چوالیس (44)ہزار فٹ کی بلندی پر منفی 64ڈگری درجہ حرارت پے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کی رفتار سے PIAکا دیو ہیکل جہاز سوا تین سو مسافر وں کو اپنی آغوش میں لیے منجمد فضاؤں کو چیرتا ہو برق رفتاری سے ہیتھرو ائیر پورٹ لندن کی طرف جا رہا تھا ۔میں ہمیشہ کی طرح شیشے کی کھڑکی سے لگا باہر اڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھ رہا تھا ۔ اچانک بادل پیچھے رہ گئے چاروں طرف سورج کی تیز روشنی پھیل گئی یہ دوپہر کا وقت تھا ۔ ہمارا جہاز شاید پاکستانی پہاڑوں کو چھوڑ کر اب افغانستان کے پہاڑی سلسلے کے اوپر اُڑ رہا تھا ۔ میں اپنی تجسس فطرت کے ہاتھوں مجبور نیچے دیکھ رہا تھا ۔ میری ہمیشہ سے یہ شدید ترین خواہش رہی ہے کہ میں خالق ِارض و سما کی کائنات کو ہر زاویے سے دیکھوں یہاں تک کہ میری آنکھیں اور دماغ قدرت کے دلفریب نظاروں سے روشن ہو جائیں ۔اِس وقت میرے سامنے دور نیچے ایک ایسا ہی نظارا تھا ۔ دنیامیں تقریباً دس ہزار سے زیادہ مناظر ہیں ۔ اِن میں سے تقریباً ہر منظرآپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے بلکہ آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے کہ آپ اسے دیکھ کر مبہوت ہوجاتے ہیں پوری کائنات میں ہزاروں ایسے سحر انگیز مناظر ہیں جو خالق کے ہونے کا واضح ثبوت فراہم کر تے ہیں ۔ بڑے سے بڑا ملحد بھی جب کسی خوبصورت منظر کو دیکھتا ہے تو وہ یقین کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اِس کائنات کا کوئی خالق ضرور ہے ۔ کائنات میں بکھرے ہزاروں مناظر اﷲ کا پیغام ہیں اور یہ پیغام اﷲ کے ہونے کا یقین دلاتا ہے میں جب بھی کوئی سحر انگیز منظر دیکھتا ہو ں تو ربِ ذولجلال کے عشق میں اور زیادہ گرفتار ہوجاتا ہوں ۔ اِس وقت بھی میرے آنکھوں کے سامنے ایسا ہی دل کش منظر تھا ۔ دور نیچے پہاڑوں پر سفید برف پڑی ہوئی تھی بلکہ تمام پہاڑی سلسلے نے سفید برف کی چادر اوڑھ لی تھی ۔ سورج کی تیز روشنی اور کرنوں نے پہاڑوں کو چاندی کا بنا دیا تھا نیچے دور دور تک ایک برفستان تھا ۔ پہاڑ ، درخت ، سڑکیں برف میں دفن ہو چکے تھے دور حدِ نگاہ تک برف کا سمندر تھا ایک برفستان جس کا کوئی کنارا نہ ہو ہر طرف دودھیا بر ف کا راج تھا ۔ میری نظریں اور شعور آج سے پہلے ایسے کسی بھی منظر سے آشنا نہ تھے ، خدا اور اُس کے اِس منظر نے مجھے بری طرح اپنے سحر میں جکڑ ا ہوا تھا اور میں اِس سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ میں اُن لوگوں کی عقلوں پر ماتم کر رہا تھا جو خدا کو نہیں مانتے کاش وہ یہ منظر دیکھ لیتے تو یقینا خدا کے وجود کو تسلیم کر لیتے ۔ میری محویت اُس وقت ٹوٹ گئی جب مجھے ائر ہوسٹس نے اپنی طرف متوجہ کیا ۔اُس کے متوجہ کرنے پر میں برفستان کے سحر سے واپس جہاز کے اندر آگیا ۔ جہاز اب ایک خاص بلندی پر اڑرہا تھا بچے اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے اور جہاز کے میزبان عملے نے اپنی میزبانی کی ڈیوٹی سر انجام دینا شروع کر دی تھی جہاز کا مستعد عملہ سب کی نشستوں کے سامنے ٹیبل کو ایڈجسٹ کر تا جا رہا تھا اور اُس پر کھانے کی ٹرے بھی رکھتا جا رہا تھا۔ دوسرے مسافروں کی طرح میں بھی اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہو ااور مختلف لفافوں میں موجود کھانے کی چیزوں کو نکال کر سامنے رکھنے لگا ۔ جب میں کھانا شروع کرنے لگا تو غیر ارادی طور پر اپنے ساتھی مسافر کی طرف دیکھا جو ٹانگوں سے معذور شخص تھا اور پہلی با رلندن جا رہا تھا حیرت انگیز طور پر اُس کے سامنے نہ تو کھانے کی ٹیبل تھی اور نہ ہی کھانا موجود تھا حیرت کے بعد میں پریشان بھی ہو گیا کہ وہ کھانا کیوں نہیں کھا رہا تو میں نے اُسے کھانے اور جوس کی offerکی تو اُس نے شکر یے کے ساتھ انکا ر کر دیا اُس کے انکار میں ایک عجیب سا خوف بھی تھا ۔ میں اپنے کھانے میں مصروف ہو گیا ۔ کھانا میرے مزاج کا نہیں تھا اِس لیے میں تھوڑا کھا کر بیٹھ گیا کہ کب عملہ واپس آکر میری ٹیبل کو صاف کر ے تاکہ میں آزادی سے بیٹھ سکوں اب میں فارغ تھا اِس لیے معذور مسافر کی طرف متوجہ ہو گیا اور اُس سے باتیں شروع کر دیں باتوں کے دوران پتہ چلا کہ وہ اِس لیے کچھ نہیں کھا پی رہا کہ اُسے واش روم جانا پڑے گا اپنی معذوری کہ وجہ سے وہ خوف زدہ تھا کہ پردیس میں اِس جہاز میں کون اُس کی Helpکرے گا یا شاید واش روم اُس کی سہولت کے مطابق نہیں تھا ۔اِس دوران ایک خوش شکل ائر ہوسٹس اُس کے پاس آئی اور جھک کر بولی آپ کچھ کیوں نہیں لے رہے ۔تو میں نے اُس ائر ہوسٹس کو معذور مسافر کے خوف سے آگاہ کیا کہ وہ اِس لیے کچھ کھا پی نہیں رہا ۔یہ سن کر ائر ہوسٹس کے چہرے اور ہونٹوں پر شفیق تبسم ابھرآیا اور وہ بہت محبت سے بولی یہ کون سی بات ہے آپ تھوڑا تھوڑا جوس یا پانی پیتے رہیں اور اگر آپ کو واش روم کی ضرورت ہوئی تو ہم آپ کی مدد کریں گے ۔ اُس کی آواز میں نرمی آنکھوں میں حلیمی اور بشرے پر شفقت کی سرخی تھی ۔ معذور مسافر کے چہرے پر فکر اور پریشانی بلکہ خوف کا رنگ نمایا ں تھا ۔ لیکن ائیر ہوسٹس کی شفقت اور محبت سے لبریز گفتگو سے معذور کے ہونٹوں پر گمشدہ مسکراہٹ لوٹ آئی اور چہرے پر آسودگی اطمینان اور شادابی کا رنگ جھلکنے لگا ۔ مسافر زندگی میں پہلی بار کسی جہاز پر بیٹھا تھا سفر کے خوف سے پچھلے کئی گھنٹوں سے اُس نے نہ کچھ کھایا تھا اور نہ ہی پیا تھا ۔ ائیر ہوسٹس گئی اور اُس کو زبردستی جوس دے گئی کہ اِس کو قطرہ قطرہ پیتے رہو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ۔ اب وہ آتے جاتے اُس معذور کو پیا ر سے دیکھتی اور ہر بار کہتی آپ ہمارے سپیشل مہمان ہیں۔اﷲ تعالی نے اُس کو مسکراہٹ کی کرامت دے رکھی تھی جس کے پاس مسکراہٹ کی کرامت ہو اُس سے بڑا ولی کون ہو گا ۔ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں یہاں تحمل برداشت ، بردباری ، محبت ایثار قربانی اور خدمت خلق رخصت ہو نہیں رہے بلکہ رخصت ہو چکے ہیں۔ایسے مردہ معاشرے میں جب بھی کوئی انسان خدمت خلق اور محبت کا اظہار کرتا ہے تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے ۔ ائر ہوسٹس کی شفقت سے معذور کا چہرہ خوشی اور اطمینان کے احساس سے روشن ہو گیا تھا۔ وہ آتے جاتے جب بھی گزرتی مسکراہٹ کا نذرانہ اچھالتی جاتی ۔ اُس کے چہرے پر پاکیزگی کا نور پھیلا ہو تا معذور اُس کے شاندار رویے سے خوف سے آزاد ہو کر اطمینان سے سفر کر رہا تھا۔ تقریباً سات گھنٹے کے سفر کے بعد جب ہم لندن کے قریب پہنچ رہے تھے تو مسافر ایک بار پھر پریشان اور خوف زدہ نظر آنے لگا ۔ اب اُس کو یہ خوف تھا کہ وہ کس طرح امیگریشن کاونٹر تک جائے گا ۔ ائر ہوسٹس نے پھر اُس کو حوصلہ دیا کہ آپ کی وہیل چیئر منگوا کر آپ کو سوار کر کے جاؤں گی ۔ آخر آٹھ گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد جہاز ہیتھرو ائر پورٹ کے رن وے پر لینڈ کر رہا تھا ۔جہاز رکا تو ہر مسافر پہلے نکلنے کے چکر میں تھا میں دل میں ٹھان چکا تھا کہ معذور مسافر کو میں امیگریشن کاونٹر اور پھر باہر لے کر جاؤں گا جہاں اُس کے رشتے دار اُس کو لینے آئے تھے ۔ میری اِس آفر کو خوشی سے قبول کیا گیا جب تما م مسافر چلے گئے تو معذور کی وہیل چیئر لائی گئی اُس کو اُس پر بٹھا کر میں آخری مسافر تھا کو جہاز سے نکلا ائر ہوسٹس الوداعی سلام کرتی ہوئی چلی گئی میں اُس کی وہیل چیئر کو چلاتا ہوا ہیتھرو ائر پورٹ کی برقی قمقموں سے سجی روشن رہداریوں سے امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ خدمت خلق اور انسانوں سے پیار کرنے والے ہر جگہ پر خوشبو کی طرح ہوتے ہیں اور خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جولوگوں کے لیے آسانیاں اور خوشیاں فراہم کرتے ہیں یہ ائر ہوسٹس بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھی۔
جمعہ، 16 مارچ، 2018
چارلی ہیبڈو کا شیطانی کھیل
چند دن سے پہلے جب سے فرانسیسی ہفت روزہ چارلی ہیبڈو نے ایک بار پھر سے میرے حضور ﷺ (میری زندگی کا ہر لمحہ آپ پر قربان )کی شان میں گستاخی کی ہے اِس ہفت روزہ نامراد جریدے نے توہین آمیز خاکے شائع کئے ہیں۔ظالموں نے اپنی قبروں کو دوزخ کی آگ سے بھر لیا ہے‘ آج کائنات کے ایک سرے سے لے کر آخری سرے تک فخرِ دو عالم کے عاشقان شدید ذہنی اذیت اور کرب کا شکار ہیں ۔دکھ اور شدید اضطراب ایسا کرب جو روح اور باطن کی عمیق ترین گہراہیوں تک پہنچ چکا ہے ۔ امت مسلمہ شدید ذہنی اذیت اور کرب سے گزر رہی ہے ‘اہل مغرب ماضی کی طرح ایک بار پھر مسلمانوں کا ساتھ دینے کی بجائے چارلی ہیبڈو کی انتظامیہ کا ساتھ دے رہے ہیں ۔اہل مغرب نے گزشتہ عشرے سے جس طرح مسلمانوں کے قابلِ احترام پیغمبر کی شان میں گستاخیاں کی ہیں اِس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ‘اِس نامراد جریدے کی ہٹ دھرمی دیکھیں کہ وہ معذرت یا شرمندگی کا اظہار کرے بلکہ وہ اور بھی بدمعاشی پر اتر آیا ہے پہلے میگزین کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ساٹھ ہزار ہوتی تھی اِس بار مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے گستاخانہ خاکوں کو 30 لاکھ کی تعداد میں شائع کئے ہیں اور اب مزید پچاس لاکھ مزید کاپیاں شائع کر رہا ہے جو پوری دنیا میں دستیاب ہونگیں ۔ یہ میگزین انگریزی عربی سمیت چھ زبانوں میں شائع کیا گیا ہے 7 جنوری سے پہلے یہ بہت چھوٹا اور غیر معروف میگزین تھا لیکن مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروع کرنے کے بعد اب یہ بین الاقوامی اخبار بن چکا ہے ۔ اہل مغرب کی پرانی روش اِس پر تنقید کرنے کی بجائے اِس کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت عظیم کام کر رہا ہے ۔ دنیا بھی کے اخبارات ، میگزین ، ٹیلی ویژن چینلز اور ویب سائیٹس چارلی ہیبڈو کی حمایت میں روزانہ خاکے شائع کر رہی ہے ۔ امریکہ ، یورپ میں عام مسلمانوں کی آزادانہ نقل و حرکت مشکل ہو گئی ہے ۔ عام مسلمان شدید خوف کا شکار ہیں‘ فرانس میں مسلمانوں پر 70سے زائد حملے ہو چکے ہیں لوگ اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت نبی کریم ﷺ کی ذات ِ اقدس کو چھیڑ کر مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جاسکے کہ مسلمان امن پسند نہیں بلکہ انتہا پسند ہیں اوراِن میں برداشت اور رواداری نہیں ہے ۔ اِس منصوبہ بندی کا ہدف مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا ہے اِ س سے یہ واضح ہو جا تا ہے کہ امریکہ اور یورپ دنیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کوششیں نہیں کر رہے بلکہ ایسی مذموم حرکتوں سے وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جب سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ چھیڑ رکھی ہے اُس دن سے دہشت گردی اور انتہا پسندی میں ماضی کی نسبت اضافہ ہوا ہے‘ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے اسلام اور شانِ رسالت ؐ میں گستاخیوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے یہ سب کچھ امریکہ اور یورپ کی سر پرستی میں کیا جا رہا ہے کبھی توامریکی ملعون پادری ٹیری جونز سر عام قرآن پاک کے مقدس اوراق کو آگ لگاتا ہے اور بار بار یہ حرکت کرنے کا اعلان کرتا ہے کسی امریکی نے اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اُس کی سیکورٹی اور تحفظ کا پورا خیال رکھا گیا ۔ کبھی گوانتاموبے میں مسلم قیدیوں کے سامنے قرآن پاک کے مقدس اوراق پھاڑے گئے اور قرآن پاک کے مقدس اوراق سے (نعوذباﷲ ) گندگی اور غلاظت کو صاف کیا گیا ۔
اِسی طرح ڈنمارک اور ناروے نے توہین آمیز خاکوں کی سر عام اشاعت کی اور جب پوری دنیا کے مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو الزام لگا دیا جاتا ہے کہ مسلمان دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی الزام کہ اسلام طاقت یعنی تلوار کے زور پر پھیلا ۔رحمتِ دو عالم محسن ِ انسانیت ، رحمتہ للعالمین ؐ کو انتہا پسندی کے تصور سے ملانے کی ملعون جسارت کرتے ہیں ۔ظلم و تشدد اور سفاکی کے بانیوں کو شاید معلوم نہیں کہ رحمت ِ مجسم کی زندگی مبارک میں لڑی جانے والی تمام جنگوں میں صرف 1014افراد کی جانیں گئیں ۔ مسلمان شہدا کی تعداد 225جبکہ کافروں کے ہلاک ہونے والی تعداد 759تھی اِن تمام جنگوں میں گرفتار قیدیوں کی کل تعداد 6564تھی جو مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوئے 6347اِ ن میں سے رہا کر دئیے گئے صرف اور صرف دو ایسے قیدی تھے کہ اُن کے جرائم اِس نوعیت کے تھے کہ اُن کو موت کی سزا ہوئی تقریباً 215کے بارے میں گمان ہے کہ وہ مسلمان ہو کر مسلم معاشرے کا حصہ بن گئے ۔ آج کی واحد سپر پاور امریکہ جو صرف عراق میں دو لاکھ سے زیادہ انسانوں کا خون پی چکی ہے افغانستان اور وزیرستان میں کتنے معصوم بچوں اور عورتوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ چکی ہے جنگی قیدیوں کے ساتھ امریکی اور اتحادی فو جی جو سلوک کر رہے ہیں اِ ن کو دیکھ کر ظلم کے بانی بھی شرمسار ہیں ‘اہلِ یورپ اور امریکہ جس کے ہاتھ لاکھوں کروڑوں معصوم انسانوں کے لہو سے رنگین ہیں جو انسانوں کو بلی کُتے سے بھی حقیر جانتے ہیں ۔ یہ نامراد اور نابکار لوگ جب نورِ مجسم ، مخزن شفقت کی شان میں اپنے نا پاک لبوں کی حرکت دیتے ہیں تو شدید حیرت ہوتی ہے ۔اِ ن نامرادوں کی ہر زہ سرائی سے محسن ِ عالم کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آسکتی اِنہیں احساس نہیں کہ وہ کس عظیم ہستی کے بارے میں کیا کہتے ہیں وہ محسن ِ انسانیت جن کا فرمان ہے کہ بچوں کو تعلیم دلانا صدقے سے بہتر ہے ۔ اپنے خاندان سے بھلائی کرنے والا ہی بہترین انسان ہے ۔ جس نے اپنی بیٹیوں کو اچھی طرح پالا تعلیم دلائی وہ جنت جائے گا‘جن کی تعلیم ہے کہ ایک کُتے کو پانی پلانے والا جنتی ہے ایک پرندے یا بلی کو تکلیف پہنچانے والا جہنم جائے گا ۔یہی وہ محسنِ اعظم ہیں جنہوں نے فرمایا جس نے ایک انسان کو قتل کیا وہ پوری انسانیت کا قاتل ہے آ ج نابکار نا مراد چارلی ہیبڈو کے لیے چالیس ممالک کے سر براہان اور چالیس لاکھ انسان اکٹھے ہو سکتے ہیں تو کل محسن ِ انسانیت کی محبت کے لیے ایک ارب 70کروڑ مسلمان بھی نکل سکتے ہیں ۔نبی کریم ﷺ پر قربان ہونے کی آرزو ہر مسلمان کے دل میں روشن چراغ کی طرح ٹمٹماتی ہے ۔مسلمان جو مدینہ کی مٹی کو آسمان کی رفعتوں سے بھی ارفع سمجھتے ہیں وہ سرورِ کونین ﷺ کے لیے کیا نہیں کر سکتے ۔ چارلی ہیبڈو یورپ اور امریکہ آج جو شیطانی کھیل کھیل رہے ہیں اِ س سے باز آجائیں ورنہ نفرت ، تشدد ظلم و بربریت کی جو فصل یہ آج بو رہے ہیں کل اِن سے کاٹی نہیں جائے گی ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
loading...