاضہ کرتے ہیں ۔ میرے پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ مریض ساتھ ہی کھڑی پک اپ میں ہے لہذا میں پک اپ کی طرف بڑھا جہاں پر تقریبا پچاس سالہ شخص لیٹا ہوا تھا بیٹے نے موبائل سیٹ کی روشنی اپنے والد کے چہرے پر ماری تو اُسے دیکھ کر میں بھی لرز گیا اُس شخص کی سانسیں بری طرح اُکھڑی ہوئی تھیں اور وہ بڑی مشکل اور زور دار پھنسی ہوئی آواز کے ساتھ سانسیں لے رہا تھا ۔ مریض کے چہرے پر وہ رونق بہت کم تھی جسے زندگی سے تعبیر کیا جا تا ہے ۔ مریض اور اُس کے بیٹوں کے چہروں پر التجا کے تا ثرات نمایاں تھے مریض کے بدن پر لرزا طاری تھا اور شدت درد سے اُس کے آنسو جاری تھے ۔ اس کے چہرے کا رنگ زرد اور حالت اتنی متغیر تھی کہ وہ برسوں کا بیمار نظر آرہا تھا جبکہ بیٹوں کے چہرے حسرت ویاس کی تصویر بنے ہوئے تھے ۔ مریض بولنے کی پوری کوشش کر رہا تھا لیکن بیماری اور نقاہت کی وجہ سے ایک حرف بھی اس کے ہونٹوں کی قید سے آزاد نہ ہو سکا ۔اُس کو دیکھ کر بیٹوں نے بھی رونا شروع کر دیا اور مجھے با ر بار کہہ رہے تھے کہ اُن کے والد کو بچالیں شدت غم سے اُن کی زبانوں سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کرادا ہو رہے تھے ۔ میں نے اُن کو سمجھایا کہ میری کیا اوقات ہے خدا سے تم بھی دعا کرو میں بھی کرتا ہو ں کیونکہ خدا ایک ہے وہی سب کا کارساز ہے کوئی بھی شے اُس کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں دنیا کا ہر شاہ و گدا اُس کا ہی مہتاج ہے ۔اِنسان کے لیے اِس سے بڑی ذلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ خدا کو چھوڑ کر اپنے ہم جنس کے سامنے ہاتھ پھیلائے ۔ لیکن میں نے اُن کی تسلی کے لیے مریض کو دم کرنا شروع کر دیا اور اﷲ تعالٰی سے دعا بھی اور یہ بھی پوچھا کہ ڈاکٹر کیا کہتے ہیں تو اُس کا بیٹا بولا ڈاکٹر کہتے ہیں مریض کو وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے لیکن ہسپتال میں وینٹی لیٹر ز کم ہیں ہم تقریبا ً لاہور کے تمام سرکاری ہسپتالوں کے چکر لگا کر مایوس ہو کر آپ کی طرف آئے ہیں ۔ اُن کی تکلیف مجھ سے بھی برداشت نہیں ہو رہی تھی لہذا مجبوراً اتنی رات گئے میں نے اپنے چند ڈاکٹروں کو بھی فون کیا کسی نے تو فون اٹھایا ہی نہیں اور اکثر کے فون بند تھے اور اگر کسی نے اُٹھایا بھی تو اُس نے معذرت کی کہ ہسپتال میں موجود تما م وینٹی لیٹر ز مصروف ہیں اب کوئی مریض وفات پا جائے تو ہی چانس بنتا ہے مریض کے بیٹوں نے بتایا کہ پرائیوٹ ہسپتالوں کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ مریض کی حالت اور بیٹوں کی تکلیف دیکھ کر میں بھی عجیب بے بسی اور لا چارگی محسوس کر رہا تھا ۔ ایسے مشکل لمحات میں ہمیشہ قدرت نے عجیب و غریب انداز میں میری دستگیری کی ہے کیونکہ جن کا مشکل کشا خدا ہو تو اُن کی راہ کے پتھر بھی پھول بنتے چلے جاتے ہیں مریض کے بیٹوں کے آنسوؤ ں سے بھیگی آنکھوں میں التجا اور اُن کی آواز اور چہروں پر پریشانی کے رنگ بہت گہرے ہو گئے تھے ۔ اچانک ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح دماغ میں لپکا کہ چند روز پہلے ہی ایک مخیرآدمی نے مجھے کہا تھا کہ میرے پاس زکوٰۃ کے پیسے پڑے ہیں اگر کوئی ضرورت مند ہو تو مجھے ضرور بتایئے گا لہذا میں ایک امید اور اﷲ کے سہارے اس کو فون ملا دیا کیونکہ اﷲ کی مدد آچکی تھی اس نے فون اٹھا لیا اور میری با ت سننے کے بعد کہا آپ فوری طور پر فلاں پرائیوٹ ہسپتال آجائیں میں بھی وہاں آرہا ہوں ۔ میں نے اطمینان کی لمبی سانس لی کہ آج بھی اس زوال زدہ معاشرے میں ایسے لوگ ہیں جن کو دوسروں کو درد محسوس ہوتا ہے ۔ کیونکہ پوری انسانی تاریخ میں ایسے چند ہی لوگ نظر آتے ہیں جو صرف مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانے کے لیے دولت کماتے ہیں ۔ خدمت خلق کے حوالے سے ایک روایت ہے کہ حضرت موسی ؑ نے اﷲ تعالی سے عرض کی اے اﷲ مجھے وہ شخص بتلا جو تجھے مخلوق میں سب سے زیادہ پیارا ہے تو رب ِ بے نیاز نے فرمایا موسیٰ مجھے وہ شخص سب سے زیادہ پیارا ہے جو کسی مومن کو کانٹا لگنے کی خبر پا کر اِس طرح غمگین ہو کہ گویا خود اسی کو لگا ہے ۔ ہم تیزی کے ساتھ ہسپتال پہنچے ہمارے جانے سے پہلے ہی وہ نیک آدمی آچکا تھا اور پیسے بھی جمع کرواچکا تھا ۔ لہذا فوری طور پر مریض کو وینٹی لیٹر لگا دیا گیا مریض کی اکھڑی سانسیں نارمل ہو نا شروع ہو گئیں چہرہ اور جسم بھی آرام دہ حالت میں آتاگیا ۔ مریض اور اس کے بیٹوں کے چہرے نا قابلِ بیاں خوشی اور طمانیت کے احساس سے تازہ اور روشن ہو چکے تھے ۔محترم قارئین ایسے بے شمار مریض روزانہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ۔جناب خادم اعلی صاحب سے درخواست ہے کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ سڑکیں اور پُل بہت ضروری ہیں لیکن انسانی زندگی سب سے قیمتی ہے ۔ خدارا ہمارے وسائل یا بجٹ کا بڑا حصہ محروم طبقات کی زندگی بہتر بنانے پر خرچ کریں ۔ آج ملک کے طول و عرض میں مفلس فاقہ کش بے وسیلہ لوگ انتہائی ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ انسانیت سوز عوام کش نظام کی تبدیلی اب بہت ضروری ہو گئی ہے یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں زندہ رہنے کے لیے کچھ با اثر لوگوں کو دوست یا خوشامد کرنا پڑتی ہے ۔ آج وقت کی چند ساعتیں اگر آپ کے اختیار میں ہیں تو اﷲ کا انعام سمجھ کر خود کو تاریخ میں امر کر لیں ۔ کیونکہ اﷲ بندوں کو مایوس کرنے والے لوگ تاریخ کی بجائے کوئز بکس میں زندہ رہتے ہیں ۔آپ کی یہ مقبولیت پانی کے بلبلے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ خدا کے لیے اﷲ کے دئیے ہوئے اِس موقع سے فائدہ اٹھالیں اور تمام ہسپتالوں کو کم از کم اتنے زیادہ وینٹی لیٹر ز دے دیں کہ کوئی بھی مریض وینٹی لیٹر کے لیے سڑکوں پر ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال کے درمیاں دوڑتے ہوئے اپنی جان نہ گنوا دے جس کے ذمہ دار روزِ محشر آپ ہونگے ۔

loading...